نصیر حسین خیال نے گرچہ آغاز جوانی میں ہی شاعری ترک کر دی تھی اس کے با وجود شاعری کا ذوق ان کے رگ و پے میں موجود تھا۔ اس کا اندازہ ان کی نثری تحریروں سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے۔ رسالہ ’ادیب‘ میں شامل خیال کے ذریعہ کیے گئے شیکسپیر کے ترجمے کے چند شعری حصے قاضی عبد الودود نے بھی نقل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ رسالہ ’جادو‘ ڈھاکہ کے مدیر خواجہ محمد عادل کی والدہ کی رحلت پہ اس رسالہ کے شمارہ بابت ماہ نومبر 1925ء نمبر ۱، جلد ۳ میں نثر و نظم میں تعزیتی پیغامات کے ساتھ ہی قطعات تاریخ وفات اور شخصی مرثیوں کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس شمارے میں بزبان انگریزی نصیر حسین خیال کا ایک نوحہ اور اس کا منظوم اردو ترجمہ موجود ہے۔ اس سے قبل مدیر کا یہ نوٹ شامل اشاعت ہے:
’ادیب فقید المثال نواب سید نصیر حسین خان صاحب خیال سے اور حضرت والد مکرم سے خاص تعلقات ہیں۔ ہمارے صدمۂ جانکاہ میں ان کی معرج البحرین تعزیت، زبان اور مذاق ادب کے خیال سے بالکل جدت آفرینی ہے۔ اردو نظم در حقیقت انگریزی کا ترجمہ ہے۔ انگلستان میں جاڑے کی طویل راتیں پہاڑ اور غم انگیز ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں کی شبِ فراق اور ہے۔ اس لئے اس موقع پر شب یلدی کا استعمال کس قدر حسین ہے۔ پھر اس مذاق میں انتہاے بے خبری کے لئے بے غمی اور بے خوفی نظم کی جان ہے۔ اور یہاں کے لئے آسودہ ہو چکے، تمھیں اب کوئی غم نہیں، نظم فرما کر اپنے مذاق سلیم کی روح کی بالیدگی قائم رکھی گئی ہے۔ دونوں نظموں کے اکثر مقامات اہل نظر توجہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔ غمزدہ، عادل۔‘ (ہاے ہاے 1925، 31)
Remorse
I think with passionate grief / Of failing to be seen
In all that I might have done / And all that I could have been.
Will nothing my anguish still / As day and night I weep?
Oh will he not heed my cry / He who is fast asleep?
He knows not remorse or fear / But mine the cold heart press
As through the long winter night / I walk the wilderness!
(Darjeeling, October 1925)
ہاے! ہاے!
دیدار ترا اب تو فقط اک خیال ہے
ہاں خوب جانتا ہے کہ ملنا محال ہے
اس پر نہیں سمجھتا، عجب اپنا حال ہے
بے چین، مضطرب، دل اعظم نڈھال ہے
روتے ہیں رات دن کہ یہی زندگی ہے اب
دکھلائیں کس طرح جو ہے اس روح پر طعب
اے سونے والے، جاگ کہ آخر ہوئی ہے شب
ملنے کا دن بتا کہ مری عید ہو گی کب
آسودہ ہو چکے تمھیں اب کوئی غم نہیں
راتیں ہماری پر شب یلدیٰ سے کم نہیں
کہتا ہے دل تڑپ کے مگر اب تو دم نہیں
اٹھنے کا ہم سے آہ یہ کوہ الم نہیں
دارجلنگ، اکتوبر سنہ 1925ء
خیال کے ذوق شاعری کا ذکر چراغ حسن حسرت نے بھی کیا ہے۔ جب مسلم لیگ کے فعال رکن اور بنگال مسلم پارٹی کے رہرواں سر عبد الرحیم نے اپنی سیاسی سازشوں کے تحت 1927ء میں کانگریس سے مل کر بنگال کی نو تشکیل شدہ وزارت کو منتشر کر دیا تو، بقول چراغ حسن حسرت،
’اس واقعہ پر اخباروں میں بڑے زناٹے کے مضامین نظم و نثر چھپے۔ ان میں ایک مزے کی نظم بھی تھی جو مولانا محمد علی کے اخبار ہمدرد دہلی میں شائع ہوئی تھی۔ ہمدرد نے شاعر کا نام نہیں بتایا تھا البتہ اس کے ابتدا میں ایک نوٹ لکھ کر واضح کر دیا تھا کہ یہ نظم کلکتہ کے ایک صاحب ذوق بزرگ کے قلم سے نکلی ہے۔ کوئی پچاس پچپن شعر کی نظم تھی لیکن سارے شعر ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ مجھے صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔
غزنوی کون کہے تجھ سے دنی فطرت کو
نام محمود نما اور غلامی میں ایاز
یہ نظم پڑھ کے بہت حیرت ہوئی کہ کلکتہ میں کون ہے جو ایسے شعر لکھے۔ ہر پھر کے حضرت خیال پر ہی نظر پڑتی تھی لیکن اس معاملہ میں ان کا یہ حال تھا کہ شعر کا نام لیتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔ دوسرے دن میں ان سے ملنے گیا تو ہمدرد کا پرچہ ان کی میز پر پڑا تھا۔ میں نے پرچہ اٹھا کے کہا ’’آپ نے یہ نظم ملاحظہ فرمائی۔‘‘ کہنے لگے ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا، ’’کیا خیال ہے‘‘؟ کہنے لگے ’’خاصی ہے‘‘ میں نے کہا ’’یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کلکتہ میں ایسی نظم لکھنے والا کون ہے؟‘‘ مسکرا کر کہنے لگے ’’بہتیرے اللہ کے بندے پڑے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کہیں آپ تو نہیں‘‘؟ یہ سن کر مسکرا پڑے اور پہلو بدل کے کوئی اور ذکر چھیڑ دیا۔ میں تو یہ سمجھ گیا کہ یہ نظم انھوں نے ہی لکھی ہے لیکن انھیں اخفا منظور تھا۔ اس لئے میں نے بھی زیادہ اصرار مناسب نہ سمجھا۔ (حسرت 1939، 35-37)
قاضی عبد الودود نے خیال کی ایک غزل پیش کی ہے جو ’نوائے کیمبرج‘ کے پہلے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اشعار سے ظاہر ہے کہ یہ غزل کیمبرج کے سفر کے دوران کہی گئی تھی۔ (عبد الودود 1993، 219)
اس کی ضد سے آپ ظاہر اس کا ایماں ہو گیا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
پاک دامانی کی شہرت حضرت یوسف کی تھی
کیا کہیں پھر کس کی خاطر چاک داماں ہو گیا
لے لیا دنیا نے سب کچھ اب کہاں ہوش و حواس
اس تماشہ گہ میں آ کر محو انساں ہو گیا
سوزش زخم جگر کی کوئی لذت کیا کہے
کس مزے میں شوق سے خالی نمکداں ہو گیا
واہ ری دل کی مروت کس کو کس کو دے جگہ
خاطریں تھیں درد کی اب غم بھی مہماں ہو گیا
بعد مدت کفر ٹوٹا اور یہ لکھی غزل
خاطر جیون سے آخر میں مسلماں ہو گیا
کیمبرج میں ان کی الفت کھینچ لائی ہے خیال
انجمن کا آج کی شب تو بھی مہماں ہو گیا
’’نوائے کیمبرج‘‘ کا یہ افتتاحی شمارہ جنوری فروری مارچ 1921ء کا ہے۔ خیال نے 1920ء میں یورپ کی سیاحت کی تھی۔ حسرت نے جس نظم کا ذکر کیا ہے وہ قرائن کے مطابق 1927ء میں شائع ہوئی ہو گی۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو خود خیال کے ماہنامہ ’ادیب‘ میں ان کی شعری کاوشوں کے بعد، اور محولہ بالا غزل کے مصرعہ
بعد مدت کفر ٹوٹا اور یہ لکھی غزل
سے ظاہر ہے کہ انھوں نے شعر گوئی کی جانب قصداً توجہ نہیں دی۔ اس غزل کے کم و بیش پانچ برسوں کے بعد انھوں ’جادو‘ میں شامل نوحہ لکھا اور اس کے بعد وہ نظم لکھی جو ’ہمدرد‘ کی زینت بنی۔ خیال نے سید سجاد حسین کے نام لکھے مکتوب میں بھی چند اشعار رقم کیے ہیں جو محض تفنن طبع کے طور پہ کہے گئے تھے۔ خیال نے آخری شعر کو اپنے انشائیہ ’’پانچ ملک الشعرا‘‘ میں یوں بھی لکھا ہے:
کیمبرج تک ان کی الفت کھینچ لائی ہے تجھے
یونین کا بھی تو یوسف آج مہماں ہو گیا
سید سجاد حسین (خلف سید احمد حسین مؤلف ’مجمع البحرین‘) کے نام مکتوب بتاریخ 13 مئی 1909ء میں خیال نے اپنے چند اشعار لکھے ہیں۔ ان پہ عنوان اور حاشیے بھی لگائے ہیں جن میں مزاح کی چاشنی موجود ہے۔
عشق
………… پاؤں ہیں عشق کی چھانے ہوئے ساری گلیاں
شان و رفتار قناعت
رہروِ ملک قناعت ہیں بہ شکل مسطول
سوجھتا خود سے نہیں آپ کو دہنا بایاں
زہد کی بزرگی ( قطعہ)
کشتِ زہد چلی جائے گی بے باد مراد
خوف امواج ہے دل میں نہ ہے پیہم طوفاں
ناخدا کی نہیں حاجت یونہی بیڑا ہے پار
کیونکہ حضرت ہیں جڑے اس میں بجائے نکاں
اعجاز نطق و فصاحت
زور منطق سے ارسطو کو یہ خچر منوائیں
پرتو نطق سے الکن ہو فصیح و لساں
طفل اک روز اگر ان کی زباں کو چوسے
پارلیمنٹ میں اسپیچ دے بھولے غوں غاں
تھوک دیں گنگ کے منھ میں تو اگلنے لگے شعر
صدف گوہر معنی کے لئے ہیں نیساں
انداز تقریر
حرف اگر بیچ میں آ جائیں تو سر اڑتے ہیں
چلتی ہے لفظ پہ قینچی کی طرح تیز زباں
ہاں ذرا غور سے انداز تکلم تو سنو
ہہ ہہ ہم تو بہ بہ بس ہیں اِ اِ اس پر قرباں
قطعہ حاجی مسرور کی درگاہ کے سجادہ نشیں
………… زعفراں ہو گئی پامال انہی قدموں سے
بھرتے ہیں کشت ظرافت میں ہمیشہ چوگاں
قطعہ
آپ کو دیکھ کے کہہ اٹھتے ہیں سب جلدی میں
’بزم احباب میں لو آ گئے انشاءَ لَ خاں‘
تار دے کر ابھی بلوائیں مصاحب بھی بنائیں
زندہ ہو جائیں جو نواب سعادت علی خاں‘
ان اشعار کے بعد خیال لکھتے ہیں کہ:
’کل کے کارڈ سے تو سمجھا تھا کہ رقعۂ پیر نا بالغ کی طرح میرے قطعہ کی بھی قطع و برید ہو گئی۔ بارے آج لفافے نے دھڑکن دور کی۔ یہ تو دیکھتا ہوں کہ تم نے چھیڑ چھیڑ کے خواہ مخواہ نواب خیال صاحب کو شاعر نہیں تو شاعر کی دُم تو بنا چھوڑا۔ مگر آج کل بات یہ ہے کہ رات اپنی ہے۔ جاگتے جاگتے تھکے۔ لیٹا بنیا کیا کرے۔ چلو شاعری کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ کچھ مِل ہی رہے گا۔ ہے سرکار ذرا فیاض۔ کل کی کمائی حاضر کرتا ہوں۔ اکثر نئے اور مشکل قافیے قصداً لائے گئے۔ اب ان کو بھی دُم کے ساتھ باندھ دو۔ سو سے اوپر شعر اگلوا دیئے، اس سے جو برسوں ایک مصرعہ بھی زبان پر نہ لائے۔‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال، 224-27)
اسی طرح ’پانچ ملک الشعرا‘ میں بھی انھوں نے چند ایسے اشعار لکھے ہیں جو بظاہر ان کی ہی تخلیق ہیں۔ ان میں بھی مزاح کے عنصر موجود ہیں۔
’دیکھیں گے ہم عروس کا منہ اس گھڑی ضیا
جس وقت اپنے قبضہ میں وہ شکل آئے گی
ڈھیلے آنکھوں کے نظر آتے ہیں دو زرد عقیق
بہتی کیچڑ ہے کبھی ان سے کبھی آب رقیق
اور اسی شکل کا ہے دوسرا پہلو میں رفیق
ہر دو ہم قافیہ القارُ مع القار دقیق
مفت خوری سے وہ چربی کہ پھٹے جاتے ہیں
بھائی شوکت بھی انھیں دیکھ کے گھبراتے ہیں
خون بلبل سے سنچی اس کے چمن کی مٹی
رنگ لائے گی بہت جلد دکن کی مٹی
قبر میں آئے نکیریں جو ملنے کو امام
ہو گئے ہم بھی کھڑے جھاڑ کفن کی مٹی
اپنا ہوا امام پسند جہاں کلام
پٹنہ سے اُڑ کے پہنچا ہے دیکھو کہاں کلام
گھر خلیفہ کا کوئے یار بنے
اسی کوچہ میں اب مزار بنے
ہے رحیم اپنا سلیماں منتظر بلقیس کا
اس جمیعت میں گزر ہوتا نہیں ابلیس کا
وینس میں کارلو میں پری میں جینوا میں
خوشنام تم رحیم رہے ہو کہاں کہاں وہ اک بوسہ کی خاطر رات بھر عاشق سے لڑتے ہیں
صبح ہو جائے گی اے آفتاب ہم بھی بگڑتے ہیں
کراچی سے ایک برقی اردو لغت ’اردو آئنسی‘ نے لغوی زمرہ ’برچھی‘ کے تحت خیال کا ایک شعر رقم کیا ہے لیکن استفسارات کے باوجود مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ منتظمین نے یہ شعر کہاں سے حاصل کیا۔
نگہ کا وار تھا دل پر تڑپنے جان لگی چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی
٭٭٭