(Last Updated On: )
پیش نظر کتاب کے پہلے باب میں شاد عظیم آبادی اور خیال سے متعلق چند امور کی وضاحتیں پیش کر دی گئی ہیں۔ خیال کی تعلیم و تربیت میں شاد عظیم آبادی کا اہم کردار رہا ہے۔ اپنی فارسی کو نکھارنے میں خیال نے شاد کی محل ثانی) زہرا بیگم، خواہر میرزا احمد میر نواب ایرانی) کی تربیتوں کا خود اعتراف کیا ہے۔ بعض متقدمین نے شاد اور خیال کے درمیان سرد مہری کو خواہ مخواہ طول دیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان روابط اچھے نہ تھے۔ اس مفروضے کو ہوا دینے والوں میں کئی حضرات تھے۔ شاہ ولی الرحمن ولی کاکوی نے بھی لکھ دیا تھا کہ ’نواب صاحب شاد عظیم آبادی کے حقیقی بھانجے تھے لیکن مولوی سید قدرت حسین عظیم آبادی) فرزند میر عنایت حسین امداد جو شاگردِ شاد تھے) سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آخری ایام میں دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ تھے اور کچھ کشیدگی پائی جاتی تھی‘۔ یہ قطعی طور پر ایک مجہول تصور تھا۔ خانگی معاملات کی وجہ سے جو رنجشیں تھیں وہ خیال کے یورپ کے سفر سے بھی بہت قبل کی تھیں کہ جب وراثت کی تقسیم کا معاملہ اٹھا تھا۔ اس کے بعد ایسی کوئی بات کبھی ہوئی نہیں۔ نقی احمد ارشاد نے اسے 1913ء کا واقعہ بتایا ہے۔ بعض پہلوؤں کی جانب، جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے، پہلے باب میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اسی تعلق سے اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ شاد نے خیال کو ہمیشہ عزیز رکھا اور خیال نے بھی ان کے تئیں احترام و عقیدت کے اظہار میں کوئی کمی نہیں کی۔ نقی احمد ارشاد نے ’باقیات شاد‘ میں شاد کی ایک غزل کے چند اشعار شامل کیے ہیں جنھیں شاد نے خیال کے نام لکھے اپنے مکتوب میں حیدر آباد کے پتہ پر بھیجا تھا۔ ان اشعار سے بھی یہ مترشح ہے کہ شاد و خیال کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں ’تیسری شخصیت‘ کا ہی کردار رہا۔
خیال نے شاد کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا اور اپنے بزرگوں کی جیسی عزت کرنی چاہیے ویسی ہی عزت انھیں تا عمر بخشی۔ نقی احمد ارشاد، نبیرۂ شاد، نے لکھا ہے کہ چند دنوں کے لئے جائیداد کی تقسیم کی وجہ سے خیال سے شاد اور مادر خیال ناخوش تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا معاملہ نہیں تھا جس کی بنا پر یہ مان لیا جائے کہ خیال شاد کی قدر نہیں کرتے تھے یا یہ کہ ان کے تعلقات کشیدہ تھے۔ خیال کے بعض مکاتیب سے علم ہوتا ہے کہ وہ شاد کے کلام کے کتنے بڑے قدر شناس تھے اور کلام شاد کے معتبر نسخہ کی ترتیب و تالیف کے لئے کس طرح مضطرب رہا کرتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے مزاج کی مطابقت سے انھوں نے کلام شاد یا شاد کی زبان میں نامناسب پہلوؤں کی نشاندہی سے دریغ نہیں کیا۔ وہ شاد کو غزل کا بڑا شاعر مانتے تھے۔ جب کلام شاد کی ترتیب کا کام شروع ہوا تو وہ چاہتے تھے کہ ان کا ایسا ہی کلام شامل کیا جائے جو ان کے شعری کمالات کو بخوبی پیش کر سکے، اس میں صرف ایسے کلام ہوں جن میں کسی بھی قسم کا نقص نہ ہو۔ اس انتخاب کے معاملے میں بھی خیال نے زبان کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ مولوی حمید عظیم آبادی کو لکھے مکتوب سے علم ہوتا ہے کہ کلام شاد کے انتخاب میں ان سے ہر قسم کی مدد لی جاتی رہی۔ خیال اور ان کے درمیان اس نکتے پر ہمیشہ مشورہ ہوا کرتا تھا کہ کلام شاد سے کن حصوں کا انتخاب کرنا ہے، کن حصوں کو چھوڑ دینا ہے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جو بھی انتخاب یا کلام کا جو بھی حصہ شائع ہو، ایسا معیاری ہو کہ اس پہ حرف نہ آئے۔
رباعیوں کے متعلق میں اتوار کو خط لکھوں گا۔ جواب آپ کو بھیج دوں گا۔ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ پھر رباعیوں پر نظر ڈالوں۔ آپ اپنے تصفیہ اور اپنی نظر سے کام لیجیے۔ اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے استاد مرحوم (شاد) سوا غزل کے کسی اور صنف نظم کے مالک نہ تھے۔ اس لئے ممکن ہو تو ان کی کوئی چیز از قسم مثنوی و رباعیات و مسدس وغیرہ شائع ہی نہ کی جائے۔ اور یہ ممکن نہ ہو تو پھر بہت احتیاط اور سخت گیری کے بعد ان کا کلام چھا پا جائے۔ (مکتوبات مشاہیر 1999، 16)
اس سخت گیری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خیال کی نگاہوں میں شاد کی شاعری کا بڑا حصہ جس غور و فکر کا متقاضی تھا اس تک پہنچنا ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ مانتے تھے کہ کلام شاد کو سمجھنے کے لئے بعض ایسے معاملات ہیں جن سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اسی مکتوب انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاد کا مذاق نظم و شاعری اتنا بلند اور ارفع ہے کہ خواجہ آتش کے سوا دوسرا ان کے کلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہیں شاد کی زبان کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ وہ گو بہاریوں میں افصح ہے لیکن دوم درجہ کی، اور ایک خاص زبان ہے۔ اور اکثر جگہ عام شاہراہ سے الگ اور بعض جگہ غلط۔ لیکن اسی مقام پہ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ زبان کے متعلق شاد کی حالت مرزا غالب کی سی ہے۔ یعنی مرزا کی اردو بھی خاص قسم کی اور دہلویوں کی نہیں، بلکہ آگرہ والوں کی سی، اور خاص اپنی زبان ہے نہ کہ ٹکسالی۔
’غالب بہ حیثیت زبان ہر جگہ مستند اور قابل تقلید نہیں ہیں۔ مگر مذاق ان کا لائق تسلیم ہے۔ بر خلاف اس کے ذوق ہیں۔ ان کا مذاق شاعری گو نا قابل توجہ ہے، لیکن ان کی زبان ٹکسالی اور تتبع کے قابل ہے۔ جو لوگ نظر نہیں رکھتے وہ ان نکتوں کو نہیں سمجھ سکتے، مگر آپ کو سمجھنا اور ان پر نظر رکھنا چاہیے۔‘ (17)
سید مجتبیٰ حسین کو لکھتے ہیں کہ
’دیوان شاد کا ذکر ہمارے کانوں تک پھر آیا تھا۔ جو حضرات اس کے درپے ہیں وہ اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ مگر شاد کا انتخاب آسان نہیں اور ان کے پیام کو سمجھنا مشکل کام ہے۔ اسے کون کرے اور بغیر اس کے ہمارے حضرات کا شوق بے معنی ہے‘۔
یہاں شاد کی عظمت کا جس کمال خوبی سے اعتراف کیا گیا ہے وہ بذات خود بے مثل ہے۔ اسی خط میں انھوں نے مجتبیٰ حسین کو ایسے اشارے بھی دیے ہیں جو کلام شاد کے افہام و تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔
’مرحوم کے کچھ خاص خیالات ہیں اور ان کے اظہار کے لئے ان کے اپنے الفاظ اور بعض دفعہ خاص الخاص محاورات۔ علاوہ اور باتوں کے اگر اس پر نظر نہ ہو تو ان کی شاعری (پیامبری) کا سمجھنا اور سمجھانا خیلے دشوار ہے۔ اور اگر اسے سمجھا نہ سکا تو تحریر بیکار ہی نہیں، misleading ہو جائے گی اور وہ خطرناک۔ قبل جو دیوانہ بچہ نکلا، اس پر جن صاحب نے مقدمہ لکھا ان کا مبلغ معلوم۔ صرف سبعہ معلقہ یاد کر کے اور فارسی کے چند دیوان دیکھ کر، شاعری جو اہل خبر کی زبان ہے، سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اس لئے احتیاط کیجیے اور ایسوں کے ہاتھوں میں اپنے استاد کو نہ پھنسائیے۔ کسی اہل کی طرف رجوع کیجیے جو حواس سے کچھ اس پر تحریر کر سکے۔‘ (ارشاد 1981، 261)
وہ چاہتے تھے کہ انتخاب کے لئے ایک اصول متعین کر لیا جائے ’ ورنہ سخت دقتیں ہوں گی‘۔ نہج البلاغۃ، در غرر اور صحیفۂ کاملہ، عاملی کی مثنوی اور فیضی کی مناجاتوں سے واقفیت کے بغیر شاد کو نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ان کے کلام کا بیشتر حصہ ان سے متاثر ہے۔ کہتے ہیں کہ ’یہ چیزیں اگر پیش نہ ہوں گی اور پیکر کو نہ سمجھ کر صرف لباس دیکھا گیا تو فائدہ؟‘ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ خط کی انہی عبارتوں سے متاثر ہو کر انھوں نے ’شاد عظیم آبادی: کلام و شرح کلام‘ اور ’شاد عظیم آبادی کی مثنویاں ‘ میں شاد کے اشعار و ابیات پہ روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’شاد عظیم آبادی کی مثنویاں ‘ میں بھی رسالہ جام جم، سکھر میں شائع اس خط کو نمایاں طور پہ شامل کیا ہے۔ شاد نے بھی اپنی مثنویوں میں قرآن پاک، احادیث اور صحیفۂ کاملہ کے جا بجا حوالے دیے ہیں۔ ’میخانۂ الہام‘ میں حمید عظیم آبادی نے اردو، بطور خاص عظیم آبادی اردو اور شاد کی زبان کے سلسلے میں جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سب کا سب ان کے نام لکھے خیال کے مکاتیب میں موجود ہے یا خیال کے مضامین میں۔ انھوں نے ایک جگہ صرف یہ لکھا ہے کہ ’شاد اور خیال کی زبان وہی تھی جو عظیم آباد کے شرفا کی زبان تھی۔ میں خود ان حضرات کی فیض مآب صحبتوں سے برسوں اکتساب فیض کر چکا ہوں ‘۔ عین ممکن ہے کہ یہ ان فیوض کا ہی اثر ہو۔ بہرحال، اسی طرح جب حمید عظیم آبادی نے رباعیات شاد کے انتخاب اور اشاعت کا ارادہ کیا تب بھی انھیں خیال کی جانب سے کئی مشورے ملے۔ کلام شاد کے انتخاب کے ہی سلسلے میں نقی احمد ارشاد کی پیش کردہ تفصیلیں ملاحظہ کیجیے:
’خیال صاحب چاہتے تھے کہ چیدہ کلام شائع ہو اور انتخاب کے متعلق ان کا اپنا معیار تھا۔ باقی غیر مطبوعہ کلام کو چاہتے تھے کہ مہاراجا سر کشن پرشاد شاد کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے تاکہ مہاراجا اپنے نام سے شائع کرا لیں اور جو قیمت دیں ان سے منتخب کلیات شاد شائع ہو جائے۔‘ (1981، 22)
’مرحوم نے تنہا کمرے میں بلا کر والد مرحوم کو بہت سمجھایا مگر باجود اس کے والد مرحوم اس پر راضی نہ ہوئے۔ خیال کا بھی اس نیک راہ کو قبول نہ کرنے پر ولولہ کم ہو گیا۔ بہتری اسی میں تھی، اور مہاراجا سب کچھ کر سکتے تھے جو ہمایوں مرزا نے تصنیف ’حیات فریاد‘ پر نہ کیا بلکہ بعد وفات شاد، اخلاف شاد سے طوطا چشمی برتی۔ خیال مرحوم کلکتہ چلے گئے۔‘ (22)
حمید عظیم آبادی نے 1937ء میں ’شاد عظیم آبادی کے سو شعر‘ کی اشاعت کروائی لیکن اس میں خیال کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، نہ ہی رباعیات کے انتخاب میں ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ 9 جنوری 1934ء کے مکتوب میں سید مجتبیٰ حسین کو خیال نے لکھا تھا کہ
’تیسرے سال جب ان مرحوم کا کلیات کھولا گیا تو شاید آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے ان کے کلام کے سمجھنے کی ایک کلید نہال صاحب کو دے دی تھی۔ وہ تحریر تک گم ہو گئی۔ سمجھ اور شوق کی یہ حالت ہے۔ یہ لوگ کسی کلام کا حاصل سمجھنا نہیں چاہتے۔ عروض تک ان کی رسائی ہے یا چند اردو فارسی دیوانوں سے باخبری۔ اس سے شاعری کیونکر سمجھ میں آئے گی۔ اس کے لئے علم کی ضرورت ہے، اور وہ مفقود۔‘ (23)
انھیں ہی 24 جولائی 1934ء کو لکھتے ہیں کہ’ یہ سن کر خوش ہوا کہ الحمد للہ آپ مع متعلقین اچھے ہیں اور یہ کہ دیوان کی نقل ختم ہو گئی۔ یہ بھی آپ ہی کا کام تھا۔ دوسرا اسے کیا انجام دیتا۔ اب رہا اس کا انتخاب، یہ بھی آپ کر لیں گے اور دوسروں سے بہتر کر لیں گے۔ ہاں، دو ایک آدمیوں کا مشورہ ضروری ہے۔ نہال صاحب سے بھی کام لیجیے اور شائق صاحب کو بھی نہ چھوڑیے۔ دیوان پر مقدمہ لکھا جا سکے تو فہو المراد، ورنہ اسے بھی چھوڑیے اور آتش کے دیوان کی طرح بے مقدمہ چھاپ دیجیے‘۔ ان کے ہی نام 19 اگست 1934ء کے مکتوب کے الفاظ ہیں کہ
’اگست کے ’ندیم‘ میں بھی حضرت کی شاعری کی نسبت یہ جملہ نظر سے گزرا۔ ’ان کی غزلیں تصوف و الٰہیات کا وہ چشمہ ہیں جس کی سوت حافظ شیراز کے رکن آباد سے ملی ہوئی نظر آتی ہے‘! اب آپ کے سے جواں ہمت اس دعوی کے بھاری پتھر کو اٹھائیں اور اسے سچ کر دکھائیں۔‘ (مکتوبات مشاہیر، 18)
ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ شاد عظیم آبادی کے کلام کی اشاعت کے سلسلے میں حمید عظیم آبادی مسلسل خیال کے رابطے میں تھے۔ لیکن خیال کبھی بھی انتخابات سے مطمئن نہ ہوئے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ ’انتخاب کرنے والوں کا علم محدود تھا، جیسا کہ خیال نے لکھا ہے اور جو بات خیال نے لکھی ہے وہ دیوان جلد ۷، ردیف الف سے ظاہر ہے۔ الغرض جیسا انتخاب خیال چاہتے تھے ویسا نہ ہو سکا‘۔ (ارشاد 1981، 24-25) نہال عظیم آبادی اور حمید عظیم آبادی نے خیال کے مشوروں پر عمل نہیں کیا۔ حضرت حمید عظیم آبادی نے اس کے باوجود شاد کے کلام کو زندہ رکھنے کے لئے بے مثل کارنامے انجام دیے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاد عظیم آبادی کے انتقال کے بعد ان کے دیوان کی ترتیب و اشاعت کے لئے بڑی بڑی کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ 1930ء تک کچھ نہ ہو سکا۔ نقی احمد ارشاد نے ’بادۂ عرفاں ‘ میں ان کمیٹیوں کا حال درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
’1930ء میں عم مغفور نواب سید نصیر حسین خاں خیال، جو خیرپور، سندھ کی ریاست میں وزیر تھے، اپنے عہدے سے دست بردار ہو کر مستقل طور پر قیام کرنے کی غرض سے پٹنہ تشریف لائے۔ والد مرحوم نے ان سے کہا کہ آپ کے ماموں جان کا کلام رہا جاتا ہے۔ کسی طرح سے بقیہ ردیفوں کی غزلوں کو ترتیب دے دیجیے۔ چنانچہ پھر ایک دوسری انجمن ’آستانۂ ادب‘ یعنی بدولت کدۂ جناب نواب سید صادق حسین خاں نہال قائم ہوئی۔ اس انجمن کے خاص خاص اراکین جناب خیال، ان کے چھوٹے بھائی جناب نہال، نظیر حسین صاحب شائق نون گولہ اور حضرت حمید تھے۔ کبھی کبھی محمود علی خاں صبا بھی شریک ہو جایا کرتے تھے۔ جناب عنایت حسین صاحب امداد اور غلام رسول حسرت بھی اکثر و بیشتر شریک ہوا کیے۔ اس کمیٹی نے جناب خیال کی خواہش پر الف کی ردیف کو پھر سے ترتیب دینا شروع کر دیا۔ ادھر والدمرحوم نے منظور احمد شرف بہاری کو، جو جد امجد مرحوم کے شاگرد و کاتب تھے، تمام مسودات کو صاف کرنے کے لئے مقرر کر لیا۔ چنانچہ وہ الف کی ردیف کا مجموعہ میرے پاس اس وقت تک موجود ہے جس کی غزلیں بعد کو میخانۂ الہام میں شامل کی گئیں۔ تھوڑے دنوں تک یہ سلسلہ قائم رہا لیکن انتخاب اشعار میں شدید اختلافات ہوئے اور تمام تر مسودات نہال صاحب کے دولت کدہ سے پھر شاد منزل واپس لے آئے۔‘ (صبا 1961، 29-30)
شاد اور خیال دونوں ہی نے اپنے اپنے مکتوبات میں ایک دوسرے کا ذکر کیا ہے۔ شاد کے یہاں کبھی کبھی شکایت بھرا انداز ملتا ہے جبکہ خیال نے اپنے جن مکتوبات میں شاد کا ذکر کیا ہے ان میں شاد کی شاعرانہ عظمت کا ذکر بھی کیا ہے، ان کی شاعری کے متعلق تبصرے بھی اور ان کی نثر نگاری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ خیال کے جن خطوط میں شاد کا تذکرہ ملتا ہے وہ عمومی طور پہ کلیات شاد کی اشاعت کی تیاریوں کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاد کے جو خطوط ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے شائع کیے ہیں ان میں خیال کا ذکر حیدرآباد کے تعلق سے ہے۔
شاد عظیم آبادی کے لکھے قطعات تاریخ رحلت میں ایسے اصحاب و خواتین کی رحلت پہ قطعے موجود ہیں جن کا رشتہ شاد اور خیال دونوں سے تھا۔ چند قطعات ملاحظہ فرمائیں:
قطعۂ تاریخ رحلت
فاطمہ بیگم زوجۂ محمد محسن دختر عیسی خاں رفعت
نبیرۂ شاکر خاں خلف لطف اللہ خاں صادق نائب سلطنت ہند محمد شاہی(خیال کی دادی)
آں عمۂ شاد فاطمہ بیگم نام
اہلیۂ میر محسن پاک شیم
چوں شد بجناں سنین رحلت از من
خود گفت بگو بخدمت زہرا ام
چہارم ربیع الثانی 1300ھ
قطعۂ ثانی
آہ از مرگ فاطمہ بیگم
بودہ خیر مجسم او بجہاں
نیتش بسکہ بودہ سوئے صواب
دیدہ ام مہر مادری ازوے
سال تاریخ را شدم جویا
چہ الم ہا کہ روح من نہ کشید
جز بہ نیکی جسے ازو نہ شنید
ہمہ اولاد او سعید و رشید
شاد از رحلتش جگر ترکید
گفت ہاتف بہ قصر خلد رسید
1300ھ (باقیات شاد 1990، 132)
قطعۂ تاریخ رحلت
سید نوروز حسین خلف سید محمد محسن و والد نصیر حسین خیال
برادر جان من، از من بگو، ایا بہ ایں زودی
چہ شد اخر کزیں عال، گسستی در
جناں رفتی مرا بگذاشتی تا در غمت،
بنشینم و گریم
نہ دیدی در قضائے خویشتن، دامن فشاں رفتی
من شاد حزیں، از بہر تاریخ چنیں ماتم
ندا کردم ز دنیا، اے برادر نوجواں رفتی (135)
1296ھ
قطعۂ تاریخ رحلت
سجادی بیگم دختر نوروز حسین و خواہر نصیر حسین خیال (چھوٹی بہن) و زوجہ سید محمد نواب یاس خلف نواب محمد تقی خاں مظفرپور
آں دخت، عم زاد من، آں بانوے عالی نسب
سجادی و بیگم ورا، مشہور نامش در جہاں
بے خود خواہر زادہ ام، اے شاد بل لختے ز دل
فرزند زاد محسن و عباس برتر دودماں
ہر چند بود از صغر سن دائم علیل و پر محن
امآ بہ تحصیل ہنر، مشغول آمد جاوداں
چوں عقد بست او را قضا باب مصائب باز شد
آماج گاہ ناوک بیداد، ماندہ ہر زماں
ہر گو نہ درد پے بہ پے، چوں درد لش شد جاں گزیں
در علت سل مبتلا شد، آں ضعیف و ناتواں
بودہ گرامی مادرش، چوں عاشقی ایں دخت خود
کردہ فراواں مال و زر صرف چنیں آرام جاں
رو کرد ازیں محنت سرا، آزاد شد از قید غم
صد حیف مرگ بے اماں، اخرنہ داد اورا اماں
صدق و صفا در راے او، در خط درست املاے او
دانا و دیں دار و متیں، ہم اہل دیں راہ قدر داں
چوں بود در دنیا غمیں اے شاد سال فوت او
گفتا دلم شد بعد ازیں، آرام گاہش در جناں
1324ھ (138-39)
شاد نے ہمایوں مرزا کو سجادی بیگم کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’دوسری بات غم انگیز اور حد سے مصیبت و حسرت افزا یہ ہے کہ نور چشم سید نصیر حسین خاں مد عمرہ (خیال) کی بہن سل و دق میں مبتلا رہی اور پرسوں دنیا سے چل بسی۔ ایسی ذی علم و ادیب شاعرہ اور مذہبی لڑکی میں نے فی عمرہ نہیں دیکھی۔ جس قدر مصائب اس نے مردود محمد نواب، اپنے نالائق شوہر کے ہاتھوں برداشت کیے، کیا لکھا جائے۔ جب میں اس کو دفن کر رہا تھا آپ کا تار پہنچا۔ واللہ میں ہرگز اس قابل نہ تھا کہ قلم ہاتھ میں لوں۔‘ (مکتوبات شاد عظیم آبادی 1939، 69)
ریاست حیدرآباد سے شاد اور خیال کے تعلقات سے ہی متعلق ایک غزل کے چند اشعار نقی احمد ارشاد نے ’باقیات شاد‘ میں شامل کیے ہیں۔ یہ اشعار شاد نے خیال کو لکھے اپنے مکتوب مورخہ 13 اکتوبر 1932ء میں حیدرآباد کے پتے پر بھیجے تھے۔
’کوئی اگر میکدے میں پوچھے تو یوں سنا دو پیام اپنا
روا نہیں مجھ کو سجدۂ خم نہ ہو ساقی امام اپنا
علی امام اپنا ہو نہ رہبر تو شاد ایسے ہیں ہم مسلماں
جو حیدرآباد کعبہ بھی ہو تو دور سے ہی سلام اپنا‘ (51)
شاد سے خیال کی علمی مراسلتیں بھی ہوتی تھیں۔ شاد کے نام لکھا خیال کا جو مکتوب محفوظ رہ گیا ہے اس سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’جناب عالی، صحیفہ اور مطلع انوار کی زیارت ساتھ ہوئی۔ مضمون بہ شوق تمام پڑھ گیا۔ اس میں جو چیز سب سے زیادہ قابل خیال ہے، وہ میر انیس کی شاعری کے فلسفہ کا لاجواب انتخاب ہے۔ شاعری کی جتنی قسمیں کی جائیں اور اس پر جو کچھ لکھا جائے وہ واردات قلبی و جذبات اصلی کے تحت میں ہو گا۔ یہ واردات و جذبات مختلف طرق و اسباب سے ایک اہم نتیجہ بن کر قلب انسان پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ نتائج اگر کسی عشق (یعنی توجۂ قلبی) کے ذریعہ پیدا ہوئے تو خالص ہیں، اور یہی خلوص معشوق کو حاضر و ناظر کر دیتا ہے اور عاشق اس سے ہم کلامی کا شرف تک حاصل کرنے لگتا ہے۔ ایسے خالص عشق کا بہترین نمونہ رِگ وید ہیں، پھر حضرت موسیؑ کی اول سے آخر تک کی زندگی، حضرت عیسیؑ کے متعدد واقعات و واردات، اور پھر حضرت محمد رسول اللہؐ کے غار حرا سے لے کر رحلت تک سلسلہ وار حالات و مشاہدات، اور قرآن کریم کے شاعرانہ یعنی فطری و اصلی ارشادات۔‘ (ارشاد 1981، 188)
٭٭٭