بابا مجھے ٹیلی پیتھی سکھنی ہے…ضیغم امید سے آھاد کو دیکھتے ہوئے بولا سالار سے دھوکہ کھانے کے بعد وہ بری طرح ٹوٹا تھا اس کا بس نہیں چل فہا تھا کہ کسی طرح سالار سامنے آجائے اور وہ اسےُ جان سے مار دے…
ٹیلی پیتھی روحانیت کی ایک شاک ہے اس کو حاصل کرما تو تقریبن ناممکن ہوتا ہے لیکن یہ اسے اگر ایک ہت تک بھی حاصل کرلیا جائے تو یقین جانے یہ ایک کرماتی علم ہے روحانی دنیا میں انسان پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے ٹیلی پیتھی خیالوں کی نگری پر گھومنے والے علم کو کہا جاتا ہے اس علم کو حاصل کرنے والے لوگ کسی بھی انسان کے خیالات پڑھ لیتے ہیں ٹیلی پیتھی جانے والا انسان دماغ میں چھپی ہر بات جان سکتا ہے اس میں اگر محارت حاصل ہوجائے تو کسی بھی انسان کی آواز اور لبو لہجے سے انسان کے دماغی خیالات کو پڑھا جاسکتا ہے اگر انسان ہت درجے محارت حاصل کرلے تو ان خیانات کی روح سے انسانی جسم پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے لیکن یہ وقتی ہوگا یہ تو خیر بہت بات کی باتیں ہیں پہلے اس علم کو حاصل کرنے ہی بہت مشکل ہے لیکن دوستوں ناممکن نہیں ہے خاص طور پر انُ لوگوں کے لیئے جو اللہ کی راہ پر آنا چاہتے ہیں بہت سے لوگوں پر تھوڑی سی صحلایت پیدا ہوجاتی ہیں وہ کسی قریبی انسان کی آنکھوں میں جانکتے وقت اسُ کے خیالات پڑھ لیتے ہیں مگر یہ قوت بہت کم ہوتی ہے اس لیئے انہیں مسسل آنکھوں میں دیکھنا پڑتا ہے لیکن یہ علم اسُ انسان کو حاصل ہوئے گے جو دل میں نیک خیالات رکھ کر اس کی مشکے کرے گا اور دماغ کو عبادت کی طرف لے کر آئے گا…
ٹیلی پیتھی کیسے ہوتی ہے…یہ انسان کی دماغی پوشیدہ قوتوں سے ہوتی ہے انسان کا دماغ دوسروں کے خیالات کو پکڑتا ہے بلکل اسُ ہی طرح کی طرح ایک ریڈیو اسٹیشن کام کرتا ہے اس میں بہت ہی مشق ہوتی ہیں جیسے سانس کی مشق ہاتھ میں موم بتی کو جلا کر دیکھنا اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں ٹیلک پیتھی کوئی عام علم نہیں جو آسانی سے مل جائے اس کے لیئے بہت محنت کرنی پڑھتی ہے یاد رکھے ٹیلی پیتھی سیکھنے والے لوگ اکسر پاگل ہوجاتے ہیں کچھ مرجاتے ہیں 100% میں سے صرف 10% لوگ ہی سیکھ پاتے ہیں…
کیوں بھی…آھاد نے سنجدگی سے سوال کیا…
بابا آپ جانتے ہیں نہ میری آنکھیں سب سے چینج ہے ماما اس لیئے بلیک لینس لگواتی ہے کیونکہ نیلی آنکھیں دیکھ کر نظر جلدی لگ جاتی ہے ہر کوئی انُ آنکھوںمیں ڈوب جاتا ہے…ضیغم آھاد سے بولا…
ہمم…یہ بات سچ تھی کہ بہت کم لوگوں کو ضیغم کی نیلی آنکھوں کا پتہ تھا جب بھی کوئی اسے غور سے دیکھتا تو ڈوب سا جاتا اور ضیغم کی طبیت بہت خراب رہتی اس لیئے سدرہ اور آھاد نے اسے بلیک لینس لگوادیئے تھے گھر کے کچھ بچے تو جانتے ہی نہیں تھے کہ ضیغم کی نیلی آنکھیں ہے…
بابا پلیز میری بات سننے نہ مجھے سیکھنے دے میرا تو دماغ بھی بہت تیز ہے بلکہ آپ سے بھی زیادہ…ضیغم بولا…
نہیں بیٹا اس میں جان کا خطرہ ہے…آھاد نے انکار کیا…
بابا آپ تو مجھے انٹلیجنس میں بیجھنا چاہتے ہیں وہاں بھی تو خطرہ ہے روز زندگی اور موت کے بیچ رہنا پڑھے گا…ضیغم سنجدگی سے بولا…
لیکن بیٹا…آھاد بےبس ہوا…
بابا پلیز…ضیغم لاڈ سے بولا…
اچھا ٹھیک ہے…آھاد نے ہار مارنے والے انداز میں کہا…
لیکن بابا یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ رہی گی ماما کو بھی اس بارے میں علم نہیں ہونا چاہیئے…ضیغم سنجدگی سے بولا تو آھاد نے ہاں میں سر ہلایا…
پھر کیا ضیغم نے اس کی کتابیں خریدی پھر اس کے عالم سے کلاسس لی اور مرتے مرتے کر ہی لیا ضیغم کے لیئے بہت…
ایک دن ضیغم کاضم کے ساتھ یونی گارڈن میں بیٹھا تھا ضیغم اور کاضم کی دوستی بچپن سے تھی اور ساتھ ہی ہر جگہ تھے اسکول کالج یونی شاہ میر بھی اسی یونی میں تھا لیکن ڈپارمنٹ الگ تھا…
ضیغم یار کیا سوچ رہے ہو…کاضم اسے سوچ میں گوم دیکھ کر بولا…
کچھ نہیں یار بابا کی خوائش پوری کرنا کا سوچ رہا ہوں…ضیغم سوچتے ہوئے بولا…
کیا خوائش ہے انُ کی…کہئی تم شادی وادی تو نہیں کررہے…کاضم چونک کر مسکرا کر بولا…
شٹ آپ…بابا چاہتے ہیں میں انٹیلجنس جوائن کرلو…ضیغم سنجدگی سے بولا…
واو…پتہ ہے میں بھی ایسا ہی سوچ رہا تھا…چل دونوں ساتھ جوائن کرتے ہیں جب اسکول کالج یونی ساتھ تو اس میں بھی ساتھ ہی رہے گے…کاضم مسکرا کر جوش سے بولا…
بلکل پھر چلو کل…ضیغم مسکرا کر بولا اور پھر دونوں نے ساتھ جوائن کیا خوش قسمتی سے دونوں سلیکٹ ہوگئے لیکن یہاں بھی دماغ پڑھنے والی بات کسی کو نہ بتائی وہ ویسے بھی کسی فالتو کے دماغ میں نہیں گھستا تھا بس کام کے بندہ پر ہی خیر انٹیلجینس جوائن کی ہے یہ بات صرف آھاد اور احمر کو معلوم تھی..
ڈی زیڈ ایک گینگسٹر تھا جو دو سال میں ملک میں ہر طرف چاہ گیا تھا ہر کوئی اس کے نام سے کانپتا تھا لیکن کاروائی سے وہ مارا گیا لیکن یہ خبر زیادہ مشہور نہ ہوئی ڈی زیڈ کا ضیغم اور کاضم کو ملا انُ لوگوں کو ڈی زیڈ کے اپر لوگوں کو پکڑنا تھا ڈی زیڈ کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جو اسُ کے ساتھ کام کرتے تھے وہ مارے گئے تھا اس کا فائدہ اٹھا کر ضیغم نے ڈی زیڈ کا روپ لیا ارمان کی دوستی بھی یہئی سے ہوئی اور وہ کچھ ہی دنوں میں ان دونوں کا گہرا دوست بن گیا تھا ضیغم کو ڈی زیڈ کا روپ لیئے دو سال ہوگیا تھا اس کا روپ ایسا تھا کہ کوئی بھی اسے پیچہان نہیں سکتا تھا آھاد تک نہیں وہ نیلی اپنی اصل آنکھیں ہی استعمال کرتا تھا کاضم گھر زیادہ نہیں ہوتا تھا بزنس میں ہوتا کام پڑتھا تو نکل جاتا کسی کو شک تک نہ ہوتا تھا ضیغم گھر میں سب کی نظر میں ایک آوارہ بےپرواہ لڑکا تھا جو وہ سر خم کرکے اپنی ماں کے القابات سنتا تھا ڈینجر کنگ کو معلوم تھا ڈی زیڈ ضیغم ہے اس لیئے وہ پاکستان آنے سے ڈرتا تھا وہ تو مومن اور آھاد سے نفرت کروانا چاہتا تھا لیکن ضیغم کو بتاکر اس نے اپنے ہی پیر پر کہلاڑی ماری تھی کاضم کو جب بتایا کہ سالار نے ہی احمر پر جان لیوا حملہ کیا تھا اور وہ یہ سب کام کرتا ہے تو کاضم کو سالار سے بےانتہا نفرت محسوس ہوئی…
وہ اسُ دن مال کے مالک سے ملنے جارہا تھا لیکن بیچ میں در نجف ٹکرا گئی ضیغم تو اسےُ دیکھ کر سن ہوگیا تھا ضیغم ڈی زیڈ والے روپ میں تھا کوئی بھی اسےُ نہیں بیچھان سکتا تھا لیکن آج در نجف کو دیکھ کر وہ بلکل سن ہوگیا تھا بولا تو اسُ نے شروع سے تھا کہ وہ در نجف سے ہی شادی کرکے گا آھاد سے…خیر اسُ ہی وقت شہیر بیچ میں آگیا ضیغم کا بس نہ چل رہا تھا کہ شہیر کا ہاتھ توڑ دے ایک تو پہلے ہی اکیلے انِ سب لڑکیوں کہ نکلنے پر غصہ تھا وہ بڑے ضبط سے وہاں سے گزرا تھا لیکن اسُ نے سوچ لیا تھا کہ وہ ڈی زیڈ بن کر تھوڑا بہت تو تنگ کرے گا ہی اسے…
پھر اگلے دن رشتے والے آئے تھے وہ ہیئی بیٹھا تھا عالیان کے سامنے لیکن در نجف کو تنگ کرنے کے لیئے اسُ کی سوچ میں گھسا تھا اور پھر جو ہوا آپ کو پتہ ہے خیر گھر سے باہر نکل کر وہ بہت ہنسا تھا شاہ میر کے تھپڑ کھانے پر یہ سزا رشتے لانے پر تھی…
پھر ایک دن وہ راستے سے گزر رہا تھا کہ یونی روڈ پر در نجف کر دیکھا جو خوف سے کھڑی تھی اور دو لڑکے اسے تنگ کررہے تھے ضیغم کا تو خون کھول گیا بڑے ضبط سے اسُ یہ منظر دیکھا تھا لیکن در نجف معصوم اسے دیکھتے ہی خوف سے بےہوش ہوگئی پھر چوڑیوں کے پیکٹ اسُ نے شاہ میر کے آفس بیجھے تک کہ کچھ عقل آئے اور اگلی بار در نجف یونی لینے جلدی جائے لیکن وہ صاحب تو صدا کے جزباتی سارا غصہ در نجف پر نکالا اور وہ پہلے ہی اس سے خوف زدہ تھی اپر سے شاہ میر کا غصہ ہوگیا محترمہ کا نروس بریک ڈاون جب یہ خبر آھاد کو پتہ چلی تو بہت باتیں سنی لیکن ضیغم نے وجہ بھی بتائی کہ یہ یہ مسلئہ ہوا تھا اگر وہ وقت نہ آتا تو آگے….خیر آھاد سے اچھی خاصی عزت کے بعد وہ لوگ ہسپٹال گئے البتہ آھاد کی سرد نظریں اسی پر تھی…
🌟🌟🌟🌟🌟
اس ہی طرح جب در نجف لوگ ان کے گھر آئے جب یہ لوگ لان میں جارہے تھے تو در نجف کے چہرہ کے اکپریشن دیکھنے کے لیئے ضیغم نے در نجف کے نمبر پر کال بار بار کرنے کو کہا جس پر وہ بولا…
یار توُ کیوں تنگ کررہا ہے ابھی تو ٹھیک ہوئی ہے…ارمان کا میسج آیا…
جتنا کہا ہے وتنا کر ورنہ آکر تمہیں ایسا ٹھیک کروگا کہ ساری زندگی یاد رکھوگے…ضیغم نے رپلائے دیا…
اور پھر آپ کو سب پتہ ہے ضیغم تو در نجف کی شکل دیکھ کر اندر ہی اندر ہنس رہا تھا پھر ایک دن ضیغم کے نمبر پر حنان کی کال آئی تھی حنان سے وہ بچپن سے اٹیچ تھا پھر وہ لوگ واپس چلے گئے تھے تو کال پر ہی ضیغم کی حنان سے بات ہوتی تھی اور حنان کو سب معلوم تھا کہ ضیغم کیا کرتا ہے یہ بھی معلوم تھا وہ گھر کم ہی ہوتا ہے تو مذاق میں پوچھا تھا کہ میرے دوستوں سے ملتے ہوں دوستوں سے مراد زامن اور احمر تہے اتنے ارصے میں حنان کی احمر سے بھی دوستی ہوگئی تھی احمر تھا ہی ایسا کے سب میں گھول مل جانے والا ضیغم کو اسُ کے دادا دانش بولتے تھے لیکن جب سے انُ کا انتقال ہوا تھا ضیغم نے سب کو منع کردیا تھا کہ اب کوئی اسے دانیال نہ بولے گھر میں احمد صاحب ہی دانش بولتے تھے لیکن کبھی کبھی لاڈ میں سب بھی بول لیتے تھے خیر اس ہی طرح کاضم نے پتہ کروا لیا تھا کہ سالار کی فیملی یہاں ہی ہے نور اتفاق سے در نجف کی دوست نکلی کاضم کو پتہ تھا کل سب جارہے ہے انِ لوگوں نے رات پلین بنایا کہ در نجف اور نور کو ساتھ ہی کیڈنپ کرکے گے کاضم نے ایک چھوٹا سی چپِ در نجف کے کمرے میں لگائی تھی جس سے ساری باتیں ڈی زیڈ سن سکتا تھا اس ہی طرح در نجف کا نہ جانا پتہ چلا اور یہ پلین بنایا کاضم نے صبح گاڑی میں در نجف کی دیکھا اور رحم بھری نظروں سے کیونکہ ہر بار وہ بیمار ہوجاتی تھی ڈر سے بس پھر کیا کاضم نے ڈی زیڈ کو کال کرکے بتادیا کہ وہ لوگ نکل رہا ہیں اپر سے ڈی زیڈ کی بات نے تو کاضم کا دماغ ہی ہلادیا تھا ڈی زیڈ جب کاضم سے ملنے گھر گیا تھا تو شاہ میر سے سامنا ہوا تھا اور اسُ کی اتری شکل دیکھ کر ضیغم اس کی سوچ میں گیا تھا اور ساری بات جان لی تھی یہ باب جب کاضم کو بتائی تو وہ غرا اٹھا کہ شاہ میر عینا کو پسند کرتا ہے…
خیر پھر ارمان نے کاضم کو کال کرکے بتایا کہ سالار در نجف کو کڈنیپ کروانے والا تھا اسےُ کسی طرح ڈی زیڈ کی کمزوری پتہ چل گئی تھی اور در نجف کی جان و عزت خطرہ میں تھی مجبورن کاضم کے سمجھانے پر ضیغم کا نکاح در نجف سے کیا آھاد میٹنگ میں پھنسا تھا اس لیئے کاضم نے پھر احمر کو کال کر کے بلایا جس پر دونوں نے زبردست عزت حاصل کی احمر سے اب بس انِ لوگوں کو سالاد کے پاکستان آنے کا انتظار تھا اور یقین تھا کل وہ پاکستان ہوگا…
🌟🌟🌟🌟🌟
ارے دیکھو دیکھو کون آیا ہے…آھاد ناشتے کی ٹیبل پر زامن زریاب دانیہ اربیہ سدرہ سب بیٹھے تھے ضیغم ہر بار کی طرح اپنے کمرے میں تھا اور بس آنے والا تھا کہ حنان کو دیکھ کر زامن جوش سے بولا اور اٹھ کر گلے لگا…
اسلام و علیکم بھائی…حنان اور سب نے سلام کی تو آھاد نے بھی بڑکر جواب دیا اور گلے لگایا زارا سدرہ اور اربیہ سے مل رہی تھی…
ارے کتنے بڑے ہوگئے بچے…آھاد سحر اور دانیال سے مل کر بولا…
کیسے ہوں بچوں…زامن نے بھی دونوں سے مل کر پوچھا…
الحمد اللہ آپ بتائے چاچو…دانیال بولا…
پتہ ہے یہ آپ سے ملنے کو بہت پرجوش تھی…دانیال سحر کی طرف اشارہ کرتا ہوا زامن سے بولا تو زریاب نے سحر کو مسکرا کر دیکھا…
کیوں بھی…زامن مسکرا کر بولا…
آپ کے شوق اس کے اندر بھی پائے جاتے ہیں…دانیال ہنس کر بولا…
اور واؤ مطلب اب ہمارا ٹائم اچھا گزرا گا یہ بہت بدزوق لوگ ہیں…زامن منہ بناکر بولا تو سب ہنس پڑھے..
آپ واقعی بہت مزہ کے ہیں…سحر ہنس کر بولی تو زریاب غور سے اسے دیکھا اس ہی لحمے سحر نے بھی اسے دیکھا تو زریاب مسکرا کر نظریں پھیر گیا…
ارے ارے یہ کیا…ضیغم موبائل میں غرق چلتا آرہا تھا کہ ایکدم حنان نے اسے پکڑا…
ارے حنان چاچو کیسے ہیں واٹ آ سپرائز…ضیغم حنان کو بیچھ کر بولا…
ہم تو ٹھیک ہیں جوان تم بتاؤ…حنان معنی خیزی سے بولا…
سب ٹھیک آپ کو سب پتہ ہے…ضیغم آنکھ مار کر بولا تو حنان ہنس پڑھا…
اور دانیال کیسے ہو…ضیغم نے دانیال کو گلے لگا پھر سحر کر سر پر ہاتھ رکھا وہ ایسے ہی ملتا تھا لڑکیوں سے اور اس کی یہ عادت سب کو بہت پسند تھی وہ ہاتھ نہیں ملاتا تھا…
آپ بتائے کیا چل رہا ہے…دانیال زریاب اور ضیغم کے ساتھ کھڑا ضیغم سے بولا…
صبح اٹھنا ناشتہ کرنا پھر کمرے میں گھس جانا شام میں چاآے پینا پھر گھر سے نکل کر اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ رات بھر آوارہ کردی کرنا اور صبح چڑتے گھر آنا…پوری بات سدرہ نے بتائی کہ کیا چل رہا ہے ضیغم کی زندگی میں سدرہ کی بات پر حنان اور آھاد نے سر جکھا کر مسکراہٹ دبائی اور ضیغم ڈیٹھوں کی طرح مسکرا رہا تہا سر اٹھا کر اب سدرہ کو کون بتائے کہ وہ روم میں جاکر روم کی کھڑکی سے باہر جاتا تھا لیکن بقول سدرہ کے وہ دن بھر کمرے میں لیپ ٹوپ اور موبائل میں لگارہتا تھا اور سوتا رہتا لیکن بیچارے کو سونا تو بہت ہی کم ملتا تھا کبھی کبھی تو ایک دن سوتا ہی نہیں تھا لیکن جی…
کیا گردن اکڑ کر کھڑے ہو بہت فخر کے کام کرتے ہو…سدرہ نے ڈپٹا…
اففف ماما آپ جب مجھے یہ باتیں سناتی ہے مجھے ایسا لگتا ہے اینرجی ڈرنگ مل گئی ہو نشئی کو نشہ مل گیا ہوں بھوکے کو کھانا مل گیا ہو چرسی کو چرس مل گئی ہو قرض دار کو پیسے مل گئے ہو جیسے صبح کی چائے اففف اتنی میٹھی لگتی ہیں یہ باتیں…ضیغم ڈرامائی انداز میں بولا تو سب کا چھت پھاڑ قہقہ برآمد ہوا اور سدرہ نے زبردست گھوری دیکھائی…
تم نہیں صدر سکتے جب تک باپ سے نہیں سنوگے…سددہ نے نفی میں سر ہلایا تو ضیغم نے پیار کی تو سدرہ مسکرا اٹھی…
کتنا پیارا تو بچا ہے آپ کیوں باتیں سناتی ہیں…زارا مسکرا کر بولی…
ارے چاچی آپ ادھر ہیں نہ بس پھر تھوڑے دینوں میں خود پتہ چل جائے گا ہماری بڑی ماما کو ضیغم بھائی کتنا تنگ کرتے ہیں…دانیہ سدرہ کے ساتھ چپک کر زارا سے بولی…
اب بڑی ماما یاد آگئی اور کوئی کام ہوگا تو ضیغم بھائی یہ کردے ضیغم بھائی زریاب میری بات نہیں سن رہے ضیغم بھائی زریاب نے میری ڈائجس لے لی ضیغم بھائی زریاب آئسکریم نہیں لارہے آپ لے کر آئی…ضیغم نے منہ بنا کر دانیہ کی نکل اتاری…
صیح کہے رہو ہو ضیغم یہ وقت بر وقت پڑہری بدلتی ہے بچ کر رہا کرو اس سے…زریاب نے بھی جل کر کہا…
سب جلتے ہیں میری بچی سے…دانیہ کی شکل دیکھ کر سدرہ بولی…
یہ جلنے کی چیز ہے…زریاب نے ہانک لگائی تو دانیہ نے منہ چڑایا سب انِ کی نوک جھوک سے محفوظ ہورہے تھے…
چلو باقی باد میں ابھی انہیں آرام کرنے دو رات بات کرنا..آو حنان زارا پہلے ناشتہ کرلو پھر آرام کرلینا آو بچوں…آھاد حنان سے بولا تو سب ناشتہ کرنے بیٹھ گئے اور ایک خوشگوار محول میں ناشتہ ہوا…
آ…زامن دعا کو کال کرکے بلالو…حنان چائے پیتے ہوئے بولا…
ارے آپ چھوڑے زامن چاچو میں در کو کال کرتا ہوں اسےُ بتایا تھا کہ ہم تھوڑے دن بعد پاکستان آرہے میں کال کرلوگا خوش ہوجائے گی ورنہ اسُ کے شکوہ ہی ختم نہیں ہوتے…دانیال مسکرا کر بولا تو سب مسکرا اٹھے لیکن ضیغم نے بڑی گہری نظروں سے دانیال کو دیکھا تھا…
ارے وا یہ تو اچھا ہے چلو پھر ہم شام چلتے ہیں در اور میر کو لیکر سی سائٹ اور آئسکریم وغیرہ پھر رات ڈنر گھر پر کرے گے دعا اور مومن انکل خود ہی آجائے گے…زریاب نے مشورہ دیا…
ہاں یہ ٹھیک ہے پھر میں کال نہیں کروگا بلکہ گھر جاکر سپرائز دے گے اس طرح در کی ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی ناراض تھی کال میسج نہیں کرسکا نہ اس لیئے تو آج کی آئسکریم میری طرف سے…دانیال جوش سے بولا تو ضیغم کی نظریں دانیال کے چہرہ پر ہی تھی جس پر خوشی دیکھ رہے تھے ایکدم ضیغم بےچین ہوا…
ہاں اور عینا کاضم کو بھی لے لینا…آھاد نے مشورہ دیا…
ہاں ٹھیک ضیغم بھائی آپ جائے گے یا…دانیہ بولی تو ضیغم نے دانیال کے چہرہ سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا…
ہاں ضرور جاؤگا ساتھ آخر دانیال کو کراچی بھی تو دیکھانا ہے…ضیغم بامشکل مسکرا کر بولا اور آخری بات پر دانت پیسے…
یس ڈن ہوا شام کا…دانیہ اور سحر خوشی سے چیخی…