کراچی سے آرکی ٹیکچر کی ڈگری لینے کے بعد میں ماسٹرز کرنے کینیڈا آئی تھی۔ یونی ورسٹی آف ٹورانٹو میں داخلہ حاصل کرکے میں بہت خوش تھی۔ خوش کیوں نہ ہوتی۔ میرا خواب جو سچ ہو نے جا رہا تھا۔ ناصر انکل نے میرا بہت ساتھ دیا۔ کبھی کبھی میںسوچتی ہوں یہ سب اس لیے ہوا کہ ناصر انکل نے میری سفارش کی تھی۔ ناصر انکل ابو کے بہت اچھے دوستوں میں سے تھے، اپنے پورے خاندان کے ساتھ کافی عرصے سے ٹورانٹو میں مقیم تھے۔
ناصر انکل اور ان کی بیگم نشاط آنٹی یہی چاہتی تھیں کہ میں ان کے گھر میں قیام کرکے اپنی پڑھائی کروں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے گھر سے یونی ورسٹی بہت دورتھی۔ اس سبب سے ناصر انکل نے ابو کو فون پر راضی کر لیاکہ میں ان کی پیاری، لاڈلی، چہیتی لیکن بلا کی ضدی بیٹی حانیہ سیّد، یونی ورسٹی آف ٹورانٹو کی نزدیکی بلڈنگ کے ون روم فلیٹ میں رہوںاور ویک اینڈ ان کے ہاں گزاروں۔ ابو کی رضا مندی ملتے ہی معاملات نہ صرف طے ہوئے بلکہ عملی شکل اختیار کرگئے اور میں اکیلے رہنے کے ایڈونچر کے حصول میں بھی کامیاب ہوگئی۔ شروع شروع میں مجھے تھوڑا بہت ڈر بھی لگا، لیکن پھر میں آہستہ آہستہ عادی ہوگئی۔ میرے فلور پر دو فلیٹ پاکستانی لوگوں کے تھے، وہ بھی بہت خیال رکھتے تھے۔
اگر میرے پڑھنے والوں میں کوئی ضدی اور خود سر لڑکی ہوگی تو وہ یہ خوب جانتی ہوگی کہ جب کسی خود سر اور ضدی لڑکی کی ضد پوری ہوجاتی ہے تو وہ فوری طور پر خود احتسابی کے عمل سے دوچار ہو کر ڈپریشن کی کسی نہ کسی صورت سے دو چار ہوتی ہے۔ مجھے ابو، امی، بھائی، بہن، رانی بلی، جانِ عالم طوطا، پیڑ پودے، پھول پتے، لان، لان کی کرسیاں، گلاب خان مالی، شہر، شہر کے لوگ، اپنا ملک پاکستان— جس سے لوگ مایوس رہتے ہیںلیکن جیسے ہی اس سے دور ہوئے اس سے پیارا کوئی ملک نظر نہیں آتا، زورشور سے یاد آنے لگے۔
ایسے ہی کسی ہوم سک موڈ میں کلاسوں کے درمیانی وقفے کے دوران ایک بنچ پر بیٹھی میں اندر ہی اندر رو رہی تھی۔
’’میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔‘‘ اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں یادوں کی دنیا سے باہر آئی اور نظر اٹھا کر دیکھا۔ بھورے بال، گرین آنکھوں والی ایک نازک اور پیاری سی لڑکی میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
’’کیوں نہیں۔‘‘ میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراہٹ پھینکی۔
’’کرسٹل۔‘‘ اس نے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’حانیہ۔‘‘ میںنے اس سے ہاتھ ملاتے ہو ئے کہا۔ ’’ہم کلاس فیلوز ہیں۔‘‘ میں نے اسے پہچانتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! ہم ایک ہی کلاس میں ہیں، میں نے تم سے کئی بار بات کرنے کی کو شش کی مگر موقع ہی نہ مل سکا۔
’’کیا تم یہیں رہتی ہو؟‘‘ اس نے پو چھا۔
’’نہیں۔ میں ماسٹرز کرنے آئی ہوں، میں پاکستان سے ہوں۔‘‘
ہم دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے، یونی ورسٹی کی باتیں، پروفیسرز کی باتیں، اور اِدھر اُدھر کی بہت ساری باتیں۔ اس نے بتایا اس کے والد کار ڈیلرہیں۔ ٹورانٹو میں ان کے دو شورومز ہیں، بڑے بھائی رچرڈ نے ایم بی اے کیا ہے، وہ ڈیڈ کے ساتھ ہی ہوتے ہیں، چھوٹا بھائی مارک، میڈیسن پڑھ رہا ہے، اس کا پہلا سال ہے۔ موم اور گرینڈ ما گھر میں ہوتے ہیں۔ باتوں کا سلسلہ شاید ابھی اور جاری رہتا اگر اس کی دوست شیرن نہ آجاتی۔
’’کرسٹل! چلنا نہیں ہے، کتنی دیر ہو گئی ہے۔‘‘
میں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی پانچ بج رہے تھے۔ ’’ارے! وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے میں کھڑی ہوگئی۔
’’حانیہ، یہ میری بہت اچھی دوست ہے، شیرن ۔‘‘ کرسٹل نے کھڑے کھڑے مجھے شیرن سے ملوایا۔
بہت جلد ہم تینوں میں دوستی ہوگئی۔ ہم تینوں زیادہ تر ایک ساتھ رہتے، ایک ساتھ لائبریری جاتے، ایک ساتھ کینٹین جاتے، ساتھ ہی اسٹڈی کرتے۔ کبھی کبھی شیرن کا بوائے فرینڈ ولیم ہارمن ہمارے ساتھ ہوتا۔ کرسٹل اور شیرن کی اور لڑکوںسے بھی دوستی تھی، لیکن میں ان سے ’ہائے، ہیلو‘ تک محدود رہتی تھی۔ وہ سب بھی مجھ سے ایک باعزت فاصلہ رکھتے تھے۔
شاید میرے حسن کی وجہ سے۔ پروجیکٹ کے سلسلے میں بھی کچھ اور لڑکے اور لڑکیاں ہمارے گروپ میں تھے، مگر ان سے تعلق صرف یونی ورسٹی کی حد تک تھا۔
میرا فلیٹ یونی ورسٹی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اکثر میرے ساتھ آجاتے، ہم ساتھ اسٹڈی کرتے، مووی دیکھتے، خوب گپ شپ کرتے،لیکن تھا ہمارا گروپ چھوٹا سا— یونی ورسٹی میں ہم تینوں کے اسکینڈل بھی بنتے رہتے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ کرسٹلؔاور شیرن نے اس اجنبی ماحول میں مجھے بہت اپنائیت دی۔
کرسٹل کی خواہش تھی کہ میں اس کے ہاں نائٹ اسپینڈ کروں، لیکن میں ناصر انکل کی اجازت کے بغیر جانا نہیں چاہتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ منع کر دیںگے۔ میںایک دن کرسٹل اور شیرن کو لے کر انکل کے گھر گئی۔ ان دونوں نے ناصر انکل سے خوب باتیں کی، ان کا دل جیت لیا اور کرسٹل نے انکل سے مجھے اپنے گھر لے جانے کی اجازت بھی لے لی اور یہ بھی و عدہ لیا کہ وہ بہت جلد اپنی فیملی کے ساتھ اس کے گھر آئیں گے ۔
اس دن یونی ورسٹی سے جلدی فرصت مل گئی اور کرسٹل مجھے وہاں سے اپنے گھر لے گئی۔ شیرن بھی ہمارے ساتھ تھی۔ کرسٹل کا گھر بہت خوب صورت تھا۔ گھر کی ایک ایک چیز سے وہاں کے رہنے وا لوں کے اعلیٰ ذوق کا پتا چلتا تھا۔ اس وقت اس کے گھر میں صرف اس کی موم اور گرینڈ ما تھیں۔ اس نے مجھے ان سے ملوایا۔ وہ دونوں ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ حسنِ اخلاق سے بھی مالامال تھیں۔ محبت اور شفقت کا پیکر— ایسا محسوس ہی نہیں ہواکہ میں ان سے پہلی مرتبہ ملی ہوں۔ کرسٹل سے کہے بغیر میں نہ رہ سکی، ’’کرسٹل! تمھارا گھر بہت خوب صورت ہے۔‘‘ فرنیچر کی سیٹنگ، ڈیکوریشن، کلر اسکیم اور پردے وغیرہ سب اپنی جگہ اتنے Perfect کہ محسوس ہوتا تھا جیسے ہر چیز اپنی جگہ مکمل ہے۔کرسٹل نے اٹھ کر محبت سے اپنی ماں کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا، ’’یہ سب موم کےIdeas، موم کی محنت ہے، اور پھر بولی، ’’ابھی تم نے ہمارا بیک یارڈ نہیں دیکھا، دیکھو گی تو دل خوش ہوجائے گا، بہت خوب صورت ہے۔ موم نے پتا نہیں کہاں کہاں سے درخت اور پودے منگوا کر لگوائے ہیں۔‘‘
’’میرا تو وہاں سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ شیرن نے کہا۔
میں نے دیکھا آنٹی کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی۔
ڈنر پر کرسٹل نے اپنے ڈیڈ رابرٹ انکل، اپنے بڑے بھائی رچرڈ اور چھوٹے بھائی ما رک ؔ سے ملوایا۔ رابرٹ انکل بھی بہت محبت سے ملے۔ رچرڈ سنجیدہ اور خا موش طبیعت کا تھا، البتہ مارک بہت خوش مزاج تھا۔ کھانا سب نے بڑے خوش گوار ما حول میں کھایا۔ سب نے خوب باتیں کیں، را برٹ انکل نے کھانے کے دوران لطیفے بھی سنائے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ان لوگوں کو برسوں سے جانتی ہوں۔ اس کے بعد کرسٹل اکثر مجھے اپنے گھر لے جاتی، اور مجھے بھی اس کے گھر جا کر بڑی اپنائیت کا احساس ہوتا۔
وقت کچھ زیادہ ہی تیزی سے گزر گیا۔ میں ایئر پورٹ کی لابی میں کھڑی تھی، اپنے گھر، اپنے پیارے ملک پاکستان جا نے کے لیے۔ میری پڑھائی مکمل ہوگئی تھی۔ میں بہت خوش تھی، لیکن ساتھ ساتھ اپنے دوستوں سے بچھڑنے کا غم بھی تھا۔ سب لوگ مجھے چھوڑنے آئے ہوئے تھے، یونی ورسٹی کے ساتھی، ناصر انکل ان کی فیملی، کرسٹل اس کے ڈیڈ، موم، اس کا چھوٹا بھائی مارک۔ یہ سب میرے پیارے تھے، مجھ سے محبت کرنے والے تھے اور جہاں میں جارہی تھی وہاں بھی سب میرے اپنے، میرے پیارے تھے۔ میں سوچ رہی تھی، کچھ دیر بعد میں جہاز میں سیٹ پر ہوں گی— یہ سب کیا ہے؟ کیسا ملنا ہے— کیسا بچھڑناہے— دونوں آپس میں جڑے ہوئے اور دونوں ہی کے اندر بچھڑنے کا غم اور ملنے کی خوشی۔
پاکستان آنے کے بعد بھی ہم لوگ فیس بک پر، whatsapp کے ذریعے دیر دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ پھرآہستہ آہستہ یہ سلسلے کم ہوگئے۔ میں نے جوب شروع کردی، کرسٹل بھی جوب میں مصروف ہوگئی۔ شیرن نے ولیم سے شادی کرلی او ریہ لوگ انگلینڈ چلے گئے۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے تھے۔
میں یعنی ابو کی بے حد لاڈلی اور ضدی بیٹی نے بھی اپنے آپ کو شادی کے بندھن میں جکڑوا لیا۔ ناصر انکل میرے سسر یعنی باباہوگئے اور نشاط آنٹی میری ممی ہوگئیں اور وقت نے ایک مرتبہ پھر ’ ٹورانٹو‘ (کینیڈا) پہنچا دیا، اس مرتبہ بغیر کسی ضد کے۔
ایئر پورٹ پر خاصے لوگ جمع تھے، دولھا دلھن کے استقبال کے لیے ۔میری نگاہیں کرسٹل کو تلاش کر رہی تھیں، اس کی فیملی میں سے کوئی بھی نہیں آیا تھا، میری آنکھیں خالی خالی سی رہ گئیں۔ اس نے مجھے شادی کی مبارک باد بھی نہیں دی اور یہ تو ناممکن ہے کہ ناصر انکل نے اسے نہ بتایا ہو، میں سوچ رہی تھی۔
جیسے ہی مجھے فرصت ملی، میںنے شیرن کو ای میل کیا اور کرسٹل کے خلاف شکوہ کیا کہ اس نے میرے ٹورانٹو آنے کو وقعت نہیں دی۔
شیرن نے میری ای میل کے جواب میں یہ جانکاہ خبر بھجوائی:
کرسٹل، اس کے موم، ڈیڈ اور مارک گاڑی میں آرہے تھے، ہائی وے پر ایکسیڈنٹ ہوا، کرسٹل، اس کی موم اور مارک جائے حادثے پر ہی فوت ہوگئے۔ رابرٹ انکل معجزاتی طور پر بچ گئے۔ میرا خیال ہے تمھارے لوگوں نے تمھارے صدمے کا سوچ کراس ٹریجڈی سے تمھیں لاعلم رکھا ہوگا۔
پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھ میں جان ہی نہیں ہے، دنیا میرے سامنے اندھیر تھی۔ آنسو تھے کہ میری آنکھوں سے امڈے چلے آرہے تھے۔ کرسٹل کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے ہی سامنے تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا، یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟
پھر مجھے رابرٹ انکل کا خیال آیا، انھوں نے خوب شراب پی ہوئی ہوگی اور نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہے ہوں گے، اسی سبب سے یہ حادثہ پیش آیا ہوگا۔ مجھے رابرٹ انکل پر بہت غصہ آرہا تھا، لیکن بعد میں شیرن کی دیگر ای میلز سے پتا چلا کہ گاڑی مارک چلا رہا تھا۔ حادثہ جیسے تقدیر کا لکھا تھا، اس میں کسی کا کوئی قصور نہ تھا۔ سامنے والی گا ڑی اچانک گول گھومی اور ان کی کار سے ٹکرا گئی— اور یہ حادثہ پیش آگیا اور ایک حیران کن بات یہ ہے کہ رابرٹ انکل حادثے کے بعد سے لاپتا ہیں۔ رچرڈ نے انھیں بہت تلاش کیا، انشورنس والے بھی ان کو ڈھونڈتے رہے، لیکن ان کا کچھ پتا نہ چلا۔
میں نے ناصر انکل سے اس حادثے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا ہم نے ٹی وی پر دیکھا تھا ۔اس کے بعد دو تین دفعہ کرسٹل کے گھر پر فون کیا، کوئی فون نہیں ریسیو کرتا ہے۔ تم سے بتانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ٹورانٹو میں بابا (ناصر انکل) ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اور ممی (نشاط آنٹی) دونوں ہی مجھ سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ زندگی اس برف ملک میں بھی دائمی بہار رُت میں بدل گئی ہے۔ یہاں پر میں ایک غیر ملکی کنسٹرکشن کمپنی میں انجینئر ہوں۔ جوب کے ساتھ ساتھ ایکــ ـ’’سماجی کام کرنے والے‘‘ ادارے کے ساتھ شامل ہو کر لوگوں کی دعائیں سمیٹتی پھرتی ہوں۔
جنوری کے مہینے میں، ایک دن میں اپنی ٹیم کے ساتھ بے گھر لوگوں میں کمفورٹرز، گرم کپڑے اور کھانے پینے کی کچھ چیزیں تقسیم کرنے ڈائون ٹائون گئی۔ سخت سردی کی وجہ سے وہ لوگ چھپے ہوئے تھے۔ یوں بھی یہ لوگ اپنی جگہیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑی سی بلڈنگ کے شیڈ کے نیچے کی طرف کچھ لوگ پڑے رہتے تھے۔ اس دن وہاں بھی سوائے چار لوگو ںکے کوئی نہ ملا، ایک لڑکاجو جینز پہنے تھا، جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی، اوپر میلا سا ایک جیکٹ پہنے دیوار سے ٹیک لگائے سگریٹ پی رہا تھا، شاید نشے کا، اور اس کے برابر اس سے ٹیک لگائے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ بڑی مشکل سے میں یہ معلوم کرنے میں کامیا ب ہوئی کہ وہ دونوں میاں بیوی ہیں۔ اور جب ہماری ٹیم کی ایک لڑکی نے اس سے پوچھا کہ وہ دونوں یہاں کیوں رہتے ہیں؟ تو لڑکی اٹھ کر چلی گئی اور لڑکا خاموش سگریٹ پیتا رہا۔ یہ ان لوگوں کی خاص عادت ہے کہ ان میںسے اکثر کسی کی بات کا جواب نہیں دیتے، کوئی بات پو چھو یا کوئی سوال کرو تو وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
ہم لوگ بہت تھک گئے تھے، کچھ لوگ ہم میں سے ریسٹورنٹ چلے گئے۔ میں اور میری دوست ہم دونوں ایک بلڈنگ میں تھوڑی دیر سستانے بیٹھ گئے۔ شیشے سے باہر کا سارا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ میری نظریں ایک عجیب شخص پر مرکوز ہوگئیں، سر پر بالوں کا جھپڑ (اتنی سردی کے باوجود سر پر کوئی ٹوپی، کوئی ہیٹ نہ تھا)۔ بڑھی ہوئی ڈاڑھی جس کی وجہ سے چہرہ صاف نظر نہیں آرہا تھا، آنکھوں میں گہری مایوسی، کالی پینٹ جس پر دھول مٹی کے نشان لگے ہوئے، برائون رنگ کاچمڑے کا جیکٹ اور کالے رنگ کا مفلر گردن میں لپیٹے ہوئے، پیروں میں بہت پرانے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ وہ شخص بار بار، فٹ پاتھ پر چل کر کافی دورتک جاتا پھر واپس آتا، اپنے آپ میں مسکراتا رہتا، آنے جانے والے کی آنکھوں میں دیکھتا اگر وہ اس سے آنکھیں ملاتا تو خود مسکراتا اور اس سے ہاتھ ملاتا۔ کوئی ہاتھ ملا کے چلا جاتا، کوئی اس کے ہاتھ پر کچھ پیسے رکھ دیتا، وہ کھڑا ہو کر دیر تک پیسوں کو دیکھتا پھر پیسوں کو جیب میں ڈال لیتا۔ بڑی دیر سے میں اس شخص کی حرکتوں کودیکھ رہی تھی، تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص کہیں غائب ہوگیا۔میں بار بار یہی سوچ رہی تھی، کتنا عجیب آدمی تھا۔
شام ہو نے لگی تھی، سارے لوگ اکٹھے ہوئے اور واپسی کا ارادہ کیا۔ چلتے چلتے ہم نے سوچا کہ ایک بار پھر بلڈنگ کے شیڈ میںنیچے کی طرف چکر لگالیں، ابھی بھی ہمارے پاس کافی سامان بچا ہوا تھا۔ ہمارا اندازہ صحیح نکلا، وہاں خاصے لوگ موجود تھے، شاید شام ہونے کی وجہ سے اور سرد رات سے بچائو کی خاطر وہ اپنے ٹھکانوں میں پہنچ گئے تھے۔ سب نے جلدی جلدی لوگوں میں سامان تقسیم کرنا شروع کردیا۔ میں، کمفورٹر، کچھ گرم کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں دینے کے لیے اس شخص کی طرف بڑھی، وہ دیوار سے ٹیک لگائے خلائوں میں گھور رہا تھا، (بے سروساماں) ’’یہ آپ کے لیے کچھ گرم کپڑے وغیرہ۔‘‘ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ارے یہ تو وہی شخص ہے جو فٹ پاتھ پر چکر لگا رہا تھا۔ وہی کھوئی کھوئی اداس آنکھیں۔ میں نے کمفورٹر کھول کر اس کے پائوں پر ڈالا اور باقی چیزیں اس کے پاس رکھ کر جانے لگی۔ ’’یہ کیا چیزیں ہیں؟‘‘ میرے بڑھتے قدم رک گئے۔ یہ آواز تو جانی پہچانی ہے۔
میں مڑی اورنزدیک جاکر اس شخص کو پہلی بار غور سے دیکھا، ’’رابرٹ انکل۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
میں ان کے پاس بیٹھ گئی، ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اورمیں رو رہی تھی، میرے سامنے اور میرے چاروں اَوْر رابرٹ انکل ہی رابرٹ انکل تھے، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، ڈائننگ ٹیبل پر لطیفے سناتے ہوئے، مجھے بے حد قیمتی گھڑی تحفے میں دیتے ہوئے، کرسٹل کا، میرا اور شیرن کا تینوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلے کر یہ کہتے ہوئے، ’’میری ایک نہیں تین بیٹیاں ہیں۔‘‘ شراب زیادہ پینے پر آنٹی سے ڈانٹ سن کر مسکرا کر یہ کہتے ہوئے، ’’اچھا بھئی معاف کردو، آئندہ خیال رکھوں گا۔‘‘ ایئر پورٹ پر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتے ہوئے، ’’ہم بہت جلد اپنی بیٹی سے ملنے پاکستان آئیںگے۔‘‘