وہ بستر پر یوں پڑے تھے جیسے کوئی سمٹی ہوئی چادر پڑی ہو۔ حالانکہ ماموں بے حد نفیس طبیعت کے مالک تھے، انھیں دیکھ کر مجھے بہت رنج ہونے لگا۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بارے میں کچھ بھی بتا نا نہیں چاہتے تھے مگر میری ضد کے سامنے ہار گئے، اٹھ کر چار پائی پر بیٹھ گئے۔ میں پاس پڑی کر سی پر بیٹھا تھا۔ سامنے آم کا باغ تھا اور ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ کافی دیر خاموش سر جھکائے بیٹھے رہے۔ ۔ ۔ پھر ماضی میں بہہ گئے اور آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔
” اس دن صبح تو روز جیسی تھی مگر نہ جانے کیوں میری آنکھ پھڑک رہی تھی، جس کام کے لئے باہر گیا ہوا تھا وہ بھی نہیں ہوا۔ بازار کی رونقوں اور سڑک کے شور و غوغا سے گھبرا کر جلدی جلدی گھر کی جانب روانہ ہوا۔ دروازے کے سامنے برامدے میں زاغ انگور لئے بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ وہ ہمارے رشید بھائی۔ ۔ جو ہمارے ابّا کے دور کے رشتہ دار۔ پچھلے محلّے میں رہا کرتے تھے نہایت بد شکل و بد ہیبت تھے مگر بیوی ایسی ملی تھی کہ لوگ رشک کرتے تھے۔ ۔ ۔ اسی نسبت سے باجی کہا کرتی تھیں۔ “زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت۔ پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت “۔
مجھے دیکھا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا پھرہنستے ہوئے گلے بھی لگ گئے۔ میں نے شرمندہ ہو کر کرتے کی جیب سے کنجی نکالی اور دروازہ کھول کر انھیں اندر بلا یا۔ کمرہ برے حالوں میں تھا۔ رشید بھائی سے تو کیا شرمندہ ہوتا انگور سے خجالت ہو رہی تھی۔ وہ جو پہلی پہلی بار میرے گھر آئی تھیں، کالے برقعے میں بادام آنکھیں چمک رہی تھیں، جارجٹ کی نقاب، گلابی ہونٹوں کو اور بھی اجاگر کر رہی تھی صحن میں کھلے گلابوں کی ساری پنکھڑیاں شرمندہ شرمندہ لگ رہی تھیں۔ وہ دونوں میرے کمرے کے واحد پلنگ پر ٹک گئے۔ اور میں ” ابھی آیا۔ ۔ ” کہہ کر باورچی خانے کا جائزہ لینے پہونچا۔ فریج سے کچھ پھل اور ڈبّے سے بسکٹ پلیٹ میں ڈال کر چائے لے کر واپس کمرے میں آیا تو ان کی انگلیوں نے کمرے کی قسمت سنوار دی تھی، تولیہ کھڑکی کے پاس ہنگر میں جا ٹنگا تھا اور بستر پر چادر کی ہر سلوٹ غائب تھی۔ کرسی پر پڑے کپڑے ایک جانب رکھّے ہوئے ٹین کے ٹرنک پر تہہ کئے رکھّے تھے، میں پانی پانی ہو گیا۔
معمولی سی چائے اور ناشتے کے بعد رسمی با توں کا سلسلہ بھی رُک رُک کر چلا۔ اذان ہونے لگی تھی، اور اسی آپا دھاپی میں میں اپنی ٹوپی نہ جانے کہاں گرا آیا تھا، اِدھر اُدھر ڈھونڈتا پھرا۔ ۔ ۔ تب ہی انھوں نے اپنے بیگ سے ایک بادامی بڑا سا رو مال برا مد کیا۔
“یہ لیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ” انھوں نے میری طرف بڑھا یا تو میں رشید بھائی کی جانب دیکھنے لگا۔
” ارے بھائی۔ ۔ ۔ لے لو نماز ادا کر آتے ہیں تب تک یہیں رہیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلئیے ” انھوں نے قدم باہر بڑھائے تو نا چار میں بھی چل پڑا۔
نماز کس کمبخت نے ادا کی نہ جانے کون کون سے خیالات ذہن میں شورش مچا رہے تھے۔ گاؤں میں امّی نے بتایا تھا کہ یہ رشید بھائی کی چچا زاد ہیں اور ان کی والدہ اس بے جوڑ شادی پر راضی نہ تھیں مگر جائیداد دوسرے خاندان میں چلے جانے کے خوف سے رشید بھائی سے نکاح لازم ہو گیا۔
وہ دن تو گزر گیا مگر اب پوری زندگی کیسے کٹے گی۔ سوچ کر میرا کلیجہ منھ کو آتا تھا میں نے تو رابعہ کے بعد کسی کو نظر بھر کے دیکھا بھی نہ تھا۔ اس کے جانے کے بعد ساری زندگی اکیلے رہنے کی ٹھانی تھی مگر یہ عجب ماجرہ ہو گیا تھا کہ دل کو کسی پہلو قرار نہ تھا۔ آپ ہی آپ مسکرا تا تھا، آپ ہی آپ رونے کو دل چاہتا۔ اور وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب میری روتے روتے ہچکی بندھ گئی، سڑک کے کنارے شیشم کے درخت کے نیچے نہ جانے کب تک بیٹھا روتا رہتا جو مسجد سے نکلتے ہوئے رشید بھائی کی نظر نہ پڑ جاتی۔ وہ مجھے گلے لگائے ہوئے اپنے گھر لے آئے پانی پلا یا اپنے ہاتھ سے میرا منھ دھلا یا۔ اور اندر سے شربت کا گلاس کشتی میں رکھ کر پر دے کے اس پار آیا تو کشتی اور شر بت دونوں کپکپا رہے تھے اسی جل ترنگ میں کانچ کی چوڑیوں کی آواز بھی ہم آہنگ تھی۔
شام کو اجازت چاہی۔ مگر نہیں ملی رشید بھائی نے سختی سے اکیلے رہنے کو منع کر دیا اور گاؤں چلے جانے کی تجویز رکھّی۔ مگر پھر نو کری کا کیا ہوتا۔ ۔ اس لئے ممکن نہ ہوا۔ مگر رشید بھائی نے کمرے پر نہیں جانے دیا۔ تین دن تین راتیں اسی طرح گزریں۔ ۔ چوتھے دن جب وہ کام پر نکل گئے تو میں نے کلام کرنے کی ٹھانی۔ زنجیر بجائی تو وہ دروازے کی آڑ میں آ گئیں۔
کچھ میں نے کہا کچھ انھوں نے جواب بھی دیا۔ نتیجہ یہ تھا کہ دونوں طرف تھی آگ برا بر لگی ہوئی۔ ”
میں نے پھر اپنے کمرے پر جانے کی ضد بھی نہیں کی بلکہ رشید بھائی کے ساتھ جا کر چند جوڑے کپڑے بھی لے آیا۔
اُس دوپہر میں جلدی واپس آ گیا تھا۔ وہ دروازے پر تھیں میں اشعار سنا رہا تھا وہ داد دے رہی تھیں اور تبھی میں نے حالِ دل کہہ ڈالا۔ اندر سے سسکی کی آواز آئی۔ ۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے آنسو پونچھتا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتّھر کا ہو گیا، رشید بھائی خاموش اُداس نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے پاؤں من من بھر کے ہو گئے۔ وہاں سے اٹھا تو اپنے کمرے پر آ کے دم لیا۔ چند ساعت گزری ہوں گی کہ رشید بھائی سر جھکائے ہوئے مو جود تھے میں احساس ندا مت سے چُور چُور تھا وہ کچھ دیر کھڑے رہے۔ ۔ پھر آہستہ آہستہ گو یا ہوئے۔
“میں ناہید بیگم کو تمہیں سونپتا ہوں میں تو واقعی ان کے لائق نہیں، کل قاضی کے سامنے طلاق دے دوں گا اور عدّت گزر جانے پر تم انھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” میں زار و قطار رونے لگا میں نے اپنا آپ ان کے قدموں میں بچھا دیا۔ اور تڑپ تڑپ کر معافی مانگی۔ اُدھر اک جامد سنّاٹا تھا۔ میں نے انھیں اس عمل سے روکنے کے لئے امّاں کی قسمیں کھائیں۔ ۔ ۔ اور اسی دن سامان سمیٹ کر نوکری پر لات ماری اور گاؤں کے لئے روانہ ہوا۔
وہ ماضی سے واپس آ گئے اور بولے ‘‘وہ دن یاد آتا ہے تو زار زار روتا ہوں مگر اپنے آپ کو معاف کرنے کی ہمّت اب بھی نہیں مجھ میں۔ ۔ ۔ ۔ اللہ مجھے معاف کرے ” وہ کمر پکڑ کر بستر سے اٹھے، کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کئے سفید بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ تکیہ کے نیچے سے اک با دامی بڑا سا رو مال نکالا اور نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔ ۔ میں دم بخود تھا۔ اب ان سے کیا کہتا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...