دو ہفتوں کے دوران کرن نے کافی حد تک رانا صاحب کے مطابق رہن سہن سیکھ لیا۔ وہ ٹیبل پر نفاست سے بیٹھتی کھانا کانٹے چھری سے شروع کرتی اور اچھے سے چبا لینے کے بعد دوسرا ٹکڑا منہ میں ڈالتی اور پھر سیدھی ہو کر بیٹھ جاتی۔
اس نے نیوز میں ڈراموں میں بزنس مین کی بیویوں کی چال بھی سیکھ لی تھی وہ ٹی وی لگا کر ساتھ ساتھ ویسے شان سے چلنے کی پریکٹس کرتی رہتی۔ بات کرتے ہوئے بھی آبرو ریزی کرنا ہاتھ لہرا کر ہنسنا اور زیادہ تر انگلش کے الفاظ بولنا شروع کر دیا۔
رانا صاحب نے آفس جانا شروع کر دیا تھا اور ان کے ہدایت کے مطابق جب وہ گھر لوٹتے کرن ان کو سجی سنوری دل دھلا دینے والی اداوں کے ساتھ ملتی۔ انہیں کرن کی یہ تبدیلیاں پسند آرہی تھی۔ وہ اپنی خوشی کا اظہار کرنے اپنے محبت کا اظہار کرنے روز اس کے لیے الگ الگ تحائف لاتے۔ کبھی کوئی قیمتی تحفہ تو کبھی پرفیوم یا چاکلیٹ یا پھول۔ اگر کچھ نا بھی لائے ہوتے تو اسے اپنے سینے سے لگا کر اس کے سپاس گزار ہوتے۔ کبھی piano پر کوئی گیت بجا کر اسے کرن کے نذر کرتے وہ ان کے سامنے بیٹھی گیت سے لطف اندوز ہوتی ان کے لئے تالیاں بجا کر ان کو سراہتی اور رانا صاحب سر کو خم دے کر اس کی تعریف بٹورتے۔
کرن کے لیے یہی بہت ہوتا وہ اسی میں خوش ہوجاتی کہ وہ اپنے مجازی خدا کی آرزوں پر پورا اتر رہی ہے وہ ان کی فرمانبردار ہے ان کو خوش کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اس کی پھیکی زندگی کے رنگ واپس چڑھنے لگے تھے۔ رانا صاحب کے لیے بنی بدگمانیاں جھٹک کر وہ پھر مطمئن ہونے لگی تھی۔
نور سے بھی اس کی اکثر بات ہوجایا کرتی جب نور اسے کال کرتی۔ اس کے فون ابھی بھی صرف income کال کی سہولت تھی اور گھر کے ٹیلی فون میں صرف رانا صاحب کا موبائل نمبر درج تھا ان کے علاوہ کہی اور فون نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کرن نے کبھی اس چیز کی شکایت نہیں کی کیونکہ اسے نور کے علاوہ کسی سے رابطہ کرنے میں دلچسپی نہیں رہی تھی نہ اس کی اسکول کالج یا یونیورسٹی میں کوئی ایسی خاص فرینڈز رہی تھی جس سے وہ رابطہ کرنا چاہتی ہو۔
نگار چچی بھی اکثر اس سے ملنے گھر آجایا کرتی اور اس کی عالی شان زندگی دیکھ کر حسد کرنے لگتی۔
“نور جیسے ہی آئے گی میں اس سے کہہ کر روحان کا حصہ الگ کروا لوں گی” نگار بیگم رانا صاحب کے بنگلے میں نظر گردانی کرتے ہوئے سوچتی۔
کرن کے لیے تو رانا صاحب اور ان کا گھر ہی اسکی نئی دنیا بن گئی تھی۔
****************&&&&*************
ملازمہ کچن میں کام کر رہی تھی۔ کرن کچن میں آئی اور اپرن پہنتے ہوئے ملازمہ کو مخاطب کیا۔
“شمائلہ۔۔۔۔ آج ڈنر میں بناو گی۔” اس نے پھرتی سے کچن کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہا۔
“میڈم۔۔۔۔ میں بنا رہی ہوں نا۔۔۔۔ پھر آپ کیوں بنائے گی۔” اس نے گھبرا کر جواب دیا۔
“تم نہیں جانتی۔۔۔۔ میں بہت اچھی کوکنگ کرتی ہوں” کرن نے اپنے سرمئی رنگ کے لانگ فراک کے بازو اوپر چڑھاتے ہوئے کہا۔ اس سے بھاری ڈریس میں کچن میں کام کرتے ہوئے الجھن ہورہی تھی لیکن اس کا آج کوکنگ کرنے کا بہت دل کر رہا تھا۔
“میڈم۔۔۔۔۔۔ آپ پہلے سر سے اجازت لے لو۔۔۔۔۔ ان کو بنا بتائے آپ کچن میں کام نہیں کر سکتی۔” ملازمہ نے التجائی انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
کرن کو ملازمہ کی بات پر حیرت ہوئی۔ وہ اسے سر تا پیر دیکھنے لگی۔
“تم بھی کمال کرتی ہو شمائلہ۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر کے کچن میں کام کرنے کے لیے مجھے رانا صاحب سے پوچھنے کی کیا ضرورت۔” اس نے ملازمہ کی بے عقلی پر ہنستے ہوئے کہا۔
ملازمہ روہانسی ہوکر اس کے سامنے کھڑی التجا کرتی رہی۔
“میڈم پلیز۔۔۔۔ آپ ایک دفعہ سر سے بات کر لے ورنہ میری جان پر بن آئے گی۔” اس نے پریشانی سے منت کرتے ہوئے کہا ۔
کرن ٹھیک ہے کہتی ہوئی غصیلی نظروں سے اسے گھورتی لاؤنج میں آئی اور ٹیلی فون سے رانا صاحب کو کال ملائی۔
**********&&&&&**************
رانا صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنی راکنگ چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے اور سنجیدگی سے سامنے بیٹھے سیکرٹری کو email کی املا کروا رہے تھے جب ان کا موبائل بجنے لگا۔
انہوں نے سکرین پر home لکھا ہوا دیکھا تو سیٹ سے اٹھ گئے۔ سیکرٹری کو وہی بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود ہاتھ پیچے باندھتے قدم قدم چلتے ہوئے دیوار گیر شیشے کی بالکونی میں کھڑے ہوگئے۔
“ہیلو” ایر پوڈ پر کلک کر کے کال اٹھاتے ہوئے کہا۔
“رانا صاحب۔۔۔۔ میں کرن۔” اس نے ان کی آواز سن کر پہلے اپنا نام بتایا۔
رانا صاحب کو اس وقت کرن کے ایسے کال پر تعجب ہوا۔ سپاٹ تاثرات بنائے ہوئے وہ کھڑکی سے باہر گزرتے ٹریفک کو دیکھ رہے تھے۔
“ہاں بولو کرن۔۔۔۔ سب خیریت ہے۔” انہوں نے نرم لہجے میں کہا۔
“جی رانا صاحب۔۔۔۔ سب خیریت ہے۔۔۔۔۔ دراصل آج کا ڈنر میں خود بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ بہت عرصے سے کوکنگ نہیں کی نا تو آج بہت دل کر رہا ہے۔۔۔۔ لیکن شمائلہ ضد کر رہی تھی کہ میں پہلے آپ سے پوچھ لوں۔” وہ روانی سے اپنی رو داد سنا رہی تھی اور رانا صاحب تسلی سے سن رہے تھے۔
“آپ نے میرے ہاتھ کی بنی بریانی نہیں کھائی ہے۔۔۔۔ تو میں آج آپ کے لیے بریانی بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ تو میں بنا لوں” آخر میں معصوم آواز بنا کر پوچھا۔
رانا صاحب اس کی فرمائش پر ہلکا مسکرائے۔
“ٹھیک ہے بنا لو۔۔۔۔۔۔ اور شمائلہ سے کہنا تمہارے ساتھ مدد کرتی رہے” انہوں نے ہامی بھرتے ہوئے ہدایت جاری کی۔
کرن ان کی رضامندی پر خوشی سے مسکرا دی اور شکریہ کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔
رانا صاحب واپس مڑے اور بزنس مین کا روپ بناتے ہوئے اپنی جگہ پر آئے۔ سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے واپس کام کی طرف متوجہ ہوئے۔
کرن واپس مڑ کر کچن میں آئی اور شمائلہ سے وہی بات دہرائی جو رانا صاحب نے اس سے کہی۔ ملازمہ سایئڈ پر ہوگئی۔ کرن دلچسپی سے کھانا بنانے لگی جیسے ہی وہ کوئی مصالحے کا ڈبہ نکالتی ملازمہ اس کے سر پر پہنچ جاتی اور اس کے مصالحہ ڈالتے ہی وہ ڈبہ واپس اپنی جگہ پر رکھتی۔ ویسے ہی اگر وہ کوئی سبزی کاٹتی اور ایک پل کے لیے ہٹ جاتی تو وہ جلدی سے شیلف صاف کرتی اور برتن وغیرہ دھو لیتی۔
کرن کو اس کے موجودگی میں کام کرنے سے الجھن ہونے لگی وہ اس کی بار بار مداخلت کرنے سے چڑ گئی
“شمائلہ۔۔۔۔ رہنے دو آخر میں سارا کچن ایک ہی دفعہ میں صاف کر لینا ابھی میں نے یہ برتن پھر سے استعمال کرنے ہے” کرن نے تنگ آکر اسے کہہ ہی دیا۔
ملازمہ سے پھر بھی صبر نہیں ہوا۔
” نہیں میڈم۔۔۔۔۔ اگر ایک چیز بھی ادھر سے ادھر ہوجائے تو سر بہت غصہ کرتے ہے۔۔۔۔۔ اسی لیے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ میں ساتھ میں مدد کرتی رہوں۔” اس نے رانا صاحب کی تردید یاد کرواتے ہوئے وضاحت پیش کی۔
کرن منہ بھسورتے ہوئے خاموش ہوگئی اور اپنی کوکنگ کرنے لگی ۔
آج رانا صاحب دیر سے پہنچے تھے اس لیے ان کے فریش ہوتے ہی کھانا لگا دیا گیا۔
ان کے ٹیبل پر بیٹھتے اور بریانی کا پہلا نوالہ کھانے تک کرن سانس روکے ان کے ردعمل کے انتظار میں بیٹھی تھی۔
“کیسی بنی ہے” اس نے تجسس کے انداز میں آگے ہو کر پوچھا
رانا صاحب نے خاموشی سے دو تین چمچ کھائے۔
“بہت اچھی بنی ہے۔۔۔۔۔۔ بہت ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں” انہوں نے سر کو جنبش دیتے ہوئے تعریف کر دی۔
کرن کی خوشی سے آنکھیں چمک اٹھی۔
“تو پھر روز میں کروں گی کوکنگ۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی سارا دن بیٹھے بیٹھے بور ہوجاتی ہوں” اس نے جوش و خروش سے کہا اور اپنے پلیٹ میں ڈش نکالنے لگی۔
ملازمہ کو اپنی نوکری ہاتھ سے جاتے ہوئے محسوس ہوئی اس نے ترچی نظروں سے رانا صاحب کے ردعمل کو دیکھا۔
“روز تو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہفتہ میں ایک دو دن کر لینا۔”رانا صاحب نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
کرن کو بلکل نہ ہونے سے یہ بھی غنیمت لگا وہ ان کی بات مان گئی اور پھر آج کی اپنی مشقت یاد آئی۔
“لیکن رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں جس دن میں کوکنگ کروں شمائلہ میرے ساتھ مدد نہ کرے۔۔۔۔۔ میں خود ہی ہر چیر واپس اسی جگہ رکھ لیا کروں گی۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ یقین کریں کوئی چیز بے جا نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ مجھے بہت ڈسٹربنس ہوتی ہے اس کی مدد سے” اس نے نرمی سے التجائی انداز میں کہا۔
رانا صاحب نے پانی پیتے ہوئے آنکھیں اٹھا کر دو قدم دور کھڑی ملازمہ کو دیکھا وہ گھبرا کر سر جکا گئی۔
کرن اب بھی ان کے جواب کی منتظر تھی۔ رانا صاحب نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے سر اثابت میں ہلایا اور اوکے کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
کرن کو تسلی ہوئی وہ آرام سے اپنا کھانا ختم کرنے لگی۔
***********&&&&**************
روحان اور نور تو جیسے وہی کے ہوگئے تھے۔ 2 مہینے سے لوٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے اب تک 7 یا 8 سے زیادہ ممالک کی سیر کر چکے تھے کسی میں سردی ہوتی کسی میں گرمی کہی برفباری ہوتی کہی تھپتی دھوپ۔ نور روزانہ کال کر کے کرن کو اپنے سیر سپاٹوں کے قصے سناتی اور وہ کال پر ہی مسرور ہوتی۔
رانا صاحب سے کئے وعدے کے مطابق وہ ہفتہ میں ایک دو دن کھانا بناتی۔ اس وقت شمائلہ دروازے کے سرے پر ہی کھڑی رہتی اور کرن تسلی سے کام نپٹاتی۔ جیسے اس کے جانے سے پہلے کچن ہوتا وہ ویسے ہی سارا خود صاف کر کے نکلتی۔
پچھلے دو ماہ سے وہ اسی چار دیواری میں رہی تھی۔ صرف ایک دن وہ گھر کے اندر ہی کمرا بہ کمرا گئی اور گھر کا اچھے سے معائنہ کیا۔
“یہ کمرا کس کا ہے” اس نے ملازمہ کو آواز دے کر پوچھا۔
“میڈم یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سر کی پہلی بیوی کا کمرا تھا” اس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
“او۔۔۔ بیلا جی کا کمرہ۔” اس نے دل میں سوچا۔ ہاتھ بڑھا کر ناب گھمایا لیکن کمرہ لاک ملا۔
“یہ کمرا بند کیوں ہے” اس نے تجسس سے ملازمہ کو پکارہ۔
“یہ کمرا ہمیشہ لاک رہتا ہے۔۔۔۔۔ چابی صاحب کے پاس ہوتی ہے۔۔۔۔ وہ اپنی نگرانی میں صاف کرواتے ہے پھر واپس لاک کر دیتے ہے۔۔۔۔۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔” اس نے متذبذب سی ہو کر کہا۔
کرن نے تعجب سے دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔ اس رات اسے بیلا کے بارے میں جاننے کا بہت تجسس ہورہا تھا
“رانا صاحب۔۔۔۔۔ آپ کی بیلا سے لو میرج ہوئی تھی” سوتے ہوئے اس نے نرمی سے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہیں مخاطب کیا۔
رانا صاحب آنکھیں موندھے لیٹے ہوئے تھے بیلا کا نام سن کر ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دی اور تنے تاثرات سے کرن کی جانب دیکھا۔
“تمہیں کیسے پتا بیلا کے بارے میں” انہوں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
کرن ان کے تنے آبرو دیکھ کر سہم گئی اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
“وہ۔۔۔۔ ایک دفعہ۔۔۔۔۔ روحان نے چچی کے گھر پر ذکر کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔ آپ کی فرسٹ وائف بیلا شمس تھی جو ایک حادثے میں انتقال کر گئی۔۔۔۔۔ اور آج بیلا کا کمرہ لاک ملا تو تجسس ہوا کہ آپ سے پوچھ لوں۔” اس نے لب کاٹتے ہوئے تیزی سے وضاحت پیش کی۔ اسے اپنے پوچھنے پر افسوس بھی ہورہا تھا اسے احساس ہوا کہ بیلا کے بارے میں پوچھ کر اس نے رانا صاحب کا دل دکھا دیا تھا۔
رانا صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور سنجیدگی سے رخ کرن کی طرف کیا۔
” روحان نے جتنا بتایا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیے اتنی معلومات کافی ہے۔۔۔۔ اس سے زیادہ بیلا کے بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔۔۔۔ اور رہی اس کمرے کی بات۔۔۔۔۔۔ تو آیندہ اس کمرے کی جانب دیکھنا بھی مت۔۔۔۔ کھول کر اندر جانا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔۔۔ سمجھ آئی” انہوں نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
کرن نے افسردگی سے سر جھکا دیا اور اثابت میں ہلایا۔
رانا صاحب کی نیند اوجھل ہو گئی تھی وہ دراز میں سے سیگریٹ اور لائٹر اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور بالکونی میں جاکر سیگریٹ نوشی کرنے لگے۔ انہیں ایک بات کا اطمینان ہوگیا تھا کہ روحان نے اسے بیلا کے بارے میں اتنا ہی بتایا ہے جنتا وہ خود جانتا ہے اور روحان اتنا ہی جانتا تھا جتنا خود رانا صاحب نے اسے جاننے دیا تھا۔ اصل حقیقت سے تو روحان بھی بے خبر رہا تھا۔ لیکن کرن کے سوال سے رانا صاحب ڈسٹرب ضرور ہوگئے تھے اس لیے اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کے لیے سیگریٹ نوشی کا سہارا لے رہے تھے۔
وہی دوسری جانب رانا صاحب کا دل دکھانے کا افسوس کرتی کرن ان کی پِیٹھ کو تکتی رہی اور دل ہی دل خود کو برا بھلا کہتی مایوس بیٹھی رہی۔
*************&&&&&***************
اس دن وہ چینل بدل بدل کر بور ہوگئی تھی۔ ملازمہ صفائی کرنے میں لگی تھی مالی اپنے کام میں مصروف تھے گارڈ پہرا دینے میں اور کوکنگ کرنے میں بھی کافی دیر تھی وہ بے مقصد گھر میں پھرنے لگی۔ اس کی نظر بیلا کے کمرے کے اس بند دروازے پر پڑی تو رک گئی لیکن رانا صاحب کی تنبیہ یاد آئی تو آگے بڑھ گئی۔ لاؤنج کے دروازے پر آکر وہ سرد آہ بھرتی لان میں دیکھنے لگی۔ گھر کے گیٹ کے باہر بھی وسیع و عریض سبزہ پھیلا تھا اور کیاریوں میں رنگا رنگ پھول کھلے تھے۔ ان کا گھر آبادی سے کچھ فاصلے پر تھا آس پاس کوئی ہمسایہ کوئی انسان نفس نہیں تھا جس سے گفتگو کر کے وہ اپنا دن گزارتی اور آج تو نور نے بھی کال نہیں کیا تھا نہ ایک ہفتہ سے چچی نے چکر لگایا تھا اس لیے وہ بہت تنہا محسوس کر رہی تھی۔ باہر سبزہ زار میں جھانکتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس کے قدم گیٹ کے جانب گامزن ہوئے اور وہ گیٹ پار کر کے سبزہ میں نکل گئی۔
وہ ننگے پاؤں گھاس پر چلتی کیاریوں میں پھولوں پر ہاتھ پھیر کر لطف اندوز ہوتی رہی کبھی جھک کر ان کی خوشبو سے مسرور ہوتی۔ اسے اتنے دنوں بعد کھلے فضاء میں آکر بہت سکون مل رہا تھا۔ وہ وہی ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور تھیوری پر ہاتھ رکھے آس پاس کے چہکتے پرندوں تازہ ہوا سے لہراتے سبزہ کو دیکھنے لگی۔
رانا صاحب اس دن اچانک گھر آگئے تھے اور گھر میں داخل ہوتے ہی طیش سے کرن کو صدائے دینے لگے۔ ان کی آواز سن کر ملازمہ ہڑبڑا کر بھاگتے ہوئے لاؤنج میں آئی۔
“کرن کہاں ہے۔ ” انہوں نے کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے غراتے ہوئے کہا۔
ملازمہ روہانسی ہوگئی۔ اس نے گھر میں نظریں گھما کر دیکھا اور سر جھکا دیا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ رانا صاحب اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر سیڑھیاں پلانگتے اوپر گئے اور دونوں کمروں میں جا کر دیکھا کرن کہی نہیں تھی۔ وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگئے اور واپس نیچے آگئے۔
کرن رانا صاحب کے ردعمل سے بے خبر زیر لب گیت گنگناتے ہوتے کچھ پھول توڑ کر ان کا دستہ بناتے ہوئے جوش مزاجی سے گھر واپس آئی تو لاؤنج میں رانا صاحب کو دیکھ کر سرپرائز ہوگئی۔
“رانا صاحب۔۔۔۔ آپ جلدی آآااھھھ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” کرن رانا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے آگے بڑھی ہی تھی اور اپنے ہاتھوں میں پکڑا تازہ پھولوں کا گلدستہ محبت سے ان کو پیش کر رہی تھی کہ اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ پھول ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر بکھر گئے اس کی آنکھیں جامد ہوگئی اور وہ کراہ اٹھی۔
رانا صاحب سخت تاثرات سے کرن کی گردن دبوچے اسے دیکھ رہے تھے۔
“کہاں۔۔۔ گئی۔۔۔۔ تھی۔۔۔۔ تم۔۔” انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
کرن کی آنکھیں بھیگ گئی وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے رانا صاحب کی گرفت ہٹانے کی جتن کرنے لگی۔
ملازمہ سر جھکائے میاں بیوی کے معاملے میں نا پڑنے کا سوچ کر کچن میں بھاگ گئی۔
رانا صاحب نے ایک مرتبہ پھر اپنا سوال دہرایا اور اس دفعہ آواز اور اونچی ہوگئی تھی اور گرفت پہلے سے بھی سخت۔
“رررانا صاب۔۔۔۔۔ ببب با باہر۔۔۔۔۔ ببب با باغیچے۔۔۔۔۔۔ ممییں۔۔۔۔ گگگ گگئی تھی۔۔۔۔۔۔ آہ۔” کرن نے گھٹے آواز میں کہا اور لمبی لمبی سانس لینے لگی اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔
رانا صاحب کے عصاب اور تن گئے۔ ان کے انگارہ پڑتی نظریں کرن کو اندر تک چبنے لگی۔
“کس سے پوچھ کر گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔” انہوں نے غرا کر کہا۔
کرن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے چہرہ سرخ پڑنے لگا ہاتھ پیر لزرنے لگے۔ وہ مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہی اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اس نے رانا صاحب کے روپ میں اپنی موت چانچ لی تھی۔
“مجھ سے پوچھے بغیر۔۔۔۔۔ اس گھر کی چار دیواری سے بھی نہیں نکل سکتی تم۔۔۔۔۔۔” ان کے غضب میں رتھی برابر بھی کمی نہیں آئی تھی۔
انہوں نے کرن کو اسی طرح دبوچے ہوئے صوفے پر پٹخ دیا۔
کرن تیز تیز سانس لیتی کانسنے لگی۔ اسے گردن پر شدید تکلیف ہو رہی تھی اس لیے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
“دوبارہ کبھی مجھ سے پوچھے بغیر کہی گئی۔۔۔۔۔ تو اسی باغیچے میں تمہیں زندہ گاڑ دونگا۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔” رانا صاحب نے چلاتے ہوئے کہا اور لمبےلمبے ڈگ بھرتے باہر نکل گئے۔
کرن کو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس نے ایسا کیا کر دیا تھا۔ صرف باغیچے میں ہی تو گئی تھی جو گھر کے رکبے میں ہی آتا ہے اس پر اتنا غصہ کہ اس کی جان لینے پر آگئے۔
اسے شدید رونا آرہا تھا وہ اپنے کمرے میں جانا چاہتی تھی۔ وہ جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو اسے چکر آنے لگے آنکھوں کے آگے اندھیرا ہونے لگا وہ واپس صوفے پر بیٹھ گئی۔ رانا صاحب کے رویئے سے اسے صدمہ ہوا تھا اس کے لیے یہ تصادم غیر متوقع تھا۔
وہ بھیگی آنکھوں سے لاؤنج کے دروازے کو دیکھنے لگی جہاں سے ابھی رانا صاحب باہر گئے تھے۔
ملازمہ نے کانپتے ہاتھوں سے اسے پانی کا گلاس دیا۔ کرن نے ایک گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔
“کیا رانا صاحب سب کے ساتھ ایسے سلوک کرتے ہے۔” اس نے گلاس واپس پکڑاتے ہوئے کہا۔
“جی۔۔۔۔ کچھ بھی اپنی جگہ سے بے جا ہوجائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہے۔۔۔۔۔ ویسے ہی ان کے اجازت کے بغیر یہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔۔۔۔۔۔ اگر آپ مجھے بتا دیتی تو میں آپ کو آگاہ کر دیتی” اس نے افسردگی سے کہا۔
“اس لیے اس دن تم مجھے کوکنگ سے پہلے پوچھنے کے لیے کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر ساتھ ساتھ چیزیں اپنی جگہ پر رکھتی رہی۔۔۔۔۔۔ اور مجھے لگا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔ ھاھاھا۔۔۔۔” اس نے اپنی بیوقوفی پر ہنستے ہوئے کہا اور ہنستے ہنستے پھر سے رو دی۔
اس کا نظام تنفس نارمل ہوگیا تھا۔ وہ لھڑکراتے قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
رانا صاحب مغرب کے قریب گھر آئے اور ملازمہ نے بتایا کہ کرن اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔
رانا صاحب کمرے میں گئے کرن سو رہی تھی وہ دبے قدموں سے ڈریسنگ روم میں گئے اور چینج کیا۔ کرن اب بھی سوئی ہوئی تھی وہ اس کی سراہنے بیٹھے۔
کرن کی آنکھ کسی کے رقت انگیزی سے کھلی اس نے دیکھا رانا صاحب اس کے پہلو میں بیٹھے اس کے گردن کو نرمی سے چھو رہے تھے جہاں ان کے انگلیوں کی چھاپ سے نشان بن گئے تھے۔ ان کا مزاج ہمدرد تھا اور چہرے پر افسردگی۔ کرن اٹھ کر بیٹھ گئی اور ان کے پہلو سے کھسک گئی۔ اسے خوف لگ رہا تھا کہ رانا صاحب صرف زبانی ہی نہیں جھڑکتے بلکہ ہاتھ بھی اٹھاتے ہے۔
“درد تو نہیں ہورہا ” انہوں نے نرمی سے پوچھا
کرن نے فقط نفی میں سر ہلایا۔
“تم مجھے غصہ مت دلایا کرو۔۔۔۔۔۔ جب میرے نزدیکی لوگ میری مرضی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو میں آپے سے باہر ہوجاتا ہوں۔ ” انہوں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا
کرن اب بھی ملال میں مبتلا تھی۔
“آپ سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔ دوسروں پر اپنے مرضی چلانے کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ جیسے شادی کی شرط رکھ کر ہم پر چلائی تھی۔ ” کرن نے غیر ارادی طور پر ان سے اپنے دل میں دفن شکایت بیان کر دی۔ اسے افسوس ہونے لگا گھبراہٹ ہونے لگی کہ رانا صاحب پھر سے طیش میں نہ آجائے۔
رانا صاحب اس کی بات پر حیران ہوگئے اور اٹھ کھڑے ہوئے پھر ہاتھ بیڈ پر ٹکھاتے ہوئے کرن کے چہرے کے پاس جھک گئے۔ گہری نظر سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
“کیا صرف اتنا ہی معلوم ہے” انہوں نے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔
ان کے سوال پر کرن شاک ہوگئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔
“کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے” اس نے صدمے سے ہلکے آواز میں کہا۔
رانا صاحب لب میچھے سیدھے ہوئے اور زوردار قہقہہ لگایا۔ کمرے کے بیچو بیچ کھڑے ہو کر وہ کمر پر ہاتھ رکھے ہنس رہے تھے۔
“ھاھاھاھا۔۔۔۔۔۔۔ اوووو نگار۔۔۔۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔۔۔۔۔ کیا چال پلٹی ہے تم نے۔۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔۔۔۔ پورا ویلن مجھے بنا دیا۔۔۔۔۔۔ اور خود کو کلین چٹ کر دیا۔۔۔۔۔ واہ داد دینی پڑے گی۔۔۔۔۔۔ بہت شاطر ہو تم۔۔۔۔ ھاھاھا۔۔۔” وہ ہنستے ہوئے خود ہی سے بولے جارہے تھے۔
ان کی یہ حرکت دیکھ کر کرن کے شاک میں اضافہ ہورہا تھا وہ بیڈ سے اتری اور رانا صاحب کے پیچے کھڑی ہوگئی۔ ایسے اچانک سے چچی کا نام لیتے سن کر وہ پریشان ہو گئی۔ رانا صاحب اس کی جانب مڑے۔
“کرن۔۔۔۔ my dear wife ۔۔۔۔۔ شرط تو صرف ایک مُہرا تھا۔۔۔۔ اصل کھیل تو تمہاری نگار۔۔۔۔۔ چچی نے کھیلا ہے۔۔۔۔”
وہ ہنستے ہنستے سنجیدہ ہوگئے تھے۔
” تمہاری پوری کی پوری قیمت وصول کی ہے اس نے مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔ i have paid 10 crore for you۔۔۔۔۔۔۔ دس کڑوڑ۔۔۔۔ کوئی مذاق نہیں ہے۔۔” انہوں نے کرن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
کرن پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا زمین پیروں تلے نکل گئی تھی۔ اس کے سماعتوں میں رانا صاحب کے الفاظ بار بار گونج رہے تھے۔ وہ کچھ اور سننے کے قابل نہیں تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا۔
“یقین نہیں آرہا نا۔۔۔۔۔۔۔ ادھر بیٹھو پروف دکھاتا ہوں۔۔”رانا صاحب نے اس کا پھیکا پڑتا چہرا دیکھ کر کہا اور اسے صوفے پر بیٹھایا۔ اپنے آفس بیگ سے لیپ ٹاپ نکالا اور خود بھی کرن کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ کچھ بٹن دبا کر اپنی اور نگار بیگم کی میٹنگ دکھائی۔ آواز بند تھی لیکن تصویر واضح طور پر نمایا تھی جہاں نگار بیگم چیک پر رقم درج کرتی نظر آرہی تھی۔ کرن نے کرب سے آنکھیں بند کر لی اور ڈگمگاتے قدموں سے بنا کچھ کہے کمرے سے باہر نکل گئی۔
اپنے الماریوں والے کمرے میں آکر دروازہ لاک کیا وہی سمٹ کر بیٹھ گئی۔
“کوئی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پیسے لیئے لیکن کبھی منہ سے ذکر تک نہیں کیا۔۔۔” اس نے دل میں سوچا۔ آنسو جاری ہو کر اس کے رخسار پر بہہ رہے تھے۔
“یہ تو میں جانتی تھی کہ چچی مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔۔۔ لیکن وہ ایسے مجھے اپنے مطلب کے لیے استعمال کریں گی۔۔۔۔۔ یہ گمان میں بھی نہیں سوچا تھا۔” اس نے گھٹنوں میں سر ڈھنک دیا۔
“اس لیے وہ مجھے رانا صاحب کی شرط کو راز رکھنے کے لیے کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا اپنا راز کھول جاتا” بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔
“نور کی خوشیوں کا جھانسا دے کر انہوں نے مجھے صرف بلیک میل کیا ہے بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ میرے اللہ۔” وہ روتے ہوئے کراہ اٹھی۔ یہ تکلیف اس کے برداشت سے باہر ہورہی تھی۔ اس رات وہ کھانا کھانے بھی نہیں گئی اور خشک آنکھوں سے زرد چہرے کے ساتھ ٹھنڈے فرش پر بیٹھی رہی۔
***************&&&&***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...