“چاچی ۔۔
چاچی پلیز دروازہ کھولیں خدا کا واسطہ ہے آپ کو ۔۔
چاچی اتنی رات ہے ۔۔
مجھے ڈر لگ رہا ہے چاچی پلیز ۔۔
چاچی مجھے مار لیں پیٹ لیں لیکن اس طرح مت کریں چاچی رحم کریں خدا کے واسطے ۔۔”
اس کی چیخ و پکار بیکار تھی کیونکہ چاچی کب کا اسے گھر سے نکال کر اپنے کمرے میں سونے جا چکی تھیں ۔۔
اس کی صدائیں گلی میں گونجتی رہ گئیں ۔۔
وہ وہیں دروازے سے پشت لگا کر دہلیز پر بیٹھ کر گھٹنوں میں منہ دے کر سسکنے لگی ۔۔
“میائوں ۔۔”
اس نے چونک کر اپنا سر گھٹنوں سے اٹھایا ۔۔
“یہ تو کسی بلی کی آواز ہے”
بلی کی آواز بہت کمزور تھی شائد بلی بھوکی یا زخمی تھی ۔۔
بلی کو سوچتے ہوئے وہ اپنا غم بھول گئی ۔۔
تھوڑا بہت ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک بڑا سا سیاہ بلا ایک درخت کے قریب بیٹھی نظر آئی ۔۔
بلا اتنا بڑا تھا اوپر سے بلکل سیاہ بھی ۔۔
مدد کا خیال بھول کر وہ ڈر کر پیچھے ہوگئی لیکن اچانک اس کی کالی آنکھیں بلے کی چمکیلی آنکھوں سے ملیں تو وہ کچھ چونک گئی ۔۔
اسے یوں لگا جیسے بلا اس سے مدد چاہتا ہو ۔۔
وہ خود بھی تو تکلیفیں جھیلتی رہی تھی ۔۔
کسی بے زبان کی تکلیف کا احساس کیسے نہ کرتی ۔۔
دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس نے بلے کے قریب جا کر جائزہ لیا ۔۔
بلے کی پچھلی ٹانگ میں لکڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا گھسا ہوا تھا ۔۔
اس کے منہ سے سسکاری سی نکلی ۔۔
“یا اللہ یہ تو بہت تکلیف میں ہوگا ۔۔
میں کیا کروں ؟
گھر کے اندر میں نہیں جا سکتی اسے کیسے لے جائوں ؟
خالی ہاتھ کیسے مدد کروں بیچارے کی ؟”
بڑبڑاتے ہوئے وہ دل مضبوط کرتی بلے کے پاس بیٹھ گئی ۔۔
ایک عجیب سا خوف اس کے رگ و پے میں سرائیت کر رہا تھا ۔۔
جیسے کوئی اسے گھور رہا ہو ۔۔
تنبیہہ کر رہا ہو ۔۔
اس نے اپنا ہاتھ جیسے ہی “میائوں میائوں” کرتے بلے کی طرف بڑھایا درخت کی شاخیں زور سے ہلیں ۔۔
ہوا تو بلکل بھی نہیں تھی حبس ہی حبس تھا پھر کیوں اور کیسے ؟
وہ جلدی سے اٹھ کر درخت کے نیچے سے نکل گئی اور گھر کی طرف فل اسپیڈ سے دوڑ پڑی ۔۔
پھر سے اس نے منت سماجت شروع کردی مگر بیکار ہی جاتی نظر آرہی تھی ۔۔
لیکن اس بار اس نے ہار نہیں مانی اور مستقل دستک دیتی رہی ساتھ ہی خوفزدہ نظروں سے اس درخت کو بھی دیکھ لیتی ۔۔
اس گلی میں ان کے گھر سمیت صرف تین چار مخدوش حال گھر بنے تھے ۔۔
باقی ہر طرف درخت ہی درخت تھے خشک بھی اور ہرے بھرے بھی ۔۔
یہاں ہر وقت ہو کا عالم رہتا لیکن رات کے اس پہر دہشت بے حساب تھی ۔۔
اس کی مستقل دستک اور پکاروں میں اچانک بلے کی میائوں میائوں بھی شامل ہوگئی تو اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں ۔۔
دل اچھل کر حلق میں پھنس گیا ۔۔
ڈرتے ڈرتے درخت کی طرف دیکھا تو درخت کے نیچے سے کالا بلا لنگڑاتا ہوا اسی کی طرف چلا آ رہا تھا ۔۔
اس کی سٹی گم ہوگئی ۔۔
اسے جانے کیوں ایسا لگا تھا کہ بلا سخت غصے میں ہے ۔۔
اس کی آواز ویسی ہی کمزور تھی لیکن میائوں میائوں مستقل تھی ۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ غصے میں اس سے مدد کی التجا کر رہا ہو ۔۔
اس کی جان آدھی ہونے لگی جب اچانک گھر کا دروازہ کھول دیا گیا ۔۔
سامنے گیارہ سالہ ناصر نیند سے لال آنکھیں لیئے کھڑا تھا ۔۔
وہ کچھ بھی کہے بغیر بجلی کی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئی اور دروازے کی کنڈی لگادی ۔۔
ناصر کے حیرت سے دیکھنے پر “کچھ نہیں” کا تاثر دے کر اسے ساتھ ساتھ لیئے صحن جلدی سے عبور کر کے کمرے میں گھس گئی ۔۔
“آپی کیا ہوا ؟”
ناصر سچ مچ پریشان ہوگیا ۔۔
“کک کچھ نہیں ۔۔
چاچی نے اجازت دی دروازہ کھولنے کی ؟”
“جی امی نے ہی اجازت دی ۔۔
ورنہ میں کہاں خود کھول سکتا تھا ؟
اس بار آپ نے کوئی بڑی مسٹیک کی ہوگی تب ہی امی نے سزا بھی بڑی دی ۔۔”
ناصر کے اچانک کہنے ہر وہ افسردگی سے ہنس پڑی ۔۔
“مجھے آج تک اندازہ نہیں ہوا کہ چاچی مجھ سے کب کس بات پر خفا ہوتی ہیں ؟
سارے دن کی روٹین ذہن میں دوڑائی ہے لیکن ابھی تک غلطی کیا ہوئی ہے سمجھ نہیں آیا ۔۔”
اس کے ہونٹ لٹکا کر کہنے پر ناصر ہنس پڑا ۔۔
“اچھا اب تم دانتوں کی نمائش بند کرو اور اپنے کمرے میں جا کر سو جائو ۔۔
ورنہ ممکن ہے چاچی اس بات پر بھی ناراض ہوجائیں ۔۔
اس کی ہدایت پر ناصر اسے گڈ نائٹ کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
اس کا ڈر بھی ناصر سے بات کر کے تھوڑا ختم ہوا ۔۔
لائٹ آف کر کے سونے کی ہمت اس سے آج نہیں ہو سکی سو ایسے ہی بستر پر لیٹ گئی جب پھر سے میائوں میائوں کی آوازیں اس کے اعصاب چٹخانے لگیں ۔۔
اس کا دل بیٹھنے لگا ۔۔
یہ آواز اس کے کمرے کی کھڑکی سے آ رہی تھی ۔۔
اس کے کمرے کی کھڑکی تک پہنچنے کے لیئے باہر سے گھوم کر دوسری طرف جانا پڑتا تھا تو کیا یہ بلا بھی زخمی ٹانگ کے ساتھ اتنا لمبا سفر کر کے اس کی کھڑکی تک پہنچا تھا ۔۔
ترس اور خوف نے ایک ساتھ اسے ڈرایا تھا ۔۔
وہ اٹھ کر کھڑکی تک گئی اور جب پردہ ہٹایا تو سامنے ہی وہ بلا اپنی سرخ چمکتی ہوئی آنکھیں کھڑکی پر گاڑے کھڑا تھا ۔۔
دہشت زدہ ہو کر اس نے پھر سے کھڑکی بند کرنی چاہی لیکن جب اس بلے نے بہت آس سے ہلکا سا “میائوں” کیا تو وہ لاچارگی سے اس بلے کی طرف دیکھنے لگی ۔۔
ایک بے زبان جانور مستقل اس سے مدد کی درخواست کر رہا تھا وہ کیسے ترس نہ کھاتی ۔۔
جالی میں سے ہاتھ نکال کر اس نے بمشکل اس بھاری بھرکم بلے کو کمرے کے اندر کھینچا ۔۔
اس کے ہاتھوں کے جوڑ تکلیف کرنے لگے ۔۔
اتنا بھاری بلا ۔۔
“کیا سارے ہی بلے اتنے بھاری ہوتے ہیں ۔۔”
اس نے حیرت سے اس بلے کو دیکھتے ہوئے سوچا پھر ساری سوچیں جھٹک کر اس کی ٹانگ کا معائنہ کرنے لگی ۔۔
نہ جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے بلے کی ٹانگ میں وہ لکڑی کا ٹکڑا کسی نے پھنسایا تھا ۔۔
خود سے ہلکا سا لکڑی کا ٹکڑا اس طرح آر پار نہیں ہو سکتا ۔۔
اور حیرت انگیز طور پر بلے کا خون بھی نہیں نکل رہا تھا ۔۔
ایک بار پھر اس کے دل میں خوف نے انگڑائی لی لیکن وہ پھر بھی وہ لکڑی کا ٹکڑا نکالنے کے لیئے جھک گئی ۔۔
اس کا خود پر کوئی زور نہیں تھا جیسے اس وقت ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا کھینچنے پر اتنے آرام سے نکل گیا جیسے سوئی میں سے دھاگا ۔۔
ایک بار پھر وہ ٹھٹھکی اور ایک بار پھر جیسے کسی نے اس کی سوچوں پر بند باندھ دیا ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا کھڑکی سے باہر پھینک کر وہ بلے کی طرف پلٹی ۔۔
“تمہیں بھوک لگی ہے ۔۔؟”
اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی ۔۔
بلے نے جواب میں کوئی آواز بھی نہ نکالی اور سر اٹھائے یک ٹک اس کی آنکھوں میں گھورتا رہا ۔۔
بے ساختہ جھرجھری لے کر وہ پیچھے ہوئی پھر آہستہ آواز میں بولی ۔۔
“پلیز آواز مت نکالنا ۔۔
میری چاچی تمہارے ساتھ ساتھ میرا بھی قیمہ بنا دیں گی ۔۔
میں دیکھتی ہوں کچن میں شائد کچھ پڑا ہو کھانے یا پینے کے لیئے ۔۔
امید تو نہیں ہے ویسے ۔۔”
وہ بلے سے یوں بات کر رہی تھی جیسے وہ اس کی باتیں سمجھ رہا ہو ۔۔
تنہا رہنے والوں کو اکثر خود سے یا بے زبانوں سے بات کرنے کا شوق ہو جاتا ہے ۔۔
اسے بھی یہ شوق لاحق تھا ۔۔
کچن میں جا کر اس نے دیکھا فریج اور کنبٹ وغیرہ پر تالا لگا تھا ۔۔
خوش قسمتی سے آج کھانے میں چکن قورمہ بنا تھا ۔۔
چچڑی ہوئی ہڈیاں پلیٹ میں پڑی تھیں ۔۔
وہ کچھ اور نہ پا کر وہی ساری ہڈیاں ایک پلیٹ میں لیئے کمرے میں چلی آئی ۔۔
بلا سکون سے اس کے بستر پر پھیل کر بیٹھا تھا ۔۔
بلے کے شاہانہ انداز پر بھنویں اچکاتی وہ زمین پر بیٹھ گئی اور ہڈیاں بھی فرش پر ڈال دیں ۔۔
“شش بلے ۔۔
یہ کھالو ۔۔
اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔۔
اسی پر صبر شکر کر لو ۔۔
مجھے دیکھو میں نے رات کا کھانا کھایا ہی نہیں ۔۔
مجھ سے زیادہ بہتر حالات ہیں تمہارے ۔۔
نضرے نہیں کرو ۔۔
کھالو کالو ۔۔
ابے کھالے نا موٹو ۔۔”
بلے نے صرف ایک نظر ہڈیوں پر ڈالی اور پھر سے اسے گھورنے لگا ۔۔
اس کا سہی والا دماغ خراب ہوا اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
“شہزادے ہو کہیں کے ۔۔
نخرے تو دیکھو جیسے آسمان سے اترا پرا ہو ۔۔
اترو میرے پلنگ سے ۔۔
کھانا ہے تو یہ کھائو نہیں تو جائو ۔۔
مجھے سونے دو ۔۔”
اسے جانے ایسا کیوں لگا جیسے بلا مسکرایا ہو ۔۔
سر جھٹک کر اس نے خود بلے کو نیچے اتارنا چاہا لیکن بلا پہلے سے دوگنا بھاری ہو رہا تھا ۔۔
وہ اپنی کمر پر ہاتھ ٹکا کر خوف اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔
اسے یقین سا ہوگیا یہ کوئی عام بلّا نہیں بلکہ کوئی بلا ہے ۔۔
وہ کمرے سے باہر بھاگنے کے لیئے مڑی ہی تھی جب بلا ایک ہی چھلانگ میں اس کی گردن پر حملہ آور ہوا ۔۔
بلے کے بوجھ سے وہ پورے قد سے دھڑام کی زوردار آواز کے ساتھ زمین بوس ہوگئی ۔۔
گرتے ہوئے سر ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا جس کی وجہ سے خون بھل بھل نکلنے لگا اور کچھ ہی دیر بعد اس نے ہوش گنوا دیئے ۔۔
جو آخری منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ بلا اپنی نوکیلی زبان سے اس کی پیشانی سے خون چاٹ رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...