محد پارٹی میں آیا تو یہ بات محسوس کی تھی ہر کسی کا دھیان اُسی میں تھا لیکن وجہ کیا تھی یہ نہیں جانتا تھا
"سر ڈرنک”
کسی لڑکی کی بات پرپیچھے ہُوا تو اُسے ہاتھ پر نظر گئی جس میں کچھ سفید رنگ سا تھا لیکن پانی نہیں تھا
"میں نہیں پیتا”
سمجھ چکا تھا کے وہ کوئی جوئس نہیں بلکہ شراب ہے اسلئے بغیر لگی لپٹی کے جواب دیا
"کبھی کبھی پی لینی چاہیے ویسے بھی تمہارے جیسے جوان کی تو یہ عمر ہے”
پیچھے سے منان نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا
"سر آپ کہتے ہیں تو ضرور”
جس انسان نے ایک دن میں زمین سے آسمان تک پہنچا دیا وہ تو زہر کا کہتا تو بھی آسانی سے پی لیتا
اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سوفٹ ڈرنک کو رکھتے ہوئے ہاتھوں کی ہھیر پھیر سے دوبارہ پھر رکھنے والا گلاس ہی اُٹھا چکا تھا جو کسی کی آنکھوں میں نہیں آیا تھا
تھوڑی دیر وہاں ماجود ہر انسان نشے کی مدھوشی میں جھوم رہا تھا لڑکیاں اپنے جسم کی نمائش میں مصروف جب کے وہاں ماجود مرد ہوش کی دُنیا میں نہیں تھا
"محد کبھی کسی پارٹی میں ائے ہو ؟”
دکھلاوے کے طور پر نشے میں ہونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا
"تمہارا قصور نہیں ہے یہ امیر بندر ہوتے ہی پاگل ہیں ۔۔ میں ان کو پاگل بنایا ہے اب یہ مجھے بنا رہا ہے ۔۔۔اللہ کی قدرت”
دل میں سوچ کر ایک نظر پھر منان کو دیکھا
"آیا تھا سر تھوڑے دن پہلے ہی ایک لڑکی مجھے اغواء کر کے لے ائی تھی پھر میں بہت مشکل سے جان چھڑا کر بھاگا تھا”
اب اتنا بھی پاگل نہیں تھا کہ اپنی میڈم کو پھنسا دیتا
"لڑکی کون تھی؟؟؟ بڑی حیرت کی بات ہے تم جیسے کڑیل جوان کو اغواء کرکے لے آئی”
وہ ابھی بھی اُس سے سچ اگلوانے کے چکر میں تھا
"پتہ نہیں کون تھی سر لیکن اُس نے بعد میں مجھے مارا۔ بہت کوئی خدا کا بندہ مجھے گھر چھوڑ گیا ورنہ مجھے مار ہی دیتی”
ایک گھونٹ سوفٹ ڈرنک کا اپنے اندر انڈیلا اور اب جان بوجھ کر نشے سے جھومتا دوسری طرف کو چل دیا
"لے کر کہاں گئی تھی وہ لڑکی تمھیں”
اسکو پیچھے کندھے سے پکڑا اور اپنی طرف متوجہ کیا
"آبے کون سی لڑکی”
اُسکا گریبان پکڑ کر جھول رہا تھا
"وہی جو بنتی تو بہت ہے پر ہے مست مال”
آنکھ دبا کر پھر اُسکی یاداشت واپس لانا چاہتا تھا
محد نے ایک زور کا گھنسا اُسکی گردن پر مارا
"ابے دوسروں کی ماں بہن کے لیے یہ بولتے ہوئے شرم نہیں آئی تجھے کمینے انسان”
اب گریبان کی گرفت میں سختی آئی تھی تو پیچھے سے گارڈز نے اُسے دبوچا
اب نشے کی مصنوئی بے ہوشی کا ناٹک کیا تو منان کے تاثرات نرم ہوئے
"نشے پہلی بار والوں پر زیادہ اثر کرتا ہی اِسے کواٹر میں چھوڑ آؤ”
کہتا ہوا پیچھے آتی حسینہ کی طرف متوجہ ہوا جبکہ گارڈز محد کو گھسیٹے اپنے ساتھ لے جارہے تھے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"آپکی مسز کا بلڈ بہت زیادہ بہہ چکا ہے اور سر پر چوٹ بھی گہری ہے اسلیے جلدی ہوش میں نہیں آئیں گیں”
ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں سر جھکائے بیٹھے طالش سے مخاطب تھی
"اور ۔۔۔۔۔ ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ب۔۔۔بچہ؟”
کتنا مُشکل سوال تھا نہ اُس انسان کے لیے جو پہلے ہی خون کے رشتوں کا پیاسا تھا جسے اپنوں نے ڈسا تھا
"بے بی ماشاء اللہ ٹھیک ہے حیرت کی بات ہے پورے چوبیس گھنٹے آپکی بیوی بھوکی رہیں ہیں لیکن پھر بھی بے بی بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔اور اُنکو درد اور بیہوشی کی وجہ بھوک ہی تھی ”
ڈاکٹر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی
وہ حیران تھی کے ابھی بيس یہ بائیس سال کا لڑکا اپنی بیوی اور بچے کے لیے اتنا پروگریسو تھا
"ویسے ابھی آپکی بیوی کی عمر ابھی بہت کم ہے آپ کو اتنی جلدی اپنی فیملی پلان نہیں کرنی چاہیے تھی”
ڈاکٹر کے ذہن میں کمزور سے دیب کا نقشہ آیا تو طالش قد اور عمر میں لڑکی سے بڑا ہی لگا تھا
"ہمیں بچوں خواھش جلدی ہی تھی”
اپنی مسکراہٹ بہت مشکل سے روکی تھی
کاش یہ بات وہ دیب کے ہوش میں آنے کے بعد کرتی تو دیب خوشی سے اگلے جہاں میں چلی جاتی کے وہ اُس سے چھوٹی لگتی ہے
"میں اپنی بیوی کے پاس جا سکتا ہوں؟؟”
سوالیہ نظروں سے چُپ کھڑی ڈاکٹر سے پوچھا تو اُسنے ہاں میں سر ہلایا
تھوڑی دیر اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے بعد اب وہ دیب کے پاس بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا جس کے سر پر پٹی کی ہوئی تھی اور چہرہ زرد پڑا تھا
"ویسے چھوٹے نمونے تم نے میری بیوی کو بہت تنگ کردیا ہے کیسے کمزور ہوگئی ہے میری دیب تمہاری وجہ سے ”
ایک ہاتھ سے چھوٹے سے وجود کو محسوس کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ڈانٹ بھی رہا تھا
ساری رات جگانے کی وجہ سے اب سر بھاری ہو رہا تھا اور وہیں بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں موند گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آج بازل کسی کونفرنس میں گیا ہوا تھا اور مایا اُس فلیٹ میں اکیلی تھی کیوں کے نور اور بیا بھی الگ گاڑی میں کہیں گیں تھیں لیکن کہاں یہ نہ پوچھنے کی اجازت تھی اور نہ جاننے کی
اور آج مایا کے ذہن میں مغرور انسان کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوئی تھی
اپنا آپ خود با خود اُسکی طرف کھینچتا ہوا محسوس ہوتا اب تو اکثر اُسکے چہرے پر سے نظریں ہٹانا دُنیا کا مُشکِل ترین کام لگتا تھا
"آج تو اپنی فائل نکال کر ہی رہوں گی۔۔اور پھر چلی جاؤں گی یہاں سے پتہ نہیں نوین اور محد کا کیا ہوگا ؟؟؟”
محد کا نقشہ ذہن میں آتے ہی سیڈ ہوگئی
بازل کا کمرہ بھی کھلا ہوا تھا تو دندناتی ہوئی اُسکے کمرے میں گھس گئی چند گھنٹوں میں ہی کمرے کا نقشا بدل چکا تھا ایک صاف ستھرا کمرہ اب کوئی کوڑے کا ڈھیر ہی لگ رہا تھا غُصہ میں بھول گئی تھی کے وہ کونسا اُسکی مستقل رہائش گاہ تھی جو اپنی فائلز یہ دوسری چیزیں وہاں رکھتا اب تو غُصہ چڑ گیا اور چیزیں اُٹھا اُٹھا کر دیوار میں مار رہی تھی
"مجھے پہلے یقین تھا تم پاگل ہو پر ثبوت دینے کی کیا ضرورت تھی”
پیچھے سے ایک گبمھیر ائی تو پیچھے کی طرف ہوئی
بازل جو اپنا بکھیرا ہُوا کمرہ دیکھ کر غُصہ سے لال ہورہا تھا مایا سے بولا
"تم سمجھتے کیا ہو خود کو ۔۔۔۔۔۔دیکھو جو مرضی کرو فائلز کے ساتھ لیکن مجھے طلاق ۔۔۔”
"چٹاخ”
ابھی بات منہ میں ہی تھی جب مرادنہ بھاری ہاتھ اُسکی گال پر پڑا تو پیچھے بیڈ پر گری
"دیکھو میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ یہ رشتا نہ تمہاری مرضی سے بنا ہے اور نہ ہی ختم ہوگا یہ ذہن میں رکھنا ”
اُسکے سپاٹ اور غُصیلے لہجے ایک مرتبہ تو مایا کا دل بیٹھا لیکن ساتھ ہی اپنے تاثرات سخت کیے
"کیا سمجھتے ہو تم تمھیں پتہ ہے عورت پر ہاتھ اٹھانا مرد کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے اور مرد سے مار کھانا عورت کی سب سے بڑی بیوقوفی ۔۔۔”
"چٹاخ”
اب ہاتھ بازل کے گال پر پڑا تھا بازل کی آنکھوں کا رنگ ایک سیکنڈ میں تبدیل ہوا ماتھے پر بل پڑے اور مٹھیاں زور سے بھینچ لیں
ایک سیکنڈ مایا کو اُسکی انکھوں سے خوف آیا اور بیڈ پر کھڑی ہی تھوڑی پیچھے ہوئی
بازل نے اُسکا بازو کھینچا اور کٹی دوڑ کی طرح اُسکی طرف کھینچی لیکن دونوں میں ایک فٹ کا فاصلے ابھی برقرار تھا
"کیا سمجھتی ہو اپنا وہ پرانا عشق یہ پھر محد عرف پپو جو تمہاری ہر بات پر سر جھکائے گا یہ پھر تم ہاتھ اُٹھاؤ گی اور ہنستے ہوئے کھا لے گا ۔۔۔۔۔یہ مت بھولو میں ہوں” بازل شاہ ” اور یہ نام تم چاہ کر بھی مت بھولنا ۔۔۔۔اگر بھولی تو ایسا یاد کرواؤں گا کے تمہارے اگلے بھی یاد رکھیں گے”
اُسکے بولتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا جب اپنے ہاتھ میں پکڑا بلیڈ اُسکی کلائی پر چلا چُکا تھا ابھی تو نیچے خون کی پھوار گر رہی تھی لیکن مایا کو درد نہیں ہوا
نیچے خون پر نظر پڑی تو ٹرپ کر اپنی کلائی دیکھی جو ساری خون سے بھر چُکی تھی
"یہ پرومو تھا انشاء اللہ فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی”
چہرے پر ظالم سی مسکراہٹ سجا کر پیچھے گیا تو مایا نے درد کی شدت سے اُسکی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی
خود ہی کٹ لاکر بیڈ پر رکھی اور اُس سے ضرورت کی چیزیں نکال کر اُسکی کلائی پکڑی
بازل کے نرم سے لمس پر ہوش کی دُنیا میں واپس آئی
"ہاؤ دائیڑ یو ٹو ٹچ می”
اپنی کلائی اُسکی مضبوط گرفت سے نکال کر دھاڑی
"میری بیوی ہو تم حق ہے تم پر اتنا ہی نہیں اور بھی بہت سے حق ہیں جو ابھی نہیں وصولے میں نے۔۔۔۔بس بہت جلد وصولنے کا ارادہ رکھتا ہوں”
اُسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے معنی خیز الفاظ میں بولا
"کونسے حق بازل شاہ ۔۔۔کونسی بیوی ۔۔۔۔یہ شادی صرف اور صرف تم نے مجھے دھوکے سے کی ہے ۔۔۔۔”
آنکھوں میں نمی تھی لیکن بازل نے اُسے دیکھئے بغیر ہی دوبارہ اُسکی کلائی پکڑی اور زبرستی اُسکی کلائی پر پٹی بندھی اور وہاں سے چلا گیا
"کیا ہو تم ۔۔۔۔بازل شاہ کوئی بہروپیا یہ کوئی نظر کا دھوکا”
سوچ کر سر جھٹکا اب بازو میں درد بڑھ رہا تھا اور انکھوں سے آنسو باہر آنے کو بے تاب
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"کیسی ہو دیب اِدھر دیکھو”
نرمی سے ہاتھ سہلاتا ہوئے دیب سے پوچھا جو بے یقینی سے چھت کو گھور رہی تھی
"میرا بچہ کھا گی وہ ”
اچانک اپنا ہاتھ چھوڑا کر بے دردی سے بنولہ اُتارا دیا
"دیب ہمارا بچہ ٹھیک ہے”
آگے بڑھ کر اُسکا سر اپنے سینے پر رکھا
"نہیں تم بھی ساتھ تھے ۔۔۔۔تم بھی کھا گے میں کیا کہوں گی اپنے شوہر سے”
روتی ہوئی اُسے پیچھے دھکیل کر بولی تو تالش بے یقینی سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا
"دیب میں ہوں طالش ”
اُسکا چہرہ تھام کر بولا
"نہیں تم مجھے مار دو گے ۔۔۔۔۔۔میرا طالش ایسا نہیں ہے وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا ۔۔۔۔۔وہ چڑیل کھا گی میرا بچہ ”
اپنے بال کھینچ رہی تھی تالش دو قدم پیچھے ہوئے
اُسکا شور سنتے ہی اسٹاف میں سے ڈاکٹر اور نرس اندر آئیں
"شاید شدید صدمہ لگا ہے انکی ایسی حالت میں ہوجاتا ہے موت کو قریب سے دیکھ کر آئی ہے اسلیے تھوڑا ٹائم لگے گا”
ڈاکٹر نے باہر بیٹھے تالش کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"میں سمجھ سکتا ہوں”
چند آنسو ٹوٹ کر اُسکی گال پر گرے
کون تھا اُسکے پاس نہ ماں نہ باپ نہ بھائی اور بیوی پہچانئے سی انکاری تھی صبر کا پلو اُسکے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا
"اُنہیں آپ کی اِس وقت بہت ضرورت ہے ۔۔۔۔اُن کے ذہن سے نکالنا ہوگا کے اُسکا بچہ اب نہیں ہے یہی بات سب سے زیادہ صدمے کا باعث ہے”
اپنے پروفشنل انداز میں بول کر آگے چلی گی
تو اپنی آنکھوں کو خود ہی صاف کرکے اُٹھا
اپنا سہارا خود کو ہی بننا تھا اپنے بچے کے لیے اپنی جان سے عزیز بیوی کے لیے
اتنی سی عمر میں کونسا غم تھا جو اُس سے چھپا ہوا تھا ٹوٹنا تو بنتا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...