محب لان میں بیٹھا مزید پودے لگانے کے لیے زمین کھود رہا تھا۔۔۔ صبح کا وقت تھا پرندے اپنا رزق لینے نکلے ہوۓ تھے امی ناشتہ بنا رہی تھیں۔
”اوہو کیا سخت چیز آگٸ یہاں۔۔۔۔؟“محب زمین کھودتے ہوۓ رک گیا اس کا ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرایا تھا۔
”افف یہ کیا ہے۔۔۔۔؟“کافی دیر کھودنے کے بعد ایک ننھا سا صندوق نظر آیا۔
محب نے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ امی کی آواز پر وہ رک گیا۔
”محب ناشتہ کر لو۔۔۔۔“
”جی امی آتا ہوں۔۔۔۔“محب نے جلدی جلدی صندوق پر مٹی ڈال کر اسے دوبارہ چھپا دیا اور ناشتہ کرنے چلا گیا۔
”کیا بات ہے بیٹا۔۔۔کہاں کھوۓ ہوۓ ہو۔؟“ناشتے کی ٹیبل پر بھی محب کے ذہن میں وہ صندوق چل رہا تھا۔
”وہ کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔“محب نے گڑبڑا کر جواب دیا۔
”کیا ہوسکتا ہے اس صندوق میں۔۔۔؟“محب ناشتہ کرنے کے بعد واپس لان میں آگیا۔
دوبارہ سے مٹی ہٹاٸی اور صندوق باہر نکال لیا۔مگر یہ تو بند تھا اس پر لگا تالا محب کا منہ چڑا رہا تھا۔
”توڑنا پڑے گا۔۔۔۔“محب نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ سوچا۔پھر اسے بھاری پتھر نظر آیا اسے اٹھایا اور صندوق کو زمین پر رکھا اور پوری قوت سے صندوق کا نشانہ لیا۔
صندوق کا تالا نہیں ٹوٹا البتہ پورا صندوق ہی ٹوٹ گیا۔
اس میں نہ خزانہ تھا نہ ہیرے جواہرات بلکہ اس میں ایک نقشہ تھا۔
”لگتا ہے یہ خزانے کا نقشہ ہے جسے میں نے ڈھونڈنا ہوگا۔۔۔۔“
محب نے وہ نقشہ جیب میں ڈال دیا اور ٹوٹے ہوۓ صندوق کے ٹکڑے ڈسٹ بین میں ڈال کر چلتا بنا۔
☆☆☆☆☆
اس بستی سے دور گھنے جنگلات میں ایک ویران حویلی تھی اس کے بارے میں مشہور تھا یہاں ایک بھاٸی نے دوسرے بھاٸی کا قتل کیا تھا.
اور قتل ہونے والے بھاٸی کی روح وہاں رہتی ہے یہ سن کر آس پاس کے لوگ وہاں سے ہجرت کرگۓ تھے.
بعض اوقات لوگوں کا کہنا تھا یہ من گھڑت قصے ہیں۔
مگر سچ کیا تھا یہ آپ کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوسکتا ہے۔
☆☆☆☆☆
”جمیل جمیل کہاں ہو دیکھو تو مجھے زمین سے ایک نقشہ ملا ہے۔۔۔۔۔“محب جمیل کے گھر داخل ہوتے ہی اسے آوازیں دینے لگا مگر کوٸی جواب نہیں ملا۔
”جمیل بھٸ کہاں ہو۔۔۔۔؟“وہ ہر کمرے میں جا کر دیکھتا مگر جمیل اسے نہ ملا اب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا جمیل یہاں بھی نہیں تھا۔
”کہاں گیا یہ لڑکا۔۔۔“محب واپس نیچے اترا اور اپنا فون نکال کر اسے کال ملانے لگا۔
ٹون تو جارہی تھی مگر کوٸی اٹھا نہیں رہا تھا۔
”اوفوہ اب کیا کروں کہاں ڈھونڈوں۔۔۔۔۔؟“
وہ وہاں سے نکل آیا اب وہ گلی میں چل رہا تھا اتنے میں اس نے جیب سے وہ نقشہ نکال کر دیکھنے لگا۔
یہ تو کسی حویلی کا نقشہ لگ رہا تھا۔
”یہ حویلی کہاں واقع ہوسکتی ہے۔۔۔۔؟“اس نے دل میں سوچا۔
”پتا لگانا پڑے لگا لیکن پہلے اس جمیل کے بچے کو تو ڈھونڈوں۔۔۔۔“وہ بڑبڑایا اور اپنے دوست طارق کےگھر گیا تو دھک سے رہ گیا۔
”طارق یار کہاں ہو تم۔۔۔؟“محب نے پورےگھر میں اسے تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھا۔
اب اس کے قدم سجاد کے گھر کی طرف اٹھ رہے تھے اندر داخل ہوتے ہی اسے سجاد کی امی نظر آگٸیں۔
”السلام علیکم آنٹی سجاد ہے۔۔۔۔؟“
محب نے سلام کرنے کے بعد پوچھا۔
”نہیں، اسے کوٸی نقشہ ملا تھا طارق اور جمیل کو بھی ملا تھا تینوں تلاش کرنے گۓ ہیں کہ وہ حویلی کہاں واقع ہے۔۔۔۔“آنٹی نے بتایا تو محب دھک سے رہ گیا یعنی صرف اسے ہی نہیں اس کے دوستوں کو بھی ملا تھا نقشہ۔
”میں بھی ان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔۔۔“محب اٹھتے ہوۓ بولا۔
”ہاں کیوں نہیں ابھی ابھی ہی نکلے ہیں تم اپنی باٸیک پر ان کے پیچھے جاٶ۔۔۔۔“
محب واپس گھر آیا اپنی باٸیک نکالی اور فل سپیڈ سے جمیل طارق وغیرہ کے تعاقب میں لگا دی جلد ہی وہ اسے مل گۓ وہ تینوں گاڑی میں تھے۔
”جمیل طارق سجاد رکو میں بھی تمھارے ساتھ جانا چاہتا ہوں مجھے بھی وہی نقشہ ملا ہے۔“
محب نے بتایا تو تینوں کے منہ کھل گۓ۔
”منہ بند کرو بھاٸیو! مکھیاں چلی جاٸیں گی۔“
محب ہنستا ہوا ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور گاڑی ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگٸ۔
”یار کیا کہتے ہو کیا ہوگا اس حویلی میں۔۔۔۔؟“طارق نے پوچھا۔
”ایک عدد مرے ہوۓ انسان کی روح اور حویلی کی ویرانی۔۔۔۔“محب نے تِکہ لگایا تھا حالانکہ اسے معلوم نہیں تھا۔
کافی دیر سفر کرنے کے بعد حویلی کے آثار دکھاٸی دینے لگے ان سب کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔
”یار ہم ابھی سے ڈر رہیں آگے پتا نہیں کیا ہوگا سجاد گاڑی واپس لے چلو۔۔۔۔“طارق نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”ہرگز نہیں ہم واپس کسی قیمت پر نہیں جاٸیں گے یہاں تک آ گۓ ہیں تو مزید چلنے میں کیا حرج ہے۔“
جمیل مسکرایا اچانک سے راستہ دشوار ہونے لگا بڑے بڑے پتھر آنے لگے مجبوراً انھیں گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے پیدل چلنا پڑا اس قدر مشکل راستہ انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔
”ہو آ ہو آ ہو آ۔“اچانک یہ آوازیں آنے لگیں جو یقیناً جنگلیوں کی ہوسکتی تھیں اچانک کچھ عجیب سی مخلوق ان کے سامنے اچانک آگٸ چاروں بکھلا کر پیچھے ہٹے۔
ان کے پاس اسلحہ یا کچھ ہتھیار بھی نہیں تھا اور اس مخلوق کے پاس نیزے بھالے،تلواریں اور جانے کیا کچھ تھا ایسے ہتھیار تو کبھی کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔
”اب کیا کریں گے کیسے لڑیں گے۔؟“طارق بولا۔
”تم سب پیچھے ہٹو میں لڑوں گا ان سے۔“محب نے ہیرو بننے کی کوشش کی۔
”کیسے لڑو گے جبکہ یہ ایک نیزہ پھینکیں گے تمھارے آر پار ہو جاۓ گا۔۔“طارق بولا تو محب ڈر گیا۔
”واپس چلتے ہیں۔“جمیل نے مشورہ دیا۔
”پاگل ہوگۓ ہو اس طرح تو ہمیں ہر کوٸی ڈرپوک سمجھے گا،اور ویسے بھی ابھی تھوڑا ہی چلیں ہیں کہ یہ مخلوق آگٸ سوچو آگے کن کن چیزوں سے سامنا ہوسکتا ہے سو بھاٸی تم ایزی رہو۔“
جمیل نے ایک ہی سانس میں کہا۔
”اٸی اللہ۔“
اچانک محب کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی سب نے اس کی طرف دیکھا اور پھر پیچھے تو کانپ کر رہ گۓ انھیں چاروں طرف سے اس مخلوق نے گھیر لیا تھا۔
”اب۔۔۔اب۔۔۔کیا۔۔۔ کریں واپسی کی۔۔۔ راہ بھی نہیں کوٸی۔۔۔“جمیل کے منہ سے لڑکھڑاتے الفاظ نکلے۔
”تم سب کون ہو اور یہاں کیوں آۓ ہو۔؟“ایک جنگلی نے پوچھا۔
”ارے واہ تمھیں تو اردو بھی آتی ہے مزید بولو نا۔“طارق نے اپنا ڈر چھپانا چاہا۔
”بکو مت اور سیدھی طرح بتاٶ کس لیے آۓ ہو۔؟“وہی جنگلی بولا۔
”ہم اس لیے آٸیں کہ وہ۔۔۔۔۔۔جمیل بھاٸی ہم کس لیے آۓ ہیں۔؟“طارق نے جلدی جلدی پوچھا۔
”ہاں ہم یہاں گھومنے آۓ ہیں۔“طارق نے خود ہی جواب دیا۔
”گھومنے کے لیے ہمارے ہاں ہی آنا تھا کیا۔“جنگلی غضب ناک آواز میں بولا۔
”نن….نہیں وہ ہمیں نت نٸ جگہیں دیکھنے کا شوق ہے۔“طارق باقاعدگی سے باتیں کر رہا تھا۔
”اچھاااا تو ابھی تمھارا شوق پورا کیے دیتا ہوں۔“
یہ کہہ کر اس نے ہاتھ میں پکڑا نیزہ اس کی طرف اچھا طارق اچھل کر پیچھے ہٹا تو ایک دوسرے جنگلی سے ٹکرا گیا دونوں دھڑام سے گرے طارق جنگلی کے اوپر گرا تھا اسے لگا جیسے کانٹوں کے ڈھیر پر گرا ہو۔
”آہ۔“طارق کے اٹھنے سے پہلے ہی جنگلی نے اسے کسی گیند کی طرح اچھالا وہ سیدھا درخت سے لگا اس کے جسم سے خون رسنے لگا جمیل سجاد اور محب دم سادھے یہ لڑاٸی دیکھ رہے تھے۔
”ہم تمھیں کسی بھی صورت اس حویلی تک پہنچنے نہیں دیں گے۔“ایک جنگلی چلایا۔
”اور ہم ہر صورت جا کر رہیں گے۔“باوجود تکلیف کے طارق چلایا۔
”دیکھتے ہیں کیسے جا پاتے ہو تم پہلے دو دو ہاتھ کر لو ہم سے پھر جانا آ جاٶ کون تیار ہے مجھ سے دو دو ہاتھ کے لیے۔“
وہی جنگلی چلایا۔
سجاد جمیل اور محب کو جیسے سانپ سونگھ گیا اسی لمحے طارق اٹھا۔
”میں ہوں تم سے مقابلہ کرنے کے لیے۔“طارق نےایک درخت کی شاخ سے اچانک اس پر حملہ کردیا جنگلی اس اچانک والے حملے کے لیےتیار نہیں تھا سو لڑکھڑایا ضرور مگر گرا نہیں۔
”اچھااا تو تم کرو گے مقابلہ تم تو پہلے ہی بے کار ہوچکے ہو۔“جنگلی نے ٹھیک کہا تھا طارق کی باٸیں بازو کے ہڈی ٹوٹ چکی تھی ظاہر ہے وہ اتنی زور سے درخت سے ٹکرایا تھا۔
باوجود درد کے طارق اٹھا اور جنگلی کی طرف بڑھا۔
”آ جاٶ۔۔۔“طارق کا بازو لٹک رہا تھا۔
پہلا وار طارق نے کیا اس کے منہ پر گھونسہ مار کر بس پھر کیا تھا وہ جوش میں آگیا اور تواتر سے مکے مارنے لگا۔
اچانک جنگلی کو غصہ آگیا۔اس نے ایک لات مار کر طارق کو نیچے گرا دیا اور پھر لاتیں مارنے لگا طارق کے ناک اور منہ سے خون نکلنے لگا جسے دیکھ کر سجاد کے ہوش اڑ گۓ وہ اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا جنگلی ابھی تک طارق کو مارنے میں مصروف تھا اس کا دھیان ہی نہیں تھا کوٸی وار کرسکتا ہے۔
سجاد نے ایک درخت کی ٹہنی اس کے سر پر زور سے ماری جنگلی چلا کر نیچے گر پڑا سجاد کا وار کامیاب گیا جنگلی کا سر بری طرح کچل چکا تھا مرنے سے پہلے اس نے وار کرنے والے کو دیکھنا تھا جیسے ہی اس کی نظر سجاد پر پڑی وہ کسی جانور کی طرح چلانے لگا کہ میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا کچا چبا جاٶں گا۔مگر سجاد بے فکری سے کھڑا رہا۔
”سجاد بچنااااا۔“اچانک محب کے منہ سے چیخ نکلی۔
مگر جب تک سجاد کے کانوں تک محب کی آواز پہنچتی ایک اور جنگلی نے اس کی پشت پر چھلانگ لگاٸی دونوں زمین پر گرے سجاد کو یوں لگا جیسے وہ جنگلی نہیں کانٹوں کے جھنڈ میں گرا ہو۔
”سجاد۔۔۔۔سجاد تم ٹھیک تو ہو نا۔۔۔۔؟؟؟“کافی دیر تک جب سجاد میں کوٸی حرکت کے آثار دکھاٸی نہیں دیے تو جمیل نے پوچھا۔
”تیرا یہ دوست تو گیا اب تو بھی آ تیری گچی (گردن) مروڑ دوں گا۔“جنگلی اطمنان سے اٹھا اور محب کو للکارا۔
”میں تم سے لڑ کر دکھاٶں گا۔۔۔“محب آگے بڑھتے ہوۓ بولا۔
”محب رک جاٶ یہ تمھاری ہڈی پسلی ایک کردیں گے ان میں اتنی طاقت ہے ان میں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے پلیززز مت لڑو اس سے۔“
سجاد کی کراہتی ہوٸی آواز آٸی وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
”ہاہاہاہا تمھیں ڈرتا دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔۔۔۔“جنگلی ہنسا۔
”اوٸی۔۔۔۔“جنگلی باتوں میں مصروف تھا جب اچانک پیچھے سے جمیل نے اس پر درخت کی شاخ سے حملہ کردیا۔جنگلی کو اس اچانک والے حملے کی امید نہیں تھی۔
وہ لڑکھڑایا چوٹ اس کے سر پر لگی تھی جس سے اب خون نکل رہا تھا باقی جنگلی تماشہ دیکھ رہے تھے اور منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہے تھے۔
===============
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...