جیک ہماری نظروں میں پہلے ہی کچھ اچھا نہ تھا، اب اس کے اس طرح کہیں چھپ جانے سے وہ پہلے سے بھی زیادہ برا نظر آنے لگا ۔ عبدل نے سرگوشی کرتے ہوئے جان سے کہا۔
“میرے خیال میں وہ ضرور اس کبڑے جادوگر کے پاس گیا ہے ، آخر اس کبڑے کی کہی ہوئی باتیں پوری بھی تو ہوں گی ، پتھر کے بتوں کا ہم پر گرنا، بڑے بڑے درختوں کا ہمیں کچل دینا، اور زلزلے کا آنا، آخر یہ سب کب ہوگا؟”
“ابھی اور اسی وقت” میں نے آہستہ سے کہا۔
“کیا مطلب۔۔۔” جان نے حیرت سے کہا۔
“وہ دیکھئے، اس بڑے درخت کی آڑ سے وہ دونوں پتھر کے لمبے بت نظر آ رہے ہیں۔”
جان نے غور سے دیکھا تو واقعی اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ وہ بت ہم سے کوئی بیس قدم کے فاصلے پر ہوں گے ، بڑی ڈراؤنی شکلوں والے یہ قد آدم بت اتنے لمبے تھے کہ اگر وہ گرتے تو ہم پر ضرور آتے، ہم چونکہ ایک قسم کے پنجرے میں بند تھے، (درختوں کے اس جھنڈ کو میں پنجرہ ہی کہہ سکتا ہوں۔) اس لئے فوراً بھاگ بھی نہیں سکتے تھے کبڑے کی پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہونے والی تھی۔
یکایک چند ہی لمحوں کے اندر درختوں کی سائیں سائیں تیز ہو گئی، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ جنگل بہت گھنا تھا ، اس لئے آسمان تو نظر نہ آتا تھا، البتہ درختوں کے بری طرح ہلنے سے اور پتوں کے لگاتار بڑھتے ہوئے شور سے ہم یہ سمجھ گئے کہ طوفان آ گیا ہے ۔ بڑی سخت ہوا چلنے لگی۔ یہ ہوا آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھی، جو درخت کمزور تھے وہ دہرے ہوکر زمین سے لگنے لگے ، بعض دفعہ تو ایسا محسوس ہوتا کہ درخت ہم پر اب گرا اور اب گرا۔ جان نے مجھے اچھی طرح کمبل اوڑھا دیا، اسے ڈر تھا کہ کہیں کمبل ہی ہوا میں نہ اڑ جائے ۔ درختوں کے پتوں پر اب نئے قسم کا شور پیدا ہو گیا ۔ میں سمجھ گیا کہ بارش بھی شروع ہو گئی ہے ، میرے خیال کی تصدیق کڑک اور چمک نے فوراً ہی کر دی ،جان نے عبدل کو آواز دی کہ وہ خچروں کو درختوں سے باندھ دے۔ مگر اچانک یہ معلوم کرکے بڑی ناامیدی ہوئی کہ عبدل بھی غائب ہے ۔ جان کو بڑی حیرت ہوئی ، مجبوراً اس غریب نے خود ہی خچروں کو باندھا اور جب وہ واپس آ رہا تھا تو اچانک درختوں کے درمیان سے کوئی چیز زمین پر کودی۔
یہ عبدل تھا، جان کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ جیک کو تلاش کرنے گیا تھا۔ مگر جیک اسے کہیں نہ ملا ، ہوا اب اتنی تیز ہو گئی تھی کہ عبدل کی باتیں بھی مشکل سے ہی سنائی دیتی تھیں۔ آخر ہم تینوں ایک جگہ ایک دوسرے کو پکڑ کر بیٹھ گئے، کیوں کہ اگر نہ بیٹھتے تو ہوا ہمیں ضرور الگ الگ کر دیتی۔
طوفان بڑھتا ہی جارہا تھا، خوفناک کڑک اور بجلی کی چمک نے ماحول کو اور بھیانک بنا دیا تھا۔ درختوں نے ایسا شور مچا رکھا تھا کہ بس توبہ ہی بھلی۔ اچانک مجھے بڑی ہیبت ناک آواز سنائی دی ایسی آواز جیسے کوئی چیز ٹوٹی ہو، نظر اٹھا کر دیکھا تو پتھر کے بنے ہوئے وہ لمبے لمبے بت جڑ سے اکھڑ کر ہماری طرف ہی گر رہے تھے ، اگر وہ ہم پر گرتے تو یقیناً ہمیں پیس کر سرمہ بنا دیتے ، خوف کے مارے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انتظار کرنے لگا کہ بت کب نیچے گرتے ہیں۔
خوف کے مارے میری آنکھیں بند تھیں اور دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ بت مجھ پر گرنے ہی والے ہیں، مگر ایسا نہ ہوا ۔ پتھر کے ان لمبے بتوں کے گرنے سے ذرا سی بھی آواز پیدا نہ ہوئی۔ یہ بڑی حیرت کی بات تھی ۔ میں نے فوراً آنکھیں کھول دیں ، آپ میری حیرت کا اندازہ کرسکتے ہیں ، جب میں نے دیکھا کہ بت ایک لمبے اور مضبوط درخت کے سہارے ہمارے سروں کے اوپر جھکے ہوئے تھے۔ اگر وہ درخت نہ ہوتا تو ہم لوگوں کا پس جانا یقینی تھا۔
اچانک ہوا کا وہ طوفان، وہ کڑک اور چمک سب ختم ہو گئی، بس کبھی کبھی بھیگے ہوئے پتوں سے پانی کے قطروں کے نیچے ٹپکنے کی آواز آ رہی تھی ورنہ ہر طر ف سناٹا تھا ، ہمارے دل ابھی تک قابو میں نہ آئے تھے ۔ سب درخت کے نیچے دبکے ہوئے بیٹھے تھے ، ہوش اس وقت آیا جب خچروں کے ہنہنانے کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑیں۔ جان نے چیخ کر کہا:
“ارے، بچارے خچروں پر ایک درخت آ گرا۔”
یہ سنتے ہی ہم تینوں اٹھ کر تیزی سے خچروں کی طرف بھاگے، کیوں کہ میں یہ پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس خطرناک سفر میں یہ خچر ہمارا سب سے بڑا سرمایہ تھے، جا کر دیکھا تو خچروں کو اتنا زیادہ نقصان نہ پہنچا تھا ۔ دوسرے جو درخت ٹوٹ کر ان پر گرا تھا وہ کچھ اتنا زیادہ وزنی بھی نہیں تھا۔
جان نے خچروں کو تھپکتے ہوئے کہا:
“ہمیں اپنا سفر پھر شروع کر دینا چاہئے، ہمیں خزانہ تلاش کرنا ہے ۔ خزانہ گو اسی جنگل میں کہیں چھپا ہوا ہے ، مگر ہمیں اس کا صحیح مقام نہیں معلوم۔ صرف کوئی غیبی طاقت ہی ہماری مدد کر سکتی ہے ، ورنہ اگر ہم برسوں تک بھی یہاں سر کھپائیں تو اسے نہیں پا سکتے ، چلو جلدی کرو۔ اب اس کام میں دیر اچھی نہیں۔”
یہاں میں پڑھنے والوں کی ایک غلط فہمی دور کر دوں ، جان بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ اسے خزانے کی اصل جگہ کا پتہ نہیں ہے ، مگر در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ وہ نقشہ جو میری کمر پر بنا ہوا تھا اس میں وہ جگہ صاف طور پر دکھائی گئی تھی، جہاں خزانہ دفن تھا ۔ ایک بہت ہی گھنے اور دشوار گزار جنگل کے بعد پرانے زمانے کے کچھ زمین دوز کھنڈرات میں ایک خاص مقام پر وہ خزانہ دفن تھا ۔ ہم کو یقین تھا کہ ایک یا دو دن کے اندر اندر ہم ان کھنڈرات تک ضرور پہنچ جائیں گے ۔ مگر یہ جان کی عقل مندی تھی کہ وہ جان بوجھ کر سب کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ دشمن ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں ۔ اس لئے اس کی زبان سے کوئی غلط بات نہیں نکلنی چاہئے ۔ جان کی زبان سے ابھی یہ فقرے ادا ہوئے ہی تھے کہ اچانک ایک بہت بڑی چٹان کی اوٹ میں سے وہ چیز نمودار ہوئی جسے دیکھتے ہی نفرت کا ایک دریا میرے سینے میں لہریں مارنے لگتا تھا ، اورجو اس وقت میرا سب سے بڑا دشمن تھا، یعنی کبڑا چیتن۔
“آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں مسٹر جان۔” اس منحوس نے اپنی اسی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا:
“واقعی اس طرح خزانہ آپ کو کبھی نہیں مل سکتا ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے پھر ایک کاغذ پر نقل کر دیں تاکہ ہم سب ایک ساتھ اس میں دماغ لڑائیں۔”
“ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔” میں نے چلا کر کہا “یہ ناممکن ہے ۔”
“ارے ننھے چوہے، یہ تم بولے تھے، کیا بات ہے بخار میں پھنکنے کے باوجود بھی تمہاری آواز اتنی کراری نکل رہی ہے؟ خیر کوئی بات نہیں تم لوگ اگر نقشہ نہیں دینا چاہتے تو نہ سہی، تمہاری مرضی۔ مجھے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ تمہاری یہ خواہش نہیں ہے ۔”
“کس سے معلوم ہوا تھا؟ کیا جیک سے؟” جان نے پوچھا۔
“چلئے اب میں مان لیتا ہوں کہ جیک میرا آقا ہے ، اور میں اس کے لئے کام کر رہا ہوں ۔ کیا فائدہ یہ بات چھپانے سے ، جب کہ آپ کا ننھا چوہا پہلے ہی سب کچھ جان چکا ہے ۔ جیک سے مجھے سب باتیں معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اب آپ کہئے کہ کیا آپ میرے جادو کے قائل ہوئے یا نہیں ؟ بت آپ پر گرنے والے تھے مگر آپ بچ گئے ، اب زلزلہ بھی آئے گا ، میں نے آپ سے پہلے کہا تھا کہ تین دن بعد ایسا ہوگا، مگر اب یہ دوسری پیش گوئی کرتا ہوں کہ وہ زلزلہ ابھی ایک گھنٹے کے اندر اندر آئے گا ، مگر اس زلزلے سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ اب میں چلتا ہوں ، اور ساتھ ہی یہ بات بھی آپ لوگوں کو بتا دیتا ہوں کہ جیک اب آپ کے پاس نہیں آئے گا، ہم دونوں اب اسی وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے جب کہ آپ خزانہ پا چکے ہوں گے۔”
اتنا کہہ کر وہ طنزیہ انداز میں تھوڑا سا جھکا اس کی کمر کا کب دیکھ کر مجھے متلی ہونے لگی، اپنی تیز اور چیل جیسی آنکھوں سے ہمیں دیکھنے کے بعد وہ پھر جھاڑیوں میں غائب ہو گیا ۔ کبڑا دراصل جو بات بھی کہہ رہا تھا میرے خیال میں بالکل ٹھیک تھی ، دیکھا جائے تو اس کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی تھیں، میرا دل چاہتا تھا کہ اسے فوراً قتل کر دوں ، مگر قتل کا نام لینا تو آسان ہے اور یہ کام کرنا بہت مشکل ، مجھ جیسے کمزور لڑکے سے یہ کام کسی طرح بھی نہ ہو سکتا تھا ، دوسرے میں اور جان دونوں خون خرابے سے بہت دور بھاگتے تھے ، خواہ مخواہ کسی کی جان لینا کوئی بہادری نہیں ہے اگر ہمیں کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو اس سے بدلہ لینا خدا کا کام ہے ، ہمارا نہیں۔
کبڑے کے جانے کے بعد جان نے عبدل سے کہا کہ وہ خچروں کو ہانکے، مجھ سے کہا گیا کہ میں کسی بھی خچر پر بیٹھ جاؤں ، کیوں کہ میری طبیعت “ٹھیک” نہیں ہے، جان کا کہنا مان کر میں فوراً خچر پر جا بیٹھا اور کمبل کو اچھی طرح اپنے جسم سے لپیٹ لیا۔
اب ہمار ا سفر پھر شروع ہوا ، جنگل میں درخت آپس میں اس طرح مل گئے تھے جیسے طوطے کے پنجرے کے تار آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کتنی مصیبتوں اور تکلیفوں کے بعد ہم اس گھنے جنگل میں آگے بڑھے، قدم قدم پر مشکلات پڑتی تھیں، بارش کی وجہ سے جگہ جگہ چھوٹے سے تالاب بن گئے تھے ، اور کوئی راستہ تو تھا نہیں اس لئے مجبوراً ہمین ان تالابوں ہی میں گھسنا پڑتا تھا، بعض گڑھے تو اتنے گہرے تھے کہ ہم کمر تک پانی میں دھنس جاتے ، جب ایک دوسرے کو پکڑ کر باہر کھینچتے تب اس مصیبت سے چھٹکارا ہوتا، بعض دفعہ تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے کہ یا خدا میں یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ۔ اپنے ہوٹل میں اگر اسی طرح بیرا گیری کر رہا ہوتا تو آج ان تکلیفوں میں نہیں گھرا ہوا ہوتا مگر اب گزری ہوئی باتوں کو یاد کرکے رونا بے کار تھا۔ اب تو مجھے یہ سوچنا تھا کہ آگے چل کر مجھے کیا کرنا چاہئے۔
کوئی دو گھنٹوں کے بعد ہم ایک چھوٹے سے راستے سے گزر رہے تھے کہ میں یکایک خچر کی کمر سے نیچے گر پڑا ۔ گرتے گرتے میں نے دیکھا کہ درخت بڑے زور سے ہل رہے ہیں، زمین اس طرح ہچکولے لے رہی ہے جیسے وہ زمین نہ ہو کوئی دریا ہو، ساتھ ہی بڑے زور کی گڑ گڑاہٹ اور چٹانوں کے آپس میں ٹکرانے کا شور بھی سنائی دیا۔
چیزیں گھومنے لگیں، بڑے بڑے پتھر اس طرح ہلنے لگے جیسے ربڑ کے بنے ہوئے ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ کبڑے کی یہ دوسری پیش گوئی ہے جو سچ ثابت ہو رہی ہے ۔ جان اور عبدل بھی خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ، عبدل ایک زور دار چیخ مار کر ایک بڑے درخت کے تنے سے جا کر لپٹ گیا ۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے پنجے کی زمین سرکتی جا رہی ہے اور پھر یوں لگا جیسے میں کنویں میں گرتا جا رہا ہوں ۔ دھائیں سے ایک آواز آئی اور تکلیف کی وجہ سے میں نے زور کی ایک چیخ ماری۔ میرے سارے جسم میں بہت درد ہو رہا تھا ۔ جب میرے ہوش و حواس درست ہوئے تو میں نے دیکھا کہ میں ایک اندھیرے کنویں میں پڑا ہوا ہوں۔ زمین سے یہ کنواں کوئی پندرہ فٹ نیچے ہوگا۔ مجھے خیال آیا کہ شاید زلزلے کی وجہ سے زمین پھٹ گئی ہوگی اور یہ کنواں نما گڑھے زمین میں پیدا ہوا ہوگا ۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں کسی گہرے کھڈے میں نہیں گرا اور زلزلے کے بعد اوپر زمین کی سطح برابر نہیں ہوئی ، کیوں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر جیتے جی میں ایک اندھیری قبر میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ۔ زمین کے جھٹکے اب ختم ہوگئے تھے ۔ اس لئے میں کمبل جھاڑ کر اٹھا اور چیخ چیخ کر جان کو آوازیں دینے لگا۔ شکر ہے کہ جان نے میری آواز سن لی۔ وہ دوڑ کر ایک رسہ لایا اور پھر اس رسے کی مدد سے اس نے مجھے باہر نکالا ۔ باہر نکل کر میں نے ایک عجیب بات دیکھی ۔ جس حصے میں ہم لوگ کھڑے ہوئے تھے زلزلہ صرف وہیں آیا تھا ۔ ورنہ دور دور تک دکھائی دینے والے درخت اور چٹانیں اسی طرح کھڑی تھیں یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس پر زیادہ غور کرنا مناسب بھی نہیں سمجھا کیوں کہ کہ اب میں کبڑے اور اس کے جادو سے پوری طرح مرعوب ہو چکا تھا۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ کبڑا جو کچھ کہتا ہے بالکل سچ کہتا ہے ۔ اور درحقیقت وہ بڑی پراسرار قوتوں کا مالک ہے ۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اب اس سے الجھنا ٹھیک نہیں ۔ اب میں اس کی کسی بات کا مذاق نہیں اڑاؤں گا ، اور کوشش کروں گا کہ اس کا ادب کروں، آپ میری اس داستان کو پڑھ رہے ہیں، ممکن ہے یہاں آ کر یہ سوچیں کہ میں بزدل تھا جو اس قسم کی باتیں سوچ رہا تھا ۔ ٹھیک ہے آپ بے شک میرے بارے میں یہ رائے قائم کیجئے، مگر میں پوچھتا ہوں کہ اگر ایسے موقع پر میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ یقیناً آپ بھی یہی کرتے اس لئے میں بھی ایسا سوچنے میں حق بجانب تھا۔
خچروں پر سے زلزلے کی وجہ سے سامان نیچے گر گیا تھا۔ ہم تینوں نے مل کر وہ سامان پھر سے ان کی کمر پر لادا۔ اور پھر دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔ کیونکہ اب تو صرف یہ سفر ہی ہمارے لیے ضروری ہو کر رہ گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سفر ہی اب اپنی تقدیر ہے۔ ہماری ٹانگیں ابھی تک لرز رہی تھیں ، یوں لگتا تھا جیسے ہمارے جسم میں ابھی تک زلزلے کے آثار باقی ہیں۔ اپنے خیالوں میں گم میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ بار بار میرا دل چاہتا تھا کہ کہیں سے کبڑا نمودار ہو جائے اور میں اس کے سامنے اپنا سر جھکا دوں ۔ وہ اتنی بڑی شخصیت تھی اور افسوس میں آج تک اس کا مذاق اڑاتا رہا ۔ شاید میں اپنے اس خیال کو جان پر ظاہر کر ہی دیتا اگر مجھے اس کی آواز سنائی نہ دیتی۔ وہ مجھے جلدی جلدی آگے آنے کے لئے کہہ رہا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ جان کے چہرے پر خوشی کے آثار پیدا تھے اور وہ ٹکٹکی باندھے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی اس طرف جب نظر ڈالی تو خوشی کے مارے میرا جسم بھی کپکپانے لگا۔ کیوں کہ سامنے ہی اس گھنے جنگل کی آخری سرحد نظر آ رہی تھی، سورج کی روشنی اب تیز نظر آنے لگی تھی ۔
اندھیرا ختم ہوگیا تھا ، اور آدھے فرلانگ کے فاصلے پر جنگل ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا ، مگر ایک چیز جس نے میری اور شاید جان کی بھی خوشی کو دوبالا کر دیا تھا (اف! اس کا نام لکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ خوشی کے مارے لرز رہے ہیں۔) وہ کھنڈرات تھے جو نقشے کے مطابق ہم سے اب کوئی سات فرلانگ کے فاصلے پر نظر آ رہے تھے۔ ہماری پہلی منزل جس کے لئے ہم نے اتنے پاپڑ بیلے تھے اب ہم سے کتنی قریب تھی!
جان نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔ میں اس اشارے کو فوراً سمجھ گیا کیوں کہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی بہت سے اشاروں کو میں نے سمجھا تھا اور اس اشارے کا مطلب تھا کہ مجھے رفع حاجت کا بہانا کرنا چاہئے ۔ پہلے بھی جب میں نے ایسے بہانے کئے تھے تو جان مجھے پکڑ کر عبدل اور جیک کی نظروں سے بچاتا ہوا دور جنگل میں لے جاتا تھا اور دہاں کمبل اتار کر خوب غور سے میرے بدن کو دیکھتا۔ خزانے کی بابت ایک ایک بات کو تفصیل سے نوٹ کرتا ، مجھ سے مشورہ کرتا اور پھر ہم دونوں واپس آ جاتے ۔ مگر جب واپس آتے توہمارے دماغ خزانے کو ڈھونڈ نکالنے کے حل سے بہت قریب ہوتے اور مزے کی بات یہ کہ ہمارے دشمن ہمارے ان ارادوں سے بالکل واقف نہ ہوتے ۔
اس وقت بھی وہ مجھے جنگل میں ایک طرف لے گیا، اور پھر میرے جسم سے کمبل اتار کر خزانے کے نقشے کو اچھی طرح دیکھا ۔ نقشہ دیکھ کر اس نے مجھے بتایا کہ اگر خدا نے ہماری مدد کی تو ہم آج رات ہی خزانہ پا لیں گے ۔ کھنڈرات اب نظر آ ہی رہے ہیں ، بس اب صرف زمین دوز بارہ دری تلاش کرنے کے بعد سنگھار کا کمرہ تلاش کرنا ہے۔
آج سے ہزاروں سال پہلے نامعلوم اور گمنام قوم کے یہ محلات اب جس حالت میں کھڑے تھے اسے دیکھ کر دراصل آنکھوں میں آنسو آنے چاہئے تھے مگر ہمارے دل خوشی سے پر تھے ، کیوں کہ ان ہی تباہ شدہ محلوں میں ہمارے لئے وہ کچھ موجود تھا جس کی خواہش ہر انسان کو ہوا کرتی ہے یعنی دولت۔۔۔ لازوال دولت۔
خیر میں بے کار کی باتوں سے یہ صفحہ نہیں بھرنا چاہتا ، مختصر یہ کہ ہم لوگ سہ پہر سے پہلے ان کھنڈرات کے پاس پہنچ ہی گئے ۔ اب ہمیں پہلے کی طرح درخت پھلانگ پھلانگ کر راستہ طے نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ صاف میدان میں ہم اپنے خچروں پر سوار ہوکر آئے۔ عبدل ہم سے پیچھے تھا۔ میں بیچ میں اور جان سب سے آگے، احتیاطاً ہم نے اپنے پستول نکال کر ہاتھوں میں لے لئے۔ مانا کہ یہ کھنڈر ہزاروں سال سے ویران پڑے ہوئے تھے مگر کون جانے کہ ان کے اندر ہمارے دشمن پہلے ہی سے جا کر چھپ گئے ہوں!
کھنڈر کی عمارت کبھی اتنی زیادہ اونچی ہوگی کہ یقیناً آسمان سے باتیں کرتی ہوگی مگر اب صرف اس کی دیواریں نظر آتی تھیں۔ اور چھت غائب تھی ۔ یہ دیواریں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور ان کی دراڑوں میں اب گھاس اگ رہی تھی ، کاہی ان پر اتنی جمی ہوئی تھی کہ اگر کوئی ان پر چڑھنے کی کوشش کرتا تو یقیناً نیچے آ گرتا۔ چاروں سمت نحوست منڈلاتی محسوس ہو رہی تھی ، بالکل ہو کا عالم تھا، سناٹا۔۔۔ گہری خاموشی!