زینہ تمہارا ویرہ کیسا ہے ؟؟ وہ بھی اس جیسا آوارہ مزاج ہے ۔؟؟
نہیں سامعہ ویر تو بہت مختلف سلجھا ہوا انسان ہے ۔۔ اسے مل کر تو بالکل سگے بھائی والی حس جاگ جاتی ہے۔۔وہ بہت پرشفیق انسان ہے۔۔ پتا نہیں یہ لفنگا کس پر چلا گیا ہے اور پھر پڑا ہوا بھی میرے پیچھے ہی ہے۔۔۔
سامعہ یہی شخص تھا جس نے مجھے سر راہ کالی کلوٹی ،کلو جیسے القابات دیئے تھے اب اچانک کونسی خلائی بوٹی کھا لی ہے جو میرے عشق میں گوڈے گوڈے گرفتار ہو چکا ہے۔۔۔
زینہ ابھی وہ چاہتا کیا ہے ۔؟؟
ہر وقت یہی کہتا ہے کہ میرے ساتھ نکاح کر لو۔!
کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا سامعہ ۔۔!! میرے گھر سب کی موجودگی میں سب سے آنکھ بچا کر باورچی خانے کے باہر میرے ساتھ محو گفتگو تھا۔
سامعہ میں کیا کروں ؟
ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف کنواں ہے ۔۔۔
اب میں کنواں کسے سمجھوں ؟ سامعہ نے تصدیق چاہی۔
کنواں وہی جو ذیشان بھائی رشتہ لائے تھے۔
اور کھائی۔؟؟
کھائی اسی لفنگے کو ہی بولوں گی بلکہ یہ کنواں بھی ہے اور کھائی بھی ہے ۔۔۔
زینہ میں سمجھتی ہوں اسے بار بار بلاک کرنے کے بجائے ایک مرتبہ اسکے پیغامات کا جواب دے دو اور اس سے التجا کرو کہ وہ تم سے دوبارہ رابطہ نہ کرے ۔۔
سامعہ یہ شخص ڈھیٹوں کا سردار ہے ، اس پر کوئی بات ، کوئی دھمکی اثر انداز نہیں ہوتی ہے۔۔۔
سامعہ تم عبد السمیع بھائی کو بولو میرے لئے کسی دین دار شخص کا رشتہ ڈھونڈیں پلیز۔۔۔ وہ چاہے کوئی مفلس بندہ ہو گلی کے نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہو ، مگر ہو غیرت مند ، شریف انسان پلیز۔۔
سامعہ میری امی کی صحت بحال ہو جائے تو وہ شخص چاہے مجھے رخصت کروا کر لے جائے مگر فی الحال مجھ سے نکاح کر لے۔۔۔ میں اس روحیل کے عذاب سے نکلنا چاہتی ہوں یار۔۔
اس شخص نے میرا ذہنی سکون چھین رکھا ہے۔۔ میں ہر وقت خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہوں نجانے کب یہ کوئی نیا کھیل نہ کھیل جائے۔۔
سامعہ یہ شخص میرے لیے نہیں ہے۔۔کہتا ہے مجھ سے گوارا نہیں ہوا کہ تمہیں میرے سوا کوئی اور چھوئے۔ میں اسکی باندی ہوں نا جیسے۔! زینہ نے دانت پیسے ۔۔
زینہ خون نہ جلاؤ ۔! میں عبد السمیع سے بات کرتی ہوں، ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع ہے ماشاءاللہ۔۔۔ سامعہ ایک بات اور سنو ۔!
ہاں بولو۔!
سامعہ جو بھی مجھ سے شادی کرنے کا خواہش مند ہوا ،اسے واضح کر دینا کہ میں خالی ہاتھ آؤں گی۔ جہیز کے نام پر صرف میرے تن کے کپڑے اور میرا حجاب ہو گا ۔۔۔
زینہ تم پریشان نہ ہو ، میں کچھ نہ کچھ کرتی ہوں اور ویسے بھی تمہاری امی کی ہسپتال سے واپسی پر انکی عیادت کے لیے بھی تو آنا ہے ، پھر ادھر ہی ان سے ساری بات بھی کر لوں گی ان شاءاللہ۔۔
زینہ میرے خیال میں تمہیں روحیل کو بلاک کرنے کے بجائے دوبارہ سے بات واضح کر دینی چاہیئے۔۔۔
سامعہ میں بارہا واضح کر چکی ہوں۔۔ وہ ایک نمبر کا ڈھیٹ شخص ہے ، جب تک میرا کسی کے ساتھ رشتہ نہیں بن جاتا تب تک وہ میری جان نہیں چھوڑنے والا۔۔۔
پھر بھی زینہ آخری کوشش کرکے دیکھ لو۔! بلکہ اسے بولو میں تمہارا رشتہ ڈھونڈ رہی ہوں لہٰذا اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سامعہ اس نے رٹا لگایا ہوا ہے “زینہ میری اور صرف میری ہے ۔”
سامعہ میں بہت پریشان ہوں ۔
سامعہ مجھے لگتا ہے شہلا آپا بلا رہی ہیں۔ میں چلتی ہوں۔۔
ہاں ٹھیک ہے جاؤ مگر اس روحیل کا قصہ ویر عاصم کو بتا کر تمام کردو۔!
الوداعی کلمات کے بعد زینہ نے اپنے کمرے سے ہانک لگائی ۔آپا میں پانچ منٹ میں آ رہی ہوں۔!
زینہ نے کچھ دیر سوچا اور جوابی پیغام لکھنے لگی۔۔
میری آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ میرے ساتھ اپنے قیمتی وقت کا ضیاع نہ کریں، میں سبز باغ دیکھ کر پھسلنے والی لڑکی نہیں ہوں، مجھے میری اوقات پتا ہے اور آپ نے بھی سر راہ مجھے میری اوقات باور کروائی ہوئی ہے ۔
مانا کہ آپ کے ہم پر بہت زیادہ احسان ہیں مگر میں ان احسانوں کا بدلہ آپکی تفریح کا سامان بن کے نہیں چکا سکتی ہوں، میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔
روحیل صاحب میری تنہائی میرا آئینہ ہے اور میں اپنی اس شفاف تنہائی کو داغدار نہیں ہونے دونگی ، مجھے اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے پر مت اکسائیں۔! میں آپ کے ساتھ گپ شپ کرنے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوں گی، میں اس بدبودار فعل سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ، میں آپ کے لئے شیطان کو خوش کرکے اور پھر نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں نہیں بندھ سکتی ہوں۔! آپ کے لئے آپکے معیار کی لڑکی ڈھونڈنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے اور بقول آپ کے آپ لڑکیاں پھانسنے میں کھلاڑی ہیں۔ جایئے یہ کھیل کہیں اور جا کر کھیلیں۔ ! زینہ نا پہلے آپ کی تھی اور نہ اب ہو گی۔۔
زینہ نے دل پر پتھر رکھ کر روحیل کو پیغام بھیجا اور اس کا پانچواں نمبر بھی بلاک کر دیا۔
******************************************
آپا کل تک امی گھر آ جائیں گی مگر انکی فزیو تھیرپی بہت ضروری ہے۔۔۔ ہسپتال میں تو انکا فزیوتھراپسٹ اپنا ہے مگر گھر سے روزانہ امی کو لے جانا نہایت کٹھن مرحلہ ہوگا۔ موٹر سائیکل پر ایک تو کڑاکے کی سردی اور دوسرا امی کا جسم ایک طرف سے لاغر اور ایک قسم کا مفلوج ہی سمجھو۔
زید نے بھاری دل کے ساتھ ڈبڈبائی آواز میں زینہ کو بتایا۔۔
گھر پر فزیوتھراپسٹ کو بلانا روزانہ کا ہزار دو ہزار کا خرچہ ہے ۔۔ آپا یہ سب کدھر سے آئے گا ۔۔ زید لاچار لہجے میں بولتا کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔۔۔
زید بولو نا کیا کہنا چاہتے ہو۔
شہلا آپا کدھر ہیں ؟؟
وہ تو ناساز طبیعت کی وجہ سے آج جلدی سو گئی ہیں۔ پر زید تم کھل کر بات کرو نا۔ اتنا گھبرا کیوں رہے ہو۔ ؟؟
آپا آپکو تو پتا ہے امی اور آپا کے علاج پر دو لاکھ کا خرچہ آیا ہے، اور اس مکینک کی دکان پر یہ دو لاکھ کما کر عاصم اور روحیل بھائی کا قرض نہیں لوٹا پاؤں گا ، چاہے دس سال لگاتار کام بھی کر لوں تو بھی یہ ناممکن ہے۔۔ جو تھوڑا بہت کماتا ہوں اس سے بمشکل گھر کی دال روٹی چلتی ہے۔۔
ہاں یہ بات تو ہے زید۔۔ پر میں نے نوکری کے لیے سرکاری غیر سرکاری سکولوں میں درخواستیں دے رکھی ہیں ، اب دعا کرو مجھے بھی جلد نوکری مل جائے۔۔۔
آپا ۔!!
زید تم کھل کر بات کرو ۔! پہلے تو تم کبھی بھی ایسے نہیں گھبرائے ہو ۔۔
آپا بات ہی کچھ ایسی ہے ۔۔ زینہ کا دل عجیب طریقے سے دھڑکنے لگا۔۔۔
ہاتھوں میں لرزش عود آئی۔۔
زید تم بس مجھے بتا دو جو بھی بتانا ہے یوں پہیلیاں بھجوا کر پریشان مت کرو۔۔
آپا وعدہ کرو چھوٹے بھائی کا مان رکھو گی، اس وقت آپ کے سوا میری کوئی مدد نہیں کر سکتا ہے۔۔۔
زید میرے لئے تو تمہاری جان بھی حاضر ہے میرے بھائی، تم کام بولو۔۔
آپا کام نہیں ہے صرف ایک گزارش ہے ۔!
زید نے اپنی پیشانی مسلی۔۔۔ جبکہ زینہ ہنوز اسکے چہرے پر لکھے کرب کو پڑھ رہی تھی۔۔۔
گھر میں سب سے چھوٹا بھائی آج کتنی بڑی آزمائش کا شکار تھا۔ زینہ نے دل میں سوچ لیا کہ بھائی کو مایوس نہیں کرے گی۔۔ مگر شک کے ناگ پھن اٹھائے بغاوت پر اکسانے لگے۔۔۔
آپا میں سوچ رہا ہوں دبئی چلا جاؤں اور وہاں سال دو سال کما کر سارا قرض اتار دوں ۔!
زید تم کیسے دبئی جا سکتے ہو ؟ امی گھر میں بیمار ہیں۔۔
آپا میری عاصم اور روحیل بھائی سے بات طے ہو گئی ہے کہ ویر عاصم مجھے اپنے ساتھ دبئی لے جائیں گے اور اپنی کمپنی میں نوکری بھی دیں گے۔۔ زید ہمارا کیا بنے گا ۔؟؟
آپا شہلا ، آپ اور امی اسلام آباد جا رہے ہیں۔!
ایک تو فزیوتھراپسٹ عاصم بھائی کے گھر آیا کرے گا اور دوسرا آپ کا نکاح روحیل بھائی سے ہو جائے گا۔ پھر پردے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔۔
زید نے التجائیہ انداز میں بہن کی طرف دیکھا۔۔
آپا میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں یہ تمام باتیں ویر عاصم اور روحیل بھیا کے سامنے انکے ڈیڈ نے گزشتہ ہفتے ہسپتال کے انتظار گاہ میں بیٹھ کر مجھے بولیں تھیں۔۔۔ بلکہ یوں سمجھیں انہوں نے باقاعدہ آپ کا رشتہ مانگا ہے ، اندر کمرے میں جاکر باقاعدہ طور پر امی کو بھی تسلی دی ہے
ارشاد چچا کا بھی یہی کہنا تھا کہ میں آپ کے فرض سے سبکدوش ہو کر آسانی سے دوبئی جاکر کام کر سکتا ہوں۔۔
یہ سب سن کر زینہ کا رنگ فق ہو گیا۔۔
زید نے زینہ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھے تو گھبرا اٹھا۔۔
آپا کیا آپ چاہیں گی کہ ہماری ماں ابھی سے بستر پر پڑی رہیں اور محتاجی والی زندگی گزاریں۔۔؟
نہیں نا ۔؟
زینہ نے بےکلی میں دائیں بائیں گردن جھٹکی۔۔۔
آپا تو پھر ہاں بول دو ۔اس میں ہم سب کی بہتری ہے، آپا ویر عاصم بھی آپ سے بات کرنے چاہتے تھے مگر اچانک اسلام آباد کسی ضروری کام سے انہیں جانا پڑ گیا اور ویسے بھی بقول انکے کہ آپکو وقت دیا جائے، امی کی حالت سنبھلنے کے ساتھ ساتھ آپ کی حالت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔۔۔
آپا آپ روحیل بھائی کے ساتھ بہت خوش رہو گی۔۔! وہ لوگ مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ دلدار بھی ہیں، لوگ تو مال سے لدے پھندے ہوتے ہیں مگر اسے ہوا بھی نہیں لگنے دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے بےدریغ اور بلا جھجک ہماری ماں پر پیسہ خرچا ہے ۔ جبکہ انہیں علم ہے کہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم لوٹانے کا ذریعہ بھی موجود نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری خودداری کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس رقم کو قرض حسنہ کا نام دے دیا ہے ۔۔۔
آپا آجکل لوگوں کی اکثریت بےحسی کا شکار ہے، اپنا خون چھوڑ جاتا ہے ۔دودھ شریک تو بہت دور کی بات ہے ، خود دیکھ لو سگی خالہ نے ابھی تک ہمارے گھر کی دہلیز پار نہیں کی اور نا ہی ہماری ماں کا پوچھا ہے۔۔
آپا پتا ہے خالہ اور ذیشان بھائی ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں؟؟
زینہ نے ویران سوالیہ نظروں سے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔۔۔
زید نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا۔ آپا وہ اس لیے کہ کہیں ہم ان سے رقم کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں، ان سے ادھار نہ مانگیں۔۔! وہ اپنے مال کی بچت کے لیے ہم سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
زید نے بھرائی آواز میں بولا ۔۔۔
آپا میں ویر عاصم اور روحیل بھیا کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گا۔۔۔
ہماری ماں سرکاری ہسپتال میں نجانے کتنے دن کی اذیت کاٹتی رہتیں مگر ان لوگوں نے ہماری ماں کی صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے نجی ہسپتال کا انتخاب کیا، جہاں پر معمولی کھانسی کو بھی سنجیدگی سے جانچا جاتا رہا ہے۔۔
آپا وہ لوگ اس قدر مدد نہ بھی کرتے تو ان پر کوئی گلہ نہیں بنتا تھا مگر انہوں نے جذبہ ہمدردی یا پھر جذبہ ایثار و قربانی کے تحت یہ سب کیا ہے۔۔۔
آپا میں نے روحیل بھیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے، انکا اٹھنا بیٹھنا، بات چیت ، رکھ رکھاؤ اور سب سے بڑی اور اہم بات شکل وصورت والے خوبرو نوجوان ہیں۔۔
زید ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بہن کو قائل کرنے میں کوشاں تھا جبکہ زینہ ایک ہی نقطہ پر اٹکی تھی ، بے چینی اور اضطرابی اپنے عروج پر تھی۔ زینہ کے پاس اسکا حل انگلیاں مروڑنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔۔۔
زینہ کی زندگی کی یہ تاریک ترین رات کسی فیصلے کی منتظر تھی ۔۔۔ جنوری کی ٹھٹھرتی رات میں بادل کی گڑگڑاہٹ اور شاں شاں کرتی ہواؤں کے تھپیڑے لکڑی کے بند دروازے میں بےدریغ داخلے کی جستجو میں تھے۔۔۔
آپا میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔۔۔! زید نے خاموش بیٹھی زینہ کو یاددہانی کروائی۔۔۔
آپا یہ لوگ صاحب مال ہیں ،آپ انکے گھر جا کر اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے نہیں ترسو گی۔۔!!
زید بات ضرورتوں کی نہیں ہے ۔! اصل بات تو کردار کی ہے جو کہ اس ہر ڈال بیٹھنے والے بھنورے کے پاس نہیں ہے ۔۔۔ سوچوں میں غلطاں زینہ یہ سب زبان پر نہ لا سکی۔۔۔
آپا مجھے لگتا ہے آج رات بہت زور سے بارش برسنے کے امکانات ہیں۔ صحن میں سے تمام چیزیں اٹھا لی ہیں اب بس یہی زعم ہے کہیں بیٹھک کی چھت نہ ٹپک پڑے۔ زید کا دھیان یکدم پلٹا اور پریشان لہجے میں بولا۔۔
آپا یہ والی اضافی پریشانیاں آپکو اس گھر میں سننے کو نہیں ملیں گی۔۔۔!
زید مثبت جواب کے انتظار میں زینہ کے چہرے کے بدلتے رنگ کو دیکھ کر حیران تھا۔۔
آپا آپ میرے اوپر بوجھ نہیں ہو ، اور نہ یہ سمجھنا کہ میں آپ کو استعمال کر کے اپنے لئے آسانیاں پیدا کر رہا ہوں۔۔! باخدا میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔
زید تم نے ایسا کیوں سوچا۔؟؟ زینہ نے تڑپ کر بھائی کو گرکا۔۔۔
زید مجھے صلاتہ الاستخارہ ادا کر لینے دو ،میں صبح تک تمہیں جواب دے دوں گی ان شاءاللہ۔۔۔
زینہ نے خود پر صبر کا خول چڑھا کر بھائی کو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔
ٹھیک ہے آپا پر جواب “ہاں” میں ہونا چاہئے۔!
زید تم پریشان نہ ہو ، مجھے ماں کی صحت اور اپنے چھوٹے بھائی کی پریشانیوں کا بخوبی اندازہ ہے۔۔۔ اور اگر میری ہاں میں سب کی بھلائی پوشیدہ ہے تو میں اس دریغ نہیں برتوں گی ، میرے میں صرف اس سنت کو پورا کرنے کی جستجو ہے ۔
زینہ نے زید کا کندھا تھپتھپایا اور اسکے سامنے پڑے برتن سمیٹنے لگی۔۔
اور ہاں مجھے تمہارا اترا ہوا چہرہ دکھائی نہ دے ۔! اپنی عمر دیکھو اور اپنی حالت دیکھو کیا بنا رکھی ہے۔۔؟؟ اور تم نے یہ ایک روٹی بھی نہیں کھائی ہے ؟ میں برتن نہیں لے جا رہی ہوں ، فٹا فٹ اسے کھاؤ۔!
زینہ نے برتن واپس تپائی پر رکھتے ہوئے زید کو آڑے ہاتھوں لیا۔۔۔
آپا بھوک نہیں ہے ۔!
مجھے نہیں پرواہ بھوک ہے یا نہیں تم نے اس روٹی کو کھانا ہے۔۔ سوکھ کر تنکا بنتے جا رہے ہو۔!
زینہ مصنوعی غصے سے زید کو سمجھانے لگی۔۔۔
آپا میں بھیا لوگوں کے احسانوں تلے دبتا چلا جا رہا ہوں بس یہی کوشش ہے کہ جلد از جلد کما کر انہیں قرض لٹا دوں۔
کیوں نہیں زید۔؟! میں بھی یہی چاہتی ہوں، میرا بھائی سر اٹھا کر خودداری کی زندگی گزارے ان شاءاللہ۔۔
میں عشاء ادا کر لوں اور تم بھی مسجد نہیں جا پاؤ گے کیونکہ موسلادھار بارش برس رہی ہے۔۔۔
****************************
اس قدر خوش ہوں۔مجھے میری منزل مل رہی ہے۔میرے جزبات و احساسات کو یرغمال بنا کر رکھنے والی ہستی بہت جلد میری زندگی کا حصہ بننے جا رہی ہے۔۔۔
مجھے اُمید ہے تم بھی ایک دن میری محبت میں گرفتار ہو جاؤ گی ، ابھی جو بھی بدگمانیاں یا پریشانیاں تمہارے اس ننھے ذہن کو جکڑے ہوئے ہیں یہ سب میرے پاس آنے پر زائل ہو جائیں گی۔۔
اپنی “ہاں” سونپ کر مجھے معتبر بنانے والی ہستی زینہ حیات میرے خیالوں کی ملکہ ، مجھے محبت میں اپنا غلام پاؤ گی۔! روحیل ارشاد کو محبت کی یہ سوداگری قبول ہے۔
رخصتی نہ کرنے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر مجھے بلاک نہیں کرنا ، ابھی چند دن بعد تو میں تمہارا محرم ، تمہارا شوہر ہوں گا ان شاءاللہ۔
میرا آخری نمبر ہے لہٰذا محتاط رہنا۔! وگرنہ زید کے ذریعے تمہارے فون کا حصول میرے لیے ناممکن نہیں ہے۔۔
اچھا یہ بتاؤ نکاح والے دن کیا پہننا پسند کرو گی۔؟ اور میں کیا پہن کر آؤں۔؟؟؟ مجھے جواب ملنا چاہئے اور میں منتظر ہوں۔! صرف تمہاری وجہ سے کال نہیں کرتا کہ تم نے بیہوش ہو جانا ہے وگرنہ دوٹوک بات کرتا ہوں۔۔
صرف اور صرف تمہارا ہونے والا روحیل ارشاد۔!
روحیل کے چھٹے نمبر سے موصول ہونے والے پیغام کو پڑھ کر زینہ کی حالت غیر ہونے لگی۔۔ اللہ جانے اس شخص کو شرم کیوں نہیں آتی ہے۔؟ اتنی بےباک گفتگو دھڑلے سے کرتا ہے جیسے میں اسکی بیوی صدیوں سے ہوں۔۔۔ابھی یہ حال ہے نجانے نکاح کے بعد کیا کرے گا۔؟! زینہ نے پیشانی پر آئی پسینے کی بوندوں کو دوپٹے سے رگڑ ڈالا۔۔۔
پروقار شرمیلی سی زینہ اس وقت سخت مضطرب دکھائی دے رہی تھی۔۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جواب دے یا پھر خاموش ہو جائے۔ بلاک کیا تو اس شخص نے گھر پہنچ آنا ہے۔
سوچ و بچار میں گم زینہ شہلا کی بات پر چونکی۔۔۔
زینہ تم اندر کیوں گھسی بیٹھی ہو۔؟؟ دو دن بعد تمہارا نکاح ہے کچھ تو بناؤ سنگھار کی تیاری کرو۔ شہلا نے زرد تھکے چہرے کے ساتھ زینہ کو ڈانٹا۔۔۔
آپا آپ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ؟ لائیں میں آپ کے بالوں میں کنگھی کروں۔ زینہ نے توپوں کا رُخ پھیر دیا۔۔۔
میرے بناؤ سنگھار کے لیے سامعہ آج شام کو آ جائے گی۔۔
اور ویسے بھی جب تک امی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو جاتیں مجھے ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔
اے پاگل ہو گئی ہے زینہ؟! روحیل کو دیکھ کس قدر خوبرو جوان ہے ، لڑکیاں تو اسے دیکھ کر آہیں بھرتی ہوں گی اور تمہیں گھر میں بیٹھے بٹھائے مل رہا ہے ،بغیر کسی تگ و دو کے اتنا پیارا شہزادہ تجھے اپنا نام دے رہا ہے۔۔۔
آپا تگ و دو کا تو پوچھو کچھ نا جتنا اس شخص نے مجھے ہراساں کیا ہے شاید ہی کائنات میں کوئی ایسا پیدا ہوا ہو ۔آوارہ لفنگا، دل پھینک شرافت کا چولا پہن کر میرے گھر والوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔زینہ دل ہی دل میں کڑھ کر رہ گئی مگر زبان پر نہ لا سکی۔۔۔
زینہ چپ کیوں ہو گئی ہو ؟؟ لگتا ہے شرما گئی ہو۔؟ شہلا چارپائی پر بیٹھی کھڑی زینہ کے جذبات کو ٹٹول رہی تھی جو اسکے الجھے بالوں کو سلجھانے میں کوشاں تھی۔۔
نہیں آپا بس ایسے ہی۔ زینہ نے جان چھڑانی چاہی۔۔۔
ہائے اس وقت صبح کے دس بجے کون آن ٹپکا ہے ؟ زید تو کام پر ہے ۔ زینہ جا دیکھ کون آیا ہے۔؟؟
زینہ کے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔ یقیناً روحیل ہو گا ۔ جواب جو نہیں دیا۔۔ہائے اللہ اگر آپا کو پتا چل گیا کہ روحیل میرے ساتھ فون پر رابطے میں ہے تو میری بنی بنائی عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔
زینہ کی حالت ابتر ہونے لگی۔۔۔۔
زینہ دیکھ نا جا کر ۔تیسری دفعہ کوئی بے صبرا ہوا جا رہا ہے۔۔
جی آپا ۔! زینہ نے گرم شال کو چاروں اطراف لپٹا اور کانپتی ٹانگوں کے ساتھ دروازے پر جا پہنچی۔۔۔
کون .؟؟؟
تمہارا ہونے والا روحیل۔!
بےباک جواب سن کر زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی جواب دینے لگی۔۔۔
آپ کو شرم کیوں نہیں آتی۔؟؟
کس بات پر شرم آئے۔؟؟
یہی جو آپ نے ابھی مجھے بولا ہے۔! زینہ نے لرزتی آواز میں پوچھا۔۔
جھوٹ تو نہیں بولا ہے۔؟
آپ کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے ہیں۔۔!
میں تو کروں گا کیونکہ میرا پورا حق ہے۔!
میں نے آپ کو یہ حق ابھی نہیں دیا ہے۔!
تو بتا دیں کب یہ حق مجھے دیں گی تو پھر اسی وقت آپ سے تمام تفصیلی باتیں کر لوں گا۔۔!
آپ یہاں پر کیوں آئے ہیں؟ زید گھر پر نہیں ہے۔
مجھے شرافت سے فون پر جواب مل جاتا تو کبھی بھی نہیں آتا۔
زینہ دروازے پر کون ہے۔؟؟ شہلا نے کمرے سے ہانک لگائی۔۔
آپ یہاں سے شرافت سے چلے جائیں پلیز۔ کیوں میری عزت خاک میں ملانے کے لیے چلے آئے ہیں۔؟؟ زینہ شدید کوفت میں مبتلا تھی۔۔
یاد رکھنا مجھے تمہاری عزت اپنی عزت سے زیادہ عزیز ہے مگر تم سیدھے طریقے سے بات نہیں سنتی اس لیے مجھے طریقہ کار بدلنا پڑتا ہے۔ لکڑی کے بند دروازے کے آر پار نوک جھونک کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔۔
پلیز چلے جائیں۔
نہیں جاؤں گا جب تک مطلوبہ سوال کا جواب نہیں ملتا۔۔
کونسا سوال ۔؟ شدید پریشانی میں زینہ کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔۔
وہی پیغام جسے آدھا گھنٹہ قبل تم پڑھ چکی ہو اور جواب دینا گوارہ نہیں سمجھا۔۔۔
زینہ میرے بال کھول کر خود کہاں رہ گئی ہے ۔؟
آپا میں بس آ رہی ہوں ، شاید کوئی راستہ بھٹک گیا ہے تو میں اسے راستہ سمجھا رہی ہوں۔
زینہ نے جلدبازی میں جو منہ میں بول دیا ۔۔۔
دروازے کے باہر کسی کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔
آپ کس قدر ڈھیٹ ہیں۔! زینہ زچ ہو چکی تھی۔۔
میں راستہ بھٹکا نہیں ہوں بلکہ صحیح راستے کا تعین کر کے آیا ہوں۔۔
اپنے لباس کے بارے میں بتاؤ ،میں فوراً چلا جاؤں گا۔۔
جو جی میں آئے خرید لیں مگر خدارا یہاں دوبارہ نہ آنا۔ زینہ تھر تھر کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اگلے لمحے زمین بوس ہونے کے لئے پر تولنے لگی۔۔
آپکو میری حالت پر ترس کیوں نہیں آتا ہے۔؟ میری جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ یہاں پر اپنی چلا رہے ہیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی زینہ شکوہ کر گئی۔۔
اپنی ہونے والی بیوی کا پہلا شکوہ مجھے عزیز تر ہے۔ جا رہا ہوں مگر نکاح کے بعد مجھے دیکھ کر بیہوش مت ہونا۔۔
نامحرم نہیں رہوں گا ۔!
تمہاری ساری چیزیں اپنی پسند سے خریدوں گا ۔! اچھا ہوتا اگر تم اپنی پسند سے آگاہ کر دیتی پر چلو خیر وہ وقت بھی جلد آنے والا ہے ۔۔ ایک ایک منٹ گن رہا ہوں۔۔
میں جا رہی ہوں اور اب دوبارہ یہاں پر نہیں آنا پلیز۔!
میرے پیغامات کا جواب دیتی رہو گی تو نہیں آؤں گا ۔!
مجھے نہیں پتا میں جا رہی ہوں۔زینہ اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے لرزتی ٹانگوں کے ساتھ کمرے میں لوٹی جہاں شہلا کو اپنا منتظر پایا۔۔
زینہ اتنی دیر لگا دی ۔؟
جی آپا ناچاہتے ہوئے بھی پانچ منٹ ضائع ہو گئے۔۔
بنا دروازے کھولے ہی سارا راستہ سمجھا آئی ہو۔؟؟
جی آپا ۔اب کسی اجنبی کے لئے تو دروازہ نہیں کھولا جا سکتا ہے۔۔
ہاں یہ بات تو ہے۔۔
سامعہ وہ تو میری جان کو آیا ہوا ہے۔ اس قدر بےباک گفتگو کرتا ہے میرا جی چاہتا ہوں کہ اسے پکڑ کر خوب پھینٹی لگاؤں۔۔۔
ہاہاہاہا سامعہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا ۔
سامعہ تم بھی مجھ پر ہنس رہی ہو ۔؟؟ زینہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔۔
پاگل لڑکی۔! مجھے تو تمہاری اس پھینٹی والی بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ جسے دیکھ کر تم بیہوش ہو جاتی ہو اسے تم پکڑ کر پھینٹی بھی لگا لو گی۔! سامعہ نے دوبارہ ہنسنا شروع کر دیا۔۔۔
سامعہ تم بھی غیر بنتی جا رہی ہو ۔! زینہ نے منہ بسورا۔۔
اب ہماری بنو ہم سے دور جا رہی ہے تو ہمارا غیر بننا تو بنتا ہے۔ !
مطلب ۔؟؟
بھئی ہماری بنو ہمارے ہونے والے دلہا بھائی کی محبت میں کھو کر ہمیں تو بھول جائے گی نا۔!!
دلہا شلہا کچھ بھی نہیں ہے ۔! صرف سادگی سے نکاح ہو رہا ہے اور بس میں نے اپنی تمام شرائط زید کو بتا دیں ہیں ۔۔ مجھے اپنی ماں کی صحت اور بھائی کی مجبوریوں کا زعم نہ ہوتا تو کبھی بھی اس لفنگے سے نکاح نہ کرتی۔!
ہائے توبہ توبہ زینہ۔! استغفار پڑھو ۔! تمہیں کیا خبر وہ تم سے کس قدر مخلص ہو۔؟؟
ہو سکتا ہے جیسے تمہیں نظر آرہا ہے وہ ویسے نہ ہو ۔؟
سامعہ اگر وہ مخلص ہوتا تو میرے ساتھ ایسی بے باک گفتگو نہ کرتا۔
زینہ تم پاگل ہو بس۔!
ہو سکتا ہے وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا ہو اور جو جی میں آتا ہے بول دیتا ہو۔
سامعہ کوئی کیسے کسی نامحرم سے اس قدر بےشرمی والی باتیں کر سکتا ہے ۔؟
زینہ میری بہن تم اپنی اس سادہ سی دنیا میں اتنی مگن ہو کہ تمہیں اپنے اردگرد ہونے والے حالات کی خبر بھی نہیں ہے۔
عبد السمیع کے مطابق فیس بک کی دوستیوں میں بےباک گفتگو تو کچھ بھی نہیں ہے عملی مظاہروں سے بھی اجتناب نہیں برتا جاتا ہے۔۔
عبد السمیع بھائی کیا خود اس طرح کے مظاہرے فرما چکے ہیں سامعہ۔؟؟؟
سامعہ کا قہقہہ دوبارہ بلند ہوا۔۔!
عبد السمیع ایک میچور مرد ہیں جنکا آئے دن ایسے حادثات سے واسطہ پڑتا ہے۔۔ اور وہ ہر بات میرے گوش گزار کرتے رہتے ہیں۔ جوکہ گاہے گاہے میں تمہیں بھی بتاتی رہی ہوں زینہ ہونے والی زوجہ روحیل ارشاد۔!!!
سامعہ۔!! زینہ نے دانت پیسے۔۔
جی سہیلی زینہ۔؟
سامعہ تم بھی اس روحیل جیسی بےباک ہوتی جا رہی ہو۔! زینہ نے منہ بسورا۔
اچھا چلو مجھے ایسا بےباک ہونا منظور ہے ۔!
ایک بات بتاؤں زینہ۔؟
کیا ؟؟
روحیل نے ابھی تمہاری یہ گھنیری ریشمی زلفیں نہیں دیکھی ہیں ، جب اس نے دیکھ لینی ہیں تو اسکا تو حال قابل دید ہو گا۔۔
وہ جو پہلے سے بنا بنایا دیوانہ ہے پتا نہیں زلفوں پر کونسا رد عمل ظاہر کرے گا۔؟ سامعہ نے زینہ کو چھیڑا۔۔۔
میں اسے زلفیں دکھاؤں گی تو دیکھے گا نا ؟
کیوں تم اس سے پردہ کرو گی پاگل لڑکی ۔؟؟
نہیں پردہ تو نہیں کروں گی مگر وہ فی الحال صرف میرا چہرہ دیکھ سکے گا۔۔۔ ۔تو گویا تم اس کے گھر ہر وقت حجاب میں رہو گی۔؟؟
شریعت کے ساتھ یہ کچھ زیادہ شدت پسندی نہیں ہے ۔؟؟
سامعہ مجھے پتا ہے شریعت کی حدود و قیود کیا ہیں ۔بس مجھے اس شخص سے خوف آتا ہے اس لیے میں محتاط رہوں گی ان شاءاللہ۔۔
تمہیں تو جوتے مارنے کو جی چاہتا ہے زینہ خشک مزاج لڑکی۔!
پتا نہیں اس بیچارے کا کیا بنے گا جو ہر وقت دیوانہ بنا پھرتا ہے ؟؟
میں تمہیں کل سے سمجھا رہی ہوں اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لو ، غلطیاں سرزد ہوجانا فطری عمل ہے ،مگر ان غلطیوں کو ہتھیار بنا لینا جہالت ہے۔۔
اس شخص سے غلطی ہوئی اس نے تم سے معافی مانگ لی ہے ۔ “دیر آئے درست آئے۔”
پھر تم کیوں اسے ایسے فضول قسم کے القابات دیتی رہتی ہو۔؟
کونسے القابات ؟؟
یہی آوارہ ،لفنگا ، دل پھینک اور بےباک وغیرہ۔۔ !!!
تم نے اسے معاف کیا بس بات ختم ۔! سامعہ نے زینہ کے چہرے کو بیسن ہلدی سے رگڑتے ہوئے ساری بات سمجھانے کی کوشش کی ۔۔
سامعہ میں نے اسے معاف تو اسی دن ہی کر دیا تھا مگر میرے دل میں خوف ہے کہ وہ کہیں مجھے اپنی ضد کی بھینٹ نہ چڑھا دے۔۔مجھے استعمال کر کے چھوڑ نہ دے ۔! سامعہ تم نے دیکھا نہیں ہے وہ کس قدر وجیہہ اور خوبرو ہے ، اسے مجھ سے محبت کیوں کر ہو گی۔؟ جبکہ خوبصورت سے خوبصورت لڑکی اپنا پر اس پر وارنے کے لیے تیار ہو جائے۔۔۔
زینہ یہ بات تو وہ تمہیں ہی سمجھا سکتا ہے بلکہ وہ بارہا بتا بھی چکا ہے کہ اسے تمہارے کردار سے محبت ہے۔۔ اب پتا نہیں وہ کیسے سمجھائے بیچارا۔؟؟
دیکھا ہے سہیلی میری ہو اور ہمدردی اس سے ہو رہی ہے۔ زینہ نے مصنوعی غصہ دکھایا۔۔۔
بھئی میری تو ہمدردی بنتی ہے کیونکہ وہ درست راستے کا راہی ہے ۔۔ شرافت سے رشتہ مانگ کر تمہارے ساتھ کا متمنی ہے۔۔۔
آج سے میری نظروں میں اس کے لیے عزت چار گنا بڑھ گئی ہے۔۔۔ سامعہ نے جذب سے بولا۔۔ اور پاس رکھے نیم گرم پانی سے زینہ کا چہرہ تر کرنے لگی۔۔۔
سامعہ اگر وہ شرافت سے رشتہ نہ مانگتا اور مجھے ہراساں کر کے فون پر دوستی کرنے پر مجبور کرتا تو تم کیا کہتی ۔؟؟؟
پھر وہ شخص میرے جوتے کی نوک پر ہوتا۔! اسکی عزت ، اسکا مقام صحیح راستے کے تعین کی وجہ سے ہی بڑھا ہے وگرنہ تم جانتی ہو ہم دونوں اس طرح کی وقت گزاری کے سخت خلاف ہیں۔۔۔
ایک اور بات کان کھول کر سن لو ۔!
وہ کیا۔؟؟
اللہ کا واسطہ ہے اب اسے دیکھ کر بیہوش نہ ہو جانا۔!!
میں جان بوجھ کر بیہوش تھوڑی ہوتی ہوں ، مجھے اس سے شدید خوف محسوس ہوتا ہے اور میرا دل و دماغ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔! میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کروں کہ میں تم سے نہیں ڈرتی ہوں مگر پھر ڈر جاتی ہوں۔
سامعہ کا ایک اور قہقہہ بلند ہوا۔۔
زینہ تم اس قدر بیوقوف اور دبو لڑکی ہو جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
روحیل ارشاد نے ابھی بہت ساری اذیتیں برداشت کرنی ہیں، مجھے تو ابھی سے اس پر ترس آنے لگا ہے۔۔۔سامعہ اپنی چھیڑ خانیوں سے زینہ کو ذہنی طور پر تیار کرنے میں کوشاں تھی جبکہ اسے یقین تھا کہ زینہ جیسی شرمیلی لڑکی اس نئے رشتے کو احسن طریقے سے نبھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔۔۔ مگر ایک اچھی دوست ہونے کے ناطے سے وہ اپنے فرائض میں کوتاہی برداشت نہیں کر پائی۔۔۔
******************************************
امی آپ خوش ہیں نا ؟؟
بہت خوش میرے بیٹے۔! شہناز بیگم نے لڑکھڑاتی آواز میں جواب دیا۔ لحاف اور کمبل میں لپٹا دائیں طرف سے ناکارہ وجود اپنی معذوری پر اشکبار تھا۔۔
امی آپ کیوں رو رہی ہیں۔؟
بس بیٹا اللہ کی غیبی مدد پر دل بھر آیا ہے۔ یہ شکر اور خوشی کے آنسو ہیں۔
اللہ میری بیٹی کے نصیب بہت اچھے کرے ، یہ پھولے پھلے آمین۔۔
پاس بیٹھی شہلا جو ماں کےمفلوج دائیں بازو اور ٹانگ کو ہلکے پھلکے انداز میں مالش کر رہی تھی ، وہ بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائی۔
آپا آپ بھی امی کو ہمت حوصلہ دیں۔۔
زید میں اپنی بہن کے لیے بہت خوش ہوں۔ میری وجہ سے اس گھر نے بہت دکھ جھیلے ہیں۔
میرے شوہر کی وجہ سے میری ماں موت کے منہ سے باہر نکلی ہے، میرا شوہر میری بہن کی سودے بازی کرنا چاہتا تھا اور میں آنکھیں بند کر کے اسکا ساتھ دیئے چلے جا رہی تھی۔۔
بس آپا ہمارا رب ، ہمارا مالک جو بھی کرتا ہے اس میں کوئی نہ بہتری ہوتی ہے۔۔
آپ جا کر دیکھو زینہ آپا کو سامعہ آپا نے تیار کر دیا ہے ، وہ لوگ بس پہنچنے والے ہونگے ان شاءاللہ۔
ان لوگوں نے کھانا نہ کھانے سے انکار کر دیا ہے مگر میں ان پانچ لوگوں کے کھانے کا بندوست کر چکا ہوں۔۔
آپا امی کا تمام سامان باندھ لیا ہے نا ۔؟؟
ہاں ہاں زید تم بےفکر رہو۔! سب
انتظامات مکمل ہیں الحمدللہ۔
مجھے لگتا ہے وہ لوگ پہنچ آئے ہیں۔!
آپا آپ امی کو سردی میں بیٹھک میں نہ لانا۔! امی آپکی اجازت سے کچھ دیر بعد مولوی صاحب نکاح شروع کر دیں گے۔
عبد السمیع بھائی نکاح خواں کو لے کر پہنچنے والے ہونگے۔ بیٹا میری طرف سے اجازت ہے۔
میری دعائیں تم سب کے ساتھ ہیں۔ آبدیدہ ماں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ پائی۔ زید نے آگے بڑھ کر ماں کا ماتھا چوم کر ڈھارس بندھائی۔۔۔
امی ہماری محتاجی کے دن جلد اختتام پذیر ہو جائیں گے ان شاءاللہ۔۔
زید ماں بہن کی ڈھارس بندھا کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ جبکہ شہلا بہن کی زیب و زینت دیکھنے کے لیے چل دی۔۔
سامعہ زینہ تیار ہے ؟؟
شہلا نے ادھ کھلے دروازے میں جھانکا۔۔
جی آپا دیکھیں نا ہماری شہزادی پر یہ بیش قیمت میکسی کس قدر جچ رہی ہے۔ سامعہ چہکی۔
زندگی میں پہلی مرتبہ مکمل میک اپ کا استعمال زینہ کے قدرتی حسن کو چار چاند لگا گیا۔ خوبصورت تیکھے نقوش والی زینہ اپنی سانولی رنگت کے باوجود بھی ناظر کو اپنا بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔زینہ کا پرکشش گول معصوم سا چہرہ اس وقت میک اپ کی سج دھج سے دھمک رہا تھا۔۔ نشیلی جھیل آنکھیں ، گھنیری پلکوں کی لرزتی باڑ سامعہ کے چٹکلوں سے جھکتی چلی جا رہی تھی۔ دل تو گویا دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا تھا۔۔ دھڑکنوں کا انتشار زینہ کی ہتھیلیاں عرق آلود کرنے لگا۔۔۔
ماشاءاللہ میری بہن بہت خوب صورت لگ رہی ہے۔۔
شہلا نے محبت سے زینہ کی بلائیں لے ڈالیں۔۔
دلہا بھائی اور انکے اہل خانہ پہنچ چکے ہیں بس اب نکاح خواں کا انتظار باقی ہے۔۔۔۔
شہلا ادھ کھلے دروازے پر محو گفتگو تھی کہ عقب سے عاصم آن ٹپکا۔۔۔
جوش میں سلام جھاڑا اور پھر گویا ہوا ۔۔ میری بھابھی کو کہاں پر چھپا کر رکھا جا رہا ہے۔؟؟
بےپناہ خوشی سے عاصم کا چہرہ دھمک رہا تھا۔۔
جناب آپکی بھابھی ادھر ہی اپنی سہیلی کے ہمراہ ہیں اور انکا دیدار آپ نکاح کے بعد ہی کر سکتے ہیں۔ شہلا نے ادھ کھلے دروازے کو بند کر دیا۔۔
ہائے آپا ۔! کتنی ظالم بنی پھر رہی ہو۔ زینہ بھابھی بعد میں اور بہن پہلے ہے۔۔
مجھے تو ابھی دیکھنا ہے اپنی بہن کو ۔!
عاصم ضد پر اتر آیا۔۔
ویرے تم آج کچھ زیادہ شوخے نہیں ہو رہے ہو ۔؟ پہلے امی سے ملو پھر اپنی ہونے والی بھابھی سے ملنا۔!!
جناب آپ میری بھابھی کے ساتھ محو گفتگو تھیں میں اسی دوران امی سے مل چکا ہوں۔۔۔
اب جلدی سے میری بھابھی کا دیدار کروائیں۔۔!
عاصم ویرے دیدار بعد میں پہلے جاکر دستک کا جواب دو ، ہو سکتا ہے نکاح خواں آیا ہو ۔
دروازے کھولتے ہی عاصم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔۔
دہلیز کے دوسری طرف ذیشان اپنی ماں کے ہمراہ خونخوار نظروں سے عاصم کو گھور رہا تھا۔۔۔
عاصم نے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سلام جھاڑا۔۔ ذیشان بھائی اندر آئیں نا۔۔۔
خالہ آپ کیسی ہیں۔؟؟
عاصم نے اخلاق حسنہ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔۔ جبکہ ذیشان اور خالہ نے سلام کا جواب نخوت سے “ہوں” بول کر دیا۔۔ جب دیکھو ادھر ہی ملتے ہو ، تمہارا اور کوئی کام کاج نہیں ہے۔۔۔؟؟
ذیشان بھائی اتفاقاً میری آپ سے ملاقات دوسری مرتبہ ہو رہی ہے۔۔
عاصم دروازے سے ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔۔آپ اندر تشریف لے آئیں۔!
ہمیں تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے، میں اس گھر کا بڑا داماد ہوں۔۔۔ذیشان حسد سے بڑبڑاتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
چونکہ عاصم ذیشان کی طبیعت سے بخوبی واقف تھا اسلئے برق رفتاری سے اسکے ساتھ ہو لیا۔۔ ذیشان بھائی بیٹھک میں تشریف لے آئیں۔۔۔! عاصم نے آگے بڑھ کر بیٹھک کا دروازہ کھولا جہاں پر ارشاد صاحب ، عبد السمیع ، زید اور روحیل خوبصورت عروسی شیروانی زیب تن کیے بیٹھا تھا۔۔۔ ذیشان کی اچانک آمد پر تمام حاضرین نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔زید ذیشان کی چول (گھٹیا) فطرت کو دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
ذیشان بھائی تشریف لائیں آپ نے آنے میں بہت دیر کر دی ہے۔۔ میں نے بارہا آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر آپ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔۔۔
ذیشان اور خالہ کے بیٹھک میں داخل ہوتے ساتھ عاصم نے داخلی دروازے کے دونوں پٹ مع کنڈی بند کر دیئے۔۔
بس بس۔۔!! سالے اپنی صفائیاں دینا بند کرو ۔! میں سب جانتا ہوں۔۔۔ذیشان نے ہاتھ کے اشارے سے زید کا منہ بند کروا دیا۔۔۔
امی آپ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں۔۔! ذرا اپنی بہن کے گھرانے والوں کے اسلوب جمیلہ تو دیکھیں نا۔۔ ذیشان کا تیکھا لب و لہجہ حاضرین کو کھولنے لگا۔۔۔بالخصوص روحیل کی رگیں تن گئیں۔۔۔
یہ ماں کی بیماری اور مردہ بھانجے کی پیدائش کے بعد کیا میلا لگا رکھا ہے ؟
ذیشان بھائی کوئی میلا نہیں ہے ۔! آج زینہ کا روحیل بھائی سے نکاح ہو رہا ہے اور وہ بھی مکمل سادگی کے ساتھ۔!
دیکھ لیا امی ۔! کتنی عزت ہے آپ کی اور آپکے بیٹے کی اس گھر میں۔؟؟
یعنی اس بےفیض گھرانے کو ذرا احساس نہیں تھا کہ گھر کا بڑا ، گھر کا داماد زبان دے چکا ہے ۔! سالی کا گھر بسانے کی انتھک کوششیں کرتا رہا ہے۔ ذیشان کف اڑانے لگا۔۔
ارشاد صاحب بات کی طے میں پہنچ چکے تھے۔
بیٹا آپ آرام سے تشریف رکھو اور آرام سے بات کرو ۔ بہن آپ بھی تشریف رکھیں ۔!!
بڑے میاں ہماری تشریف کو چھوڑیں، آپ ہمیں اس خاندان سے بات کرنے دیں ۔ میری تو ان لوگوں نے بھری محفل میں ناک کٹوا دی۔۔
ذیشان بھائی اس وقت آپکی ناک کہاں تھی جب آپکی بیوی ہسپتال کے فرش پر تڑپتی رہ گئی اور آپ اسکا ہاتھ جھٹک کر چھوڑ گئے تھے۔۔؟؟آپ کا مردہ بچہ دفنا دیا گیا مگر آپکو توفیق نہ ہوئی کہ ہسپتال تشریف لے آئیں۔! نجانے زید کے اندر اتنی جرآت کہاں سے آ گئی۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذیشان کو آئینہ دکھایا مگر ڈھیٹوں کا سردار ذیشان کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے تھا۔۔
تم میری پریشانی نہ کرو چھوٹے سالے۔!
پہلے اپنی بہن کے کرتوتوں پر نظر رکھو جو حجاب کی آڑ میں مال دار مرغا پھانس چکی ہے۔۔۔ امی میں تو اس دن ہی سمجھ چکا تھا کہ رضاعی بھائی کی طرف سے اتنی عنایتیں کیوں کی جا رہی ہیں۔۔۔!
یہ پردہ وردہ سب ڈرامے ہیں ۔!
اس زمانے میں کون اتنا پاک دامن ہو سکتا ہے۔؟؟ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہے۔ میں سب جانتا ہوں۔
ذیشان بھائی ابھی آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔زید کی برداشت جواب دے گئی۔ اب اگر آپ نے میری بہن کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا تو نتائج کے ذمّے دار آپ خود ہوں گے۔!
میاں سچ کڑوا ہے جو تم سے ہضم نہیں ہو پا رہا ہے۔۔۔! خالہ آپ ذیشان بھائی کو سمجھا لیں۔!
بیٹھک میں موجود تمام حاضرین موجودہ صورت حال پر اپنی نشستوں پر بیٹھے کھول رہے تھے جبکہ روحیل کا معاملہ باقیوں سے الگ تھا۔۔
اے زید۔! ذیشان کو میں کیا سمجھاؤں.؟! مرد ذات ہے اندر باہر کے حالات بخوبی سمجھتا ہے ، اس نے کچھ دیکھا ہے تو بول رہا ہے نا۔۔۔ زید خالہ کے جواب پر ہقا بقا رہ گیا۔۔۔
ٹھیک ہے خالہ آپ اگر امی سے ملنے آئی ہیں تو مل لیں مگر میں مزید فالتو باتیں برداشت نہیں کروں گا کیونکہ میری ماں آپ کے اس عظیم بیٹے کی گل افشانیوں کی بدولت موت کے منہ سے نکلی ہیں۔۔
زیادہ ٹر ٹر نہ کر زید۔! تجھے بھی ان مالداروں کو دیکھ کر پر لگ گئے ہیں۔!!!
مانتا کیوں نہیں ہے تیری بہن نے اس مالدار کو پھانس لیا ہے۔
روحیل ایک لمحہ ضائع کیے بنا ذیشان کا گریبان پکڑ چکا تھا۔ لگاتار چار پانچ گھونسوں کی برسات کر دی ، مزید کے لیے عاصم اور زید کی باہوں میں تڑپنے لگا۔۔۔
گھٹیا ترین انسان زینہ کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا تو میں تمہاری زبان گدی سے کھینچ کر باہر نکال دوں گا۔۔! زینہ کی پاکدامنی کا میں گواہ ہوں۔۔
روحیل عاصم کے حصار میں دوبارہ حملے کے لیے مچلنے لگا ۔۔ خالہ نے الگ سینہ کوبی شروع کر دی۔ یہ دن دیکھنے کےلئے رہ گئے تھے۔۔ ہائے اس زینہ کلموئی کی وجہ سے میرا بیٹا پٹ گیا ہے ۔۔۔
ارشاد صاحب نے روحیل کو زبردستی پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا۔۔ جبکہ زید خالہ کے ملغظات پر قابو پانے میں کوشاں ہو گیا۔
عبد السمیع آنکھیں پھاڑے اس گھمبیر صورت حال پر پریشان نظر آ رہا تھا۔۔۔
روحیل تمہیں یہ ہاتھا پائی بہت مہنگی پڑے گی۔! ذیشان نے انگلی سے اشارہ دے کر دانت پیسے۔۔۔
اپنی یہ گیدڑ بھبھکیاں کسی اور کو دکھاؤ۔!
جو اپنے خون کا ہمدرد نہیں ہے اسے ہماری کیا قدر ہونی ہے۔روحیل نے ٹکا سا جواب دیا۔۔۔
بچے تو جس زینہ کے خواب دیکھ رہا ہے نا وہ لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہی ہے۔ذیشان نے خون آلود ناک کو آستین سے رگڑا اور دوبارہ بدظنی پر اتر آیا۔۔۔
ساری دُنیا بھی زینہ کے خلاف بولے نا ،میں پھر بھی اسکے کردار کی گواہی دوں گا ۔! تم جیسے گھٹیا خالہ زاد سے اللہ بچائے۔۔ روحیل نے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے ذیشان کو کھری کھری سنائی۔۔۔ ارشاد صاحب نے روحیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ذیشان سے مخاطب ہوئے۔
ذیشان صاحب میرے خیال میں آپ کا وقت پورا ہو چکا ہے لہٰذا آپ تشریف لے جائیں ۔۔۔
کیوں بزرگو۔؟؟؟ آپ کو بھی سچ چبھتا ہے ۔؟؟
مجھے سچ نہیں جھوٹ سخت چھبتا ہے ۔!! میں نے یہ بال باہر دھوپ میں بیٹھ کر سفید نہیں کیے ہیں۔ ، تم جیسے تو میں نے اپنے ہاتھوں میں کھلائے ہیں۔۔ابھی اگر تم نے میری ہونے والی بہو کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا تو روحیل کی طرف سے جو کمی رہ گئی ہے وہ میں نے پوری کر دینی ہے۔تمہیں شاید کوئی دانت دکھانے والا نہیں ملا ہے۔۔
اس شریف مفلس خاندان کو دبانے کے تمہارے دن رخصت ہو چکے ہیں۔۔۔
ہونہہ شریف۔!! ذیشان نے نفرت بھرے لہجے میں ہنکارا بھرا۔
چلو امی۔! ان بیغیرتوں سے ہم دور ہی اچھے ہیں۔۔
جی آیاں نوں۔! ارشاد صاحب نے معنی خیز لہجے میں بولا۔۔ عاصم نے فوراً باپ کی طرف دیکھا جسے انہیں نے آنکھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا۔۔۔
زید مہمانوں کو بیٹھک کے خارجی دروازے سے رخصت کرو یا پھر یہ غمگسار ماں بیٹا تمہاری والدہ کو ملنا پسند فرمائیں گے۔؟؟ ارشاد صاحب نے زید سے تصدیق چاہی۔۔۔
چچا جان بہتر ہے یہ فی الحال یہاں سے تشریف لے جائیں۔ انکی زبانوں کی شیرینی میری ماں کو مزید جلائے گی، میری ماں کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ انکی زبان کی کڑواہٹ کو مزید سہہ سکیں ۔۔
زید نے بات جاری رکھتے ہوئے بیٹھک کا خارجی دروازہ کھولا اور ذیشان کو نکلنے کا اشارہ کیا۔۔۔
ذیشان بھائی جلدی کریں ۔! جنوری کی سردی ہے کمرہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔۔
اور ہاں خالہ اپنے بیٹے کی تربیت پر ضرور سوچئے گا۔!
او چل بڑا آیا تربیتی پیغام رسان۔! پتر تیری زبان صرف اس مالدار مرغے کی وجہ سے چل رہی ہے وگرنہ تو میرے دو جھانپڑوں کی مار ہے۔!!!
ذیشان نے نکلتے نکلتے دوبارہ زہر اگلا۔۔۔
ذیشان بھائی ہر شخص کا وقت بدلتا ہے ، ہر شخص کو اسکے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے۔۔۔
اپنی بیوی سے تو ملتے جائیں۔! زید نے ہنکارا بھرا۔۔۔
تو فکر نہ کر زید .!! وہ زیادہ عرصہ میری بیوی نہیں رہے گی۔! اسے طلاق بھجوا دوں گا۔ ذیشان گلی میں نکل کر دھاڑا۔۔۔
آپ طلاق بھیجیں یا نہ بھیجیں میری بہن خلع کا مطالبہ کرے گی۔۔۔ کیوں کہ جو مرد اپنی بیوی کو عزت نہیں دے سکتا ہے اور جسے اپنی اولاد کی فکر یا پرواہ نہیں ہے ایسے بےحس سے کنارہ کشی بہتر ہے۔۔۔
زید نے غم سے بول کر خارجی دروازہ بند کر دیا۔۔۔
میں آپ سب سے بہت معزرت خواہ ہوں۔ نجانے ان لوگوں کو کہاں سے خبر مل گئی ہے اور ادھر میری بہن کی خوشیوں کو برباد کرنے چلے آئے ہیں۔۔۔
زید بیٹا تم پریشان نہ ہو ۔! اس شخص کی نفسیات کو میں بخوبی سمجھ چکا ہوں۔
بس تم نکاح کی تیاری پکڑو ۔! ہمیں اسلام آباد واپسی کے لیے بھی نکلنا ہے۔۔۔
جی چچا جان بس ابھی نکاح خواں آتے ہی ہوں گے۔۔ عبد السمیع بھائی ذرا انہیں فون ملا کر پوچھیں۔!
زید پریشان نہ ہو یار ۔! اس سارے ہنگامے کے دوران مجھے پیغام موصول ہوا ہے کہ انہیں کوئی ضروری کام پڑ گیا ہے بس وہ نپٹا کر بیس منٹ تک پہنچتے ہیں۔۔۔
اچھا چلیں پھر آپ لوگ کھانا تناول فرمائیں۔۔۔
میں بس ابھی لایا۔۔! زید تمہیں ہم نے منع بھی کیا تھا پھر بھی تم باز نہیں آئے ہو ۔!
آپ سب میرے معزز مہمان ہیں تو میں کیسے آپ سب کو بنا مہمان نوازی کے رخصت کر سکتا ہوں۔۔۔
عاصم بھائی آپ آپا سے تیاری کے بارے میں تصدیق کر لیں۔۔!
ہاں یار۔!! میں تو بس بیٹھک کے داخلی دروازے کو بند کرنے کے چکروں میں تھا کہیں زینہ یہ سب ہنگامہ سن کر بیہوش نہ ہو جائے۔۔اور پھر ماسی امی کے لئے بھی کوئی صحت افزاء منظر نہیں تھا۔۔۔
عاصم بھائی آپ تو اصلی والے شہزادے ہو ماشاءاللہ۔ آپ کا دھیان چاروں طرف رہتا ہے۔۔۔
نہیں یار بس کبھی اپنی خوبیوں پر غرور نہیں کیا ہے۔۔ عاصم نے مسکرا کر کالر جھاڑے جبکہ چند لمحے قبل میدان جنگ بننے والی محفل دوبارہ سے زعفران بن گئی۔۔۔
روحیل کے چہرے کی مسکراہٹ لوٹ آئی اور ارشاد صاحب بھی ماسی امی کو سلام کرنے کی غرض سے عاصم کے ساتھ ہو لیئے۔۔۔
ڈیڈ آپ ماسی امی کے پاس بیٹھیں ،میں ذرا زینہ کی خبر لیتا ہوں۔۔۔
عاصم میری بہو کو تنگ نہیں کرنا۔۔۔
ارے ڈیڈ میں تنگ کرنے والا نوجوان ہوں بھلا۔؟؟؟ میں تو خوشیوں کو دوبالا کرنے کی آرزو میں رہتا ہوں۔!
عاصم مسکراتے ہوئے ساتھ والے کمرے کے بند دروازے پر دستک دینے لگا۔۔۔
کون۔؟؟