”معجل مطلب موقع پر ادا کر دینا اور غیر معجل بعد میں ادا کرنا۔
فرض کریں میں پانچ لاکھ ابھی ادا کر دیتا ہوں۔ تو وہ آپ کی بیٹی کو ملے گا آپ کو ہر گز نہیں اور آپ کی بیٹی نکاح کے بعد ہمارے ساتھ جائے گی اُس میں آپ کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ محترم! حق مہر عورت کی عزت افزائی ہے، اُس کی تکریم ہے، اِس رشتے کو قائم رکھنے کی شرط نہیں۔ شادی شرطوں پر نہیں کی جاتی اور نہ ہی شرطوں پر چلتی ہے۔ مولوی صاحب آپ نکاح شروع کریں حق مہر چالیس ہزار ہوگا معجل!” مزمل نے مظہر کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔ مظہر نے ایک بار پھر حکیم صاحب کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔مظہر نے حکیم صاحب سے ایک طرف چلنے کی عرض کی جو اُنہوں نے مان لی۔ چند منٹ حکیم صاحب سے مشاورت کے بعد اُس نے کہا:
”حکیم صاحب! آپ نکاح پڑھوا دو۔”
نکاح ہوگیا۔ مزمل نے چالیس ہزار نکال کر حکیم صاحب کو تھما دیے کہ وہ دُلہن کے حوالے کر دیں۔ حکیم صاحب برائیڈل روم کی طرف چلے گئے۔
”مبارک ہو… مبارک ہو۔” کی بے شمار آوازیں ہال میں گونج اُٹھیں۔ دولہے کو گلے ملنے اور مبارک بادیں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مزمل نے اسٹیج سے اُترنے میں ہی عافیت جانی۔ مائرہ نے مشکور نگاہوں سے مزمل کی طرف دیکھا اور عورتوں کی طرف چل دی۔ اُس کی ماں منظوراں پہلے ہی سے عورتوں والی سائیڈ پر تھی۔ وہ اپنی بچپن کی سہیلیوں اور رشتے دار عورتوں کے ساتھ مگن تھی۔
٭…٭…٭
حکیم صاحب نے دُلہن مسرت کو نکاح نامہ پڑھایا اُسے حق مہر دیا اور برائیڈل روم سے نکل آئے۔
”مبارک ہو… مسرت !” ماہم نے گلے لگتے ہوئے کہا ۔
”واہ جی واہ تمہاری تو لاٹری لگ گئی۔ تمہارا خاوند ہینڈ سم بھی ہے۔ ساتھ ساتھ ڈف اینڈ ڈم بھی۔”
ماہ نور بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہی تھی۔ ماہم نے اُسے چٹکی کاٹی اور چپ رہنے کا سگنل دیا، مگر ماہ نور کہاں ٹلنے والی تھی۔
”میرا مطلب ہے۔ یہ دونوں کلیش سے بچ جائیں گے نہ وہ کچھ بولے گا اور نہ ہی سنے گا۔”
”مسرت! تمہاری پسند واقعی لاجواب ہے۔ دُلہا بھائی دکھنے میں تو بہت ہی اچھے ہیں۔” ماہم نے ماہ نور کو چپ کرواتے ہوئے کہا۔
”مبشر ہیں ہی بہت اچھے!” مسرت نے شرماتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔
”اوئے ہوئے… ابھی سے تعریفیں۔” ماہ نور کو ایک بار پھر بات کرنے کا موقع مل گیا۔
”کھانا کُھل گیا ہے۔” چند آوازیں بلند ہوئیں پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آنکھوں کو کھانے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آیا۔
دُلہن اور اُس کی سہیلیوں کا کھانا برائیڈل روم میں پہنچا دیا گیا۔ دُلہن کی تو بھوک ہی اُڑگئی تھی۔ اُس کی سہیلیوں کے ساتھ ماہ نور بھی کھانے میں مصروف تھی۔ ماہم واش روم گئی اور ابھی لوٹی نہ تھی۔ ماہ نور کھانا کھاتے ہوے تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہہ دیتی:
”ماہم کا واش روم ہی لمبا ہوگیا ہے۔”
ماہم ہال کے اُس حصے میں جھانک رہی تھی جہاں مرد حضرات کھانے میں مصروف تھے اُس کی نظریں کسی کو کھوج رہی تھیں ابھی کھوج کا سفر جاری تھا کہ اچانک اُسے اپنی منزل نظر آگئی۔ مزمل واش روم سے نکل رہا تھا۔ وہ کھانے والی سائیڈ پر جانے کے بجائے ہال کے بیرونی دروازے کی طرف چل دیا۔ ماہم نے دیکھا تو وہ ایک ستون کے پیچھے ہوگئی تاکہ مزمل کو نظر نہ آسکے۔
مزمل کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھتے قدموں کو کسی کی آواز نے روک لیا۔
” بھائی… بھائی۔” مائرہ تیز تیز چلتی ہوئی اُس کی طرف آئی۔
”میں کب سے آپ کو فون کر رہی ہوں۔” مائرہ نے پھولی ہوئی سانسوںسے کہا۔
”کیوں خیریت تو ہے؟”
”وہ آپ کی گاڑی میں بری والا سوٹ کیس نکالنا تھا۔”
”یہ لو گاڑی کی چابی۔ مبارک علی کھانا کھالے، تو اُسے کہہ دینا وہ نکال دے گا۔” مزمل نے مائرہ کو گاڑی کی چابی تھماتے ہوئے کہا۔
”کھانا تو بہت مزے دار ہے۔”
”پھر جائو اور کھانا کھائو۔”
”آپ نے کیوں نہیں کھایا؟” مائرہ نے گلہ کیا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔ تم جائو شاباش اور کھانا کھائو۔”
آپ! کہاں جارہے ہیں؟
”ظہر کی نماز کا وقت ختم ہونے والا ہے۔”
”نماز کی جگہ تو یہاں بھی ہے۔” مائرہ کہنے لگی۔
”یہاں بہت شور ہے۔” مزمل نے بیزاری سے کہا۔
”بھائی! میں سمجھ سکتی ہوں۔ پلیز تھوڑی دیر اور برداشت کر لیں۔ پلیز میری خاطر۔”
”اوکے نو پرابلم۔” مزمل نے ایک شریف آدمی کی طرح جواب دیا اور چل دیا۔
”بھائی! چائے کی طلب ہو رہی ہوگی۔”
یہ سنتے ہی مزمل کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”بھائی! رسمیں شروع ہونے والی ہیں آپ جلدی آجائیے گا۔” مائرہ نے پیچھے سے آواز لگائی ۔
”کال کر لینا۔” مزمل نے چلتے چلتے مائرہ کو دیکھے بغیر کہا اور موبائل نکال کر دیکھنے لگا جس پر کافی ساری مس کالز تھیں جن میں سے تین مائرہ کے نمبر سے بھی آئی تھیں۔ مزمل کا موبائل سائلنٹ موڈ پر تھا۔
مزمل شادی ہال کے باہر کھڑا اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا۔ جی ٹی روڈ کی دوسری جانب اُسے مین سڑک سے اندر جاتی ایک ذیلی سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد نظر آگئی۔
مزمل نے اپنی وائٹ مرسڈیز کی طرف دیکھا جو دُلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ اُس نے پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکال کر اپنے کوٹ کی پاکٹ میں ڈالا، تو اُسے یاد آیا چابی تو اُس نے مائرہ کو دے دی ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے پیدل ہی جی ٹی روڈ کراس کیا اور سڑک کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ شادی ہال کے بیرونی دروازے سے آگے پہلے جہاں مزمل کھڑا تھا اب اُسی جگہ ماہم کھڑی تھی بالکل اُسی مارک کے اوپر۔
سڑک کی دوسری طرف مین جی ٹی روڈ پر صرف سرامک کی بند پڑی فیکٹری اور”م” گرلز ہائی اسکول تھا۔
”م گرلز ہائی اسکول” مزمل نے سائن بورڈ پر لکھے الفاظ منہ میں حیرت سے دہرائے۔
فیکٹری اور اسکول کے درمیان جی ٹی روڈ سے ایک چھوٹی سڑک معراج کے گائوں تک جا رہی تھی۔
اُسی سڑک پر فیکٹری کی مسجد تھی جس کا ایک دروا زہ فیکٹری کے احاطے کی طرف کھلتا تھا اُس پر ایک زنگ آلود تالا پڑا ہوا تھا۔ دوسرا دروازہ چھوٹی سڑک کی طرف تھا۔ مسجد کے اُسی دروازے کے سامنے اور اسکول کے پیچھے ایک مخروطی چھتوں والا دو منزلہ مکان تھا جس کے دروازے اور کھڑکیاں پرانی طرز کی تھیں۔ کھڑکیوں پر پیچھے لوہے کی سلاخیں اور آگے لکڑی کے تختے تھے۔ مسجد کے اُسی دروازے کے ساتھ مسلم دواخانہ اور اس سے ملحق حکیم مسلم انصاری کا گھر ۔ فیکٹری کے پیچھے آٹھ دس گھر اور بھی تھے ۔ اِس کے برعکس جس طرف ملن شادی ہال تھا اُس طرف کافی رونق تھی۔ شادی ہال کے آس پاس بہت سی دکانیں تھیں۔
مزمل مسجد کے اندر داخل ہوگیا۔ ماہم وہیں کھڑی اُسے اندر جاتے دیکھ رہی تھی۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو۔” ماہ نور نے ایک دم سے کہا، تو ماہم ڈر سی گئی۔
”میں یہاں…؟ ہاں… وہ… اندر گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس لیے ہوا خوری کے لیے یہاں آگئی۔” ماہم نے مسکراتے ہوئے وجہ بیان کی۔
”کھانے سے پیٹ بھرتا ہے، ہوا سے نہیں۔ چلو میرے ساتھ اور کھانا کھائو۔ جلدی کرو ورنہ شادی کی رسمیں شروع ہو جائیں گی۔” ماہ نور نے حکمیہ انداز میں کہا۔
”مجھے بھوک نہیں اور میرے سر میں بھی درد ہے۔”
ماہم نے بوجھل پن سے جواب دیا۔ وہ ماہ نور سے جان چھڑانا رہی تھی۔
”تم ایسا کرو اندر جائو میں دوائی کھا کر آتی ہوں۔” ماہم نے اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ماہ نور نے اُس کی کلائی پکڑی اور تشویشی انداز میں بولی:
”واہ جی واہ… ماہم چودھری… یہ سر درد والے سمٹم تو نہیں ہیں، اندر کی بات بتائو۔”
”اندر کی بات… تم بھی کمال کرتی ہو۔ تم جائو میں آتی ہوں۔” ماہم نے اپنی کلائی الفت سے چھڑوائی اور محبت سے ماہ نور کے رخسار پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا۔ ماہ نور کچھ سوچتے ہوئے ہال کے اندر چلی گئی اور ماہم اپنے گھر کی طرف۔
٭…٭…٭
مزمل ظہر کی نماز سے فارغ ہوا، تو مسجد اور گردونواح کا جائزہ لینے لگا۔ اُس نے فیکٹری کے احاطے میں کھلنے والے دروازے کو غور سے دیکھا جس پر تالا لگا ہوا تھا۔
”صاحب! تم کیا دیکھ رہے ہو۔یہ لو چائے پیو۔” مہتاب خان نے چائے والی ٹرے ہاتھ سے بنی صف پر رکھ دی اور کہنے لگا:
”تم چائے پیو میں وضو کرکے آتی ہے۔”
مزمل نے کچھ عجیب سی نظروں سے مہتاب کو دیکھا جو سکیورٹی گارڈ کے یونیفارم میں تھا۔
مزمل نے چائے تب کپوں میں ڈالی جب مہتاب وضو کرکے لوٹا۔ مہتاب نے مزمل کی طرف دیکھ کر کہا:
”صاحب! ہم سامنے والے اسکول کا سکیورٹی گارڈ ہے۔ یہ چائے ہیڈ ماسٹر محمود صاحب کے گھر سے آیا ہے۔ یہ اسکول ماسٹر صاحب ہی نے بنوایا تھا۔ ہم کو معلوم ہے تم برات کے ساتھ آیا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا تمہیں۔” مہتاب نے اچھی خاصی تفصیل مزمل کو دے دی تھی جو چائے پینے کے لیے کافی تھی۔ مزمل نے چائے کا پہلی چسکی لی۔
”ویری نائس۔ یہ تیسرا کپ کس کے لیے ہے؟” مزمل نے چائے کی تعریف کے ساتھ ٹرے میں پڑے تیسرے کپ کے متعلق پوچھ لیا۔
”اپنا حکیم صاحب کے لیے۔” مہتاب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے بتایا۔
”حکیم صاحب؟”
”جنہوں نے مسرت بیٹی کا نکاح پڑھوایا تھا۔”
”اچھا وہ مولوی صاحب۔”
”وہ مولوی نہیں ہے، وہ تو حکیم ہے۔ اِس مسجد کا مولوی تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے چلا گیا ہے۔ حکیم صاحب جماعت بھی کراتا اور نکاح بھی پڑھوا دیتا ہے اورپیسے بھی نہیں لیتا۔”
مہتاب خان نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے بتایا۔
”یہ فیکٹری کیوں بند ہے؟” مزمل نے چائے کا آخری سپ لیتے ہوئے سوال کیا۔
”سیٹھ مجیب الرحمن کامرنے کے بعد اولاد نالائق ثابت ہوئی فیکٹری چلانے کی بجائے جائیداد کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہوگیا۔ اِس فیکٹری کا عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ میں پہلے اِسی فیکٹری میں سکیورٹی گارڈ تھا۔ صاحب! اذان کا وقت ہوگیا ہے۔”
مہتاب خان نے اٹھتے ہوئے کہا پھر وہ مسجد کے اندر چلا گیا اور اذان دینا شروع کر دی۔ اسی دوران حکیم صاحب مسجد میں داخل ہوئے اور مزمل کی طرف دیکھا۔ ٹو پیس پہنے گوری رنگت والا ایک نوجوان صف پر بیٹھا تھا۔ اذان کے تھوڑی دیر بعد مہتاب خان صحن میں آیا۔
”حکیم صاحب! اندر یا باہر؟”مہتاب نے حکیم صاحب سے پوچھا۔
”باہر ہی ٹھیک ہے۔ کیوں مزمل بیگ صاحب؟ مہتاب یہیں مصلیٰ لے آئو۔” حکیم صاحب نے دسمبر کی چلبلی دھوپ میں جماعت کرانے کو ترجیح دی۔
”آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں۔” مزمل نے حیرانی سے پوچھا۔
”بیگ صاحب! بڑے آدمی سے پہلے اُس کا چرچا پہنچ جاتا ہے۔ آپ مبشر کے سیٹھ ہو دو فیکٹریوں کے مالک ہیں اور ماڈل ٹائون لاہور میں رہتے ہو۔”
”حکیم صاحب! جماعت کا وقت ہو گیا ہے۔” مہتاب نے اقامت کہی اور حکیم صاحب نے جماعت کروائی تین افراد نے باجماعت نماز ادا کی۔دعا سے فراغت کے بعد مہتاب خان نے مسجد سے جاتے ہوئے کہا:
”حکیم صاحب! تمہارا چائے تھرماس میں ہے۔ یاد سے پی لینا۔”
حکیم صاحب چائے پینے کے دوران مزمل سے باتوں میں مشغول رہے۔ مزمل نے باتوں کے دوران اپنا موبائل دیکھا جس پر مائرہ کی کافی ساری مس کالز تھیں۔
”مجھے اجازت دیں۔” مزمل نے حکیم صاحب سے مودبانہ اجازت لی اور مائرہ کو رِنگ بیک کی۔ وہ بات کرتے کرتے مسجد کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا کہ اُس کی نظر سامنے والے گھر کی دوسری منزل پر پڑی۔ ماہم چودھری کھڑکی میں کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
دونوں کی نظروں نے لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیا تھا۔ ماہم کھڑکی سے پیچھے ہٹ گئی اور مزمل شادی ہال کی طرف بڑھ گیا۔ صرف ایک نظر اُن دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
”یہ ماہم کہاں مر گئی ہے۔” ماہ نور ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ماہم کو کال بھی کی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ ماہم کا موبائل اُس کی چھوٹی بہن مومنہ کے پاس تھا۔
دُلہن کی سہیلیوں نے مبشر کا گھٹنا ایک چنری سے باندھا ہوا تھا۔ سب رسموں میں معصومہ اور مدیحہ پیش پیش تھیں۔ مزمل ہال میں داخل ہوا، تو مائرہ اُس کی طرف لپکی۔
”مزمل بھائی! یہ رسمیں تو ہمیں کنگال کر دیں گی۔” مائرہ نے جلدی سے اپنا دکھڑا سنایا۔
”اِن کی لیڈر کون ہے؟” مزمل نے کان میں ہولے سے پوچھا۔ مائرہ نے مدیحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:
”جس نے ریڈ چولی پہنی ہے اور سر پر جوڑا بنایا ہوا ہے۔”
”لڑکیوں! دودھ پلائی کی طرح دس ہزار پر ہی راضی مت ہو جانا اِس بار پورے بیس ہزار لینے ہیں۔” مدیحہ نے اپنا ارادہ بتایا۔
مزمل لڑکیوں کی طرف چلا گیا وہ سب شور مچا رہی تھیں۔ بیس ہزار، مزمل نے ہولے سے چلتے چلتے مدیحہ کے کان میں کہا:
”حسن کی ملکہ! روپے مانگتی اچھی نہیں لگتی۔”
مدیحہ نے سُنا تو اُس کا چہرہ سرخ گلاب کی طرح لال ہوگیا۔ تعریف کا جادو سر چڑھ کر بول پڑا۔ مدیحہ کو بار بار مزمل کے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔
تعریفی جملے نے چہرے پر تو اثر کیا ہی تھا ساتھ ساتھ مدیحہ کی زبان بھی بند کر دی تھی۔ اب اُس کی آنکھیں مزمل پر ہی مرکوز تھیں اور وہ زبان کا کام آنکھوں ہی سے لے رہی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے میدان جنگ میں دشمن فوج کی رانی کو قتل کر دیا جائے۔
اب مزمل، مبشر کے پاس کھڑا تھا۔ اُس نے سب لڑکیوں کی طرف ایک نظر ڈالی پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا:
”دیکھیں جی! جس طرح خوشبو کی جگہ بدبو نہیں لے سکتی، اخلاق کی جگہ بداخلاقی نہیں ہو سکتی۔ بالکل اِسی طرح محبت کی جگہ دولت کبھی نہیں لے سکتی۔ آپ لوگوں نے مبشر کو محبت سے خرید لیا ہے۔ اُس کی برات کو آپ لوگوں نے اتنا پیار دیا ہے کہ ہر براتی اِس الفت کو ساری زندگی یاد رکھے گا۔
آپ کے خلوص، آپ کی محبت اور مہمان نوازی کی قیمت تو ادا نہیں کی جا سکتی۔ ہم تو محبتوں کا قرض اُتار نہیں سکتے۔ کیوں مس! میں نے ٹھیک کہا نا۔”
مزمل نے انگلی کے اشارے سے تقریر کے آخر میں مدیحہ کو ایک بار پھر مخاطب کیا۔ مدیحہ پر یہ دوسری ضرب لگی۔رانی کے غرور کو تعریف کی تلوارنے خیالوں کی وادی میں ابدی نیند سُلا دیا تھا۔
”جی… جی… آپ سرخ چولی والی۔” مزمل نے کنفیوژن کو بھی دور کر دیا۔ ماہم بھی ہال میں دبے پائوں آکر ماہ نور کی بغل میں کھڑی ہو گئی
مدیحہ گم صم آگے بڑھی اور اپنی سہیلیوں کو پیچھے ہٹاتی مبشر کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ پھر وہ چنری کھول کر کھڑی ہو گئی بالکل مزمل کے سامنے اور وہ چنری مزمل کو ایسے پیش کی جیسے ہتھیار ڈالے جاتے ہیں۔چنری دیتے ہوئے مدیحہ نے جان بوجھ کر مزمل کے ہاتھ کو مس کیا۔ دونوں کے ہاتھوں کے اوپر چنری تھی اِس لیے کسی کے دیکھنے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ البتہ مدیحہ کا یہ یوٹرن سب نے دیکھا بھی اور نوٹ بھی کیا۔
”خبیث۔” معصومہ نے دانت پیستے ہوئے منہ میں کہا ۔
”شیدائن نہ ہو تو۔” ایک کونے سے دُلہن کی سہیلی بولی۔ ماہ نور نے اِس منظر سے نظر ہٹائی تو اپنی بغل میں ماہم کو پایا۔ اُس نے ساری کہانی پر تبصرہ کرنے کی بجائے خالی اُسی سین پر اپنی رائے دی۔
”تیری ہونے والی نند کو تو… میرے ریلٹو نے کلین بولڈ کر دیا ہے۔” ماہ نور کے پورے جملے میں صرف ماہم کو تیری ہونے والی نند یاد رہا۔ ماہم محبت کی معراج کا رستہ چھوڑ کر معراج کے گائوں کی طرف جانے والے رستے پر کھڑی تھی جس کی منزل مدیحہ کا بڑا بھائی چودھری ماجد تھا۔
٭…٭…٭
رخصتی کا وقت آن پہنچا۔ مسرت نے خوشی کے ساتھ مبشر کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اب وہ اپنے پیا گھر جا رہی تھی۔ اِس دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ مزمل نے مائرہ کو بتایا کہ وہ ہال ہی میں جگہ نماز ادا کرکے آتا ہے۔ جب وہ نماز سے فراغت کے بعد لوٹ رہا تھا، اُسی لمحے ماہم اپنی سہیلی ماہ نور کی کلائی تھامے واش روم سے نکل رہی تھی وہ جلد از جلد رخصتی والی جگہ پہنچنا چاہتی تھی۔ کوریڈور سے گزرتے ہوئے وہ مزمل سے گئی۔ ماہم آگے تھی اورماہ نور پیچھے، ماہم زمین پر گرجاتی اگر مزمل اُسے تھام نا لیتا۔ وہ گرنے سے تو بچ گئی، لیکن اُس کے دائیں ہاتھ کی ساری ہری چوڑیاں ٹوٹ گئیں جس کی وجہ سے کلائی پر کافی ساری خراشیں آگئیں۔ ماہ نور نے فوراً اپنا موبائل نکالا۔ ماہم مزمل کے بہت قریب تھی۔ ماہ نور اُنہیں کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی، چند منٹ بعد ماہ نور ہی بولی:
”مزمل! تھینکس۔ دراصل غلطی ہماری تھی۔”
”تم کون ہو۔ پہلے بھی تم نے مجھے ایسے بلایا تھا جیسے مجھے جانتی ہو۔”
”جانتی تو ہوں! وہ بھی بچپن سے، خیر چھوڑو وہ باتیں بعد میں… میں ماہ نور انصاری اور یہ میری دوست ماہم چودھری۔”
ماہم کو ماہ نور کی باتیں سُن کر ہوش آیا کہ وہ تو مزمل کی بانہوں میں ہے۔ اُس نے جلدی سے اپنی ہری فراک اور چوڑی دار پاجامہ درست کیا اور شرماتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ مزمل نے آگے بڑھتی ہوئی ماہم کو جاتے ہوئے دیکھا۔ دور تک پھر اُس نے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑے اُٹھائے انہیں رومال میں رکھا اور چل دیا۔
”وہ نظر نہیں آرہا۔” مدیحہ نے گردن اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”جس نے تمہارا فیوز اُڑایا تھا۔” معصومہ نے شرارتی انداز سے پوچھا۔
”ہاں… ہاں… وہی۔” مدیحہ نے بے تابی سے جواب دیا۔
”نظر تو مجھے بھی نہیں آرہا۔ ارے وہ رہا۔ ارے یہ کیا؟ ہاتھ میں۔” معصومہ نے معصومیت سے کہا۔
”اب تو اُس نے کوٹ کی جیب میں ڈال لی ہے۔”
”کرکٹ میچ کی کمنٹری چھوڑو اور دُلہن کی کار کی طرف چلو، وہ اُس طرف ہی جا رہا ہے۔”
”دُلہن کی نہیں… اُس کی خود کی کار ہے۔” مدیحہ نے سنجیدگی سے اطلاع دی۔
”ہاں… ہاں… اپنی کار کی طرف ہی جا رہا ہے۔ تم یہاں سے تو چلو۔”
دُلہا دُلہن گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ منظوراں بی بی اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ مزمل بیگ کا دوسرا ڈرائیور مبارک علی وائٹ مرسڈیز ملن شادی ہال کے سامنے ہی لے آیا تھا۔ مائرہ اور مبارک علی باہر کھڑے مزمل کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی مزمل آیا مبارک نے دروازہ کھولا۔ مزمل کار میں بیٹھنے لگا، تو اُسی سمے سیڑھیوں سے اوپر شادی ہال کے مین دروازے سے کچھ آگے اُسے ماہم کھڑی نظر آئی جس کا بایاں ہاتھ اُس کی دائیں کلائی پر تھا جس پر خراشیں آئی تھیں۔
ماہم کی بلوری آنکھیں اُداس تھیں۔ اِس کے برعکس مدیحہ کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ماہ نور نے ایک نظر ماہم کو دیکھا پھر مدیحہ پر نظر ڈالی اور آخر میں کار ڈرائیو کرتے ہوئے مزمل کو دیکھا؟کار ماہ نور کے پاس سے گزر کر گئی تھی۔
مزمل بیگ ایک بڑا بزنس مین اور ممتاز بیگم کا پوتا جو خاندانی رئیس خاتون تھی۔ مرید حسین خاص ملازم تھا جس نے ممتاز بیگم کے لیے چلائی ہوئی گولی اپنے سینے پر کھائی تھی۔
ممتاز بیگم نے مرید حسین کی قربانی کو یاد رکھا اور اُس کی بیوی اور دو بچوں مبشر اور مائرہ کو اپنے گھر کے پچھلے حصے میں جگہ دی۔ اِس کے علاوہ وہ تینوں ملازموں سے کچھ زیادہ تھے۔ اِسی لیے ممتاز بیگم کے کہنے پر شادی کا سارا خرچہ مزمل بیگ نے اُٹھایا تھا۔
مرید حسین اور منظوراں بی بی آپس میں چچا زاد بھی تھے۔ منظوراں بی بی کا میکا اور سسرال معراج کے گائوں میں ہی تھا۔ مبشر اور مسرت آپس میں خالہ زاد تھے۔ جن کی منگنی اُن کے پیدا ہوتے ہی طے گئی تھی۔ تب کسی کو پتا نہیں تھا کہ مبشر گونگا اور بہرہ ہے۔ مبشر دیکھنے میں حسین و جمیل تھا اُس کی نسبت مسرت عام سی شکل و صورت کی دیہاتی لڑکی تھی۔
چند سال بعد ہی یہ منگنی ٹوٹ گئی جب مسرت کے گھر والوں کو مبشر کی معذوری کا علم ہوا تھا۔ مسرت اور مبشر نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ہی تھے کہ اُنہی دنوں معراج کے گائوں میں ایک شادی کی تقریب میں مسرت نے مبشر کو دیکھا تو وہ اُسے دل دے بیٹھی۔
مسرت نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اپنے بچپن کے منگیتر ہی سے شادی کرے گی ۔مسرت کی چار چھوٹی بہنیں بھی تھیں اور گھر کے حالات بھی اچھے نہیں تھے اِس کے برعکس مبشر کی اچھی خاصی ڈرائیور کی نوکری تھی اُس کی ماں اور بہن کو بھی ممتاز بیگم بہت کچھ دیتی رہتی تھیں۔
منظوراں جب بھی معراج کے جاتی وہ اپنی شاہانہ زندگی کا خوب پرچار کرتی جس کا اثر یہ ہوا کہ مسرت کے گھر والے بھی اِس رشتے پر رضا مند ہوگئے۔
٭…٭…٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...