سورج کی پہلی دھیمی دھیمی روشنی فلک پر موجود تمام ستاروں کو نظروں سے اوجھل کر چکی تھی۔۔
وہ اپنے وسیع و دلکش بنگلے کی ٹیرس پر بیٹھا اپنے سامنے کے بنگلے کی طرف نظریں جمائے بیٹھا تھا۔۔
گویا کسی سینما میں بیٹھا فلم کہ شروع ہونے کا انتظار کر رہا ہو۔
بلو جینز اور سبز ٹی شرٹ میں بیٹھا وہ کسی فلم کے ہیرو سے کم نہ لگتا تھا۔
خوبرو نوجوان ہر دل عزیز شخصیت رکھتا تھا مگر معمول کہ مطابق ہر روز صبح 6:30 بجے اْٹھ کر ٹیرس پر ایک ہی پوزیشن میں آکر بیٹھنا پھر اس بنگلے کی کھڑکی کی طرف نگاہ کا باندھنا اس کو زیب نہیں دیتا تھا۔۔۔
ابے یار زمان کیا کر رہا ہے تو کب سے؟؟
اور مجھے یہاں صبح صبح آنے کی دعوت کس خوشی میں دی ہے؟؟
اس کے برابر میں بیٹھے شاکر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔
شاکر کافی چڑا ہوا تھا۔۔
یار دومنٹ رک جا بس۔۔ اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی جو 6:35 بجا رہی تھی۔۔
یار تو کرنا کیا چاہ رہا ہے مجھے یہ بتا۔۔ شاکر اب مذید تشویش میں مبتلا ہورہا تھا۔۔
تجھے تیری بھابھی کو دیکھنا ہے آج یا نہیں؟؟ دیکھنا ہے تو دو منٹ رک جا بس۔۔
اس نے ایک بار پھر گھڑی پر نظر ڈالی۔۔
بھابھی ؟؟ کون بھابھی بھائ؟؟
تو کہنا کیا چاہتا ہے؟؟
شاکر بوکھلانے لگا تھا اس کے کچھ پلّے نہیں پڑ رہا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔۔
اب دیکھ شاکر۔۔ زمان مسکراتا ہوا سامنے کہ بنگلے کی کھڑکی سے اندر کا نظارہ کر رہا تھا۔۔
جہاں بیڈ پر خواب خرگوش کے مزے لیتی ازلفہ کے خواب الارم بجنے کی وجہ سے ادھورے رہ گئے تھے۔۔
اب وہ الارم بند کرنے کہ بعد اپنے تکیے کہ نیچے سے موبائل نکالے گی۔۔
زمان مسکراتا ہوا بول رہا تھا اور ازلفہ اسکی سوچ کہ مطابق ہی عمل کر رہی تھی۔۔
اب وہ کچھ دیر موبائل یوز کر کہ بیڈ سے نیچے اترے گی۔۔
اب وہ اپنی الجھی ہوئ زلفوں کو آہستہ آہستہ سنوارے گی پھر ایک اونچی سی پونی ٹیل باندھے گی۔۔
زمان کہ لبوں سے جو جملے ادا ہو رہے تھے ازلفہ وہی ردِ عمل پیش کر رہی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے زمان نے کسی کتاب کا کوئی افسانہ یا کسی فلم کی کہانی حرف با حرف یاد کی ہوئی ہو۔۔
اب وہ اپنے ہئیر برش کو بیڈ پر پھینک کر چلی جائے گی۔۔
زمان کی زبان سے حرفِ آخر ادا ہوتے ہی ازلفہ منظر سے غائب ہوچکی تھی۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ بتاؤ زمان سکندر کہ یہ سب ہو کیا رہا تھا؟؟ یہ لڑکی کون ہے؟؟
اور تمھیں اس لڑکی کی ڈیلی روٹین کب سے اور کیسے پتا ہے؟؟ شاکر نے گہری سانس بھری اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔۔
یہ ازلفہ ہے۔۔۔
میری دوست۔۔۔
وہ مجھے دوست سمجھتی ہے مگر میرا معاملہ دوستی سے کہیں آگے تک جا چکا ہے کہ اب معاملہ کچھ بتانے کہ قابل نہیں رہا۔۔۔
پچھلے ایک سال سے روز یہاں اسی طرح بیٹھتا ہوں۔۔۔
مجھے روز صبح اسکو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے دل کو ایک عجیب سا سکون ملتا ہے۔۔
وہ مسکراتا ہوا بول رہا تھا۔۔
اووووہ۔۔۔ تو ہماری بھابھی کو آپکے دل کہ حال کی کچھ خبر ہے کہ نہیں؟؟ شاکر نے کہا۔۔
خبر تو ہے مگر یہ مانتی نہیں ہے۔۔ اس نے منہ بنایا۔۔
لیکن کیوں؟؟ آخر تمھارے میں کمی کیا ہے؟؟
خوبصورت ہو جوان ہو اور اوپر سے بہت جلد ایک بہادر, دلیر فوجی بننے والے ہو۔۔۔
اور لڑکیاں تو فوجیوں پر مرتی ہیں۔۔۔ شاکر نے ایک لمہے میں زمان میں موجود تمام خوبیوں کی گنتی کروادی۔۔
وہ لڑکی کوئ عام لڑکی تھوڑی ہے جو فوراً مان جائے گی۔۔
جو محبت محنت سے ملے اسکی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔۔
اس نے کہا۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔
چل بیٹا گڈ لک اب میں نکلتا ہوں ورنہ یونیورسٹی کہ لیے لیٹ ہوجاؤں گا۔۔ شاکر اسکو کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔۔
چل ٹھیک ہے شام میں ملتے ہیں۔۔ زمان نے بھی الوداعی جملے ادا کیے۔۔۔
_____________________________________
ویسے تو اس پر ہر رنگ ہی کھلتا تھا مگر گلابی رنگ کی بات کچھ الگ تھی یہ رنگ وہ جب بھی زیب تن کرتی تھی اس کے سرخ سپید چہرے کی سرخی مزید گہری ہوجاتی تھی۔۔
فلہال وہ اس وقت اپنے گھر سے یونیورسٹی جانے کے لیے نکل رہی تھی جبکہ لمبا چوڑا زمان اپنے گھر کہ وسیع دروازے پر کھڑا اس کے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
ازلفہ۔۔۔۔۔
زمان کی آواز نے ازلفہ کے قدم روک لیے۔۔
کیا ہوا؟؟
ازلفہ نے اپنی بڑی بڑی بھوری آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔
تو پھر کیا سوچا تم نے میرے بارے میں؟؟
زمان جینز کی دونوں جیب میں ہاتھ ڈالے بڑے اسٹائل سے کھڑا تھا۔۔
اففف۔۔۔ زمان میں کتنی دفعہ کہوں کہ مجھے تم میں کوئ انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ اس نے چڑ کر بولا۔۔
کیوں نہیں ہے انٹرسٹ؟؟
دیکھو زرا غور سے دیکھو۔۔۔
مجھ جیسا اسمارٹ لڑکا تمھیں کہاں ملے گا؟؟
وہ بھی فوجی۔۔۔وہ اترانے لگا۔۔
فوجی؟؟؟ ہاہاہاہا۔۔۔
ایک قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔۔
فوجی جیسی کوئ بات تم میں نظر تو نہیں آتی,
فوجی تو چوڑے سینے والے باوقار, اور سنجیدہ مزاج ہوتے ہیں۔۔
وہ خیالوں کی دنیا میں گم ہوگئ۔۔
اوووہ۔۔۔
اور کتنا چوڑا سینا ہونا چاہئے؟؟؟
ہمارے ملک کی فوج کو میرے سینے پر جنگ لڑنی ہے کیا؟؟
اور رہی بات سنجیدگی کی تو اب ہر فوجی کھڑوس نہیں ہوتا ایک ادھ میری طرح شوق مزاج بھی ہوتے ہیں۔۔
زمان اپنی توہین برداشت نہیں کرسکا اس نے فوراً اپنا دفاع کرنا شروع کردیا۔۔
اچھا خیر مجھے کوئ انٹرسٹ نہیں ہے تم میں اب تم نے مجھ سے اس بارے میں کوئ بات کی نہ تو تم میری دوستی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوگے۔۔
ازلفہ اب تقریباً دھمکانے والے انداز میں بول رہی تھی۔۔
اووہ میڈم بس۔۔
تین مہینے بعد میں ٹریننگ پر جا رہا ہوں, اگر میرے جانے سے پہلے تم نے اپنی محبت کا اقرار نہیں کیا نہ تو۔۔۔
تو۔۔۔ تو۔۔۔
تو کیا ہاں؟؟ وہ غرائ۔۔۔
تو میں ۔۔
تو میں تمھیں خالہ بولنا شروع کردونگا۔۔ جسٹ امیجن۔۔ ایک فوجی کے منہ سے خالہ سننا تمھیں کیسا لگے گا؟؟ زمان کی شرارت پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس دی۔۔
تمھارے چکر میں مجھے یونیورسٹی کے لیے دیر ہوجائے گی اور ممّا کا لیکچر مس ہوجائے گا۔۔
وہ جلدی سے اپنی بات مکمل کر کے پلٹ گئ۔۔
اچھا سنو, میم امسہ سے پوچھ کر بتا دینا مجھے کہ آج میں کلاس لینے کس ٹائم آؤں؟؟
وہ اسکو دور جاتا دیکھ کر اونچی آواز میں بولا جبکہ وہ اپنی دھن میں بغیر جواب دئیے نکل گئ۔۔۔
_____________________________________
یونیورسٹی کے اندر وہ اپنی کلاس میں بیٹھی لیکچر شروع ہونے کا انتظار کر رہی تھی,
جب ہی کلاس میں انٹر ہونے والے نوجوان نے کسی میگنٹ کی طرح ازلفہ کی توجہ اپنی طرف مبزول کروائ۔۔
صرف ازلفہ ہی نہیں بلکہ وہاں بیٹھی تمام لڑکیوں کہ دل اس خوبصورت شخص کو دیکھ کر اْچھل اْچھل کر باہر آنے کو تیار تھے۔۔
ازلفہ دیکھ یار کتنا ہینڈسم اور چارمنگ ہے یہ۔۔۔
ازلفہ کے ساتھ بیٹھی ہانی نے کہا جس کی آنکھیں اس نوجوان سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔
ازلفہ کوئ جواب نہ دے سکی۔۔
کلاس میں موجود تمام لڑکیوں کی کھسر پھسر کا سلسلہ پروفیسر امسہ کے کلاس میں آنے سے ختم ہوا,
پروفیسر امسہ ازلفہ کی ممّا تھیں جو اسی کی یونیورسٹی میں جاب کرتی تھیں۔۔
وہ خوبصورت اور اسمارٹ ہونے کی وجہ سے اپنی عمر سے کافی کم لگتی تھیں مگر اپنی شخصیت اور قابلیت کی وجہ سے اسٹوڈینٹس میں کافی مقبول تھیں۔۔
پورے لیکچر کے درمیان وہ لڑکا مستقل ہاتھ میں بال پوائنٹ گھمائے میم امسہ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔۔۔
اس کے بیٹھنے کا انداز یہ بتا رہا تھا کہ وہ بڑا نواب زادہ ہے۔۔۔
میم امسہ کے لیکچر کے اختتام پر وہ بھی کلاس سے باہر چلا گیا حیران کن بات یہ تھی کہ اس کا انداز کافی مختلف اور عجیب تھا اور اس نے یونیورسٹی میں میم امسہ کہ علاوہ کسی اور پروفیسر کا لیکچر نہیں لیا۔۔
کچھ تھا جو تشویش ناک تھا کچھ بہت ہی عجیب سہ۔۔۔
تمھیں پتا ہے ازلفہ یہ مسٹر کون ہے؟؟ ازلفہ کو ہانی کی آواز نے چونکایا۔۔
مجھے کیا پتا کون ہے یہ؟؟
یہ اس شہر کے مشہور سیاسی رہنما شاہ زیب ملک کا اکلوتا بیٹا زالان ملک ہے۔۔
ہانی نے اسکا تعارف جتنے شوق سے کرایا ازلفہ کے چہرے پر اتنے ہی ناگواری کے تاثرات بکھر گئے۔۔
اسکو سیاست سے چڑ تھی۔۔۔۔
پھر تو ہمیں اس لڑکے سے دور رہنا چاہیے, ایسے لوگ اکثر ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔۔
ازلفہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔۔۔
ہاں یہ تو ہے مگر۔۔۔۔
ہانی کہتے کہتے رک گئ۔۔
مگر کیا؟؟ اس نے فوراً پوچھا۔۔
مگر جہاں تک میرا اندازہ ہے یہ یہاں کسی مقصد کے لیے آیا ہے اور اگر میرا خیال درست ہے تو پریشانی اب شروع ہونے والی ہے۔۔
لیکن تمھیں یہ سب کیسے پتا؟؟ ازلفہ کے زہن میں ہمہ وقت دیگر سوالات نے جنم لینا شروع کردیا۔۔۔
کیونکہ میرے ڈیڈ شاہ زیب ملک کی پارٹی کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے مجھے معلوم ہے کیونکہ کل ہی ڈیڈ نے مجھے بتایا تھا کہ یونیورسٹی میں زالان ملک آنے والا ہے اس لیے میں ہوشیار رہوں۔۔
ہانی کی باتیں سن کر ازلفہ کو فکر ہونے لگی۔۔۔
تم کیوں ٹینشن میں آگئ ہو میڈم؟؟
چل کرو یہ تمھارے گھر تھوڑی آجائے گا۔۔۔
ہانی نے اسکا زہن بٹانا چاہا مگر اسے اب یہاں بیٹھے بیٹھے کوفت آنے لگی۔۔
کچھ دیر پہلے زالان ملک کے لیے پیدا ہونے والی دلچسپی بھی اب دم توڑ چکی تھی۔۔
اسکا دل ڈوب رہا تھا۔۔۔
سمندر کی گہرائیوں میں۔۔۔
_____________________________________
اوہ ممّا آپ کافی کتنی ٹیسٹی بناتی ہیں۔۔
ازلفہ نے کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہی تعریفیں شروع کردیں۔۔
امسہ اور ازلفہ لاؤنج میں بیٹھے گرم گرم کافی اور چکن نگٹس کے مزے لے رہے تھے۔۔
ازلفہ میں نے کچھ سوچا ہے تمھارے لیے۔۔
امسہ کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔۔۔
افف ممّا آپ یہ سوچنے کا کام ترک کردیں اور بس آرام کریں۔۔
ازلفہ مزاق کے موڈ میں تھی۔۔
ازلفہ سیرئس ہوجاؤ بیٹا میں اب تمھاری شادی کردینا چاہتی ہوں۔۔
امسہ بغیر وقت ضائع کیے فوراً مدعے پر آگئیں۔۔
ہاں تو کردیے گا اتنی جلدی کیا ہے؟؟ وہ لاپروا سی بولی۔۔
جلدی ہے بیٹا۔۔ تمھارے پاپا اور میری علحیدگی کہ وقت تم بس چار سال کی تھیں۔۔۔
میں نے بہت محنت سے تمھاری پرورش کی ہے اب ڈر لگتا ہے مجھے اس لیے میں اپنا یہ فرض جلد از جلد پورا کرنا چاہتی ہوں۔۔
اچھا تو کوئ لڑکا ہے آپکی نظر میں؟؟ وہ بنا کسی احتجاج کہ بولی۔۔
ہاں ہے نہ بلکہ تم بھی اسے جانتی ہو۔۔ وہ مسکرائیں۔۔۔
کون؟؟؟
میرا اسٹوڈینٹ زمان۔۔۔
اپنی ممّا کہ منہ سے زمان کا نام سن کر وہ کچھ لمہے کہ لیے ساکت ہوگئ۔۔
وہ زمان سکندر؟؟
اسے یقین نہیں آیا۔۔۔
ہاں کیپٹن زمان سکندر۔۔۔۔
وہ کیپٹن تو نہیں ہے ممّا۔۔
وہ چڑگئ۔۔
نہیں ہے تو بن جائے گا۔۔ تمھیں کوئ اعتراض ہے؟؟
امسہ نے سوالیا نظریں اسکے چہرے پر جمائیں۔۔
وہ جواب دیتی اس سے پہلے ڈور بیل کی آواز ان دونوں کی سماعت سے ٹکرائ۔۔
کون آیا ہوگا۔۔۔ امسہ نے کہا۔۔
کچھ دیر میں ملازم نے اندر آکر خبر دی۔۔ میڈم جی زالان ملک آئے ہیں۔۔۔
ملازم کے منہ سے یہ خبر سن کر ان دونوں کہ ہوش اْڑھ گئے۔۔
انہیں ڈائننگ ہال میں بٹھاؤ ہم آرہے ہیں۔۔
امسہ کہ حکم پر ملازم گردن ہلاکر چلا گیا جبکہ وہ دونوں ہونکوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔۔
زلان ملک اپنے پورے پروٹوکال کہ ہمراہ تشریف لایا تھا۔۔
امسہ اور ازلفہ کو آتا دیکھ کر وہ کھڑا ہوگیا۔۔۔
جی آپ۔۔۔ آپ یہاں کیسے؟؟ امسہ نے سوال کیا۔۔
وہ عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔
میرا نام تو آپ جانتی ہی ہونگی۔۔
میں ہوں زلان ملک۔۔
میں وقت کی بہت قدر کرتا ہوں اس لیے وقت ضائع کرنے سے مجھے نفرت ہے تو سیدھا مدعے پر آتا ہوں۔۔
وہ بھویں چڑھا کر بول رہا تھا۔۔
جبکہ ان دونوں کے زہنوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔۔
ان کی چھٹی حس انہیں اندر سے جھنجھوڑ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے کچھ بہت برا۔۔۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟؟ ازلفہ نے ہمت کر کہ سوال کیا۔۔
میرے نزدیک ہیرے جواہرات کی کوئ اہمیت نہیں ہے, پیسہ بھی میں پانی کی طرح خرچ کرتا ہوں۔۔
وہ بولتا ہوا آہستہ آہستہ قدموں کے ساتھ ازلفہ کی جانب بڑھ رہا تھا اس کے بڑھنے کہ ساتھ ساتھ ازلفہ کی دھڑکنیں رفتار پکڑ رہی تھیں۔۔۔
مگر میرے پاس ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ واحد قیمتی چیز محبت ہے جو میں آپ کے قدموں میں بطور نظرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔۔
زالان ملک اظہارِ محبت کرنے کہ ساتھ ساتھ اپنا رْخ ازلفہ کہ بجائے میم امسہ کی جانب کر چکا تھا۔۔
اس کے منہ سے ان جملوں کہ ادا ہوتے ہی امسہ اور ازلفہ کہ اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔۔
یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟؟؟
ازلفہ غرائ اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔۔
مجھے اونچی آواز نہیں پسند ابھی سے میری عزت کرنا سیکھ لو آخر میں تمھارا ہونے والا سوتیلا باپ ہوں۔۔۔
زلان کہ جملوں نے امسہ کہ جسم کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیے وہ اپنی جگہ کھڑی کھڑی برف کی سل بن چکی تھیں۔۔