“یہاں تم سچ بول رہے ہو” اسی ڈاکو نے کہا:
“کیوں کہ اگر تمہیں خزانہ مل گیا ہوتا تو وہ تمہارے سامان میں ہوتا، پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو خزانہ مل جاتا ہے ان کے چہرے خوشی سے دمکتے رہتے ہیں ، اور تمہارے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے، کوئی بات نہیں، تمہارا اور ہمارا راستہ ایک ہی ہے، کیوں کہ جس خزانے کا نقشہ اس لڑکے کی کمر پر بنا ہوا ہے ، ہم اسی جیسے ایک خزانے کو تلاش کرنے نکلے ہیں ۔ ”
“یعنی۔۔۔۔۔ ”
“یعنی یہ کہ ہم بھی پمّاکوٹی پہاڑ میں ایک چھپے ہوئے دفینے کو حاصل کرنے آئے ہیں، جب وہ مل جائے گا تو بعد میں تمہارا خزانہ تلاش کرنے میں تمہاری مدد کریں گے ۔ ٹھیک ہے نا، ویسے تمہارے اور ہمارے نقشے میں تھوڑا سا ہی فرق ہے اور وہ کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ ”
اتنا کہہ کر وہ خبیث بری طرح ہنسنے لگا، ادھر میں سوچنے لگا کہ اس شخص کی نیت میں ضرور کھوٹ ہے، پہلے وہ اپنے خزانہ کو تلاش کرے گا اور اگر اسے وہ مل گیا تو پھر ہمارا خزانہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کرے گا، لالچی انسان کا لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا ، وہ تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔ ویسے یہ بات ہمارے لئے قابل اطمینان تھی کہ و ہ اپنے نقشے کو ہمارے نقشہ جیسا سمجھ رہا تھا ۔ بہرحال جان نے یہ کہا کہ اس وقت ان کی باتیں ماننی بہت ضروری ہیں، اگر ایسا نہ ہوا تو جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ۔ ہمارے ہتھیار ان کے قبضے میں تھے ، اور ہتھیار کے بغیر ہم کسی سے لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ، پہلے میں نے اپنی کمر ان سے چھپائی تھی مگر اب جب کہ یہ راز ظاہر ہو چکا تھا کہ میری کمر پر خزانے کا نقشہ بنا ہوا ہے ، تو پھر اس راز کو چھپانا بیکار تھا۔
“بہتر یہ ہوگا کہ تم لوگ خود ہی کام میں لگ جاؤ۔” برص کے داغ والے ڈاکو نے جو اپنا نام آفت سنگھ بتا چکا تھا کہا:
“میں اپنا نام تو تمہیں بتا ہی چکا ہوں ، میرے ساتھی کا نام بھیروں ہے ، یہ کم بخت مجھ سے زیادہ خطرناک ہے، لہذا خیال رہے کہ ہم سے غداری کرنے کا کبھی مت سوچنا۔ غداری کی سزا ہر جگہ موت ہوتی ہے اور وہ ہمارے اختیار میں ہے ۔ ”
“بے فکر رہئے ، ہم آپ کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے ، مگر آپ اپنا کام ہوجانے کے بعد ہمیں ازاد کردیں گے نا؟ ” جان نے بڑی نرمی اور ملائمیت کے ساتھ کہا۔
“بالکل کر دیں گے” بھیروں نے کہا:
“ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں ، ہمیں تو اپنا خزانہ تلاش کرنا ہے ، جب وہ مل جائے گا تو تم لوگ آزاد ہو گے ، جہاں چاہو گے جا سکو گے ۔ یہ ہمارا وعدہ ہے۔ بس باتیں بہت ہو چکیں اپنے کبڑے ساتھی سے کہو کہ وہ ہمارے لئے ناشتہ بنا کر لائے۔”
تفصیل میں نہ جاتے ہوئے بس مجھے اتنا کہنا ہے کہ ان دو ظالم اور بدمعاش آدمیوں نے ہمیں چوبیس گھنٹے تک اتنا پریشان کیا اور ہم سے اتنا کام لیا کہ شاید گدھے بھی ہماری حالت کو دیکھ کر آنسو بہانے لگتے، یوں سمجھئے کہ خچر میں اور ہم میں کوئی فرق نہ تھا۔ ہمارے جسم ننگے تھے ، پتلونیں پھٹ چکی تھیں، قمیضیں تار تار تھیں۔ اوپر سے جنوب کی گرمی، میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بعض دفعہ تو ہم نے کام کرنے سے بہتر مرنے کو ترجیح دی،شاید یہاں آپ کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ ہم تو بہت بہادر اور نڈر انسان تھے، پھر آخر ہم نے دو خوفناک آدمیوں کی غلامی کو کیوں پسند کرلیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم چاہتے تو کسی بھی وقت چپکے سے بھاگ سکتے تھے ، مگر ایک تو رات کے وقت بھیروں جاگتا رہتا تھا، دوسرے سامان واپس لئے بغیر ہم بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور پھر سفر تو صحیح معنوں میں شروع بھی نہ ہوا تھا ۔ ہمیں تو ہندوستان سے بہت دورجانا تھا ، لہذا ہماری یہی کوشش تھی کہ موقع ملتے ہی ان دونوں پر قابو پالیں اور پھر پالام کوٹہ کے مقام پر واپس جائیں ۔
ہمیں پیدل چلتے ہوئے دو دن ہو گئے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اچانک بھیگی ہوئی ہوائیں چلنے لگیں اور پھر ان ہواؤں میں اتنی تیزی پیدا ہوگئی کہ زمین پر قدم جمانے دشوار ہو گئے ، جان نے آسمان کی طرف دیکھ کر بھیروں سے کہا۔
“سب سامان ایک جگہ باندھ دیجئے اور ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر بیٹھ جائیے ، جلدی کیجئے۔”
“کیوں کیا ہوا، کیابات ہے؟ ” بھیروں نے گھبرا کر پوچھا۔
“سائیکلون آنے والا ہے ۔ ”
“سائیکلون! ” بھیروں اور آفت سنگھ نے ایک ساتھ چلا کر کہا اور پھر دوڑ کر سامان اٹھانے لگے۔
سائیکلون کے بارے میں سن کر تو میرے بھی ہوش اڑ گئے ۔ یہ دراصل سمندری بگولہ ہوتا ہے جو 100 سے لے کر ڈیڑھ سو میل فی گھنٹے کی رفتار سے گھومتا ہوا آبادی کی طرف بڑھتا ہے ، اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جو چیز بھی اس کی زد میں آ جائے، نیست و نابود ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی انسان اس بگولے میں پھنس جائے تو اس کا پھر خدا ہی حافظ ہے، اول تو وہ اپنی جگہ پر ملتا ہی نہیں اور اگر ملتا ہے تو کہیں بہت دور مردہ حالت میں!
ہوا بڑھتی ہی جا رہی تھی اور پھر اس ہوا نے ہمیں اپنی جگہ سے دھکیلنا شروع کر دیا۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی ان دیکھی طاقت ہمیں اس مقام سے آگے پھینک رہی ہو ، جلد ہی ہم اس بھنور کی لپیٹ میں آگئے ، مجھے یوں لگا کہ جیسے میرے جسم کی رگیں کھنچ رہی ہوں ، آنکھوں میں سمندر کے کھاری پانی کے بخارات سے جلن پیدا ہو گئی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ چند لمحوں کے اندر ہی ہم نیم مردہ ہو گئے تھے۔ سائیکلون ختم ہونے کے بعد ہماری حالت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم انسان ہیں، ہم مٹی اور کیچڑ سے لت پت تھے ، ہوا کے تھپیڑے سہتے سہتے ہمارے جسم سوج گئے تھے ۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل رہی تھیں اور جسم سے خون رس رہا تھا، بھیروں آنکھیں پونچھتا ہوا سب سے پہلے اٹھا اور بری طرح چیخنے لگا ، ہم نے دیکھا کہ ہمارا ایک خچر درخت سے ٹکرا کر مر چکا ہے ۔ سامان چونکہ ہم نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ لہذا وہ محفوظ تھا ، آفت سنگھ نے اٹھتے ہی سب سے پہلے اسلحہ پر قبضہ کیا اور پھر ایک بندوق اٹھانا ہی چاہتا تھا کہ اچانک ایک زرد ہاتھ نے آگے بڑھ کر وہ بندوق تھام لی، سب نے گھبرا کر اس طرف دیکھا۔ زرد ہاتھ اصل میں میری ہی جتنی عمر کے ایک چینی یا برمی نسل کے لڑکے کا تھا، جو بندوق اٹھا لینے کے بعد ہمیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ اس نے خلاف توقع ہمیں جھک کر انگریزی میں سلام کیا اور بولا۔
“اب کیسے ہیں آپ لوگ، ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کے طوفانوں کا آپ کو کوئی تجربہ نہیں ہے۔”
“ٹھیک کہتے ہو، یہی بات ہے” جان نے جواب دیا: “مگر تم کون ہو۔ کہاں سے آئے ہو۔”
“تم چپ رہو” بھیروں نے جان کو ڈانٹا: “سوالات صرف ہم کریں گے، تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ”
لڑکے نے بڑے تعجب سے بھیروں کو دیکھا اور ہماری بے بسی دیکھ کر سمجھ گیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ، میں نے دیکھا کہ وہ لڑکا تقریباً ننگا تھا، البتہ اس نے ایک پھٹی پرانی پتلون ضرور پہن رکھی تھی، اس کا ہتھیار صرف ایک معمولی سا مگر مضبوط بانس تھا جو اس کے ہاتھ میں تھا اور جس کی لمبائی لڑکے کے قد سے دوگنی تھی ۔ لڑکا پھر مسکرایا۔
“ایسا لگتا ہے کہ آپ پماکوٹی پہاڑ والا خزانہ تلاش کرنے آئے ہیں”
“تمہیں کیسے معلوم ہوا؟” آفت سنگھ نے بے اختیار بندوق کا رخ اس کی طرف کر دیا۔
“اس مقام پر وہی لوگ آتے ہیں جنہیں پما کوٹی تک جانا ہوتا ہے، اور پما کوٹی تک وہی لوگ جاتے ہیں جو شہنشاہ چی ای تھاؤ کا دفینہ تلاش کرنا چاہتے ہوں۔ لیکن یہاں بڑے بڑے آئے اور جھک مار کر چلے گئے، آپ سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ ”
“بدتمیز ، تو بہت کچھ جانتا ہے ، اب تیری خیر نہیں ۔ سچ بتا کیا تو نے دفینہ نکال لیا ہے؟ ”
“کہاں نکالا؟ ” لڑکا پھر ہنسا:
“مجھ جیسا کمزور لڑکا بھلا اتنا بڑا کام کیسے کر سکتا ہے ؟ اب آپ چھ آدمی آئے ہیں، میں کھدائی کا کام آپ کے سپرد کر دوں گا، خزانہ ملنے کے بعد اسے نکال کر واپس چلا جاؤں گا ، اور آپ کی چھٹی کر دوں گا۔ ”
آفت سنگھ اور بھیروں کو تو حیرت تھی ہی مگر مجھے بھی کچھ کم تعجب نہ تھا، تھا تو وہ ایک معمولی سا لڑکا، مگر دعوے بہت بڑے کر رہا تھا ۔ ایسا لگتا تھا گویا ہم اس کے خادم ہوں ، اور وہ ہمیں کھدائی کرانے کے لئے ہی ساتھ لایا ہو ۔ ہم میں سے تو کوئی نہ بولا، البتہ بھیروں تڑپ کر کھڑا ہو گیا، اور لڑکے کی طرف دو قدم بڑھتے ہوئے بولا۔
“ایسا لگتا ہے تجھے اپنی زندگی پیاری نہیں جو تو اس قسم کی بکواس کر رہا ہے۔”
“میرے خیال میں اسے مار ڈالو بھیروں” آفت سنگھ نے کہا:
“یہ لڑکا خطرناک معلوم ہوتا ہے ، ہمارے کام میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑائے گا”
چینی لڑکا گو ان کی باتیں نہ سمجھ سکا مگر ان کے لب و لہجہ ، ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ ، آنکھوں کی مکاری اور ان کے لالچی دماغ کو اچھی طرح جان گیا، میرے خیال میں اس نے محسوس کر لیا کہ صرف وہی دو اچھے آدمی نہیں ہیں ، اس نے حقارت سے بھیروں اور آفت سنگھ کو دیکھا اور پھر یکایک غصے میں آ کر بولا۔
“سنو، مجھے کوئی معمولی لڑکا نہ سمجھو، میں بہت بڑی طاقت کا مالک ہوں۔ اگرچہ دیکھنے میں تمہیں کمزور دکھائی دیتا ہوں ، میں تمہاری زبان نہیں سمجھتا مگر تمہاری آنکھوں کی بے رحمی نے مجھے بتا دیا ہے کہ تم کون ہو، یاد رکھو، میری ہستی بہت بڑی ہے ، مجھ سے گفتگو کرنے میں تمیز سے کام لینا، ورنہ نتیجہ کے ذمہ دار تم خود ہوں گے۔ ”
“کیا بکتے ہو؟” بھیرو نے ٹریگر پر انگلی رکھ لی: “کیا تمہیں اپنی جان کا خوف نہیں۔ ”
“ایسا لگتا ہے کہ تمہیں بھی اپنی جان پیاری نہیں ہے۔” چینی لڑکے نے کہا: “بندوق رکھ دو اور غور سے سنو۔ “
ہماری پارٹی حیرت اور توجہ کے ساتھ ان کی یہ باتیں سن رہی تھی ، سچ بات تو یہ ہے کہ ہم آفت سنگھ اور بھیروں کی غلامی کا چولا فوراً اتاردینا چاہتے تھے ، کیوں کہ ہمارا وقت بہت ضائع ہو چکا تھا، مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ مکار ڈاکو ہماری اتنی زبردست نگرانی کرتے رہے تھے کہ ہمیں بھاگنے کا ذرا سا بھی موقع نہیں ملا تھا ۔ وہ چلتے وقت ہمیں سب سے آگے رکھتے تھے ، ہمارے سروں پر ان کا سامان لدا ہوا ہوتا تھا اور دونوں ہاتھوں سے ہم نے وہ سامان پکڑ رکھا ہوتا تھا ۔ ہمارے پیچھے بندوق کی نالیں ہمیں دیکھتی رہتی تھیں۔ ان حالات میں ہمیں فرار کا ذرا سا بھی موقع نہیں ملا تھا ۔ مگر اب کچھ امید ہوئی تھی کہ اگر کسی طرح ان تینوں میں ٹھن جائے تو شاید ہمیں بھاگنے کا موقع مل سکے گا ۔ ویسے میں نے اور جان نے یہ پکا ارادہ کر لیا تھا کہ موقع ملتے ہی اسے ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے گا اور ان ڈاکوؤں کے چنگل سے نکلنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ چینی لڑکا کچھ بول رہا تھا ، لہذا میں نے توجہ سے سننا شروع کیا ۔
“مجھے معمولی لڑکا مت سمجھو، میں شہنشاہ چی ای تھاؤ کی ساٹھویں نسل سے ہوں ۔ چند ماہ پہلے ہی مجھے معلوم ہوا تھا کہ میرے جد امجد کا بہت بڑا خزانہ اس مقام پر دفن ہے ، شہنشاہ کو جلا وطن کر دیا گیا تھا ، اور وہ پہلے سنگا پور آئے تھے اور پھر وہاں سے پما کوٹی نامی اس ضلع میں جس کے اونچے پہاڑ کو بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں بہت دولت دیکھی ہے ، مجھے دولت کی ہوس نہیں ہے لیکن ہاں ایک خاص کام کے لئے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اور میں تمہیں بتا دوں کہ میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔ ”
“تجھ جیسا بے وقوف لڑکا، میں نے آج تک نہیں دیکھا” آفت سنگھ نے اکڑ کر کہا: “تو تو اس طرح بات کر رہا ہے جیسے ہم سے زیادہ طاقتور ہو؟ ”
“بے شک میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں، لو میں تمہیں ابھی اپنی طاقت دکھاتا ہوں ، ہوانگ ہو کی طاقت۔ ”
لڑکے کے منہ سے سن کر پہلی بار معلوم ہوا کہ اس کا نام ہوانگ ہو ہے ۔ بہرحال حالات دل چسپ ہوتے جا رہے تھے ۔ ہمیں علم تھا کہ لڑکا یہ جان چکا ہے کہ ہم مظلوم ہیں، اور ان ڈاکوؤں کے پھندے میں گرفتار ہیں۔ یہ ہمارے لئے بہت کافی تھا، ہم نے دیکھا کہ لڑکے نے اچانک ایک بھاگتے ہوئے سور کو پکڑ لیا ، اور پھر چند سیکنڈز میں ہی اس کی ٹانگیں باندھ کر اسے بے بس کر دیا ۔ بھیروں اور آفت سنگھ غور سے اس کی حرکتیں دیکھ رہے تھے ۔ لڑکے نے اس کے بعد اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑی سیپ نکالی جو دونوں طرف سے بند تھی ۔ اس نے سیپ کا ڈھکنا کھول کر اس کا کنارہ اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلی سے لگا دیا۔ فوراً ہی ایک بہت بڑی کالی مکڑی سیپ میں سے نکل کر ہوانگ ہو کی ہتھیلی پر رینگنے لگی ۔
“تم جانتے ہو اسے یہ کون سی مکڑی ہے؟ ” لڑکے نے پوچھا۔
“کیا مداریوں کے سے کرتب دکھا رہا ہے احمق؟ ” بھیروں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: “خیر میں نہیں جانتا۔ ”
“میں جانتا ہوں یہ کون سی مکڑی ہے۔ ” جان نے فوراً جواب دیا۔
“اچھا آپ جانتے ہیں” ہوانگ ہو نے جان کو آپ سے مخاطب کرتے ہوئے تعجب سے کہا: “اچھا تو بتائیے۔ ”
“یہ مکڑی جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے، اس کا نام ٹویڈا ہے ، اس سے زیادہ زہریلا جانور دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ ”
“بہت خوب بہت خوب۔ ” لڑکا یہ سنتے ہی اچھل پڑا:
“آپ تو واقعی بڑے قابل ہیں، جہاں تک میرا یقین ہے آپ ان دونوں کے ساتھی نہیں ہیں، آپ چاروں کو شاید ان ڈاکوؤں نے زبردستی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ” جان نے کوئی جواب نہ دیا، بھیروں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اس نے گردن جھکالی۔
“ضرور یہی بات ہے” لڑکے نے کہا:
“کہاں یہ خوفناک صورتیں اور کہاں آپ چاروں ، خیر کوئی بات نہیں، وقت آنے پر آپ ضرور آزاد ہو جائیں گے ، اچھا تو بھیروں، باتیں تو بہت ہو گئیں، لو اب میں تمہیں اپنی طاقت دکھاتا ہوں۔ ”
دونوں ڈاکو لگاتار ہنستے رہے، ان کے خیال میں لڑکا ایک معمولی سا اور بے ضرر انسان تھا۔ جس کو وہ جب چاہتے مسل کر رکھ دیتے ۔ اسی لئے وہ اس کو طرح دے رہے تھے اور ہنس ہنس کر اس کا مذاق اڑا رہے تھے ، ہوانگ ہو نے جھک کر اپنی ہتھیلی زمین سے لگا دی اور دوسرے ہاتھ کی انگلی سے مکڑی کو کچھ اشارہ کیا۔ مکڑی چند انچ تو زمین پر چلی، اس کے بعد وہ اچانک پھدکی اور ایک تار بناتی ہوئی سور کے جسم پر جاکر بیٹھ گئی ۔ میں نے صاف دیکھا کہ اس نے اپنا ڈنک سور کے جسم میں چبھو دیا اور یہ کام انجام دینے کے بعد وہ دو بارہ پھدک کر سور کے جسم سے لڑکے کے شانے پر آکر بیٹھ گئی ۔ پہلے تو بھیروں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، مگر جب اس نے سور کو ایڑیاں رگڑتے دیکھا تو گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا اور اس وقت تو خوف کے مارے اس کی چیخ نکل گئی جب اس نے دیکھا کہ سور کا جسم یوں گھل رہا ہے جیسے برف گھلتی ہے۔
“دیکھا یہ میرا ہتھیار ہے ، یعنی میری پالتو مکڑی ، جو کوئی مجھے نقصان پہنچانا چاہے گا اس کا یہی حشر ہوگا جو سور کا ہوا ہے” لڑکے نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
“یہ۔۔۔ یہ تو بہت زہریلی ہے” آفت سنگھ کا چہرہ خوف کے مارے زرد ہو گیا۔
” اس کے علاوہ یہ میری محافظ بھی ہے ، اگر کسی نے مجھے مار بھی ڈالا تب بھی یہ مکڑی قاتل کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ اب ایک تماشا اور دیکھو۔ ” ہوانگ ہو نے یہ کہہ کر اپنی مکڑی کو زمین پر رکھ دیا۔ کچھ دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا اور پھر بھیروں سے بولا۔
“تم چاہو تو اس پر گولی چلا کر یا خنجر سے وار کر کے اسے مار سکتے ہو، جاؤ تمہیں اجازت دی۔ ”
بھیروں بڑی دیر تک خاموش کھڑا رہا، لڑکا مسکراتا رہا اور اب اس کا مذاق اڑا رہا تھا ۔ بھیروں کے ہاتھ میں بندوق تو تھی ہی مگر اس میں تو صرف ایک کارتوس آتا ہے ۔ لہذا اس نے بندوق رکھ کر پستول نکال لیا اور لڑکے کے بار بار اکسانے پر اس نے لگاتار چھ فائر مکڑی پر کر ڈالے مگر پھر یہ دیکھ کر اس کی جان نکل گئی کہ مکڑی ہر فائر پر پھدک کر جگہ بدل دیتی تھی ، آخری فائر کے بعد وہ پھدک کر بھیروں کے کندھے پر ہی آ بیٹھی۔