وہ لان میں بیٹھے سوچوں میں گم تھے ۔ اُنہیں کاروبار میں ایسا نفع ہوا تھا کہ سوچوں میں بھی نہ کبھی ہوا تھا۔ عُنیزہ اُن کے لیے قِسمت والی ثابت ہوئی تھی یہ اُن کا یقین تھا۔ پِچھلے دِنوں اُن کا کارو بار بہت ڈاؤن جا رہا تھا۔ اُنہوں نے عُنیزہ کے کہنے پر ایک جگہ شراکت داری شروع کی تھی اور دِنوں میں اُنہیں نفع ہوا تھا۔ عُنید سے نکاح ہوا تو عُنید کو بھی اسکالرشپ مل گیا ۔ اُن کی یونیورسٹی پچھلے چار سال سے اپنے اسٹوڈنٹس دے رہی تھی مگر اِس بار عُنید رینکنگ لِسٹ میں پہلے نمبر پر تھا۔
جبکہ وہ خود۔۔۔۔
عرصہ ہوگیا اُس کے اور عُنید کے رِشتے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھے جب سعدیہ بیگم اور نُور چائے کا سامان لیے چلی آئیں۔ سعدیہ بیگم بہت پُر سکون تھیں ۔ پِچھلے دِنوں کا جو ڈر تھا وہ تحلیل ہو گیا تھا۔ اُنہوں نے نُور کو اندر سےموبائل لانے کو کہا تا کہ جو خبر وہ اور نُور سُن چُکی تھیں وہ عُنیزہ اور کبیر صاحب کو بھی سُنا سکتیں۔
“کبیر” اُنہوں نے اُنہیں مُخاطب کیا کیونکہ اُنہوں نے اُن کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔
“ہوں؟” وہ چونکے۔
” عُنید واپس آرہا ہے” اُنہوں نے چائے بناتے ہوئے بتایا تو کبیر صاحب یہ سُن کر آگے کو ہوئے۔ یعنی وہ مزید سُننا چاہتے تھے۔سعدیہ نے سکون کا سانس لیا کہ وہ بگڑے نہیں تھے۔
“اُس کا دو تین ہفتوں کا ٹریننگ سیشن ہے پھر وہ آرہا ہے۔ آپا کہہ رہی تھیں کہ آپ بھی عُنیزہ سے بات کر لیں تا کہ وہ اِکٹھے آجائیں۔ ہماری بچی کو سہولت رہے گی” اُنہوں نے کہا تو کبیر صاحب نے سانس ہوا میں خارج کیا۔
“جمال بھائی سے بات ہوئی ؟” اُنہیں جیسے اب بھی یقین نہیں آیا تھا۔
“جی۔ اُنہوں نے عُنید سے کنفرم کر کے ہی مجھ سے ڈسکس کیا ہے” اُنہوں نے چائے اُنہیں پکڑاتے ہوئے کہا۔
اتنی دیر میں نُور موبائل لے آئی تھی۔ وہ خوش تھی کہ اِتنا عرصہ بعد اُس کی بہن واپس آرہی تھی اور سب ٹھیک ہو جانے والا تھا۔ ۔ اُسکا دِل کیا کہ جلدی سے وہ لوگ سامنے آجائیں اور وہ عُنید سے سب شکوے کر سکے۔ اُسنے ابھی سے پلانز بنانے شروع کر دیئے تھے۔ اُس نے دیکھا کبیر صاحب عُنیزہ سے بات کر رہے تھے ۔ وہ اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُسنے دیکھا کہ وہ کافی دن سے خاموش تھی۔ بولتی تو پہلے بھی وہ اِتنا نہیں تھی مگر آج کل وہ بالکل ہی خاموشش تھی۔ پرِیا نے اُس کا موڈ دیکھ کر بات کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ۔ وہ آج فارغ تھی اور گھر پر ہی تھی۔ ڈیڈ بھی آچُکے تھے وہ اکثر گھر سے باہر ہی رہتے تھے۔ عُنیزہ بھی شاید آج جاب پر نہیں گئی تھی کہ جلدی گھر آگئی تھی۔ ۔
پرِیا نے نینی تو سب صورتِحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ وہ بھی عُنیزہ کی خاموشی پر زیادہ تبصرہ نہیں کر پائیں۔ عُنیزہ کو لاؤنج میں خاموش بیٹھے دیکھ کر وہ اُس کے پاس آگئی تھی۔
“آج تمہیں میرے ساتھ پارک جانا ہے” پرِیا نے کہا تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس خاموش نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔
“میں نے ایک سین کیچ کیا تھا اُسی کو پینٹ کرنا ہے۔ تُم بھی آج میرے ساتھ چلو گی۔ میں اکیلی بور ہوتی ہوں” پرِیا نے کہا تو وہ پھیکا سا مُسکرا دی۔
“چلو پھر کھانا کھا لو پھر چلتے ہیں۔ میں سامان سیٹ کر لوں ” وہ اُٹھی اور کمرے کی جانب چلی گئی۔ پرِیا نے نینی کو اُسے سمجھانے کو کہا تھا۔
کھانے کے دوران پرِیا یوں ہی اُٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔ نینی نے عُنیزہ کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔
“عُنیزہ” وہ بمُشکل بولیں۔ اُس نے جھکا سر اُٹھایا ۔” جی” مُختصر سا جواب دےکر اُنہیں دیکھنے لگی۔
“اللہ کے بہت قریب ہو گئی ہو ناں” اُنہوں نے تمہید باندھی تو وہ آنکھوں میں اُلجھن لیے اُنہیں دیکھنے لگی۔ یہ کس قسم کا سوال تھا۔
وہ سوالیہ نظروں سے اُسکے جواب کی مُنتظر تھیں۔ اُس نے ہولے سے سر ہلایا۔
” تُمہیں تو عُنید کا شُکریہ ادا کرنا چاہیے۔ وہ دُور ہوا تو تُم اللہ کے پاس ہوگئیں۔ آہستہ آہستہ تم اسکی ہوتی گئیں جو اگر تم دونوں کو محرم بنانے کا اختیار رکھتا تھا تو یقیناً تب بھی سب ٹھیک کر سکتا تھا۔مگر وہ تُمہیں اپنے قریب کرنا چاہتا تھا تا کہ تُم جان سکو کہ سب کچھ فانی ہے کچھ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ مگر اللہ کبھی فنا نہیں ہوگا۔ وہ کبھی اپنی بات سے پھرتا نہیں ہے ” وہ ہولے ہولے بات کر رہی تھیں۔
“اور اللہ ایسے امتحان تب لیا کرتا ہے جب ہم دُنیا کی محبت میں کھو کر اُس سے دُور ہونے لگتے ہیں۔ وہ بہت پوزیسو ہے اپنے بندوں کے معاملے میں۔ اُسے اچھا نہیں لگتا کہ اُس کا بندہ اُس سے دُور ی اِختیار کرے۔ وہ پھر سب واقعات کو ایسے پلان کرتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے جیسے یہ ہماری تمہاری بھول تھی۔ وہ یا تو کسی کو اس معاملے میں ڈھیل دے دیتا ہے ۔ یا اپنے بہت پاس کر لیتا ہے کہ ہمیں اپنی سانسوں کے زیر و بم میں بھی وہی اللہ نظر آتا ہے۔ ” عُنیزہ خاموشی سے اُن کی بات سُن رہی تھی۔ سامنے پڑی پلیٹ جوں کی توں تھی۔
“تُم عُنید کو تنگ کر لو ناراض رہ لو ۔ مگر بیٹا ! امتحان اُس کا بھی لیا گیا ہے۔ اُسے بھی اللہ نے واپس تُمہاری طرف ہی موڑا ہے۔ کیونکہ اللہ نے تُمہیں ہی اُس کے لیے پسند کیا تھا ۔وہ تب اکڑ گیا تھا ۔ اللہ کو پسند نہیں آیا۔ جیسے مائیں بھی سزا دیتی ہیں ناں کہ نماز نہیں پڑھی تو بس اب ایک وقت کا کھانا تُمہیں نہیں دونگی۔ اِسی طرح اُسے سزا دینا مقصود تھا اور تُمہیں اپنے پاس کرنا ۔ اب دیکھ لو۔ جس دن سے تُمہیں یہاں دیکھا ہے وہ کتنے چکر یہاں کے لگا چُکا ہے۔ مگر تم مل کے نہیں دے رہیں۔ اب آئے تو اُس سے بات کر لینا۔ مسئلے اور جھگڑے بات کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ بھاگ کر یا چُھپ جانے سے نہیں۔ اب اُسے پچھتاووں سے آزاد کر دو” اُنہوں نے بات کے اِختتام پر روتی ہوئی عُنیزہ کے ہاتھ پر تھپکی دی اور وہاں سے اُٹھ گئیں۔وہ اسے سوچنے کا وقت دینا چاہتی تھیں ۔ اور وہ جو کچن میں شیلف کے پاس کھڑی ان کی طرف دیکھ رہی تھی اسکے پیٹ کا درد بھی ٹھیک کرنا تھا۔
کچن میں آئیں تو پرِیا اُن کے گلے لگ گئی۔
” آپ اتنی اچھی سپیچ کر لیتی ہیں کیوں نہ ایک لیکچر کسی یونیورسٹی میں سیٹ کروا دوں” اُس نے اُنہیں آنکھ ماری تو وہ اُس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے ہنس دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُسے پارک میں اُن دونوں کو آمنے سامنے کروانا تھا ۔ وہ اُس کے ساتھ خاموشی سےچلتی جا رہی تھی۔ وہ دونوں سڑک پر چل رہی تھیں۔ عنیزہ اس وقت سوچوں میں گم ماتھے پر تیوری لیے چلتی جا رہی تھی اس نے غور نہیں کیا کہ پرِیا نے کوئی چیز ساتھ نہیں اُٹھائی تھی۔
“مجھے لگ رہا ہے میں وہاں جا کر بھی بور ہی ہونگی۔ کیا فائدہ تمہیں ساتھ لانے کا” وہ بولی تو عُنیزہ سر اُٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔
“چُپ کیوں ہو؟” پرِیا نے پوچھا سبب تو جانتی تھی بس پوچھنا اُس سے چاہتی تھی۔
“فارغ نہ جانیے مُجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اُس چُپ سے ،جو کلام سے آگے نکل گئی”
عُنیزہ نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا اور سرجھکا کر پھر سے چلنے لگی ۔
“”واہ واہ واہ! مزہ نہیں آیا۔ کیونکہ مجھے نہیں آتے یہ شعر وغیرہ” پرِیا منہ بناتی ہوئی بولی۔
وہ لوگ پارک میں داخل ہوئیں تو پرِیا اُسے لیے عُنید کی مخصوص جگہ پر آگئی۔ وہاں بینچ پر بیٹھ کر دونوں خاموشی سے جھیل کی طرف دیکھتی رہیں۔
“بولو بھی اب” پرِیا نے کہا۔
“کُچھ ہے نہیں بولنے کو۔ کیا بولوں” وہ سر جھکائے جھیل کے پانی کو دیکھتی آہستہ سے بولی۔
” پھر اِسے بولنے دو”پرِیا اُٹھی اور اُسے اُسکی دائیں طرف جگہ دی۔ مگر وہ سامنے گھاس پر بیٹھ گیا۔ اُس نے اُسے دیکھا۔ وہ ملگجی سی حالت میں تھا۔ مسلی ہوئی سکائے بلیو ٹی شرٹ اور ٹراؤزر، الجھے ہوئے بال اور سرخ آنکھیں۔۔ وہ اٹھی کر جانے لگی تو پریا نے کندھوں سے پکڑ کر بٹھایا۔
“عُنیزہ!” عُنید نے اُسے پکارا تو اُس کا دل پگھل پگھل گیا۔ اللہ نے واقعی اُن کو ٹھیک جگہوں پرفٹ کیا تھا۔ وہ رو دینے کو ہوئی۔ اُس نے خود کو سنبھالا اور اپنے بائیں طرف دیکھنے لگی۔ ہاتھ بینچ پے سختی سے جمائے ہوئے تھے ۔ وہ ضبط کی آخری حدوں پر تھی۔
” میں کوئی وضاحت نہیں دوں گا عُنیزہ ! میں معافی تلافی نہیں کرو ں گا میں صرف تمہیں دیکھنے کی اجازت چاہتا ہوں” اُس نے کہا تو عُنیزہ نے تیزی سے منہ موڑا تھا۔ وہ اُس کے سامنے گھاس پر دو زانوں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ عُنیزہ کا دِل رو پڑا۔ آنکھیں خشک ہو رہی تھیں اور زبان گنگ۔
وہ تینوں خاموش تھے ۔ نہ عُنید نے مزید کُچھ کہا ۔ نہ عُنیزہ نے کچھ سُنا۔ نہ ہی پرِیا نے کچھ بو لنا چاہا۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اُن کے درمیان خاموشی بول رہی تھی۔ اور سب زبانوں سے افضل خاموشی کی زبان ہے۔سب بولوں سے زیادہ افضل اسی خاموشی کے بولوں کو سمجھنا ہی ہے۔
اُن دونوں نے اچانک سر اُٹھایا تھا پہلے حیران ہوئے اور پھر مُسکرا دیے۔ عُنیزہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگی تھیں ۔ عُنید نے ہاتھ بڑھا کر اسکی آنکھ سے چھلکنے والا آنسو گرنے سے روکا۔ مگر اُسے رونے سے نہیں روکا ۔ دونوں بس ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ عُنیزہ سر جھکائے بیٹھی تھی جبکہ عُنید اُسے دیکھ رہا تھا۔
” اچھی سی بنانا تصویر” وہ اچانک بولا تو عُنیزہ نے الجھی ہوئی سی نظریں اُٹھائیں ۔ اس نے دیکھا کہ پرِیا موبائل لیے ایک طرف کھڑی منہ کھولے عُنید کو دیکھ رہی تھی۔
“تُم مجھے یہاں کے نہیں لگتے۔ آئی سوئیر تم ہو ہی نہیں یہاں کے” وہ سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے عُنیزہ کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی۔ اور عُنید قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔” میں واقعی یہاں کا نہیں پاکستان سے ہوں ” پرِیا اُسے گھورنے لگی تھی۔
“کیا ہوا ہے؟”عُنیزہ ابھی بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ ” یہ محترمہ ہماری تصویر لے رہی تھیں ۔بس عین وقت پر میں بول پڑا ” وہ ہنستے ہوئے بتا رہا تھا۔
“تم بہت۔۔۔۔ گھنے انسان ! اللہ پوچھے تمہیں۔۔” وہ منہ بنائے بیٹھی تھی.” تمہیں معلوم کیسے ہو جاتا ہے ہر بات کا”
“اِٹس این آرٹ میڈم ” وہ شرارت سے بولا تھا۔
” بہت تیز ہے یہ عُنیزہ ! اِس سے بچ کے رہنا” وہ اُسے کہنے لگی۔
“اور اس ہیلن آف ٹرائے کا بھی تمہیں اچھے سے پتہ ہوگا” وہ اُس کی طرف اشارہ کر کے عُنیزہ سے کہنے لگا۔
“اوہ ہیلو! میں نہیں کوئی ہیلن ویلن ۔ اِنتہائی فلرٹی عورت تھی وہ” وہ چِڑ کر بولی۔
“تو مجھے کس تُک سے اُس اپالو سے ملایا تھا؟ پیارا تھا وہ ٹھیک ہے لیکن تھا وہ بھی فلرٹ ہی۔۔ اور تو اور اس دن نینی نے بھی کہا تھا کہ جنگجو تھا۔ نہیں میں تمہیں کہاں سے ایسا لگا تھا؟” وہ بھی گھورنے لگا۔ وہ دونوں اب اِسی ایک بات پر جھگڑ رہے تھے۔ عُنیزہ سر پکڑ کر بیٹھ چُکی تھی۔ جب پرِیا کو لگا کہ اُس کے دلائل اب ختم ہو چُکے ہیں تو وہ بولی
“تُم چُپ ہی اچھے تھے” جس پر وہ دونوں ہنسنے لگے تو پرِیا بھی ہنس دی۔
دن کا اِختتام بہت اچھا ہوا تھا۔ اگلے دن کا سورج بے شک بہت اچھا طلوع ہونے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج موسم بہت خوشگوار تھا۔ اسلامک سینٹر کے وزیٹنگ روم میں ایک طرف قرآن ٹیبل تھا۔ چاروں طرف دبیز قالین بچھایا گیا تھا۔ آرام دہ صوفوں پر بیٹھے ہوئے قالین پر قدم جمائے ہوئے اُن دو لوگوں پُر سکون ماحول کی ہیبت طاری تھی۔ دل سکون سے بھرے پڑے تھے اور جسموں پر لرزا طاری تھا۔
پرِیا تھی کہ رو دینے کو تھی۔ وہ بار بار عُنیزہ سے پوچھتی” کیسی لگ رہی ہوں؟ ٹھیک بیٹھی ہوں؟” ہاتھ پسینے سے بھیگ رہے تھے ۔ عُنیزہ مُسکرا کر کہتی”اللہ تمہیں یوں بھی پسند کرتا ہے ۔ نروس مت ہو۔ وہ بہت خوش ہے تم سے” اور وہ خوش ہو کر اپنے ڈیڈ کی طرف دیکھتی۔ اُن کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔ نظریں ملتیں تو مسکرا دیتے اور واپس قالین پر نظریں جما لیتے۔
اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر اُن سب کی نظریں اُس طرف اُٹھیں ۔ عُنید کی معیت میں امام مسجد اور اسلامک سینٹر کے ڈائر یکٹر اُن کے طرف چلتے ہوئے آئے اور اُن کے سامنے موجود صوفوں پر بیٹھ گئے۔ جبکہ عُنید پرِیا کے ڈیڈ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سلام دُعا کے بعد ڈائریکٹر نے پوچھا
“آپ رتیش صاحب ہیں؟”
“جی” وہ ہولے سے بولے۔
” کیا آپ کسی جبر یا زبر دستی کے تحت۔۔۔” اُنہوں نے سب سے پہلے اہم سوال پوچھنا مُناسب سمجھا جب رتیش صاحب نے اُن کے بات کاٹی۔
“نہیں سر! میں نے مکمل نالج لیا ہے۔ میری بیوی بھی اسلام کی دیوانی تھی۔ اُس نے بہت سا نالج اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق جمع کر رکھا تھا۔ میں نے وہ بھی پڑھا ہے۔ میں نے بھی پچھلے دس سال سے اسلام کو بہت اسٹڈی کیا ہے۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ میں بھی اُس ایک اللہ کے پاک کلمے کو پڑھوں۔۔ میں کسی بھی مسلمان سے یہ کلمۂ حق پڑھ سکتا تھا۔ مگر کسی عالم ِ دین سے پڑھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا” وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتا رہے تھے۔
“میں چاہوں گا کہ آپ اپنی بیٹی سے بھی اِس بارے میں پوچھ لیں” امام مسجد نے نرم لہجے میں کہا تو پرِیا جو پہلے بہت نروس سی بیٹھی تھی بولی
“سر میں اسلام سے صرف ایک کلمے کی دُوری پر ہوں۔ وہ بھی یوں نہیں کہ میں نے کلمہ پڑھا نہیں ہے۔ میں نماز پڑھتی ہوں اور اقرار بھی کرتی ہوں کہ میں ایک اللہ کو مانتی ہوں۔ اور آخری نبیﷺ پر ایمان رکھتی ہوں ۔صرف یہ خواہش تھی کہ ہم ایک بار اسلامک سینٹر جا کر کلمہ پڑھیں ۔ یہ میری ممی کی بھی خواہش تھی”
امام صاحب اور ڈائریکٹر نےایک دوسرے کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور امام صاحب نے رتیش صاحب سے کہا کہ آپ کلمہ میرے پیچھے دُہرائیں ۔ کلمہ پڑھتے ہی وہ قالین پر سجدے میں گِر چُکے تھے۔ عُنید اور عُنیزہ بھیگی آنکھوں سے اُنہیں دیککھ رہے تھے۔
ہم بس نام کے مسلمان ہیں۔ اصل مسلمان تو آجکل وہ ہیں جو اسلام کو سیکھ کر اُ سکی طرف آتے ہیں ۔ ہمارے نمازوں سے رُوح ختم ہو چُکی ہے۔ مگر سجدۂشکر میں گرنے والے انسان سے اُس سجدے کی اہمیت پوچھی جائے تو وہ سجدہ اُس کی ذات کو اللہ کے سامنے تحلیل کر دیتا ہے۔ بس تب اللہ ہوتا ہے اور باقی سب کہیں دُور رہ گیا ہوتا ہے ۔ دل تو ہمارے کہیں کھو چُکے ہیں کہ ہم نو مُسلم لوگوں کے ماضی کو کُریدتے ہیں مگر اُن کا حال ہم نہیں سمجھ پاتے۔ ضمیر تو ہمارے سو چُکے ہیں کہ ہم اسلام پر چلنے والوں کو ‘کنزروڈ ‘ اور’سٹیریوٹائپس’ کہہ کر راستے میں چھوڑ جاتے ہیں ۔ ضرورت تو ہمیں ہے کہ ہم اپنے اعمال کو پرکھیں۔ جو انسان خود کو ‘ٹھیک’ اور ‘ آلویز رائٹ ‘ کہتا ہے ضرورت تو اُسے ہے کہ اپنی اِصلاح کرے ۔ ہم کون ہوتے ہیں کسی کی ذات کو پرکھنے والی اور بِن جانے بات کر دینے والے۔اللہ کو ہم بہت دُور چھوڑ آئے ہیں۔ اُس کے اور ہمارے درمیان بس اب دُنیا رہ گئی ہے۔
“عُنیزہ !” پرِیا نے اُسے مُخاطب کیا تو وہ چونکی۔اور سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی۔
“میں اب کی بار تمہارے پیچھے یہ پاک کلمہ دہرانا چاہتی ہوں عنیزہ علی!!” وہ اُسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تو عُنیزہ حیران نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔ عُنید کی طرف دیکھا تو وہ مُسکرا رہا تھا، اُس کا حوصلہ بڑھا ۔
اُس نے پرِیا کا ہاتھ تھامتے ہوئے اُسے کلمہ پڑھایا۔ پرِیا آنکھیں بند کیے کلمہ پڑھ رہی تھی۔ کلمہ پڑھا کر عُنیزہ نے اُس کا ماتھا چُوما تھا۔
“آپ لوگ نام بدلنا چاہیں گے کیا؟” ڈائر یکٹر صاحب نے پُوچھا۔
” جی! میں چاہتا ہوں میرا نام عابد درج کیا جائے میری بیوی میرا یہی نام چاہتی تھی” وہ بولے۔ لہجے میں محسوس کیے جانے والی مٹھاس تھی۔ دل اب تک سجدۂ شکر میں تھا۔
” میرا نام تُم بتاؤ” وہ عُنیزہ کی طرف جھکی۔
” تم۔۔۔ تم آج سے فاطمہ ہو۔ اللہ تمہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ہی نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے” اس نے کہا تو سب بے ساختہ ‘آمین’ کہہ اٹھے۔
“اللہ آپ لوگوں کا حامئ و ناصر ہو اور آپکو اسلام کی صحیح روح سمجھنے کی توفیق دے آمین!” امام صاحب نے کہا اور ڈائریکٹر صاحب کے ساتھ باہر کو چل دیے جبکہ وہ لوگ واپس گھر کی جانب روانہ ہوئے جہاں نینی اُن کا شدت سے انتظار کر رہی تھیں۔ سب کے دِل اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے کہ اُن میں سے کسی ایک کو بھی ‘اُس’ نے خالی ہاتھ نہ چھورا تھا۔ بے شک اُس نے بہت سے ہجر دیے تھے مگر آخر کو ‘اُس’ بے نیاز نے’ وعدہ وفا’ کیا تھا۔
“بے شک ‘اللہ’ ہر چیز پر قادر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں بتا رہی ہوں مجھے اس کا لہنگا بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ چینج کرواؤ اسے” فاطمہ فرش پر پاؤں مارتی ہوئی بولی۔
“کیوں اب تمہیں کیا مسئلہ نظر آگیاہے اس میں؟ پہلے ہی نور نے اتنا تنگ کر رکھا تھا” وہ غصے سے پانی کا گلاس میز پر پٹخ کر بولا۔
شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی ہر طرف ہڑبڑ سی مچی تھی۔ فاطمہ اور عابد صاحب بھی پاکستان ان کی شادی پر آئے ہوئے تھے۔ جبکہ نینی کو عُنیزہ اپنے ساتھ ہی لیتی آئی تھی۔ اب جب کل رات میں مہندی تھی اور اگلے دن رخصتی تھی تو وہ لہنگا جس میں پہلے نور نے ہزار کیڑے نکالے تھے، وہ اس کے ساتھ جا کر چینج کروا کر لایا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب پریا یعنی فاطمہ نے یہ لہنگا دیکھا تو وہ منہ بنائے پھر رہی تھی۔ وہ اور عابد صاحب عنید ہی کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ جہاں عابد صاحب کو جمال صاحب کی کمپنی نے سرور بخشا تھا وہیں فاطمہ ہر وقت عُنید کا سر کھائے رکھتی تھی۔ جیسے ابھی وہ کچھ دیر پہلے سالی کی فرمائش پوری کر کے آیا تھا۔اور اس نے فوراً سے فاطمہ کو تصاویر واٹس ایپ کر دی تھیں۔ وہ خود تو بہت خوش تھی مگر اب فاطمہ کو پتنگے لگ چکے تھے۔
“کتنا ڈل کلر اٹھا لائے ہو۔ نور تو ابھی بچی ہے اسے کیا پتہ ان باتوں کا۔ نیمو پر یہ ڈل کلر اچھا نہیں لگے گا۔ تم بس اسے واپس کر کے آؤ ابھی۔ یا میں نور سے کہتی ہوں اپنے لیے رکھ لے اتنا ہی پسند ہے تو” وہ اپنی جان سے پیاری دوست کے لیے حد سے زیادہ پوزیسو ہو رہی تھی۔وہ لائٹ پیچ کلر میں کھلا گھیردار سا شرارہ اور اوپر سے نیٹ کا شارٹ سا فراک ۔۔۔ اُف۔۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس لڑکی کو اس بے ہودہ سے لباس میں۔۔ کیا اٹھالائے تھےعقل کے اندھے۔
“وہ جس نے پہننا ہے اس نے تو ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔ تم لوگ ایویں کوّوں کی طرح جان کھا رہی ہو میری” وہ چڑ کر اس کی طرف مڑااور اس کو گھورنے لگا۔
“آنٹی یہ دیکھیں کتنا گندا سا رنگ اٹھا لایا ہے بسورا سا” وہ پاس سے گزرتی عائشہ بیگم کو بھی گھسیٹ لائی۔
“کوئی خدا کا خوف کر لیتے عنید۔۔ یہ کیا کر دیا۔ ابھی کل مہندی ہے ۔ تم اگر اس سے یا کم از کم مجھ سے ہی مشورہ کر لیتے تو کیا چلا جاتا۔ پہلے والے کو کیا آگ لگ گئی تھی؟” وہ تو تصویر دیکھتے ہی بھڑک اٹھی تھیں۔ اور فاطمہ صاحبہ اب بڑے فخر سے ابرو اچکائے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اس کا کام ہو چکا تھا۔ اب تو ظاہر ہے عنید صاحب کو مرتے کیا نہ کرتے اسی ڈیزائینر کے پاس تیسری دفعہ خوار ہونا ہی تھا۔
“ایک تو زبردستی سبھی کی دوست بنتی ہے پھر بھی کہتی ہے میرا کوئی دوست نہیں. زندگی عذاب کر دی ہے. رخصتی کے بعد نظر آئے سہی یہ عنیزہ کے آس پاس” وہ کڑھ کر سوچتا ہوا دھپ دھپ کرتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دن چڑھنے کی دیرتھی بس۔۔ اور یوں ہنگامہ مچا تھا کہ جوان سب اپنی جگہ مگر بڑے بوڑھے بھی اس رخصتی کو دیکھنے کو بے قرار تھے۔ ان گزرے سالوں میں جو کچھ ان دو خاندانوں نے برداشت کیا تھا وہ بے حد تکلیف دہ تھا۔ اور اب جو کچھ دن سے عنید کی کبھی ایک شہر میں دوڑیں لگتی تھیں تو کبھی دوسرے میں۔
وہ الگ کہانی تھی۔
وہ جو بہت ہی اکڑ کر بیٹھا تھا کہ سامنے دروازے میں قدم رکھتی لڑکی پر ایک بھی نظر نہ ڈالے گا کہ اس نے گزرے دنوں میں ایک جھلک بھی نہ دکھائی تھی، اب کنکھیوں سے اسی راہ کو تک رہا تھا۔ نور اور فاطمہ کے ساتھ سہج سہج کر قدم رکھتی وہ اس دنیا کی لگتی ہی نہ تھی۔
مگر ایک منٹ۔۔۔
یہ ساتھ میں پریا۔۔۔فاطمہ ہی تھی ناں؟
رائل بلیو کرتی جس پر نارنجی رنگ کے پیچ لگائے گئے تھے اور گھیر دار کھلا سا لہنگا۔۔ دوپٹے کو سلیقے سے بائیں کندھے پر جمائے وہ عنیزہ کے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتی پرانی پریا لگتی ہی نہ تھی جو ہر وقت پینٹس شرٹس یا شلوار ، سوٹ میں ملبوس رہتی تھی اب اچھی خاصی سلجھی ہوئی لڑکی لگتی تھی۔ وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔ اور وہ جو پرسوں اپنی بہن کے لہنگے کےلیے اس سے اتنا جھگڑی تھی اب کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ ایک جنگلی بلی ہے۔ نارنجی کُرتی جس پر سنہرا کام کیا گیا تھا ، ساتھ میں میرون شرارہ اور گہرا سبز دوپٹہ جو اس کے خیال میں بے کتا ہی لگ رہا تھا۔۔ مگر نور کو سجا گیا تھا۔اور جو ان کے درمیان ایک ایک قدم رکھتی جانے کیسے اتنے بڑے لہنگے کو سنبھالے ہوئے تھی ، چلتی آ رہی تھی۔ کنکھیوں سے دیکھتا ہی کیوں جب سب حق رکھتا تھا۔ اور پھر یہ موقع آئےگا ہی کب۔۔۔ ایک ہی تو موقع تھا۔۔
وہ اسٹیج پر آئی تو وہ سپرنگ کی طرح اچھل کر کھڑا ہوا۔ نور اور فاطمہ اسے شوخ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ عنیزہ کے ساتھ بیٹھتے ہی وہ بھی ٹک گیا۔ نظریں سامنے تھیں مگر دل پہلو میں۔۔
“عُنید!!” وہ سامنے کیمرہ مین کی طرف دیکھ رہا تھا جب پہلو سے ہلکی سی کانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
خیال باندھ کے لاؤں کمال کر ڈالوں
تمہاری ذات کو پھر بےمثال کر ڈالوں
جو تو پکارے تو پھر مجھ پہ وجد طاری ہو
میں پاؤں جھوم کے رکھوں دھمال کر ڈالوں
میرون اور گولڈن امتزاج کا لہنگا جس پر گولڈن ہی کام کیا گیا تھااس کے وجود کو چمکا رہا تھا ۔ ایک تو قدرت کا دیا گیا بے بہا حسن اورپھر بیوٹیشن کے ہاتھوں کا کمال۔۔۔ وہ یوں سجی تھی گویا اس کرۂ ارض کی تھی ہی نہیں۔ عنید کا دل کیا اسے دل میں چھپا لے۔ کسی اور کی نظر بھی نہ اس کو چھو کر گزرے۔پھر اس کا یوں پکارنا۔۔ اس نے دیکھا تو پھر دیکھتا ہی گیا۔
” اوئے اپالو کے دادے!! ادھر انکل عینکو کی بھی سن لو” فاطمہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار تے ہوئے اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔فوٹو گرافر جو بڑے عدسوں کی عینک صرف فیشن کے طور پر لگائے کھڑا تھا، اس کی اتنی واضح الفاظ میں بے عزتی کرنے پر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“ایک تو ہمیشہ غلط وقت پر انٹری مارا کرو تم” وہ منہ بسورتا ہوا سیدھا ہوا۔ عنیزہ ہلکا سا مسکا دی۔
“اب پاس ہی ہے یہ تمہارے۔ بے فکر ہو کر جتنا چاہو دیکھنا۔اور میرا خیال ہے تم اس کے دوپٹے سے اٹھ جاؤ۔ وہ کافی ان ایزی فیل کر رہی ہے۔ “نینی نے کہا تو وہ فوراً سیدھا ہوا اور اس کا دوپٹہ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔جانے کیوں وہ اتنا کنفیوژ ہو رہا تھا۔
سعدیہ بیگم نے نور کو دودھ پلائی کی رسم کے لیے اشارہ کیا اور عنید کے بائیں طرف آ کر بیٹھ گئیں۔ فوٹو سیشن اور کچھ رسومات کے لیے سب اردگرد جمع ہونے لگے تھے۔ جمال صاحب دور کھڑے اپنے پیارے دوست کبیر صاحب سے کچھ کہتے ہوئے مسکرا دئیے تھے۔ اتنے لوگوں کے جھر مٹ میں آج کی تقریب کے ستاروں نے ان کو دیکھا پھر اک دوجے کو اور مسکا دئیے کہ یہ ان کےرب نے انہیں بہترین نوازا تھا۔کیونکہ اس عطا کرنے والے کا در کبھی بند نہیں ہوا کرتا ہے۔ یہ تو لینے والے ہی بھول جایا کرتے ہیں کہ اس کا در کھٹکھٹانا ہے۔ لینے والے ہی بھول جاتے ہیں کہ کوئی گھنٹی، کوئی آواز ، کوئی باجا یا کوئی بھی تاشہ وہ آواز اس در تک نہ پہنچا پائے گا جب تک دل خود نہ پکارے ۔ اس پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کی رحمت ایسی ہے کہ اگر اس دکان پر خالی جیب کے ساتھ صرف ہتھیلی پر کچھ ۔۔۔۔ مکھی کے سر کے برابر بھی آنسو لے جاؤ گے تو جو چاہے وہ مانگ لو۔۔ جو چاہے وہ لے لو۔۔
اور قدرت۔۔۔
ایک بار پھر سے مسکرا دی تھی کہ ۔۔
ہر مشکل کے بعد بہترین آسانی عطا کر دی گئی تھی۔اور وہ کسی ‘جان’ کو اس کی ‘برداشت’سے ‘زیادہ’ نہیں آزماتا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...