کسی زمانے میں دولت مآب تھا پٹنہ پسند خاطر ہر شیخ و شاب تھا پٹنہ فلک شکوہ ثریا جناب تھا پٹنہ نجوم شہر تھے سب آفتاب تھا پٹنہ جہاں میں عزت و شوکت کی اس سے تھی بنیاد عظیم آباد تھا اک وقت میں عظیم آباد
(’’یاد عظیم آباد‘‘، سید علی محمد شاد عظیم آبادی)
خیال کے نام کے ساتھ رسائل میں عموماً عظیم آبادی لکھا ملتا ہے۔ حالانکہ ان کی تمام تر اہم سرگرمیوں میں کلکتہ میں قیام کو مرکزی حیثیت رہی ہے، مجھے حاصل شدہ سرمایوں میں ان کے نام کے ساتھ کہیں بھی کلکتوی لکھا نظر نہیں آیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ خیال ہندوستان میں جہاں بھی رہے، اپنی عظیم آبادی شناخت کو انھوں نے قائم رکھا۔ یوں بھی ان کے مکتوبات اور مضامین سے علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی گفتگو اور تحریر و تقریر کے دوران علاقائی تشخص کا اظہار اہم تصور کرتے تھے۔ منشا یہ ہوتی تھی کہ بہار کے مرکز علم و دانش عظیم آباد کی نمائندگی کے دوران یہ باور کرایا جاتا رہے کہ کم از کم زبان کے معاملے میں وہ کسی اور مرکز سے کم نہیں ہے۔
عظیم آباد سے مراد سنہ 1811ء میں فرانسس بیکنن کی پیش کردہ تفصیل کے مطابق وہ پٹنہ ہے جو بالفاظ نقی احمد ارشاد، تین میل لانبا اور ایک میل چوڑا تھا۔ جس کے
’شمال میں گنگا ندی، جنوب میں مقبرہ ہیبت جنگ والد سراج الدولہ اور مواضع مرچامرچی اور علاول پور۔ پورب میں پورب دروازہ اور پچھم میں پچھم دروازہ۔ دونوں دروازے سڑک کو چوڑا کرنے کے لئے بعد واقعات 1857ء نکال دیے گئے۔ اس شہر کا نام تا عہد عظیم الشان کبھی پاٹلی پُترا، کبھی کُسُم پور اور کبھی پٹنہ تھا۔ شہر کے چاروں طرف گنگا کو چھوڑ کے، کچی مٹی کی اونچی دیواریں تھیں اور اس کے چار کونوں پر متھنیاں تھیں۔‘ (کاروان رفتہ 1995، 1)
مسلمانوں کے عہد حکومت میں ان ہی چار متھنیوں پر شاہ منصورؒ، شاہ معروفؒ اور شاہ مہدیؒ کے مزارات اور ’سلامت کوچہ‘ بنائے گئے تھے۔ مغرب سے مشرق تک اس میں جو مشہور علاقے یا اصحاب آباد تھے وہ تاریخ میں ان ناموں سے محفوظ ہیں: گول خانہ، بنگلہ نیپالی، کچہری اپیل، کوچہ اُدھو داس، باغ کمپنی، کوٹھی منگلس صاحب، کوٹھی فرٹومل صاحب، مکان نہری متعلقہ میر اشرف، گھاٹ نہری، مکان راجہ متر جیت سنگھ (ٹکاری) ، کوٹھی بخشی بھیم صاحب، مکان نور الحسن خان، مکان باقر علی خان، کوٹھی افیون، متھنی شاہ، گھاٹ شاہ نوذر، پادری کی حویلی، پشتہ میر اشرف، پشتہ علی ابراہیم خاں، کوٹھی ولندیز، حویلی بیگماں، گھاٹ خواجہ کلاں، گھاٹ چمنی بیگم، مدرسہ گھاٹ، قلعہ شاہی، وغیرہ۔ (ارشاد 1982, 28-29) پادری کی حویلی کی پشت پر مغرب کی جانب بخشی محلہ میں کوچہ پیر رستم علی تھا۔ پیر رستم علی شاد عظیم آبادی کے جد اعلیٰ تھے جن کا خاندان چوتھی پیڑھی کے قنبر علی کی رحلت کے بعد حویلی اسد جنگ میں منتقل ہو گیا تھا۔ نقی احمد ارشاد کے مطابق شاد کے پردادا قنبر علی کی جوانی میں ہی رحلت ہو گئی تھی۔ ان کی بڑی صاحبزادی بدر النسا، نواب کاظم علی خاں حاجی گنج سے منسوب تھیں۔ حویلی کاظم علی خاں خاندان گذری میں بہ سلسلہ اولاد دختری منتقل ہو گئی۔ یعنی عصمت النسا بیگم خواہر نواب بہادر کو ملی، مگر اولاد میر تفضل علی نے حاجی گنج میں بود و باش اختیار کی۔ شاد منزل دو نا اہل وارثوں کے سبب 1974ء میں فروخت ہو گئی۔ اس کے ایک گوشے میں مزار شاد و خیال اور سید حسین خلف شاد ہے۔
حاجی گنج کی حویلی کی تعمیر 1170ھ (1756ء) کے آس پاس سید ہدایت علی خاں خلف شاہ علیم اللہ نے کروائی تھی جنھیں شاہ عالم ثانی نے اسد جنگ کا خطاب دیا تھا۔ میر غلام حیدر عرف قنبر علی کی بڑی صاحبزادی بدر النسا کی شادی سید ہدایت علی خاں کے پوتے سید کاظم علی خاں سے ہوئی تھی۔ بی بی بدر النسا کے بھائی بہن بھی ان کے ساتھ ہی رہنے لگے۔ شاد اور خیال کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔ نقی احمد ارشاد نے بزرگان و اجداد شاد کی علمی خدمات کی جو تفصیلیں پیش کی ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عظیم آباد کا یہ خاندان اصحاب اقتدار کے ساتھ ہی اصحاب علم و ہنر کی پرورش بھی کرتا رہا ہے۔ نصیر حسین خیال جب سن شعور کو پہنچے تو ان کے خاندان کا دبدبہ اور نیک نامی اور علم کی شہرت بام عروج پر تھی۔ وہ زمانہ پٹنہ میں اردو اور فارسی کے عروج کا زمانہ بھی تھا۔ سید بدر الدین احمد نے لکھا ہے کہ ہر جگہ مشاعرے ہوتے تھے اور ہر پڑھا لکھا آدمی اس شعرو شاعری کے ماحول میں شاعر بنا ہوا نظر آتا تھا۔ (حقیقت بھی کہانی بھی، 497)
اس عہد کے عظیم آباد کا عالم یہ تھا کہ ایک طرف خیال کے ماموں خان بہادر سید علی محمد شاد عظیم آبادی سید الشعرا کہلا رہے تھے تو دوسری جانب سید ہدایت علی خاں اسد جنگ کی حویلی میں حکیم سید احمد حسین ’مجمع البحرین‘ تصنیف فرما رہے تھے۔ اسی زمانے میں حکیم سید محمد جواد بھی اپنی حکمت و علمیت کا سکہ جما رہے تھے۔ ان کے بھائی سید مہدی کی کتاب ’لواعج الاحزاں‘ خراج تحسین حاصل کر رہی تھی۔ اسی حویلی میں ’سیر المتاخرین‘ جیسی تاریخ قلمبند ہوئی۔ اجداد میں عنایت خاں راسخ (صاحب عنایت نامہ، رسالہ موسیقی و فالنامہ حافظ) ، ابراہیم خاں ابراہیم اور شاکر خاں (صاحب گلشن صادق) کے تصنیفی و تالیفی کارنامے موجود تھے۔ ان کے علاوہ لطف اللہ خاں صادق کے نبیروں میں محمد جعفر خاں راغب ریختہ و فارسی کے صاحب دیوان تھے، اور ’گلزار جعفری‘ کے مرتب بھی۔ محمد علی خاں ’تاریخ مظفری‘ و ’بحر امواج‘ اور ’اخبار السلاطین‘ کے مولف تھے۔ خلق صاحب دیوان فارسی تھے۔ شاکر خاں کے پوتے عیسیٰ خاں رفعت اردو کے مشہور شاعر تھے۔ ہدایت علی خاں اسد جنگ کے خانوادے میں رونق کے علاوہ میر اولاد علی اولیٰ اور جلال الدین حسین خاں تاثیر اردو کے معروف شعرا تھے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ ان (خیال) کے خاندان کیا، محلہ بھر میں علمی مشغلہ کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہ تھا۔
’مرحوم عظیم آباد میں صرف تین محلے ایسے تھے جہاں علما، شعرا اور مورخین کا مسکن تھا۔ شاد و خیال کے پہلے نون گولہ، جہاں خیال کی دادی کے والد عیسیٰ خاں رفعت (شاد کے دادا کے ہم زلف) رہتے تھے (جو) نہ صرف شاکر خاں خلف لطف اللہ خاں صادق کے پوتے تھے بلکہ اردو و فارسی کے زبردست شاعر تھے (بحوالہ تذکرہ عشقیہ) ۔ شاد کی ننھیال اسی محلہ کے آس پاس پورب دروازے میں تھی۔ محلہ صادق پور کے علما میں مولوی یحییٰ علی، حاجی احمد اللہ مرحوم اور واعظ الحق کو کون نہیں جانتا۔ غدر 1857ء میں یہ خاندان اجڑ گیا۔ ان کے ہم عمروں اور ساتھیوں میں سید محمد وصال، خلف امیر حسن ایجاد (شاد کے بھتیجے) ، پیارے صاحب علی سجاد مصنف ’محل خانہ‘، ڈاکٹر سید سجاد، نظیر حسین شائق نون گولہ، میر عنایت حسین امداد، سید محمد خلیل گورکھپوری تھے۔‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال، 11)
اختر اورینوی نے شاد کے عظیم آباد کے بیان کے دوران یہ کیفیت پیش کی ہے کہ عظیم آباد کے محلے محلے میں مشاعرے ہوتے تھے۔ ’’سائل دہلوی، داغ اور شبلی بھی پٹنے آئے ہیں۔ شاد اور صفیر بلگرامی کی چشمکیں، فضل حق عظیم آبادی اور شاد کی رقابتیں گرمیِ محفل کا باعث تھیں۔ شاد کا زمانہ عظیم آباد کے فنکاروں کا زمانہ تھا۔ ‘‘ (سراج و منہاج، 61) خود خیال نے بھی ’تزک خیال‘ میں اس حقیقت کا بیان بڑے اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ عظیم آباد کی شاعری کی محفلوں کے ذکر کے دوران انھوں نے لکھا ہے کہ وہ شاعری کی گود میں پیدا ہوئے اور اس کے دامن میں ہی پَلے۔
’ہمارے گھر میں، بلکہ ہمارے محلہ میں، بلکہ سچ یوں ہے کہ عظیم آباد بھر میں جسے ذرا شد بد تھی، وہ شاعر تھا۔ میونسپل اور کونسل کے الکشن کی جنگ کے عوض مشاعروں کا دنگل ہوتا اور ہمارا گھر شاعروں کا اکھاڑا بنا رہتا تھا۔ ہمارے ماموں خان بہادر شاد خود ملک الشعرا۔ پھر میرے چھوٹے ماموں سید میر حسن خاں ایجاد بھی شاعر۔ میرے چچا، میر جعفر حسین، بھی شعر کہتے اور میرے خالو، دونوں پھوپھا (نواب وزیر نواب اور نواب محمد حسن خان شمیم) اور کل اعزا اگر کچھ کرتے تھے تو یہی شاعری۔‘ (تزک خیال اول، 15)
ان خانوادوں کے علاوہ بھی عہد خیال کے عظیم آباد میں شعرا، ادبا، علما کی کمی نہ تھی۔ کنور سکھ راج بہادر رحمتی، میر امیر جان فرقتی، سلطان میرزا، میر حامد حسین نکہت، وجہ الدین باقر، شاہ محمد یحییٰ، خواجہ محمد کاظم شفا، شاہ فرحت، نواب جعفر حسن خاں فیض، سید عسکری شاہ صاحب قمی، میر تصدق حسین زخمی، میرزا ابو الحسن ضیا، خواجہ فخر الدین سخن، حکیم عبد الحمید پریشاں (کلیم الدین احمد کے والد سید عظیم الدین کے نانا) ، خواجہ سلطان خاں، میرزا نوروز علی خاں یکتا، اصغر حسین مائل وغیرہ اس عہد کے باکمال اصحاب سخن تھے۔ صفیر بلگرامی رہتے تو آ رہ میں تھے، عظیم آباد کے مشاعروں کی جان بھی تھے۔ نقی احمد ارشاد نے بزرگان شاد میں شاکر خاں، محمد علی خاں انصاری، جعفر خاں راغب، باقر علی خاں اور دیگر اصحاب علم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کا علم و ادب وراثتاً شاد عظیم آبادی اور ان کے بھانجے نصیر حسین خاں خیال کو ملا۔ ‘‘ (کاروان رفتہ، 95) خیال نے اپنے ایک مضمون میں پٹنہ میں میر انیس کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے اپنے زمانے کے عظیم آباد کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’انیس کی غیر معمولی شہرت نے عظیم آباد کے زبان پرستوں کو شوق دلایا کہ ان کا کلام ان کی زبان سے سنا جائے۔ اہل شہر کی اس آرزو کو نواب سید قاسم علی خاں نے پورا کیا۔ میر انیس کو زحمت دی گئی۔ وہ تشریف لائے۔ ان کی مجلسوں میں اہل شوق کا وہ مجمع ہوا اور عظیم آباد کے اہل ہنر نے ان کے کلام کی ایسی داد دی کہ انیس کے سے متین و خوددار بزرگوار نے برسرممبر ارشاد کیا کہ لکھنؤ کے بعد مجھے اپنے کلام کی اگر کہیں داد ملی تو عظیم آباد میں۔
انیس ہر لحاظ سے مستند تھے۔ ان کے یہ الفاظ ہمارے مذاق کے لئے ایک سند ہیں۔ عظیم آباد اس وقت تک اہل حواس سے آباد تھا۔ انیس کی محفلوں میں وہ خواص بھی شریک ہوتے تھے جن کی ذات پر اس شہر کوناز تھا۔ اہل فضل میں اگر مولانا محمد سعید صاحب اور مولوی سید عبد الحمید صاحب ان مجلسوں میں شرکت کرتے تو آغا مرزا محمد اور ناظر وزیر علی عبرتی کے سے اہل کمال و زبانداں بھی ان مجلسوں میں حاضری اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کے ساتھ نواب یوسف علی خاں اور نواب مہدی علی خاں کے سے اہل تمیز رئیس بھی حاضر باش رہتے۔ علی مرزا صاحب، ننھے آغا صاحب اور آغا ابو الحسن صاحب کے سے سخن فہم بھی مجلسوں کی زینت ہوتے۔ انیس ان کل حضرات کے علم و مذاق سے واقف تھے۔ پڑھتے پڑھتے اکثر مرثیہ روک کر فرماتے کہ یہ مقام آپ حضرات کے سننے کا ہے۔ سب ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ تعریفوں کی گونج کم ہوتی تو آغا مرزا محمد صاحب اورعلی مرزا صاحب نیم قد ایستادہ ہو کرعرض کرتے کہ قرآن اگر اردو میں نازل ہوتا تو اس زبان میں!ً انیس اس پر بالیدہ ہوتے، آنکھوں میں آنسو بھر لاتے اور فرماتے یہ آپ صاحبوں کی قدردانی ہے!ً انیس دو سال عظیم آباد تشریف لائے۔ پھر ان کے چھوٹے بھائی میر نواب صاحب مونس اور بعد کو میر اُنس، میر نفیس اور میر وحید برابر آتے اور محرم کی مجلسیں پڑھتے۔ وہ دور ختم ہوا اور منشی امیر احمد مینائی اور نواب مرزا داغ اور وحید الہ آبادی کا زمانہ آیا تو عظیم آباد نے ان استادوں کو بھی یاد کیا اور انھوں نے بھی ہم کو سرفراز کیا۔‘ (ہماری زبان 1934، 18-19)
خیال کا یہ مضمون بِہار اور بطور خاص عظیم آباد میں زبان اردو کے اہم مراکز کے بیان سے تعلق رکھتا ہے۔ انھوں نے معز الدین کیقباد سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے لودھی، شیر شاہی مغل اور محمد شاہی عہد میں دلی، فیض آباد اور لکھنؤ سے بِہار اور عظیم آباد کے تعلقات کو یہاں زبان اردو کے استحکام کی بنیاد تصور کیا ہے۔ محمد شاہ کے زمانے میں نواب علی وردی خاں مہابت جنگ کا بہار و بنگال کا صوبہ دار مقرر ہونا، ان کے دامادوں میں سے نواب ہیبت جنگ اور ان کے صاحبزادے سراج الدولہ کا عظیم آباد کا صوبہ دار مقرر ہونا، سراج الدولہ کی صوبہ داری کے زمانے میں ہی راجا رام نارائن کا ان کا نائب بننا، مہابت جنگ کے عہد میں ان کے ایک قرابت دار نواب سید ہدایت علی خان اسد جنگ کا دہلی سے بہار آنا، نواب شجاع الدولہ کے صاحبزادوں مرزا مینڈھو اور مرزا جنگلی کا اپنے مصاحبین کے ساتھ عظیم آباد میں قیام کرنا، اور لکھنؤ سے مرزا جھاؤ لال کا عظیم آباد میں آ کر بس جانا ایسے تاریخی واقعات ہیں جن سے بہار میں اردو گرمئ بزم بنی رہی، عنان حکومت سنبھالتی رہی اور عظیم آباد کی گلیوں میں اٹھکھیلیاں بھی کرتی رہی۔ خیال کا تصور ہے کہ یہاں لودھیوں اور شیر شاہی زمانے میں اس زبان نے ترقیوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کی وجہ سے دلی کا راستہ صاف اور آسان ہوتا چلا گیا تھا۔ برج بھاشا بڑھی اور پوربی و مگھدیسی کے اختلاط نے اسے مزید نکھار عطا کیا۔ حالانکہ یہ صوبہ خود ایک زمانہ سے عربی و فارسی مدرسوں کا مخزن بھی تھا جہاں پٹنہ، بہار شریف، منیر اور پھلواری کی درس گاہیں عربی و فارسی الفاظ کا رواج عام کر رہی تھیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں کی تعلیم کا نظم ساتھ ہی ہوا کرتا تھا جس کے نتیجے میں وہ اردو کو مالا مال کر رہے تھے۔
’ مغلوں کا وقت آیا تو بابر کے بعد ہمایوں نے اس صوبہ کو اپنے قیام سے رونق دی۔ اکبر بھی ادھر آیا اور بہار میں بہت رہا۔ راجا مان سنگھ نے تو اس صوبہ کو اپنا گھر ہی بنا لیا تھا۔ قلعۂ روہتاس ان کی پناہ گاہ تھا۔ قلعہ پر راجا کی حویلیاں اب تک کھڑی ہمارے اور آگرہ و دہلی کے پرانے تعلقات کو یاد دلاتی رہتی ہیں۔ جہانگیر کے زمانہ اور شاہجہاں کے وقت میں وہ تعلقات اور بڑھے۔ ہندو مسلم عہدہ داروں، جاگیرداروں اور امیروں کے ساتھ اوسط طبقہ کے لوگ بھی بکثرت اُدھر سے اِدھر آئے۔ اور بہار کے قصبہ اور دیہات تک ان سے آباد ہو گئے۔ سلطان شجاع (شاہجہاں کا منجھلا شہزادہ) اپنے پچھائیں لشکر اور دہلی کے عملہ کے ساتھ بنگال کے علاوہ بہار میں بھی مدتوں رہا۔ ان تعلقات نے اس صوبہ کی زبان و معاشرت کو دہلی سے کبھی دور نہ ہونے دیا۔ پرانی زبان پر ہمیشہ جلا ہوتی اور اپنے مرکز سے وہ ہٹنے نہ پاتی تھی۔‘ (ہماری زبان، 10)
خیال کا تصور ہے کہ دہلی اور پھر لکھنؤ سے تعلقات کی وجہ سے بِہار میں اردو اپنے کمال سے آشنا ہوتی رہی۔
’مرزا (عبد القادر بیدل) سے پٹنہ خالی ہوا تو افسوس کے ساتھ سمجھا گیا تھا کہ اس شہر اور اس صوبہ سے علم و فضل کے ساتھ زبان بھی رخصت ہو گئی۔ مگر ہماری خوش نصیبی سے اسی زمانہ میں مرزا موسوی خانِ فطرت کا سا علامۂ وقت دہلی سے پٹنہ آیا۔ عالمگیر نے انہیں بہار کی دیوانی بخشی۔ بڑے خدم و حشم کے ساتھ وہ ادھر آئے اور پٹنہ میں مقیم ہو گئے۔ دہلی کی زبان و معاشرت یہاں ان کے دم سے اور چمکی اور عرصہ تک روشن رہی۔‘ (ہماری زبان، 11)
حالانکہ ان کا یہ تصور بھی تھا کہ عظیم آباد پر لکھنؤ کی زبان کا کوئی معتد بہ اثر کبھی نہیں پڑا۔ آئندہ ادوار میں بھی یہ صورت حال قائم رہی۔ اورنگ زیب کا پوتا عظیم الشان جب بہار کا صوبہ دار ہوا تو پٹنہ عظیم آباد بن گیا۔ اس کے بعد محمد شاہ کے عہد تک بہار، خصوصاً عظیم آباد، دلی والوں کا گھر آنگن ہو گیا تھا۔ محمد شاہ کے ہی زمانے میں نواب علی وردی خان مہابت جنگ بہار و بنگال کے صوبہ دار مقرر ہوئے تھے۔
’ان عہدوں میں دلی اور پانی پت کے امیروں کو بہار میں بیش قرار جاگیریں اور آل تمغہ عنایت ہوئے۔ وہ امرا ادھر آئے اور اپنے علاقوں کے انتظام میں یوں لگے کہ دلی کو سلام کر کے عظیم آباد میں آباد ہو گئے اور یہاں کی خاک میں مل گئے۔‘ (ہماری زبان، 11)
خیال لکھتے ہیں کہ نواب پیر سید رستم علی خاں اور نواب باقر علی خاں دلی و پانی پت کے ان امرا میں سے تھے جن کی زبان و معاشرت کا عظیم آباد و بہار پر خاص اثر پڑتا رہا۔ ان کے زمانہ میں عظیم آباد چھوٹی دلی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جو اردو دلی میں رائج تھی وہی عظیم آباد میں بولی جاتی تھی۔ لیکن پلاسی کی جنگ کے بعد معاملات بگڑنے لگے تھے کیونکہ بنگال و بہار پر میر جعفر و میر قاسم کے قبضے کے بعد بہار کے قدیم دہلوی خاندان جو اس وقت تک باقی تھے، نئے نوابوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ لہذا ان قدما کے خلاف سازشیں کی جانے لگیں اور ان کے مٹانے کی ترکیبیں بھی کی گئیں۔
’مہابت جنگ کے گھر کو تباہ کرنے کے بعد نواب رستم علی خاں اور نواب باقر علی خاں اور پھر اسد جنگیوں کی بربادی کا سامان کیا جانے لگا۔ یہ خاندان مٹ رہے اور اردو کے ہوا خواہ ہاتھ مل رہے تھے کہ اب اس زبان کی تباہی کے دن بھی آ لگے۔ مگر اس وقت تک اردو کا ستارہ گردش میں نہیں آیا تھا۔ دہلی کی کان سے ایک اور جوہر نکلا اور وہ عظیم آباد میں چمکا۔ یہ جوہر نواب اشرف علی خاں فغاں (کوکبۂ احمد شاہ بادشاہ) تھے جو شاہجہانی قلعہ سے دور ہو کر عظیم الشان کے بسائے ہوئے شہر میں آباد ہو گئے۔ نواب فغاں کی زبان دلی میں بھی ممتاز تھی۔ وہ قلعہ (دہلی) میں پلے اور اس اردو کے مالک بنے جو اس وقت تک قلعۂ معلی کی ملکیت سمجھی جاتی تھی اور اردوئے معلی کے لقب سے یاد کی جاتی تھی۔ یہ زبان لے کر وہ ادھر آئے اور قدیم اُمرائے عظیم آباد کے ساتھ مل کر رہنے لگے۔ نواب فغاں کے دم سے عظیم آباد و بہار کی گرتی ہوئی زبان ابھری اور وہ غدر تک قائم رہی۔‘ (13)
راجا رام نارائن موزوں اور ان کے فرزند راجا بینی نارائن کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ عظیم آباد ایک اور خاندان کی جہت سے بلند نام ہوا۔
’محلۂ صادق پور اس شہر کا وہ گھر تھا جہاں علم و ادب نے پرورش پائی۔ غدر نے اس بڑے اور بھرے گھر کو بھی لوٹا اور اس کے عالیشان محلوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔‘ (18)
جنگِ بکسر کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے تین نفوس کی ایک کونسل مقرر کی تھی۔ دھیرج نرائن (راجا رام نرائن کے بھائی) اس وقت تک بہار کے نائب دیوان تھے۔ مگر اس کونسل میں ان کی جگہ مڈلٹن (پٹنہ میں افیم گودام کے افسر) کو دی گئی اور انھیں صرف ایک رکن کے طور پہ شامل کیا گیا۔
’یہ نیا انتظام ہمارے مذاق کے خلاف ہونے کے ساتھ ہماری زبان کو بھی نقصان پہچانے والا تھا، اس لئے کہ کسی غیر قوم کو کسی غیر زبان سے کبھی الفت نہیں ہو سکتی۔ اردو کو واقعی بڑا دھچکا لگتا، مگر دلی کا ایک شیر اس وقت وہاں موجود تھا۔ مہاراجا شتاب رائے بادشاہ (شاہ عالم) کے سفیر کی حیثیت سے وہاں تشریف رکھتے تھے۔ ان کا علمی مذاق اور اپنی زبان سے ان کی الفت مشہور ہے۔ ان کی جہت سے اردو بگڑتے بگڑتے بنی۔ اور جب مہاراجا کو دھیرج نرائن کی جگہ ملی، اور بعد کو وہ بہار کے نائب دیوان مقرر ہوئے تو اردو کے بخت بھی چمکے اور اس زبان کا نام پھر بلند ہونے لگا۔‘ (14)
دلی کے اجڑنے کے بعد لکھنؤ والوں سے عظیم آباد کے لسانی رشتوں کو اجاگر کرتے ہوئے انیس کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں کہ
’یہ تھیں وہ صحبتیں جس نے بہار کی زبان کو ہمیشہ سنبھالے رکھا۔ مگر وہ دن ختم ہوئے اور وہ راتیں خواب ہو گئیں۔ زبان کی صحت اور اس کی درستگی جن کے دم سے باقی تھی وہ ہم سے رخصت ہو گئے۔ ہم کو اب اپنی موجودہ زبان پر نظر کرنی اور اس کے بگڑ جانے کی وجہ سمجھنی چاہیے۔ موجودہ انگریزی تعلیم ہی ایک ہماری عدو نہیں، ہمارے اصل دشمن اردو تحریر کے لئے وہ حروف ہیں جو 1870ء میں جبراً ہم سے قبول کروائے گئے۔ ہماری شین قاف تک اس سے بگڑی، اور شریف رذیل کے ماتحت کر دیے گئے۔ بہاری اگر اپنی زبان کا سنبھالنا اور اشراف بنے رہنا چاہتے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے کھوئے ہوئے حرفوں کی واپسی کا مطالبہ کریں اور اپنی ہر تحریر میں ان کا رواج دیں۔ ورنہ وہ سنتھال، بھیل اور کول بن کر رہ جائیں گے۔ اور زمانہ ان کی تاریخ مٹا کر انھیں خاک سیاہ کر دے گا۔‘ (20)
ظاہر ہے کہ خیال کا متذکرہ ماحول سے متاثر ہونا ناگزیر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظیم آباد کی وہ علمی رونقیں یوں ماند پڑنے لگیں کہ خیال کے لئے سوہان روح ہو گئیں۔ انھوں نے رسالہ ’ندیم‘ کے مدیر کو ۷مئی 1934ء کے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ
’میں نے اپنے وطن کو 34 برس قبل سلام کیا تھا۔ کلکتہ کے قیام نے اس وقت اتنا سمجھایا تھا کہ بہار انسان پرور نہیں ہے اور وہ اپنوں سے زیادہ غیروں کا ساتھی ہے۔ 1920ء میں صوبہ الگ ہوا۔ اس کی نبض شناسی کے لئے میں عظیم آباد گیا اور وہاں ایک سال رہا۔ اس دفعہ زیادہ تلخ تجربہ ہوا اور اچھی طرح سمجھ میں آ گیا کہ بہار کیا ہے!ً کلکتہ آ گیا، اور پھر اپنے وطن جانے کی جرات نہ کر سکا۔‘ (مکتوبات خیال 1935، 21)
مولوی حمید عظیم آبادی کو خیال دسمبر 1923ء میں ہی لکھ چکے تھے کہ عظیم آباد پر روئیے کہ اس شہر کا اب یہ عالم ہوا کہ دوسرے اس پر ہنسیں اور دہقانی عظیم آبادیوں کا مضحکہ اڑائیں۔ (نصیر حسین خیال کے دو خطوط 1950، 19-20)
شاد و خیال کے زمانوں میں عظیم آباد کی عمومی حالت دگرگوں تھی۔ بالفاظ نقی احمد ارشاد، مسلمان زمیندار شہروں میں رہ کر مشاعرے کیا کرتے تھے یا مجالس عزا، محرم کے اکھاڑے، رنڈی بازیاں، کبوتر بازیاں، اور اس کے لئے زمینداریوں کو بیچ کر بے دریغ دولت لٹاتے تھے۔ (کاروان رفتہ, 166) علاوہ ازیں اگر دولتمند مسلمان تعلیم کی طرف راغب بھی ہوئے تو اپنے بیٹوں کو صرف بیرسٹری پڑھواتے تھے۔ ان میں کمانے والے کم اور فیشن دکھانے والے زیادہ تھے۔ علی سجاد عظیم آبادی کے حالات رقم کرنے کے دوران خیال نے بھی عظیم آباد کی ایسی ہی تصویر کشی کی ہے۔ ان سب کے باوجود خیال نے ہمیشہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں دہلی کے بعد عظیم آباد کو اردو کے اہم ترین مرکز کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کے ذہن میں سدا ہی وہ مستند و مستحکم لسانی و ادبی روایتیں موجود رہی ہیں جن کی وجہ سے سرزمین بہار عرصۂ دراز تک علما و فصحا کا مسکن بنی رہی اور ان کی صحبتوں کے فیض سے اپنے آپ کو نکھارتی، سنوارتی رہی۔ ان کا خیال تھا کہ
’دہلی اور لکھنؤ میں صرف پیدا ہو جانے سے زبان نہیں آتی، اور کہیں باہر پیدا ہونے سے زبان نہیں بگڑتی ہے۔ اس کے لئے صحبت اور صرف صحبت درکار ہے۔ گرد و پیش جیسے لوگ ہوں گے اور جیسی صحبت ملے گی، ویسی زبان آئے گی۔‘ (کاروان رفتہ، 166)
خود اپنی زبان کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ
’وہ نہ بہاری ہے اور نہ عظیم آبادی۔ اور میں نہ تو دلی والوں کی تقلید کرتا ہوں اور نہ لکھنؤ والوں کی۔ ہماری کسی تحریر کو شائع کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ عظیم آباد کی زبان ہے، غلط ہو گا۔ موجودہ دہلی تو بہ حیثیت زبان اب کوئی درجہ نہیں رکھتی، مگر لکھنؤ اب تک فصحا کا مرکز ہے۔ میں نے وہاں کے بھرے جلسوں میں ہانکے پکارے کہہ دیا ہے کہ اُس لفظ یا اُس محاورہ کو آپ حضرات یوں بولتے ہیں، لیکن ہماری زبان پر اس طرح ہے! کوئی کچھ نہ کہہ سکا۔ خیر، یہ بات اور ہے۔ اور ہر آدمی کو ایسی جرأت مناسب نہیں۔ ‘ (نصیر حسین خیال کے دو خطوط 1950، 19)
’ ندیم‘ کے مدیر انجم مانپوری سے ہی انھوں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’آپ نے عظیم آباد کا اب گلہ کیا اور میں اسے تیس برس قبل رو چکا ہوں!ً وہاں انسان تو انسان، اب آدمی بھی نہ رہے۔ اس شہر کو بھی شاعری کھا گئی۔ ‘‘ (مکتوبات خیال 1935، 5) ان کے نام لکھے 23 مارچ 1934 کے مکتوب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’جس محبت و یگانگت سے آپ نے مجھے یاد کیا ہے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے جو تجویز پیش کی وہ کتنی ہی اہم و ضروری کیوں نہ ہو مگر بہار کے حضرات کا اس کی طرف متوجہ ہونا خیلے دشوار ہے۔ اس لئے کہ گو ’ندیم‘ عرصہ کے بعد ایک مذاق اس صوبہ کو دے رہا ہے مگر ابھی وہاں اردو سے بہت دوری ہے اور جن کے ہاتھوں میں اس وقت بہار کی باگ ہے وہ علم و ادب کا ذوق نہیں رکھتے اور زبان کے مسئلہ کو نہیں سمجھتے ہیں۔ پھر کیا امید کی جائے کہ اردو کے متعلق وہاں آپ کو وہ کامیابی حاصل ہو سکے گی جس کے آپ متمنی ہیں۔ میں تو مایوس ہوں اور اسی وجہ سے اب تک پٹنہ نہیں گیا کہ اس سفر کو فضول سمجھا۔‘ (مکتوبات مشاہیر، 22)
انھیں ہی مکتوب مؤرخہ 22 اگست 1934ء میں لکھتے ہیں:
’بہار میں اردو کے متعلق آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ مجھے امید نہیں کہ وہاں کچھ ہو سکے۔ بار بار لکھ چکا ہوں کہ چند اچھے لکھنے والوں سے کسی جگہ کی زبان بڑھ نہیں سکتی۔ اور جب تک روزمرہ درست نہ ہو بہار کی زبان اوردو نہیں بن سکتی۔ نہ یہ ہو گا اور نہ وہاں کی زبان ملک میں کوئی درجہ حاصل کر سکے گی!‘ (34)
13 مارچ 1926ء کو بھاگلپور میں اردو کانفرنس کے خطبۂ صدارت میں سید عبد العزیز نے بھی عظیم آباد کی اس صورتحال کی جانب ایک لطیف اشارہ کیا تھا:
’ہمارے پٹنہ میں بھی اس طرح کا اجتماع ’اردو کانفرنس صوبۂ بہار و اڑیسہ‘ کے نام سے قائم کرنے کا سودا کئی سروں میں پیدا ہوا۔ پچھلے سال اس کا ایک جلسہ بصدارت مولوی ظفر علی خاں صاحب اڈیٹر ’زمیندار‘ لاہور بھی منعقد ہوا جس میں بعض قابل عمل اور مفید تجویزیں بھی منظور کی گئیں، مگر جلسہ ختم ہوا اور ساتھ ساتھ کانفرنس بھی ختم ہو گئی۔۔ ۔ آپ کی کانفرنس واقعی قابل ستائش ہے کہ جو کام پٹنہ جیسے مرکزی مقام میں کئی برس سے ہوتا نظر نہیں آتا اسے بھاگلپور ایسی مختصر سی جگہ میں دو برس سے ایک حد تک انجام دے رہی ہے۔ مگر اس سے آپ یہ نہ سمجھ لیجیے کہ پٹنہ اور اس کے نواحی لوگ کام کرنا نہیں جانتے۔ بات یہ ہے کہ وہاں کے زندہ دل اصحاب زبانی کاموں کی طرف نگاہ نہیں کرتے، ان کی توجہ اس سے زیادہ مفید اور عملی امور کی طرف مبذول رہتی ہے، مثلاً دربار، گارڈن پاڑٹیز، کونسل میٹنگ، ڈسٹرکٹ بورڈ، میونسپلٹی کی ممبری اور خلافت و نان کوپریشن کے جلسے!‘ (خطبات اردو، 7-8)
پٹنہ یا عظیم آباد سے وابستہ معاصر ذی علم اور اہل قلم حضرات کو خیال نے بار بار یہ تاکید کی کہ زبان اردو کو بگڑنے نہ دیں، اس کا وہ معیار قائم رکھیں جس کی وجہ سے عظیم آبادی اردو تفحص زبان کے معاملے میں مثالی سمجھی جاتی رہی ہے، اور جسے سنوارنے میں خود عظیم آباد نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس معاملے میں خیال اپنے ماموں شاد عظیم آبادی کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ شاد کی زبان کے سلسلے میں خیال کا یہ کہنا کہ وہ نہ تو دہلوی ہے اور نہ ہی لکھنوی، بلکہ ایک خاص قسم کی زبان ہے، زبان کے تئیں خیال کی حساسیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ شاہ ولی الرحمن کاکوی نے اپنے بھائی شاہ منظور الرحمن اختر کاکوی (شاگرد شاد) کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ
’شاد کی غزلوں کا انتخاب ہو رہا تھا۔ نواب خیال بھی اس مجلس میں شریک تھے اور بعض اشعار کے متعلق فرماتے تھے کہ میں نے یوں نہیں، یوں سنا ہے۔ ایک روز سید صاحب (شاد کے صاحبزادے) نواب صاحب سے بگڑ گئے کہ آپ ابا جان کی غزلوں کو ترمیم و اصلاح سے خراب کر رہے ہیں۔ نواب صاحب بھلا کب چوکنے والے تھے۔ آپ نے بے ساختہ جواب دیا کہ تم کیا ہو، تمہارے ابا جان کے سامنے بھی میں ٹوک دیا کرتا تھا۔‘ (نصیر حسین خیال 1956، 197)
اس سے ظاہر ہے کہ دلی اور لکھنؤ کی ہی مانند زباندانی کے سلسلے میں عظیم آباد کی عظمتوں کے احساس و اعتراف کے باوجود اپنے زمانے میں وہاں زبان کے گرتے معیار کی وجہ سے وہ فکرمند رہا کرتے تھے۔ انھیں اگلے وقتوں کی عظیم آباد کی صحبتوں کا بھی بھرپور احساس تھا جب وہ شہر ’نکتہ دانوں اور تمیز داروں‘ سے بھرا پڑا تھا۔ انھوں نے زبان کے سلسلے میں کبھی کوئی مفاہمت نہیں کی اور یہ کہ خواہ کوئی بھی شخص ہو، تفحص الفاظ اور ادائیگیِ مطلب کے معاملے میں کوئی کمی ہوتی تھی تو اس کی گرفت وہ لازمی تصور کرتے تھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...