خیال مشرق و مغرب کے کلاسیکی ادب اور اس کے ثقافتی پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ ہندوستان میں بیسویں صدی کے اوائل کی ان ملک گیر سرگرمیوں کے ایک کلیدی اور فعال رکن بھی تھے جن کا تعلق مسلم ثقافت اور مسئلۂ زبان سے تھا۔ تاریخِ اقوام ان کا محبوب موضوع رہا ہے اور اس سلسلے میں مغربی مصنفین کی تحریروں سے انھوں نے جا بجا استفادہ بھی کیا ہے۔ وہ مشرقی ثقافت، بطور خاص ہندوستان کی قدیم ثقافت اور مشترکہ ہندوستانی ثقافت کے ثنا خواں تھے تو دوسری جانب مغربی تعلیم کے حامی بھی تھے۔ اس حمایت کے با وجود نو آباد کاروں کی ان حکمت عملیوں کی سخت مخالفت بھی کرتے تھے جن سے مشرقی اقدار مجروح ہوتی تھیں۔ تعلیم کے ایسے نو آبادیاتی نظام کی انھوں نے حتی الوسع تکذیب کی اور اس نظام کے پس پردہ موجود استعماری قوتوں کی اصل منشا کو بھی گرفت تفہیم میں لینے کی سعی کی ہے۔
خیال اپنی زبان اور اس سے وابستہ ثقافت کو دیوانگی کی حد تک محبوب رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں اردو کو جا بجا ہندوستان کی راشٹر بھاشا لکھا ہے۔ ان کی رحلت کے بعد رسالہ’ ندیم‘ کے جنوری 1935ء کے اداریہ کے یہ الفاظ ان کی شخصیت کے اس پہلو کی جانب واضح اشارے کرتے ہیں:
’خیال جیسی قابل قدر شخصیت کا ماتم ہم صرف اس لئے نہیں کر رہے ہیں کہ ایک جادو نگار اہل قلم، ایک بے مثل ادیب، ایک مخصوص انداز تحریر کے موجد کے قلمی تعاون سے ملک کو محروم ہونا پڑا۔ حضرت خیال کا مقصد زندگی صحافتی دنیا پر زور قلم کا سکہ جمانا نہیں تھا بلکہ اردو کا یہ مخلص اور سچا خادم اردو کی قلمی خدمت سے زیادہ اس کی عملی ترقی کے لئے آخر عمر تک مصروف جد و جہد رہا۔‘ (نظرات 1935، 3)
خیال کی وہ سرگرمیاں جن کا تعلق متعلقہ عہد میں مسئلۂ زبان، اردو کی بقا اور اس کے جائز حقوق کے حصول اور تفحص زبان سے ہے، ان کا سلسلہ کلکتہ کو مستقر بنانے کے بعد زورو شور کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی تقاریر اور تحریروں میں جولانیاں آنے لگتی ہیں۔ در اصل، ’ادیب‘ کے اجرا کا مقصد بھی دیگر امور کے پہلو بہ پہلو قومی معاملات، بالخصوص زبان اردو سے وابستہ مسائل نیز ان کے تئیں حکومت وقت کے منصوبوں اور اس کی منشا کا محاکمہ اور فروغ اردو کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ کلکتہ آنے کے بعد ان کے جوہروں میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ کلکتہ میں قیام ان کی شخصیت اور علمی تگ و دو کے معاملے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
’شادی کے بعد وہ جب کلکتہ میں رہنے لگے تو ان کی ادبی زندگی کے ساتھ ان کی سماجی اور سیاسی زندگی کا بھی دائرہ وسیع ہونے لگا۔ ان کی ادبی زندگی کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ اب تک جو دریا کوزہ میں بند تھا وہ کلکتہ جا تے چھلک گیا تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا۔ کلکتہ کی زندگی نے جو ان کو فراغت مہیا کی اس سے ان کی مصروفیات سہ چند بڑھ گئیں۔ اب ایک ادیب کی حیثیت کے علاوہ ان کی سماجی اور سیاسی مصروفیتیں بھی بڑھ گئی تھیں، اور ادبی، سماجی اور سیاسی انجمنوں میں ہر جگہ ان کا مقام بھی بن گیا تھا۔‘ (حقیقت بھی کہانی بھی، 498)
ڈھاکہ میں 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کے سلسلے میں منعقد اجلاس میں نصیر حسین خیال بھی بہار کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انھوں نے نے 1908ء میں نواب شمس الدولہ کی صدارت میں کلکتہ میں مسلم لیگ کی شاخ قائم کی لیکن خود زندگی بھر ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ قومی کلچر کے زبردست حامی و داعی رہے۔ 1906ء میں مسلم اکابرین کا ایک وفد مسلمانوں کے سیاسی معاملات سے تعلق رکھنے والے مسائل کو سمجھانے اور سلجھانے کے لئے بمقام شملہ لارڈ منٹو کی خدمت میں باریاب ہوا تھا۔ خیال اس ’شملہ وفد‘ کے بھی رکن تھے۔ ریفارم اسکیم میں وہ شروع سے اخیر تک تندہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
بمبئی میں 1915ء کے کانگریس اور مسلم لیگ کے متحدہ اجلاس میں ایک کمیٹی کی تشکیل ہوئی تھی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی راہیں ہموار کرے۔ خیال بھی اس کے رکن نامزد کیے گئے۔ اس کمیٹی کی جو پہلی نشست جون 1916ء میں کلکتہ میں منعقد ہونے والی تھی، اس میں مسئلۂ زبان شامل نہیں تھا۔ خیال کو یہ کمی ناگوار گزری تو انھوں نے کمیٹی کے ناظم سے اس کی شکایت کی اور جب انھیں یہ یقین ہو گیا کہ وہ موضوع منصوبے میں شامل نہیں ہو پائے گا تو مستعفی ہو گئے۔ لیکن کمیٹی کے ناظم سر سُریندر ناتھ بنرجی سے اس موضوع پر مراسلت کے سبب ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ اسی برس اگست میں آل انڈیا اردو کانفرنس کا قیام عمل میں آیا اور پھر اسی سال لکھنؤ کے قیصر باغ کی بارہ دری میں 24 دسمبر کو کانفرنس کا پہلا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت خیال نے کی۔ اس موقعہ پر مہاراجا محمود آباد، محمد علی جناح اور جسٹس وزیر حسن کے ساتھ ہی مہاتما گاندھی، سر سُریندر ناتھ، موتی لال نہرو، اور مدن موہن مالویہ (یہ بھی خیال کے حلقۂ احباب میں شامل تھے) بھی موجود تھے۔
اس اجلاس میں خیال نے اپنے خطبۂ صدارت میں، جو کم و بیش چار گھنٹوں میں ختم ہوا، اردو کی ہمہ گیریت، اردو کے تئیں حکومت کے رویہ، اردو کی ثقافتی اہمیت، ہندو مسلم اتحاد اور فروغ اردو، انگریزی نظام تعلیم کے نقائص اور قومی زبان کی حیثیت سے اردو کے کردار کو موضوع گفتگو بنایا تھا۔ اس تقریر سے چند اقتباسات خیال کی فکری رو کا فہم حاصل کرنے کے لئے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
’جو زبان سلطنت کی زبان نہ ہو اور کسی قوم کی تعلیمی ضروریات کو پورا نہ کر سکتی ہو اس کی بزرگی اور اہمیت دیرپا نہیں ہو سکتی۔ چار ہزار برس کی محنت اور ہزار سال کی متفقہ کوشش کے بعد اس اردو کو پراکرت کے معمولی درجے سے ترقی دے کر زبان یعنی لینگوئج کے رتبے تک لا چکے ہیں اور اب آپ کا فرض ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو اپنی زبان کو نئی اور موجودہ ضروریات کے مطابق بھی بنا ڈالیے۔ مشاعروں کی واہ واہ اور مجلسوں کی آہ آہ سے اب ہمارا کام نہیں چل سکتا…ہمارا نقطۂ نظر ہندیوں کو ان کی زبان میں تعلیم دینا اور ایک ایسی اردو یونیورسٹی کا قائم کرنا ہے جس کی تحریک آج سے پچاس برس قبل، یعنی، 1867ء میں علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی اور برٹش انڈین ایسو سی ایشن کی متفقہ کوشش سے عام ہو چکی…ہمارے فرائض میں تیسرا اہم فرض یہ ہے کہ اس زبان کے ذریعے سے اس ملک کا اصلی اور صحیح کیرکٹر دنیا کے سامنے پیش ہوتا رہے …اس گورنمنٹ کی برکات اور اس کی عنایات میں سے ایک بڑی عنایت اس زبان کی سر پرستی تھی۔ لیکن اب اس سے جس طرح کی مغائرت اور علیحدگی برتی جا رہی ہے اس وجہ سے حاکم و محکوم جیسی دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی ہمیں بڑی شکایت ہے۔ اس زمین کی آب و ہوا کسی بیرونی زبان کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ گذشتہ تجربوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ خلاف فطرت امر چل نہیں سکتا اور 35 کروڑ مخلوق کوئی غیر زبان اختیار نہیں کر سکتی۔‘ (مغل اور اردو، 11-15)
1917ء کے آغاز میں ہی خسرو دکن نے عثمانیہ اردو یونیورسٹی کے قیام کا فرمان جاری کر دیا۔ خیال کا تصور تھا کہ ہندوستانی قومیت مشترکہ تہذیب کے سانچے میں ڈھالی جائے۔ مستقبل کے ممکنہ خطروں اور اندیشوں کو ملحوظ رکھ کر انھوں نے ایک منصوبہ بھی بنایا جس میں دیگر اہم تجاویز کے ساتھ ہی ایک اہم تجویز یہ بھی تھی کہ
’ہر اس صوبے کے محکمۂ تعلیم میں، جہاں ہندستانی زبان بولی جاتی ہے، وہاں ٹکسٹ بک کمیٹی کی طرح اردو اور ہندی کے چند ماہرین ادب کا ایک بورڈ اس غرض سے قائم کیا جائے جو نصاب میں داخل ہونے والی کتابوں سے بڑے بڑے غیر مانوس الفاظ نکال کر ان کی جگہ ایسے آسان اور روزمرے داخل کرے جو ہندی اور اردو پڑھنے والے دونوں قسم کے طلبہ کے لئے کسی صورت میں دقت طلب نہ ہوں اور ساتھ ہی اس کے وہ خود اپنی نگرانی میں ہندی اور اردو کے اہل قلم اصحاب سے مکتبوں، پاٹھ شالاؤں اور اسکولوں کے لئے کورس کی کتابیں تصنیف کرائے جو چھاپی تو جائیں، علیحدہ علیحدہ ہندی اور اردو دونوں رسم الخطوں میں، مگر ان کتابوں کی زبان مشترک اور عام فہم ہندستانی ہو۔‘ (نظرات 1935، 4)
کلکتہ میں ہی 1917ء میں آل انڈیا تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو اس کی صدارت کے لئے بھی خیال کو منتخب کیا گیا۔ اس صدارتی خطبے میں بھی انھوں نے انگریزی تعلیم کے حسن و قبح کی نشاندہی کی اور قومی اتحاد کے لئے اردو زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ خیال کا تصور تھا کی مشترک انتخاب کو قومیت کی بنیاد قرار دینے سے زیادہ کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہندستانی قومیت مشترک زبان کے سانچے میں ڈھالی جائے۔ ان تجاویز کا ہی اثر تھا کہ کانگریس نے اپنے 1934ء کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنی سبجکٹ کمیٹی میں ہر رکن کے لئے ہندستانی زبان میں تقریر کو لازمی قرار دیا۔ ان کے ذہن کی یہی رو تھی جس کی وجہ سے وہ مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گئے۔
خیال نے اپنی تجاویز کو صفحۂ قرطاس تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عملی صورت میں لانے کے لئے انھوں نے مختلف محکموں میں خود جا کر اپنی خدمات پیش کیں۔ اس سلسلے میں مختلف علاقوں کے سفر کے دوران ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ حقیقت بھی رہی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جب تک زبان کا تصفیہ نہ ہو جائے کہ اس ملک میں آئندہ کون سی زبان دائر و سائر ہو، جو ان دونوں کے لئے قابل قبول ہو کر سرکاری سطح پر بھی رائج اور تسلیم کی جا سکے، تب تک ان کے درمیان کوئی حقیقی اور پائدار فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ رسالہ ’’ندیم‘‘ (گیا) کے مدیر انجم مانپوری نے خیال کے انتقال کے بعد ایک اداریہ میں زبان کے تئیں خیال کی سرگرمیوں کے تعلق سے یہ تفصیلات پیش کی تھیں کہ:
’موجودہ ریفارم اسکیم جسے اب تک بہتیرے لوگ ہیولیٰ سمجھے ہوئے ہیں، جب عملی شکل و صورت اختیار کرے گا اس وقت کے زبان کے مسئلہ کی اہمیت خیال کے پیش نظر تھی۔ آئندہ خطرہ کو ملحوظ رکھ کر انھوں نے ایک اسکیم بنائی تھی جس میں منجملہ اور تجاویز کے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ہر اس صوبہ کا محکمۂ تعلیم جہاں ہندوستانی زبان بولی جاتی ہے، ٹیکسٹ بک کمیٹی کی طرح اردو اور ہندی کے چند ماہرین ادب کا ایک بورڈ اس غرض سے قائم کرے جو کورس میں پیش ہونے والی ہندی اور اردو کی کتابوں سے بڑے بڑے غیر مانوس الفاظ نکال کر اس کی جگہ آسان روزمرہ داخل کرے جو ہندی اردو طلبا کے لئے دقت طلب نہ ہوں۔ ساتھ ہی اس کے وہ بورڈ اپنی زیر نگرانی ہندی اور اردو اہل قلم سے مکتبوں، پاٹھ شالاؤں اور اسکولوں کے لئے کورس کی ایسی کتابیں تصنیف کرائی جو چھاپی تو جائیں علیحدہ علیحدہ ہندی اور اردو رسم الخطوں میں مگر ان کتابوں کی زبان ایک ہی عام فہم مشترک ہندوستانی ہو۔ مرحوم کا خیال تھا کہ مشترک انتخاب کو قومیت کی بنیاد قرار دینے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہندوستانی قومیت مشترک زبان کے سانچے میں ڈھالی جائے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے گذشتہ اکتوبر کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنی سبجکٹ کمیٹی میں ہر ممبر کے لئے ہندوستانی زبان میں تقریر کرنا لازمی قرار دیا۔‘ (نظرات 1935، 4)
اداریہ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ حضرت خیال کی یہ کوئی ایسی خاص جدید اسکیم نہیں تھی جو ناقابل عمل ہو بلکہ اس میں قریب قریب وہی تجویزیں تھیں جن پر غور کرنے کے لئے جنوری 1925ء کی بہار کونسل نے بھی بابو راجو رنجن سنگھ کے ریزولیوشن کے مطابق ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے صدر نواب موید الملک سر سید علی امام مرحوم تھے۔ اس سلسلے میں یہ پہلو قابل غور ہے کہ خیال اس سے بہت قبل اپنی تقریروں میں اس کی وکالت کر چکے تھے۔ متذکرہ 1925ء کے واقعہ کے بعد بھاگلپور میں 13۔ 14 مارچ 1924ء کو اردو کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کی صدارت سید عبد العزیز نے کی تھی۔ اپنے صدارتی خطبہ میں انھوں نے بھی کم و بیش انہی تجاویز کو پیش کیا تھا جو خیال کے ذریعہ پیش کی جا چکی تھیں۔ 1934ء میں کہ جب سید عبد العزیز وزیر تعلیم بن چکے تھے اور جس سال خیال کا انتقال ہوا، یہ سرگرمیاں اصحاب اقتدار کے یہاں کیسی سرد مہری کا شکار بن گئی تھیں اس سے واقفیت کے لئے انجم مانپوری کو لکھے خیال کے ایک خط کا یہ جملہ کافی ہے کہ ’’ہمارے منسٹر صاحب سید عبد العزیز اس کام کی طرف زیادہ راغب اور مخاطب نظر نہیں آتے۔ ‘‘
نصیر حسین خیال بِہاری روز مرہ کو استعمال کرنے کی حمایت کرتے تھے۔ انھیں اس بات پہ فخر تھا کہ علاقائی بولیوں میں ایسے کئی الفاظ موجود ہیں جن کا بر محل استعمال مخاطب یا قاری کو زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔ تاہم، بہزاد فاطمی کا یہ تصور درست ہے کہ اپنی زبان کی بلندی پر اعتقاد رکھنے کے باوجود خیال کو کسی دوسری زبان یا ادب سے کوئی بیر نہ تھا۔
’ان کا نظریہ وسیع اور صلح پسندانہ تھا۔ ملک کی دوسری زبانوں کے صحتمند اثرات کو قبول کرنے میں انھیں کبھی تامل نہ ہوا اور یہی مشورہ وہ اوروں کو بھی دیتے ہیں۔ اکثر موقعوں پر انھوں نے پرستاران ادب کو یہ پر خلوص اور مفید مشورے دیے ہیں کہ وہ مقامی محاورات اور الفاظ کی تحقیق کریں اور بقدر ضرورت ان کے بر محل استعمال کو جائز قرار دیں۔‘ (یہ فسانہ زلف دراز کا، 40)
زبان اردو کو خیال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ایک مضبوط کڑی تصور کیا ہے۔ ان کی نگاہ میں اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ تہذیبی سرمائے اور اتحاد کا ایک بے نظیر نمونہ ہے۔ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
’خیال زبان کے قضیے میں نہیں پڑنا چاہتے تھے، وہ اس کو چمکانا چاہتے تھے۔ وہ اردو کو ہندوستان کی فطری اور تمدنی زبان بتاتے تھے اور اردو کو اسی راستہ پر لانا اور دیکھنا چاہتے تھے جس پر وہ خود پھوٹی، پنپی اور پروان چڑھی۔ اسی پر وہ ہندو مسلمان کی نجات کا انحصار رکھتے تھے۔‘ (داستان عجم، 9-10)
سر سید راس مسعود کو لکھے ایک مکتوب میں خیال نے ان کی مدد سے علی گڑھ میں اردو کے فروغ کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کا ایک خاکہ بھی تیار کیا تھا۔ اس کے بعد لکھے ایک خط سے یہ علم ہوتا ہے کہ راس مسعود سے اس موضوع پہ ان کی تفصیلی گفتگو ہوئی تھی اور خیال کو ان کی حمایت بھی حاصل ہو چکی تھی۔ انھیں ایک مکتوب میں خیال نے لکھا تھا کہ:
’علاوہ اور ملکی و قومی خیالات کے یہاں کے طلبا اور معقول لوگوں کا خیال کر کے میں نے اردو کے متعلق آپ سے کہا۔ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس اردو کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے لئے آپ اب تک کیا کر چکے ہیں۔ مگر اس وقت مالی مشکلات نے آپ کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ اپنے حوصلے کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔ لیکن میں پھر گزارش کروں گا کہ اس پبلک خواہش کا خیال کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور پبلک کی یہ آرزو رد نہ کی جائے۔ میں اس کے متعلق مختصراً حسب ذیل رائے عرض کرتا ہوں۔
1۔ اردو کو ملک میں فروغ دینے اور علی گڑھ کو اس کا مرکز بنا دینے کے متعلق فوراً ایک اسکیم تیار کر لی جائے۔
2۔ یہ اسکیم عملی ہو اور بزنس لائن پر۔
3۔ اس اسکیم کو عمل میں لانے کے ذریعے نکالے جائیں۔ اور جب تک اس کے اخراجات کا اطمینان نہ ہو جائے، کاروائی شروع نہ کی جائے۔‘ (قدوائی 1982، 90)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو کو اس کا حق عطا کروانے کے معاملے میں خیال کبھی بھی مطمئن نہیں بیٹھے رہے اور ہمیشہ کسی نہ کسی طور پہ اس موضوع کو ارباب اقتدار کے سامنے پیش کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ عمر کے آخری حصے میں چونکہ وہ تہی دست تھے اس لئے چاہتے تھے کہ ان سے کام لیا جائے تو انھیں اعزازیہ بھی عطا کیا جائے۔
خیال کا یہ تصور بھی تھا کہ زبان کے مسئلے کی طرف سب سے پہلے بہار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس زبان کی پرورش میں دہلی اور لکھنؤ کے ساتھ ہی اس صوبہ کی بھی قابل قدر خدمات رہی ہیں۔ انھوں نے بار بار یہ صراحت بھی کی کہ دہلی، دکن اور پنجاب کی طرح بہار بھی مدعی ہے کہ اردو نے اس کے بطن سے جنم لیا۔ زندگی کے آخری مراحل میں وہ انجم مانپوری سے ایک خط میں دریافت کرتے ہیں کہ:
بہار میں اردو کے متعلق آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ مجھے امید نہیں کہ وہاں کچھ ہو سکے۔ بار بار لکھ چکا ہوں کہ چند اچھے لکھنے والوں سے کسی جگہ کی زبان بڑھ نہیں سکتی۔ اور جب تک روزمرہ درست نہ ہو بہار کی زبان اردو نہیں بن سکتی۔ نہ یہ ہو گا اور نہ وہاں کی زبان ملک میں کوئی درجہ حاصل کر سکے گی۔ (مکتوبات مشاہیر 1999، 6)
انھیں ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ جب تک کوئی ملک و قوم اپنی زبان کو نہ سرا ہے، اس میں وہ طاقت نہیں آ سکتی جو قوموں کو سنبھالے رہتی ہے۔ اس خصوص میں آپ کا بِہار اور پیچھے ہے۔ وہاں اب تک زبان کو کوئی درجہ نہیں ہے۔ شاعری کر کے اور غزلیں کہہ کر سمجھتے ہیں کہ اردو صوبہ کی عام زبان ہو جائے گی، یا چند نثر کے مضامین بِہار کو اردو داں بنا دیں گے۔ ‘‘وہیں حمید عظیم آبادی کو لکھتے ہیں کہ ’’ رہی مرحوم علی سجاد یا ہماری زبان، وہ نہ بہاری ہے اور نہ عظیم آبادی۔ اور میں نہ تو دلی والوں کی تقلید کرتا ہوں اور نہ لکھنؤ والوں کی۔ ‘‘
خیال تا دم مرگ اردو کی اس نوعیت کی حمایت کرتے رہے جو الفاظ اور زبان و بیان کے معاملے میں اس سرزمین سے جڑی دکھائی دے اور محسوس بھی ہو۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں ایسے الفاظ، مرکبات اور اصطلاحات کا حسب موقع خوبصورت استعمال کیا ہے جو قواعد کی رو سے نا مناسب ہونے کے باوجود پر تاثیر ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ زبان کے فروغ کے لئے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ علاقائی بولیوں اور یہاں کی دوسری زبانوں کے جتنے الفاظ اردو میں کھپ سکیں انھیں بلا تامل اپنا لینا اردو کو مزید مضبوطی فراہم کرے گا اور دوسری زبانوں کے بولنے والوں کے لئے بھی اس کی جاذبیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کی اس تحریک کو ان کی زندگی کا حاصل یا ان کی زندگی کے مشن کی صورت میں دیکھنا چاہیے۔ ان کے بعد کی نسل نے زبان اردو کے سیاسی استحکام کے سلسلے میں ان خدمات کا جائزہ نہیں لیا اور انھیں محض ایک انشا پرداز بنا کر ایک محدود دائرے میں سمیٹ دیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...