اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر کھڑی صنوبر کے درخت سے ٹیک لگائے وہ بڑی تمکنت اور شان سے ایستادہ حویلی کو دیکھ رہی تھی۔
’’کہاں وہ محلوں میں رہنے ولا شہزادہ اور وہ خود چھوٹے سے گھر میں رہنے والی ایک غریب کسان کی بیٹی۔‘‘ یہ فرق اسے پہلے کیوں نظر نہیں آیا تھا اسے خود پر حیرت ہو رہی تھی۔
دوستی کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن اتنے اونچے خواب سجانے کی کیا ضرورت تھی اب ٹوٹے تھے تو بہت درد ہو رہا تھا۔
وہ ریشمی آنچل، بھاری بھرکم ملبوسات اور جگمگ کرتے زیورات کے ڈبے ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں میں ریت کے مانند چبھنے لگے تھے۔
کل وہ بڑی حویلی گئی تھی لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا بی بی اپنے گرد گویا کہ پوری دوکان سجائے بیٹھی تھیں۔
’’سلام بی بی۔‘‘ وہ پلٹ کر ان کے قریب چلی آئی۔
’’وعلیکم السلام جیتی رہو۔‘‘ بی بی اسے دیکھ کر کھل اٹھیں۔
’’آؤ دیکھو تو یہ گلو بند کیسا ہے۔‘‘ بی بی نے ہیروں سے دمکتا ایک ہار اسے دکھایا تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
’’بہت خوبصورت ہے بی بی مگر یہ سب…‘‘ اس کا اشارہ مختلف اشیاء کی جانب تھا۔
’’جمعہ کے مبارک دن ہابیل شاہ کی نسبت طے ہو رہی ہے زمرد کی بھتیجی سے بڑا اعلیٰ خاندان ہے ان کا، وڈے شاہ سائیں سے زیادہ باغات اور زمینیں ہیں۔‘‘ وہ اس کے دل پر گزرنے والی قیامت سے بے خبر بڑے جوش میں اسے بتا رہی تھیں زمرد بیگم چھوٹے شاہ سائیں کی شریک حیات تھیں، سب انہیں چھوٹی بیگم کہتے تھے۔
’’ہابیل شاہ کی نسبت۔‘‘ اس کا دماغ آندھیوں کی زد میں آ چکا تھا۔
’’تم بھی چلنا ہمارے ساتھ، ہابیل بہت مانتا ہے تمہاری، تم لڑکی کی تعریف کرو گی تو سمجھ لو اس کی تسلی ہو جائے گی ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خود لڑکی دیکھنے کی فرمائش کر دے تمہیں تو پتہ ہے نا حویلی کی عورتیں کتنا سخت پردہ کرتی ہیں۔‘‘
شفاف چمکتی آنکھوں سے پھسلتے موتیوں کو کسی نے بڑی چاہت سے اپنی پوروں پر چنا تھا۔
’’کیا تمہیں میری محبت پر اتنا ہی اعتبار تھا جو یہاں چھپ کر رو رہی ہو۔‘‘ وہ جانے کب آیا تھا سونم اسے سامنے دیکھ کر اور بھی شدت سے رونے لگی تھی۔
’’میں نے اس رشتے سے انکار کر دیا ہے اور آج بابا سائیں سے تمہارے متعلق بات کروں گا۔‘‘ اور وہ اس کی بات پر سارا رونا دھونا بھول کر جیسے بالکل منجمد سی ہو چکی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے بی بی کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت کی ہے اور اب وڈے شاہ سائیں سے بات کرے گا مگر اسے اعتبار کر لینا چاہیے تھا کیونکہ اس کی آنکھوں میں محبت کے ستارے جھلملا رہے تھے جن کی روشنی سے اس کی قسمت چمکنے والی تھی۔
٭٭٭
حویلی میں آج کل بھونچال آیا ہوا تھا وڈے شاہ سائیں کافی غصے میں تھے بی بی اور لڑکیاں ہابیل شاہ کی ہمنوا تھیں جبکہ چھوٹی بیگم دن رات سونم کو کوستی جس نے ان کی بھتیجی کے حق پہ ڈاکا ڈالا تھا، ہابیل شاہ نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور چھوٹے شاہ سائیں کا چونکہ وہ بے حد لاڈلا تھا سو وہ وڈے شاہ جی کو قائل کرنے کی کوشش پر معمور تھے۔
’’میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ دولت اور حیثیت میں ہم سے کم تر ہیں لیکن ہماری کچھ خاندانی روایات ہیں جن کی پاسداری کرنا ہم پر فرض ہے تم جانتے ہو کہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں ہوتیں۔‘‘ وڈے شاہ سائیں اس کی حمایت پر برہمی سے بولے تھے۔
’’چھوڑیں بھائی صاحب ہماری کون سا لڑکی ہے جو ہم ایسی باتیں سوچیں اس کی مرضی ہے تو کر لینے دیں نکاح، اس کی دوسری شادی تو ہم خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے کریں گے جوان لڑکا ہے عشق کا بھوت سوار ہے اور آپ کو پتہ ہے نا وہ کتنا جذباتی ہے اپنی کمٹ منٹ بھی نہیں توڑتا ایسے ہی خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے تین دن سے کمرے میں بند پڑا ہے کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔‘‘ اور وڈے شاہ سائیں سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے اور پھر چھوٹے شاہ سائیں کے بصد اصرار پر رضا مندی دے دی تھی۔
سونم کے گھر میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، وڈے شاہ سائیں نے منشی حیات احمد کو اپنے ڈیرے پہ بلا کر رشتہ طلب کیا تھا اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی تصور کرتے ہوئے ہاں کر دی تھی اور اس کی وجہ وڈے شاہ سائیں کا جاہ جلال امارت اور رتبہ نہیں تھا وہ ہابیل شاہ کو بچپن سے جانتے تھے وہ اچھا سلجھا ہوا اور مہذب نوجوان تھا۔
سونم سے محبت کے ساتھ ساتھ وہ ان کا بے حد احترام بھی کرتا تھا دونوں جانب شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
٭٭٭
بڑی حویلی سے فریال اور روشنی خیراں بی بی کے ساتھ اسے مہندی لگانے آئی تھیں۔
’’ہمارا گاؤں تو دیکھو اف کتنا خوبصورت ہے۔‘‘ اس شام موسم اچھا خاصا خوشگوار اور دلفریب ہو رہا تھا روشنی نے کمرے کی کھڑکیاں کھولتے ہوئے باہر جھانکا حد نگاہ تک سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا۔
ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں پر بادلوں کے کنارے سلگ رہے تھے ٹھنڈی سبک ہوا چل رہی تھی ندی کنارے ناچتے موروں سے نگاہ ہٹی تو اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلتے اس خوبرو نوجوان پر ٹھہر سی گئی، جانے وہ کون تھا، کوئی مسافر اجنبی یا اس گاؤں کا رہائشی مگر وہ تو کوئی پردیسی ہی لگتا تھا بالکل شہری بابو جیسا، نہیں اس کے خوابوں کے راج کمار جیسا۔
’’کھڑکی بند کرو اگر کسی نے تمہیں یوں کھڑے دیکھ لیا تو…‘‘ فریال نے ٹوکنا چاہا تھا مگر اس نے الٹا اسے ٹوک دیا۔
’’تم خاموشی سے اپنا کام کرو۔‘‘ اور جب پلٹ کر دوبارہ اس سبزہ زار کو دیکھا تو وہ یوں غائب تھا جیسے کبھی تھا ہی نہیں وہ مایوس ہو کر ان کے قریب آن بیٹھی۔
’’جانتی ہو سونم کبھی مجھے تمہاری خوش قسمتی پر رشک آتا تھا کہ تم وڈے شاہ سائیں کی بجائے ایک غریب کسان کی بیٹی ہو، بڑی حویلی کی جگہ تمہارا ایک چھوٹا سا گھر ہے تم آزاد ہو تم پر کوئی پابندی نہیں ہے تم فرسودہ روایات اور اقدار کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں ہو مگر آج مجھے تم پہ ترس آ رہا ہے جسے تم محل سمجھ رہی ہو نا وہ سونے کا پنجرہ ہے زندان ہے جو قبر سے زیادہ گہرا اور تاریک…‘‘
’’بس کرو روشنی تم پہ پھر سے دورہ پڑ چکا ہے۔‘‘ فریال نے بری طرح اسے جھاڑ دیا تھا جبکہ سونم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اس نے آج سے قبل کبھی روشنی کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا، وہ اپنے حالات اور روایات سے اتنی بدگمان تھی،
’’راہب میرا چاند۔‘‘ باہر گویا کہ ایک ہنگامہ جاگ اٹھا تھا سونم کی سماعتوں میں برسوں بعد اس نام کی پکار گونجی تھی فرط جذبات سے مغلوب ہو کہ وہ باہر بھاگی اس کا بھائی لوٹ آیا تھا آج اتنے برسوں بعد وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’میری گڑیا اتنی بڑی ہو گئی۔‘‘ اماں سے ملنے کے بعد اب وہ اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اس کے سینے سے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی اماں اور ابا کی آنکھیں بھی نم تھیں مگر یہ خوشی کے آنسو تھے ان کا بیٹا ڈاکٹر بن کر آیا تھا ان کا فخر بن کر لوٹا تھا۔
سونم کے ہاتھوں پہ مہندی لگی ہوئی تھی اس نے فریال کو چائے کے لئے کچن میں بلا لیا تھا اور باہر اب وہ اماں اور ابا سے باتوں میں مصروف تھا، اماں نے خوشی خوشی اسے سونم کی شادی کا بتایا تھا اور وہ کچھ حیران ہوتا سونم کو تنگ کرنے کے خیال سے کمرے میں چلا آیا تھا، وہ رخ موڑے کھڑکی کی جانب کھڑی تھی۔
’’اچھا تو آپ پیا دیس سدھارنے والی ہیں۔‘‘ اس نے اپنی ہی دھن میں سونم کی بجائے کسی اور لڑکی کا ہاتھ تھام لیا تھا اس کے پلٹتے ہی راہب نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’سوری میں سمجھا سونم ہے۔‘‘ وہ سخت شرمندہ ہوا تھا، جبکہ روشنی دم بخود سی یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی ابھی کچھ دیر قبل تو وہ ندی کنارے موروں کے قریب پگڈنڈی سے گزر رہا تھا، حویلی آ کر بھی اس کا دل کانوں میں دھڑکتا رہا تھا وہ اپنے بدلتے جذبوں سے خود ہی خوفزدہ ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’آئینہ کچھ نہیں بولے گا جو پوچھنا ہے ہم سے پوچھو۔‘‘ وہ نہ جانے کس پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا تھا، آج اس کی مہندی تھی اور وہ رسم کے بعد چھت پر بنے کمرے میں کچھ دیر آرام کرنے کے ارادے سے آئی تھی۔
’’تم یہاں۔‘‘ اس کے لبوں سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی تو ہابیل شاہ نے اس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’اب شور تو مت مچاؤ بس تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ کہنے کے ساتھ اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے، وارفتہ نگاہیں اس کے خوبصورت چہرے پہ جمی ہوئی تھی۔
’’کوئی تک بنتا ہے بھلا۔‘‘ اس نے جھینپتے ہوئے آنکھیں دکھائیں۔
’’ارے میرا تک نہیں حق بنتا ہے۔‘‘ وہ شرارت سے کہتا مزید گویا ہوا۔
’’تم اپنا شگن والا دوپٹہ بڑھا کر مسہری پر بیٹھو نا میں تمہیں مہندی لگاؤں گا۔‘‘ عجیب اصرار تھا۔
’’پاگل ہوئے ہو ابھی کوئی اوپر آ جائے گا چلو نکلو ادھر سے۔‘‘ وہ دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے سرعت سے بولی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’ایسی بھی کیا بے مروتی دوست ہوں تمہارا کیا مجھے اپنا شوق پورے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ مصنوعی رنجیدگی بھرا لہجہ سونم کو مسکرانے پہ مجبور کر گیا۔
’’کل بھی تو آئے گی جی بھر کر اپنے شوق پورے کرنا اور اب ڈرامہ ختم کرو مجھ پر تمہاری جذباتیت کام نہیں آنے والی۔‘‘ دروازہ کھول کر اب وہ اسے باہر کا راستہ دکھا رہی تھی، وہ جاتے ہوئے پھر پلٹا۔
’’اور یہ کل کب آئے گی۔‘‘ بے تابی ہر لفظ سے مترشح تھی سونم کی ہنسی کا جلترنگ جگمگاتی چاندنی رات میں دور تلک گونجا۔
’’بارہ گھنٹے بعد۔‘‘ وہ جواب دیتی منڈیر کے قریب جھک آئی اور وہ منڈیر کے اس پار جامن کی شاخ سے لٹکا کھڑا تھا۔
’’ان بارہ گھنٹوں کے بعد پھر میں کبھی ہجر کو اپنے درمیان ٹھہرنے نہیں دوں گا۔‘‘ وہ کہہ کر چلا گیا سونم زیر لب مسکراتے ہوئے واپس کمرے میں چلی آئی دونوں نہیں جانتے تھے کہ ہجر ان کی دسترس میں نہیں ان کی قسمت میں ٹھہر چکا تھا۔
٭٭٭
مختلف رسموں سے فراغت کے بعد اسے حجلہ عروسی میں پہنچا دیا گیا تھا اور اب ایک نئے خوبصورت دن کا آغاز ہوا تھا ایسا دن جوان کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لئے نمودار ہوا تھا۔
’’السلام علیکم بھابھی جان!‘‘ وہ سنگار میز کے سامنے بیٹھی اپنے بال سلجھا رہی تھی جب روشنی اور فریال نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑتے ہوئے زور سے بھینچا۔
’’ارے ہٹو بھی۔‘‘ سونم نے ہنستے ہوئے فریال کو پیچھے دھکیلنے کی ناکام سی کوشش کی مگر وہ شرارت پر آمادہ تھی۔
’’کچھ دیر کے لئے مجھے اپنا وہ تصور کر لونا۔‘‘
دونوں کھل کھلا کر ہنسی تھیں سونم کے چہرے پہ حیا کے رنگ سمٹ آئے۔
’’وہ کون؟‘‘ اسی لمحے ہابیل شاہ بالوں کو تولیے سے رگڑتا ہوا واش روم سے برآمد ہوا تو اس استفسار پر دونوں کا رنگ اڑ گیا وہ تو سمجھ رہی تھیں کہ لالہ کہیں باہر ہوں گے، اس پر سونم نے بیچاریوں کے ساتھ حد کر دی تھی۔
’’بتاؤ نا فریال۔‘‘ اندر ہی اندر وہ ان کی حواس باختگی پر ہنس رہی تھی۔
’’کوئی نہیں۔‘‘ دونوں بجلی کی سی تیزی سے غائب ہو چکی تھیں، ہابیل شاہ بھی ہنستے ہوئے بالوں میں کنگھا کرنے لگا تھا۔
’’تم تیار ہو گئی تو چلو ناشتہ کر لیتے ہیں ڈائیننگ ہال میں سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ مگر چھوٹی بیگم کو نئی نویلی دلہن کا یوں منہ اٹھا کر سب کے درمیان آنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔
’’بھئی حویلی کے کچھ اپنے ضابطے اور روایات ہیں ہابیل تو مرد ہے لیکن تمہیں ان باتوں کا خیال ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اور اب وہ اپنی جگہ شرمندہ سی کھڑی تھی سب ناشتہ روکے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’بیٹھو بیٹا۔‘‘ بی بی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
’’اب اسے حویلی کے رسم و رواج کا کیا پتہ آہستہ آہستہ سیکھ جائے گی۔‘‘ اس کے بعد وہ اس کی حمایت میں بھی بولی تھیں چھوٹی بیگم نے نخوت بھرے انداز میں سر جھٹک دیا وہ اپنی بھتیجی مسترد کرنے کا ملال ابھی تک دل میں لئے بیٹھی تھیں اسی وجہ سے ایک فطری رقابت کا احساس ان کے اندر جنم لے رہا تھا۔
شام میں ولیمہ کی رسم تھی اگلے ہفتے دونوں ہنی مون کے لئے پیرس چلے گئے تھے وہاں سے واپسی پر رکی ہوئی دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا پہلے وہ اپنے گھر جانا چاہتی تھی لیکن ابھی سب گھر والوں کو ان کے گفٹس دینا باقی تھے چھوٹی بیگم کے لئے وہ بڑی خوبصورت سی شال لائی تھی جسے لینے سے انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔
’’تم نے ناحق زحمت کی تمہاری پسند کبھی ہمارا معیار نہیں ہو سکتی۔‘‘ لفظوں سے زیادہ ان کا لہجہ کاٹ دار اور درشت تھا وہ اپنی جگہ ساکت سی رہ گئی تھی اور پھر تو جیسے یہ سلسلہ ہی چل نکلا تھا، اس نے پہلی بار میٹھا بنایا تو اس میں بھی کیڑے نکال دئیے۔
’’اتنا کم دودھ ڈالا ہے کھیر میں اور میٹھا تو نام کو بھی نہیں ہاں بھئی پہلی بار جو اتنی مقدار میں کچھ بنایا ہے ہوش کہاں ہونا تھا، میاں کے آگے پیچھے پھرنے سے کام نہیں چلنے والا وہ تو پہلے ہی تمہاری مٹھی میں بند ہے ہمیں تو ساری عمر اتنے گن نہ آئے اور تمہیں کسی نے یہ بھی نہیں سکھایا کہ میاں کا نام نہیں لیتے۔‘‘
’’اب بس بھی کر دیں امی۔‘‘ فریال نے ناگواری سے انہیں ٹوکا تھا جس پر وہ مزید سیخ پا ہو گئیں۔
’’لو بس یہ کسر باقی تھی آتے ہی ہماری بچیوں پر بھی اپنا رنگ چڑھا دیا ورنہ آج تک بچوں کوبڑوں کی بات کاٹتے یا انہیں ٹوکنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔‘‘ یہ الزام بھی اس کے سر آ گیا تھا حالانکہ وہ مہر بہ لب ان کی کڑوی کسیلی سنے جا رہی تھی۔
’’اب کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہی ہو لے جاؤ اٹھا کر۔‘‘ غصے میں ہاتھ مار کر کٹوری کو پرے گھسیٹا تو پورا باؤل الٹ کر فرش پر جا گرا۔
حواس باختگی میں وہ نیچے جھک کر کھیر واپس باؤل میں ڈالنے لگی تھی۔
’’ارے یہ کیا کر رہی ہو۔‘‘ جانے کہاں سے ہابیل شاہ ادھر آن نکلا تھا۔
’’چھوٹے گھر کی ہے نا حویلیوں میں رہنے کا ڈھنگ کبھی نہیں آئے گا۔‘‘ نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے وہ اندر چلی گئیں ہابیل شاہ کو ان کا انداز بے حد برا لگا تھا۔
’’مجھے تو بتانا یا دہی نہیں رہا راہب نے اپنے ہاسپٹل کی بنیاد رکھی ہے اسی خوشی میں آج شام ہم ڈنر پر انوائیٹڈ ہیں۔‘‘ وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر اسے خوشی کی خبر سنا رہا تھا اور وہ خوش بھی ہو گئی تھی اس کے ابا کا برسوں پرانا خواب پورا ہو رہا تھا وہ جلد از جلد ان کے پاس جانا چاہتی تھی، کپڑے چینج کرنے کے ارادے سے کمرے میں آئی تو فریال بھی اس کے پیچھے ہی اندر آئی تھی۔
’’تمہاری امی کو اپنی امارت رتبے اور اونچے خاندان کا بڑا گھمنڈ ہے نا لیکن ان کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ میں بھی بڑی حویلی کی بہو ہوں ہابیل شاہ کی بیوی، انہیں میری ہتک کرنے یا اس طرح باتیں سنانے کا کوئی حق نہیں ہے اور آئندہ میں بھی برداشت نہیں کروں گی۔‘‘ سارا غصہ اس پر نکالتے ہوئے آخر میں اس نے جیسے وارننگ دی تھی اور ایسا وہ ہر بار ہی کرتی تھی مگر چھوٹی بیگم سے زبان درازی کا تو تصور ہی محال تھا ان کے سامنے تو بی بی بھی خاموشی میں ہی عافیت جانتی تھیں حسب معمول پہلے تو کھڑی وہ اسے سنتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس کے گلے میں بازو ڈال دئیے۔
’’اچھا نا اب چھوڑ دو غصہ میں امی کو سمجھا دوں گی۔‘‘
’’تم ہمیشہ یہی سب کر کے مجھے منا لیتی ہو۔‘‘ وہ اسے گھورتے ہوئے مسکرانے لگی تھی۔
٭٭٭