آج سے تقریبا دو سو سال پہلے سندھ کے اس ویران علاقے میں ایک جونارنگ نامی آدمی آ کر بسا اس سے پہلے وہاں کوئی آباد نہ تھا۔۔۔
جونارنگ نے وہاں ایک جھونپڑا بنایا اور وہاں رہنے لگا پھر آہستہ آہستہ وہاں لوگ آ کر رہنے لگے اس طرح وہ ویران اور سنسان علاقہ ایک چھوٹی سی بستی کی شکل اختيار کر گیا۔۔
پھر ایک دن بستی میں ایک بوڑھا اور اس کی جوان بیٹی آٸے جس کی بیٹی بہت خوبصورت تھی جونارنگ اسے دیکھتے ہی اس پہ فدا ہوگیا کافی وقت ان کی پریم کہانی چلتی رہی لیکن ایک رات اچانک اس لڑکی کو کسی نے قتل کردیا جونارنگ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور اس کے پیار میں جوگ لے بیٹھا اسی طرح جونارنگ جب مرا تو اسی لڑکی کی قبر کے پاس مرا جس وجہ سے لوگوں نے اس کے مرنے کے بعد لوگ اس بستی کو جوگ نگر کہہ کر پکارنے لگے۔۔
وقت گزرتا گیا اسی طرح ایک دن جوگ نگر سے جوگیوں کی ایک بڑی تعداد کا گزر ہوا ان جوگیوں کو وہ جگہ بہت پسند آٸی اور وہ وہاں رہنے لگے آہستہ آہستہ وہاں ہر طرف جوگی ہی جوگی پھیل چکے تھے۔۔
جوگی وہاں ہر نسل کے ناگ ناگن لاتے اور انہیں وہاں چھوڑ دیتے اب ہر طرف جوگیوں کے ساتھ ناگ ناگینیں بھی دیکھے جانے لگے۔۔
سننے میں آیا ہے ناگ ناگن جنات کی ایک نسل میں سے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے سو سال پورے ہونے کے بعد اپنی تمام طاقتوں کو استعمال کرنے کی اجازت رکھتے ہیں اس کے بعد وہ جو چاہیں روپ بدل سکتے ہیں چاٸے انسان کا تو چاٸے کسی جانور کا ساٸنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کے اچھہ داری ناگ ناگن ہوتے ہیں اب آگۓ خدا ہی بہتر جانتا ہے خیر میں چلتی ہوں کہانی کی طرف۔۔
جوگ نگر بہت ہی خوبصورت تھا۔
چاروں جانب درختوں کے جھنڈ درمیان سے گزرتی سفید ندی اور اس کے ادرگرد پیارے پیارے پھول لگے تھے نگر سے گزرنے والے مسافر نگر ہی کے ہو کر رہ جاتے جو مسافر وہاں سے گزرتا نگر اسے رکنے پہ مجبور کردیتا تھا۔۔
اب جب کے یہاں ناگوں کی تعداد زیادہ ہوگٸ تھی ہر درخت پر ناگ ناگن کا جوڑا بیٹھا نظر آتا۔۔۔
دور دور سے لوگ یہاں کی سیر کرنے آتے تھے ایسے میں یہاں آٸے کچھ سیاہوں نے ناگوں کو دیکھتے ہوٸے یہاں ناگ نگر کا بوڈ لگا دیا جس سے جوگ نگر ناگ نگر میں تبدیل ہوگیا اب اسے لوگ ناگ نگر سے ہی جانتے تھے۔۔
ناگوں کے ان خاندانوں میں دو خاندان بہت مشہور تھے شیشناگ اور تکشق ونچ ناگ نگر میں جتنے بھی ناگ ناگنیں رہتے تھے سب کے سب ہی اچھہ داری ناگ ناگن تھے۔۔
تکشق ونچ اس وقت ناگوں کا سردار تھا وہ دو ہی بھاٸی تھے بڑا بھاٸی سردار تھا جس کی ایک ہی بیٹی تھی راجکماری صنم سردار کے چھوٹے بھاٸی کا بھی ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام راجکمار یوراج عرف یوی تھا
صنم اور یوی پچپن سے ہی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔۔
یوی اور صنم کے دو دوست بھی تھے دیوراج اور مایا جو کے شیشناگ ونچ سے تھے برسوں سے چلی آرہی دشمنی کو نظرانداز کرتے ہوٸے صنم اور یوی نے اپنی دوستی قاٸم رکھی۔۔
ایک دن موسم بہت ہی اچھا تھا تو ان چاروں نے کہیں گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا۔۔
چاروں نگر میں سب جگہ گھومنے کا پروگرام سیٹ اور شام میں آنے کا کہہ کر چلے گۓ۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
تیز تیز ہاتھ چلتی وہ آملیٹ تیار کر رہی تھی آملیٹ ریڈی ہونے پہ وہ اسے پلیٹ میں رکھتی ناشتہ کے دوسرے لازمات بھی ٹرے میں رکھتی ڈاٸنگ حال میں پہنچی۔۔
وہ ناشتہ ٹیبل پہ لگاٸے اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی جو اپنے کمرے سے موبائل یوز کرتے نکلا تھا وہ اپنے دھیان میں موبائل یوز کرتا ہوا بولا مومنہ یار جلدی سے ناشتہ لگا دو بہت لیٹ ہوگیا ہے۔۔
ارے جناب آپ اسے موبائل سے نکل کر دیکھۓ تو ناشتہ ریڈی ہے مومنہ کے کہنے پہ علی مسکراتا ہوا موبائل پاکٹ میں رکھتا کرسی کھنچ کر بیٹھ گیا۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد علی مومنہ کی پیشانی پہ محبت بھرا لمس چھوڑتا آفس کے لیے نکل گیا کیوں کے آج اس کی ضروری میٹنگ تھی اس لیے اسے آفس جانے کی جلدی تھی۔۔
علی ایک بزنس مین کا بیٹا ہے جس کے باپ کا بزنس مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔۔
علی اپنے ماں باپ کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ساری جاٸیداد کا اکیلا مالک ہے اور خوبصورتی میں بھی کمال گندمی رنگت پہ کالی آنکھیں بھورے بال دراز قد چوڑی باڈی وہ بلاشبہ بہت ڈیشنگ لڑکا تھا
علی کو جب باپ نے شادی کا کہا تب علی نے اپنے ساتھ کالج میں پڑھتی مومنہ کا نام لیا جسے اس کے باپ نے خوشی خوشی مان لیا کیوں کے مومنہ بھی ایک امیر باپ کی اکلوتی بیٹی تھی
شکل و صورت میں بھی کمال کی تھی جو ایک بار دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔۔
سرخ سفید رنگت برٶن آنکھیں کالے لمبے بال گلاب کی کلیوں جیسے لب دراز قد وہ بہت خوبصورت لڑکی تھی۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شام ہوتے ہی وہ چاروں ندی کے قریب جا پہنچے۔۔
صنم بہت خوبصورت ناگن تھی آج اس نے گہرے نیلے رنگ کی بلوٸز کے ساتھ گلابی رنگ کا لہنگا پہنا تھا اس پہ کالے لمبے بال جو اس نے کھلے چھوڑے تھے پتلی لمبی نازک سے جسم کی مالک صنم سبز آنکھیں جو بار بار یوی کو تلاش رہی تھی جو ابھی تک نہیں آیا تھا ابھی وہ یہ ہی سوچ رہی تھی کے یوی سامنے سے آتا ہوا دیکھاٸی دیا کالے رنگ کے اپنے روایتی لباس پہنے وہ صنم کی طرف ہی آرہا تھا نیلی آنکھوں میں صنم کے لیے پیار ہی پیار تھا جس سے صنم باخوبی واقف تھی یوی اپنے نگر میں سب سے زیادہ خوبصورت اور طاقتور اچھہ داری ناگ تھا۔۔ یوی صنم کے قریب پہنچٕ پہ اسے ہگ کرتا ہوا ملا وہ سبز آنکھوں سے یوی کو ہی دیکھ رہی تھی ارے آج جان لینی ہے کیا میری ظالم ناگن یوی صنم کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوٸے بولا۔۔
ظالم خسینہ ہوتا ہے راجکمار صنم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوٸے کہا اب تم خسینہ تو ہو نہیں ناگن ہو تو ناگن ہی بولو گا نا یوی نے کندھا اچکا کر کہا جس پہ صنم مسکرانے لگی۔۔
وہ دونوں نہیں پہنچے صنم نے مایا اور دیو کا پوچھا ؟
ابھی پہنچتے ہی ہوگۓ یوی نے کہا اور دونوں بیٹھ کر باتوں میں مصروف ہوگۓ۔۔
۔تھوڑی دیر بعد مایا اور دیوراج آتے دیکھاٸی دیۓ دیوراج اپنے روایتی لباس میں ملبوس مایا کے ساتھ آ رہا تھا مایا آج بہت پیاری لگ رہی تھی بلیک بلوٸز کے ساتھ سرخ لہنگے میں وہ دیوراج پہ غضب ڈھا رہی تھی۔۔
دیوراج کا خود کا ارادہ بھی کچھ ٹھیک نہیں تھا لیکن مایا اس کے ارادہ سے انجان تھی۔۔۔
وہ چاروں کافی جگہ گھوم چکے تھے تب ہی دیوراج نے موقع دیکھ کر یوی سے کہا یار مجھے مایا سے کچھ بات کرنی ہے ہم تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔۔
دیو مایا کو لے کر ایک طرف بڑھ گیا یوی اور صنم پھر سے ایک دوسرے میں کھو گۓ محبت پیار کی باتیں کرنے لگے۔۔
دیو مایا کو ایک اندھیرے گوشے میں لے گیا اور اسے باہوں میں بھر لیا میری رانی آج تو دل آگیا تم پہ دیو اسے کہتا ہوا اسے خود سے قریب کرنے لگا شروع شروع میں تو مایا خاموشی سے دیو کی حرکتیں برداشت کرتی رہی لیکن دیو کی بڑھتی ہوٸی نزدیکیوں نے اسے بولنے پہ مجبور کر دیا۔۔
دیو یہ سب شادی سے پہلے ٹھیک نہیں مایا نے اسے پیچھے ہٹاتے ہوٸے کہا تو دیو بولا کچھ نہیں ہوتا یار مجھے پیار کرلینے دو۔
پر دیو اگر سردار کو پتہ چل گیا تو پتہ ہے نا ہمارا کیا حال ہوگا مایا نے ڈرتے ہوٸے کہا۔۔
ارے یار کچھ نہیں ہوگا اور سردار کو پتہ چلے گا تب ہی وہ ہمیں دنڈ دیں گۓ نا اس لیے تم خاموش رہو مایا دیو کے کہنے پہ خاموش ہوگٸ۔۔
وہ دونوں اپنی حوس پوری کر کے ایک طرف لیٹ گۓ وہ حوس کے نشے میں اس قدر گم تھے کہ وہ یہ اندازہ بھی نہیں کرسکے کے وہ اپنے گھر کے کمرے میں نہیں بلکے جنگل کے ایک گوشہ میں اس حالت میں پڑے ہیں۔۔
اس پہر سردار اپنے محافظوں کے ہمراہ جنگل کی سیر کے لیے نکلا وہ بڑی شان کے ساتھ ادھر ہی جارہا تھا جہاں مایا اور دیو تھے۔۔
ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کے ان کے قبیلے کی عزت کا پتا کٹ چکا ہے وہ بھی ایک بڑے اور اونچے ونچ کی ناگن کا شیش ناگ ونچ کی عزت کا چراغ بوجھ چکا ہے۔۔۔
اس میں پورے ناگ نگر کی بدنامی تھی اور زمہ دار صرف سردار کو پہنچایا جاتا کے سردار کی حکومت میں ایک ناگ نے ایسا پاپ کیا یہ ناگ نگر کی ریت تھی کے سردار کی حکومت میں کوٸی بھی ناگ ناگن اگر کوٸی پاپ کرتے تو اس کا زمہ دار سردار کو ٹہرایا جاتا۔۔
سردار نے جب مایا اور دیو کو اس حالت میں دیکھا تو دنگ رہ گۓ۔ لیکن وہ دونوں سردار اور دوسرے ناگوں سے بےخبر آنکھیں بند کیے لیٹے ہوٸے تھے۔۔
سردار نے غصے سے کہا دیوراج دیوراج ۔۔۔۔ سردار کی بھاری آواز پہ دیوراج ہڑبھڑا کر اٹھا اور مایا کے اوپر اس کا دوپٹا ایسے ڈال دیا کے اس کا سارا جسم ڈھک گیا۔۔۔
اب کیوں اسے ڈھک رہا ہے بد ذات اس کی عزت سے کھلواڑ کرتے تجھے شرم نہیں آئی سردار نے اسے گلے سے پکڑ کر ہوا میں چھال دیا تو دیوراج زخمی حالت میں سردار کے پاٶں میں گرگیا سردار مجھے شما کر دیں
سردار نے غصے سے دیوراج کو ایک اور لات ماری جس سے وہ دور جا گرا بدذات تجھے شما کسی صورت نہیں ملے گٸ۔۔
سردار م۔م۔م۔۔م۔می۔میں مایا سے شادی کرنے کو تیار ہوں دیوراج نے مشکل سے کہا کیوں کے اس سے بولا مشکل سے جارہا تھا سردار کا ایک ایک وار دیوراج پہ قاری ضرب لگا چکا تھا۔۔
نہیں کسی صورت ایسا ممکن نہیں ہے یہ سنتے ہی مایا کے پاٶں تلے سے زمین نکل گٸ۔۔
مایا اپنا دوپٹہ جسم سے لپیٹتے ہوٸے سردار سے بولی بگوان کے لیے ہمیں شما کر دیں سردار۔۔
جس پہ سردار نے ایک زبردست قسم کا تھپڑ مایا کو مارا جس سے مایا سامنے جھاڑیوں میں جا گری اور زخمی ہوگٸ۔۔
سردار نے ضبط کرتے ہوٸے کہا چپ کر بےشرم ناگن تُو نے ناگ ونچ کی عزت کو داغ دار کر دیا ہے اس کی دنڈ تم دونوں کو آوشے ملے گا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مسٹر علی فاٸنلی یہ کنٹریکٹ بھی آپ کو مل گیا صدیقی صاحب نے علی سے ہاتھ ملاتے ہوٸے کہا بس صدیقی صاحب یہ سب اللہ پاک کی مہربانی ہے علی نے مسکرا کر کہا
ارے سر آپ اتنی محنت کرتے ہیں اللہ پاک نے پھر محنت کا صلہ تو دینا ہی ہوتا ہے نا۔۔
ہمم بالکل صدیقی صاحب۔۔
اچھا اب مجھے اجازت دیجٸے سر اس نے کرسی سے اٹھتے ہوٸے کہا۔۔
ارے جناب لنچ کر کے جاٸے گا آپ علی نے خلوص سےکہا۔
ارے نہیں سر مجھے ایک اور میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے مجھے اجازت دیں۔۔
ہمم چلیں پھر اللہ حافظ۔۔
وہ جب آفس سے باہر نکل گیا تو علی کی آنکھوں کے سامنے ایک پیارا چہرا گھوم گیا تو علی نے ٹیبل سے اپنا ٹچ سکرین موبائل اٹھا کر اپنی بیوی کو کال لگائی۔۔
تھوڑی دیر تک بیل جاتی رہی اس کے بعد کال رسیو کرلی گٸ۔۔
مومنہ نے جیسے ہی کال پک کی تو علی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑاٸی۔۔
یار کدھر تھی مومنہ؟
میں کچن میں کام کررہی تھی علی آپ نے کیوں کال کی مومنہ نے مصروف سے انداز میں پوچھا؟
جان تمہاری یاد آرہی ہے اسی لیے کال کر لی کے اپنی جان سے بات کرلو علی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا
اففف توبہ ہے علی آپ سے بھی ابھی تو آپ گھر سے آفس پہنچے ہیں ابھی پھر سے یاد آنے لگی میری جلدی سے وہ بات بتائيں جس کے لیے کال کی ورنہ میرا سالن جل جاٸے گا جو میں کچن میں چولہے پہ چڑھا کر آٸی ہوں۔۔۔
اچھا اچھا جناب عالیہ تو بات یہ ہے کہ آج آپ اپنے پیارے پیارے ہاتھوں کو لنچ کے لیے زحمت مت دیں کیوں کے میں پندرہ منٹ میں گھر پہنچ رہا ہوں آپ بھی جلدی سے تیار ہو جاٸیں ہم باہر لنج کرٸے گۓ۔۔
اوکے جناب آپ گھر پہنچیں میں آپ کو تیار ملوگٸ مومنہ نے پیار سے کہا تو علی نے کال رکھ دی۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کچھ دن پہلے کی بات ہے ناگ نگر میں سردار کی طرف سے بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا گیا جس میں سردار نے اپنے تمام ناگوں کو دعوت دی تھی۔۔۔
یہ جشن سردار کی اکلوتی بیٹی کی سگاٸی کا جشن تھا سردار کی بیٹی راجکماری صنم کی سگاٸی راجکمار یوراج کے ساتھ ہونے جا رہی تھی ۔۔۔
صنم نے آج سرخ رنگ کا اپنا روایتی لباس پہن رکھا تھا جو خاص کر ناگنیں پہنتی تھیں یوراج نے بھی اپنا روایتی لباس پہن رکھا تھا دونوں بہت پیارے لگ رہے تھے۔۔
یوی اور صنم نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی تو دونوں کی سگاٸی کی رسم ادا ہوٸی اس کے بعد ایک اور رسم ہونا باقی تھی جو ناگ نگر میں ہونا ضروری تھی۔۔
اب صنم اور یوی کی دونوں ناگ موتیوں کو اگھٹا کیا گیا اور سردار کی شکتیوں سے ان دو ناگ موتیوں کو ایک ناگ منی میں تبدیل کیا گیا اس ایک ناگ منی میں دونوں کی شکتیاں تھی اور ان دونوں کی سگاٸی کی خوشی میں سردار نے انہیں انعام کے طور پہ مزید کچھ شکتیاں بھی دی تھیں۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
تم دونوں کو اس کا دنڈ اوشے ملے گا لیکن تم دونوں راجکماری اور راجکمار کے ساتھ آئے تھے نا تو وہ دونوں کدھر ہیں بلاٶ انہیں بھی سردار نے روب دار لہجے میں دیوراج سے کہا تو وہ بھاگتا ہوا صنم اور یوی کو بلانے چلا گیا۔۔
صنم یوی نے جب دیوراج کو اس حالت میں دیکھا تو ان دونوں کو معاملے کو سمجھنے میں دیر نہ لگی۔۔
و۔۔وہ۔۔ وہ تم دونوں کو سردار بلا رہے ہیں دیوراج نے کہا تو یوی نے کہا کون سا کانڈ کیا ہے تُو نے دیو لیکن وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔
جب یوی اور صنم سردار کے پاس پہنچے تو سردار نے یویراج کو گربان سے پکڑتے ہوٸے چٹح زور دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا اور کہا راجکمار اپنے نگر کی ناگنوں کی عزتوں اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔۔ لیکن تم یہ زمہ داری نہیں نبا سکے اس لیے تم دونوں راجکماری اور راجکمار کو بھی اس کا دنڈ اوشے ملے گا۔۔
راجکمار تمہیں میں نے کتنا روکا تھا کے شیش ناگ ونچیوں سے ہماری ورشوں سے نہیں بنی ان سے دوستی مت پالو پر تم پر تو دوستی کا بھوت سوار تھا اب اس دوستی کے کارن تم دونوں بھی دنڈ پاٶ گے سردار نے قہر سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔۔
یوی نے سردار سے کہا پتا جی ہوا کیا یے سردار نے یوی کو غصے سے دیکھا اور بغیر کچھ کہے وہاں سے چلے گے۔۔۔
سردار کے جانے کے بعد ایک محافظ نے یوی کو ساری بات بتاٸی جسے سن کر صنم بھی دنگ رہ گئی اور یوراج کو دیوراج پہ بہت غصہ آیا۔۔
سردار نے ان دونوں کے ساتھ اپنے بیٹے اور بھاتجھی کو بھی دنڈ دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔
سردار نے سب کے سامنے پہلے یوی اور صنم کا اکلوتا ناگ منی چھن لیا اور پھر باری باری ان سے دوسری شکتیاں بھی چھن لی جس سے صنم اور یوراج کو بہت تکليف ہوٸی وہ زخموں زخمی ہوچکے تھے ان کو دیکھ کر نگر کا ہر ناگ ناگن اشک بہا رہا تھا۔۔
اس کے بعد سردار نے ان دونوں کو اپنی شکتی سے زمین کی تہ میں ناگ ناگن کے روپ میں قید کر دیا پھر صنم اور یوی کی دوسری شکتیاں بھی چھن لی گٸ جو ان کو ان کی سگاٸی پر انمام کے طور پر ملی تھیں اس کے بعد مایا اور دیوراج کو ایسی سزا دی کے وہ ایک دوسرے کو کبھی چھو بھی نہ سکیں اور ان کو بھی اسی طرف قید کر دیا گیا زمین کے نیچھے کبھی نہ آزاد ہونے کے لیے ان دونوں قصورواروں کے ساتھ دو بے قصوروں کو بھی قید ہونا پڑا لیکن کس کو پتہ تھا کے ان کو ایک نہ ایک دن آزادی مل جاٸے گی پر کب۔۔۔۔۔۔ صدیوں بعد؟؟؟
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گھر کے باہر ہاران کی آواز نے مومنہ کو جلدی جلدی ہاتھ چلانے پر مجبور کردیا تھا۔۔
علی جب گاڑی کو پارک کر کہ گھر کے اندرونی حصہ میں آیا تو سامنے ہی مومنہ کو سیڑیوں سے نیچھے اترتا پایا۔۔
جسے دیکھ علی نے کہا ارے واہ ڈارلنگ بڑی جلدی تیار ہوگٸ۔۔ اور اور آج کیا مجھ غریب پر بجلی گرانے کا ارادہ ہے یہ مہرون ساڑی آج تو قسم س۔۔۔۔ بس بس علی رات کو آپ نے ہی تو کہا تھا کے یہ ڈریس پہنا اور اب آپ۔۔۔۔
میں ابھی جا رہی ہوں چینج کرنے مومنہ جانے کو مڑی تو علی نے فورا اس کی کلاٸی پکڑ لی اوہ سوری جانی مجھے یاد نہیں رہا تھا علی نے اس کی شرارتی لیٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوٸے بولا لیکن مومنہ نے ابھی بھی منہ بناتے ہوٸے کہا نہیں نہیں ابھی یہ چینج کر کے آتی ہوں سوری نا جان اب چلو بھی دیر ہو رہی ہے علی مومنہ کو لیے نیچھے چلا گیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
یوی صنم کے قید ہونے پہ پورا نگر ہی دکھی تھا کیوں کے وہ دونوں بےگناہ تھے۔۔۔
ان کی قید کے کچھ عرصے بعد ناگ نگر میں ایسا زلزلا آیا کے نگر میں کچھ بھی باقی نہ رہا پورا کا پورا نگر ہی غرکار ہو گیا۔۔
جس جگہ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اب وہاں مکانات ٹوٹے ہوٸے پڑے تھے اور جگہ جگہ ناگوں کی لاشیں پڑ رہی تھیں مٹی اور ریت ہر جگہ نظر آتی یا بڑے بڑے پتھر جو گھر بنانے کے کام آتے تھے یہ سب اب ایک میدان میں پڑا نظر آتا تھا نگر دنیا سے مٹ چکا تھا۔۔
کوئی بھی اس جگہ کو دیکھا کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کے اس جگہ ناگوں کی بہت بڑی بستی بسا کرتی تھی نگر تو فنا ہو چکا تھا پر کون جانے کے اس کے نیچھے قید میں پڑے چار ناگ ناگن آج بھی زندہ تھے۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی گاڑی کو مزے سے چلا رہا تھا ساتھ میں بار بار مومنہ کو بھی دیکھے جارہا تھا اور دیکھتا بھی کیوں نے ساتھ بیٹھی کوئی اور نہیں اس کی شریکہ حیات تھی اتنے میں فائو سٹار ہوٹل آگیا علی گاڑی پارک کر کے آیا اور دونوں اندر چل گۓ لنچ کے بعد وہ دونوں گھومنے پھرنے چلے گۓ اور شام کو مومنہ کی برتھ ڈے پارٹی تھی اس لیے وہ رات کے لیے مومنہ کو ڈریس لے کر دینے لگا۔۔۔
جب وہ رات کو دونوں ہوٹل پہنچے تو وہاں تمام تر گیسٹ پارٹی میں پہنچ چکے تھے۔۔۔
مومنہ نے سب کی بھرپور تالیوں میں کیک کاٹا جس پر ہیپی برتھ ڈے مومنہ لکھا ہوا تھا کیک کاٹنے اور کھانے کے بعد سب نے ڈنر کیا اور اپنے اپنے گھر کو چلے گۓ ۔۔
علی نے ہمیشہ کی طرح آج بھی ہوٹل میں روم بک کروایا تھا۔۔
علی ہر سال جب بھی اس کی یا مومنہ کی برتھ ڈے ہوتی تب وہ اور مومنہ گھر کی مصروف روٹین سے ہٹ کر دو تین دن تک باہر گزارتے تھے۔۔
آج بھی علی اور مومنہ ہوٹل میں رکے تھے۔۔
مومنہ جب روم میں پہنچی تو علی چینج کر نے چلا گیا جب کے مومنہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔
علی جب چینج کر کے آیا تو مومنہ کو اسی طرح سجا سنوار دیکھا کر اس کا من تو کچھ اور ہی کہنے لگا۔۔۔
کیا بات ہے میری جان ایسے کیوں بیٹھی ہوٸی ہو علی نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوٸے اس سے پوچھا؟؟
علی آپ کو نہیں لگتا اب ہمیں بےبی کے بارے میں سوچنا چاٸے۔۔
آج دیکھا تھا ارم کے دو بچوں ہیں اس کے ہماری شادی بھی اس کے ساتھ ہی ہوئی تھی اس کے دو بچے ہیں اور ہمارا ایک بھی نہیں مانا کے آپ کو ابھی بچا نہیں چاٸے پر مجھ تو ضرورت ہے آپ آفس چلے جاتے ہیں اور میں پیچھے سارہ دن اکیلی پانچ سال ہوگۓ ہیں شادی کو مومنہ نے دبے دبے غصے میں کہا۔۔
مومنہ میں تمہیں کتنی بار سمجھا چکا ہوں میری جان جب مجھے ابھی بچا نہیں چاٸے تو کیوں روز بحث کرتی ہوں علی تنگ ہوتا تھا اس ٹاپک سے اور مومنہ یہ ہی چھڑ دیتی تھی۔۔۔
علی کا کہنا تھا ابھی کم از کم مزید پانچ سال تک بچا پیدا نہیں کرنا لیکن مومنہ کو بچوں کا بہت شوق تھا اسی لیے آج وہ علی کی بات سے بہت ہرٹ ہوٸی تھی جب ہی بات علی کے منہ میں ہی تھی کے مومنہ بول پڑی اچھا میں چینج کرلو نیند آئی ہے۔۔
علی نے کہا نہیں مومنہ تم صرف فیس واش کر کے جلدی باہر آٶ ڈریس نہیں چینج کرنا علی اپنی بیوی کا غصے والا چہرا دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کے اس کی بات مان لینی چاٸے اب۔۔
مومنہ جب واپس کمرے میں آئی تو علی پورے کمرے میں پرفیوم چھڑک رہا تھا جب بوتل خالی ہوئی تو علی بوتل کو پھینکتا ہوا سونگ گنگنتا ہوا مومنہ کی طرف آیا
آج پھر تم پر پیار آیا یے۔۔
بے حد اور بےشمار آیا ہے۔۔
مومنہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھی لیکن علی مومنہ کو اپنی مظبوظ باہوں میں پھر چکا تھا۔۔
مومنہ آج میں تمہارے بےبی کی خواہش پوری کر دو گا علی مومنہ کے ڈریس کی زیپ کھولتا ہوا بولا جس پہ مومنہ نے آنکھیں کھول کر اپنے شوہر کو دیکھا اور پھر دوبارہ آنکھیں بند کر لی۔۔
علی آج نہیں میں بہت تھک چکی ہوں مومنہ نے تھکن سے کہا تو علی اسے مزید خود میں چھپاتا ہوا بولا آج ہی مومنہ اب تو خوش ہوجاٶ یار اور وہ اسے اٹھاتے ہوٸے بیڈ کی طرف بڑھ گیا علی مومنہ پر مکمل جھکتا ہوا اس کے ہونٹ بند کرچکا تھا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...