یہ دو دن پہلے کے بات تھی سر سلطان کے قریبی دوستوں میں سے ایک جنکا نام سر احمد فراز تھا انکا ایک ہی اکلوتا سرفزند تھا جسکا نام افتخار تھا اسکی لاش سڑک کنارے اس حالت میں پڑھی ہوی تھی کہ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا چونکہ سر احمد فراز نے عوام کی خدمت کے لیے دو تین فلاحی اسپتال قائم کیے اور وہ آے دن غریب عوام کی مدد کرتے رہتے تھے اسلیے عوام میں کھلبلی مچ گئ اور پولیس کو ایکشن میں آنا پڑا تنقیش شروع ہوی آخر کا تنقیش مکمل ہونے کی صورت میں جو معلومات ملیں وہ یہ تھیں کہ پوسٹمارٹم کی رپورٹ کہ رہی تھی کہ نوجوان کے معدے میں سفید پوڈر(ہیروئن) کی ایک بڑی مقدار ملی ہے جو کی افتخار کے موت سبب بنی آخر ایک دو ہفتہ تک تنقیش ہوتی رہی مگر کوی مدلل ثبوت نہ ملا کہ وہ کون تھا جس نے افتخار کو یہ پوڈر فراہم کیا پوسٹ مارٹم کی رپورٹ یہ بھی بتا رہی تھی کہ افتخار پہلے بھی سفید پوڈر کا استعمال کرتا رہا ہے دو ہفتوں میں عوام کا جوش و خروش میں کم ہوگیا اور پولیس والے بھی اکتا گۓ مگر سر احمد فراز اپنے بیٹے کی موت کو نہ بھلا پاۓ سر سلطان ان دنوں ایک کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے جب وہ آے تو انہیں ساری باتوں کی خبر ہوی تو انہیں بہت دکھ ہوا انکے سامنے مرحوم افتخار کا چہرہ گھوم گیا ابھی اسکی عمرا بیس اکیس سال تھی پھر سر سلطان تعزیت کرنے کے لیے گۓ باتوں باتوں میں افتخار کے قاتل کی بات چھر گئ سر سلطان نے محسوس کیا کہ سر احمد فراز اپنے بیٹے کے قاتل کے نہ ملنے پر بہت غمگین ہیں اچانک سر سلطان کے ذہن میں عمران کا خیال آیا اگر عمران اس کیس پر کام کرنے پر رضامند ہو جاتا تو یقیناًتھورے ہی دنوں میں قاتل کی گردن ان کے ہاتھ میں ہوتی پھر انہوں نے عمران سے اس سلسلے میں بات کی پہلے تو اسنے طنزیہ لہجے میں کہا کہ واہ اب اس ملک کی سیکڑٹ سروس ایک قاتل کا سراغ لگاتی پھرے مگر جب سرسلطان نے افتخار کی والدہ کے رونے کا منظر کھنچا اور کہا کہ میرے خیال سے یہ پورا ایک گروہ ہے جو کے ہماری نوجوان نسل کو تباہی کی طرف دکھیل رہا ہے اور بھی دلیلیں دیں تو عمران کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا اسکی نظروں کے سامنے سے کئ دنوں سے اس قسم کی خبریں گزر رہیں تھیں مگر کچھ کیسس میں الجھا ہونے کی وجہ سے ان پر اتنا دھیان نہیں دے پایا تھااب وہ سوچ رہا تھا اس گروہ کا سدباب کر دینا چاہیے پتا نہیں یہ گروہ کتنے لوگوں کے گھر اجار چکا تھا اسنے اس کیس پر کام کرنے کی حامی بھر لی پھر اسنے اپنے طور پر تنقیش شروع کی پہلے تو اسنے اسکے سارے خاندان کے لوگوں کو کنگھالا ایک ایک سے پوچھ گوچھ کی مگر کوی بھی شخص ایسا نہ ملا کہ جس پر شک کیا جا سکتا ہو
کہ یہ اس گروہ کا آلاکار یا افتخار کا قاتل ہے اب اسنے اسکے بہت قریبی دوستوں سے پوچھ گوچھ کی اسکے سارے دوست تقریباً تقریباً شریف تھے مگر اسکا ایک دوست جسکو اسکے دوسرے دوستوں کے بیان کے مطابق افتخار اسے اپنا سب سے اچھا دوست یعنی بیسٹ فرینڈ کہتا تھا جب اس ست پوچھ تاچھ کی تو عمران کو اس پر شک گزرا سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسکی آنکھوں کے سرخ رنگ کے بڑے ڈورے تھے جو کہ اس چیز کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ یہ بندہ بہت سالوں سے سفید پاوڈر کا رسیا ہے مگت عمران نے اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ سے پہچان چکا اسنے بس اتنا کیا کہ جولیا کو اسکی کوٹھی کی نگرانی پر لگا دیا کیوں کہ ابھی اس کے پاس کوی واضح ثبوت نہیں تھا کہ یہ اس گروہ کا آلا کار ہے پھر ایک دن رات کو ڈھیر بجے جولیا نے ایکسٹو کو رپورٹ دی کہ وہ نوجوان کے تعاقب میں ہیں اور وہ عجیب عجیب سی حرکتیں کر رہا ہے اکیسٹو کے استفسار کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ سڑک کنارے بھیٹھے ہوے ہر فقیر کے پاس گاڑی روکتا ہے پھر ان سے دو تین باتیں کرتا ہے پھر واپس گاڑی میں آکے بیٹھ جاتا ہے اب تک وہ پانچ چھے فقیروں سے ایسی حرکتں کر چکا ہے اکسٹو نے اسے حکم دیا کہ وہ واپس چلی جاے اور اسے اس سڑک کا بتا دے اب جہاں وہ اس کا تعاقب کر رہی ہے جولیا نے وہ سڑک بتا دی ایکسٹو جو کہ عمران ہی تھا اسنے تنویر کو حکم دیا کہ ٹبی لیٹ علاقے کی فلاں سڑک پر ایک فقیر بیٹھا ہوگا اس کی نگرانی کرے اگر کوی گاڑی اسکے پاس آکر رکے اور پھر چل دے تو وہ اس کا تعاقب کر ے تنویر کو یہ حکم دے کر اسنے جلدی سے فقیر کا روپ دھارہ اور اس سڑک پر جا کہ بیٹھ گیا جہاں تنویر کو اسنے ایک فقیر کی نگرانی کرنے کا کہا تھا عمران اس سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا اب تنویر عمران کی نگرانی کر رہا تھا اور عمران افتخار کے اس دوست کا انتظار جوکہ ہر فقیر سے بات کر کے گاڑی میں بیٹھ جاتا تھا
پھر اسکے اندازے کے عین مطابق تھوری دیر بعد نوجوان اسکے سامنے کھڑا اس سے وائٹ وژن کا پوچھ رہا تھا اس ساری کاروای کے بعد اب وہ اس فقیر کے سامنے کھڑا تھا جسکو گزشتہ رات تنویر نے اغوا کیا تھا
سلامالیکم ٠٠٠٠٠٠٠٠٠عمران نے بوکھلاے ہوے لہجے میں کہا
واسلام کیا چاہتے ہو مجھ سے
ؑہ جنجلا کر بولا
یار میں تو ایک چیز ہی چایتا ہوں مگر میرے چاہنے یہ نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے جب دونوں کی رضامندی ہو تو پھر بات بنتی اٹھا دے ہاتھ اور دعا کر دے میرے بارے میں بس اگر میری شادی ہو گئ نا تو تمہیں مٹھای کے اکھٹے تین ڈبے دوں گا
عمران بولنے پہ آیا تو بولتا ہی چلا گیا جب وہ رکا تو اس نے فقیر کی طرف ایسے بوکھلا کہ دیکھا جیسے وہ اس جو یہ باتیں نہ بتانا چاہ رہ ہو
اوہ خدا میں یہ کس پاگل خانے مءں پھنس گیا
وہ بڑبڑایا
جب سفید پوڈر بیچ کر لوگوں کے گھر اجارتے تھے تب خدا یاد نہیں آتا تھا
عمران نے طنز کیا
فقیر چونک پڑا اسنے عمران کے چہرے پر نظر ڈالی تو کانپ اٹھا جہاں کچھ دیر پہلے حماقت برس رہی تھی اب اسکی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی
ک کی کیسی باتیں کر رہے ہو کیسا سفید پاوڈر میں نے تو کبھی اسکا نام بھی نہیں سنافقیر کے چہر ے سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے
میرے حیال سے مجھے تمہاری یاداہشت واپس لانی ہی پڑے گی
عمران نے اٹھتے ہوے کہا پھر وہ فقیر کے قریب آیا اچانک اس نے ایک زوردار گھونسہ اس کے ناک پر دے مارہ فقیر کےایک کرسی کے ساتھ بندھا تھا وہ کسمکایا
شرافت سے بتا دو کہ اس گروہ میں کون کون ایسا ممبر ہے جسے تم جانتے ہو اور یہ سفید پاوڈر تمہیں کون مہیا کرتا ہے
عمران غرایا دفعتاً اسے کی نظروں کے سامنے سے افتخار کی والدہ کا بین کرتا چہرہ گزرا اس کا منہ سرخ ہو گیا
میں آخری بار پوچھ رہا ہوں اسکے بعد میں ہاتھوں کی زبان سے باتیں کروں گا
عمران نے فقیر کو گھورا مگر فقیر کچھ نہ بولا عمران نے جیب میں سے ایک چاقو نکالا عمران کو چاقو نکالتا دیکھ کر فقیر کی آنکھوں میں خوف کے ساۓ پھیلنے لگے عمران نے بغیر کچھ بولے چاقو والا ہاتھ لہرایا ادھر فقیر کی چیخ سے پورا کمرہ گھونج اٹھا فقیر کا ایک کان سرے سے ہی غائب ہو چکا تھا فقیر بڑی طرح ترپ رہا تھا عمران نے پھر ہاتھ اٹھایا اسکے ہاتھ کو اٹھتا دیکھ کر فقیر کراہا
نہ ظالم آدمی نہ کرو میرے اوپر تشدد میں سب کچھ بتاتا ہوں
عمران نے ایسے سر ہلایا جیسے اس کو اس کی توقع رہی ہو پھر اسنے کرسی کھینچی اور فقیر کے قریب بیٹھ گیا فقیر کے کان سے خون پانی کی طرح بہ رہا تھا عمران نے بلیک زیرو کو آواز دی تھوری دیر بعد قدموں کی آواز ابھری پھر بلیک زیرو کمرے میں داخل ہوا
اس کی بینڈیج کر دو
عمران بولا
اچھا
بلیک زیرو نہ کہا پگر وہ اپنی کام مءں مشغول ہو گیا وہ بڑی مہارت سے فقیر کے کان کی بینڈیج کر رہا تھا اتنی دیر میں عمران جیب میں ست چیونگم نکال کر اس سے شغل کر رہا تھا تھوری فیر بعد بلیک زیرو اپنا کام کر کے جا چکا تھا اب عمرا پوری طرح ہمہ تن گھوش تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نوکری کے سلسلے میں بہت پریشان رہتا تھا جگہ جگ انٹرویو دے دے کر میں تھک چکا تھا مگر ہر ادارہ دو چیزیں مانگتا تھا جو کہ میرے پاس نہیں تھیں ایک سفارش اور دوسری رشوت اب گھر والوں سے الگ طعنہ سننے پڑتے میرا ایک جگری دوست تھا ہم دونوں اکھٹے پڑھ کے فارغ ہوے تھے وہ بھی ان دنوں نوکری کی تلاش میں مارہ مارہ پھر رہا تھا پھر کئ دن کی ملاقات کے بعد میں اس سے ملا تو وہ مشکل سے ہی پہچانا جا رہا تھا جسم پر عمدہ سا تھری پیس سوٹ تھا پاوں میں ایک بہت اچھ کمپنی کی جاتی ہاتھ میں عمدہ قسم کا موبائل نظر آ رہا تھا میں نے اس سے پوچھا تمہیں کہاں جاب ملی تاکہ میں بھی اہیں اپلاے کروں اسنے ہنس کر کہا
دیمو ہفتہ کو میرے ساتھ چلیں میں تجھے ایک ایسی جاب دلاوں گا کے تیری عیشیں ہی عیشیں ہو گیں میں خوشی خوشی رضامند ہو گیا پھر ہفتہ کی رات کو وہ تقریباً ١بجے وہ میرے گھر آیا میں اسکا ہی منتظر تھا پھر اسنے مجھے اپنی گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی فل سپیڈ پر چھور دی میں اسکی گاڑی دیکھ کر حیران ہوگیا کیوں کہ دو دن پہلے تو اسکے پاس ایک پڑانی موٹر سایئکل تھی میرے استفسار کرنے پر اسنے بس اتنا کہا کہ یہ سب اس جاب کا کمال ہے آدھے گھینٹے بعد میں نے محسوس کیا کہ ہماری گاڑی شہر سے باہر جانے والی سڑک پر ہے میں حاموش بیٹھا رہا تھوری دیر بعد اسنے گاڑی ایک جگہ روک دی پھر اسنے گاڑی لاک کی اور مجھے اپنے ساتھ لے کے چل پڑا یہ ایک سنسان سی سڑک تھی جس کے دونوں طرف درختوں کا طویل سلسلہ تھا پھر اچانک ایک درخت پر دیا چلتا دکھای دیا میرے دوست کا رخ بھی اس طرف ہو گیا پھر ہم درختوں کے اندر گھست چلے گۓ پھر دیا ہماری راہنمای کرتا رہا پھر ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پر درخت کا نام ونشان تک نہ تھا بلکہ وہاں ایک خاکی رنگ کا خیمہ نصب ےھا جس میں سے چھنک چھنک کر آتی ہوی روشنی ماحول کو اور بھی پراسرا بنا رہی تھی پھر ہم اس خیمی میں داخل ہوے یہ ایک بڑا خیمہ تھا جس میں بیس کے قریب کرسیاں پڑیں تھیں سب پر ایک ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا شکل صورت سے وہ پڑھے لکھے معلوم ہوتے تھے ہمیں دیکھ کر سب نے سر کو خم کیا پھر میرے دوست نے بھی اس طرح کیا اور میں نے بھی اسکی تقلید کی پھر ہم بیٹھ گۓ سب خاموش تھے اچانک خیمہ کا پردہ ہٹا اور ایک نقاب پوش اند داخل ہوا اسکے ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا اسنے وہ بریف کیس ٹیبل پر رکھا اور خود ایک کرسی پر بیٹھ گیا جو کہ دوسری کرسیوں کی نسبت تھوری بڑی تھی
جیسا کے آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارہ مشن کیا ہے اسی مشن کے تحت پچھلی میٹنگ میں میں نے آپ سب کو وائٹ ویژن کے پانچ پانچ پیکٹ دیے تھے جنہیں آپ نے بیچنا تھا کس کس نے سارے پیکٹ سیل کر دیے آواز میں کرختگی تھی
پھر ایک نوجوان کھڑا ہوا اوکہنے لگا میرے علاقے میں کچھ لوگ پہلے ہی وائٹ ویژن کے آدی تھے اس لیے انہوں نے اسکو ہاتھوہاتھ لیا اور منہ مانگے دام دیے
نوجوان کے خاموش ہوبے پر نقاب پوش بولا
کیا تم نے انکو بتا دیا کہ اگلی بار وائٹ ویژن کہاں سے ملے گا اور کس چگہ سے ملے گا
ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ آیندہ یہ پیکٹ مجھ سے نہیں ملیں گیں بلکہ ٹبی لیٹ کے علاقے کی وسطی سڑک پر فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیروں سے ملےگا
پھر سب باری باری اپنی رپوٹ دیتے گۓ تقریباً سب نے ہی تمام پیکٹ سیل کر دیے تھے نقاب پوش بولا
ٹھیک سب کی رپورٹ حوصلہ افزا اور میں دیکھ رہا ہوں تم سب اپنے ساتھ ایک ایک نیا آدمی لاے ہو انکو تم کام بتا دینا جو انہوں نے کرنا ہے
پھر اسنے بریف کیس کھولا بریف کیس آدھا ہزار والے نوٹوں سے بھرا ہوا تھا اور آدھا چھوٹے چھوٹے پیکٹوں سے بھرا تھا نقاب پوش نے ایک ایک نوٹوں کی گدی نکالی اور سب کو ایک ایک دی ان میں سے ایک میرے حصے میں بھی آی پھر اسنے سب کو دس دس پیکٹ دے دیے اور کہنے لگا
اگلا ٹارگٹ تمہارہ یہ ہے کے دس پیکٹ اگلے ہفتے تک بیچنے ہیں اور ہاں اس بار تم نے رات کو ٹبی لیٹ کے علاقے میں سڑک کنارےفقیروں کا روپ دھار کر بیٹھنا ہے اور ہاں ایک دوسرے سے کافیفاصلہ پر بیٹھنا ہے تمہارے کسٹمر تم سے وہیں رابطی کر لیں گیں اور ہاں اگر تم میں سے کسی نے پولیس کا انفارم کرنے کا سوچا بھی تو اسکے ماں باپ کو میرے یاتھوں سے کوی نہیں بچا سکے گا
اس بار نقاب پوش کی آواز کیآواز میں درندگی تھی
میٹنگ برخاست ہوی
یہ کہ کر وہ اٹھ گیا اسکے بعد سارے ایک ایک کر کے باہر نکلنے لگیں جب ہم اپنی گاڑی میں آکربیٹھے تو میرا دوست مجھے کہنے لگا
پھر کیا خیال ہے تمہارہ یہ پیکٹ اگلے ہفتے تک بیچ دینا اور ادھر آ جانا
پہلے تو میں نے سوچا کہ نہ کر دوں مگر پھر مجھے اپنے گھر کے حالات نظر آنے لگے اس دن سےمیں اس کام ملوث ہوں
فقیر کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح بولتا چلا گیا
عمران نے اسکو گھورا پھر ایک طویل سانس لی اور چیونگم کچلنے لگا غالباً وہ اس معاملے کہ بارے میں کوی لائحہ عمل تیار کر رہا تھاعمران کرسی پر بھیٹھا کسی سوچ میں گم تھا اچانک بلیک زیرو بول اٹھا
سر اب کیا کرنا میرے خیال سے انکا سدباب ہوجانا چاہیے
یار ایک تو تم بے توقع بولتے ہو جب بھی بولتے میں اپنی شادی کے خرچوں کا حساب لگا رہا تھا بس سب کو جمع کرنے ہی والا تھا کہ تم نے کسی ماسی رشیدہ کی طرح آکے ٹانگ پھسا دی میرے سارے خرچوں کا حساب چوپٹ ہو گیا ہے کوی تک
عمران نے کھا جانے والی نظروں سے بلیک زیرو کو گھورا دوبارہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں بلیک ذیرو مسکرا رہا تھا دفعتاً عمران گویا ہوا
میں سوچ رہا ہوں میرے خیال سے وہ نوجوان (فقیر) جس کو تنویر پکڑ کے لایا ہے وہ شاید اپنے ان بیس ساتھیوں کے پتے بھی بتا دے جس کا اس نے ذکر کیا تھا مگر یہ سب کارندے ہیں اور ہیں بھی ہمارے ملک کے ہی ناسور جو کہ اپنے ہی ملک کی جڑیں کانٹنے میں مصروف ہیں اگر ہم انکو پکڑ کر ملٹری کی تحویل میں دے بھی دیتے ہیں تو اصل مجرم جو کی انکو سفید زہر فراہم کرتا وہ پھر بھی کھلے عام دندناتا پھرے ویسے بھی ہمیں ان سے کوی فائدہ نہیں عمران کی کیشادہ پیشانی پر شکنیں ابھر آیں تھیں دفعتاً اس نے دراز میں سے ٹرانسمیٹر نکالا پھر فریکونسی سیٹ کرنے لگا پھر تھوری دیر بعد وہ نتویر سے بات کر رہا تھا یہ ایک خصوصی ٹرانسمیٹر تھا جس پر اور کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی
تنویر
یس سر
کیا رپورٹ ہے
سر ابھی تک تو نہ کوی کوٹھی سے باہر نکلا ہے اور ناہی کوی ملاقات کے لیے اندر گیا ہے
گڈ کہیں ایسا تو نہیں دوران نگرانی تمہیں اونگھ آگی ہو اور اس وقت کوی باہر نکل گیا ہو
اس بار عمران کے لہجے میں سردمہری تھی کہ ساتھ بیٹھا بلیک ذیرو بھی کانپ اٹھا
نو سر ایسی کوی بات نہیں میں دار چاک و چوبند تھا چاک و چوبند رہنے کے لیے میں ایک مگا کافی کا ساتھ لے آیا تھا رات بھر اسکی چسکیاں لگاتا رہا اس وجہ سے اونگھ
غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرو
عمران نے اسکی بات کاٹتے ہوے کہا
سوری سر آئندہ احتیاط برطوں گا
تنویر کی آواز میں خوف کی آمیزش تھی
اچھا سنو اب تم وہاں سے ہٹ جاو اور گھر جا کہ آرام کرو رات کے سوۓ نہیں
اس بار عمران کی آواز میں کافی حد تک نرمی تھی
یس سر
اور اینڈ آل
تنویر کو ہٹانے سے پہلے آپ کسی ممبر کو وہاں بھیج دیتے ایسا نہ اس دورانیہ میں کوی کوٹھی سے راہ فرار اختار کر لے
جیسے ہے عمران نے ٹرانسمیٹر رکھا بلیک ذیرو بول اٹھا
نہیں اب مجھے ان کی طرف سے کو پریشانی نہیں میں نے تنویر کو اس لیے وہاں سے ہٹایا ہے کہ کہیں وہ ان لوگوں کی نظروں میں نہ آ جاے جو اس گروہ کی پشت پر ہیں اب میرا مشن ان پر ہاتھ ڈالنا ہے
تھورے توقف کے بعد عمران نے دوبار ٹرانسمیٹر اٹھایا اور فریکونسی سیٹ کرنے لگا
ہیلو جولیا نافٹر واٹر
یس سر
کہاں ہو اس وقت
سر اپنے فلیٹ میں بیٹھی بور ہو رہی ہوں ابھی
جتنی بات پوچھی گئ اسکا جواب دیا کرو آئندہ خیال رکھنا عمران کا لہجہ سرد تھا
سوری سر
جولیا کی سہمی سی آواز ابھری
ہممم کل ہفتے کی شام کو ١٠ بجے تک تمام ممبروں کو لے کر دانش منزل کے میٹنگ روم میں پہنچ جانا
یس سر سر وجہ پوچھ سکتی ہوں
کل شام دور نہیں
عمران غرایا
پھر جولیا کی بات سنے بغیر اور اینڈ آل کہ کر ٹرانسمیر آف کر دیا
کالے صفر اب جو میں تمہیں باتیں بتا رہا ہوں غور سے سنو اور ذہن نشین کر لو کل تم نے یہی باتیں میٹنگ میں کہنی ہیں
یس سر
پھر عمران اسکو میٹنگ میں کرنے والیں بتیں بتانے لگا پانچ دس منٹ تک لیکچر دینے کے بعد اسنے بلیک ذیرو کو گھورا
بس یہ باتیں ایسے ڈہن نشی کر لو جیسے مولوی صاحب کو خطبہ نکاح یاد ہوتا ہے
آخری جمل کہتی ہوے عمران نے بلیک ذیرو کو آنکھ ماری
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...