طالب کشمیری(جموں)
اسکے اونچے قد اور پشت کے خد وخال سے ہی انوراگ قیاس لگا پایا تھا کہ ابھی ابھی جو عورت بینک سے باہر نکلی وہ سْنیتی ہی تھی گرچہ اسکے سر پر چند ایک بال سفید ہو چکے تھے اور آنکھوں پر چشمہ بھی چڑھا تھا۔ پھر بھی اسکے دل میں ایک ٹیس سی اْٹھی اور اسنے سنیتی سے دو باتیں کرنی چاہی ، لیکن نہ جانے اس نے اپنے آپ کو کیسے روک لیا۔ انوراگ کا تبادلہ بینک کی اس شاخ میں صِرف ایک ہفتہ پہلے ہوا تھا جس دوران اس نے سنیتی کو دور سے ہی ایک بار اسسٹنٹ برانچ مینیجر کے کیبن سے نکلتے دیکھا تھا۔پرانے زخموں کو اچانک کریدنے سے جو درد پیدا ہوا تھا وہ اتنی شدت اختیار کر گیا کہ اسکے قد م لاشعوری طور بینک کے سلائڈنگ گلاس پینل ڈور کی جانب بڑھتے گئے پر اسسٹنٹ برانچ مینیجر کے کیبن کے پاس آ کر انہوں نے خود بخود ادھر کا رخ کِیا اور اگلے ہی لمحہ انوراگ ،دیپک ورما اسسٹنٹ مینیجر کے روبرو کھڑا تھا۔
’’ کیوں مسٹر انوراگ آپ کھوئے کھوئے سے نظر آ رہے ہیں․․․․․․․․سب خیریت تو ہے نا ؟ ‘‘ ورما صاحب نے پوچھا۔
’’ نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں۔ دراصل وہ لیڈی جو ابھی ابھی آپکے کیبن سے باہر نکلی اسکے بارے میں کچھ دریافت کرناچاہتا تھا میں ،‘‘انوراگ کے لہجے میں بیباکی کے بدلے گھبراہٹ کا عنصر پنہاں تھا۔
’’ وہ جو چشمہ لگائے ہوئے تھی ؟ تو کیا آپ اسے جانتے ہیں ؟ ‘‘ اے۔ایم صاحب نے پوچھا۔
’’نہ․․․․․․․․نہیں سر ․․․․․․․․․ہاں سر ، بہت دن پہلے کی جان پہچان ہے سر ، ‘‘ انوراگ نے ہڑ بڑاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ وہ سنیتی کھوسلہ ہے اور اسکا اس بینک میں اکاؤنٹ ہے۔ اس نے اس بینک میں حال حال ہی ایک سپیشل اکاؤنٹ بھی کھولا ہے․․․․جسے کئی لوگ چیرِٹی اکاؤنٹ بھی کہتے ہیں،‘‘ اے۔ایم صاحب بولے۔
’’ چیرِٹی اکاؤنٹ ؟؟؟ وہ کس لئے ، سر؟ ‘‘ انوراگ نے حیران ہو کے پوچھا۔
’’ شائد آپکو معلوم نہیں کہ اسکے شوہر کے دونوں گردے بیکار ہو گئے ہیں اور پچھلے دو برس سے زیرِ علاج ہیں۔ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر میں لاکھوں روپئے برباد کر چکی ہے اور ابھی ابھی بیچاری کہہ رہی تھی کہ بچنے کی کوئی امید ہی نہیں۔ بچا کھچا پیسہ جتنا بھی تھا دوائیوں ، ڈائیلسس اور باقی علاج معالجے میں خرچ کر چکی ہے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ جان بچانے کی واحد سبیل جو بچی ہے وہ ہے Kidney Transplant اور اسی کے واسطے پیسہ جٹانے کیلئے سپیشل اکاؤنٹ بھی کھولا ہے جس میں اب تک تقریباٌ پانچ لاکھ روپے جمع بھی ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک گردے کا موزوں عطیہ دینے والا آدمی نہیں ملا ہے․․․․․․․․․․،‘‘ اے۔ ایم صاحب نے تفصیل کے ساتھ بیان کِیا اور انوراگ خاموشی سے سنتا گیا ، اور ساتھ ہی ساتھ میز پر پڑے کاغذوں کے پلندے میں گلابی رنگ کے ایک فارم پر تحریر شدہ سنیتی کے اکاؤنٹ نمبر کو ذہن میں نوٹ کر لیا۔واپس اپنی سیٹ پر آکر اسنے وہ نمبرکمپیوٹرمیں فیڈ کِیا ۔ بس چند ایک بٹن کے دباتے ہی اکاؤنٹ پروفائل سامنے مانیٹر پر تھا جس میں سے اس نے اسکے گھر کا پتہ اور فون نمبر اپنی ڈائری میں درج کِیا۔
انوراگ اور سنیتی کی محبت کی داستان تب شروع ہوئی تھی جب وہ دونوں مختلف مضامین میں ایم۔ اے پاس کر کے اکٹھے ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور مدرس منتخب ہوئے ۔ وہ ایک دوسرے کو اتنا چاہنے لگے تھے کہ مشکل سے ہی کوئی ایسا دن گزرتاجب وہ پیار و محبت کی باتیں کرنے نہیں مِلتے ۔ سات برس قبل والے ماحولیاتی آلودگی سے پاک چنڈی گڑھ شہر کا شائد ہی کوئی ایسا ریستورانت ، مِلک بار ، فاسٹ فوڈ مرکز یا کافی ہاؤس نہیں ہوگا جہاں انہوں نے گھنٹوں باتیں نہ کی ہوں اور جب وہ وہاں کی چار دیواریوں سے اکتا جاتے تو کبھی راک گارڈن کی خاموشیوں میں بولتے مجسموں، کبھی سکھنا جھیل کی مچلتی لہروں کے اوپر پیڈل بوٹوں یا پھر روز گارڈن میں مہکتے و رنگ برنگے گلابوں کی کیاریوں کے درمیان باتیں کرتے اپنے آپکو محضوظ کرتے۔یا پھر اگر من چاہا تو اسکوٹر پر سوار ہو شہر کے شور و غل سے دور پنجور گارڈن کی جانب رخ کرتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کتنی بار انہوں نے کھائیں ،انہیں یاد نہیں تھا ،لیکن عشق کے ابتدائی مراحل میں ایک مرتبہ جب انوراگ نے سنیتی سے بڑے پر امید لہجے میں کہا تھا ، ’’ سنیتی ، اگر میں تجھے تمہاری زندگی کے صِرف پانچ منٹ مانگوں تو تم دوگی مجھے ؟ ‘‘ جسکے جواب میں سنیتی نے کہا تھا ’’ نہیں ، یہ ممکن نہیں، کوئی اور چیز مانگ لیجئے ‘‘ ۔ پھر ایک طویل مگر جاذب اور دلچسپ گفتگو کے اختتام پر سنیتی نے کہہ ہی ڈالا ’’ او ہ انوراگ․․․․․․․․․آپ نے صرف پانچ منٹ کیوں مانگے، پانچ جنم کیوں نہیں ، ‘‘ اور وہ پھولے نہیں سمایا تھا۔ لیکن قسمت کی کرنی دیکھئے کہ انکا وہ رشتہ تب اچانک ٹوٹ کر بکھر گیا جب سنیتی کے والد اوم پرکاش نے لدھیانہ میں رہ رہے اور اونی ملبوسات میں اوسط درجے کے کاروبار کر رہے اسکے دوست ملک راج کھوسلہ کے ساتھ بیس برس قبل کئے گئے کسی وعدے کے تحت اسکے بیٹے سشانت کے ساتھ اپنی بیٹی کا بیاہ اسکی مرضی کے خلاف کر دیا۔سنیتی نے واویلا کرنے کی زبردست کوشش کی لیکن اسکی ایک نہ سنی گئی۔
ادھر چھہ سال گزرنے کے بعد بھی انوراگ سنیتی کو نہیں بھلا پایا تھا ․․․․․․․․․جو تیر اسکے دل کو چھلنی کر گیا تھا وہ اب بھی اسکے جگر میں پیوست تھا۔ گرچہ تین سال قبل وہ ایک قومیائے بینک میں ملازم بھی ہوا تھا جہاں اسے دلجوئی کے اور بھی سامان مۓسر ہو سکتے تھے پر وہ ہمیشہ سنیتی کے ہی خیالوں میں ڈوبا رہتا تھا۔اسکے برعکس سنیتی نے بدلے ہوئے حالات کے تحت اپنے آپکو اپنے نئے گھر میں ہم آہنگ کرانے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی اور اسکا ایک بیٹا بھی ہوا جو اب تین برس کا تھا۔ سشانت کے پتا جی کا دیہانت ہوا اسلئے کاروبار کی ساری ذمہ واری سشانت کے کندھوں پر آن پڑی، مگر انکی گھر گرہستی ٹھیک ٹھاک چلتی رہی۔لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعدنصیب کا ناگ ایک خطرناک اور تقریباٌ لاعلاج بیماری Renal Failureکی شکل میں اسکے شوہر کو نگلنے کیلئے نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا ۔ عدمِ توجہی کی وجہ سے انکا کاروبارٹھپ ہو کے رہ گیا اور گھر کی مالی حالت دن بدن ابتر ہوتی چلی گئی۔پر سنیتی نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا اور ذاتی گہنے وغیرہ بیچ کر سشانت کے علاج و معالجے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔آج ہسپتال سے تھکی ماندھی جب سنیتی گھر لوٹی تو اسکی آنکھ لگ گئی۔لیکن کچھ منٹوں میں ہی گھنٹی بجی اور اس نے ذرا تاخیر سے دروازہ کھولا ۔ انوراگ کو اچانک سامنے پا کر وہ بھونچکی سی رہ گئی اور ، ’’ اوہ ! ! ! ․․․․․․․․آپ ؟؟؟، ‘‘ ایسے بول پڑی جیسے کوئی آفت ناگہانی اسکے دروازے پردستک دے گئی تھی۔ چہرے پر خوبصورتی وہی لیکن شوخی کے بجائے سنجیدگی سے بھر پور ․․․․․․․․موٹی گہری جھیل سی آنکھیں وہی مگر لیکن پرانی شرارتوں کی جگہ جن میں اب جھلک رہا تھا صبورر․․․․․․․․․آواز میں اب بھی وہی مٹھاس پر الفاظ کی ادائیگی کافی رنجور․․․․․․․․․․انوراگ یہی سوچتا گیااورجب سنیتی نے کچھ سنبھل کر پو چھا ، ’’آ․․․․․․․․آپ یہاں کیوں آئے․․․․․․․․کس لئے ؟‘‘ ، تو انوراگ نے پر ملول لہجے میں کہا ، ’’ یہیں سب کچھ پوچھ لو گی ․․․․․․․․․اندر آنے کو نہیں کہو گی؟ ‘‘
’’ آپ نے میری بات کا جواب نہیں دِیا․․․․․․․․․․؟‘‘ سنیتی نے ایک بار پھر پوچھا۔
’’اگر تمہیں میرا یہاں آنا ناگوار گزرا تو میں واپس چلا جاتا ہوں پھر کبھی نہ لوٹنے کیلئے، ‘‘ انوراگ نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں․․․․نہیں․․․․‘‘لیکن ، نہ جانے انوراگ کے الفاظ نے سنیتی کے دل کے کس پرانے تار کو چھیڑا تھا کہ وہ ایک طرف ہٹ سی گئی اور انوراگ لابی میں داخل ہوتے ہی صوفے پر بیٹھ گیا جہاں، سدھارتھ کچھ پرانے ٹوٹے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھا۔
سنیتی سادہ پانی کا گلاس لے آئی اور میز پر رکھ ہی رہی تھی کہ انوراگ نے پوچھا ، ’’ آپکے پتی دیو کہاں ہیں؟‘‘
’’ اندر بیڈ روم میں ہیں، بہت بیمار ہیں، دونوں گردے کام نہیں کر رہے ہیں،․آج ہی ڈایلسس کروا کے لائی ہوں ،
اسلئے آرام کر رہے ہیں،‘‘ اور اسی کے ساتھ سنیتی نے اپنی دکھ بھری داستان آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہاتے انوراگ کوکیوں سنائی اسے خود بھی معلوم نہ تھا ، جسے سن کر انوراگ بھی کافی غمزدہ ہوا اور اسکو دلاسا دیتے ہوئے بولا ، ’’ سنیتی ، میں تم سے صِرف ہمدردی ظاہر کرنے کے واسطے نہیں آیا ہوں بلکہ اگر کسی قسم کی مدد کے قابل مجھے سمجھو تو بِنا جھجک کے کہہ ڈالنا․․․․․․․․․․․بس ہمت سے کام لینا اور آنسو نہ بہانا۔ مجھے تمہارے بارے میں بینک میں اسسٹنٹ مینیجر نے کچھ کچھ بتلا دیا تھا کیونکہ میں وہاں کام کرتا ہوں اور پچھلے ہفتے ہی ٹرانسفر پر آیا ہوں۔‘‘
’’ بس پرماتما سے دعا کرنا وہ ٹھیک ہو جائیں اور میرا سہاگ بنا رہے۔ اسی میں میری زندگی ہے اور اسی میں میری خوشی ہے اور اس سے بھی زیادہ اب میری بھلائی ایک اور بات میں ہے ۔ ‘‘ سنیتی نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’ وہ کیا ․․․․․․․․․․؟ ‘‘ انوراگ نے چونک کر پوچھا۔
’’ اگر میں کہوں آپ برا تو نہیں ما نوگے، ‘‘ سنیتی اپنے لہجے میں ایک قسم کی رکاوٹ سی محسوس کر رہی تھی۔
’’ نہیں ، نہیں میں تمہاری خوشی کی خاطر کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہوں․․․میں نے ابھی تک اپنا گھر نہیں بسایا اور میں اپنے آپ کو تمہارے غم سے چھڑانے کی بہت کوشش کر رہا ہوں․․․․․لیکن تم اسکا غلط مطلب نہیں نکالنا․․․․․میں تمہیں ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، اسلئے تم میری اور سے مکمل طور مطمئن رہنا، ‘‘ انوراگ نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’ میری ایک گزارش ہے کہ اگر آپ آ ئندہ یہاں نہ آئیں اور نہ ہی مجھ سے ملنے کی کوشش کریں تو بہتر ہوگا۔ میں پہلے ہی بہت مصائب سے دوچار ہوں․․․․، مجھے اور پریشانیوں میں مبتلا نہ کیجئے، ‘‘ سنیتی شائد جان رہی تھی کہ اسکے وہ الفاظ کس طرح انوراگ کے دل کو لہو لہان کر رہے تھے اور وہ خود کو ایک معتبر سہارے سے محروم ، لیکن وہ سچ مچ حالات سے مجبور تھی۔
’’سنیتی مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تمہارے لئے اب میری حیثیت ایک کھوٹے سکے جیسی ہے جسے اپنی اوقات کی حدود سے باہر کچھ سوچنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ اسلئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے گھر کبھی نہیں آؤں گا اور نہ ہی تم سے ملنے کی کوشش کرونگا کم سے کم جب تک کہ سشانت بالکل صحتیاب نہیں ہو جاتا ،بشرطیکہ تم بھی قسم کھا لو کہ تم ہمت و حوصلہ سے کام لیتی رہوگی اور کبھی بھی آنسوؤں کا سہارا نہیں لو گی،‘‘ انوراگ نے دل پر پتھر رکھ کرپر نم لہجے میں کہا اور وہاں سے رخصت ہوا۔
وقت یوں ہی گزرتا گیااور سشانت کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ بلڈیوریا ۵۰۰ملیگرام اور کرِییٹنن ۱۳ملی گرام کو چھونے لگی۔ اب ڈایلسس ہفتے میں ایک کے بجائے دو بار کرانا نا گزیر ہو گیا اور مالی وسائل محدود ہونے کے باعث گردے کے عطیے کیلئے مختص رقم میں سے بھی سنیتی کو بینک سے کچھ پیسے نکالنے پڑے۔ سدھارتھ کوسکول میں داخل کرانے کا معاملہ بھی التوا میں پڑ گیااور ہر طرف سے نا امید سنیتی تقریباٌ ہر لمحہ غموں کے سمندر سینے میں دبائے بستر پر افتادہ سشانت کی جی جان سے خدمت کرتی رہی۔
تقریباٌ ایک مہینے بعد ایک دن سنیتی کو ہسپتال کی جانب سے اچانک ایک فون موصول ہوا اور اسے سشانت سمیت ہسپتال طلب کِیا گیا اور مطلع کر دیا گیا کہ ایک شخص اپنا گردہ سشانت کو رضاکارانہ طور عطیہ دینے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ سشانت اور اس شخص کے خون و دیگر ٹسٹوں سے ڈاکٹر اس نتیجے پرپہنچے تھے کہ سشانت میں اسکا گردہ قبول کرنے کی تمام صلاحتیں موجود تھیں۔سنیتی کے چہرے پر برسوں بعد پہلی بار ایک چمک سی پیدا ہوگئی اور جب اسے بتایا گیا کہ مذکورہ شخص نے تین لاکھ روپئے کے عوض اپنا ایک گردہ عطیہ کرنے کی پیشکش کی تھی اور آپریشن وغیرہ کا خرچہ بھی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب آئیگا تو سنیتی نے ایکدم ہاں کردی اور ہسپتال والوں نے اسی دم سے ضروری لوازمات مکمل کرانے کا کام شروع کِیا ۔ حالانکہ ہسپتال کے ریکارڈ میں عطیہ دینے والے کا نام ،پتہ، اسکا باضابطہ دستخط شدہ رضامندی نامہ ، بیان حلفی وغیرہ سب درج تھا لیکن ہسپتال کے ضوابط کے تحت مریض کے ریکارڈ میں اسکا کوئی ذکر نہ تھا بلکہ عطیہ دینے والے کیلئے جو تین لاکھ کا چیک دیا گیا اس میں بھی اسکی ہی اکلوتی شرط کے مطابق اسکا نام نہیں لکھا گیا۔ چنانچہ اگلے چند دنوں میں کچھ اور ٹسٹ کرانے کے بعد دونوں کا آپریش کِیاگیا جو ڈاکٹروں کے مطابق ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔آپریشن کے ابتدائی ایام میں ہر طرح کی احتیاط برتی گئیں اور پندرہ دن کے بعد جو ٹسٹ لئے گئے ان سے پتہ چلا کہ سشانت کا نیا گردہ آہستہ آہستہ اپنی نئی جگہ پر کام کرنے لگ گیا تھا اور آپریشن کے ایک مہینے بعد اسکے خون میں بلڈ یوریا اور کریٹنن کی مقدار کافی حد تک کم ہوچکی تھی اور ڈاکٹروں نے اسے گھر جانے کی اجازت دیدی۔جس دن سشانت کو ہسپتال سے چھٹی دی گئی اس روز سنیتی کافی ہشاش بشاش لگ رہی تھی اور اس نے سارے وارڈ میں بیسن کے لڈو بانٹے۔دو برس کے کڑے امتحان کے بعد جیسے اسکے چہرے کی رونق اور شگفتگی لوٹ کے آئی لگ رہی تھی اور اسے یقین ہورہا تھا کہ بھگوان نے شائد اسکی سن لی ۔گھر آنے کے تقریباٌ ایک مہینہ گزر جانے کے بعد ایک صبح وہ دونوں میاں بیوی جب برآمدے میں بیٹھے تھے تو سشانت اچانک پوچھ بیٹھا ، ’’ سنو سنیتی ، وہ کون شخص تھا جس نے مسیحا بن کے مجھے یہ نئی زندگی بخش دی ؟‘‘
جواب میں سنیتی نے کہا ، ’’ مجھے خود معلوم نہیں۔ اس نے ہسپتال والوں کو بتا کے رکھا تھا کہ اسکا نام پتہ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ ہوگا کوئی شخص جسے کسی خاص مجبوری کے تحت پیسوں کی اشد ضرورت ہوگی۔‘‘
ابھی انکی وہ بات چیت جاری ہی تھی کہ نٹ کھٹ سدھارتھ نے لیٹر بکس میں سے ایک لفافہ نکالا اور اپنی ممی کے حوالے کِیا۔ سنیتی حیران سی ہو گئی کیونکہ پچھلے دو ڈھائی مہینے سے کسی نے لیٹر بکس کھولا ہی نہیں تھا اور جب اس نے لفافہ پھاڑا تو وہ چکر سی کھا گئی کیونکہ اس میں سے وہی تین لاکھ کا چیک برآمد ہوا جو سنیتی نے گردہ عطیہ کرنے والے گمنام شخص کو ہسپتال کی وساطت سے دیا تھا اورجسے اب کمپیوٹر سے تحریر کئے گئے الفاظ ’ ’ آپ تینوں کی لمبی ، صحتمند اور خوشحال زندگی کیلئے ایک حقیر تحفہ ‘‘ کے ذریعے ضایع کِیاگیا تھا۔اسکی تمام سابقہ قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور نئی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن اسکے تجسس کا ازالہ صرف بیس منٹ بعد ہوا جب اسنے اخبار میں ارتحالی کالم کے تحت انوراگ کی تصویر دیکھی اور پہلی سطر پڑھتے ہی اسکے منہ سے زور دارچیخ نکل گئی ، ’’ ․․․․․․․․ہائے رے بھگوان یہ کیا ہو گیا․․․․․․․ایسا نہیں ہو سکتا ․․․․․․․․یہی ہمارا مسیحا ہے․․․․․․ہمارا مسیحا ہم سے جدا نہیں ہو سکتا ، ‘‘․․․․․․․․․․لیکن بد قسمتی سے ہوا ایسا ہی تھا۔سنیتی غش کھا کر زمین پر گر پڑی۔ سشانت کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا اور وہ ہکا بکا سا رہ گیا۔ پاس ہی میز پر پڑے جگ میں سے سنیتی کو پانی پلانے کے بعد اسے ہوش توآ گیا لیکن وہ نیم مردہ سی حالت میں خیالات کی ایک دنیا سے دوسری دنیا میں غوطے کھاتے خود کو مانو گھسیٹتے گھسیٹتے اپنے کمرے میں آگئی اور سشانت نے اشتہارِ ارتحال کے آخر میں دئے گئے فون پر بات کر کے چند ایک تفصیلات حاصل کیں جنکے مطابق آپریشن جسکے بارے میں اسکے گھر والوں کو تب تک کوئی علیت نہیں تھی، کے ڈیڑھ مہینے بعد انوراگ کی طبیعت انفکشن کی وجہ سے اچانک خراب ہوئی تھی اور ہر طرح کے علاج و معالجے کے باوجود بیماری پر قابو نہیں پایا جاسکا تھا اور آخر میں موت و حیات کی کشکمش میں زندگی نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا۔
کچھ دیر کیلئے سشانت شش و پنج میں پڑ گیا کہ وہ سنیتی ،جو اسے موت کے منہ سے واپس لائی تھی ، کی سابقہ زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے یا بیچارے انوراگ کی قبل از وقت موت پر افسوس کرکے اور اسکی بے مثال قربانی کے طفیل حاصل کی گئی اپنی زندگی کو اسی کا صدقہ جان کر اسکا شکر گزار رہے۔ مکمل غور و خوض کرنے کے بعد سشانت نے اس سارے معاملے کو پرماتما کی جانب سے رچی گئی کہانی کا ایک حصہ مان کر مستقبل کی زندگی پر دھیان دینے کا فیصلہ کر لِیا اور پھر اپنے آپ سے بڑبڑانے لگا ․․․․․․․․’’محبت میں اتنی بڑی قربانی․․․․․․․․․؟ اتنی عظیم قربانی․․․․․․․․․․؟ سچ مچ وہ انسان نہیں فرشتہ تھا․․․․․․․․․․․․پرستش کے قابل ‘‘۔ ادھرسنیتی کو اسکی ما باقی عمریہ سمجھ نہیں آیا کہ وہ پیار کی بازی ہار کر زندگی کی جنگ جیت گئی تھی یا اسکا کھوٹا سکہ اپنی زندگی کو داؤں پر لگا کر اسکی خوشی کیلئے اپنا سب کچھ کھو چکا تھا، کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں اسے اپنی ہی ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔