شاد کی تربیت کی وجہ سے نصیر حسین خیال اوائل عمری میں شاعری کی طرف مائل ہوئے لیکن انھوں نے جلد ہی اس سے قطع تعلق کر لیا حتی کہ شاعری کا کوئی نمونہ محفوظ نہ رکھا۔ انھیں فارسی اور اردو پر اختیار کامل تھا، انگریزی اچھی جانتے تھے، فرانسوی سے بھی واقف تھے۔ نوجوانی میں غزل گوئی کی جانب مائل ہوئے۔ شاد عظیم آبادی سے انھیں تلمذ بھی حاصل تھا۔ لیکن جلد ہی انھوں نے شاعری ترک کر دی۔ بدر الدین احمد کا بیان ہے کہ
’یہ (خیال) بھی حضرت شاد کی شاعری سے کچھ دن استفادہ کرتے رہے مگر شاعری ان کے مزاج کے موافق نہ پڑی۔ یہ پہلے سے ہی اچھوتے اور نئے مضمون نثر میں لکھتے اور اپنے نو عمر ساتھیوں کو سناتے اور خوب واہ واہ ہوتی۔ اس ہمت افزائی نے ان کی نثر نویسی کے شوق کو اور بڑھایا اور جب ان کے سن شعور نے خیالات میں پختگی لائی تو ان کے قلم سے افادیاتی مضامین نکلنے لگے۔‘ (حقیقت بھی کہانی بھی، 497)
خیال نے ’تزک خیال‘ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ شوق رفتہ رفتہ ایک جنون میں تبدیل ہوتا گیا جس نے انھیں ایک تحریکی مزاج بھی عطا کر دیا۔ عظیم آباد کی سابقہ ادبی روایتوں اور اپنے خاندان کی علمی وراثتوں کے امین ہونے کی حیثیت سے زبان کی درستگی، نئے موضوعات کی پیشکش، اور علمی وقار کو بلند تر کرنے کی خواہش نے انھیں علمی اور عملی طور پہ ہمیشہ فعال رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابتدا سے ہی ان کے مراسم اصحاب اختیار اور اصحاب علم دونوں ہی سے تھے۔ بقول بدر الدین احمد، ان کی ابتدائی زندگی کو دیکھنے والے اس وقت بھی یہ صحیح اندازہ لگاتے تھے کہ یہ کم سن لڑکا جو نو عمری میں بھی الفاظ کے تلفظ اور زبان کی صحت میں گفتگو کرتے وقت مبالغہ سے کام لیتا ہے، آخر میں ضرور ہی ایک بڑا ادیب بھی اور ایک صاحب طرز انشا پرداز بھی ہو گا۔ (احمد، 497) شاعری کی خواب آگیں دنیا انھیں راس نہیں آئی۔ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے مد نظر وہ اسے لاحاصل تصور کرتے تھے کیونکہ ملک عزیز کے معاصر معاملات میں ایسے مزاج والوں سے کسی قسم کی رہنمائی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’میں شاعری کی گود میں پیدا ہوا، اور شاعری کے دامن میں پلا۔ یہ یہ صحبتیں اٹھائیں۔ ایسے ایسے شعرا کی آنکھیں دیکھیں۔ مگر الحمد للہ کبھی شاعر نہیں بنا اس لیئے کہ میں اس شاعری کے نشہ کو اپنی قوم کے لئے مضر بلکہ سم سمجھتا ہوں۔‘ (تزک خیال اول، 16)
انھوں نے اس خوابناک دنیا سے باہر نکل کر انشا پردازی کا سہارا لیا۔ ابھی عمر کی اٹھارہ منزلیں بھی طے نہ ہوئی تھیں کہ ان کے مضامین منظر عام پر آنے لگے۔ کلکتہ میں ان کی صحبتوں میں شریک رہنے والے پروفیسر محفوظ الحق کا بیان ہے کہ چونکہ علم و ادب اور زباندانی کا خاندانی شوق کم عمری ہی سے تھا، اور قدرت نے بھی اس کے لئے موزوں دل و دماغ عطا کیا تھا، اس وجہ سے قلم و قرطاس کے علاوہ کسی اور طرف مائل نہیں ہوئے اور ہوش سنبھالتے ہی مضمون نگاری کی جانب متوجہ دکھائی دیے، اور اسی زمانہ میں حیدرآباد کے پرچہ ’حسن‘ میں فرضی ناموں سے ان کے مضامین شائع ہونے لگے۔
اس ذہنی رجحان کا دوسرا بیّن ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اوائل عمری میں ہی اپنے دوست پیارے صاحب سید علی سجاد کے اشتراک سے 1897ء میں عظیم آباد سے ’ادیب‘ نام کے اردو ماہنامے کا اجرا کیا۔ اس کا پہلا شمارہ جولائی 1897ء میں منظر عام پر آیا تھا جس میں خیال نے ’ادیب‘ کی اشاعت کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سرزمین بہار کی لسانی اور ادبی صورت حال سے بیزار ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایک ادبی انجمن کا قیام کیا اور اسی کے مقاصد کی برآوری کی غرض سے ’ادیب‘ کا اجرا کیا گیا ہے۔ ’ادیب‘ کے سلسلے میں خیال نے لکھا ہے کہ:
’اسی ادبی شوق اور اردو سے شغف کا نتیجہ تھا کہ سنہ 1896ء (کذا) میں جبکہ ہماری عمر 17 برس سے زیادہ نہ تھی، عظیم آباد سے ہم نے ادیب نامی ایک ماہوار ادبی رسالہ نکالا جس کی نسبت مولوی عبد الحلیم شر رکے سے اردو کے استاد نے اپنے مشہور رسالہ دلگداز میں تحریر کیا تھا کہ رسالہ ادیب عظیم آباد کو بہت جلد اردو کا ایک تیسرا مرکز دہلی اور لکھنؤ کی طرح بنا دے گا۔ اور سر سید نے تحریر فرمایا کہ اس رسالہ کی اردو قابل مدح و تقلید ہے۔‘ (تزک خیال اول، 17)
خیال فرماتے ہیں کہ شرر نے ’دلگداز‘ میں ’ادیب‘ پر تبصرے کے دوران لکھا تھا کہ اگر یہ رسالہ جاری رہا تو صوبۂ بِہار تقلیدِ زبانِ لکھنؤ و دہلی سے ایک دن آزاد ہو جائے گا۔ (بہار کا اردو ناول نگار 1945، 17)
شائق احمد عثمانی نے ’مغل اور اردو‘ کے پیش لفظ میں لکھ دیا ہے (1933، 2) کہ 1897ء میں ’’جب مشہور نثر نگار علی سجاد نے عظیم آباد سے رسالہ ’ادیب‘ جاری کیا تو خیال اس رسالہ میں مضمون لکھنے لگے‘‘۔ مظفر اقبال نے اس بیان کی گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے (بہار میں اردو نثر کا ارتقا 1980، 163) کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اس رسالہ کی اشاعت کی تمام تر ذمہ داریاں خیال کے سپرد تھی۔ حالانکہ خیال نے خود یہ لکھا ہے کہ سجاد لکھنؤ سے 1896ء میں پٹنہ واپس آئے تو
’سجاد پھر بھری محفل سے نکلے تھے اور رہ رہ کر یہاں بھی وہی چہل پہل اور گرم بازاریاں ڈھونڈھ رہے تھے مگر اس شہر خموشاں میں پتہ تو ہلتا نہیں، بھلا زبانوں میں وہ نرمیاں اور گرمیاں کہاں سے آئیں جو کسی کے پارۂ دل کو ہمہ دم بے چین، گرمائے اور تڑپائیں رکھیں۔ یہ رہ رہ کر گھبرائے اور اکتائے جاتے تھے اور اگر جی بہلنے کا کوئی عمدہ سامان جلد نکل نہ آتا تو سجاد واقعی در و دیوار سے ٹکرانے لگتے۔ آخر انھیں کی طبیعت نے زور کیا اور چند عزیز دوستوں کو آمادہ کر کے 1897ء میں عظیم آباد سے ’ادیب‘ نام ایک ماہوار پرچہ جاری کرایا۔‘ (بہار کا اردو ناول نگار 1945، 17)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’ادیب‘ کی اشاعت کے سلسلے میں سید علی سجاد کی حیثیت ایک محرک کی تھی۔ یہ بیان بس سجاد سے ان کی محبت کا اظہار ہے۔ شائق احمد عثمانی مزید فرماتے ہیں کہ جب اس کی اشاعت شروع ہوئی تو اس کی زبان اور طرز ادا پر ملک گرویدہ ہو گیا۔ ملک کا گرویدہ ہونا مبالغہ آرا بیان ہو سکتا ہے لیکن عظیم آباد کے پس منظر میں زبان کی اصلاح کے مقصد کے پیش نظر یہ ایک اہم ابتدا تھی۔
’یہاں (عظیم آباد) بہت کم ایسے رسالے شائع ہوتے تھے۔ بہار اور خصوصاً عظیم آباد نے اس رسالہ ادیب کی وجہ سے خاص شہرت اور ناموری حاصل کی۔ اس رسالے میں زیادہ تر آپ خیال اور آپ کے دوست مولوی سید علی سجاد مرحوم مضامین تحریر فرماتے تھے۔‘ (مغل اور اردو، 2)
’’ادیب‘‘ کے سرورق پہ رسالہ کے نام اور ماہ کے اندراج کے بعد لکھا ہوتا تھا: حسب الحکم ممبران اردو لٹریچر سوسائٹی و بہ نگرانی جناب سید نصیر حسین خان صاحب خیال رئیس پٹنہ، سکریٹری سوسائٹی، پٹنہ، عظیم آباد۔
قاضی عبد الودود اس رسالہ کی تفصیلات قلمبند کرنے کے دوران کہتے ہیں کہ ’خیال خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ لکھنا ضروری نہیں‘۔ (چند اہم اخبارات و رسائل 1993، 187) اس کی اشاعت کا مقام پٹنہ کا مکتبۂ قیصری تھا۔ اس کے شماروں کا ایک حصہ انگریزی ادب کے ترجموں یا انگریزی میں لکھی تاریخ و ادب کی کتابوں سے ماخوذ تحریروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں مسلم تہذیب و معاشرت اور اردو زبان کی صحت سے متعلق مضامین بھی شامل کیے جاتے تھے۔ ’ادیب‘ کا افتتاحیہ شمارہ یعنی جلد ۱ نمبر۱، ماہ جولائی 1897ء کا تھا۔ اس میں یہ تفصیل درج ہے کہ یہ رسالہ اردو لٹریچر سوسائٹی، پٹنہ کا ماہنامہ ترجمان ہے اور اسے سوسائٹی کے سکریٹری سید نصیر حسین خاں صاحب خیال کی نگرانی اور اہتمام میں شائع کیا جا رہا ہے۔ اندراجات سے خیال کے ہی اس کے مدیر ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اردو لٹریچر سوسائٹی کے نائب سکریٹری وصال، شاد عظیم آبادی کے حقیقی بھتیجے اور خیال کے ماموں زادے تھے جبکہ صدر مولوی سید علی سجاد تھے۔ رسالہ 14X22 1/2 س۔ م۔ کے 32 صفحات پر مشتمل ہے۔ تقطیع ۴/۳ ۵ x ۹ انچ ہے۔ کتابت بہت ہی صاف ستھری اور زیبا ہے۔ سالانہ قیمت دو روپے آٹھ آنے درج ہے۔ اس شمارہ میں اردو لٹریچر سوسائٹی کی تاسیس کی وجوہ اور اس کے قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں اور چند انشائیے اورافادی مضامین شامل ہیں۔ اس کا پہلا مضمون بعنوان ’ادیب‘ رسالہ کی اشاعت کے اسباب سے تعلق رکھتا ہے، اس کی حیثیت اداریہ کی بھی ہے۔ اس مضمون سے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’ہم نے زبان اردو کو محض ایک طائر سمجھ کر قفس شاعری میں بند کر دیا ہے جہاں وہ پر پھٹپھٹا کر رہ جاتا ہے مگر اڑ نہیں سکتا۔ ایک تگڑے اڑیل لڈو ٹٹو کو اشہب تیز گام یا خیال سے زیادہ چالاک اور تند رفتار بتانا یہی اعلی درجے کی زباندانی ہے۔ ایک ٹوٹے ہوئے میخانے کو فردوس بریں سمجھنا، ایک کلچڑی گنجی عورت کو حور جنت سے بھی صبیح تر نظم کرنا، اس کے لمبے بالوں کی کمند پھینک کر فرشتوں کو عرش سے زمین پر کھینچ لینا، اور پریوں، دیووں کے جھوٹے افسانے اور طلسمی مضامین باندھنا، یہی عین زباندانی ہے۔ اگر اردو لٹریچر کی ترقی میں یہی زبان صرف کی جائے اور اس کا رخ علمی مضامین کی طرف پھیرا جائے تو ملک کو بے انتہا نفع ہو۔ فرانس، جرمنی اور انگلینڈ میں جو لوگ اپنی فرصت کے وقتوں میں لٹریچر سے دل بہلایا کرتے ہیں، ان کی ایک حیرت انگیز تعداد بڑھ گئی ہے، اس وجہ سے تصنیفوں اور تالیفوں میں انتہا سے زیادہ ترقی ہوئی۔ اب سرکولیٹنگ کتب خانوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ پرانے کھیل اور تماشے بھی بالکل نظروں سے گر گئے، تھیٹروں اور تماشا گاہوں کو بھی ان لوگوں نے دور سے سلام کیا جو راتوں کو اودھم مچائے رہتے تھے۔ یہ سب باتیں دل مردہ کو زندہ کرنے والی سمجھی جاتی تھیں مگر اب ان تمام چیزوں کا نعم البدل لٹریچر سمجھا جاتا ہے جو اخلاق پر ایک مضبوط اثر ڈالتا ہے۔‘ (چند اہم اخبارات و رسائل 1993، 181)
زبان و بیان سے واضح ہے کہ یہ خیال کی ہی تحریر ہے۔ اگست 1897ء کے شمارے میں ’ادیب‘ کی اشاعت اور ’اردو لٹریچر سوسائٹی‘ کے قیام کے اغراض و مقاصد کی تفصیل درج ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ خیال اردو زبان و ادب کے سلسلے میں کس قسم کے تصورات فروغ دینا چاہتے تھے۔ وہ مکمل حصہ ملاحظہ فرمائیں۔
ادیب
اردو زبان کا دم بھرنے والے لٹریچر کے عاشقو! رسالۂ ادیب جولائی 1897ء سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں فلسفیانہ اور حکیمانہ خیالات علمی، اخلاقی، سوشل اور تاریخی مضامین برابر شائع ہوا کریں گے۔ وقتاً فوقتاً اعلی مصنفین کے سوانح سے بھی رسالہ کو رونق دی جائے گی۔ اس میں نہ مذہبی چھیڑ چھاڑ ہو گی اور نہ ذاتی حملے، شاعرانہ رنگ آمیزی کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔ رسالہ کا نام خود ہی کہے دیتا ہے کہ ہم میں کس قسم کی خوبیاں اور دل آویزیاں ہوں گی۔ ہماری اردو لٹریچر سوسائٹی نے صرف اردو زبان کو افق کمال تک پہچانے کے لئے یہ رسالہ شائع کیا ہے۔ کہاں ہیں اردو زبان کے شیدا اور اس کی ترقی چاہنے والے؟ آئیں کمر ہمت باندھیں اور جس طرح ہو سکے اس رسالہ کی مدد کریں۔ کمال دعوی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے اس کی سرپرستی کی اور خدا نے چاہا تو یہ تھوڑے ہی دنوں میں آپ اپنی نظیر ہو جائے گا۔ اس امر کا اظہار تو بالکل فضول ہے کہ اس کے نامہ نگار کیسے تجربہ کار محقق، جید اور قابل ہیں کیونکہ اتنے بڑے کام کو اپنے سر لینا کوئی ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔ آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ جب کچھ ایسے ہی حضرات جمع ہو گئے ہیں اور انھوں نے مضامین دینے کا بیڑا اٹھایا ہے جب تو یہ دعوے ہیں۔ اردو لٹریچر سوسائٹی اور ادیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئے یہ سوسائٹی 1896ء میں قائم ہوئی تھی اور ادیب بھی اسی مشکل فرض کو پورا کرنے کو ممبران سوسائٹی کی فرمائش سے شائع ہوا ہے۔ سچا جوش، سچی ہمدردی اور سچا قول وہی ہے جو رفتار سے ظاہر ہو۔ سوسائٹی کا جوش رک نہ سکا اور اس نے اس رسالہ کے پیرایہ میں تراوش کی۔ حقیقتاً سوسائٹی کے پاس اس کے سوا اور کیا علاج تھا کہ وہ ایک ماہواری رسالہ شائع کرتی اور اپنے قول کو عام لوگوں میں سچا کر دکھاتی۔ بہر حال
دریں دریائے بے پایاں دریں طوفان شور افزا
دل افگندیم بسم اللہ مجریہا و مرساہا
پیارے ہم وطنو! معزز بزرگو! صرف ڈھائی روپے ادیب کی سالانہ قیمت ہے اور ایک روپیہ سالانہ چندہ دینے پر آپ سوسائٹی کے ممبر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے ممبر ہونے میں آپ کو بڑے بڑے نفع ہیں۔ ایک روپیہ کے معاوضہ میں وہ نایاب کتابیں جن کو سوسائٹی بڑی جانکاہی اور چھان بین سے زباندانی کا دستور العمل سمجھ کر اپنے خاص مصارف سے چھپوائے گی اور عام ازیں کہ وہ کیسی ہی قیمتی ہوں، مفت آپ کی نذر کی جائیں گی۔ اگر آپ کو اپنی مادری زبان (اردو) سے کچھ بھی انس ہے اور اسے دلہن کی طرح سنوارا چاہتے ہیں تو بس اپنی اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالیے اور خریداری سے منھ نہ موڑیے۔ مجھے یقین ہے کہ رغبت زباندانی اور ہمت عالی یہ دونوں مل جل کر آپ کو ابھاریں گی۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ع میں بھی دیکھوں کہ پلٹتی ہیں نگاہیں کیونکر۔
قواعد و ضوابط ادیب
۱۔ اس رسالہ میں اخلاقی، تاریخی، علمی فلسفی مضامین برابر شائع ہوا کریں گے اور موقع موقع سے دنیا کے مشہور و معروف لوگوں کے سوانح بھی درج ہوا کریں گے۔
۲۔ پولیٹکل، مذہبی یا شخصی باتوں سے ہمیشہ پرہیز رہے گا۔
۳۔ باہر کے نامہ نگاروں کی تحریریں بھی شوق سے لی جائیں گی۔
۴۔ نامہ نگاروں کو تحریروں میں فصاحت زبان کا بھی پورا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔
۵۔ اردو زبان میں جو عمدہ کتابیں شائع ہوں گی اور سوسائٹی کو بھیجی جائیں گی ان پر ضرور ریویو لکھے جائیں گے اور سوسائٹی کے پسند کرنے پر ان کی اشاعت کی کامل فکر کی جائے گی۔ الخ
اردو لٹریچر سوسائٹی
یہ سوسائٹی جون 1896ء سے قائم ہوئی ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ اردو زبان کی اتالیق بنے اور اسے معراج کمال تک پہچانے کی کوششیں کرے۔ الخ
اغراض اردو لٹریچر سوسائٹی
۱۔ زبان اردو کو اعلی درجے کی ترقی دینا اور اس کو اوج کمال تک پہچانا۔ (ادیب 1897، 23-25)
اس کے بعد بارہ حکمت عملیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تفصیلات کے بعد قواعد و ضوابط سوسائٹی کے تحت ۲۲ نکات پیش کیے گئے ہیں۔ ان سب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سوسائٹی اردو زبان کی درستگی، اس کے فروغ کے ساتھ ہی ایسے ادب کی تخلیق و ترویج کی حامی تھی جس میں اخلاقیات کے قابل قدر نمونے موجود ہوں۔ ’’ادیب‘‘ کے پہلے شمارہ بابت جولائی 1897ء کی تفصیل پیش کرتے ہوئے قاضی عبد الودود نے لکھا ہے کہ اس کے مضامین میں ’صحرا اور جنگل کی زندگی‘، ’مزار شہدا‘، ’تمنائے حیات‘، ’انظر الی ما قال و لا ینظر الی من قال‘، ’حکیم سولن اور دربار قاروں‘، ’لباس نو‘۔ شامل ہیں۔ ’نظرے خوش گذرے‘ کے تحت اردو لٹریچر سوسائٹی کا تعارف کرایا گیا ہے اور رسالے اور سوسائٹی کے قواعد و ضوابط درج کیے گئے ہیں۔ دوسرے شمارے سے ان کے احباب کی تحریریں بھی شامل ہونے لگیں۔ مثلاً، دوسرے شمارے میں خیال کے علاوہ سید علی سجاد، محمد نور الحسن، سید عبد الحسن ضیا اور سید محمد وصال کے مضامین شامل ہیں۔ تیسرے شمارے میں خیال، سجاداور وصال کی منثور تحریروں کے علاوہ سیدعلی سجاد کی ایک نظم بھی شامل ہے۔ خیال نے شیکسپیر کے ایک انگریزی ڈراما کے کچھ حصے کاترجمہ بھی کیا ہے۔ تیسرے شمارے میں موجود مولوی علی سجاد کے مضمون ’زبان اردو‘ سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’ہر مہینے، ہر ہفتے کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی رسالہ نکلتا ہی رہتا ہے، پولیٹیکل مطالب سے اردو اخباروں کے سارے کالم بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ شاعری نے بھی موجودہ زمانے میں وہ ترقی کی ہے کہ اگلے عہد یہ بات نصیب نہ تھی، قریب قریب پچیس تیس گلدستے نکلتے ہیں۔ کوئی رسالہ یا کوئی گلدستہ نکال کر اچھے سخن شناسوں کے سامنے کچھ پڑھیں اور یہ نہ بتائیں کہ مضمون نگار یا شاعر کس شہر یا قرینے کا ساکن ہے تو وہ با وصف ادعائے زباندانی کسی شہر کی تخصیص نہ کر سکیں گے اور ان کو یہی کہتے بنے گی کہ اس کی زبان نہایت شستہ و فصیح ہے، کیا عجب کہ اس کا مصنف اہل دہلی یا لکھنؤ سے ہو، حالانکہ اس کے مصنف نے نہ کبھی دہلی کی صورت دیکھی ہو گی نہ لکھنؤ کی۔ دہلی لکھنؤ کے علاوہ بھی ہندوستان کے بعض ایسے شہر ہیں جہاں کے قدیم شرفا اور خاندانی امرا گو بہت کم ہوں اور ان کو (کذا) ہر طبقے نے تمیز سے کام لیا ہو مگر ان کو (کذا) لب و لہجے اور فصاحتیں اہل دہلی و لکھنؤ سے زیادہ اثر خیز نہیں تو کم بھی نہیں، اگر چند الفاظ میں کسی قسم کا فرق دکھائی دے تو ہرگز محل اعتراض نہیں، اس لئے کہ اکثر اس قسم کا اختلاف اہل دہلی و لکھنؤ کے فصحا میں موجود ہے۔ فصاحت و سلاست کسی شہر کی سنگ و خشت سے وابستہ نہیں، بلکہ سوسیٹی کی خوبی اور امتیاز کی کہنگی پر منحصر ہے۔ اگلے بزرگوں کے بیان اور پرانے وقت کے تذکروں کے دیکھنے سے صاف روشن ہے کہ اس زمانے میں فصحائے دہلی و لکھنؤ اگر کسی دوسرے شہر کے شاعر کو فصیح پاتے تو اس کی زبان کو بھی مان لیتے تھے اور قابل استناد سمجھتے تھے۔ ایرانی خصوصاً زبان کے بارے میں نہایت متعصب ہوتے ہیں مگر جس طرح وہ سعدی شیراز کی زبان کو صحیح السند مانتے ہیں اسی طرح نظامی، جس طرح صائب اصفہانی نژاد کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح طوس، گنجہ، جام، سبزوار وغیرہ وغیرہ تو ممالک ایران میں ہی داخل ہیں۔ انھوں نے بخارا و ترکستان کے با کمالوں کے بھی سند لینے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا۔ ان کی وسعت انصاف سے ہندوستان بھی خالی نہ رہا۔ امیر خسرو، میر حسن دہلوی، واقف پٹیالوی، راسخ لاہوری، فقیر شاہجہاں آبادی، بیدل عظیم آبادی، تحقیق عظیم آبادی، یہاں تک کہ ٹیک چند بہار اور راجہ رام نرائن موزوں تخلص عظیم آبادی کے کلاموں کو بھی سراہا اور ان کی زبانوں کو صحیح مان لیا ہے۔ اختر ہگلی کی خاک سے اٹھے اور وہیں شہرت حاصل کی، کہولت عمر میں لکھنؤ گئے تو وہاں کے منصف طبع فصحا نے ان کو اردو کی شاعری میں مسلم الثبوت مانا اور بہتیروں نے زبان اردو پر ان کے دخل و تصرف کو جان کر انھیں استاد سمجھا۔ انشا کی ابتدائی عمر کا بڑا حصہ پورب اور مرشد آباد کے امرا و شرفا میں بسر ہوا۔ عالمگیر ثانی کے آخری عہد میں، جب وہ پورے جوان ہو کر دہلی پہنچے اور وہاں کے مشاعروں میں شریک ہو کر علم استادی بلند کیا تو رفتہ رفتہ مسلم الثبوت اساتذہ میں اس کا شمار ہو گیا۔‘ (زبان اردو 1897، 23-25)
اسی شمارے میں سجاد کی مشہور نظم ’آسمانی سقہ‘ بھی شامل اشاعت ہے۔ یہ نظم اس کے بعد کئی دوسرے رسائل میں بھی شائع ہوئی۔ اس کے بعد کے چوتھے شمارے میں ان ہی قلمکاروں کے ساتھ سید فدا حسین اور شاہ سرفراز حسین کے مضامین بھی شامل ہیں۔ وصال کی ایک نظم ’ہوا اور آفتاب میں چھیڑ چھاڑ‘ کے علاوہ سید علی سجاد کے ایک ناول ’پھولوں کی ڈالی‘ کا ایک جز بعنوان ’باپ بیٹی کا حال‘ چار صفحوں پر شائع کیا گیا ہے۔ یہ حصہ بھی دوسرے رسائل میں شائع کیا گیا تھا۔ سجاد کا ہی ایک مضمون بعنوان ’بگڑا گویا مرثیہ خواں اور بگڑا شاعر مرثیہ گو‘ بھی اس شمارے کی زینت ہے۔ یہ مضمون مرثیہ گوئی کی اس زمانے کی روش سے متعلق ایک دلچسپ محاکمہ ہے۔
بگڑا گویا مرثیہ خواں اور بگڑا شاعر مرثیہ گو
اس ترقی یافتہ زمانے کے مرثیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مثل کسی قدر غلط اور مبتذل ہے۔ میر اور سودا نے بھی مرثیے لکھے۔ یہ حضرات صرف شاعر کامل ہی نہیں بلکہ مرثیہ گو بھی تھے۔ ان بزرگوں نے مرثیہ گوئی بنظر صواب کی تھی نہ بخیال فن، کیونکہ اگلے شعرا نے اس کو اپنا کمال فن کر لیا تھا جس کی تصدیق افسردہ اور احسان وغیرہ کے مرثیے اور کلام سے ہو سکتی ہے۔ اگلے زمانے میں مرثیے چو بولے یا مخمس بطور ترجیع بند مثلث یا قطعوں میں کہے جاتے تھے، مسدس شاذ و نادر ہی کسی نے کہا ہے، وہ بھی بحر تقارب یا صوت الناقوس یا ہزج میں۔ ہاں، جب سے دلگیر، فصیح، خلیق اور ضمیر مرحوم نے اس فن کو جلا دی، چو بولے، ترجیع بند، مثلث اور قطعے موقوف ہو گئے اور سلام بطرز غزل مختلف بحروں میں لکھے جانے لگے، نوحوں کا بھی انداز بدل گیا اور قطعے اچھے اسلوب سے واقعہ خوانی کے لئے تصنیف ہونے لگے۔ سلاموں کے مخمس بھی ہونے لگے اور بعض استادوں نے بطور مثنوی طولانی مرثیے بھی کہے۔ گو اپنی جگہ پر تمام اقسام مذکورہ پسندیدہ ہیں لیکن مسدس نے خیالات و مضامین میں جان تازہ ڈال دی اور اس لئے مرثیہ گویوں میں زیادہ تر معرکہ آرا چیز یہی مسدس ٹھیرایا گیا جو آجکل رائج ہے اور بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف یا رمل مثمن مجنون محذوف یا مضارع میں اکثر کہا گیا ہے۔ دلگیر نے مسدس سے اچھے سلام، اور فصیح نے سلام سے اچھے مسدس کہے۔ میر خلیق نے روایات، بین و رخصت مسدس میں ایسے لکھے کہ ان کے زمانے میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ فصیح و خلیق کے اشہب خامہ سے سخن گسترانہ ایک آدھ بند رزمیہ بھی نکل گئے ہیں، البتہ ضمیر نے جنگ کی صف آرائی، طلوع صبح عاشورے کا بیان، گھوڑے، تلوار اور لڑائی کے بندوبست زیادہ اور اچھے کہے ہیں۔ اس خیال سے بھی میں ان کے قول کی تصدیق کرتا ہوں۔
انیس خلیق میر مستحسن خلیق کے بڑے صاحبزادے تھے۔ زبان تو ان کے حصے اور ترکے میں ہی تھی مگر اس کو انھوں نے اور بھی جلوہ دیا۔ صبح کا عالم، رات کی رخصت، جنگل اور بستی کی حالت، مرغزار کی بہار، گھوڑے کی جست و خیز، تلوار کی برش، جنگ کا عالم، فوج کی سپہ اندازیاں، زہد و عبادت کی حقیقت، صبر و شکر کے مراحل، ان مضامین کو طولانی مسدسوں میں نہایت بہتات کے ساتھ نظم فرمایا ہے اور ان کی ایسی سچی تصویر کھینچ دی کہ مانی و بہزاد تو کیا، حال کے تعلیم یافتہ مصور ان مشہور سے بھی نا ممکن ہے۔ وسعت خیال، طرز بیان اور شرفا کے دل پسند محاوروں کے اعتبار سے ہندوستان میں تو کیا دور دور تک ایسا با کمال شاعر نہیں ہوا۔ اُنس، مونس اور وحید بھی تھوڑے اختلافات کے ساتھ وہی زبان اور وہی طرز رکھتے تھے، خصوصاً مونس تو اپنے با کمال بھائی کے پورے مقلد تھے۔ اس زمانے میں بھی اگر کسی کو انیس کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنا ہو تو نفیس کو لکھنؤ جا کر دیکھ لے یا کسی مجلس میں ان کی زمزمہ خوانیاں سنے۔ یوں تو غزلسرا اور حسن و عشق کے کوچہ گرد برے یا بھلے ہندوستان میں بہت سے آئے، بہت سے آئیں گے، اور بہت سے موجود ہیں مگر رونا تو اس کا ہے کہ یہ نعمت ہندوستان کو شاید ہی پھر کبھی نصیب ہو۔ گو فن مرثیہ گوئی اور اس ترکیب خاص میں میر انیس خود ہی موجد اور خود ہی منتہی سمجھے جاتے تھے پھر بھی بعض محققین نہ ان کو (کذا) نفس شاعری پر بلکہ بعض خیالات شاعرانہ پر معترض ہیں۔ مگر زمانے کے اعتبار وزنی نہیں سمجھا جا سکتا۔ انیس نے تصحیح روایات میں بہت کاوشیں کی ہیں کیونکہ قبل و بعد کے مرثیہ گویوں نے تو نفس الامر کو ایسا لیپ پوت کر برابر کر دیا ہے کہ نہ اہل بیت اہل بیت معلوم ہوتے ہیں اور نہ امام حسینؑ امام حسینؑ۔ رخصت و بین میں امر واقعی کا ضرور لحاظ رکھنا تھا۔‘ (بگڑا گویا مرثیہ خواں اور بگڑا شاعر مرثیہ گو، 10-12)
اگست سے اکتوبر 1897ء تک کے تین شماروں میں شامل فہرست مضامین ملاحظہ فرمائیں:
شمارہ بابت اگست 1897ء۔ سرورق پہ درج تفصیلات:
ادیب، نمبر ۲ بابت اگست 1897ء جلد ۱
حسب الحکم ممبران اردو لٹریچر سوسائٹی و بہ نگرانی جناب سید نصیر حسین خان صاحب خیال رئیس پٹنہ سکرٹری سوسائٹی پٹنہ عظیم آباد
در مطبع قیصری پٹنہ عظیم آباد طبع شد
پہلے صفحہ پر ’ مضامین ادیب‘ کے تحت فہرست مضامین درج ہے:
مصر کی ممی ہرقل اور مجسم نیکی و عیش کی خوشامدیں : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
قاضی سراج الدین و شاہ بنگالہ : جناب سید نصیر حسین خان خیال
نصیحت گوش کن جاناں الخ : جناب مولوی محمد نور الحسن صاحب بی اے
ذہن رسا : جناب سید عبد الحسن صاحب ضیا غازیپوری
ادیب : جناب سید محمد صاحب وصال
اردو لٹریچر سوسائٹی مہتمم سکریٹری
شمارے کے کل صفحات: 32
شمارے کی آخری عبارت: کل خط و کتابت و ارسال زر وغیرہ جناب سید نصیر حسین خان صاحب خیال، رئیس پٹنہ حاجی گنج پٹنہ عظیم آباد سکریٹری، اردو لٹریچر سوسائٹی و مہتمم رسالۂ ادیب کے نام سے ہونی چاہیے۔
رقم کا اندراج نہیں ہے لیکن اردو لٹریچر سوسائٹی اور ’ادیب‘ کے اغراض و مقاصد کے بیان اشتہار میں لکھا ہے کہ ’ادیب‘ کی سالانہ قیمت ڈھائی روپے ہے اور سوسائٹی کی رکنیت کے لئے سالانہ چندہ ایک روپیہ۔ اس میں شامل خیال کی تحریر ایڈیسن کے کسی مضمون کا ترجمہ ہے۔
درج بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ خیال ہی اس اردو لٹریچر سوسائٹی کے سکریٹری تھے، اور رسالہ ’ادیب‘ کے مہتمم مدیر بھی۔
شمارہ بابت ستمبر 1897ء۔ سرورق سابقہ شمارے جیسا۔
مضامین ادیب:
ریشمی کپڑوں کا رواج : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
کرشمۂ قدرت : سید نصیر حسین خان خیال
قدیم یونان کے میلے : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
موت اور اس کی یاد : جناب سید محمد صاحب وصال
فال لینے کا رواج : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
موسم بہار کی ایک رات کا خواب : سید نصیر حسین خان خیال
زبان اردو : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
آسمانی سقہ (نظم) : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
شمارے کے کل صفحات: 32۔
آخری صفحہ پر ارسال زر کی اطلاع سے قبل ’قواعد و ضوابط ادیب‘ شامل کیے گئے ہیں۔
شمارہ بابت اکتوبر 1897ء۔ سرورق کی دیگر تفصیلات سابقہ شمارے جیسی ہیں۔
مضامین ادیب:
السعی منی و الاتمام من اللہ : جناب سید محمد صاحب وصال
صانع عالم کی نسبت ہمارے خیالات : جناب مولانا سید فدا حسین صاحب
بگڑا گویا مرثیہ خواں اور بگڑا شاعر مرثیہ گو : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
شجاعت : جناب شاہ سرفراز حسین صاحب ایف اے
خطائیوں کے حالات : جناب مولوی علی سجاد صاحب سجاد
شمارے کے کل صفحات 32۔ 24ویں صفحہ کے بعد پھر صفحہ ۱ سے ۸ تک ضمیمہ کی صورت میں ایک تحریر شامل ہے جس کا ذکر فہرست میں نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ’پھولوں کی ڈالی‘ کے عنوان سے سجاد کے ایک ناول کا حصہ ہے جس کا پہلا باب سجاد کے تعارفی الفاظ کے بعد ’باپ بیٹی کا حال‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے صفحات کی کل تعداد 32 ہے۔ یہ واحد شمارہ ہے جس میں پہلا مضمون اداریہ کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ اسی میں سجاد کی متذکرہ تحریر سے متعلق یہ بیان موجود ہے کہ:
’اس مہینہ ادیب میں ایک اخلاقی ناول بھی شائع ہوا ہے۔ اسے میری سوسائٹی کے معزز اور باکمال پریسیڈنٹ نے ترتیب دیا ہے۔ یہ اخلاق حمیدہ، خدا پرستی اور دین طلبی کا راستہ بتانے والا ہے۔ زبان اعلی درجہ کی ہے۔ مضامین عجب موثر اور دلچسپ ہیں۔ مجھے عام طبیعتوں سے اس کی نسبت رائے لینی ہے۔ اگر میرے ناظرین پسند فرمائیں گے تو یہ برابر شائع ہوا کرے گا۔ السعی منی وا لا تمام من اللہ۔‘ (وصال 1897، 3)
’’ادیب‘‘ کے صرف چار شمارے شائع ہوئے۔ آخری شمارے میں خیال کی کوئی بھی تحریر شامل نہیں ہے۔ قاضی عبد الودود نے لکھا ہے کہ:
’1897ء سے قبل بہار میں گلدستے بہت نکلے، اور ان میں تھوڑی بہت نثر بھی ہوا کرتی ہو گی۔ لیکن جہاں تک میرا علم ہے یہ پہلا ماہنامہ ہے جس میں نثر کے مقابلے میں نظم بہت کم تھی۔ خیال کی ایک تحریر میں میں نے دیکھا تھا کہ شرر نے دلگداز میں اس کی بڑی تعریف کی تھی۔ مضامین میں شرر کا اثر نمایاں ہے۔‘ (چند اہم اخبارات و رسائل 1993، 187)
قاضی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ شرر کے ذریعہ اس رسالہ کی تعریف کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے مضامین پہ شرر کے اثرات نمایاں تھے۔ سید بدر الدین احمد نے اس کے ایک شمارے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’بہت زمانے کی بات ہے، ایک دن مجھے ’ادیب‘ کے چند پرانے پرچے مل گئے تھے۔ ان میں شیکسپیر کے مشہور ڈراما A Midsummer’s Night Dream کا اردو ترجمہ نصیر حسین خیال کا لکھا ہوا بھی موجود تھا۔ میری نظر میں شیکسپیر کا انگریزی اوریجنل ڈراما بھی تھا مگر مجھے حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ نصیر حسین خیال کے ترجمے میں بھی وہی جذبات کی رو، وہی الفاظ کی ہم آہنگی، وہی زبان کی سلاست اور اس کے گیتوں میں وہی مٹھاس اور رس ہے جو شیکسپیر کی ڈراما نگاری کی اصلی روح ہے۔‘ (احمد 2003، 497-98)
یہ شمارہ ستمبر 1897ء کا ہے۔ اس میں ایک نظم کے علاوہ کل سات نثری تحریریں شامل ہیں۔ خیال کی تحریروں میں متذکرہ ڈراما ’موسم بہار کی ایک رات کا خواب‘ کے علاوہ ایک انشائیہ ’کرشمۂ قدرت‘ شامل اشاعت ہے۔ ایک تحریر بعنوان ’موت اور اس کی یاد‘ کے قلمکار سید محمد وصال ہیں۔ یہ بھی انشائیہ کے انداز میں ہے۔ شیکسپیر کے متذکرہ ڈراما کا ترجمہ در اصل Lamb’s Tales from Shakespeare میں شامل اس ڈراما کی کہانی کا ترجمہ ہے، اور خود خیال نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ لہذا اس ترجمہ میں شیکسپیئر کے ڈراموں کی خوبیوں کی جستجو لاحاصل ہے۔ تاہم یہ ایک اہم پہلو ہے کہ خیال نے Lamb کے پیش کردہ قصے کو بہ حسن کمال اردو میں پیش کر دیا ہے۔ اس ترجمہ کے ابتدائی حصے ملاحظہ فرمائیں:
’کسی زمانہ میں شہر ایتھنس میں ایک قانون تھا جس کی رو سے وہاں کے لوگ مجاز تھے جس سے چاہیں اپنی بیٹی بیاہ دیں۔ اور لڑکیاں اگر انکار کرتیں تو باپ کو ان کی جان تک لینے کا اختیار تھا۔ لیکن اولاد کی آگ بری ہوتی ہے۔ باپ کیونکر گوارا کر سکتا ہے کہ اس کے بچے قتل ہوں۔ اسی وجہ سے شاذ و نادر یہ قانون عمل میں آتا۔ بلکہ عموم اً لڑکیوں کی ضدیں رکھ لی جاتیں اور اس سخت قانون کی صرف دھمکیاں ہی دی جاتی تھیں۔ عمل در آمد کچھ نہ ہوتا تھا۔‘ (موسم بہار کی ایک رات کا خواب 1897، 14-15)
اس ترجمے میں موجود سلاست و روانی اور قصہ پن کے عناصر واضح کرتے ہیں کہ خیال انگریزی کی تو اچھی واقفیت رکھتے ہی تھے، تخلیقی مزاج کے حامل بھی تھے۔ ان کی دوسری تحریروں میں بھی ان خوبیوں کے حامل اجزا موجود ہیں۔ بدر الدین احمد نے جس گیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی ترجمہ میں موجود ہے۔ گیت سے پہلے شامل مکالمہ دیکھیے:
’شہزادی: تم میں سے کچھ عورتیں جا کر گلاب کے ان کیڑوں کو ماریں جو کلیوں کو ستیاناس کرتے ہیں اور کچھ چمگادڑوں سے لڑیں۔ میں ان کی کھال کا شلوکہ بناؤں گی۔ کوئی جا کر رات میں چیخنے والے الو کو منع کر آئے کہ اپنی زبان بند کرے، شہزادی آرام کرتی ہے۔ مگر سب سے پہلے ایک گیت گاؤ کہ میں سو رہوں۔‘ (21)
گیت کے ایک کورس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں جس سے خیال کے شعری مزاج اور شاعرانہ ذوق کا پتہ چلتا ہے۔
میٹھے سروں میں بلبل دے اس گھڑی یہ لوری
لَلّا لَلّا لَلّابی لَلّا لَلّا لَلّابی
جادو نہ سحر کوئی آئے قریب اس کے
نقصان میری پیاری بیگم کو کچھ نہ پہنچے
لو ہوتی ہوں میں رخصت اب صبح پھر ملوں گی
لَلّا لَلّا لَلّابی لَلّا لَلّا لَلّابی
واضح ہے کہ ترکِ شاعری کے باوجود سخن فہمی اور سخن سنجی کا ملکہ ہمیشہ موجود رہا۔ اس کی ایک مثال رسالہ ’جادو‘ میں بھی موجود ہے۔ اس سے قبل اگست 1897ء کے شمارے میں ایڈیسن کی ایک تحریر کا ترجمہ ’ہر قل اور مجسم نیکی و عیش کی خوشامدیں‘ شامل اشاعت ہے۔ اس کا اولین حصہ ملاحظہ فرمائیں:
’جب ہرقل کا وہ سن و سال تھا جس میں طبعی طور پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی روش زندگی اختیار کرنی چاہیے تو ایک روز اکیلا جنگل میں گیا جہاں کی خاموشی اور تنہائی نے اس کے خیال کو اور مدد دی۔ وہ اپنے موجودہ حالات پر غور کر رہا اور منتشر تھا کہ میں کون سی راہ پسند کروں کہ اتنے میں اس نے دو عورتوں کو اپنی طرف آتے دیکھا جو معمول سے زیادہ دراز قامت تھیں۔ ایک کی صورت سے شرافت ٹپک رہی تھی اور رفتار بھی پیاری تھی۔ اس کا حسن قدرتی تکلف سے بری اور چال سے پاکدامنی عیاں تھی۔ اس کے کپڑے برف سے زیادہ سفید اور براق تھے۔‘ (ہرقل اور مجسم نیکی و عیش کی خوشامدیں 1897، 7)
قدوس صہبائی کا بیان (1955، 40) ہے کہ خیال نکتہ سنجی اور شاعری میں تخیل کی اہمیت و قدر و قیمت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس کی دوسری جھلک ہمیں ان کے انشائیہ ’’پانچ ملک الشعرا‘‘ میں بھی ملتی ہے، جس میں انھوں نے نو مشق شعرا کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے خاص اسلوب میں لکھا تھا کہ’’ اِن حضرات کی مثال تازی گھوڑے کی سی ہے۔ اصالت موجود لیکن اچھے شہسوار کی ران باگ دیکھی نہیں!ً قدم تو چلے مگر جب پھریری لی، طبیعت سے مجبور ہو کر دولتّی جھاڑ دی‘‘۔ ’’ادیب‘‘ کے شعری حصے میں روایتی اردو غزل کے موضوعات سے پرہیز کیا جاتا تھا اور نظموں کی اشاعت کو فوقیت دی جاتی تھی۔ خیال کے ایک مضمون ’’کرشمۂ قدرت ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’پچھلا پہر ہے۔ رات آخر ہے۔ صبح کے آثار نمایاں ہو چلے ہیں۔ ایک گوشہ نشیں، علم کا شائق، جس کی عمر اب تک کتابوں ہی کی سیر میں بسر ہوئی ہے، اور جس کو قدرتی کرشموں پہ کچھ بھی اطلاع نہیں ہونے پائی ہے۔ اپنی عادت کے موافق شمع جلائے کتاب میں غرق ہے۔ دنیا خواب غفلت میں ہے مگر اس گوشہ نشیں کی آنکھیں اور دل دونوں بیدار ہیں۔ یکایک شمع خاموش ہو گئی اور سارا مطلب ختم ہو گیا۔ وہ علم کا شائق جھنجھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ یہ کون دشمن علم ہے جس نے عین لطف پر ایسا اندھیر مچا دیا۔ آواز آئی: ہوا ہے، ہوا۔‘ (کرشمۂ قدرت 1897، 6)
یہ خیال کی نوجوانی کے زمانہ کی تحریریں ہیں۔ ان میں سر سید احمد خاں کی انشائیہ نگاری کی خوبیاں بھی بہ آسانی پائی جا سکتی ہیں۔ گویا ابھی وہ صاحب طرز نثر نگار اپنے اسلوب کی تراش خراش میں مصروف تھا۔ خیال، وصال اور سجاد ہی اس رسالہ کے اہم مضمون نگار تھے۔ اس سلسلے میں خیال کے آخری زمانے کی ایک تحریر میں یہ بیان بھی موجود ہے کہ۔
’’ادیب‘ میں وہ (سجاد) زیادہ تر خود لکھا کرتے تھے۔ متعدد اور مختلف سبجکٹس پر مضامین نکلا کیے۔ نثر تو نثر، نظم کا حصہ بھی زیادہ تر انھیں کے زور قلم کا منت کش رہا۔ ’آسمانی سقہ‘ ایک نظم ایسی پیاری اور دلکش لکھی کہ اس کے شعر زبانوں پر آ گئے۔ اور ہندوستان میں جب نیچرل شاعری کا ذکر آئے گا تو اولیت کا سہرا اسی کے سر رہے گا۔ ’پھولوں کی ڈالی‘، ایک اخلاقی ناول بھی اسی رسالہ کے ذریعہ سے پبلک کے آگے پیش کیا گیا۔‘ (بہار کا اردو ناول نگار، 16-17)
ان تحریروں کی بنیاد پر یہ اظہار خیال بھی کیا گیا کہ اس ماہنامہ میں جو مضامین نصیر حسین خیال نے لکھے وہ منفرد تھے۔ نو عمری میں انھوں نے اردو زبان کو وہ اسلوب عطا کیا جو اسلوب زبان و ادب کو اکثر مصنفین اور نثر نگار اپنی پختہ سالی میں دے سکے ہیں۔ (احمد 2003، 497) خیال ’’ادیب‘‘ کے ذریعہ افادی مضامین کے پہلو بہ پہلو شگفتہ و سادہ اردو نثر کو بھی فروغ دینا چاہتے تھے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ بہار میں اس رسالہ کی خدمات کو بہت جلد فراموش کر دیا گیا۔ تین دہائیوں بعد ہی 1935ء میں ’بہار کی صحافت‘ پر مضمون لکھتے ہوئے خضر بانو خیری نے ’’ادیب‘‘ کے سلسلے میں یہ کہہ دیا کہ ان کے پاس اس کی کوئی کاپی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ’’صحیفہ فطرت کے ایک نمبر سے معلوم ہوا ہے کہ اس نام کا کوئی اردو رسالہ پٹنہ سے شائع ہوا کرتا تھا۔ ‘‘ (بہار کی صحافت, 43) جبکہ خود خیال کے بیان (تزک خیال اول, 17) اور پھر اقبال سلیم کے اس قول میں ’’ادیب‘‘ کی اہمیت کی شہادت ملتی ہے کہ اس کی نگارشات میں موجود خیال کی ’’زبان دانی اور ادب کو دیکھ کر سر سید اور عبد الحلیم شرر نے بڑی تعریف کی تھی۔ ‘‘ (داستان اردو 1945) ان کے علاوہ صہبائی (1955، 40) شائق احمد عثمانی (مغل اور اردو، 2) اور حمید عظیم آبادی (1940، 610) نے بھی لکھا ہے (الف) کہ سرسید احمد خاں اور عبد الحلیم شرر بھی ’ادیب‘ کی نگارشات کے معترف تھے۔ پروفیسرمحفوظ الحق نے 1917ء میں ہی یہ لکھا تھا کہ ’ادیب‘ کے لٹریچر کو دیکھ کر سر سید مرحوم اور مولوی عبد الحلیم شرر نے اس وقت یہ رائے قائم کی تھی کہ اگر یہ رسالہ جاری رہا تو عظیم آباد اور صوبۂ بہار دلی کی تقلید سے آزاد ہو جائے گا۔ (نواب نصیر حسین خان صاحب خیال، 97) عبد الحلیم شرر نے ’دلگداز‘ کے اگست 1897ء کے شمارہ میں ’ادیب: لٹریچر سوسائٹی پٹنہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالہ‘ کے عنوان سے اس پر تبصرہ شائع کیا تھا۔ ’العصر‘ میں شائع چند دیگر مضامین اور محفوظ الحق کی اس تحریر کے حوالے سے جناب عابد رضا بیدار نے لکھا ہے کہ عمادالملک، نصیر حسین خیال، حالی، تعشق لکھنوی، مضطر خیر آبادی، نظر لکھنوی اور نول کشور کے وارث پراگ نرائن کے بارے میں معاصرانہ شہادت کی اہمیت رکھنے والی ایسی تحریریں کسی دوسری جگہ کم ملیں گی۔ اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں ’ادیب‘ کی اہمیت و افادیت بہار سے باہر بھی تسلیم کی جاتی تھی۔
’ادیب‘ کے مضامین خالص ادبی لحاظ سے بہت معیاری نہیں تھے نہ ہی ان کا تعلق براہ راست اردو ادب کے روایتی موضوعات مثلاً فلاں کی شاعری یا نثر نگاری سے تھالیکن اس میں جن موضوعات پہ تحریروں کو شامل کیا گیا ان کی بنیاد پہ یہ کہنا موزوں ہے کہ خیال مسلمانوں یا اردو دانوں کو ان کے حصار سے باہر نکالنے کی تمنا رکھتے تھے۔ خیال نے جس مقصد کے تحت اسے جاری کیا اور جس قسم کی تحریروں سے اسے مزین کیا اس سے ظاہر ہے کہ نو عمری سے ہی خیال کی دلچسپیوں کا دائرہ خالص علمی تھا۔ اردو زبان کی بے لوث خدمت، اس میں اعلیٰ اخلاقی نیز اصلاحی ادب کی تخلیق، انگریزی ادب کے نمونوں کے مد نظر رجحان ساز ادب کی پیش کش، غزل کی روایتوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے موضوعاتی نظم نگاری، لسانی اصلاحات اور معاشرتی بیداری کے لئے قلمکاری کو انھوں نے رئیسانہ مشغولیتوں سے بہتر تصور کیا۔ اوائل عمر کی ان کی تحریروں میں اعتماد کی ایک فضا ملتی ہے اور خدمت اردو کے مخلصانہ جذبوں کی نشانیاں بھی۔
خیال کے ذمے ’ادیب‘ کے علاوہ ایک اور رسالے کی اشاعت کے انتظامات بھی تھے۔ یہ ’نوائے کیمبرج‘ تھا۔ قاضی عبد الودود نے ’نوائے کیمبرج‘ کی تفصیل قلمبند کی ہے اور لکھا ہے کہ
’’نوائے کیمبرج‘ کا نام میں نے ہندوستان میں سنا تھا۔ اپریل 1923ء میں کیمبرج پہنچا تو اس کا یک شمارہ نظر سے گزرا۔ اردو خواں طلبائے کیمبرج یونیورسٹی کا یہ ادبی رسالہ ہر ٹرم میں نکلتا تھا اور اس کی ترتیب کا کام انجمن اردو کیمبرج یونیورسٹی کی مجلس انتظامیہ انجام دیتی تھی۔ یہ مطبع نول کشور میں چھپتا تھا اور ’ہندوستان میں بذریعہ نواب نصیر حسین خاں خیال شائع ہوتا تھا۔‘ (1993, 212)
پہلا شمارہ 48 صفحوں کا تھا جس میں نو صفحات کے ’افتتاحیہ‘ کے بعد عبد الماجد بی اے کا مضمون ’نوائے کیمبرج‘، خیال کا مضمون ’کیمبرج میں دوست‘، بشیر حسین زیدی کا مضمون ’قومیت اور مذہب‘، انڈین کانفرنس 1920ء کی روداد، ’کیمبرج کی رفتار‘ کے تحت کیمبرج میں ہندوستانی طالبعلموں کے داخلوں کی تفصیلیں اور ’جواہر سخن‘ کے تحت شوق قدوائی، اکبر الہ آبادی، عبد السلام ندوی، ارمنا لکھنوی، امید امیٹھوی، خیال عظیم آبادی، مولوی محمد اللہ ابن سر بلند جنگ محشر، محمد انعام الرحیم انصاری شیدا، مولوی محمد معین الدین انصاری کی غزلوں کے علاوہ ’عید‘ کے عنوان سے انعام الرحیم شیدا کے دو قطعے، ’مکتوب دوست‘ کے عنوان سے اثر کے پانچ اشعار، ’مذاقیہ کلام‘ کے عنوان سے شیخ محمد صلاح الدین حیدر کے اشعار شامل اشاعت ہیں۔
بِہار کے شہر سیوان کے قصبہ کھجوہ سے شائع ہونے والے رسالہ ’اصلاح‘ کی1900ء سے 1905ء تک کی فائلوں کی ورق گردانی سے علم ہوتا ہے کہ اس کی نشر و اشاعت میں بھی خیال بطور خاص دلچسپی لیا کرتے تھے۔ مثلاً اس کے شمارہ ۶ جلد ۶ کی اولین عبارت یہ ہے: ’سرپرستی اصلاح: ناظرین اصلاح خوب جانتے ہیں کہ اصلاح کی ماہانہ اعانت کے محرک جناب نواب نصیر حسین خاں خیال عظیم آبادی اور جناب منشی حسن رضا صاحب رئیس سیتاپور ہیں جن کی تحریک و تائید سے دیگر مومنین با ایقان نے بھی اس کار خیر پر توجہ کی اور الحمد للہ یہ سلسلہ ترقی پر ہے‘۔
٭٭٭