(Last Updated On: )
خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر میں تو اسی خیال میں بیمار ہو گیا ہے اس کے حرفِ زیر لبی کا سبھوں میں ذکر کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہو گیا تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہو گیا کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا کب زد ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کو میرؔ ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا