سورج کی روشنی دھیرے دھیرے افق سے پھوٹنے لگی تھی۔ ملگجا سا اندھیرا اب بھی موجود تھا ، چڑیائیں چہچہا کر صبح ہونے کا پتہ دے رہی تھیں۔ پودوں میں لگے پھول دھیرے سے کھلنے لگے تھے۔ چہارسوں پھیلے سرسوں کے کھیت ، دور دور بنے کچی مٹی کے مکان اور ان مکانوں سے اٹھتا دھواں وہاں دن شروع ہوجانے کا پتہ دے رہا تھا،
گلابی آنچل اوڑھے وہ لڑکی سرسوں کے کھیت میں بھاگتی ہوئ پگڈنڈی پہ قدم لڑکھڑانے سے بچانے کو کبھی کبھی ہاتھوں کو ہوا میں اونچا کرکے اپنا توازن برقرار کر رہی تھی۔
” میرب رک “۔ پیچھے سے اسکے پیچھے دوڑتا وہ لڑکا اسے مزید تیزی سے بھاگنے پہ مجبور کر رہا تھا۔
” میں نہیں رکنے والی ، خبیث انسان”۔ وہ بھاگتی ہوئ پھولی ہوئ سانسوں سمیت بولی۔
” سن میرب میری بات تو سن لے”۔ اسنے اسکے پیچھے بھاگتے کہا۔
” میں نہیں رکونگی اتنی پاگل تھوڑی ہوں”۔ اسنے سلگ کر کہتے جیسے ہی قدم سڑک پہ رکھے اسکا پیر مڑا وہ گری پر ہمت کرکے وہ دوبارہ اٹھی تھی۔ اونچی نیچی سڑک پہ بھاگتے بھاگتے اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا وہ اب اسکے پیچھے نہیں تھا بھاگنا اسنے اب بھی نہیں چھوڑا تھا کہ یکدم اسکا نازک وجود کسی فولادی وجود سے ٹکرایا ڈر و خوف کے مارے اسکے حلق سے چیخ بر آمد ہوئ، اسکے چیخنے پہ مقابل کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا تھا۔
” چیخو مت”۔ اسنے اسے خود سے دور جھٹک کر کہا۔
” جی معافی ۔۔ “۔ اسنے سر پہ آنچل درست کرکے سائڈ سے نکل جانا چاہا کہ مقابل کی آواز پہ وہ رکی۔
” اتنی صبح تن تنہا اکیلی عورت کھیتوں سے نکل کر بھاگتی آرہی ہو لڑکی۔۔!!! کیا کرنے گئ تھیں”۔ اسنے کرخت لہجہ میں پوچھا۔
اسکی بات کا مفہوم سمجھتے میرب کے تو سر پہ لگی اور تلوں پہ بجھی۔
” کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ”۔ اسنے سلگ کر اسکے مقابل آتے کہا۔
” وہی جو تم کرکے آرہی ہو”۔ وہی سرد بے تاثر لہجہ۔
” آپ ہوتے کون ہے مجھ پہ اتنا گھٹیا الزام لگانے والے”۔ میرب نے مقابل کھڑے شخص کو جلتی آنکھوں سے گھورا۔
” اس گاؤں کا اگلا سردار”۔ اسنے گردن اکڑا کر کہا۔
” گاؤں کے اگلے سرادر ہیں تو سرداروں والی حرکت کریں ایسی گری ہوئ باتیں اکثر شخصیت بھی گرا دیتی ہیں”۔ اسنے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
بہروز چوہدری کی آنکھیں تعجب سے سے پھیلی تھیں۔ وہ تو اس لڑکی کو کوئ عام لڑکی سمجھ رہے تھے ، پر شاید یہ عام دکھنے والی لڑکی بے حد خاص انداز و اتوار رکھتی تھی۔ جسکا اندازہ انہیں بخوبی ہوچکا تھا۔
” بہت خوب “۔ اسنے آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیئے کہا۔
اسنے اسکی بات پہ آنکھیں گھمائ اسنے قدم ایک بار پھر آگے بڑھانے چاہے تھے کہ وہ اسکی آواز سن کر رکی۔
” دن کا اجالا بھی مکمل نہیں نکلا ، اور تم جوان جہاں لڑکی گھر سے باہر نکلی پھر رہی ہو”۔ اسنے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
” یہ۔۔۔۔ آپلے لینے اماں نے بھیجا تھا”۔ وہ تنک کر واپس اسکے مقابل آئ ہاتھ میں پکڑے آپلوں کا تھیلا اسکی آنکھوں کے پاس لے جا کر لہرایا۔
” کیا تمہاری اماں کو خبر نہیں ہوئ کہ تم حسین ہو جوان ہو تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے”۔ وہ اسے بغور تکتے بولا۔
تو غصہ سے اسکے نتھنے پھول گئے۔ اور وہ بنا مزید کچھ کہے اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا گئ۔
♡♡♡♡♡
زمینوں پہ چلتا جھگڑا دو سرداروں کا تھا پر انکے ساتھ جمع ہوئے لوگ بنا اپنے کسی مفاد کے محض تفریح کا سامان کرنے اپنے گھروں سے نکل کر اپنے پسندیدہ سرداروں کی ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔
دونوں اطراف ایک دوسرے پہ بندوقیں تانے کھڑے وہ تمام لوگ محض تفریح کا سامان کر رہے تھے پر کون جانتا تھا کہ کب نجانے کیسے تفریح کا سامان کرتے کیسے یہاں ماتم کا سماں بن جانا تھا۔
ایک ہفتہ سے زمین پہ چلتا جھگڑا عروج پہ تھا۔ اور کہتے ہیں ناں ہر عروج کو زوال ہے۔ چوہدری مرزا حسین کے دونوں بیٹے بھی وہاں موجود تھے یکدم جنگ نے زور پکڑا معاملہ گرم ہوا اور سب کی بندوقیں ایک دوسرے پہ تن گئیں۔
مخالف پارٹی سے ایک بندہ سامنے نکل کر آیا چوہدری افراسیاب جو کے سولہ سترہ سالہ نو عمر لڑکا تھا۔ اسنے مخالف پارٹی کے ایک شخص کو بندوق تانے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ یکدم ڈر کر بھاگا۔ پر وہ شخص نا رکا اسنے اسکے کندھے پہ گولی چلائ ، گولی سیدھا کندھے پہ لگی وہ نو عمر لڑکا تڑپ کر نیچے بیٹھا، بندوق تھامے کھڑے بندے نے ایک اور گولی سیدھا اسکے سینے پہ دل کے مقام پہ اتاری تو یکدم وہ غش کھا کر زمین پہ سجدہ ریز ہوگیا۔ چوہدری بہروز کی نظر جیسے ہی اسکے وجود پہ پڑی وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا پر شاید تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ دوسری پارٹی کے تمام فریق بھاگ چکے تھے۔ چوہدری بہروز نے اپنے چھوٹے بھائ کو گود میں اٹھایا پاگلوں کی طرح وہ اسے اسپتال کے لیئے لے کر بھاگا تھا۔ پر اسپتال پہنچنے تک وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ چودھریوں کی حویلی پہ مانوں غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ مخالف پارٹی کے تمام لوگ بھاگ چکے تھے وہ تمام مرد علاقہ ہی چھوڑ کر بھاگ چکے تھے رہ گئ تھیں تو محض انکی عورتیں ، جس شخص نے گولی چلائی تھی، اس شخص کو سب لوگ جانتے تھے وہ انکے گاؤں کا ہی تو بندہ تھا۔ حیات عالم ایک عام کسان
تھا پر ایک عام سے کسان کی ایک جرآت اسے کتنی بھاری پڑنے والی تھی شاید اس بات سے وہ کسان بے خبر تھا۔
وہی ہوا جو ایسے علاقوں میں ہوتا تھا۔ پولیس آئ اپنے علاقے کا معاملہ کہہ کر انہیں چلتا کردیا۔ اور پھر جرگہ بٹھایا گیا ، جرگہ میں حیات عالم کی بیوی کو بلایا گیا ، جرگہ میں پیسوں یا پھر ونی خون بہا کو رکھا گیا۔ جس میں سے چوہدریوں نے خون بہا کا انتخاب کیا کیونکہ انکے بھائ اتنا ارزاں تھوڑی تھا کہ اسکا قتل چند نوٹوں کے واسطے معاف کردیتے۔
خون بہا میں حیات عالم کی بیٹی میرب حیات عالم کو ونی کر دیا گیا میرب حیات عالم کا نکاح چوہدری بہروز سے کر دیا گیا۔ اور پھر ایک بار پھر وہی خون بہا کی داستان شروع ہوگئ جو شاید ان جاگیرداروں کے ہاں برسوں سے چلتی آرہی تھی۔
” نام کیا ہے تمہارا”۔ میرب کے سامنے بیٹھی سفید دوپٹے کے ہالے میں بیٹھی پرشفیق عورت نے نرم لہجہ میں پوچھا۔
” میرب”۔ اسنے دھیرے سے کہا۔
” بڑا پیارا نام ہے “۔ انہوں نے نم آنکھوں سے کہا۔
” شنو”۔ اماں جی نے شنو کو آواز لگائی جو کسی بوتل کے جن کی مانند وارد ہوئ۔
” جی اماں جی”۔ اسنے سعدت مندی سے سر جھکا کر کہا۔
” اسے بہروز کے کمرے میں لے جاؤ “۔ انہوں نے شنو کو دیکھ اسی نرم لہجہ میں کہا۔
” جی اماں جی”۔ سعادت مندی کی حدود پار کرتے شنو نے میرب کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا وہ خاموشی سے اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
ایک کمرے کے دروازے کے پاس رک کر شنو نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اندر چلی گئی۔
اندر گھستے ہی اسنے گہرا سانس لیا اور سامنے پڑے دیوان پہ جا بیٹھی ، اسے کچھ تسلی ہوئی تھی نہیں تو وہ بہت خوفزدہ ہوچکی تھی۔ پر ضروری نہیں تھا کہ ہر کوئی اس سے نرمی کا برتاؤ کرتا۔ یہ سوچ کر ہی اسکی کالی سیاہ آنکھوں میں آنسو چمکے۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
وہ گہری نیند میں غرق تھی کے یکدم کسی نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا،
” ہمت کیسے ہوئ تمہاری یہاں اتنے سکون سے سونے کی ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرکے سکون سے تو میں تمہیں بھی نہیں رہنے دونگا”۔ وہ اسے بازو سے کھینچ کر اٹھاتا اسپہ جھکا غصہ سے چیخ رہا تھا۔ اسے اسکی سرخ آنکھیں دیکھ یکدم خوف آیا خشک ہوتے لبوں کو تر کرتے اسنے کچھ کہنے کے کیلیئے منہ کھولنا ہی چاہا کہ اسکے اگلے الفاظ اسکا دماغ گھوما گئے تھے۔
” تم جیسے گھٹیا لوگ میں جانتا ہوں تم کس گھٹیا باپ کی گندی اولاد ہو”۔ وہ تو مانوں اسکے کانوں میں سیسہ انڈیل گیا تھا۔
” ہمت کیسے ہوئی میرے باپ کے بارے میں یا میرے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی”۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر سرکش لہجہ میں کہتی اسے مزید سلگا گئی تھی۔
” جیسے ہوتی ہے ویسے ہی ہوئ ہے ہمت اور تم کون ہوتی ہو مجھے میری ہمت کا بتانے والی غلام ہو تم ہماری ونی ہو تم تمہاری اتنی لمبی زبان مشکل میں ڈال دیگی تمہیں”۔ وہ اسکے بال مٹھی میں دبوچتا حقارت سے بولا۔
” اگر آپ سوچ رہے ہیں ناں کہ میں ڈر جاؤں گی اور آپکی کسی غلط بات کو برداشت کرونگی تو یہ آپ کی سوچ ہے”۔ وہ اب بھی باز نا آئ تھی۔ وہ اسکی ہمت دیکھ تمسخر سے ہنسا تھا۔
” بہت دیکھی ہیں تم جیسی دو دو کوڑی کی عورتیں”۔ وہ اسکے بالوں کو مزید سختی سے دبوچتا نفرت آمیز لہجہ میں بولا۔
” دیکھی ہونگی پر میرب حیات نہیں ہونگی “۔ وہ اسکی گرفت سے اپنے بال آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
” زبان کو لگام دو اپنی”۔ اسنے اسکے چہرے پہ اپنی پانچوں انگلیاں چھاپ دیں۔ میرب کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا۔
” نہیں دونگی”۔ ضدی تو وہ بھی صدا کی تھی۔
” اگر اس زبان کو لگام نا دی ناں تو بہت پشتاؤ گی”۔ وہ اسے گردن سے دبوچتا بولا۔
” اگر میں نے غلط کو غلط نا کہا ناں خاموشی سے ظلم سہتی رہی تو اور بھی پشتاوا ہوگا”۔ وہ بہ مشکل بولی۔ اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا اب تو اسے سانس لینے میں بھی دکت ہورہی تھی کے مقابل نے ایک جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑ دی۔ وہ کھانستے ہوئے اسکے پاس سے اٹھی تھی وہ بیڈ پہ اسکے بے حد قریب بیٹھا تھا ، اور اسکی قربت میرب حیات کو کسی صورت منظور نہیں تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...