میونسپل کارپوریشن کے دفتر کےسامنے مجمع اکٹھا ہونے لگا ہے۔ یہ عجیب دفتر ہے۔ انسانوں کے مرنے جینے کا جتنا حساب کتاب اُس کے پاس ہے اُس سے زیادہ تو بس ملک الموت کے پاس ہی ہوگا۔ اس دفتر میں ایک اندھیرے اور بوسیدہ سے کمرے میں، کسی الماری میں انسانوں کی پیدائش کے ریکارڈ اور سرٹیفیکٹ رکھے ہیں اورایک دوسری الماری میں جو شاید پہلی الماری کے برابر میں ہی رکھی ہوگی اُن کی موت کے سرٹیفیکٹ ہیں۔ اس الماری پر دھول کچھ زیادہ جمی ہوئی ہے۔ اب یہ تو وہاں کے کلرک کی راشی آنکھ ہی جانتی ہے یا پھر خدا کی آنکھ کہ کون سی الماری میں زندے بند ہیں اورکون سی میں مُردے۔ ویسے اب نہ زندوں کو مردوں کی فکر ہے اور نہ مردوں کو زندوں کی۔ مردے بے چارے تو پھر بھی کبھی کبھی زندوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھرآجاتے ہیں جہاں سے انھیں بھوت کا لقب دیتے ہوئے ذلیل کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ مگرپھر بھی یہ سوال رہ جاتا ہے کہ وہ الماری کہاں ہے جس میں اُن کے ریکارڈ موجود ہیں جو نہ زندوں میں ہیں اور نہ مُردوں میں۔ مردم شماری کے رجسٹرمیں ان کے ناموں کے آگے سرخ روشنائی سے سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدنصیب ہیں جو زندہ اور مردہ انسانوں کے درمیان کھنچی گئی ایک سرخ لکیر پر پڑے ہوئے کپکپاتے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کی طرح۔
لوگ میونسپل کارپوریشن کے دفتر کے آگے اکٹھا ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ خرابی کب تک دور کی جائے گی۔ مرمت کیوں نہیں کی جارہی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ پانی کب تک آئے گا۔ مگرپانی میں جو رمز ہے وہ کارپوریشن کے افسروں کو اور کلرکوں کو نہیں معلوم ہے۔ وہ اس بارے میں جواب دینے سے قاصر ہیں۔
بھیڑ کچہری میں بھی ہے، جہاں کلکٹر بیٹھتا ہے، یعنی ضلع مجسٹریٹ جسے لوگ آج بھی ضلع کا مالک یا بادشاہ سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو یقین ہے کہ اُن کے بادشاہ کے پاس اُن کے دُکھوں کا مداوا ضرور ہوگا۔ مگربادشاہ کا خادم سفید وردی میں ملبوس وہ اردلی بھیڑ کو بار بار پیچھے ہٹنے کا حکم دیتا ہے۔ زیادہ شور پکار مچانے والے چند اولوالعزم افراد کو حراست میں لیے جانےکی دھمکی بھی دیتا ہے مگرساتھ ہی اُنھیں معنی خیز لالچی نظروں سے دیکھتا بھی جاتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے محکمہ حفظانِ صحت کے ڈائریکٹر کو اپنے آفس میں طلب کیا ہے جس کے ریٹائر ہونے میں پندرہ دن رہ گئے ہیں اور جو دل کا مریض ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نروس قسم کا آدمی ہے۔ اُس کی ہتھیلیاں ہمیشہ پسیجی رہتی ہیں اور پیروں کے تلوؤں سے آگ نکلتی رہتی ہے۔ اس کا چہرہ ایک مغموم خچر کے چہرے سے مشابہ ہے۔ وہ ضلع مجسٹریٹ کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ ایک نوجوان آئی۔اے۔ ایس۔ آفیسر ہے اورپرانے افسروں کو خاص طورپر وہ جو پرموشن کے ذریعے افسر بنے ہیں، حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک جدید اوراسمارٹ بیوروکریٹ سمجھتا ہے۔ اورپرانی سڑی ہوئی لال فیتہ شاہی کو چمکیلی، نئی اور سبز فیتہ شاہی میں بدل دینا چاہتا ہے۔
ڈی۔ایم۔ صاحب ہیلتھ والوں کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں۔ بعد میں آپ سب سے بات کریں گے۔ اردلی چلّاتا ہے۔ بھیڑ میں اب اپنا اپنا کیمرہ لیے ہوئے میڈیا کے رپورٹر بھی گھس آئے ہیں مگران میں وہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نہیں ہے۔ وہ یہاں سے تین کلو میٹر دورضلع سرکاری اسپتال میں لمبی ناک والے نوجوان ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی کافی پی رہی ہے۔
آپ کا عملہ اس سلسلے میں کیا کررہا ہے۔ کمیونٹی ہیلتھ کے نام پر آپ کی کارگردگی کا ریکارڈ گذشتہ بیس سالوں میں مایوس کن رہا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ اپنے سامنے رکھی فائلوں کو ٹٹولتے ہوئے کہتا ہے۔ ہم سرہم، جناب، شہر کے تمام محلوں اور کالونیوں کی نالیوں میں ہر ہفتے چونا ڈالواتے ہیں اور ملیریا ڈینگی کے زمانے میں مٹی کے تیل اور ڈی۔ ڈی۔ ٹی۔ پاؤڈر کا چھڑکاؤ بھی کراتے ہیں۔ جناب، جی ہاں۔ آپ کو چونا ڈلوانے کےلیے سرکار اتنی موتی تنخواہ دیتی ہے؟ نہیں سر۔ جناب، ڈائریکٹر کے ماتھے پر پسینے کی لکیریں بہہ رہی ہیں۔ ضلع کا حاکم ایک فائیل کو دوسری فائیل سے الگ کرتے ہوئے رکھ رہا ہے پھر تیسری کو چوتھی سے لائف اپارٹمنٹس کے معاملے میں آپ کیا کررہے ہیں؟ ہم، ہم نے جناب ہم نے۔ سروہاں ہر طرف چونا ہی چونا بکھیر دیا ہے۔ اب ایک مچھر بھی وہاں پر نہیں مارسکتا۔ جناب ڈی۔ ڈی۔ ٹی۔ کا وافر مقدار میں چھڑکاؤ کیا ہے ہم نے جناب۔ اب ایک بھی مچھر۔ ڈائریکٹر نے جلدی جلدی اپنی کارکردگی کا بیان کردیا ہے۔ توآپ کے خیال میں یہ بیماری مچھروں کے ذریعے پھیلی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے سکون آمیز لہجے میں پوچھا۔ جی، جی جناب۔ نہیں، جی نہیں سر۔ مگرمچھروں اور گندگی سے ہی ایسی بیماریاں پھیلتی ہیں جناب۔ میں نے سنا ہے جناب۔ ڈائریکٹر کی آواز لگاتار کپکپارہی ہے۔ جیسے ریڈیو پر کسی اسٹیشن یا چینل کو سیٹ کرتے وقت اُس کی سوئی کپکپاتی ہے۔ آپ نے سنا ہے؟ اپ میڈیکل جرنلز اوراُن کی تازہ ترین رپورٹوں کا مطالعہ کرتے ہیں؟ کیاآپ میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیز میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ پوچھتا ہے۔ میں جناب، میں دل کا مریض ہوں اور اگلے ہفتے مجھے پیس میکر لگنے والا ہے۔ ڈائریکٹر نے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا۔ اوہ! آپ آکسیجن کا سلنڈر ساتھ نہیں رکھتے؟ جی ہمیشہ جناب۔ باہر رکھا ہے۔ آپ کے کمرے کے باہر۔ اردلی نے اندر لے جانے سے منع کردیا۔ پسینہ ڈائریکٹر کی گردن پر بہنے لگا۔ دو دن بعد لائف اپارٹمنٹس سوسائٹی میں میونسپل کارپوریشن کے کارکن، بلڈر کے عملے کے لوگ، پلمبرز اورایم۔ایل۔ اے۔ صاحب کی ایک تحقیقاتی میٹنگ ہوگی۔ آپ کا بھی وہاں رہنا نہایت ضرورت ہے۔ اگروہاں کی زمین یاپانی میں بیماری جراثیم پائے گئے تو سمجھ لیجئے کہ یہ خطرناک ہوگا اوراُسے دورکرنا ایک ٹیم ورک ہوگا۔ ہمیں سب کا تعاون درکار ہے۔ آپ بھی اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھ لیجئے۔ آپ ایک ماہ بعد ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ جی نہیں سر، پندرہ دن بعد۔ اچھا ریٹائر ہونے کے بعد کیا ارادہ ہے۔ کوئی بزنس کروں گا۔ بیوی بھی یہی چاہتی ہے اور بچے بھی۔ بہت اچھا خیال ہے۔ ضلع مجسٹریٹ مسکراتا ہے اور کہتا ہے، ضرور بزنس کیجے۔ چونے کے ٹھیکے لینا شروع کردیجئے۔ اس میں بڑا منافع ہے۔ جی کیا فرمایا، چوہے کے؟ چوہے کہ نہیں چونے کے۔ ضلع مجسٹریٹ کی مسکراہٹ زہر خند ہوجاتی ہے۔ ڈائریکٹر کا سرذلّت اور شرمندگی کے بوجھ کے نیچے دب کررہ جاتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ گھنٹی بجاتا ہے۔ اردلی اندر آتا ہے۔ باہر کتنے لوگ ہیں؟ تقریباً ڈیڑھ سو حکم۔ ٹھیک ہے اُن کے صرف دو نمائندوں کا انتخاب کرکے اندر بھیجو۔ دونوں نمائندے الگ الگ مذہبوں کے ہونا چاہئیں، کیا سمجھے؟ اپنے ساتھ اسٹینو کو بھی لے لو۔ کیا سمجھے؟ جی حکم۔ اردلی واپس جاتا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب، آپ جا سکتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ ڈائریکٹر کانپتے ہوئے پیروں کے ساتھ کرسی سے اُٹھتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ اردلی کو بلانے کے لیے دوبارہ گھنٹی بجاتا ہے۔ اردلی اندر آتا ہے۔ کافی بھیجو، بہت گرم کافی۔ ضلع مجسٹریٹ اُس کی طرف دیکھے بغیر حکم دیتا ہے۔
چشمہ لگائے، خوبصورت آنکھوں والی رپورٹر نوجوان ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی کافی کے گھونٹ لے رہی ہے۔ ڈاکٹراُسے رومانی نظروں سے دیکھنے کے باوجود اُس پرادب کے کسی جغادری پروفیسر کی طرح اپنے مطالعے کا رعب ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
آپ نے Illness as Metaphor پڑھی ہے؟ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔ نہیں، کسی نے لکھی ہے؟ سوزن سوتانگ نے۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ اچھا میں نے یہ نام پہلی بارسنا ہے۔ لڑکی بولی۔ اوہ! بڑے افسوس کے بات ہے کہ آپ سوزن سوتانگ کو نہیں جانتی ہیں۔ ڈاکٹر نے افسوس اور ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ پھر فخریہ انداز میں بولا۔ میں میڈیکل کالج کے لٹریری اور ڈرامہ کلب کا جنرل سکریٹری تھا۔ خیرآپ نے آر۔ اِسٹیون کا The Paradox Plant تو پڑھا ہوگا۔ وہ تو بیسٹ سیلر رہا ہے۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی اپنے سیاہ ریشمی بال اوپر جھٹکتی ہے۔ دھیرے سے، ادا کے ساتھ مسکراتی ہے اور کہتی ہے۔ نہیں میں نے اس کتاب کا نام سنا ہے۔ چلیے کوئی بات نہیں، مگرمیرے خیال، میں آپ کو پہلی ہی فرصت میں The Emperor of All Maladies پڑھ لینا چاہیے۔ اگرآپ کو جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ کو بیماری اوراُس کی سماجیات یعنی سوشیولوجی سے بہت دلچسپی ہے۔ ڈاکٹر نے جوشیلے انداز میں جملہ مکمل کیا۔ جی، میں نے یہ کتاب پڑھی تو نہیں ہے مگراس کے بارے میں بہت سنا ہے۔ سدھارتھ بنرجی نے لکھی ہے نا؟ جی نہیں بنرجی نہیں چٹرجی۔ ڈاکٹر نے تصحیح کی۔ ہاٹ کیک کی طرح بِکتی ہے یہ کتاب، مزہ آجائے گا پڑھ کر۔ ڈاکٹرنے کچھ اس انداز میں کہا جیسے وہ کوئی پورنو گرافی کی کتاب ہو۔ خیرمیں آپ کو دوں گا۔ گھرآئیے گا کبھی۔ بہت کتابیں دوں گا اورہاں میں آپ کو میتھوجون اسٹون کی I Had a Black Dog بھی دینا چاہوں گا۔ آپ کافی اورلیں گی؟ جی ضرور۔ مجھے کافی بہت پسند ہے۔ لڑکی مسکرائی۔ مجھے کافی سے زیادہ کافی کی خوشبو پسند ہے۔ ڈاکٹر نے کہا۔ پچھلے سال یورپ گیا تھا، وہاں کی لڑکیاں اپنے پرس میں اوراپنی جیبوں میں برازیلین کافی کے بیج رکھتی ہیں۔ کافی کی مہک سے زیادہ اچھی کسی پرفیوم یاعطر کی مہک بھی نہیں ہو سکتی۔ اُس کی مہک میں ایسا کیا ہے؟ لڑکی اپنی نیل پالش کریدتے ہوئے آہستہ سے بولی۔ وہ دراصل بے حد سیکسی ہوتی ہے۔ نوجوان ڈاکٹرنےاتنی تیزی کے ساتھ کہا کہ وہ لفظ سیکسی پراتنا زورنہیں دے پایا جتنا اس موقع پراُسے دینا چاہیے تھامگراس سے پہلے کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوپاتا۔ لڑکی نے اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنا جملہ ادا کیا۔ آپ کا مطلب ‘ہاٹ’ سے ہے نا۔ سیکسی کا لفظ پرانا ہوچکا۔ کم سے کم پانچ سال پرانا۔ ہم میڈیا والے لفظوں کو ہمیشہ اُن کے صحیح تناظرمیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ہم عصر یت سے الفاظ کا رشتہ کبھی منقطع نہ ہو پائے۔ ڈاکٹر پہلی بار کچھ جھینپ جاتا ہے۔ پھراس جھینپ کو مٹانے کےلیے پوچھتا ہے۔ توآپ نے بیماریوں پرکون سی کتابیں پڑھ رکھی ہیں؟ میں نے اورکافی منگوائی ہے۔ شکریہ۔ جب میں کالج میں پڑھتی تھی تو وہاں کے تقریباً ہر طالب علم کے ہاتھ میں مارکیز کی Love in the Time of Cholera ہوا کرتی تھی۔ مجھے بھی پڑھنا پڑی۔ اُسی زمانے میں البیئر کامیوکی پلیگ کا مطالعہ بھی کیا۔ اورہاں یاد آیا، چین کا ایک مصنف تھالی یان، اُس کے ناول Ding کے بھی صفحات پڑھے تھے مگرآگے نہیں پڑھ پائی۔ دل نہیں لگا۔ لڑکی اپنی لپ اسٹک درست کرنے لگتی ہے جو زیادہ شوخ رنگ کی نہیں تھی اوراُس کی بھوری آنکھوں سے مطابقت رکھتی تھی۔ ڈاکٹرنے غیرارادی طورپر اپنے نچلے ہونٹ پر زبان پھیری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، مگریہ سب تو ناول ہیں۔ ناول میں ہوتا ہی کیا ہے۔ جھوٹ اور لفاظی کے علاوہ۔ اتنا جھوٹ بکتےہوئے اُن پر بجلی کیوں نہیں گرتی۔ ان سے وقت گزاری اور تفریح بازی کے علاوہ کوئی سنجیدہ مقصد نہیں حاصل ہو سکتا۔ آپ علمی اور تحقیقی کتابیں پڑھا کریں۔ دراصل مجھے لٹریچر کی کوئی سمجھ نہیں۔ آپ نے پوچھا تو بتا دیا۔ لڑکی نے کہا۔ ویسے آپ کو یہ ناول کیسے لگے تھے؟ ڈاکٹر نے پوچھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لڑکی بولی۔ وہی تو، وہی تو۔ ڈاکٹر خوش ہوکر کہنے لگا۔ اپ بجائے ناول پڑھنے کے ناول پر لکھی تنقیدی کتابیں پڑھ لیا کیجئے۔ اُن کو پڑھ کر آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ ناول نگار سے زیادہ احمق اورکوئی قوم نہیں ہوتی اورناول سے زیادہ فحش اور محذّب اخلاق کوئی شے نہیں ہوتی۔ چپراسی کافی کے دوکپ ٹر ے میں رکھے ہوئے داخل ہوا مگراُس کے پیچھے ایک نرس اور وارڈ بوائے بھی تھے۔ کیا بات ہے؟ ڈاکٹر نے پوچھا۔ ایک مریض اورچل بسا ہے۔ وارڈ کا ماحول بہت بگڑ گیا ہے۔ نرس نے جواب دیا۔ اوہ، اچھا! ٹھیک ہے۔ تم چلو، میں کافی ختم کرکے آتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا۔ نرس کنکھیوں سےلڑکی کی طرف دیکھتی ہوئی، وارڈ بوائے کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔
کیا میں بھی آپ کے ساتھ وارڈ میں چل سکتی ہوں؟ لڑکی نے پوچھا۔ میرے خیال میں شاید یہ مناسب نہ ہو۔ میڈیا کے لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ڈاکٹرنے بے چارگی کا اظہارکیا۔ میں بس میڈیا کی رپورٹر ہی ہوں؟ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے پتہ نہیں کس ترکیب سے اپنی آنکھیں اورخوبصورت اور نشیلی بنا لیں۔ اُس نے لپ اسٹک لگے ہوئے اپنے اُبھرے اُبھرے ہونٹ کچھ اس انداز میں آگے بڑھائے جس سے یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ وہ ڈاکٹر کو بوسہ دینا چاہتی ہے یا اُس کا بوسہ لینا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ اچھا میں کوشش کرتا ہوں۔ تم اپنا کیمرہ تو ساتھ نہیں لائی ہو؟ اس نے کہا۔ نہیں۔ یہ اچھا ہے۔ چلو پھر جلدی سے کافی ختم کریں۔ ڈاکٹر یہ کہتا ہوا کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے ہوئے اُٹھ کر میز کی دوسری طرف لڑکی کی کرسی کے قریب آگیا۔ لڑکی نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر کافی کا ایک لمبا گھونٹ لیا۔ ڈاکٹر نے اپنا کپ میز پر رکھ دیا۔ لڑکی نے بھی اپنا کپ میز پر رکھ دیا۔ لڑکی کے کپ پر لپ اسٹک کا نشان آگیا تھا۔ ڈاکٹرنے اُس نشان کو غورسے دیکھا۔ پھروہ لڑکی کے اور قریب آگیا۔
ایمرجنسی وارڈ کےاندر ایک عورت بُری طرح چیختی تھی، روتی تھی۔ اپنے سینے پر دو ہتھّر مارتی تھی۔ اُس کے تین سال کے معصوم بچے کی لاش ابھی بھی بیڈ پر موجود تھی۔ جس پر لال کمبل ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے برابر میں چار پلنگ اورپڑے ہوئے تھے۔ سامنے بھی، دوسری قطار میں پانچ پلنگوں پر مریض لیٹے ہوئے تھے۔ مگراس سے ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ایمرجنسی وارڈ میں صرف دس ہی مریض تھے۔ دراصل پلنگوں کی اورجگہ کی کمی ہونے کے باعث ایک پلنگ پر دو مریض لٹائے گئے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو وارد میں بیس افراد بھرتی تھے جن میں سے فی الحال ایک مرچکا تھا۔ مریضوں کی تعداد میں لگاتاراضافہ ہورہا تھا۔ چیف میڈیکل آفیسر کی ہدایت کے مطابق ان مریضوں کو صرف ایمرجنسی وارڈ میں ہی رکھا جاسکتا تھا۔ ان تمام مریضوں سے علیحدہ اورالگ جو دوسری بیماریوں اور دوسری وجوہات کی بنا پر اسپتال میں بھرتی تھے یا جن کے بھرتی ہونے کے امکانات تھے۔ دوسری طرف۔ شہر کے پرائیویٹ اسپتالوں اورنرسنگ ہوموں نے بھی ایسے کسی مریض کو اپنے یہاں بھرتی کرنے سے منع کردیا تھا۔جو لائف اپارٹمنٹس سے آئے ہوں مگراب تو ایسی خبریں بھی ملنی شروع ہو گئیں تھیں کہ یہ بیماری محض لائف اپارٹمنٹس تک ہی محدود نہیں رہ گئی تھی۔ صورتِ حال کی نزاکت اورسنگینی کو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی وارڈ کے باہر ایک طویل اور گوتھِک طرز کی بنی ہوئی تقریباً سنسان سی رہنے والی راہداری میں بھی مریضوں کے لیے پلنگ بچھا دیے گئے تھے۔ یہاں بھی ایک پلنگ پر دو مریض۔ دونوں مریضوں کے جسم میں چرھائی جانے والی گلوکوز اورسیلائن کی بوتلیں اور نلکیاں آپس میں اُلجھ اُلجھ جاتیں۔ ٹکراتی رہتیں۔ وہ تڑپتے اور بار بارپیٹ میں اُٹھنے والے بھیانک نا معلوم درد کے سبب سے ایک دوسرے کی طرف بے چین ہوکر کروٹیں بدلتے اورایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جاتے۔ اُن کے ہاتھوں اور پیروں کی اُنگلیاں ایک دوسرے کی انگلیوں میں پھنس پھنس جاتیں۔ انجکشن کے واسطے اُن کی کلائیوں اور پنڈلیوں میں پیوست سوئیاں بار بار بند ہو جاتیں۔ بوتلوں کی نلکیوں میں ہوا بھرجاتی جس کے سبب اُن کے جسم سے خون نکل نکل کر دوسروں کے کپڑوں اور چہروں پر لگ جایا کرتا۔ وہ درد سے بے حال ہوکر اس طرح چلّاتے جیسے ذبح ہوتے ہوئے جانور۔ کبھی کبھی تو کروٹیں لینے میں وہ پلنگ سے نیچے بھی گرجایا کرتے اوراُن کے جسم کے کسی حصے کی ہڈی ٹوٹ جایا کرتی۔ وہ اپنی دیکھ بھال کرنے والے تیمارداروں کے بس میں نہ آتے تھے۔ یوں بھی وارڈ میں ایک مریض کے ساتھ صرف ایک تیماردار ہی رہ سکتا تھا۔ کبھی کبھی بات بے بات پر ایک پلنگ کے دونوں طرف کھڑے تیماردار ایک دوسرے سے لڑنا بھی شروع کردیتے تھے۔
اِن بد نصیب مریضوں کو کسی حال چین نہ تھا۔ اُن پر نہ تو درد کم کرنے کے انجکشن اثرکرتے اورنہ ہی نیند لانے والے انجکشن۔ وارڈ میں بے حد گندگی پھیلی ہوئی تھی اور بے حد سڑاندھ بھی۔ وارڈ کا تمام عملہ اگرچہ ماسک لگائے ہوئے تھا اور دستانے پہنے ہوئے تھا، پھر بھی بدبوتھی کہ چلی آتی تھی۔ وہ ماسک کے باریک ریشوں کی دیوار کو توڑ دیتی تھی اورناک میں دُرّانہ وار گھسی آتی تھی۔ ناک بند کرلینے اورسانس روک لینے پربھی اس بدبو کی آہٹ کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بے چارے صفائی کے عملے پر شاید ہی کبھی اس سے زیادہ برا وقت پڑا ہو۔ اُن کےدستانے ہر وقت خون ملی ہوئی اُلٹیوں اور زردگندگی سے آلودہ رہتے تھے۔ اُن کی بالٹیاں اس گندگی سے لبالب بھرچکی تھیں مگراب اسپتال میں ایسی کوئی جگہ بھی باقی نہیں بچی تھی جہاں یہ بالٹیاں خالی کی جاسکتیں۔ فنائل اور ڈیٹول کا اسٹاک ختم ہوچکا تھا۔ صابن اورپونچھے کے کپڑے اب باقی نہ رہے تھے۔
وہ سب چلا رہے تھے۔ مریض ہی نہیں، لاشوں کے وارث ہی نہیں بلکہ وارڈ بوائے، صفائی کا کام کرنے والے اور نرسیں تک سب حیوانوں کی طرح چیخ رہے تھے مگرپھربھی ہر ایک کی چیخ پرایک خاموشی حاوی تھی۔ لاشوں کی خاموشی اورموت کے سناٹے نے وہاں عورتوں کے بَین کو بھی ایک کمزور آواز میں بدل کرکے رکھ دیا۔ جب تین سال کے اُس بچے کی لاش کو بستر سے اُٹھا کر باہر لایاجانے لگا تواس پلنگ پراُس کے برابر لیٹے ہوئے ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے مردہ بچے کے لال کمبل کو پوری طاقت کے ساتھ پکڑ لیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بچے کی لاش وہاں سے ہٹائی جائے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ایسا وقت بھی آسکتا ہے۔ جب لاشیں زندوں کو خوف زدہ کرنے کے بجائے اُن کی ڈھارس بندھاتی پھریں۔ خاص طورپر وہ زندے جن کے جلد ہی لاشوں میں تبدیل ہونے کے ا مکانات ہوں اس کوشش میں بچے کے گلے میں پڑی ہوئی، تعویذ کی کالی ڈوری ادھیڑ عمر شخص کے ہاتھ میں پھنس گئی۔ بچے کی ماں دلخراش چیخیں مار رہی تھی۔ جب وارڈ بوائے نے کسی نہ کسی طرح بچے کی لاش کو اُٹھا کر باہراسٹریچر پر ڈال دیا تو ماں اُس کےپیچھےپیچھے اس طرح بھاگ رہی تھی جیسے بلی اپنے بچے کو خطرے میں دیکھ کر اُسے بچانے کے لیے دیوانہ وار بھاگتی ہے۔ وارڈ کے باہر پھیلا ہوا پیلا غبار اُسی طرح اپنی جگہ قائم تھا۔ وہ وارڈ کے شیشوں سے چھن چھن کراپنا عکس مریضوں اوراُن کے بستروں پر ڈال رہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ سب یرقان زدہ نظرآتے تھے۔ اُن کے بستروں کی سفید چادریں تک زرد دکھائی دیتی تھیں۔ پورا شہر بخار کے اس غبار میں جل رہا ہے اور کپکپا رہا ہے۔ بخار کا یہ منحوس بادل، یہ پیلا مٹیالا بادل، اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ اِدھر اُدھر جنبش تک نہیں کرتا۔ آسمان اِس زرد دھند کے بادل میں منڈھ کررہ گیا ہے۔ اس بادل میں جراثیم ہی جراثیم ہیں۔ کالے سفید کپڑے پہنے ہوئے،کریہہ بدصورت جوکروں کی طرح ایک دوسرے کے منھ پر طمانچے مارتے ہوئے۔ وائرس اور جراثیم بھیس بدل بدل کرآتے ہوئے جاتے ہوئے۔ وہ انسان کو کسی درخت، گھاس یا پودے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ کچھ بھی نہیں۔
سنہری فریم کا چشمہ لگائے اُس خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے اپنے چہرے پر ماسک لگا لیا ہے اورہاتھوں مین دستانے پہن لیے ہیں۔ وارڈ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی اُسے چکر آنے لگا ہے۔ نوجوان ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کررہا ہے۔ وہ ڈیوٹی پر موجود جونیئر ڈاکٹرسے پوچھتا ہے۔ مریضوں کے ناخن آپ نے دیکھے؟ یس سر، جونیئر ڈاکٹر نے جواب دیا۔ کوئی خاص بات نوٹ کی آپ نے؟ جونیئر ڈاکٹر تھوگ نگل کر رہ جاتاہے۔ سب کے ناخن ٹیڑھے ہوکر اوپر کی طرف مڑرہے ہیں۔ نوجوان ڈاکٹرنے فاتحانہ نظروں سے لڑکی کی طرف دیکھا جو گھبرائی ہوئی نظرآرہی ہے۔ اوہ یس سر، یس سر۔ جونیئر ڈاکٹرنے جوا ب دیا۔ بچے کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے جائے گی اور اب تک جتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اُن کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں سی۔ایم۔او۔ صاحب کے دستخط کے ساتھ فوری طورپر انسٹی ٹیوٹ آف وایرلوجی او رمائیکروبیالوجی سینٹر کو روانہ کی جائیں گی۔ کیا سمجھے۔ جی سر۔ جونیئر ڈاکٹر نے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ناخنوں کا ٹیڑھا ہونا پُراسرار ہے۔ یہ صرف مہلک قسم کے زہر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگریہ بیکٹیریا ہے تو بھی اور وائرس ہے تو بھی۔ مگرناخن ٹیڑھے نہیں ہو سکتے اور دیکھئے یہ پیلے پڑکر ٹیڑھے ہورہے ہیں۔ پیلے ہی ہو رہے ہیں یا خون کی کمی ہے یا اس کمبخت پیلی دُھند کا ان پر عکس پڑرہا ہے۔ یہ پیلی آندھی یہاں آکر کب سے رُکی کھری ہے۔ اس نے تو یہیں خیمہ ڈال لیا ہے اوروہاں سنئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسی کو لوجی کو بھی رپورٹ بھیجئے۔ ڈاکٹر نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ نرس دوڑتی ہوئی آئی۔ سر، وہ اُدھر باہر راہداری میں ایک کی حالت بگڑرہی ہے۔ دونوں ڈاکٹر اور نرس راہداری میں آتے ہیں۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی پیچھے ہے۔
اٹھارہ اُنیس سال کے ایک نوجوان کے منھ سے خون کی لکیر بہتی ہوئی ٹھوڑی تک آرہی ہے۔ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ گئی ہیں۔ وہ بے ہوش ہے یا پھر مررہا ہے۔ بلڈ پریشر ناپا کتنا ہے؟ ڈاکٹر نے نرس سے پوچھا۔ 160/300۔ یہ بہت ہے۔ دماغ کی رگ پھٹ گئی۔ یہ دیکھئے اس کے بھی ناخنوں کا وہی حال ہے۔ ٹیرھےہوکر آسمان کی طرف جارہے ہیں۔ ڈاکٹر مریض پر جھکتا ہوا کہتا ہے۔ مجھے بچالو، ارے کوئی مجھے بچا لو۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ اِسی بیڈ پر نوجوان کے برابر میں لیٹا ہوا ایک سِن رسیدہ داڑھی والا آدمی رو رو کر کہنے لگا۔ روئی لاؤ، خون صاف کرو۔ جوان آدمی ہے، بہت خون باہر آئے گا۔ روئی کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے ڈاکٹر۔ نرس کہتی ہے۔ باہر سے منگواؤ۔ جی ڈاکٹر۔ آرڈر دے دیا گیا ہے مگر سپلائی نہیں ہو پارہی ہے۔ تو کوئی کپڑا لاؤ۔ پٹی لاؤ۔ اب ناک سے بھی خون نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ نوجوان کے منھ اور ناک سے بہتا ہوا خون، برابر میں لیٹے ہوئے سِن رسیدہ داڑھی والے شخص کی پسلیوں کو بھگونے لگا۔ اُس نے گھبرا کر دوسری طرف کروٹ لینی چاہی تو اسٹینڈ پر لگی ہوئی گلوکوز کی بوتل نکل کر فرش پر گر کرٹوٹ گئی۔ اس زبردست جھٹکے باعث سوئی بھی اُس کی کلائی سے نکل کر گوشت پھاڑتی ہوئی، دونوں مریضوں کے سروں پر ڈولنے لگی۔ کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ اب داڑھی والے کی کلائی سے بھی خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ بسترکی سفید چادرمیں اُن دونوں کے خون گھل مل کررہ گئے۔
مجھے چکر آرہا ہے، سارا جسم سُن ہوگیا ہے۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی دھیرے سے کہتی ہے۔ بس یہاں سے نکل رہے ہیں۔ مجھے سی۔ ایم۔او۔ سے ملنا ہے۔ ڈاکٹرنے بھی بہت آہستہ سے جواب دیا۔ پھر بلند لہجے میں نرس سے کہا۔ اسپتال میں خون تو وافر مقدار میں موجود ہے۔ جی نہیں سر، اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ میڈیکل ایسوسی ایشن کے بلڈ بینک سے منگواؤ۔ ڈاکٹرنے برہمی کے ساتھ کہا۔ جی سر، وہاں بھی اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔
اسپتال کی راہداری سے نکل کر، وہ نیچے اُترنے والی سیڑھیاں طے کرتے ہیں۔ آخری سیڑھی پر پہنچ کر لڑکی کا پیر پھسلتا ہے۔ ڈاکٹر اُسے سہارا دیتے ہوئے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ یہ چیف میڈیکل آفیسر کے بنگلے تک جانے والا ایک شارٹ ہے۔ درختوں سے گھرا ہوا یک سنسان راستہ۔ پیڑوں پر بیٹھے ہوئے کچھ کوّے، اُن کے سروں پر کائیں کائیں کررہے ہیں۔ ادھر کوئی آتا جاتا نظر نہیں آتا۔ بائیں طرف مڑکر اسٹاف کے چند چھوٹے چھوٹے کوارٹر ہیں جن کی طرف عورت دودھ کی بالٹی لیے ہوئے جا رہی ہے۔ ایک بھوری بلی نے اُن کا راست کاٹا ہے۔ سامنے گھنے درختوں کا ایک جھنڈ ہے جس کے عقب میں تھوڑے فاصلےپر اسپتال کا وہ پچھلا چھوٹا سا گیٹ ہے جو مقررہ وقت میں صرف اسٹاف کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کے نیچے پہنچ کر، اچانک ڈاکٹر، لڑکی کو پوری طاقت کے ساتھ اپنی بانہوں میں جکڑ لیتا ہے۔ وہ لڑکی کے ہونٹوں کا بوسہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لڑکی اپنا سر پیچھے کی طرف کرتی ہے۔ ڈاکٹر کی لمبی ناک کا بانسہ لڑکی کے چشمے سے ٹکراتا ہے۔ چشمہ آنکھوں سے پھسل کر زمین پر گرجاتا ہے۔ وہ چشمہ اُٹھانے کے لیے نیچے جھکتی ہے تو اُس کے گہرے کٹاؤ والے جمپر میں سے چھوٹے چھوٹے پستان اپنی آدھی جھلک دکھانے لگتےہیں۔ ڈاکٹراُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر، اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہئوے اپنے ہونٹ اُس کے سینے کے قریب لے آتا ہے۔ پیڑوں پر بیٹھے کوے زور زور سے بولتے ہیں۔
نہیں، آج نہیں۔ مجھے اُلٹی آرہی ہے۔ بہت زور کی اُلٹی۔ لڑکی گھبرائی اور کانپتی ہوئی آواز میں دوبارہ کہتی ہے۔ میرا جی مِتلا رہا ہے۔ وہ وہیں زمین پر اُکڑوں بیٹھ جاتی ہے اور سرجھکا کر قے کرنے کوشش میں اُبکائیاں لیتی ہوئی کھانسنے لگتی ہے۔ ڈاکٹر اُس کی پیٹھ سہلانے لگتا ہے اوراُس کے بریزیئر کےسخت ہُک کو بھی۔ میں نے سخت منع کیا تھا وارد میں جانے کو۔ عام آدمی یہ سب برداشت نہیں کرسکتا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤ گی۔ نہیں زبردستی اُبکائیاں مت لو۔ حلق چھل جائے گا۔ ڈاکٹر کہتا ہے اوراپنی پتلون کی جیب میں سے وٹامن سی کی گولیاں نکالتا ہے۔ لویہ دو گولیاں منھ میں رکھ لو اور گہری سانسیں لو۔
کچھ دیر بعد لڑکی اُٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ پسینے سے اُس کا چہرہ بھیگا ہوا ہے اور لپ اسٹک بگڑ گئی ہے۔ جسے وہ ٹھیک کرتی ہوئی کہتی ہے۔ میں جاؤں؟ اچھا ٹھیک ہے، میں اپنی کارسے تمہیں چھوڑ دیتا مگرآج سی۔ ایم۔او۔ کے یہاں ضروری میٹنگ ہے۔ ابھی تمام ڈاکٹروں کو اس میں شرکت کرنا ہے۔ ڈاکٹرکہتا ہے۔ نہیں شکریہ، میں چلی جاؤں گی۔ کل کافی پینے کہیں باہر چلتے ہیں۔ دو بجے کے بعد میری ڈیوٹی ختم ہوجائے گی۔ ڈاکٹر مسکرا کر کہتاہے۔ میں فون پر بتادوں گی، رات میں اوکے۔ اور ہاں وہ سوزن سوتانگ کی کتاب لینے گھرکب آؤ گی؟ جلد ہی آؤں گی۔ کتاب کا نام یاد ہے نا؟ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔ Illness as Metaphor لڑکی جواب دیتی ہے۔
لڑکی اسپتال کےپچھلے دروازے سے باہر چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر چیف میڈیکل آفیسر کے بنگلے کی جانب قدم بڑھانے لگتا ہے۔ اُس کا سفید کوٹ، اچانک نہ جانے کہاں سے بھٹک آئے ہوئے ہوا کے ایک جھونکے سے لہرانے لگتا ہے۔ صرف ایک پَل کے لیے۔ شاید وہ جھونکا ایک دھوکہ تھا۔ پیلے غبار نے سورج کو پوری طرح ڈھک لیا ہے۔ دھند کچھ اور گاڑھی ہوئی ہے۔ غبار میں کچھ نئی پرتیں شامل ہوئی ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ کے علاوہ ہر طرف خاموشی ہے۔ دوسرے قسم کے مریض یہاں آنے سے ڈر رہے ہیں۔ جب بھری دوپہر میں یہ سناٹا ہے تو شام ڈھل جانے کے بعد یہاں کیسا لگے گا۔ رات میں جب اسپتال کی رابداریوں میں کتےگھومیں گے اور آوارہ بلیاں روئیں گی۔ وہ اُس موت کو دیکھ کر روئیں گی جو وہاں آرام سے چہل قدمی کررہی ہے۔ انسان مگرموت سے ڈرتے تو ہیں مگراُس کے قدموں کی حقیقی چاپ نہیں سن سکتے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...