(Last Updated On: )
دروازے کی بیل کا بٹن دباتے ہوئے زیان کا ہاتھ لرز رہا تھا اور اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ نہ جانے کتنی ہی دیر وہ اپنے آپ سنبھلتا رہا اور آخر کار اس نے گھنٹی بجا دی اور کسی کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔۔۔
دروازے پر کوئی آیا ہے ابا میں دیکھ کر آتی ہوں، نہ جانے آج کیا وجہ تھی کی انجبین اپنے بابا کے سامنے رک نہیں پائی۔ اس کے دماغ میں نہ جانے کیوں برے برے خیالات جنم لے رہے تھے اور دل ڈولنے لگا تھا۔ دروازے کی چھوٹی سلاخوں سے انجبین نے باہر دیکھا۔ وہاں جو کوئی بھی تھا گیٹ کی جانب پشت کیے کھڑا تھا, جس کی وجہ سے اسکا چہرہ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
انجبین نے کنڈی کھولی ہی تھی کہ اس کی آواز کے ساتھ ہی زیان نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔۔۔ دونوں چند لمحے تک ایک دوسرے کو یک ٹک دیکھتے رہے اور پھر کسی پرندے کی نہایت نجی پرواز نے ان دونوں کو واپس اس دنیا میں واپس لوٹنے میں مدد کی۔
زیان کو دیکھتے ہی اجنبین کو جیسے غصہ سا آجاتا تھا۔ آج تو اس چہرے پر گہری اداسی نظر آرہی تھی۔۔۔
……………………
انجبین: کہیے کیا بات ہے؟ یہ شکل پہ بارہ کیوں بج رہے
زیان: جی! بس وہ آپکے بھائی گھر پر ہیں. یا والد صاحب
انجبین: جی ہیں کیوں کوئی شکایت کرنی ہے میری ان سے-
زیان:نہیں ان کے لیے ایک خاص پیغام ہے بس وہ۔
زیان کی بات مکمل ہونے سےپہلے انجبین نے اسے ٹوک دیا۔
انجبین: جی جو پیغام ہے آپ مجھے دیں پہنچا دوں گی پیغام میں۔۔انجبین دروازے کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی اور شرارت سے زیان کے چہرے کو تکنے لگی۔۔ آج باری انجبین کی تھی اور وہ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔۔
لیکن آج زیان اس کے لیے تیار نہیں تھا وہ بہت مشکلوں سے غصہ اور اپنی آواز کو قابو کیے ہوئے تھا۔۔
زیان: پلیز کسی کو بلا لیں اندر سے بہتر ہو گا معاملہ کافی سنجیدہ ہے آپ اس کو مزاق میں مت ٹالیں پلیز۔۔۔
زیان کا لہجہ منت سماجت والا تھا وہ جیسے ابھی رو دے گا۔۔
منت سماجت کا لہجہ انجبین کی روح کو جیسے تسکین پہنچایا کرتا تھا اور وہ مزید طنز کے نشتر چلانے لگتی تھی۔۔۔
زیان نے اب کی بار مضبوط لہجے میں اپنی بات دوہرائی لیکن اس کا بھی انجبین پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔
اپنے کسی محسن کے حوالے سے کوئی بری خبر دینا کس قدر مشکل ہوتا ہے اس کا احساس آج پہلی بار زیان کو ہو رہا تھا۔
اس کے سامنے وہ تمام منظر گردش کرنے لگے تھے جب وہ پہلی بار جاب حاصل کرنے کے لیا آفس گیا تھا اور کیسے سب کی طرف سے رجیکٹ ہونے کے بعد بس ایک انجبین کے راشد بھائی نے زیان کی حمایت کی تھی۔۔
راشد بھائی کی حمایت مطلب نوکری پکی۔ اور آج انہی کے گھر میں ان کے بارے میں ایک ایسی خبر دینے آیا تھا جسے بتانے کی زیان میں حمت نہیں تھی, تو ایسی خبر گھر والے کیسے سن سکتے تھے
——————————-
میں کہاں ہوں اور آپ میرے پاس ایسے کیوں کھڑے ہیں آپکو شرم نہیں آتی کسی کے بھی کمرے میں ایسے گھس آتے ہیں آپ۔ غصہ میں انجبین نے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن درد کے باعث اٹھ نہ سکی۔۔
اور آہ بھر کر پھر سے بیڈ پر لیٹ گئی اور سوالیہ نگاہوں سے زیان کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔ اس سے قبل کہ زیان کوئی بات کرتا یا انجبین کے سوالوں کے جواب دیتا کمرے میں کاشف داخل ہوا۔۔
کاشف کی آنکھوں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بہت دیر سے سویا نہیں ہے اور مسلسل روتا رہا ہے۔۔ آنکھوں میں سفیدی کے بجائے لالی نظر آرہی تھی۔۔
بہن کو ایسے ہوش میں دیکھ کر ایک مردہ سی مسکراہٹ کے علاوہ کاشف کچھ کہ نہ پایا اور کمرے میں موجود صوفہ پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
انجبین کو دو روز بعد ہوش آیا تھا۔۔ ان دو دنوں میں زیان اور کاشف اس کے پاس رہے تھے۔۔۔ زیان کے منہ سے ادا ہونے والے جملوں نے ایک ہنستے بستے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔۔۔۔
زیان کے الفاظ سنتے ہی انجبین کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا۔۔ اور وہ ایک دم سے گر گئی تھی۔۔ جس کی وجہ سے اس کا سر دروازے سے جا لگا تھا اور اس چوٹ کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی تھی۔۔
راشد بھائی اور ان کی بیوی گھر والوں کو بنا بتائے شادی میں شرکت کے لیے آرہے تھے لیکن کون جانتا تھا جس خوشی میں شامل ہونے کے لیے وہ لوگ آرہے ہیں, ان کے آنے سے وہ شادمانی غم میں بدل جائے گی۔
ان کی آمد کی خبر ان کے دفتر کے لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں تھی۔اور اس افسوس ناک خبر کو پہنچانے کی ذمہ داری زیان کو سونپی گئی تھی۔۔
کمرے میں خاموشی تھی کہ اچانک سے سسکیوں کی آواز آنے لگی۔۔۔
یہ سسکی انجبین کی تھی, آج اس پتھر جیسی لڑکی میں بھی دڑار پیدا ہو گئی تھی۔ اور وہ بھائی کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی کی بہت لاڈلی تھی۔۔ زیان نے ہاتھ آگئے کیا مگر پھر پیچھے کر لیا۔۔
وہ دلاسہ دیننا چاہتا تھا لیکن کس حق سے ۔۔ وہ اسے چھو نہیں سکتا تھا, نہ اس کے رخسار پر بہتے ہوئے اشکوں کو اپنے ہاتھوں کے کھڑدرے پن سے روک سکتا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ اس کی تمام بدتمیزیوں کو بھول گیا تھا۔ اس ایک لمحے میں اسے وہ بہت معصوم لگی تھی۔۔۔
اس کے رونے میں سچئی تھی ایسی جیسے بچوں کے رونے میں ہوا کرتی ہے تب جب ان کے ہاتھوں سے ہی ان کا کوئی بہت پیارہ کھلونا گر کر ٹوٹ جاتا ہے۔ انجبین نے بھی اپنا بھائی اپنی ضد کے باعث کھو دیا تھا۔ جب بھی کال آتی انجبین کا بھائی سے پہلا سوال ان کی آمد کے متعلق ہوا کرتا تھا۔۔۔
وہ عابد بھائی کی شادی میں راشد بھائی کو بھی شامل کرنا چاہتی تھی۔ ان کو بھی ایک بار پھر سے دولہا بنا دینا چاہتی تھی۔ بھابھئی کو ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ بھائی کی دوسری شادی کروں گی۔۔ بھابھی ہنس کے کہتی تھی
” کروا لو اگر بھائی مانتے تمھارے” ۔۔۔۔
……………………………………..
مسلسل جاگتے رہنا آپ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ میری بات مانیں تو آپ گھر جا کر اب آرام کر لیں۔ قرۃ العین نے زیان سے بہت آہستہ آواز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔زیان کو مسلسل اسپتال میں آج دوسری رات ہونے کو تھی۔ انجبین کے گھر والے دو جنازے دیکھ کر انجبین کو تو جیسے بھول ہی گئے تھے۔۔۔گھر سے بھی بہت سی کالز آچکی تھی, اسی وجہ سے زیان نے گھر چلے جانے اور گھر والوں کو مکمل صورت حال سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔
گھر میں نائلہ کا غصہ عروج پر تھا۔۔
جب زیان گھر میں داخل ہوا نائلہ اسے اندر آتا دیکھ نہ پائی۔۔
نائلہ: کیا مزاق ہے امی, بھائی ہمارا کمپنی میں کام کرتا اس لڑکی کے گھر کا نوکر نہیں ہے۔۔
شمائلہ: آپی انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہوتی ہے, اب اگر رک گیا تو کیا برائی کر دی۔۔۔۔ نائلہ کے غصہ کو شمائلہ نے دلائل سے ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ جانتی تھی کہ بات نائلہ کی درست ہے لیکن اچانک سے بھائی کو یہ سب باتیں کہ دینا بھی تو اچھی بات نہیں ہے۔۔وہ دو روز کا تھکا ہارا گھر آیا ہے اور یہاں یہ سب۔۔۔
نائلہ: واہ جی انسانی ہمدردی؟ تو یہ کہاں کی ہمدردی ہے کہ ایک جوان لڑکا ایک جوان لڑکی کے ساتھ دو روز سے اسپتال میں رکا ہوا ہے۔۔۔۔۔ اور لڑکی بھی اس کے لیے غیر محرم ہے۔۔
نائلہ کا غصہ اس دلیل کے بعد مزید تیز ہو گیا تھا۔۔ ماں نے اپنے بچے کے کردار پر بات ہوتے دیکھی تو ان کا دل بھر آیا۔۔ اور آنسو ٹپکنے لگے۔۔۔
ماں کو روتا دیکھ کر نائلہ خاموش ہو گئی۔۔ اسے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا کم سے کم امی کے سامنے نہیں۔
وہ ماں کے پاس جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی کہ زیان نے بہن کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کھڑا ہونے سے روک دیا۔
زیان: امی آپ کیوں رو رہی ہیں آپی کی بات ٹھیک ہے مجھے وہاں نہیں رکنا چاہئے تھا اور آپی میں نہ رکتا اگر انجبین کے والد نے مجھے رکنے کو نہ کہا ہوتا۔ میں ادھر اکیلا نہیں تھا, وہاں سر راشد کا چھوٹا بھائی بھی ساتھ رہاا۔
بس جنازے کے وقت وہ چلا گیا تھا۔
زیان نے ایک ہی سانس میں تمام باتوں کے جوابات دے ڈالے اور بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔ ماں کو دلاسہ دینے کو شمائلہ موجود تھی اور نائلہ کو اپنے کہے ہوئے الفاظ پر افسوس ہو رہا تھا اور اس کا اندازہ نائلہ آپی کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوں سے بخوبی ہو رہا تھا۔
بیٹا آج میں تمھارے ساتھ جاؤں گی شام میں راشد لوگوں کے گھر افسوس کرنے کے لیے۔ زیان کی امی نے ناشتے کی میز پر بات کا آغاز کیا۔۔۔نائلہ اور شمائلہ بھی جانے کے لیے تیار تھی لیکن رات ہونے والی بات کے باعث اب دونوں بہنوں میں اتنی حمت نہیں تھی کہ وہ بھائی کو جانے کا بول سکتیں۔۔ امی کی بات کا جواب کیا دیا جائے ابھی زیان سوچ رہا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔۔ اسکرین پر نمودار ہونے والا نمبر کاشف کا تھا۔۔۔
زیان: جی کاشف؟
کاشف: زیان بھائی آج شام بھائی اور بھابھی کے لیے ختم شریف ہے آپ لوگ آئے گا اور باجیوں اور آنٹی کو ساتھ لے کر آیئے گا۔۔۔ کاشف کی آواز اس کی حلق میں اٹکنے سی لگی تھی۔۔۔
زیان: جی میں کوشش کروں گا آنے کی اگر آفس سے جلدی چھٹی کر سکا تو۔۔ زیان نے معزرت کرنے کی کوشش کی دبے الفاظ میں۔۔
کاشف: آپکا آفس آج بند ہے آپ جانتے ہیں آپکے باس راشد بھائی کے بیسٹ فرینڈ اور اس لیے آج۔۔
زیان: اوہ سوری میں بلکل بھول گیا تھا کاشف سوری۔۔۔ زیان نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔۔ وہ اتنی بڑی بات کیسے بھول گیا تھا۔ اپنی حماقت پر وہ پشیمان تھا۔۔
………..
زیان جب امی اور بہنوں کو لے کر گھر میں داخل ہوا تو اس کا سر جھکا ہوا تھا اور رفتار بہت ہی کم تھی۔ ماں اور بڑی بہن آگے چل رہی تھی۔۔۔ زیان کی دائیں جانب سلسبیل اور بائیں طرف شمائلہ تھی۔ گھر کی فضا سوگوار تھی۔ اس میں اگربتی کا دھواں اور قران پاک کی تلاوت نے ماحول کو نہایت پاکیزہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔
گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے خضر صاحب جیسے کئی سالوں کا سفر کر آئے تھے۔۔ وہ بیٹے کے غم میں بے حد ڈوبے ہوئے تھے۔۔۔ زیان کے لیے یہ سب دیکھنا بے حد مشکل کام تھا۔۔۔لیکن اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ موت کی حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ مگر کچھ لوگ زندگی میں ایسے آتے ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں کہ ان کی یاد ہر خوشی اور غمی کے لمحات میں آتی رہتی ہے۔۔زیان کو بھی اس لمحے اپنے والد کی یاد آرہی تھی, اور وہ بت بنے سب کو دیکھتا جا رہا تھا۔۔
سلسبیل:ماموں اندل چلو نا۔۔ سلسبیل نے زیان کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا تو زیان کو بھی جیسے ہوش آگیا کہ وہ کہاں ہے اور یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔
زیان: بیٹا آپ یہ کاشف ماموں کے ساتھ اندر چلی جاؤ نا۔ماما اندر ہی ہیں۔۔ زیان نے بھانجی کو پیار سے اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔
سلسبیل: نو ماموں آپ شاتھ جانا۔۔ سلسبیل نے تو جیسے فیصلہ ہی سنا دیا۔۔۔
سلسبیل کا رویہ اس وقت زیان کے لیے الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ وہ ابھی سوچ رہا تھا کہ یا کرے اور کیا نہ کرے۔
آپ خود لے جائیں چھوٹی کو اندر۔ عابد جو کافی دیر سے ان دونوں ماموں بھانجی کو ہی دیکھ رہاتھا۔زیان نے چونک کر عابد کی طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
زیان: نہیں بھائی میں کیسے جا سکتا اندر, آپکے خاندان کی عورتیں ہوں گی۔۔۔ زیان نے صاف بات کہ دی تھی۔۔
عابد: عینی اور انجبین بھی ہیں اندر آپ مل چکے ہو ان سے۔ اور جب گھر کا فرد اجازت دے رہا ہے تو پھر انکار کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔۔آپ چلیں میں بھی چلتا ہوں ساتھ آئیے۔۔عابد نے بات ختم کی اور رہنمائی کے لیے آگے بڑھ گیا۔۔
زیان نے چلتے ہوئے ناراضگی سے سلسبیل کو دیکھا۔۔جو پہلے سے ہی ماموں کو نہایت پیار سے اور معصومیت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ سلسبیل کو ایسے پیار بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زیان کا غصہ پیار میں بدل گیا اور اس نے سلسبیل کو اٹھا لیا اور زور سے اس کے گالوں کو چوم لیا۔۔۔اندر داخل ہوتے ہی زیان اور سلسبیل عینی کے ساتھ چلنے لگے۔۔۔گھر کے اندر کا نقشہ کافی پیچیدہ تھا۔۔ یہ گھر جیسا باہر سے دیکھائی دیتا اندر سے اس سے بہت الگ تھا۔ سیڑھیوں سے اوپر جانے کے بعد دائیں طرف ٹی وی لاونج میں زمین پر سفید چادریں بچھائی گئی تھی۔۔۔ جن کے اوپر ایک طرف قران پاک اور الگ الگ سپارے موجود تھے۔۔ سبیل نے ماں کو دیکھتے ہی زور سے آواز دی ماما جی۔ اس آواز کے ساتھ سب کی نظریں زیان کی طرف اٹھنے لگیں۔ ایک اجنبی جوان لڑکا ایسے کیسے گھر کی خواتین کے اس قدر قریب آسکتا ہے۔اس سے پہلے کہ عینی کی امی کچھ کہتی انجبین نے آگے بڑھ کر زیان سے سلسبیل کو لے لیا۔۔پھوپی جان کا غصہ سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ دوبارہ سے ورد کرنے میں مشغول ہو گئیں۔
زیان نے سکھ کا سانس لیا اور وہاں سے جلد از جلد نکل کر باہر آگیا۔
سلسبیل کے آنے سے ماحول میں جیسے تازگی سی آگئی تھی۔انجبین اور انجبین کی والدہ دونوں ہی سلسبیل کے آنے سے تھوڑی سی بہتر محسوس کرنے لگیں تھی۔۔۔ سلسبیل اپنی عادت کے مطابق ان لوگوں سے بھی جلدی گھل مل گئی۔۔۔
………..
بہن کے جانے سے گھر میں جیسے رونق ہی کم ہو گئی ہے اور وہ کارٹون بھی تو چلی گئی ہے۔ زیان نے شمائلہ کی کچن میں مدد کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔۔ وہ شمائلہ کے پاس کھڑا پیاز کاٹ رہا تھا۔۔ شمائلہ چاول بھگونے میں مصروف تھی اور ساتھ میں بھائی کی باتیں بھی سن رہی تھی۔۔۔
شمائلہ: زیزو امی کہ رہی تھی وہ انجبین لوگوں کے گھر سے نہ ہو آئیں آج؟
زیان: ان کے گھر جا کر کیا کریں گے۔ مجھے بہت عجیب سا لگتا ہے ان کے گھر جانا ایسے۔۔۔ زیان نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔۔
شمائلہ:ایسے جانا برا لگتا تو پھر کیسے جانا پسند ہے میرے بھائی کو۔۔۔۔ شمائلہ نے کچے چاول چباتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔۔
اس بات کے جواب میں زیان نے مسکرا کر بات کو ختم کرنا مناسب سمجھا۔۔ لیکن شمائلہ بات ختم کرنے کے موڈ میں نہیں تھی وہ تو مزید کریدنے کے لیے سوال تلاش کر رہی تھی۔۔
بہن بھائی کی باتیں ابھی مزید جاری رہتی مگر اس سے پہلے زیان کے نمبر پہ کسی کی کال آگئی وہ اٹھانے گیا تو کال بند ہو چکی تھی۔۔کچن کی جانب بڑھنے لگا تو باہر دروازے پر دستک ہونے لگی۔۔زیان لٹو کی مانند گھوم کر رہ گیا۔۔آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بے دلی اور بے زاری کے ساتھ کنڈی کھولنے لگا۔۔۔۔
………………..
زندگی معمول کی جانب بڑھنے لگی تھی لیکن انجبین کی زندگی تو جیسے رک سی گئی تھی۔ انجبین کا غصہ اس کے مزاج کی تیزی سب جیسے کہیں گم ہو کر رہ گیا تھا۔۔ اکثر راتوں میں ڈر جاتی اور رونے لگتی تھی۔۔ گھر والوں کے لیے انجبین کی یہ حالت تشویش کا باعث تھی۔ وہ جس انجبین کے بدل جانے کی دعائیں کیا کرتے تھے اب اسی کے پہلے جیسے ہو جانے کی تمنا رکھتےتھے۔۔ بھائی اور بھابھی کی اچانک موت نے انجبین کو بھی زندہ لاش بنا کر رکھ دیا تھا۔۔ جبین نے بھی بہت بار کوشش کر کے دیکھا مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکی۔۔۔امتحابات میں بھی چند روز باقی تھے اسی لیے جبین بھی تشویش تھی کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو پیپرز میں کیسے پاس ہو سکے گی انجبین۔۔۔ آج بھی دونوں دوستیں چھت پر چہلقدمی کر رہی تھیں اور ساتھ میں باتیں کرنے میں بھی مشغول تھی۔۔
جبین: آج کچھ فریش لگ رہی ہو شکر خدا کا۔ ورنہ میں تو بہت پریشان تھی تمھاری وجہ سے۔ جبین نے دیوار کا سہارا لیا اور وہیں کھڑی ہو گئی۔ انجبین نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جبین کو دیکھا اور دیوار کے پاس چھت پر بیٹھ گئی۔۔اور اپنا سر دیوار سے لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔ نہ جانے کتنے دنوں سے وہ اس سکون کی تلاش میں تھی۔۔۔
انجبین: میرے بھائی نے مجھے چھوڑ دیا جبین۔ وہ مجھے حمت دیتے تھے۔۔اور میرا سب کچھ لے گئے ہیں۔ انجبین اپنے گھٹنوں پر سر ٹکا کر بیٹھی تھی اور نظریں سامنے غروب ہوتے ہوئے سورج پر ٹکی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر سے انجبین نے بولنا شروع کیا۔ “اس غروب ہوتے سورج کی طرح میرا غصہ میرا غرور بھی غروب ہو گیا ہے”۔۔۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد انجبین نماز مغرب کے لیے چلی گئی, اسے جاتے دیکھ کر جبین کی آنکھوں میں بھی آنسوں کے قطرے تیرنے لگے۔۔
آنسوں صاف کرتے کرتے جبین گھر کی دہلیز پر پہنچ چکی تھی، اس پلٹ کر ایک نظر انجبین کے کمرے کی طرف دیکھا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ اپنی جگری دوست کو پہلی بار اس قدر شکستہ حالت میں دیکھ کر اس کی حمت جواب دے گئی تھی وہ مزید کیسے رک سکتی تھی۔۔ وہ وہ نہیں تھی جس کے لیے ہمیشہ سے جبین لڑائی کرتی تھی جس کے مزاج کی وجہ سے وہ کہیں بھی بنا خوف کے جاتی تھی۔۔۔ کل تک جبین کے ڈر خوف دور کرنے والی انجبین آج خود ایک خوفزدہ سی ہرنی بن گئی تھی۔۔۔
••••____•••••____•••••___•••___••
امی میری شادی کا کارڈ کب دینے جائیں گی عینی کی طرف؟ یہ میرے بھائی صاحب سنتے ہی نہیں میری کوئی بھی بات جب کہتی ہوں کہتا ہے مصروف ہوں۔ شمائلہ نے شاپنگ بیگز کو میز پر رکھا اور اماں سے سوال کرتی ہوئی ان کے لیا پانی لینے چلی گئی۔۔ ماں اور زیان شمائلہ کے کپڑے اٹھانے کے لیے ہی گئے ہوئے تھے اور رات کے دس بجے ان کی واپسی ہوئی تھی۔۔ بازار میں رش اور ٹریفک جام نے تو حال بے حال کر دیا تھا۔۔۔
زیان آفس سے سیدھا مارکیٹ چلا گیا تھا اسی لیے اس کی حالت بہت بری تھی سر بری طرح درد کر رہا تھا اور اوپر سے بہن کی باتیں بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔۔۔
ماں: کل چلی جانا بھائی کے ساتھ دے آنا کارڈ۔۔ اس کے نکاح پہ گئی تھی رخصتی کب کی ان لوگوں نے۔۔ماں نے چادر کو تہہ کرتے ہوئے شمائلہ سے سوال کیا۔۔
شمائلہ: امی انہوں نے رخصتی بہت سادگی سے کرلی تھی۔۔ بس گھر کے ہی چند لوگ شامل ہوئےتھے اس میں۔ اسی لیے میں نہیں گئی۔۔شمائلہ نے پانی کا گلاش ماں کو تھمایا اور صوفہ کے پیچھے کھڑی ہو کر بھائی کا سر دبانے لگی۔زیان نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا اور مزے سے لیٹ کر سر دبوانے لگا۔
ماں نے پاس سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔”کروا لو خدمتیں جب تک بہن ہے گھر میں مجھ میں تو اب حمت نہیں ہے بیٹا جی”
زیان ماں کی بات سن کر مسکرا دیا۔ اپنے بھائی کے چہرے پے مسکراہٹ دیکھ کر شمائلہ بھی مسکرا دی اور اس نے جھک کر بھائی کا ماتھا چوم لیا۔۔
زیان: کل کس وقت چلیں۔۔
شمائلہ: صبح ڈراپ کر جانا واپسی پہ لے آنا مجھے۔
زیان: پورا دن امی گھر پے اکیلی کیسے رہیں گی۔۔ زیان نے فکرمندی سے سوال کیا۔
شمائلہ بھائی کے پاس صوفہ پہ بیٹھ گئی۔۔اور اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے بولی ” بھائی شادی کرلو نا۔۔امی کی فکر اتنی کرتے بات بھی مان لو نا”۔۔۔۔۔
زیان نے سنجیدگی سے بہن کو دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
کروں گا شادی مگر ابھی نہیں۔ دیکھو جس کو بیاہ کر لاؤں گا اس کے لیے کچھ بنا تو لوں پہلے۔ مفت میں تو کوئی دے گا بھی نہیں۔۔۔ زیان نے اپنی بات سکون سے مکمل کی۔۔۔
شمائلہ: وہ تو چلو ٹھیک ہے لیکن زیور تو تیار ہے نا باقی بھی ہو جاتا کہیں بات تو چلے نا۔۔
زیان:اچھا بابا ڈھونڈ لو کوئی لڑکی ابھی تو سونے دو مجھے ہٹو اٹھنے دو نا مجھے۔۔
•••___•••___•••___•••___•••
فاریہ: آپی کیا ہوا؟ ایسے زمین پہ کیوں بیٹھی ہو۔۔ فاریہ نے بہن کو کمرے کے کونے میں بیٹھے دیکھا تو سوال کیا۔ جواب سنے بغیر ہی وہ اس کی جانب بڑھنے لگی، قریب جانے پر فاریہ کو انجبین کی سسکیوں کی دبی دبی آواز سنائی دینے لگی۔۔فاریہ نے بہت آہستگی سے بہن کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس کے قریب زمین پر بیٹھ گئی۔۔اپنی بہن کو یوں روتے دیکھ کر فاریہ کو بھی رونا آرہا تھا۔۔۔
انجبین کی سسکیاں تھم سی گئی تھی جب سے فاریہ قریب آئی تھی۔۔ بہت دیر کے بعد انجبین نے فاریہ کو کہا۔
انجبین: فاری میں بہت بری ہوں نا؟
فاریہ انجبین کے اس اچانک سوال پہ ہکا بکا رہ گئی۔۔۔ اور بہن کو غیر یقینی سے دیکھنے لگی۔۔۔
فاریہ: آپی آپ ایسا کیوں بول رہی ہو، دیکھو خود کو کوئی الزام مت دو۔ فاریہ نے اپنی تمام کوشش کر کے دیکھ لیا مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی۔۔ بلکہ انجبین کے رونے میں بھی مزید شددت آگئی۔۔۔انجبین کے رونے کی اصل وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھی ، وہ وجہ انجبین کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ اس راز میں وہ کسی کو بھی شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔وہ احساس ندامت کی وجہ سے بہت دیر تک روتی رہتی تھی۔
فاریہ بہن کو اکیلا چھوڑ کر باہر چلی گئی اور ماں کو بلا لائی, ماں نے بہت مشکل سے انجبین کو بستر میں چل کر لیٹنے کے لیا رضامند کر لیا۔۔ اسے لٹا کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں اور انجبین کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگئیں۔۔ بس کردو بیٹا، کیوں اس قدر روتی ہو۔ تمھارا بھائی بھی بے چین ہوتا ہوگا جب تم ایسے روتی ہو۔۔ تم تو بہادر ہو نا اس طرح کمزور کب سے ہو گئی تم۔
انجبین: امی میری ضد نے ہم سے ہمارا بھائی آپکا بیٹا چھین لیا، اگر میں ضد نہ کرتی بھائی ایسے عجلت میں نہ آتے اور نہ ایسے ہمیں چھوڑ کر ایسے……… ہمیشہ کے لیے چلے جاتے۔انجبین کی آواز اس قدر مدھم تھی کہ اسکی امی اتنے پاس ہونے کے باوجود بہت سے الفاظ سن نہیں سکی تھی۔۔ مگر بیٹی کے دل کی کیفیت کو وہ جان چکی تھی۔۔ان کی بیٹی خود کو اس سب کے لیے قصوروار سمجھ رہی تھی۔۔ وہ اپنی ذات کو اس سب کی وجہ سمجھ رہی تھی۔۔۔ اسے ایس لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے بھائی کی قاتل ہے۔۔ اپنی بھابھی کا خون اس کے سر ہو جیسے, اور اس کی کوکھ میں اس ننھے سے بچے کی خونی بھی اپنے آپ کو سمجھ رہی تھی۔۔۔
راشد نے نہ جانے کتنی مشکلوں سے اپنی بیوی کو ساتھ لے جانے کے لیے ڈاکٹر سے اجازت لی تھی, کیونکہ ان کی لاڈلی بہن نے ان کو گھر آنے کا بولا تھا۔۔۔ اس کی خواہش کو کس طرح رد کیا جا سکتا تھا۔۔ کاشف اور فاریہ کے ہوتے ہوئے بھی بھائی کی لاڈلی صرف انجبین تھی, بھابھی کی کوکھ جب تک سونی رہی وہ انجبین کی ایسے دیکھ بحال کرتی تھی جیسے یہ ان کی اپنی بیٹی ہو۔۔۔
+++++_____+++++___+++
امی جلدی کریں تیار ہوں مجھے واپس آکر مووی والے کی طرف بھی جانا ہے شادی کی مووی نہ بنی تو پھر مجھے ہی باتیں سنائیں گے آپ سب مل کر۔زیان کمرے سے تیار ہو کر نکلا اور آستین کے بٹن بند کرتے کرتے ایک ہی چھلانگ میں دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے اترنے لگا۔۔زیان کے نیچے آتے ہوئے بال ہوا میں اڑنے لگتے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی فلم کا ہیرو کوئی سین عکسبند کروا رہا ہے۔۔۔ قدم ایسے نرمی سے رکھ رہا تھا جیسے زمین کو درد ہو گا اگر پاؤں زور سے رکھ دیا تو۔۔ آج نہ جانے ایسی کون سی بات ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اس ترنگ میں تھا۔۔
ارے واہ واہ ہیرو یہ سج دھج کر کدھر کو جا رہے ہو۔۔ شمائلہ نے بھائی کو ایسے تیار ہوئے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔ شمائلہ جو اس وقت پاپ کارن منہ میں ٹھونسے جا رہی تھی, پاپکارن کھانے کی وجہ یہ تھی کہ شادی کے جوڑے میں موٹی نظر نہ آوں۔۔۔ اس لیے آج کل بھوک کا توڑ پاپ کارن تھے۔۔اور اس قدر تھے کہ اتنی مقدار میں کھانے سے انسان خود ایک پاپ کارن بن کر رہ جائے۔۔
بہن کے سوال پر زیان مسکرا دیا اور بنا جواب دیے پاپ کارن اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو شمائلہ نے ہاتھ پہ چپت رسید کی۔۔۔اور گھور کر دیکھا۔۔اور ابرو کی جنبش سے جیسے سوال دوہرا رہی ہو ۔۔ کیونکہ منہ سے سوال کرنے کے لیے منہ کا خالی ہونا ضروری ہوتا لیکن شمائلہ کا منہ ایک پرانے ٹرنک کی طرح بھرا ہوا تھا۔۔ زیان کا جواب آنے سے پہلے امی کمرے سے باہر آگئیں اور زیان کو چلنے کا کہنے لگی۔ زیان نے بہن کو گھور کر دیکھا اور ماں کے ساتھ چلا گیا۔۔۔۔۔
گاڑی چللاتے ہوئے زیان خاموش رہتا تھا، اس کا کہنا تھا گاڑی چلانا زندگی گزارنے جیسا ہی ہے۔ زرا سی لا پرواہی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ ماں کے چہرے پر نظر ڈالنے سے زیان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی بہت گھری سوچ میں ہیں۔۔۔
بہت دیر سوچنے کے بعد آخر کار زیان نے بات کا آغاز کر ہی دیا۔
زیان: امی کیا بات ہے کن سوچوں میں گم ہیں؟ آپی کے دور جانے کا سوچ کر کچھ زیادہ ہی پریشان نہیں ہو رہیں۔۔ زیان نے ماں سے وہی سوال پوچھا جس کے بارے میں وہ خود اس وقت سوچ رہا تھا۔۔۔
ماں: نہیں بیٹا اس وقت میں اپنی بیٹی نہیں بلکہ تمھارے باس کی بہن کے بارے میں سوچ رہی ہوں پچھلی بار جب ہم گئے تھے تب کیسے پاگلوں جیسے لگ رہی تھی رنگ بھی زرد ہوگیا تھا۔۔ماں کے لہجے سے افسوس اور دکھ کا صاف طور سے اظہار ہو رہا تھا۔۔۔
زیان: پاگل تو وہ ویسے بھی ہے۔۔۔ زیان نے ماں کا موڈ بہتر کرنے کے لیے مزاق میں یہ بات بولی لیکن اس کے جواب میں جو ردعمل ماں کا تھا اس کے لیے زیان تیار نہیں تھا۔۔ اس نے ابھی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کے ماں نے زیان کا کان پکڑ لیا اور ڈانٹتے ہوئے بولیں,,,
ماں: خبردار زیان جو کسی کا ایسے مزاق بناؤ آئیندہ۔۔ میں یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔ زیان کی امی کو اول تو غصہ آتا نہیں تھا لیکن جب آجاتا تو اس قدر شدید آتا تھا کہ زیان بھی اس غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔انجبین کا گھر قریب آرہا تھا اور زیان کے کان ماں سے ڈانٹ سننے کے بعد شرم سے لال ہوتے جا رہے تھے۔
زیان جلد از جلد یہاں سے واپس نکلنا چاہتا تھا جیسے کہ وہ کہ کر آیا تھا، اسے اور بھی کاموں کے لیے جانا تھا۔ ماں نے جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن مس یاسمین یعنی انجبین کی والدہ کا کہنا تھا آج آپ لوگ کھانا کھا کر جائیں گے۔۔ اور ابھی زیان چائے پی کر کام کے لیے جا سکتا ہے۔۔۔ زیادہ انکار کرنا بھی ٹھیک نہیں تھا اس لیے زیان کی امی نے زیان کو بھی رکنے کا کہ دیا۔۔ امی کی بات نہ مان کر وہ ان کے غصہ کو مزید شددت والا نہیں بنانا چاہتا تھا۔۔۔ اس لیے خاموشی سے ایک صوفہ پر بیٹھ گیا۔۔گھر میں اس وقت انجبین اور اس کی امی کے علاوہ قرۃالعین بھی موجود تھی۔۔ انہیں بہت خوشی تھی کہ کارڈ دینے کے لیے آنٹی آئی ہیں۔۔۔ جبکہ انجبین جو آج قدرے تازہ دم لگ رہی تھی, وہ زیان کو دیکھ کر پھر سے الجھن کا شکار ہونے لگی تھی۔
کچن میں چائے بناتے ہوئے انجبین ساتھ ساتھ بولے جا رہی تھی ( پتہ نہیں کیوں امی نے اسکو روک لیا ہے, پہلے ہی میری حالت ایسی اس کے سامنے جانے سے اور بھی دماغ ماعوف سا ہو جاتا ہے۔۔)
انجبین: بھابھی….. او عینی سن نہیں رہی میں ہوں ادھر۔۔ انجبین نے سرگوشی کے انداز میں قرۃ العین کو آواز دی۔۔۔عینی بات سننے کے لیے کچن میں آئی تو انجبین نے چمچہ اٹھا لیا اور تفتیشی افسروں جیسے انداز میں سامنے کھڑی ہو کر پوچھنے لگی۔ ” یہ محترم یہاں کیوں آئے ہیں؟
عینی: کون یہ زیان؟
انجبین: جی یہی محترم۔۔
عینی: بہن کی شادی ہے اسکی کارڈ دینے کے لیے آیا ہے اور تو کوئی وجہ نہیں ہے, تمہیں تو کوئی وجہ نہیں لگ رہی نا۔ عینی نے انجبین کو ستانے کے لیے کہا۔
انجبین: عینی انسان بن جاؤ اب ,,, , لو چائے لے جاؤ مجھے نہیں آنا باہر تب تک جب تک یہ یہاں ہے اور میں کھانے کی تیاری کرتی ہوں۔ چائے کی ٹرے عینی کو پکڑاتے ہوئے انجبین نے جیسے حکم دیا ۔۔۔۔
چائے پینے کے بعد زیان نے جلدی سے اجازت لی اور کام نبٹانے کے لیے نکل گیا۔۔۔
شاہدہ: انجبین بیٹی یہاں آؤ نا کام ہوتے رہتے ہیں اور مجھے کوئی جلدی بھی نہیں گھر جانے کی۔ زیان کی امی کو انجبین بہت اچھی لگی تھی جب سے انہوں نے پہلی مرتبہ انجبین کو دیکھا تھا۔ انجبین جو ہنڈیا کو کو چولہے پر رکھ کر آئی تھی اسی فکر میں تھی کہ کہیں کھانا جل نہ جائے۔۔۔
یاسمین: بیٹی آو بیٹھ جاو آکر۔۔۔ اس کے بعد انجبین کی والدہ زیان کی امی کو انجبین کے اندر آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتانے لگیں۔۔۔ یہ بھی بتایا کہ اکثر راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونے لگتی ہے۔۔۔۔ انجبین اپنے متعلق باتیں سن کر کچھ مضطرب سی دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
زیان کی والدہ نے انجبین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو نہ جانے کیوں انجبین کو دل چاہا کہ وہ ان کے گلے سے لگ کر رو دے اور بس روتی رہے۔۔لیکن اسنے ایسا کچھ بھی نہ کیا۔ اور خود کو مضبوط ظاہر کرتی رہی۔۔۔اسے آنٹی کا لمس اچھا لگ رہا تھا, ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے اندر سے بے چینی, غصہ, غم اور تکلیف کا احساس آہستہ آہستہ باہر نکل رہا ہے۔۔ اور وہ بہتر ہو رہی ہے۔۔
شاہدہ: بیٹا آپ نماز پڑھتی ہیں۔۔۔ یہ سوال انجبین سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا تھا۔۔ انجبین اپنا اچھا امپریشن ڈالنا چاہتی تھی لیکن وہ جھوٹ بھی نہیں بول سکتی تھی۔۔۔۔ انجبین نے سر کو نفی میں ہلایا اور شرم سے سر کو مزید جھکا لیا۔۔۔
شاہدہ: تو آپ ایک وعدہ کرو میرے ساتھ کہ اب آپ باقئدگی سے نماز ادا کیا کریں گی۔۔۔ زیان کی امی کے لہجے میں کچھ ایسی خاص تاثیر تھی کہ کے انجبین کا سر خود بخود اثبات میں ہلنے لگا۔۔۔ زیان کی امی نے اس وعدہ کے لیے بہت خوشی کا اظہار کیا, اور انجبین کو اجازت دی کہ وہ کام ختم کر لے۔۔۔۔ انجبین نے اجازت ملتے ہی کچن میں آکر دم لیا اور اپنی الجھتی ہوئی سانسوں کو نارمل کرنے لگی۔۔
کھانا کھاتے برتن سمیٹتے ہوئے انجبین کو بہت دیر ہو گئی۔جب کمرے میں آئی تو رات ہو چکی تھی۔۔۔ تھکن کی وجہ سے سر درد کر رہا تھا۔ بیڈ میں لیٹنے سے پہلے انجبین کو اپنا کیا ہوا وعدہ یاد آگیا۔۔۔وہ بہت دیر تک سوچوں میں گم بیٹھی رہی۔۔ سوچوں کا محور اس کی اپنی ذات تھی, آخر شاہدہ آنٹی نے نماز پڑھنے کے لیے ہی کیوں کہا۔۔ اور ان کے ہاتھوں میں میرا ہاتھ جاتے ہی ایسا کیا ہوا کہ میں ایک دم سے کسی دوسری دنیا میں چلی گئی تھی جیسے۔۔ خیالوں کی ڈور جبین کی طرف سے آنے والی کال نے توڑ دی۔۔
جبین: کیسی ہو میڈم اور لاسٹ پیپر کی کیسی تیاری ہے؟ جبین نے علیک سلیک کے بغیر ہی سیدھے سیدھے مطلب کی بات کی۔۔۔۔
انجبین: وعلیکم سلام میڈم۔۔۔۔ انجبین نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔
جبین: مگر میں نے تو سلام کیا ہی نہیں , جبین کی آواز سے لگ رہا تھا جیسے وہ شرمندہ سی ہو گئی ہے۔۔
انجبین: ہاں تو یہی یاد کروا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو میں ٹھیک ہوں اللہ کا شکر ہے۔۔
جبین: اوے ہوئے یہ آج سورج کدھر سے نکلا تھا بھائی مجھے یاد نہیں آرہا۔۔۔۔ یہ آج سلام اور اللہ کا شکر؟؟؟
طبعییت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟ جبین نے سہیلی پہ جوابی وار کیا۔۔۔
انجبین: بس جی کیا کریں خدا ہدایت بھی کسی کسی کو ہی دیتا ہے نا۔انجبین کا موڈ بھی بہت اچھا تھا آج کافی دنوں کے بعد۔وہ بھی خوب مزے لے لے کر بات کر رہی تھی۔ *رہی بات تیاری کی وہ بہت بہتر ہے, اور اب مجھے عشاء کی نماز پڑھنی ہے۔ باقی کی تفصیل کل کالج میں بتاؤں گی۔ ابھی کے لیے اللہ حافظ!