"سر ہمارا ڈیٹا کسی کے پاس ہے ۔۔۔۔ہمارے اکسس سے پہلے ہی کوئی اُسے استعمال کر رہا ہے”
"منان عباس مغل” مغل پروڈکٹس کہ آدھے حصہ کا ملک اور اپنی شیطانیت میں واحد مثال
"کیا باکواس کر رہے ہو”
اپنی چیئر سے اُچھل کر کھڑا ہوا
"سر حنان کا سارا ڈیٹا ہیک ہوچکا ہے لیکن ابھی اُس ڈیٹا کو کسی استعمال میں نہیں لایا گیا ۔۔۔۔لیکن آپکے کمپیوٹر کی تمام فائلز کسی اور کے استعمال میں ہیں”
ڈرتے ہوئے حقیقت سے آگاہ کیا جبکہ حنان نشے سے چور حالت میں آفس میں داخل ہوا
"جاؤ ابھی یہ بات لیک نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔۔پہلے اُس کمپیوٹر کو اکسیس کرو جو ہمارے مضبوط سسٹم میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہے”
آواز حد درجہ ہلکی تھی جب کے نظریں اپنے بگڑے ہوئے بھائی کی طرف تھیں جس کی شرٹ پر لپسٹک کے نشان واضح تھے
"اوکے سر”
وہ سر خم کرتا چلا گیا
منان کے قدموں کا رُخ اب چیئر پر گرے ہوئے وجود کی طرف تھا جو آہستہ آہستہ بے ہوشی میں جارہا تھا
"انجوائے کیا میرے شیر نے ”
پاس آکر اُسکی کمر تھپتھپائی
جبکہ دوسری طرف مکمل مدہوشی چھا گئی تھی
"بس اس طرح ہی مجھے کامیاب کردو”
چہرے پر مکروئی سے مسکراہٹ آئی جو جلد ہی معدوم ہوگئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کراچی مال کے اندر انتہا کی خاموشی یہاں تک کے اگر چڑیا پر بھی مارتی تو آواز باہر تک آواز باہر تک سنائی دے
مال کی ساری سیلز ٹیم اس ایک روم میں ماجود تھی بس کاؤنٹر پر ایک آدمی بیٹھا تھا مال کے اندر اور باہر کے تمام کیمرے آف کردے گے تھے
مال کے باہر سخت سکیورٹی ماجود تھی جبکہ بازل نور کا ہاتھ پکڑے شاپنگ کر رہا تھا جیا ایک طرف بیٹھی دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہی اور دل ہی دل میں اُنکی نظر اُتار رہی تھی
نور بےبی پنک کلر کی بےبی شورٹ اور سر پر پی کیپ لے رکھی تھی پہلی بار کسی کھلی جگہ پر آئی تھی اور ہر چیز کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کبھی بازل کا ہاتھ چھوڑ کر کسی دوسری طرف تیز تیز قدم اُٹھاتی چلی جاتی تو کبھی وہیں نیچے بیٹھ جاتی جیسے وہاں سے ہلنے کا کوئی ارادہ نہ ہو
اُسکی ہر حرکت کو دیکھتے ہوئے بازل کے چہرے پر مسکراہٹ آتی اور خود با خود ہی معدوم ہوجاتی
"میڈم آپکو اندر جانے کی اجازت نہیں مال بند ہے ”
مایا کو آتے دیکھ کے کاؤنٹر پر بیٹھا انسان جلدی سے بھاگ کر اُسکی طرف گیا
"کیوں کیا ہُوا ہے ”
"بازل شاہ اس وقت یہاں ہیں اور سیکیوریٹی علاؤ نہیں کرتی ”
مودبانہ انداز میں کہا
"اوہ میں اُنکی سیکیورٹی ٹیم کا حصہ ہوں”
اپنا کارڈ دیکھا کر اندر کی طرف چلی گئی جب سامنے نور بھاگتی ہوئی نظر آئی
"ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔کتنی پیاری ہے ۔۔ بلکل کسی شہزادی کی طرح”
نور کو دیکھ کر دل سے لفظ ادہ ہوئے
"ماما”
ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک شرٹ جو شاید اُسکے لیے پسند کی گئی تھی مایا کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تو ایک جھٹکے نے مایا نے اُسے اپنے بازوں میں اُٹھا لیا اور چٹا چٹ اُسکی دونوں گال چوم ڈالے
نور پہلی بار کسی کو دیکھ رہی تھی جواباً اُسنے بھی اُسکے بال کھنچے جو ٹیل پونی میں مقیم تھے
"اچھا کھڑی ہونا میں ایک تصویر بناتی ہوں”
اسکو ہمکلام کرتے ہوئے بولی جیسے وہ جواب دے گی اور نور دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجا رہی تھی
اِس سے پہلے کے مایا تصویر کلک کرتی کسی نے آکر اُسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹا
"عبداللہ موبائل دیکھو ”
بازل چہرے پر سخت تاثرات لیے بولا اور دور کھڑے منیجر کو بولا
"یہ کیا بد تمیزی ہے کوئی منائرز ہیں آپکو”
مایا غُصہ سے بولی
"تمھیں اندر کس نے آنے دیے اور کس کی اجازت سے تصویر بنانے اور اسے چھونے کی کوشش کی”
عبداللہ کے موبائل پکڑنے سے پہلے ہی زمین پر زور سے مار چکا تھا
"کیوں یہ مال تمہارے باپ کا ہے یہ اس معصوم بچی کے تم باپ ہو ”
نقاہت سے کہا اُسکی پرسنالٹی پیسے کا رتی برابر فرق نہیں پڑا تھا مایا کو
"مینیجر ”
اونچی آواز میں چلایا باہر کھڑے گارڈز ایک مرتبہ متوجہ ہوئے
"یہ رہا میرا کارڈ۔۔۔جیتنے پیسے تمہارے ملک کو چاہئیے اِس مال کے بدلے لے اور صبح میرے منیجر کے پاس اِس مال کے کاغذات ماجود ہوں ورنہ ایک حکم پر یہ صبح سیل کردیا جائے گا ہمیشہ کے لیے ۔۔۔اُمید ہے عقل مند انسان ہوگا ”
اپنا کارڈ اُسکے پاؤں میں پھنکا جبکہ نور اپنا نچلا باہر نکالے رونے کی تیاریوں میں تھی کیوں کے پہلی بار غصّہ کی آواز سنی تھی وہ بھی بازل کی
"اب بتاؤ اور رہی بات نور کی تو اسکے بارے میں جاننے کا حق کسی کو نہیں دیتا ”
نور کو جُھک کر اپنی باہوں میں اٹھایا جو مایا کی طرف دیکھ رہی تھی
"یہ خود جانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ اُٹھا کر باہر پھینک دو”
اپنے گارڈز کو حکم دیتا چلا دوبارہ شاپنگ میں مصروف ہوگا جیسا کچھ ہوا ہی نہ ہو نور نے دو مرتبہ پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن اب وہ وہاں بھی تھی چلتی ہوئی باہر سڑک پر آگئی اور بنا سوچے سمجھے چلتی گئی ذہن میں جیسا سب کچھ فریز ہوگیا ہو جن لوگوں کے سامنے اتنے مان سے گئی تھی اُنہیں کے سامنے وہ انسان زلیل کرکے رکھ گیا
چلتی ہوئی کسی سنسان راستے پر کسی منزل سے بٹکے ہوئے انسان کی طرح آگئی تھی جتنی مرضی مضبوط تھی لیکن تھی تو ایک انسان ایک عورت جو اپنی تذلیل برادشت نہیں کر سکتی دوپہر کو چلی تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے پرندہ تھک ہار کر واپس اپنی پناہ گاہوں کی طرف روانہ تھے صبح سے نکلے مزدور اپنے کندھوں پر مجوسی لدے سڑکوں کے کناروں پر بیٹھے ابھی بھی کسی کی آس میں تھے
"میڈم جی”
کانوں میں وہی خالص پنجابی والا لفظ پڑا تو بے یقینی سے اپنی بائیں طرف آواز کے تعاقب میں دیکھا تو سامنے نہایت ہی گندہ کپڑوں میں ملبوس محد کھڑا تھا
ایک مرتبہ آنکھوں جبھکی لیکن منظر ہوبہو قائم تھا
"مایا جی آپ ہی ہیں ۔۔۔۔یار پھر آپکو میری طرح مار کر نکال دیا کسی نے”
اب اُسکے بلکل سامنے آکر بولا آواز میں جوش تھا
"جنگلی جانور تم نے میرا جہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا ۔۔۔۔۔میں چاہئے جہنم میں جاؤں تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے”
ایک تھپڑ پورے زور سے اُسکے منہ پر جڑا لیکن سامنے والے کی بتیسی ابھی بھی قائم و دائم تھی جیسے کوئی ریوارڈ ملا ہو
"اور کبھی کپڑے بھی کبھی دھو کر پہن لیا کرو اور اپنا منہ دیکھا ہے کبھی برش کرلیا کرو ایسی سمل آتی ہے جیسے مردار کھایا ہو ”
اب سامنے والے کی مسکراہٹ پھیکی پڑی تھی اور ایک نظر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا
جبکہ مایا نے اردگرد دیکھا اس سنسان سی جگہ پر محد کی بے عزتی دیکھنے والا کوئی نہیں تھا لیکن پھر سکون ملا تھا
"آپ ہمارے علاقے میں کیا کر رہی ہیں”
لہجے میں جوش نہیں تھا ہاں ملال ضرور تھا
"کیوں تمہارے باپ کا علاقہ ہے یہ تمہارے باپ نے یہ سڑک خرید رکھی ہے”
اندر سے ڈر بھی تھا کہیں یہ بھی سڑک یہ علاقہ نہ خرید لے لیکن اُسکی شکل دیکھ کر یہ سوچنا گدھوں کی سوچ کے مترادف تھا
"نہیں جی اپن کے پاس تو اپنا گھر نہیں ہے ”
چھوٹے سے بچے کی طرح کہا یہاں تک کے نچلے ہونٹ بھی تھوڑا سا باہر کو تھا
"غریب انسان”
کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی عزتِ نفس کو انتہا کا سکون ملا تھا انسان فطرت میں شامل ہے کے جب تک اپنے اندر کی بھڑاس اپنے سے چھوٹے پر نہ نکال لے اُسے سکون نصیب نہیں ہوتا
"فتر کے بچے آجا ذرا تیری تو صفائی کرتا ہوں پتہ نہیں کونسے کتوں والے صابن سے کپڑے دھوتے ہے میڈم اتنی باتیں سنا کر چلی گئی”
وہ بھی اپنی عزتافزائی کسی اور نکالنے کے چکر میں تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اُسکے گرد بازو حائل کیے اب پھر رونے میں مصروف تھی
"اگر شوہر ناراض ہو تو منایا جاتا ہے ”
خود ہی بتانا پڑا کے وہ ناراض ہے لیکن دوسری طرف کوئی اثر نہیں ہوا اُسکی جدائی میں سہے گے دکھوں کا کرب کسی طرح تو نکالنا تھا
پھر خود ہی نرمی سے اُسکے گرد اپنے بازوں کا حصار بنایا اور ایک ہاتھ سے اُسکی کمر سہلائی
"طالش میں مر جاؤں گی”
اتنی دیر بعد ہجکیوں سے روتے ہوئے ایک جملہ ادا کیا تو طالش نے اُسے خود میں بھینچ لیا
"میں واپس چلا جاؤں گا اگر اب تمہاری آنکھ سے ایک بھی آنسو نکلا تو ”
یہی دھمکی کارآمند لگی تو اُسکے کان کے پاس سرگوشی کی جس کے نتیجے میں عندلیب کی اپنی آنکھیں صاف کی اور اُسے دیکھنے کے لئے چہرے پر مسکراہٹ لائی
"آپ اب نہیں جائیں گے نہ ”
اُسکا ہاتھ پکڑ کر بچوں کی طرح سوال کیا
"نہیں میری جان نہیں جاؤں گا ”
اُسکے ماتھے پر اپنے تشنہ لب رکھتے ہوئے کہا اُسے دوبارہ مجوس نہیں کرنا چاہتا تھا ورنہ وہاں کام میں تو اتنا پھنسا تھا کے اگلے چار دن سے کھوجلنے کا ٹائم نہیں تھا اور صبح واپس جانا تھا
اُسے اپنی باہوں میں اُٹھا کر بیڈ تک لے کر آیا کیوں کہ پاؤں سے کافی خون نکل رہا تھا
"کچھ کھا لیا کرو ورنہ کسی دن کوے اُٹھا کر لے جائیں گے اپنے ساتھ اور میرا کیا بنے گا ”
اُسکی صحت کا مذاق بناتے ہوئے کہا پر دیب کو اچھا نہیں لگا جتنی وہ ڈائیٹ پسند تھی یہ بات بری ہی لگنی تھی
"مجھے لگتا ہے میں موٹی ہورہی ہوں”
معصومیت کے پہاڑ ٹورتے ہوئے کہا اور طالش جو اُسکے پاؤں پر پٹی کرنے میں مصروف تھا نظریں اُٹھا کر غُصہ سے دیکھا
"ہاں بہت۔۔۔۔۔ ایک بات سن لو میری مجھے صحت مند اور خوش مزاج سے بچے چاہیں یہ نہ ہو تمہارے جیسے روندا اور ہوا میں اُڈ جانے والے ہوں ”
اپنی بات مکمل کرکے اوپر کو دیکھا یہاں اُسکی پلکیں جھکی ہوئیں تھی اور ہاتھ لرز رہے تھے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ اور ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخارنے میں مصروف تھی غلطی سے بھی نظریں نہیں اٹھائیں تھیں
ایک ہفتہ ابھی شادی کو ہوا تھا اور وہ کتنی دیٹھائی سے بچوں کی خصوصیات بیان کر رہا تھا کافی دیر اُسکے بدلتے رنگ دیکھنے کے بعد اُٹھ کر ہیٹر آن کیا اُسکے اُوپر بلکل بچوں کی طرح کمبل دیا جو جلدی سے اُس میں چھپنے کے لیے گھس گی دوسری طرف سے آکر اُسے اپنے حصار میں لیا
"کیسا بچوں ہونگے ہمارے؟؟؟”
شرارت سے اُسکے کان کے پاس سرگوشی کی جو دہکتی سانسوں کو محسوس کرکے اُسکے سینے میں منہ دے گئی
اُسکے گرد اپنا حصار تنگ کرتے ہوئے دونوں آنکھوں پر اپنے لمس چھوڑے جو اُسکے حصار میں آکر سارے درد تکلیفیں بھول گئی تھی کتنے شکوہ تھے سب کے سب خود با خود ختم ہوگے
رات کی سیاہی پھیلتی گئی اور فضا میں محبتوں کی سریلی سی رمک شامل ہوتی گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"کتے بغیرت کدھر ہے تو باہر آ”
محد آتا ہے چلانے لگ گیا جبکہ پورا لڑکیوں کی طرح کمر پر دوپٹہ بندھے کھڑا نوفل سالن میں چمچ ہلا رہا تھا اُسکی آواز پر بھی نہ ہلا
"کیوں جان نکل رہی ہے تمہاری ۔۔۔جو منہ میں آکر پانی ٹپکاوں ”
ابھی روٹیاں بنانے والی پڑی تھیں اور محد صاحب کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اسی بات کا غُصہ تھا
"لعنتی انسان کپڑوں کو کیسے دھوتا ہے تو ”
کچن نما ڈبہ میں آکر ایک ہاتھ میں بلن لیتے ہوئے بولا
"ٹانگیں آسمان کی طرف جب کے منہ زمین کی طرف کرکے پھر زیادہ سواد آتا ہے”
کافی کھینچ کر جواب دیا اور بعد میں نوفل آگے تھا جبکہ محد پیچھے
"بھائی معاف کردے میرا سالن جل جانا ”
ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تو محد کو ترس آگیا
"چل ٹھیک ہے پر اب میرے کپڑے تو تبت صابن سے دھویا کر اُسکی خوشبو مست ہے”
خوشبو کو خیالوں کی دُنیا میں محسوس کرتا ہوا بولا
"بھائی تبت تیس کا آتا ۔۔اور پہلے کپڑے میں کالے برتنوں والے صابن سے دھوتا ہوں”
ایک اچھی بیوی کی طرح خرچے کا حساب سامنے رکھا
"یہ بات تو سوچنے والی ہے ”
سوچنے کے انداز میں وہی بیٹھ گیا جیسے کوئی سستا بازار ابھی کھولنا ہو
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...