حویلی پر سہ پہر کی دھوپ اتر آئی تھی۔وہی سناٹا اور خاموشی تھی۔لیکن دادی اماں کا وجود یوں تڑپ رہا تھا کہ لبوں سے آواز نہیں نکل رہی تھی مگر آنسو یوں رواں تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ نجانے کب سے بندھے ہوئے بندھ ٹوٹے تھے۔ اتنے برس بعد اپنی اکلوتی بیٹی زبیدہ بارے میں سن کر ان سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔انسان اگرا س دارِ فانی سے چلا جائے تو اس پر دھیرے دھیرے صبر آ ہی جاتا ہے۔لیکن زندوں کے لیے خود پر جبر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اگرچہ وقت نے زبیدہ کی یاد پر حالات نے منوں مٹی ڈال دی تھی لیکن اتنے برس بعد بیٹی کے زندہ ہونے کی اطلاع پر وہ اس سے ملنے کے لیے تڑپ اٹھی تھی۔وہ شاید کسی پر یقین نہ کرتی ۔اسے یقین اس لئے آ گیا کہ خود اس کے بیٹے نے یہ بتایا تھا ۔نادیہ کے حویلی سے چلے جانے پر وہ پہلے ہی غم سے نڈھال تھی،جب اس نے سنا کہ وہ زبیدہ کے پاس چلی گئی ہے تو جہاں وہ خوشی سے بے حال ہو گئی کہ چلو ان کی عزت پامال نہیں ہوئی ،وہاں اپنی بیٹی کو دیکھنے اور اس سے ملنے کی تڑپ نے اسے بے بس کر دیا۔وہ دلاور شاہ سے اسی وقت اپنی اس خواہش کا اظہار کر دینا چاہتی تھی۔پھر یہ سوچ کر خاموش رہی کہ نجانے اس کا ردعمل کیا ہو؟وہ تو پہلے ہی نادیہ کے معاملے میں غصے سے بھرا ہوا ہے۔وہ کیا کرے،کس طرح اپنی بیٹی سے ملے، پتہ نہیں زبیدہ حویلی آ بھی سکے گی یا نہیں ؟اس کا بیٹا نجانے کیساہو گا؟ ان حالات میں وہ کیا نادیہ کو قبول کر لے گا؟کیا دلاور شاہ اب نادیہ کو بھول جائے گا؟ایسا ممکن تو نہیں ہو سکتا؟کیا اسے ہی اپنی بیٹی سے ملنے جانا پڑے گا؟ کیا اس عمر میں وہ حویلی سے باہر قدم رکھ پائے گی؟سوالوں کا اک سلسلہ تھا اور ہر ایک سوال کی اپنیء الگ سے چبھن تھی۔ممتا کی تڑپ،رشتوں کا دکھ اور حالات کے جبر کا اظہار وہ فقط آنسو بہا کر ہی کر سکتی تھی۔ان چند گھڑیوں میں ہی وہ برسوں کی بیمار دکھائی دینے لگی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے جا ملے۔انہی لمحوں میں اس نے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تو اس نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ لیے۔وہ دلاور شاہ کو دستک کو پہچانتی تھی۔وہ کافی حد تک حیران نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔وہ اس وقت اس کے کمرے میں کیسے آ گیا؟وہ تو اس سے کمرے سے باہر ہی ملا کرتا تھا۔وہ اس کے قریب آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ خاموشی رہی اور اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔کچھ دیر بعد اس نے کہا۔
’’اماں بی،میں جانتا ہوں ،زبیدہ کے بارے میں سن کر آپ اس سے ملنے کی شدید خواہش رکھتی ہیں۔کیا آپ اس سے ملنا چاہیں گی؟‘‘
’’کیوں نہیں بیٹا!میں اسے دیکھنے کے لئے ،اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’آپ یہ فرمائیں کہ آپ اس کے پاس جائیں گی یا پھر اسے یہاں بلائیں گی۔‘‘وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
’’جیسے تم چاہو بیٹا!‘‘وہ حیرت اور خوشی سے گھلے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’اماں بی۔!مجھے آپ کا زبیدہ سے ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ،لیکن میرے خیال میں اسے خود یہاں آنا چاہئے۔اور جب آئے تو اپنے ساتھ نادیہ کو لے کر آئے۔‘‘اس نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’اگر وہ دونوں ڈر کی وجہ سے یہاں نہ آ سکی تو۔۔اکیلی آ جائے تو۔۔میں اسے سمجھا لوں گی۔۔‘‘وہ ممکنہ خدشے کے باعث سوچتے ہوئے انداز میں بولی۔
’’اب یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ کی بیٹی،آپ سے ملنا بھی چاہے گی یا نہیں ؟ اگر اس کے دل میں آپ کے لیے کوئی تڑپ ہو گی تو ہی ملنا چاہے گی۔اب اگر وہ نادیہ کو لاتی ہے اپنے ساتھ،تبھی اس حویلی میں قدم رکھ پائے گی ،ورنہ اس کا یہاں کیا کام۔اگر وہ نادیہ کی وجہ سے نہیں ملنے آئے گی تو سمجھیں ،وہ میری دشمن ہو گی۔‘‘اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں بیٹا۔وہ ایسا نہیں کرے گی۔‘‘دادی اماں تیزی سے بولی۔
’’یہ آپ پر ہیدادی اماں کہ آپ اسے مجبور کریں،تا کہ وہ نادیہ کو لے کر ہی یہاں آئے۔آپ سمجھ ہی گئی ہوں گی کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں۔‘‘وہ پر سکون لہجے میں بولا۔
’’دلاور شاہ ،تم سختی نہ کرو۔ورنہ جو کچھ تم چاہ رہے ہو ،ویسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘‘انہوں نے تشویش سے کہا۔
’’آپ ایسا ممکن کرودادی اماں،ورنہ حویلی کی عزت مٹی میں مل جائے گی۔یہ ساری شان و شوکت ،یہ لوگوں کی عقیدت سب ختم ہو جائے گی۔‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’کچھ بھی ختم نہیں ہو گا۔اگر تم تحمل سے کام لو تو۔۔ذرا برداشت کرو۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘وہ بولیں۔
’’کیسے ۔۔کیسے ہو گا سب ٹھیک ۔۔پہلے زبیدہ گئی۔۔اور اب نادیہ ۔۔زبیدہ کے معاملے پر تو پردہ پڑ گیا تھا۔اب نادیہ کے ساتھ اس کا معاملہ بھی لوگوں کی زبان پر ہو گا۔ان دونوں کو خاموشی سے حویلی آنا ہو گا۔ورنہ میں دونوں کی آواز بند کر نے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘وہ انتہائی غصے میں بولا۔
’’دیکھو۔!ذرا تحمل سے سوچو،تم نے بتایا ہے نا کہ زبیدہ کا ایک بیٹا بھی ہے۔اگر تم خود پر قابو رکھو اور میری بات مانو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔سارے معاملات درست ہوجائیں گے۔‘‘انہوں نے پر سکون انداز میں کہا ۔ تب وہ ٹھٹکتے ہوئے بولا۔
’’آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں اماں بی؟‘‘
’’بیٹا۔!فرح بھی تو تمہاری بیٹی ہے ۔تم اگر مصلحت سے کام لو نا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘وہ اشارے میں سمجھاتے ہوئے بولیں۔
’’آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت مجھے مصلحت ہی سے کام لینا چاہیے ۔ باقی جو کچھ بھی ہے ،وہ سب بعد کی باتیں ہیں۔فی الحال نادیہ کو حویلی میں واپس بلوا لیں۔ اس کے ساتھ اگر زبیدہ بھی آ جاتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔اس وقت صورت حال کیا ہے یہ آپ خود سمجھتی ہیں۔‘‘دلاور شاہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا تو دادی اماں اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔چند لمحے وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر دلاور نے اپنا فون نکالا اور نمبر ملاتے ہوئے بولا۔’’لیں۔یہ کریں بات زبیدہ سے۔۔‘‘کچھ ہی دیر بعد رابطہ ہو گیا۔اس نے فون ان کی جانب بڑھا دیا او رخود کمرے سے باہر چلا گیا۔دوسری جانب سے ہیلو کی آواز سن کردادی اماں نے بھیگے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’زبیدہ۔!‘‘
’’اماں۔۔۔آپ۔۔۔‘‘جس بھیگی ہوئی آواز میں اس کا نام لیا گیا تھا۔وہ آواز لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان گئی ۔ممتا میں گوندھا ہوا یہ لفظ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تو جذبات کے بندھ ایک دم سے ٹوٹ گئے۔ اسے یوں لگا جیسے کسی گہرے گھاؤ پر مرہم رکھ دیا گیا ہو۔وہ سکون کی ان انتہاؤں پر جا پہنچی جہاں سے وہ دور تک اپنے ماضی کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ سکتی تھی۔
’’ہاںیہ میں ہوں۔۔جو آج تک تیری راہ تک رہی ہوں۔کہاں گم ہو گئی ہو تم۔۔ترس گئی ہوں تمہیں دیکھنے کے لئے۔۔۔‘‘وہ اپنی رُو میں کہتی چلی گئی۔تب زبیدہ کو خود پر قابو نہیں رہا ۔وہ سسکتے ہوئے بولی۔
’’میں کہیں بھی گم نہیں ہوئی ہوں اماں۔۔بس اپنا آپ چھپا کر بیٹھی ہوں۔‘‘
’’نادیہ اگر تم تک نہ پہنچ پاتی تو شاید میں تیری آواز بھی نہ سن پاتی۔‘‘اماں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔۔یہ کوئی اتفاق تھا۔۔یا قدرت ہی کو ہمارا ملن منظور تھا۔وہ جو یہاں تک پہنچ گئی ہے ۔یہ بھی تو میرے اللہ کا احسان ہے نا۔۔ورنہ وہ اگر کہیں ۔۔‘‘وہ انجانے خوف سے لرزتے ہوئے بولی۔
’’وہ اللہ ہی تو ہے جو عزتیں رکھنے والا ہے۔بندہ تو نجانے کیا کچھ کرتا پھر رہا ہے۔میں نادیہ کو بھی دوش نہیں دوں گی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔یہ بات ساری دنیا میں سیزیادہ تم اچھی طرح سمجھ سکتی ہو۔لیکن بیٹی۔!کیا حویلی کی قسمت میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔‘‘دادی اماں کے لہجے میں شکوہ در آیا تھا۔
’’اماں۔!میرا تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔مگر نادیہ کے ساتھ تو ظلم ہونے جا رہا تھا۔ مجھ سے زیادہ اورکون سمجھ سکتا ہے۔ حویلی اگرانسانوں کے جذبات کو کچل کر رکھے گی تو اس کی قسمت میں ایسا ہی رہے گا۔‘‘زبیدہ نے واضح لفظوں میں ہمت کرکے کہہ دیا۔
’’ہاں۔!تم ٹھیک کہتی ہو۔ایسا ہی ہے ۔اب وہ وقت نہیں رہا کہ عورتوں کو دبا کر رکھا جا سکتا ہے۔اب انہیں سمجھنا ہو گا۔ان روایات پر سمجھوتہ کرنا ہو گا۔مگر بیٹی،یہ پرکھوں کی عزت کا معاملہ بھی تو ہے نا۔اسے بھی تو سمجھو۔‘‘ دادی اماں نے اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہوئے اپنی بات کہہ دی۔
’’اماں۔!میں کسی حد تک سمجھ سکتی ہوں کہ دلاور شاہ اس معصوم بچی کے ساتھ کیوں ایساچاہ رہا ہے۔صرف جائیداد کی خاطر،کب تک وہ اس جائیداد سے فائدہ اٹھا لے گا۔اس بچی کو تو پتہ بھی نہیں کہ اصل میں اسے حویلی میں قید کس وجہ سے رکھا جا رہا ہے۔۔۔ اماں۔!کیسی روایات ہیں یہ۔۔جو انسانوں کو نگل رہی ہیں۔‘‘
’’میں تم سے اختلاف نہیں کر تی اور یہ وقت بحث کا بھی نہیں ہے میری بیٹی۔ اتنے برسوں بعد تم مجھ سے ملی ہو۔کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم مجھ سے ملو،میں ترس گئی ہوں تمہاری صورت دیکھنے کے لیے ،سنا ہے،تیرا بیٹا بھی ہے۔‘‘اماں نے پوچھا۔
’’ہاں۔!میں نے اپنے بیٹے ہی کے سہارے اتنا طویل وقت گذار لیا ہے۔اب وہ جوان ہو گیا ہے برسرروزگار ہے۔اور اماں ،میں تو پل پل آ پ کیلئے تڑپی ہوں۔میں کیوں نہیں ملنا چاہوں گی آپ سے ملنا۔‘‘وہ حسرت زدہ لہجے میں بولی۔
’’تو پھر تمہیں کس نے روکا ہے۔آ جاؤنا میری بچی۔جب سے تمہارے بارے میں پتہ چلا ہے،تمہیں دیکھنے کو ،تم سے ملنے کو دل تڑپ رہا ہے۔‘‘ اماں کا لہجہ پھر سے بھیگنے لگا تھا۔
’’ایسا ہی حال میرا ہے اماں۔پر کیا کروں،مجھے اپنے بیٹے کو بھی جواب دینا ہو گا۔وہ کیا سوچے گا۔اماں میں نے اسے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔میں اگر حویلی آ جاتی ہوں تو پھر۔۔آپ سمجھ رہی ہیں نا۔‘‘ وہ اٹکتے ہوئے انداز میں بولی۔
’’کیانادیہ کی موجودگی سے یہ معاملہ نہیں کھلے گا۔وہ سوال نہیں کرے گا کہ یہ کو ن ہے؟کیا تم پھوپی بھتیجی کا رشتہ چھپا پاؤ گی۔یہ ماضی تو ایک دن کھل ہی جانا ہے،تو پھر ڈرتی کیوں ہو؟‘‘اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جب تک ممکن ہو،میں اپنا ماضی چھپاؤں گی۔۔جیسے آج تک چھپاتی آئی ہوں۔اگرچہ میں نے غلط نہیں کیا مگر بہت ساری وجوہات ہیں جس کی وجہ سے میں اپنے بیٹے کو نہیں بتاتی ہوں۔میں شرمندہ نہیں ہوں اماں۔ ہاں۔!جہاں تک نادیہ کا معاملہ ہے ،اس بارے میں آپ کو سوچ کر بتا دوں گی۔‘‘وہ شکست خوردہ لہجے میں کہتے ہوئے ہانپ گئی۔
’’بیٹی۔!اب جو بھی ہے،حویلی کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔یہ اچھا وقت ہے کہ تمہارے ماضی پر سوال اٹھائے بنا،تمہارا تعلق حویلی سے جڑ سکتا ہے تم اس لیے۔۔ ‘‘ انہوں نے کہنا چاہا تو وہ بات قطع کرتے ہوئے بولی۔
’’حویلی کی عزت کا خیال تو ہے ۔لیکن ان روایات کا کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘
’’میں سمجھ سکتی ہوں زبیدہ۔!اب وہ وقت آ گیا ہے ،جب ان روایات کو دیکھا پرکھا جائے ۔وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔یہ سب دور بیٹھ کر نہیں،پاس آ کر بات کرنے سے ہو گا۔تم جو بھی چاہتی ہو ۔یہاں حویلی میں بیٹھ کر منوا سکتی ہو۔‘‘اماں نے تیزی سے کہا۔
’’اماں۔!میں حویلی آ سکوں یا نہ آؤں ۔کیا فرق پڑتا ہے ۔لیکن معاملہ تو نادیہ کا ہے نا۔۔کیا ضمانت ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہو گا۔میرے کہنے پر وہ حویلی آ بھی جائے مگر ہونا وہی ہے جو وہ نہیں چاہتی تو پھر اسے کیا ضرورت ہے حویلی آنے کی۔۔‘‘وہ انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولی۔
’’میں ضمانت دیتی ہوں ۔نادیہ صرف حویلی میں رہے۔باقی جو ہو گا ،اسی کی مرضی کے مطابق ہو گا۔اگر پھر بھی وہ کچھ تنگی محسوس کرے ۔تب وہ تمہارے پاس رہ سکتی ہے۔تم جانتی ہو کہ حویلی سے نادیہ کا یوں غائب ہو جانا کس قدر اور کتنی افواہیوں کی وجہ بن سکتا ہے ۔ایک بار نادیہ حویلی میں آ جائے ۔پھر وہ چاہے تیرے پاس رہے یا حویلی میں۔۔۔‘‘اماں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اماں ۔!میں سمجھتی ہوں ۔آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔میں نے کہا نا کہ میں سوچتی ہوں۔‘‘و ہ آہستگی سے بولی۔
’’کیا سوچنا ہے تمہیں؟‘‘انہوں نے تیزی سے پوچھا۔
’’مجھے نادیہ سے پوچھنا ہے ،وہ کیا چاہتی ہے ۔‘‘وہ سکون سے بولی۔
’’اس سے پوچھنا نہیں،اسے سمجھانا ہے ۔ورنہ وہ حویلی سے جاتی ہی کیوں؟تم تو سمجھ دار ہو ۔تم دونوں آؤ۔یہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔پھر جو تیرا فیصلہ ہو گا،وہی ہو گا۔یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘وہ پورے اعتماد سے بولی۔
’’ٹھیک ہے اماں،میں بتاتی ہوں آپ کو۔‘‘زبیدہ نے پھر آہستگی سے کہا اور چند باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔دادی اماں فون بند کر کے جو یوں ہو گئی جیسے اس میں جان ہینہ رہی ہو۔وہ آنے والے وقت کے بارے میں اعتماد سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی
***
نادیہ حیرت سے اپنی پھوپھو کے چہرے پر دیکھ رہی تھی جہاں حسرت ،ندامت او ر محبت کے نجانے کتنے رنگ بکھر ے ہوئے تھے۔وہ دادی اماں کے فون آنے کے بارے میں پوری تفصیل سن چکی تھی ۔وہ دونوں آمنے سامنے خاموش بیٹھی ہوئی تھیں ۔ کافی دیر بعد وہ بولی۔
’’پھو پھو۔!میںآپ کی کیفیت کو سمجھ سکتی ہوں ۔ایسے میںآپ جو بھی فیصلہ کریں گی وہ مجھے قبول ہو گا۔‘‘
زبیدہ کے انتہائی حسرت سے اس کی طرف دیکھا اور تڑپتے ہوئے بولی۔
’’نہیں میری جان،میری مجبوریاں اپنی جگہ،لیکن میں تیری زندگی کے عوض کوئی ایسا سودا نہیں کروں گی،جس میں تیری مرضی شامل نہ ہو۔‘‘
’’مگر میں بھی تو یہ نہیں چاہوں گی کہ وہ راز جو آپ نے ساری عمر شعیب سے چھپا کر رکھا ، وہ میری وجہ سے کھل جائے۔نہیں پھوپھو،میں ایسا نہیں چاہوں گی۔‘‘وہ گھٹے ہوئے لہجے میں بولی اور آخری لفظ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے۔
’’نہیں میری بیٹی،رونا نہیں۔یہ وقت بہت سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنے کا ہے۔ ورنہ وقت ہمارے ہاتھ سے بھی نکل سکتا ہے۔مجھے ڈر صرف اس بات کا ہے کہ اگر شعیب کو اس ساری صورت حال کا پتہ چل جاتا ہے تو اس کا ردعمل کیا ہو گا۔اسے شاک تو ضرور لگے گا۔‘‘زبیدہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’سب کچھ نارمل ہو جائے گا ۔اگر میں واپس حویلی میں چلی جاؤں گی۔ظہیر شاہ سے میری شادی ہو جائے گی اور میں۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا تو زبیدہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔۔میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔۔۔تم یوں حوصلہ مت ہارو‘‘
’’اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے پھوپھو،آپ کا راز بھی رہ جائے گا ،حویلی والوں کی عزت بچ جائے گی اور شعیب کو بھی معلوم نہیں ہو گا تو پھر ردعمل کیسا؟ میں نہیں چاہتی کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایسا وقت جس سے آپ کو کوئی پچھتاوا ہو۔میں واپس چلی جاؤں گی۔۔مجھے لگتا ہے کہ میری قسمت میں ۔۔۔۔‘‘
’’کوئی جذباتی فیصلہ مت کرو۔میں دیکھتی ہوں کیا کرنا ہو گا۔ابھی شام ہونے میں بہت وقت ہے ۔ہم کوئی سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔‘‘زبیدہ نے اسے ڈھارس دی اور پھر اٹھ کر کچن کی جانب چل دی۔
یہ لمحات نادیہ کے لیے بہت کھٹن تھے ۔اس کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ اسے ایسی صورت حال کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔جہاں خون کے جذباتی رشتے اس کی راہ میں آن کھڑے ہوں گے۔اسے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہو رہا تھا کہ وہ تو اختر رومانوی کے پاس آئی تھی۔اس نے تو یہ سوچا تھا کہ ایک غریب شاعر جس کے پاس اگر وقت اچھا نہیں تو کم از کم برا بھی نہیں گذرے گا۔وہ حویلی والوں کی نگاہ ہی میں نہیں،دنیا کی نظروں میں بھی گم ہو جائے گی۔اس کی جگہ تو شعیب نے لے لی تھی جو خود ایک سی ایس پی آفیسر تھا اور اس کے شہر میں تھا۔اس سے اتنا قریب تھا ۔وہ خود اس سے دور آ گئی ہے۔اختر رومانوی کا گم ہو جانا اسے شدید صدمے سے دوچار کر گیا تھا۔اسے یہ قطعاً دکھ نہیں تھاکہ شعیب نے اس سے جھوٹ کیوں بولا حالانکہ اس نے خود کون سا سچ بولا تھا۔تا ہم جس طرح کے حالات کا اسے یہاں آ کر واسطہ پڑ گیا تھا۔ایسے میں شعیب کیا اسے قبول کر لے گا؟ پھو پھو کی مجبوری بھی یہی ہے کہ شعیب کو معلوم نہ ہو۔اس لئے اسے حویلی واپس جانا ہی ہو گا۔جس کے پاس وہ آئی تھی ،وہی سراب نکلا ۔وہ دوش کسے دے۔اگر وہ اب بھی اپنی قسمت سے لڑے گی تو بڑی ٹوٹ پھوٹ ہو جائے گی۔وہ اسی ادھیڑبن میں رہی اور شام کے سائے پھیل گئے۔وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حویلی سے آنے والے فون نے منتظر تھیں۔اس سے پہلے کہ فون آتا ۔نادیہ خود ہی اپنی پھوپھو کے پاس جا پہنچی۔
’’پھوپھو۔!میں سمجھتی ہوں کہ آپ ایسے دو راہے پر آن کھڑی ہوئی ہیں ۔جہاں سے نکلنے والا ہر راستہ آپ کی اچھی بھلی زندگی میں الجھنیں بھر دے گا۔اس لئے۔۔۔‘‘وہ کہتے کہتے رک گئی۔
’’اس لئے۔۔۔؟‘‘زبیدہ نے چونک کر پوچھا تو وہ بڑے اعتماد سے بولی۔
’’مجھے حویلی چلے جانا چاہیے۔‘‘
’’وہ تمہاری شادی ظہیر سے کر دیں گے۔۔اور اب شاید تمہاری وہ اہمیت نہ رہے گی جو حویلی سے قدم نکالنے سے پہلے تھی۔‘‘وہ تشویش سے بولی۔
’’پھو پھو،اگر میں اختر رومانوی کے پاس ہوتی تو یہ الگ بات تھی۔اس وقت تو معاملہ میری پھوپھو کا ہے۔ایک ایسی ماں کا جو اپنے بیٹے کے سامنے اپنا راز نہیں کھولنا چاہتی۔یہ آپ پر کوئی احسان نہیں۔میرا فرض بنتا ہے پھوپھو۔باقی رہی اہمیت کی بات،تو وہ پہلے کہاں تھی۔یہ اچھا ہے کہ شعیب کو میرے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔میں اسے اپنے رب کی رحمت ہی سمجھوں گی۔آپ بھی اسے کچھ مت کہیے گا۔میں حویلی کی ان خاموش دیواروں میں زندگی جی لوں گی۔‘‘نادیہ نے کہنا تو بڑے اعتماد سے شروع کیا تھا مگر کہتے کہتے اس کے آنسو چھلک پڑے اور لہجہ بھیگتا چلا گیا۔زبیدہ کتنی دیر اسے حیرت سے دیکھتی رہی پھر اسے گلے لگا کر شدت سے رو پڑی ۔کچھ دیر تک وہ دونوں آنسو بہاتی رہیں۔تب زبیدہ نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بیٹی۔میں تمہیں ان دیواروں میں قید نہیں ہونے دوں گی۔بلکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان روایات کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ہم حویلی جائیں گے اور انہیں احساس دلائیں گے کہ ان روایات کو ختم کرو جس سے زندگیاں درگور ہو جاتی ہیں۔تم صبرکرو۔اب اگر راز فاش ہو جاتا ہے تو ہو جائے مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔‘‘وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بڑے اعتماد سے بولی۔پھر نادیہ کی آنکھیوں میں آئے آنسو صاف کر دیئے۔ زیادہ دیرنہیں گذری تھی کہ حویلی سے فون آ گیا۔
’’تو پھر کیا فیصلہ کیا تم نے زبیدہ؟‘‘
اماں۔!میں آ رہی ہوں۔میرے ساتھ نادیہ بھی آئے گی۔لیکن آپ کو یہ ضمانت دینا ہو گی کہ اس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔‘‘اس نے صاف لفظوں سے اپنا مدعا کہہ دیا۔
’’میں ضمانت دیتی ہوں ۔جو اس کا من چاہے گا ،ویسا ہی ہو گا۔‘‘انہوں نے پورے یقین سے کہا۔
’’ٹھیک ہے پھر میں آ جاؤں گی۔‘‘اس نے حتمی انداز میں کہا اور الوداعی جملوں کے بعدفون بند کر دیا۔وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر بھاء حمید کو فون کر دیا۔
’’بھائی جی۔مجھے سلامت نگر جانا ہے۔گاڑی تو کوئی بھجوا دیں۔‘‘فون ریسو ہوتے ہی اس نے کہا۔
’’اپنے شعیب کے پاس جانا ہے نا۔۔۔آ جاتی ہے گاڑی،ابھی چاہئے۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’کچھ دیر بعد بھیجیں مجھے شعیب کے پاس نہیں ،نادیہ کو چھوڑنے جانا ہے آپ بھی اسے مت بتائیے گا۔‘‘اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’کیا اسے نہیں معلوم کہ نادیہ یہاں۔۔۔‘‘وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’نہیں،اور نہ ہی کبھی معلوم ہو نا چاہئے،یہی سمجھ لیں کہ وہ کبھی یہاں نہیں آئی تھی اور جو ڈرائیوربھی ساتھ میں بھیجیں وہ بہت بھروسے کا بندہ ہونا چاہیے۔‘‘زبیدہ نے رُندھے ہوئے لہجے میں کہا ۔
’’اچھی بات ہے بہن جی،جیسا آپ چاہیں۔میں کچھ دیر بعد گاڑی بھجوا دوں گا۔‘‘اس نے انتہائی اختصار سے کہا اور فون بند کرد یا۔انہی لمحات میں دونوں نے فطری طور پر ایک دوسرے کو دیکھا تو نادیہ دکھی انداز میں لبوں پر مسکراہٹ لے آئی۔ جس سے زبیدہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔وہ کوئی بات کہئے بنا حویلی جانے کے لئے تیار ہونے لگیں۔یہ زبیدہ ہی جانتی تھی کہ وہ کس دل سے اتنے برسوں بعد حویلی جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ جبکہ نادیہ یہاں سے اٹھ کر شعیب کے کمرے میں چلی گئی۔وہ کتنی ہی دیر تک اس کی تصویر کے سامنے کھڑی رہی۔یوں بت بنی ساکت و صامت جیسے وہ بھی کوئی تصویر ہی ہو۔کافی دیرتک یونہی تصویر کو تکتے رہنے کے بعد وہ ایک دم سے قہقہ لگا کر ہنس دی۔رات گئے زبیدہ نے اپنا گھر ایک اعتماد والی عورت کے سپرد کیا اور وہ دونوں بھاء حمید کی بھیجی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر سلامت نگر کی جانب چل دیں۔
رات کے تعاقب میں دن پوری طرح واضح ہو گیا تھا ۔جب ان کی گاڑی سلامت نگر پہنچ گئی۔وہاں کی تو دنیا ہی بدل گئی ہوئی تھی۔زبیدہ اپنے ہی بابل کے دیار میں اجنبی تھی۔اتنے برسوں بعد وہ سلامت نگر کی راہوں پر آئی تھی۔اسے بالکل بھی اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ حویلی کدھر ہے اور ایسا ہی حال نادیہ کا تھا۔وہ بھی سلامت نگر کی گلیوں اور راہوں سے نا آشنا تھی۔وہ تو خود اندھیرے میں نکلی تھی اور اب دن کی روشنی میں اسے حویلی کا راستہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔بس غنیمت یہی تھا کہ سلامت نگر میں صرف ایک حویلی ہی پیر سائیں کی تھی۔جہاں تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔پورا قصبہ گذر گیا اور اس کے باہر دربار شریف تھا جس کے ساتھ حویلی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ تھی۔بڑے پھاٹک پراب بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔زبیدہ اور نادیہ نے چہروں سمیت اپنا پورا بدن سیاہ حجاب میں چھپایا ہوا تھا۔وہاں موجود لوگوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں؟اسے لئے انہیں روک لیا گیا۔زبیدہ سمجھ گئی کہ نادیہ بارے کوئی خبر ابھی حویلی سے باہر نہیں نکلی اورنہ ہی اسے کسی نے دیکھا ہے کہ دیکھتے ہی پہچان لیں۔ایک شخص ان کے پاس آیا تو ڈرائیور نے ہی کہہ دیا جو زبیدہ نے اسے بتایا تھا۔
’’دادی اماں صاحبہ سے ملنا ہے ،انہیں اطلاع دیں۔ہم شہر سے آئے ہیں۔‘‘
’’اماں بی صاحبہ کا نام سن کر بڑا پھاٹک کھل گیا۔لیکن ذرا فاصلے پر انہیں روک لیا گیااور ایک ملازم اندر اطلاع دینے کے لیے چل دیا۔
***
شعیب اچانک ہی پریشان ہو گیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وقت کی طنابیں اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں۔سلامت نگر آتے ہوئے جو ذہنی طور پر پر سکون ہو گیا تھا ۔ایک دم سے پریشانی نے اس پر حملہ آور ہو گئی تھی۔انہی دو دنوں میں دو ایسے واقعات ہو گئے،جس نے اس کا دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا تھا۔نادیہ کا نمبر اچانک بند ہوا تو پھر اس سے کوئی رابطہ ہی نہ ہو سکا۔اس کے ساتھ کیا ہوا؟کچھ معلوم نہیں تھا۔وہ خود پر حیران تھا کہ وہ اتنا پریشان کیوں ہے؟یہ وہی نادیہ ہے جس سے وہ کبھی خود رابطہ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس سے تعلق ختم ہو جائے۔اب وہی نادیہ اسے اپنے انتہائی قریب محسوس ہو رہی تھی۔یونہی کھیل ہی کھیل میں،ایک ساتھ چلتے چلتے اتنی گہری قرابت ہو جائے گی۔ایسا تو کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔اس قرابت کی شدت کا اندازہ اسے اِن لمحات میں ہو رہا تھا جب وہ اندھیروں میں گم ہو گئی تھی۔وہ مسلسل اس کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہر بار ایک ہی ٹیپ سنائی دے رہی تھی۔اگر چہ اس کے لا شعور میں کہیں تھا کہ وہ یونہی ایک دن گم ہو جائے گی۔لیکن وہ کیوں گم ہو گئی؟اس سوال کا جواب اسے حیرت زدہ کر رہا تھا۔یہ نادیہ ہی کی کوشش تھی کہ وہ دوستی کی راہ پر چلتے چلتے بہت دور تک آ گئے تھے۔اس کا بناء کچھ کہے اچانک غائب ہو جانا پریشانی کا باعث ہی نہیں فکر مندی بھی پیدا کر رہا تھا۔وہ اسے کہاں سے اور کیسے تلاش کرے، یہی تو اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔سوائے ایک نمبر کے اس کے پاس تھا ہی کیا ؟یہی ایک سہارا تھا،ایسے کچے دھاگے سے وہ نادیہ تک کیسے رسائی پا سکتا ہے۔یہ تو کبھی بھی او رکہیں سے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ وہی نادیہ ہے جس نے دو دن اور دو راتوں سے اس سے بات نہیں کی تھی۔کیوں؟ اس کے بعد سب کچھ اندھیرے میں گم ہو جاتا اور اس پر مایوسی چھائے چلی جا رہی تھی۔
مایوسی بھرے ان حالات میں چوہدری ثناء اللہ کی اطلاع کا بوجھ اس کے ضمیر پر بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔اسی شہر میں،اس سے تھوڑی دور حویلی میں تاجاں مائی قتل ہو جانے والی تھی یا پھر شاید اسے قتل بھی کر دیا گیا ہوااور اب تک وہ منوں مٹی تلے دفن پڑی ہو۔یہ بات اس کے علم میں نہ آتی تو الگ بات تھی۔بہترے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔جن کا علم نہیں ہوتا تو ایسے میں دکھ بھی من میں نہیں اُترتا۔اب یہ اطلاع اسے تھی۔ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کا بوجھ تھا کہ اس پر بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اگر وہ عورت قتل ہو جاتی ہے اور اس ضمن میں اس نے کوئی کوشش بھی نہ کی کہ اسے بچالے تو وہ اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پائے گا۔اس کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں تھے۔جنہیں وہ استعمال کرتے ہوئے حویلی کی تلاشی لے سکتا اور تاجاں مائی کو برآمد کر لیتا۔یہ اختیارات دوسرے آفیسر کے تھے۔ وہ شہر کا سب سے بڑا انتظامی آفیسر ہونے کے باوجود بھی بے بس تھا۔اس کے پاس اختیار نہیں تھے جس کے باعث وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔اسی بے بسی اور مایوسی والی کیفیت میں وہ آفس جانے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
اگر چہ شعیب کو اس کا دماغ ایک خاص حد تک جا کر مایوسی کا فیصلہ تو دے چکا تھا لیکن وہ مضطرب تھا،ہار نہیں ماننا چاہتا تھا۔کوئی راہ نکالنا چاہتا تھا۔صاف راستے پر اگر رکاوٹ آ جائے تو ساتھ میں کوئی نہ کوئی پگڈنڈی ضرور منزل تک پہنچادیتی ہے ۔وہ ایسی ہی کسی پگڈنڈی کی تلاش میں تھا۔دل اسے مسلسل اکسا رہا تھا کہ ناکامی اس کے لئے نہیں بنی۔کامیابی کے لئے وہ کوشش ضرور کرے ۔وہ اسی کشمکش میں تھا کہ آفس جانے کے لئے تیار بھی تھا لیکن دماغ مسلسل سوچ رہا تھا۔وہ صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں آ گیا۔وہ نادیہ کو تلاش کرنے میں ایک قدم تو اٹھا سکتا ہے ۔وہ پگڈنڈی اس نے تلاش کر لی تھی۔وہ سیل فون نمبر ہی سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ یہ کوئی قانونی طریقہ نہیں تھا مگر اسے پورا بھروسہ تھا ۔جو معلومات بھی ملیں گی،درست ہوں گی۔اس نے اپنا سیل فون اٹھا یا اور اپنے قابل اعتماد دوست کو فون کر کے نمبر دے دیا۔اس دوست نے تھوڑی دیر بعد معلومات دینے کا وعدہ کر لیا۔ایسا کرتے ہوئے اسے کافی حد تک اطمینان ہونے کے ساتھ ساتھ حوصلہ بھی ہوا۔اب وہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکتا تھا کہ اس نے کوشش تو کی۔مایوسی کے بادل کسی حدتک چھٹ گئے۔وہ تازہ دم سا ہو کر آفس چلا گیا۔راستے میں اسے خیال آیا کہ تاجاں مائی کے معاملے میں بھی ایسی ہی کوئی پگڈنڈی تلاش کر لی جائے۔اسے خیال آیا کہ پیر سائیں کی ایک فائل اس کے پاس پڑی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا دیوان اسے بڑے سلجھے ہوئے انداز میں دھمکیاں دے کر گیا تھا۔ممکن ہے اس فائل کی وجہ سے کوئی سودے بازی ممکن ہو سکے۔تاجاں مائی کی بازیابی کے لئے اسے اگر کوئی غیر قانونی حربہ بھی آزمانا پڑا تو وہ آزمالے گا۔آفس پہنچتے ہی اس نے اپنے اہلکار سے وہ فائل لانے کے لئے کہہ دیا۔ابھی فائل اس تک نہیں پہنچی تھی کہ چوہدری ثنا اللہ اور تاجاں مائی کا بیٹا الیاس علی اس کے پاس آ گئے۔وہ ان کے ساتھ بڑے تپاک سے ملا اور حال احوال کے بعد پوچھا۔
’’سنائیں چوہدری صاحب۔!کوئی پیش رفت ہوئی؟‘‘
’’میں نے پولیس سے تعاون لینے کی کوشش کی تھی،لیکن آپ کو بھی معلوم ہے کہ وہ سیدھے سبھاؤ تیار نہیں ہیں۔ہاں بس اب ایک ہی راستہ بچتا ہے۔‘‘وہ اعتماد سے بولا۔
’’وہ کیا؟‘‘شعیب نے پوچھا۔
’’یہی عدالت کا راستہ۔۔۔‘‘اس نے بتایا۔
’’اس میں تو بڑا وقت لگے گا۔میں نے بھی یہ سوچا تھا ۔مگر تب تک تاجاں مائی ۔۔۔‘‘اس نے بے یقینی کے سے انداز میں کہتے ہوئے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’نہیں سر۔!تاجاں مائی ابھی تک محفوظ ہے۔ہاں مگر اس پر تشدد بہت ہوا ہے۔یہ اس کا بیٹا کرم علی ہے،اسے وہیں سے معلوم ہوا ہے۔‘‘وہ پھر اعتماد سے بولا۔’’جہاں تک عدالت کی بات ہے تو ہم نے ایک مشہور وکیل کے ذریعے ایک کوشش کی ہے۔آپ کا تعاون ہو تو ہم ابھی کچھ دیر بعد حویلی سے تاجاں مائی کو برآمد کر سکتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر وہ قانونی معاملات کے نکات سمجھانے لگا۔شعیب غور سے سنتا رہا اور پھر بولا۔
’’آپ دیر مت کریں۔میں آپ کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کروں گا۔میں ڈی ایس پی صاحب کو ابھی یہاں بلوا لیتا ہوں۔پھر سب سنبھال لیتے ہیں۔آپ فوراً حکم نامہ لے آئیں۔‘‘شعیب نے کہا تو ثنا اللہ فوراًہی اٹھ گیا۔وہ ڈی ایس پی کو فون کرنے لگا۔اس وقت وہ فون پر بات کر رہا تھا جب اس کا اہلکار اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔وہ اس کے سامنے کھڑا بات سن رہا تھا ۔وہ فون کر چکا تو اہلکار سے پوچھا۔
’’میں نے وہ فائل لانے کے لیے کہا تھا۔‘‘
’’سر۔!میں نے وہ فائل اپنے ذ مے صرف اس لئے لی تھی کہ میں پہلے بھی پیر سائیں کے سارے کام کرواتا رہتا ہوں۔سیدھی سی بات ہے کہ اس میں کوئی جائز کام نہیں ہے اور پھر آپ انکاربھی کر چکے ہیں۔اس لئے اب وہ کیوں سر؟‘‘اس نے آخری لفظ بہت جھجک کر کہے تھے۔
’’اور میں بھی تمہیں صاف بتانا چاہتا ہوں ۔اس فائل کے ذریعے ممکن ہے میں پیرسائیں سے کوئی سودے بازی کر سکوں۔تمہیں شاید علم نہیں ہے کہ۔۔۔
’’سر گستاخی معاف ۔!میں ثنااللہ کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ پیر سائیں کے خلاف ہی جائے گا۔۔۔‘‘وہ تیزی سے بولا۔
’’تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’سر ان کا پرانا ہی معاملہ چلتا چلا آ رہا ہے۔خیر۔!آپ کو سودے بازی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور جو معاملہ ابھی درپیش ہے ،میں اس کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو معاملہ ہو گا میں اسے آرام سے حل کروا دوں گا۔اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں۔‘‘اہلکار نے بڑے اعتما دسے کہا۔
’’کیسے۔!جبکہ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ معاملہ کیسا ہے۔وہ سیدھے سبھاؤ حل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟‘‘شعیب نے پوچھا۔
’’سر۔!مجھے معاملہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں۔میں ابھی دیوان صاحب سے کہہ کر آپ کی ملاقات پیر سائیں سے کنفرم کروا دیتا ہوںآپ براہ راست خود ہی بات کر لیجئے گا۔‘‘اہلکار نے تیزی سے کہا۔
’’کتنا وقت لگے گا؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’میں ابھی بات کر لیتا ہوں ۔آپ کی پیر سائیں سے بات ہو جائے گی تو زیادہ اچھا ہے۔یہ ثنا اللہ جیسے بلیک میلر لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں،یہ خراب کریں گے۔۔‘‘ وہ جلدی سے فون نکالتے ہوئے تیزی سے بولا۔
’’ٹھیک ہے ،تم جاؤ،اور فائل مجھے لا کر دو۔ان سے بات کر لو،میں آج بلکہ ابھی ان سے ملنا چاہوں گا۔‘‘اس نے حتمی انداز میں کہا اور سامنے پڑی فائل کھول لی،اہلکار سمجھ گیا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔اس لئے فوراً ہی پلٹ گیا۔تب شعیب دونوں آپشن پر سوچنے لگا ۔جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو،اسے اپنا مقصد چاہیے تھا۔
***
حویلی کی دوسری منزل پر ،پورچ سے بالکل اوپر والے کمرے میں دادی اماں اور زبیدہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ان دونوں کے درمیان اتنی باتیں ہو چکی تھیں کہ سب کچھ جاننے کے باوجود کئی سوال جنم لے چکے تھے۔اتنے برسوں کا فاصلہ اتنی دیر میں تو نہیں سمٹ سکتاتھااور وہ تھیں کہ اس فاصلے کو سمیٹنے کی غرض سے باتیں کر تی چلی جا رہی تھیں۔نادیہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔فرح اپنے کمرے میں مچل رہی تھی کہ وہ نادیہ سے ملے مگر اس کی امی نے اسے نادیہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ظہیر شاہ نے جب نادیہ کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ حویلی سے باہر چلا گیا تھا،کہاں تھا،اس کی انہیں خبر نہیں تھی۔حویلی کے ماحول میں وہی اجنبی خاموشی تیر رہی تھی۔ایسی ہی بے اعتماد فضا میں دلاور شاہ اپنی ماں کے پاس آ گیا۔تب وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔کتنے ہی لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے۔ہر کوئی یہی خیال کررہا تھا کہ وہ بات کی ابتداء کرے ۔تبھی دلاور شاہ نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا۔
’’آپا،!آپ نادیہ کو واپس حویلی لے آئی ہیں ۔آپ کا شکریہ آپ نے اسے یہ تو سمجھا دیا ہے نا کہ اب اس حویلی میں کیسے رہنا ہے۔‘‘
’’کیسے رہنا ہو گا۔مطلب۔۔۔میں سمجھی نہیں۔تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘زبیدہ نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
’’اس میں نہ سمجھنے والی کون سے بات ہے۔اس نے جو کچھ کیا،اس کی بھول سمجھ کر معاف کیا جا سکتا ہے۔لیکن آئندہ کے لیے اسے حویلی کی روایات کے مطابق رہنا ہو گا۔ظہیر شاہ سے شادی کے بعد۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا تو زبیدہ نے ٹو ک دیا۔
’’دلاور۔!اس کے یہاں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تم جو چاہو اس سے منوا لو۔مجھے سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جو نادیہ چاہے گی ۔وہی ہو گا۔لہذا وہی ہو گاجو نادیہ چاہے گی۔‘‘زبیدہ نے حیرت ،غصے اور افسردگی کے ملے جلے جذبات میں تیزی سے کہا۔
’’ایسا ممکن ہی نہیں ہے آپا زبیدہ ۔!میں اگر آپ کے گھر سے خاموشی کے ساتھ واپس آ گیا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنی روایات بھول گیا ہوں۔میں نے صرف اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اسی میں حویلی کی بھلائی ہے ۔بات نکلتی تو گڑھے مردے اکھاڑ لیے جاتے۔اس میں آپ کا کردار کیا ہے۔ساری دنیا کو معلوم ہو جاتا۔آپ اگر یہاں اس وقت حویلی میں بیٹھی ہیں تو اس وجہ سے کہ میں نے نادیہ کو حویلی میں واپس لانا تھا اور بس ،وہ آ گئی ہے۔‘‘پیر سائیں نے خود غرضی سے کہا۔
’’دلاور شاہ۔!تم بہت غلط سوچ رہے ہو۔‘‘زبیدہ نے غصے میں کہا۔
’’غلط یا درست ۔!یہ میں نہیں جانتا ،مجھے تو وہی کرنا ہے جو میں چاہتا ہوں۔آج ہی نادیہ کی شادی ظہیر شاہ سے ہو جائے گی۔اب آپ کا کام ختم ہے،اب آپ سے مجھے کسی تعلق کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘اس نے واضح لفظوں میں اپنا مدعا کہا تو وہ دونوں حیران رہ گئیں۔انہیں پیر سائیں سے اس قدر خود غرضی کی توقع نہیں تھی۔اس پر زبیدہ نے غمزدہ لہجے میں کہا۔
’’تم نے یہ سب مصلحت کے تحت کیا۔۔اور تمہیں رشتے ناطوں اور تعلق کی کوئی قدر نہیں۔۔نہ ہی اپنے وعدہ کی۔‘‘
’جو کچھ بھی آپ سمجھو،میرے خیال میں اگر ہم بات یہیں ختم کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔آپ چاہیں تو نکاح کے وقت تک یہاں رہ سکتی ہیں تاکہ خوداپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اس کا نکاح ظہیرشاہ سے ہو گیا ہے۔‘‘اس نے کہا اور اٹھ کر جانے لگا تو زبیدہ نے بپھرتے ہوئے کہا۔
’’جو کچھ تم نے کہا،یہ فقط تمہاری سوچ ہے۔یہ اس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتی جب تک نادیہ نہیں چاہئے گی۔اور پھر تم کیاسمجھتے ہو کہ میں تمہاری مصلحت کے جال میں آ کر نادیہ کو یہاں لے آئی ہوں ۔اور اسے چھوڑ کرواپس چلی جاؤں گی۔وہ بھی تمہاری دھمکیوں سے ڈر کر۔۔۔اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔۔‘‘
’’میں نے جو سوچا ہے ،وہی کرنا ہے۔ابھی تم خود ہی دیکھ لو گی۔‘‘وہ غصے میں ادب آداب بھی بھول گیا۔وہ اٹھا تو اماں بی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’دلاور شاہ ۔!کیا تم اپنی ماں کے وعدوں کا پاس بھی نہیں کروں گے۔۔۔ میں نے زبیدہ کو زبان دی ہے۔‘‘
’’حویلی کی عزت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے،دلاور شاہ کی ذات بھی نہیں ۔‘‘اس نے کہا ہی تھا کہ اس کاسیل فون بج اٹھا۔اس نے کال ریسو کی تو دوسری طرف دیوان تھا۔وہ چند لمحے اس کی بات سنتا رہا اور پھر بولا۔’’انہیں مردان خانے میں بٹھاؤ،میں آتا ہوں۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اس کھڑکی کی جانب بڑھ گیاجہاں سے حویلی کا بڑا دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔پھر کچھ کہے بناء فوراً ہی کمرے سے نکل گیا۔دونوں ماں بیٹی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔تب زبیدہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اماں۔!آپ فکر نہ کریں،دلاور شاہ نے اگر مجھے دھوکہ دیا ہے تو میں بھی اسے معاف نہیں کروں گی۔‘‘
’’کیا کرو گی تم ۔۔۔کچھ بھی نہیں کر سکتی ہو مجھ سے ہی غلطی ہو گئی جو میں نے تمہیں یہاں بلوا لیا۔‘‘اماں نے بھیگتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’اماں۔!میں جب یہاں آئی تو یہ سب سوچ کر آئی تھی ،مجھے کسی حد تک اندازہ تھا کہ وہ کیا کر سکتا ہے اس لئے میں نے۔۔‘‘زبیدہ یہ کہتے ہوئے چونک گئی۔وہ تیزی سے کھڑکی تک چلی گئی اور ہونقوں کی مانند باہر دیکھنے لگی جیسے باہر اس نے کوئی جن بھوت دیکھ لیا ہو۔پھر لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔’’یہ۔ ۔۔یہ۔۔۔یہاں کیسے پہنچ گیا؟‘‘
’’کون ۔۔کون پہنچ گیا ۔‘‘اماں بی نے گبھرا کر اٹھتے ہوئے کہا۔وہ زبیدہ کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔
’’میرا بیٹا شعیب۔!‘‘وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔
’’شعیب یہاں۔۔۔کہاں ہے وہ۔‘‘اماں نے شدید حیرت سے کھڑکی کے پاس آکرگیٹ کی طرف دیکھا۔ایک سرکاری گاڑی کے پاس تین لوگ کھڑے تھے۔ان میں ایک شعیب تھا،ایک ڈرئیور اور تیسرا اہلکار۔
’’وہی شعیب ہے ، جو تینوں میں سے لمبا ہے۔۔۔‘‘زبیدہ نے آہستگی سے یوں کہا جیسے وہ شعیب سے اپنی آواز بھی چھپا رہی۔جبکہ نانی نے نہال ہوتے ہوئے کہا۔
’’ماشااللہ۔!کیسا کڑیل جوان ہے۔۔۔میرا نواسہ۔۔اللہ نظر بد سے بچائے۔ بالکل باپ پر گیاہے۔‘‘
’’یہ آ کیسے گیا۔۔۔؟‘‘زبیدہ نے کہا ۔وہ مسلسل نیچے انہیں دیکھ رہی تھی۔
’’ہاں۔۔یہ تو ہے۔لیکن تم تو کہہ رہی تھی وہ کہیں کام سے گیا ہے۔گھر آ کر پوچھا ہو گا تو۔۔۔یہاں آ گیا ۔اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔‘‘دادی نے اپنے تئیں اندازہ لگا کر کہا۔
’’نہیں اماں۔!میں نے شعیب کے بارے میں بتایا تھا آپ کو،وہ سچ نہیں ہے،اسے نادیہ کے بارے میں قطعاً نہیں معلوم کہ وہ میرے گھر وہاں گئی تھی۔۔اور نہ ہی میرے بیٹے کو یہ معلوم ہے کہ میرا بھی کوئی تعلق اس حویلی سے ہے۔‘‘وہ سوچتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’تو پھر یہ یہاں کیسے آ گیا۔۔۔؟‘‘اماں بی نے شدت حیرت سے پوچھا تو وہ کھڑکی سے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’میرا بیٹا یہیں اس سلامت نگر میں سب سے بڑا انتظامی آفیسر ہے۔۔‘‘اس کے لہجے میں فخر تھا ،ایک ماں کا فخر جو اپنی ہونہار اولاد کے لئے ہوتا ہے۔
’’اُوہ۔!اس طرح تو پھر یہاں ایک طوفان اٹھ جائے گا۔‘‘اماں بی نے لمحوں میں سوچتے ہوئے کہا۔مہیب خوف کے سناٹوں میں شعیب کے بارے میں ہونے والی خوشی اچانک د ب کر رہ گئی ۔یوں جیسے خوف کی ہوا میں تحلیل ہو کر رہی گئی ہو۔
’’کاش دلاور شاہ اپنی من مانی نہ کرے اور۔۔‘‘زبیدہ نے کہا اور غور سے نیچے دیکھنے لگی۔دیوان اس کے پاس چلا گیا تھا اور اس کو لے کر مردان خانے کی جانب بڑھنے لگا ۔وہ اسی طرف غور سے دیکھے چلی جا رہی تھی ، پھر خود کلامی کے سے انداز میں بولی۔’’یہ آیا کیسے ہے؟‘‘
’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘اماں بی نے اٹھتے ہوئے کہا اور اپنی ملازمہ کو آواز دے دی۔مضطرب سی زبیدہ کھڑکی سے لگی کھڑی تھی وہ بڑے پھاٹک کے پاس کھڑی سرکاری گاڑی کو تکے جا رہی تھی ۔جس میں اس کا بیٹا آیا تھا۔چند لمحوں میں ملازمہدادی اماں کے پاس آگئی۔
’’پتہ کرو،مردان خانے میں کون لوگ آئے ہیں اور کیوں؟‘‘ملازمہ یہ سن کر پلٹنے لگی تودادی اماں نے دھیمے لہجے میں تاکید کی۔’’اور سنو،!کسی کو معلوم نہ ہو۔‘‘
’’جیدادی اماں۔۔۔‘‘ملازمہ نے کہا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گئی تودادی اماں نے زبیدہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’آ،زبیدہ ،بیٹھ ادھر میرے پاس ،تو پریشان نہ ہو،دلاور شاہ نے وعدہ خلافی کر کے اچھا نہیں کیا،میں اسے سمجھا ؤں گی۔۔اور اسے۔۔۔‘‘
’’وہ تو اب میں اسے دیکھ لوں گی کہ وہ نادیہ کی مرضی کے خلاف کیا کر سکتا ہے۔لیکن شعیب یہاں کیسے آ گیا ۔یہ کوئی تھوڑی پریشانی نہیں ہے۔لگتا ہے اب میرا راز کھل جائے گا۔میں ۔۔میں اپنے بیٹے کا سامنا کیسے کر پاؤں گی۔‘‘وہ پاگلوں کی طرح خود کلامی میں کہتی ہوئی کھڑکی ہی کے پاس کھڑی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...