The more violent the strom the quicker it passes (Paulo ceolho)
پامیر کے دل پر خوف کے سائے منڈلا رہے تھے مگر ارج کی خوشی کی خاطر ساتھ چلنے کو تیار تھا آئس کریم کھانے کی فرمائش کی تو وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا
” ارج یہ کوئی کھانے کی چیز ہے” پامیر نے ارج کی ضد کی وجہ سے کہا
تو تم مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ۔میں خود ہی آئندہ سے چلی جایا کروں گی ۔ ارج نے کہا
پامیر بیچارہ تو بات کر کے پچھتا یا تھا
"اچھا اچھا!! اب آ ہی گئے ہیں تو چلو کھا لیتے ہیں” وہ لوگ آئس کریم کھانے کے بعد یوں ہی باہر بیٹھے ہوئے تھے
” کتنا اچھا موسم ہو رہا ہے نا” ارج نے آسمان پر بادل دیکھ کر کہا
"ہاں ٹھیک کہا بہت خوبصورت ہو رہا ہے” ارج کی طرف محبت سے دیکھ کر بولا
ویسے اچھے لوگ ساتھ ہون تو ہر چیز ہی اچھی لگتی ہے ۔پامیر بھنویں اچکا کر بولا
اچھا !! دیکھ میری طرف رہے ہیں اور کہہ اس کو خوبصورت رہے ہیں "ارج نے اپنے دانت باہر نکالتے ہوئے کہا
اب زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے پامیر ارج کے دانت نکالنے چھڑا تھا لیکن پھر مسکرانے لگا دونوں کافی دیر یہاں کی باتیں کرتے رہیں رات گہری ہوگی اپنی گھر کی طرف چل دیئے
پامیر اور ارج دونوں کو آج جلدی جانا تھا ۔ تاکہ وہ وقت پر پہنچ سکے کیونکہ وہ آرزو صاحبہ کے گھر میں رہتے تھے تو یہاں سے بیکری اور لائبریری کچھ دور تھیں تو کافی دیر ہو رہی تھی
"اٹھو جلدی کرو ” عامر غصّے میں بولا آج کافی دیر ہو گئی تھی رات کو دیر سے آنے کی وجہ سے ۔ جب وہ گلی میں داخل ہوئے تو پامیر کو کچھ جاننے والا مل گیا گیا۔اس سے مل کے اور اس نے جلدی جلدی اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے ایک نظر پامیر نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ارج جاچکی تھی
”کم سے کم یہ لڑکی میرا انتظار ہی کر لیتی پر اس سے کسی اچھی چیز کی توقع نہیں جاسکتی ” اس نے چلتے ہوئے ایک نظر بیکری کی طرف دیکھا تھا اور پھر واپس لائبریری کے اندر داخل ہو گیا
دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو پامیر نے کچھ دیر کے لیے لائبریری بند کی اور اور بیکری کی طرف بڑھاجہاں عفت کام کرنے کرنے میں مشغول تھی
"ارج کہاں پر ہے ” اس نے ارج کو تلاشتے ہوئےکہا
ارج تو نہیں ہے ادھر عفت کھبرا تے ہوئے بولی
‘”تو پھر کہا ں ہے ؟”
غصہ تو بہت آیا کب سے اس لڑکی کو کہہ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ہی جایا کرے باہر پر اس کے کان پر جوں نہیں رینگنے والی اور غصے سے عفت کے جواب کا منتظر تھا
ارج تو آج آئی ہی نہیں ہے میں صبح سے فون پر ٹرائی کر رہی ہو ں ۔لیکن ایک بھی بار اس نے اپنا فون نہیں اٹھایا” عفت نے پامیر کو مطلع کیا تھا
” ایسا کیسے ہو سکتا ہے میں نے۔ میں نے خود اس کو صبح ہی بیکری کے باہر چھوڑا تھا ” پامیر نے ڈوبتے دل کے ساتھ کہا
"پامیر بھائی میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی میں صبح سے اس کا انتظار کر رہی ہوں لیکن وہ نہیں آئی ہے "عفت پامیر کی بات سن کر پریشان ہوتے ہوئے بولی
” آخر ایسا ہو کیسے سکتا ہے میں صبح اس کو خود یہاں پر چھوڑ کر گیا تھا وہاں سے غائب کیسے ہوسکتی ہے "پامیر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور جیب سے موبائل نکالا اور کسی کو فون ملانے لگا
"میں نے تم سے کہا تھا کہ اس پر پاس نظر رکھو لیکن شائد تمھیں میری بات سمجھ نہیں آئی میری بیوی نہیں مل رہی ہے پتا نہیں کہاں گئی ہے نہیں میں نے کسی اور کو کال نہیں کیا ابھی میں کسی سے پوچھ کر سکتا ہوں میں ” ایک دم سے فون بند کیا اور پھر کسی اور کو فون کرنے کے بارے میں سوچا لیکن یہاں پر ایسا کوئی بھی نہیں تھا جس کو ارج جانتی ہو وہ واپس لائبریری کی طرف آیا
” عمر کہاں پر ہو بھئی جلدی آؤ ” وہ اونچی آواز میں چلا رہا تھا سب لوگ اس کو دیکھ رہے تھے جیسے کو پاگل ہو
” جی بھائی کیا ہوا ہے؟” عمر پریشانی کے ساتھ اور تیزی سے چلتا ہوا باہر کی طرف آیا
عمر اس کی شکل دیکھ کر پریشان ہوا
” پتہ نہیں عمر ارج کا صبح سے کچھ پتہ نہیں لگ رہا میں نے اسے خود بیکری کے باہر چھوڑا تھا لیکن اب عفت کہ رہی ہے کہ وہ آئی ہی نہیں ہے آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے ہے” وہ پریشانی میں بولے جا رہا تھا ٹی کبھی ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا
بھائی آپ آرام سے بیٹھ جائیں اس طرح پریشان ہونے سے مسائل حل نہیں ہونگے ہم دیکھتے ہیں کیا کر سکتے ہیں پولیس کو فون کرتے ہیں لیکن اس طرح کچھ بھی نہیں ہونے والا” عمر نے اس اور آرام سے بیٹھنے کی تلقین کی اور فون ملانے لگا
نہیں نہیں فون مت کرنا میں میں کسی اور کو فون کرتا ہوں میں جانتا ہوں وہ کچھ مدد کر سکتے ہیں” اس نے جلدی سے عمر کے ہاتھ سے فون لیا اور پھر کسی اور کو فون ملانے والا
میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے پوری طرح سے کوور کرنا لیکن شاید تم لوگ یہ نہیں کر پائے اب میری بیوی غائب ہے اور اس کا کچھ پتہ نہیں لگ رہا تم لوگوں میری مدد نہیں کر سکتے تھے تو مجھے پہلے بتادیتے میں خودی ہی کچھ کر لیتا ارج کم سے کم میرے پاس ہوتی "پامیر کچھ دیر کے لئے رکا اور آس پاس دیکھا سب لوگ اسے ہی دیکھ رہے تھے
” عمر لائبریری بند کر دو تین تک لائبریری بھی نہیں کھلے گی۔”یہ کہ کر فون پر واپس متوجہ ہو گیا
کب تک ٹھیک ہے میں پھر بات کرتا ہوں ہو ان لوگوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے وہ جانتے نہیں میں سرپنٹ رہا ہوں ہو اب وہ میرا روپ دیکھیں گے میں نے چن چن کر ماروں گا اور یہ تم اکیلے نہیں کروگے میں تمہارے ساتھ جاؤں گا”. فون پر بات کر کے کچھ دیر کے لئے رکا اور پھر اس نے نے فون بند کر دیا .
ارج بیکر ی کی طرف جا رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے رومال رکھ کر اس کا سانس روکا ۔
"چھوڑو !چھوڑو مجھے "اس نے کہنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس بند ہو رہی تھی اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی
جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک اندھیرے کمرے میں بند تھی اور اتنا اندھیرا اور تاریکی تھی کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کسی چیز کے سر سرانے کی آواز آئے ۔تو وہ چیخ پڑی ۔شائد کوئی کیڑا تھا ۔کوئی کال کوٹھری لگ رہی تھی ۔
” میں کہاں ہون میں” وہ مشکل بولی شائد اسے مارا پیٹا بھی گیا تھا اس کے سر پر کافی درد ہو رہا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی کی پیچھے سے روشنی کی چھوٹی سی کرن اندر داخل ہوئی اور ساتھ میں کوئی اور بھی .جس نے ماسک پہنا ہوا تھااس تھوڑی سی روشنی میں اس کو پتا لگا تھا
” کون ہو تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو کیا کیا ہے میں نے تم لوگوں کے ساتھ لیکن جواب نادرا ت تھا اور تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی
"ڈارلنگ !! تم نے کچھ نہیں بگاڑا نا تمھیں کچھ کہوں گا پہلے تمہارے شوہر کو تو سبق سکھا دو اس نے اچھا نہیں کیا ہمارے کاروبار کو ختم کرنے کی کوشش کی سب کچھ سہی جا رہا تھا لیکن پھر اس کا دماغ خراب گیا بس اسی لیے وہ ہمارے خلاف چلا گیا لیکن اب اسے اس چیز کا سبق ضرور ملے گا اسے ہمارے خلاف نہیں جانا چاہیے تھا” ارج نے آواز پہچان کر اٹھ نے کی کوشش کی ایک خوف کی لہر اس کے پوری بدن میں دوری تھی
” ت۔۔۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو” وہ آواز پہچانتی تھی بہت اچھے سے پہچانتی تھی کہ وہ آواز کسی اور کی نہیں شارق کی تھی "میں یہاں کیا کر رہے ہو ہو میرا تویہ کام ہے اور تمہارا شوہر نے میرا کام خراب کیا ہے اس کو سزا ضرور ملے گی ” وہ کسی سائیکو کی طرح بولا
"پامیر نے جو بھی کیا بہت اچھا کیا اگر میں بھی اس کی جگہ ہوتی تو ایسے ہی کرتی دل تو کرتا ہے تمہارا سر پھاڑ دو ” وہ غصے میں بولی
اوہ نہیں نہیں ڈارلنگ تم میرا سر کیسے پھاڑ و گی تمہارے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ بہت مس کیا ہے تمہیں میں بتا نہیں سکتا ۔اوہ یاد آیا کچھ مجھے” وہ پاگلوں کی طرح چٹکی بجا کر بولا
"کتنا خوبصورت دن تھا وہ تم میں اور میرا دوست ۔اوچ ۔ بہت درد ہوا نا ۔ وہ ہنسنے لگا ۔ اس کے قہقہے سے ارج کو سخت کراہیت ہو رہی تھی
” تمہیں اس چیز کا احساس بھی ہے ہے کہ تم کتنی بد تمیزی سے بات کر رہے ہو تمہاری اپنی بہن بھی ہے ساتھ ایسا ہو تو تمہیں کیسا لگے گا۔” وہ اونچی آواز میں چیخی ۔
” بکواس بند کرو اپنی گندی زبان سے میری بہن کا نام بھی مت لینا تم لوگوں جیسی نہیں ہے ویسی حرکت کبھی نہیں کرے گی ” وہ اونچی آواز میں بولا
"بہت مان ہے نا تمہیں تمہاری بہن ہے جاکر پوچھو اس سے کتنے چکر چل رہے تھے تمہارے دوست کے ساتھ پھر آکر مجھے بتانا وہ کتنی بھولی ہے” وہ غصے میں چیخ چیخ کر بو ل رہی تھی
ارج کی بات پر وہ غصے میں بھڑکا شارق نے اس کی گردن پکڑی
"بہت شوق ہے نہ تمہیں بولنے کا ایک لفظ اور بولا تو تمہارا گلا کاٹ دوں گا میں کے قابل ہی نہیں رہوں گی "-اس گلا زور سے دباتے ہوئے بولا لیکن پیچھے سے آتی آواز نے اسے روک دیا "نہیں نہیں ابھی ہمیں اس کی آواز کی ضرورت بعد میں تمہاری مدد کروں گی سلینٹ سکیمرز بہت اچھے لگتے ہیں مجھے۔خاص طور پر جب میں تمہاری کھال کھینچوں گی ۔ ” اب دوبارہ سے ارج چونکی تھی کیونکہ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ ھایال کی تھی تھی
"سرپرائز !!” ھایال بولی
"ت۔۔۔ تم پر تو مجھے پہلے سے ہی شک تھا "وہ اونچی آواز میں چیخ
"اوہ یہ تو چلو اچھا ہے میرا کام تھوڑا آسان ہوگیا ورنہ مجھے تو لگا تھا مجھے اپنا تعارف کروانا پڑے گا گا تو اور ایک بات تو میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی میرا نام ھایال نہیں ہے میرا نام ساشا ہے اس کی مسکراہٹ کسی ڈائن جیسی تھی
” پامیر ضرور آئے گا مجھے ڈھونڈتا ڈھونڈتا اور تم سب کی ایسی در گت بنائے گا تم لوگوں کی شکل بھی کوئی نہیں دیکھنا چاہے گا ” وہ آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے بولی
او ارج ڈارلنگ تم تو بندھی پڑی ہو اور ہمیں دھمکیاں دے رہی ہو ۔ خیر بہت باتیں ہو گئیں ہیں پھر ملتے ہیں سرپرائز کے ساتھ "۔یہ کہہ کر اس کو وہاں پر اکیلا چھوڑ کر باہر کی طرف چل دیے اور دروازہ بند ہونے کی آواز میں اس کی کچھ امید کو توڑ دیا تھا
” یا اللہ میری مدد فرما "ارج نے آنکھیں بند کرنے سے پہلے دعا کی تھی
ارج کا صبح سے کچھ پتہ نہیں تھا اب شام ہونے کو آئی تھی پامیر کے دماغ کی نسیں پھٹنے کو تھیں
” اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے ” وہ غصے میں آ کر بولا تھا
پامیر بھائی حوصلہ کریں یہ لیں پانی پئیں” عمر نے جلدی سے پانی اس کی طرف کیا تھا
اس نے ہاتھ مار کر گلاس گرا دیا
"میں یہاں پر کھاتا پیتا پھیرو میرے حلق سے ایک نوالا بھی نیچے نہیں جا پائے گا جب تک ارج میرے پاس صحیح سلامت نہیں ہوگی "وہ بےچارگی سے بولا
"ایک بار ان کو اپنی اصل شکل دکھانے ہی پڑے گی ورنہ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے "پامیر غصے میں بولتا جارہا تھا ایک لاوا تھا جو آج اس کے اندر تپ رہا تھا جو کسی بھی وقت آتش فشاں بن کر پھٹنے کو تیار تھا
"میں ان لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں بالکل بھی نہیں چھوڑنے والا ”
ارج کو یاد کر اس کی آنکھوں میں نمی در آ ئی تھی ۔
محبتیں بھی تیری دھوپ چھاؤں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر کبھی یہ وصال کا موسم