نذر خلیق(خانپور)
میں نے طے کیا ہوا تھا کہ جب تک پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل نہیں ہوجاتا اُس وقت تک کسی دوسری اہم تحقیقی وتنقیدی سرگرمی سے باز رہنا ہے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ محنت طلب اور انتہائی جانفشانی کا تقاضا کرتاہے کہ یہ ایک نازک اور اہم موضوع پر ہے ۔ ادبی دنیاکے سنجیدہ علمی حلقوں کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں ۔میری تحقیق کاموضوع ہے ’’اردوادب میں سرقہ اور جعل سازی کی روایت ‘‘۔اس موضوع کے حوالے سے حزم واحتیاط کی بہت ضرورت ہے ۔ان معروضات کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں آج کل انتہائی مصروف ہوں لیکن سات محرّم الحرام کو جناب سلطان جمیل نسیمؔ صاحب کی طرف سے صبااکبرؔآبادی کے مراثی کا مجموعہ ’’خونناب ‘‘ مجھے موصول ہوا ۔ساتھ ہی سلطان جمیل نسیم صاحب نے لکھا تھا کہ اسے ایک نظر پڑھ لیں کہ اس مجموعہ مراثی کو محرّم الحرام کے موقعہ پر شائع کیا گیا ہے ۔سلطان جمیل نسیم صاحب انتہائی مخلص اور بے لوث شخصیت ہیں لگ بھگ گزشتہ پچاس سال سے لکھ رہے ہیں ۔اردو افسانے میں اپنے معتبر حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ان کی ادبی حیثیت پر قلم اُٹھایا جا سکتا ہے۔کچھ محرم کے مہینے کا اثر تھا کچھ سلطان جمیل نسیم صاحب کے اخلاص کا اثر تھا کہ کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ہی یہ چند سطور رقم کرنے کا موقعہ مل گیاہے۔
’خونناب ‘‘کا مطالعہ شروع کیا۔‘خونناب کے مرتّب مشفق خواجہ ہیں ۔یہ مجموعہ پہلی مرتبہ محرّم 1985ء میں شائع ہوا تھااور اب محرّم 2004ء کودوسری مرتبہ شائع کیا گیا ہے ۔مشفق خواجہ دیباچے میں لکھتے ہیں ۔
’’جہاں تک قدرتِ کلام اور شاعرانہ محاسن کا تعلق ہے صبا صاحب کی مرثیہ نگاری دراصل قدیم فنِ مرثیہ نگاری ہی کی توسیع ہے۔ اسی لیے تو جوش ملیح آبادی نے کہا تھا،}اُن(صبا صاحب)کے مرثیّے سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔکی روح بول رہی ہے۔‘‘(خونناب‘مرتبّہ مشفق خواجہ ۔ص۹)
مشفق خواجہ صاحب کا یہ کہنا بجا ہے کہ صباؔ صاحب کی مرثیہ نگاری قدرتِ کلام اور شاعرانہ محاسن کے حوالے سے قدیم فنِ مرثیہ نگاری کی توسیع ہے لیکن میں جوش ملیح آبادی کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ صبا صاحب کے مرثیّے سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔میر انیس کی روح نے مرثیہ نگاری میں
جو بولنا تھا بول لیا۔اور وہ بولا ہوا امَر ہے۔میر انیس کا موازنہ تو دبیر سے بھی ممکن نہیں ہے ،صبا صاحب سے موازنہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بے شک یہ بھی حقیقت ہے کہ میر انیس کی نقالی آج کے کئی نئے مرثیہ نگاروں تک کی جا رہی ہے لیکنصبا اکبرآبادی کے مراثی میں نہ تو میر انیس کی گونج ہے اور نہ ہی ان کی رُوح بول رہی ہے۔ان کے مراثی میں سانحہ ٔکربلا کی رُوح بول رہی ہے اور صبا صاحب کے اپنے انداز سے بول رہی ہے۔
مجھے مشفق خواجہ صاحب پر بھی ہلکی سی حیرت ہوئی کہ انہوں نے اپنی صائب رائے کے ساتھ جوش ملیح آبادی کی رائے کیوں منسلک کردی حالاں کہ دونوں آراء متضاد تھیں ۔میں یہاں مشفق خواجہ صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے صبا اکبرؔآبادی کے اشعار پیش کروں گا۔
ہم کون ہیں اورکیا ہیں ؟کہاں کے تھے ؟کہاں ہیں
سو نام و نشاں رکھ کے بھی بے نام و نشاں ہیں
ہم برگِ خزاں دیدہ ہیں یا ریگِ رواں ہیں
اک گم شدہ تہذیب کے اب مرثیہ خواں ہیں
اس بے خبری پر کوئی مضموم نہیں ہی
ہم کیا تھے ‘نئی نسل کو معلوم نہیں ہی
(ص۔26)
مرثیّے کے ان اشعار کو دیکھیں تو بلا شبہ جہاں فنی محاسن اور محسناتِ شعر کے حوالے سے قدیم کی توسیع صاف نظر آتی ہے۔وہاں مرثیہّ نگاری میں موضوعات کے تنّوع کی جھلک بھی نظر آئے گی ۔شاعر نے ان اشعار میں منزل کی گم شدگی اور ذات کے عرفان میں نئی نسل کی بے خبری کو بھی اُجاگر کیا ہے ۔مرثیّہ اب ایک خاص واقعہ سے متعلق رہتے ہوئے بھی نئی نسل کی بے حسی ‘بے خبری اور عظمتِ رفتہ کے احساس کی گمشدگی کے المیہ کے اظہار تک پھیل گیا ہے ۔یہ انداز صرف صبا صاحب سے مخصوص ہے ۔مجھے اپنے مطالعہ کی حد تک اس انداز کا آج کا کوئی اور مرثیہ نگار نظرنہیں آتا۔ڈاکٹر اسلم فرخی کہتے ہیں ۔
’’ہمارے عہد میں مرثیہ گوئی میں نئے رحجانات اور نئے امکانات کو روشن کرنے کے حوالے سے صبا صاحب کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔مرثیّے کی صنف کو فکر سے ہم آہنگ کرنے میں صبا اکبرؔآبادی کا نام بہت نمایاں ہے۔‘‘(ص۔24)
صبا اکبر ؔآبادی نے مرثیے کو صرف جذبات واحساسات کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بنایا بلکہ فکری اور عقلی توانائی بھی اس میں بھر دی ہے۔ان کے مرثیے کے ا لفاظ، ‘ تراکیب اور مصارع واشعار، فکر کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ غزل اور مرثیہ دونوں ان داخلی کیفیات کے اظہار کا ذریعہ ہیں جن کا تعلق دل
سے ہے۔صباء اکبرؔ آبادی کے ان اشعار کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا میں نے جو کچھ کہا ہے درست نہیں ہے۔ اہلِ فن عزلت گزیں ہیں ‘اہلِ دل ہیں گوشہ گیر
اب جو ہیں منبر نشیں اپنی جگہ سب بے نظیر
نونہالانِ چمن سے ہیں تمنائیں کثّیر
اپنے دامِ فکر میں ہم خود ہی رہتے ہیں اسیر
اب نہ وہ محنت نہ وہ مشقِ سخن کا دور ہے
اور تھا اپنا زمانہ ‘یہ زمانہ اور ہے
ان اشعار میں شاعر نے جن تلخ حقائق کو بیان کیا ہے درحقیقت یہ بھی مرثیّے کا نیا اور منفرد انداز ہے کہ حسینؑ ابنِ علیؓ نے جس مقصد کے لیے اپنی اور اپنے رفقاء کی قربانی پیش کی تھی وہ پورا پورا حاصل نہیں ہوا ۔آج وہ لوگ گوشہ نشین اور آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں جن سے حسینؑ ابنِ علی کے مشن کو آگے بڑھانا تھا ۔اُن کی جگہ وہ لوگ ہیں جو ’’دامِ فکر ‘‘ میں اسیر ہوکر رہ گئے ہیں ‘سستی ‘کاہلی اور محنت سے فرار جن کا شعار بن گیا ہے ۔ایسے اشعار فکری ذخیروں سے برآمد ہوسکتے ہیں ۔درحقیقت صباء اکبرؔآبادی نے شہادتِ حسینؓ کو جذبات کے ساتھ ساتھ فکر کو دعوت دینے کا ذریعہ کہا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا صبا ء اکبرؔ آبادی کے مرثیّے میں مقام کے بارے میں یوں کہتے ہیں ۔
’’صبا اکبرؔ آبادی کو اردو شاعری میں جو مقام حاصل ہے ہم سب اُس کے معترف ہیں لیکن کم لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ انہیں مرثیے کے انتہائی مشکل فن پر بھی عبور حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے واقعہ کربلا کی ایک بالکل نئی تفسیر پیش کر دی ہے ۔ان کے مرثیوں سے مراثی امام حسینؑ کے باب میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے ۔‘‘ (خونناب ‘ص۔53)
صبا اکبرؔآبادی کے مجموعہ مراثی میں سہل ممتنع کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔سہل ممتنع کی خوبی اُن شعراء کے ہاں ملتی ہے جو فن کی بلندیوں پر ہوں اور صبا اکبرؔآبادی فن کی جس سطح پر تھے ان کے قارئین اس سے خوب واقف ہیں ۔ان اشعار کو دیکھیں کہ سہل ممتنع کو صباء اکبر آبادی نے کس طرح برتا ہے۔
دوش ہوا پہ ہوتی ہے جس وقت یہ سوار
ہر گوشہ حیات کو کرتی ہے یہ شکار
دامن میں ڈھانپ لیتی ہے ہر قریہ و دیار
اُڑتا ہے دل سے تا بہ بصارت بڑا غبار
جب تک ہے خواب میں کوئی قدموں سے کوٹ لے
بپھرے تو یہ فضا کی لطافت کو لوٹ لے
(ص۔99)
یوں تو صبا اکبرؔآبادی کے مرثیوں کے مجموعے ’’خونناب‘‘میں فنی محاسن کی کثرت ہے اور جن کا جائزہ لینا ایک بھر پور موضوع کا تقاضاکرتا ہے۔تاہم کہہ سکتے ہیں کہ صباء اکبرؔ آبادی کے بعد نئی نسل میں کوئی ایسا مرثیہ نگار دکھائی نہیں دیتا جس کے مرثیوں میں فن کا اتنا خیال رکھا گیا ہو‘اور جذبات کے ساتھ ساتھ فکری سامان بھی مہیا کیا گیا ہو۔صبا اکبرؔآبادی خوش نصیب ہیں کہ قدرت نے انہیں سلطان جمیل نسیم جیسے بیٹے کا باپ بنایا ہے کہ جنہوں نے ان کی وراثتِ علمی کو نہ صرف سنبھال کر رکھا ہوا ہے بلکہ اس میں اضافے کا باعث بھی ہو رہے ہیں ۔خود بھی ادب تخلیق کر رہے ہیں اور اپنے نامور والد کی ادبی خدمات سے اہلِ ادب کو متعارف بھی کرا رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کے فن اور شخصیت کے بارے میں چار اہم کتب
حیدر قریشی کے بارے میں مرتب کی گئی اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور کے شعبہ اردو سے
ایک جامع کتاب منزہ یاسمین کا ایم اے کا تحقیقی مقالہ
حیدر قریشی کی ادبی خدمات حیدر قریشی۔شخصیت اور فن
صفحات ۳۰۶،قیمت ۳۰۰روپے صفحات:۲۶۰، قیمت ۲۵۰روپے
مرتب: پروفیسر نذر خلیق پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کے پیش لفظ کے ساتھ
ناشر:میاں محمد بخش پبلشرز۔محلہ رحیم آباد۔خانپور،ضلع رحیم یار خان(پاکستان)
حیدر قریشی کے فن کی چند اہم جہات کا جائزہ حیدر قریشی کے فن کے بارے میں لکھی گئی پہلی تصنیف
حیدر قریشی فن اور شخصیت حیدر قریشی فکر و فن
صفحات:۱۹۲،قیمت:۱۵۰روپے صفحات:۱۴۴، قیمت: ۱۲۵روپے
مرتبین:نذیر فتح پوری اور سنجئے گوڑ بولے مصنف: محمد وسیم انجم
ناشر:اسباق پبلی کیشنز۔پونہ۔انڈیا انجم پبلشرز۔کمال آباد نمبر۳۔راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائن الیون کے بعد حالاتِ حاضرہ پر حیدر قریشی کے ۲۵کالموں کا مجموعہ
منظر اور پس منظر ( صفحات:۱۲۴،قیمت:۱۰۰روپے)
ایسے فکر انگیز مضامین جو ماضی اور حال کے تجزیہ کے ساتھ مستقبل کے اندیشوں سے بھی باخبر کرتے ہیں
ناشر:سرور ادبی اکادمی جرمنی اور اردوستان ڈاٹ کام امریکہ