دوپہر عروج پر تھی، سورج اپنا فرض پورا کرنے میں مگن تھا۔
شزا نائک لفٹ سے نکل کر بالاج نائک کے آفس میں داخل ہوئی۔
” دئیر از آ گڈ نیوز ڈیڈ۔”
شزا چہکتے ہوئے شہروز نائک کے ساتھ بیٹھ گئی۔
” کیا؟”
بالاج نائک نے کرسی کا رخ موڑا۔
” ہم وفا ملک کو کڈنیپ کر سکتے ہیں، وہ اس وقت ولاء میں مام کے ساتھ ہے۔”
شزا نائک چہک کر بولی۔
” ساریہ نائک کی سیکورٹی بہت ٹائٹ ہے ڈیڈ۔”
بالاج سنجیدگی سے بولا اور سر جھٹک کے رخ موڑ گیا۔
” ایان ملک اسے پک کرنے کے لیے جائے گا، تب سیکورٹی نہیں ہوگی ڈِیڈ۔”
شزا نے رخ شہروز نائک کی جانب کیا اور سنجیدگی سے کہا۔
” اتنا رسک تو لینا ہی پڑے گا، اتنی بڑی کمپنی کے لیے ڈیڈ۔”
شزا کوفت سے بولی تھی۔
شہروز نے ہنکارا بھرا۔
” ٹھیک ہے، ارینج کرتے ہیں۔”
شہروز نے سوچ بچار کے بعد گرین سگنل دیا۔
شزا شہروز نائک کے ساتھ پلاننگ کرنے لگی، بالاج نے دراز سے فائل نکالی جس میں شیریں جہاں کی رپورٹس تھیں۔
اسے شہروز نائک سے کراہیت آنے لگی تھی۔
بالاج کنپٹی مسلتے ہوئے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا گیا۔
دنیا جہاں حقیقت کےگلوب پر گھوم سے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی گاڑی اپنی رفتار سے ذندگی کی سڑک پر دوڑتی جا رہی تھی، وقت اور زندگی مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔
ساریہ اور خیام سعید کی شادی کو آٹھ ماہ ہو چکے تھے، ساریہ امید سے تھی۔
خیام اسکا بھرپور خیال رکھ رہا تھا۔
سٹڈیز مکمل کیے وہ لقمان نائک کے آفس میں اعلی تجربے کار عہدے پر فائز ہوگیا۔
ساریہ کم ہی آفس جاتی تھی۔
فرنشڈ خوبصورت آفس میں خوبرو سا خیام سعید کام میں مگن تھا جب اسکا فون بج اٹھا۔
” ابو جان کالنگ۔” پڑھ کر اس نے لیپ ٹاپ سے انگلیاں ہٹائیں اور موبائل اٹھا کے کان سے لگائے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔
“السلام علیکم ۔”
خیام بشاشت سے بولا۔
” جی ابو جان، میں جلد ہی پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔”
خیام کے صبیح چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے۔
سعید احمد کی طبعیت بگڑ چکی تھی ، وہ اکلوتے سپوت کی راہ تک رہے تھے۔
خیام نے عجلت میں کام سمیٹا اور موبائل لیے لقمان نائک کے آفس میں چلا آیا۔
” مے آئی کم ان ڈیڈ۔”
خیام دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھے اجازت خواہ لہجے میں بولا۔
لقمان نائک نے سر اثبات میں ہلایا تو اندر داخل ہو گیا۔
” پریشان لگ رہے ہو خیام۔”
لقمان نائک خیام سعید کے چہرے پر چھائی غیر معمولی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے بولے۔
” میرے والد بہت بیمار ہیں، مجھے ارجنٹ واپس جانا ہے۔”
خیام پریشان کن لیجے میں بولا۔
” اوہ یہ تو بہت بری خبر ہے۔”
لقمان نائک افسردگی سے بولے اور ہاتھ ٹھوڑی تلے رکھ لیے۔
” تم ارجنٹ سیٹ کنفرم کروا لو، پیسے کی فکر مت کرنا۔”
لقمان نائک فراخدلی سے بولے تو خیام سر اثبات میں ہلاتا اٹھ گیا۔
سیٹ کنفرم کروائی اور ساریہ سے ملنے لقمان ولاء آگیا۔
گاڑی سے نکل رہا تھا جب ساریہ آہستہ روی سے چلتی ہوئی باہر آئی۔
” ویلکم ہوم ڈارلنگ۔”
ساریہ اسے دیکھتے ہی کھل اٹھی۔
” مائی لائف۔”
خیام لب اسکی پیشانی پر رکھے، مہر محبت ثبت کیے بولا اور اسے حصار میں لیے اندر چلا آیا۔
” ایلف میری پیکنگ کردو۔”
خیام ایلف سے مخاطب ہوتا ساریہ کو لیے لیونگ روم میں چلا آیا۔
” آپ کہاں جا رہے ہیں۔؟”
شہزادی خوف ذدہ سی بولی۔
” پاکستان۔”
خیام اسےلیے بیٹھتےہوئے بولا۔
” میں جلد ہی واپس آنے کی کوشش کروں گا، ابو جان کی طبعیت بہت خراب ہے۔”
خیام شہزادی کے خوبصورت مگر اداس چہرے کو ہاتھوں کے ہیالے میں بھرتے ہوئے بولا۔
ساریہ خیام کے سینے پر سر رکھ کے سسک دی، جدائی سہان روح ہوتی ہے۔
” میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔”
ساریہ ضدی لہجے میں ڈبڈبائی آنکھوں سے بولی۔
” آپ کی حالت ایسی نہیں کہ آپ سفر کر سکیں، ورنہ میں ضرور لے جاتا۔”
خیام بے بسی سے بولا۔
” آپ وعدہ کریں، اپنا اور بے بی کا بھرپور خیال رکھیں گی۔”
خیام ساریہ کے مخملی ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے دبا کر بولا۔
” میں کوشش کروں گی۔”
ساریہ غمگہن سی سر اسکے کشادہ سینے پر رکھ گئی۔
خیام نے لب اسکے بھورے بالوں پر رکھے اور اسے حصار میں لے لیا۔
” سر آپ کی پیکنگ ہو گئی ہے۔”
ایلف کی اطلاع پر ساریہ دھیرے سے الگ ہوئی۔
” میں بہت جلد آنے کی کوشش کروں گا ساریہ، پریشان مت 9ونا اوکے۔”
دروازے کی سمت بڑھتے وہ مسلسل بول رہا تھا۔
ساریہ خاموشی سے سر ہلاتی گئی۔
دروازے پر رک کر اسکی پیشانی پھر سے چومی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ساریہ نائک آنسو آنکھوں میں بھرے عزیز از جان شوہر کو دیکھتی رہی، شاید اسے خبر ہو گئی تھی، اسکا خیام اسکا ہو کر نہیں لوٹے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی پر نگاہیں دوڑاتے ایان ملک نے اپنا کام سمیٹا اور کوٹ پہنتا ہوا آفس سے نکل آیا، اسکا رخ لقمان ولاء کی جانب تھا۔
گاڑی سڑک پر فراٹے بھرتی جا رہی تھی، آدھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ لقمان ولاء کے خوبصورت پورچ میں گاڑی سے نکل رہا تھا۔
لیونگ روم میں ساریہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔
“السلام علیکم ”
ایان مسکراہٹ لبوں کے احاطے پر سجاتے ہوئے بولا۔
” وعلیکم السلام ۔۔”
ساریہ آہتسگی سے بولی۔
” وفا نظر نہیں آرہی۔”
ایان نے ادھر ادھر گردن گھما کر پوچھا۔
” سٹڈی روم میں نماز ادا کر رہی ہے۔”
ساریہ نے کہا تو وہ سٹڈی کی طرف بڑھ گیا۔
آہستگی سے دروازہ کھولتے وہ بک ریک کےطساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گیا، وفا کے ہاتھ دعا کو بلند تھے، چہرے پر گہرا سکون تھا۔
ایان ملک یک ٹک اپنی محبوب بیوی کو تکے گیا، اسے وفا کا یہ روپ بہت بھاتا تھا۔
وفا نے لب ہلاتے ہاتھ چہرے پر پھیر کر گردن موڑی اور اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
” کیا مانگ رہی تھی۔”
ایان آہستگی سے بولا۔
” دعائے عبادت۔”
وفا مسکراتے ہوئے جائے نماز کو تہہ لگانے لگی۔
ایان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” مطلب۔؟”
ایان نے سوالیہ نظر اسکے چہرے پر ڈالی۔
“دعا کی دو اقسام ہوتیں ہیں۔”
وفا اسکے پاس آبیٹھی، ہاتھ میں سفید موتیوں کی خوبصورت تسبیح تھی، جو عموما اسکے پاس ہوتی تھی۔
ایان بخور سن رہا تھا۔
“۱- دعائے عبادت = جس میں الله تعالی کی حمد و ثنا کرتے ہیں
۲- دعائے مسئلہ= جس میں اپنی حاجات الله تعالی کے آگے رکھتے ہیں۔”
وفا نے نظر اسکے وجیہہ چہرے پر ڈالی۔
“یہ دعا ، دعائے عبادت ہے
یہ دعا کب مانگیں:
کسی بھی پریشانی ، دکھ، مشکل اور سختی کے وقت۔
جب situation بہت tuff ہو ۔
اچانک crisis آجائیں مثلا بزنس میں نقصان ہو گیا، Job چلی گئی۔
محنت کے باوجود وہ result نہیں آیا۔
اس دعا میں ہم کیا مانگ رہے ہیں:
اس دعا میں حاجت کا ذکر کیے بغیر الله تعالی کے نام و صفات کی تسبیح اور حمد وثنا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت کیا پریشانی ہے۔
جیسے یعقوب اور ایوب علیھما السلام نے مانگی تھی۔
لا اله الا الله : اپنی کوتاہی کا اقرار کرنا کہ یہ پریشانی حقوق اللہ کی کمی کرنے سے آئی ہے۔ نمازوں ، استغفار ، شکرگزاری ، تلاوت قرآن، اذکار، صدقات میں کمی کر دی ہے۔
لا الہ الا اللہ کہنا
کامیابی کا ذریعہ ہے
افضل ترین ذکر ہے
صدقہ بھی ہے، جو مالی نہیں کر سکتا وہ یہ تسبیح کرے۔
العظیم: اللہ کا اسم جلیل۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ یہ دکھ دور کرنے کی قوت صرف اللہ کے پاس ہے
الحلیم: اللہ گناہوں پر فوراً سزا نہیں دیتا۔ بلکہ اپنی رحمت سے مختلف مواقع دیتا ہے کہ بندہ اچھے اعمال اور توبہ کر کے رجوع کر لے۔
الکریم : اللہ فضل و کرم کرنے والا ہے۔ اللہ کو حیا آتی ہے جب بندہ اس سے مانگے اور وہ اسے نہ دے۔
رب العرش العظیم : اللہ کی مخلوق میں سب سے عظیم مخلوق ہے پھر وہ رب کتنا عظیم ہوگا۔
اس دعا میں توحید الوہیت، توحید ربویت اور توحید اسماء الحسنیٰ کو جمع کرنے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا اس نا ممکن کو ممکن بنا سکے۔
اس دعا میں اللہ کی تعریف اور شکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دعا کا ادب سکھایا۔
یہ دعا نہ صرف دنیا کے رنج و غم بلکہ آخرت کے غم سے بھی محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
کرنے کا کام:
اس دعا کو مانگنا اپنے اذکار کا حصہ بنا لیں مسئلہ= جس میں اپنی حاجات الله تعالی کے آگے رکھتے ہیں۔”
(ملکہ مبین خالد)
وفا آہستگی سے بتاتی چلی گئی۔
فلوقت ایان ملک کو وہ دنیا کی سب سے سمجھدار لڑکی لگی تھی۔
” تمہیں اسکی ضرورت کیوں پیش آئی۔”
ایان نے اسے دیکھتے سرسری سا پوچھا۔
” کمپنی کے کرائسز اور لوگوں کی چالوں سے بچنے کے لیے۔”
وفس مسکرا کر اٹھی اور اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔
” یہ مدد بھی اللہ سے لی جا سکتی ہے۔”
ایان ملک حیران ہوا تھا۔
” وہ شہہ رگ سے قریب ہے، ہر بات ہر مسئلے کا حل ہے اسکے پاس، کام یقین رکھ کر ہاتھ دعا کو بلند کردو، بے شک کچھ نہ مانگو،
وہ پھر بھی مسئلے حل کر دے گا۔”
وفا پر یقین لہجے میں بولی۔
دونوں سٹڈی سے نکل آئے۔
ایان محبت بھری نگاہ اس پر ڈاکتا سر جھکا گیا، اسے اپنی ڈگری بے معنی لگنے لگی۔
” میں اب تک بے مقصد جیتا آیا، جسے دین کی ہی کچھ خبر نہیں تھی۔”
ایان تمس سے سوچ سکا۔
” رات رک جاتے۔۔۔”
ساریہ اس سے مخاطب ہوئی تو وہ خیالات کی دنیا سے نکلا۔
” نہیں، کل پھر آ جائیں گے۔”
ایان نرمی سے بولا تو ساریہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
وفا ساریہ سے بغلگیر ہوئی اور ایان کی تقلید میں باہر نکل آئی۔
” وفا میں آج خود کو خوش قسمت تصور کر رہاہوں، مجھے ذبفگی اور اسکے معنیوں سے بھرپور ہم سفر ملی، اللہ نے آپ کو میرے لیے ذریعہ ہدایت بنا کر بھیجا۔”
ایان ےشکر آمیز لہجے میں بولا تو وفا مسکرا دی۔
” اور مجھے ایک مضبوط سائبان دیا۔”
وفا نے مسکرا کر اسکے خوبرو چہرے کو دیکھا۔
گاڑی لقمان ولاء سے نکل کر سینٹرل کیلگری جی طرف گامزن تھی۔
وفا نے گاڑی کے شیشے سے اس عمارت کو دیکھا، جہاں وہ جیمز سے ملنے آیا کرتی تھی۔
” کیلگری میرج رجیسٹریشن۔” کا بورڈ پڑھ کر اسکے ذہن میں گزرے شب و روز گھوم گئے۔
” کیا ہوا مسز۔؟”
ایان ادکے پرسوچ چہرے کو دیکھ کر بولا اور گاڑی کی سپیڈ ہلکی کی، سگنل پر غیر معمولی رش تھا۔
” جیمز کے بارے میں سوچ رہی تھی، شرافت راس ہی نہیں آئی اسے۔”
وفا استہزایہ ہنسی اور رخ ایان کی طرف موڑ لیا۔
ان کی گاڑی کے پیچھے کئی گاڑیاں آن واحد میں آ رکیں۔
ایان کی چھٹی حس نے خطرے کا الارم دیا۔
گاڑی نکالنے کا ہر راستہ بند ہو گیا تھا۔
ایان نے عجلت میں فون اٹھایا اور اکاش ملک کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
” تم کوئی حرکت مت کرنا، میں پہنچ رہا ہوں۔”
اکاش ملک عجلت میں بولے۔
” ایان ہم۔۔۔”
وفا ایان کی بات پر گھبرا گئی۔
” ڈونٹ یو وری ڈیڈ پہنچ رہے ہیں۔”
ایان نے اسکا ہاتھ دبایا، جب شیشہ ناک ہونے لگا۔
ایان نے رخ موڑ کر اس آدمی کو دیکھا، جو شکل سے ہی کوئی کلر لگ رہا تھا۔
ایان نے ہلکا سا شیشہ نیچے کیا۔
” ییس۔”
ایان نارمل انداز میں بولا۔
اس سے قبل وہ گن نکالتا ایان نے بٹن پریس کیا اور شیشہ چڑھ گیا، اس کا ہاتھ بیچ میں پھنس کر رہ گیا۔
پچھلی گاڑی سے زور دار ٹکر لگی اور دونوں ڈیش بورڈ سے بری طرح ٹکرا گئے۔
ایان نے ارجنٹ پولیس کا کال کی، ابھی سنبھل بھی نہیں پائے تھے جب اگلی طرف سے زور دار ٹکر لگی۔
” وفا۔”
ایان نے سر تھامے وفا کو آغوش میں بھرا۔
” ایان یہ سب۔۔۔”
وفا بول ہی پائی تھی جب وفا کی سائڈ سے زور دار ٹکر لگی اور گاڑی ایک طرف کو الٹ گئی، اس طرف کا گیٹ ٹوٹ گیا۔
وفا کی چیخ نکل گئی۔
دور سے پولیس سائرن سنائی دے رہا تھا۔
گاڑی ایک دم نیچے گری اور کسی نے وفا کو زور سے کھینچا۔
ایان کے ہاتھ پر فائیر کیا اور وفا کو گاڑی سے کھینچ لیا، وفا کی کنپٹی پر پسٹل سے وار کیا، وفا درد سے کراہی اور بے ہوش ہو گئی۔
ایان ڈبڈبائی آنکھوں سے درد سہتا خون آلود ہاتھ تھامے وفا کے پیچھے لپکا۔
گاڑیاں زن سے سڑک پر دوڑنے لگیں۔
” وفا۔”
ایان حلق کے بل چلایا۔
ہیچھے سے آتی گاڑی اسے سائڈ لگاتی گزر گئی، ایان بری طرح لڑکھڑا کر سڑک پر اوندھے منہ گر گیا، اسنے سر اٹھا کے گاڑی کا نمبر نوٹ کیا۔
پیشانی پر گہری رگڑ آگئی۔
اسکے ہاتھ سے رستا خون سڑک کو خون آلود کرنے لگا تھا، وہ ہمت جٹا کر اٹھا اور لڑکھڑا کر سڑک پر گر گیا، خون بہنے کی وجہ سے سر چکرانے لگا تھا، درد کی شدت ہوش حواس چھین رہی تھی۔
پولیس کی گاڑیاں اسکے قریب آ کر رکیں۔
” ایان۔”
اکاش ملک چیختے ہوئے اسکی طرف لپکے۔
ایان نیم بے ہوش میں تھا، نیم وا بھرائی آنکھوں سے اکاش ملک کو دیکھا اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔
ایمبولینس کے دل دہلا دینے والا سائرن گونجتا ہوا اسے ہاسپٹل لے آیا۔
اکاش ملک نے دکھ سے سٹریچر پر چت لیٹے اہنے اکلوتے کڑیل جوان سپوت کو دیکھا۔
پولیس پورے شہر میں پھیل گئی تھی۔
ایان ملک ہوش و حواس سے بے خبر چت لیٹا تھا۔
یہ خبر کیلگری میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
ہر نیوز چینل ایک ہی نیوز دے رہا تھا۔
” مسٹر ایان ملک ایک بار پھر سے قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور نائک کمپنی کی اونر وفا ملک کڈنیپ ہو گئیں ہیں، اس سب کےطپیچھے کس کا ہاتھ ہے جاننے کے لیے رپیے ہمارے ساتھ۔”
ساریہ نائک دوڑتی ہوئی ہاسپٹل پہنچی۔
ایان دوائیوں کے زیر اثر تھا، پورے شہر میں ناکہ بندی ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سر زمین پر اترا رو اپنے وطن کی آب و ہوا نے خوشگواریت سے اسکا استقبال کیا۔
مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس نے ایک نظر اطراف میں ڈالی اور ٹیکسی سٹینڈ کی طرف بڑھا۔
ٹیکسی لی اور گھر کی راہ پر گامزن ہوا۔
ساریہ کا بخیرہت پہنچنے کا میسیج کیا اور موبائل جیب میں ڈال لیا۔
ٹیکسی اسکے گھر کے آن رکی تو وہ پیسے دیتا بیگ گھسیٹے اندر چلا آیا۔
صحن میں آپا کے بچے کھیک رہے تھے۔
” امی ماموں آ گئے۔”
بچے شور مچاتے برآمدے کی طرف دوڑے، مبہم سی مسکراہٹ نے اسکےلبوں کو چھو لیا۔
آپا خوشی سے دوڑتی ہوئی باہر آئی اور اپنے خوبرو بھائی کے گلے لگ گئی، خیام اپنوں کی بے تحاشہ محبت پر مسکرا کر رہ گیا۔
سب سے مل کر وہ سعید صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا گیا۔
بستر پر تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے سعید احمد بے حد کمزور لگ رہے تھے، خیام کے دل کو کچھ ہوا۔
باپ کے گلے لگ گیا۔
” میرے جگر کا ٹکڑا۔”
سعید احمد اسکی کشادہ پیشانی چومتے ہوئے بولا۔
” میں آ گیا ہوں، اب آپ کو بلکل ٹھیک کر دوں گا۔”
خیام نے انکے جھریوں زدہ ہاتھ چومے۔
” اولاد کو دیکھ کر ہی بوڑھے ماں باپ کو سکون مل جاتا ہے۔”
سعید احمد پیار سے بولے۔
آپا نے کولڈ ذرنک سرو کی اور وہیں چارپائی پر بیٹھ گئی۔
” تو تھک گیا ہو گا آرام کر لے خیام۔”
آپا نے مشورہ دیا تو خیام تھوڑی دیر بعد اٹھ گیا۔
فریش ہو کے سونے کی غرض سے لیٹا تو شام کو اٹھا۔
منہ پاتھ دھو کر باہر آیا تو آپا کچن میں مصروف تھی، سعید اد صحن میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔
” میں نے کہا تھا کام والی رکھ لیں ابو۔”
خیام انکے ساتھ رکھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
” فوزیہ جب سے آئی ہے، کام والی کی چھٹی کر فی اس نے۔”
سعید احمد ٹھنڈی آہ بھر کر بولے۔
” اچھا، کب سے آئی ہیں آپا۔؟”
خیام نے سرسری سا زکر کیا اور ساتھ والی چھت سے لٹکی لڑکیوں کو دیکھ کر سر جھٹک گیا۔
” چھ مہینے ہونے کو آئے ہیں۔”
سعید مدھم لہجے میں بولے۔
” خیریت تو ہے نا۔؟”
خیام کو اتنے لمبے عرصے کی رہائش کھٹکی۔
” پھر بات کریں بیٹا، ابھی تو تو آیا ہے۔”
سعید احمد نے بات ٹال دی۔
خیام کا زہن کیاری میں کھیلتے بچوں اور چھ مہینے کی رہائش میں اٹک گیا۔
” تجھے لگتا ہے کینیڈا راس آ گیا ہے،شہزادے بن کے آئے ہو۔”
فوزیہ نظر اتارتے ہوئے بولی اور چائے کے کپ ڈش سے نکال کف انکے آگے رکھے۔
خیام مسکرا کر رہ گیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...