’کون نہیں جانتا کہ ریفارمیشن یا اصلاح کچھ آسان کام نہیں جو کن فیکون ہو جائے بلکہ اس کے لئے ہمت، استقلال اور سب پہ بالا یہ کہ ہر عنیف صداؤں کی طرف سے کان بہرے کر لینے کی ضرورت ہے۔ لوگ جو کچھ ابھی بکیں، انھیں بکنے دینا چاہیے، اور جو کچھ وہ ابھی کہیں انھیں کہنے دینا چاہیے۔ ایک زمانہ آئے گا اور ایک دن ہم کوبھی نصیب ہو گا کہ ہماری یہ آوازیں اڈیسن کی آوازیں پکاری جائیں گی۔ زمانہ کی حالت، ملک و قوم و مذہب کے تغیرات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت ہمیں اپنی اصلاح اور اپنے کو ریفارم کرانے کی بے حد ضرورت ہے اور ہماری قوم میں ایسے متعدد ذمہ دار اشخاص کی حاجت اور مانگ ہے جو ہوشیاری اور دیانت کے ساتھ ہماری حالتوں پر نظر کریں اور نڈر ہو کر ہمارے مصائب بتائیں جتائیں اور اصلاح کی روشنی ملک میں پھیلائیں۔‘ (1322ھ مطابق 1904ء، 5)
درج بالا اقتباس خیال کے مضمون ’دی مسلم ریفارم‘ سے ہے جس کی اشاعت ’اصلاح‘ میں ہوئی تھی۔ صوبۂ بہار کے شہر سیوان کے قصبہ کھجوہ سے شائع ہونے والے رسالہ ’اصلاح‘ کے 1900ء سے 1904ء تک کے چند شماروں میں خیال کی ایسی تحریریں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ فرقہ کی فلاح و بہبود کے ساتھ ہی عام مسلمانان ہند کے بھی بہی خواہ تھے اور چاہتے تھے کہ عیسائی مشنریوں کی مانند مسلمانوں کی ایسی تنظیمیں ہوں جو ہر محاذ پہ ان کی مدد اور حفاظت کر سکیں۔ وہ کٹر مولوی پن کے سخت مخالف تھے۔ تقلید کو ناپسند کرتے تھے اور انھیں جہاں کسی بھی قسم کی معاشرتی برائی یا مذہبی بے راہ روی نظر آتی تھی، اس کی مخالفت کرتے تھے۔ محرم کی ان رسوم کے بھی مخالف تھے جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اپنے خطوط اور مضامین میں انھوں نے معاشرتی اصلاح پہ بطور خاص توجہ دی ہے۔ خود اپنے فرقہ کے لوگوں کے درمیان بھی جہاں کہیں انھیں عصبیت یا تنگ نظری کے عناصر نظر آتے تھے ان کی بھی سخت زبان میں مخالفت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خود شیعوں کا بھی ایک حلقہ انھیں نا پسند کرتا تھا لیکن تعلیمیافتہ طبقوں میں وہ عمومی طور پہ پسند کیے جاتے تھے۔
رسالہ’ اصلاح‘ میں کم از کم چار ایسے مضامین کی اشاعت اور ان کے سلسلے میں اس پرچہ کے دوسرے اصحاب قلم کے تصورات کی شہادتیں موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ خیال مجموعی طور پہ ملت کے اندر موجود برائیوں کے شاکی تھے۔ علاوہ ازیں، بعض مسلم جماعتیں اور دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں جس طرح مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرتوں کو ہوا دے رہی تھیں، خیال اس سے کبیدہ خاطر تھے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے درمیان علم جدید کی تحصیل میں عدم دلچسپی، فضولیات میں وقت اور قوت کے زیاں، رسوم و رواج کی تقلید، برادران وطن کے مقابلے میں ان کی معاشرتی اور معاشی ابتری جیسے معاملات بھی ان کے لئے سوہان روح تھے۔ مزید برآں ان زمانوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گہراتی ہوئی خلیج سے مسلمانوں کو ہونے والے نقصانات اور سیاست کی ریشہ دوانیوں پر ان کی حکیمانہ نظر تھی۔
خیال کے اولین دستیاب مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’حجاز ریلوے بننا شروع ہوئی۔ یہاں کے مسلمان اس میں جان ڈالنے کو موجود ہو گئے! کوئی ان جاہلوں سے پوچھے کہ تمھارا اس میں کیا فائدہ ہے؟ فائدہ ہو گا تو ان کے ملک کا، آرام ملے گا یا نہ ملے گا تو ان کو، تم کو کیا؟ تمھاری تکلیفیں، بے آرامیاں جیسی جب تھیں ویسی اب بھی رہیں گی۔ مانا کہ ریلوے بھی بن گئی۔ جدے سے مکے اور مکہ سے عراق تک سب ایک ہو گیا تو پھر تمھارے دکھوں کا کیا درماں ہوا؟ تمھاری تکلیفیں کون سی گھٹ گئیں؟‘ (نا مہذب خیرات 1319ھ مطابق 1901ء، 183)
’دکن ریویو‘ کے شمارہ بابت ستمبر 1908ء کے اداریہ میں مذکور ہے کہ پہلی ستمبر 1908ء کو حجاز ریلوے کا افتتاح ہوا تھا۔ اس موقع پر ملک کے دیگر حصوں کی مانند حیدر آباد میں بھی جشن منایا گیا۔
’یہ دن عالم اسلام میں بمنزلہ روز عید تھا۔ ہر جگہ خوشیاں کی گئیں، جشن منائے گئے اور بارگاہ رب العزت میں فرط احسان مندی سے مسلمانوں نے ناصیہ فرمائی کی۔ نا ممکن تھا کہ مسلمانان حیدر آباد اس عالمگیر جذبۂ انبساط و امتنان سے متاثر نہ ہوتے۔ انھوں نے ایک بہت بڑا جلسۂ تہنیت منعقد کیا جس میں حاضرین کی تعداد تین ساڑھے تین ہزار ہو گی۔ حجاز ریلوے کے گوناگوں فیوض و برکات پر متعدد تقریریں ہوئیں۔ کئی دلکش و دلکشا نظمیں پڑھی گئیں۔‘ (خان 1908، ب)
خیال چاہتے تھے کہ خیرات و زکوٰۃ کی رقم ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود، بطور خاص تعلیم اور تجارت کے فروغ پہ خرچ کی جائے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس قسم کی رقم کا بہترین استعمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے علی گڑھ بھیج دیا جائے تاکہ مالی دشواریوں میں گھرا ہوا مسلمانوں کا وہ ادارہ مضبوط ہو سکے۔ لہذا وہ شیعوں کو غیرت بھی دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کالج کے قیام میں ان کے فرقہ کے لوگوں کی جتنی خدمات اور قربانیاں رہی ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ وہ فرقہ اسے ہمیشہ اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھے۔ اسی مضمون میں خیال نے اپنے فرقہ ہی نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے درمیان موجود برائیوں پہ سخت حملے بھی کیے ہیں۔
’شیعوں کے مولویوں نے اپنی قوم کی دینی و دنیوی بہتری کے لئے ایک شیعہ کانفرنس قائم کرنا چاہی ہے اور اپنی مسکینت، غربت اور دریوزہ گری کے رفع دفع ہونے کے لئے اپنی قوم کو ایک مفید اصول پر چلانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی قوم اس کے سہارے دین و دنیا میں نام پیدا کرے۔ اس کے لئے ان کی کوشش ہے کہ قوم میں تجارت شروع ہو، سرمایہ بڑھے اور روپیہ ہاتھ لگے۔ خدا راس لائے، سوچ تو اچھی ہے۔ بیشک اسی ایک چیز کی فی الحال ہم کو ضرورت تھی اور اک اسی بغیر ہماری دین و دنیا دونوں خراب ہو رہی تھی۔ لیکن پھر وہی خیال آتا ہے اور دور اندیش عقل سوال کرتی ہے کہ یہ ہو تو کیوں کر؟ کس طریق اور اسلوب سے؟ ہم جنس بھی ہم جنس کو کھینچتا ہے۔ پھول ہی سے پھول پھلیں گے اور پھلوں ہی سے پھل نکلیں گے۔ انسان ہی سے انسان پیدا ہو گا اور حیوان ہی سے حیوان۔ یہ فطرت کے قانون ہیں جو مستقیم ہیں۔ پھر جب ہم خواہاں روپے کے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میرے باغ میں روپے پیدا ہوں تو ہم کو روپے بونے بھی چاہییں۔ اسی بیج اور اسی قلم سے وہ چھتنار درخت اگے گا، بڑھے گا، بار آور ہو گا، اور ہم اس کے پھل کھائیں گے۔‘ (192-93)
ان کا اصرار تھا کہ عصری تقاضوں کے تحت مسلمانان ہند خود کو تعلیمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اس طرح تیار کرنے کی سبیلیں نکالیں کہ ذلت و خواری اور پسپائی سے نجات حاصل ہو سکے۔ وہ قوم کے ان زعما کے شدید مخالف تھے جو مذہب کے نام پر مالی ہی نہیں ذہنی استحصال پہ بھی آمادہ تھے۔ ’اصلاح‘ میں اس مضمون کی اشاعت کا رد عمل بھی بہت ہی شدید ہوا۔ اسے مذہب اور مذہبی شعار پہ حملہ ہی نہیں، مسلمانوں کو ذلیل کرنے والی تحریر بھی کہا گیا۔ لیکن کئی اصحاب ایسے بھی تھے جنھوں نے خیال کے مشوروں پہ لبیک کہا۔ خیال کے اس مضمون کے حوالے سے ’اصلاح‘ کے ایک قلمکار نے لکھا تھا کہ:
’اب ان مضامین پارینہ ’نا مہذب خیرات‘ اور ’درد جگر‘ کا بھی تصفیہ ہو گیا جس کے متعلق مختلف تحریریں ’اصلاح‘ میں شائع ہوئی ہیں اور لوگ حیران تھے کہ آخر اس کا فیصلہ کیونکر ہو۔ کیونکہ جناب مولوی عبد السلام نے تو اصل مضمون ’نا مہذب خیرات‘ کو الہامی مضمون کا لقب دیا تھا۔ اس قسم کی درخواست آج تک کسی عالم کی طرف سے پیش نہ ہوئی تھی۔ اب دیکھیں کہاں تک مومنین اس پر توجہ کرتے ہیں کیونکہ جب تمامی مذاہب کے علما مذہبی خدمتوں کے حقوق کا معاوضہ لیتے ہیں اور پاتے ہیں تو پھر کیا وجہ کہ یہاں اس سے چشم پوشی کی جائے۔‘ (مسلم 1321ھ مطابق 1903ء، 21)
’درد جگر‘ اسی ’نا مہذب خیرات‘ کے رد عمل میں لکھا گیا سید آقا حسن کا مضمون تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ’شیعہ کانفرنس‘ کی بڑی دھوم تھی۔ خیال نے اس کے سلسلے میں بھی اپنی بے لاگ رائیں دیں اور لکھا کہ اس قسم کی کانفرنسوں کا قیام قوم کی اصلاح کی بجائے خود اپنا الو سیدھا کرنا اور اپنی پشت تھپتھپانا ہے۔ اسی زمانے میں ’اصلاح‘ میں شیعوں کے فلاح و بہبود پہ انجمن کسب معاش کے قیام پر بحثیں ہو رہی تھیں۔ اس کے قیام سے بھی خیال کا نام وابستہ تھا۔ ’اصلاح‘ کی ساتویں جلد کے تیسرے شمارے میں ڈھاکہ کے مظفر علی کی ایک تحریر بعنوان ’انجمن کسب معاش: مولانا سید غلام حسنین صاحب کنتوری سے اپیل‘ شامل اشاعت ہے جس میں ’انجمن کسب معاش‘ کے قیام کے سلسلے میں تجاویز کے دوران یہ لکھا ہے کہ:
’ہم چند بہی خواہان قوم کا نام ذیل میں درج کرتے ہیں اور ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک منتخب کمیٹی قائم کر کے انجمن کسب معاش کی بنیاد ڈالیں۔ ۱۔ جناب مولانا السید غلام حسنین صاحب کنتوری، ۲۔ جناب سید حسن ضیا صاحب وکیل امروہہ، ۳۔ جناب نواب فتح علی خاں صاحب بہادر قزلباش رامپور، ۴۔ جناب نواب سید نصیر حسین خاں خیال، ۵۔ جناب سید حیدر حسین صاحب تحریک کنندہ، ۶۔ جناب ایڈیٹر صاحب ’اصلاح‘۔‘ (مظفر 1322ھ مطابق 1904ء، 39)
صاحب تحریر کی یہ عرض بھی تھی کہ یہ وہ حضرات ہیں جن کے مشوروں پر پوری قوم کا اتفاق ہو گا۔ ’اصلاح‘ کے 1904ء کے ایک شمارے میں اس انجمن سے متعلق سید نواب علی سندیلوی کے الفاظ ہیں کہ:
’جناب نواب نصیر حسین خاں صاحب خیال کے متعلق میں صرف اسی قدر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تحریک جناب نواب صاحب پر ہی واجب تھی۔ ’سیاحت نامہ ابراہیم بیگ‘ کے نتیجہ خیز اثر نے نواب صاحب کو اس انجمن کا نصف ذمہ دار بنا دیا۔‘ (انجمن کسب معاش 1322 ھ مطابق 1904ء، 4)
خیال یہ چاہتے تھے کہ ’شیعہ کانفرنس‘ کے نام پر لوگ اپنی اپنی روٹیاں سینکنے کی بجائے خلوص دل کے ساتھ شیعوں کی فلاح و ترقی کے اسباب کی تلاش کریں اور ان پر سبھوں کو عمل پیرا ہونے کی تلقین دیں۔ سید حیدر حسین نے تبھی لکھا تھا کہ:
’ہماری قومی بہبودی کے لئے ضروری ہے کہ ایک اخبار کسی بڑی جگہ مثل لکھنؤ، پٹنہ سے جاری کیا جائے اور قوم کے بہی خواہوں کی سرپرستی میں اس کی پالیسی رہے۔ دوسرے یہ کہ قوم کو صنعت و حرفت کی تعلیم دی جائے۔ ہم نے اپنی رائے کو اس قومی پرچہ کے ذریعہ سے قوم پر ظاہر کر دیا اور اس طرح اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کے کسی قدر اس وقت تو ضرور مستحق ہو گئے۔
اگر قومی پیڑیٹ نواب نصیر حسین خاں صاحب خیال اس مسئلہ پر قوم کو متوجہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں، مکرر مضامین اپنے زور اور پر اثر قلم سے لکھیں اور اپنا کچھ وقت قوم کے لئے صرف کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اس تحریک کا کوئی معقول عملی نتیجہ بھی نکل آئے۔‘ (ہماری بہبودی کے اسباب 1322 ھ مطابق 1904ء، 13-14)
اس تحریر کے اخیر میں مدیر کا یہ نوٹ شامل ہے:
’جناب خیال نے تو کچھ دنوں سے قوم کا خیال ہی بھلا دیا ہے۔ یہ واجب کفائی انہیں حضرات کا فرض عین ہے جو زمانہ کے رنگ کو اور مفہوم قوم کو سمجھتے ہیں۔‘ (14)
اس سے ظاہر ہے کہ خیال اپنی نوجوانی کے زمانوں سے ہی مسلم معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے فکر مند رہا کرتے تھے، اور اس سلسلے میں ان کی تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
’اصلاح‘ کے شمارہ 10 جلد ۴ میں مولانا سید آقا حسن کا مضمون ’درد جگر‘، شمارہ ۲ جلد ۳ میں سید دلاور حسین خان کا مضمون ’نا مہذب خیرات پر ریویو‘ اور شمارہ ۴ جلد ۵ میں مولوی محمد خلیل کا مضمون ’درد جگر اور نا مہذب خیرات پر سرسری نظر‘، شمارہ ۴ جلد ۵ میں خیال کی تحریر ’سیاحت نامہ ابراہیم بیگ‘ کی اشاعت اور اس کے رد عمل میں شمارہ ۶ جلد ۵ میں سید حسین کا ’سیاحت نامہ ابراہیم بیگ پر ریویو‘ اور اس کے بعد بھی دیگر شماروں میں خیرات، وقف کی املاک، دینی امور کی انجام دہی میں معاوضے، ابراہیم بیگ اور اس کے حوالے سے اخلاقیات اور تشکیل معاشرہ کئی ماہ تک موضوع بنے رہے۔ ان مضامین میں ’سیاحت نامہ ابراہیم بیگ‘ بھی اہم ہے۔ پچھلے باب میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس مضمون میں انھوں نے ابراہیم بیگ کے ذریعہ دکھائی گئیں بد اعمالیوں کو ہی اپنا موضوع بنایا تھا۔ ان کی تحریروں کی حمایت کرنے والوں نے یہ بھی لکھا کہ جب تمامی مذاہب کے علما مذہبی خدمتوں کے حقوق کا معاوضہ لیتے ہیں اور پاتے ہیں تو پھر کیا وجہ کہ یہاں اس سے چشم پوشی کی جائے۔ صورت حال یہ بھی ہو گئی تھی کہ خیال کو مذہب سے خارج کرنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں اور مدیر اصلاح کو بھی عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ان زمانوں کی معروف گالی ’نیچری‘ سے بھی انھیں نوازا گیا۔ اس صورت حال کی نشاندہی کے لئے ’اصلاح‘ میں ہی شائع ایک مضمون کا نقل ذیل اقتباس کافی ہے:
’لیجیے اب میں سب سے پہلے انگشت نما ہونے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور آپ کی انصاف پسندی سے امید ہے کہ اس تحریر کو بجنسہ درج اصلاح فرمائیں گے تاکہ آپ کی آزادی بھی معلوم ہو اور قوم کی تسکین ہو۔ اگرچہ ملک ایران کے جو حالات ہفتہ وار حبل المتین میں شائع ہوتے ہیں وہ ایسے حیرتناک اور عبرتناک ہیں کہ پھر کسی دوسرے سیاحت نامہ کے دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی ہر مسلمان دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور بجز افسوس کوئی چارہ نہیں، خصوصاً مشہد مقدس کے متعلق اس کی یہ تحریر سیاحت یا زیارت یا ہر دو، نہایت ہی عبرتناک ہے۔‘ (سفرنامۂ ابراہیم بیگ پر ریویو 1320 ھ مطابق 1902ء، 115)
اس ضمن میں ہی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے حوالے سے لکھے گئے محسن رضا سیتاپوری کے مضمون کی درج ذیل عبارت بھی اہم ہے:
’میں مخصوص اسی ضرورت سے لکھنؤ گیا۔ جلسے میں شریک ہوا اور وہاں کے مفصل حالات معلوم کرنے کے بعد یہ نتیجہ محسوس کیا کہ اب ان معاملات کی گتھیوں کو اخبار و رسائل کی تحریریں کسی طرح نہیں سلجھا سکتیں لہذا اس باب میں کوئی تحریر لکھنا بالکل بے سود ہے مگر اصلاح نمبر 10 کی تحریروں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنی خواب بیداری کے حالات کو قوم پر ظاہر کر دوں جس سے دیکھنے والوں کو تصویر کے دونوں رخ معلوم ہو سکیں گے۔ مگر آج اخبار میں یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ ہمارے خواب کی تعبیر بتانے والے یا ان معاملات کو یکسو کرنے والے فخر قوم عالی جناب نواب سید نصیر حسین خاں صاحب خیال ہیں جن کی کوششوں سے کلکتہ کی شیعہ کمیٹی نے یہ طے کر لیا ہے کہ جناب خیال اور موید الاسلام حضرات علمائے کرام کو بھرپور توجہ دلائیں گے۔‘ (خواب بیداری 1322 ھ مطابق 1905ء، 20)
سید حیدر حسین نے اپنے متذکرہ مضمون میں شیعوں کی حالت زار پہ کف افسوس ملتے ہوئے لکھا تھا کہ
’آج سے تیس چالیس سال پیشتر بالکل یہی صورت حال ہمارے دوسرے اسلامی فرقوں کی بھی تھی لیکن سر سید احمد خاں مرحوم کی کوششوں اور اسلامی اخباروں نے اپنے خفتہ اور غافل فرقوں کے مردہ قالب میں وہ جوش اور وقت احساس کا ٹیکہ دیا جس کا نتیجہ آج آنکھ والوں پر روشن ہے۔‘ (12)
شیعہ برادران کی تعلیمی پسماندگی اور معاشرتی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اس مضمون میں یہ تجویز پیش کی کہ (شیعوں کی) قومی بہبودی کے لئے ضروری ہے کہ ایک اخبار کسی بڑی جگہ مثل لکھنؤ، پٹنہ وغیرہ سے جاری کیا جائے اور قوم کے بہی خواہوں کی سرپرستی میں اس کی پالیسی رہے۔ مزید یہ کہ قوم (شیعہ) کو صنعت و حرفت کی تعلیم دی جائے، تجارت کی جانب مائل کیا جائے ؛ ایسا انگریزی اسکول، کالج، مدرسہ وغیرہ قائم کیا جائے جو زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی تدبیریں سکھا سکے۔ مضمون کی آخری عبارت ملاحظہ فرمائیے:
’اگر قومی پیٹریٹ نواب نصیر حسین خاں صاحب خیال اس مسئلہ پر قوم کو متوجہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں، مکرر مضامین اپنے زور اور اپنے اثر قلم سے لکھیں اور اپنا کچھ وقت قوم کے لئے صرف کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اس تحریک کا کوئی معقول عملی نتیجہ بھی نکل آئے۔‘ (12)
اس کے اختتام پہ مدیر کا نوٹ بھی قابل توجہ ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جناب خیال نے تو کچھ دنوں سے قوم کا خیال ہی بھلا دیا ہے۔ یہ واجب کفائی انہیں حضرات کا فرض عین ہے جو زمانہ کے رنگ کو اور مفہوم قوم کو سمجھتے ہیں۔ اسی شمارے میں سید حیدر حسین کا ہی ایک مضمون ’رسم پردہ‘ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے خواتین کے پردہ کی مخالفت میں علی گڑھ سے اٹھنے والی آوازوں کے پس منظر میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ بے پردگی کس طرح قوم کے حق میں موثر معجون کا کام کرے گی کہ ہمارے علی گڑھ کے ایسے فاضل اور باخبر بہی خواہان قوم نے قوم کے لئے اسی پردہ کے مسئلہ کو جملہ امراض کا علاج باور کر لیا ہے۔
’اصلاح ‘شمارہ ۱ جلد ۷ میں بھی حیدر حسین کا مضمون بعنوان ’قومی ترقی کیونکر ہو سکتی ہے ‘شائع ہوا تھا جس کی حمایت میں ڈھاکہ سے سید مظفر علی نے یہ لکھا تھا کہ ایک کمیٹی بنا کر انجمن کسب معاش کی بنا ڈالی جائے۔ اس کمیٹی میں انھوں نے جن حضرات کی سفارش کی تھی ان میں مولانا سید غلام حسنین کنتوری، سید حسن ضیا وکیل (امروہہ)، نواب فتح علی خاں صاحب بہادر قزلباش (لاہور)، نواب سید نصیر حسین خاں خیال، سید حیدر حسین اور اصلاح کے مدیر (سید علی حیدر) کے نام شامل تھے۔
’اصلاح ‘کے شمارہ 10 جلد 7 میں ایک صاحب نے اپنی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے:
’اصلاح نمبر ۸ جلد ۷ میں مضمون جناب نواب نصیر حسین صاحب خیال کو میں نے تعمق کی نظر سے دیکھا۔ بیشک وہ مضمون اس قابل ہے کہ قوم کا ہر فرد اس کو (کالنقش فی الحجر) اپنے قلب میں نقش کرے اور اس پر عملاً کاربند ہونے کے لئے تیار ہو جائے۔‘ (وقف امام باڑہ گورکھپور 1322ھ مطابق 1904ء، 6-7)
خیال خواتین کے پردہ کے مخالف تھے اور اس تصور کے پابند تھے کی خدا نے اگر حسن عطا کیا ہے تو وہ بجائے خود ایسی صفت کہ ہے اس پہ ناز کیا جائے۔ یہ ابتدائی زمانوں کی تحریروں کی صورتحال تھی۔ اس کے بعد لکھے مضامین میں صرف ’خالاؤں کا مارا آغا‘ ایک خالص لسانی تجربہ تھا لیکن اس میں بھی معاصر ادبی حالات اور بطور خاص شعر و شاعری کی مخالفت کی گئی تھی کیونکہ ان سے معاشرے کی فلاح یا ترقی میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ ’آفتاب‘ میں شائع مضامین دلچسپ انشا کے ساتھ ہی معاصر حالات کو مرکز بناتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کے پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ ’داستان اردو‘ کے سلسلے کے تمام مضامین اس ذہن سازی کی غمازی کرتے ہیں جس کے سبب مسلمانان ہند خود کو اور اپنی زبان کو اس سرزمین سے جوڑے رکھ سکیں اور ان کے اندر علیحدگی پسند رجحانات سر نہ ابھاریں۔ اسی طرح شاہنامہ کے سلسلے کے مضامین اصلاحی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان تمام تحریروں میں ان کے مخاطب مسلمانوں کے عام و خواص دونوں ہی ہیں اور اس لحاظ سے ان میں موجود اسلوب بھی ہمہ رنگ ہے۔ شاہنامہ پر تبصرہ کی تکمیل سے قبل زردشت پر لکھے ان کے مضمون میں اتحاد بین المذاہب کی راہیں ہموار کرنے کی ہی کوششیں ملتی ہیں۔
اصلاح معاشرہ کے تعلق سے خیال کا ایک واضح نقطۂ نظر تھا جس پر وہ تا عمر قائم رہے۔ وہ اس تصور کے پابند تھے کہ انسان کا فرض پہلے خود کو درست کرنا ہے اور تمام مسائل پہ یوں غور و خوض کرنا ہے کہ وہ کسی کارآمد نتیجہ پر پہنچ سکے۔ جو اس مرحلہ سے فارغ ہو چکے ہیں اور وہ دوسروں کو بھی سمجھانے کا مادہ رکھتے ہیں، وہی اس کے اہل ہیں کہ اصلاح کا بیڑا اٹھائیں اور تبلیغ کریں۔ وہ ہر معاملہ، خواہ مذہبی ہو، معاشرتی یا ادبی، کو اخلاقیات اور عقل کی کسوٹی پر کسنے کے قائل تھے۔
مذہبی اور معاشرتی اصلاحوں کی غرض سے لکھے گئے مضامین میں صاف گوئی اور حق پسندی کی وجہ سے خیال ایک مخصوص طبقہ کی نگاہوں میں ناپسندیدہ تھے اور ان کے خلاف محاذ آرائیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اس طرز تحریر کو ہی نہیں، اس موضوع کو بھی چھوڑ دیا اور اسی بات کو دوسرے ڈھنگ سے ’داستان اردو‘ کے مضامین میں لکھنا شروع کر دیا۔ ان میں بھی خیال کی کشادہ ذہنی کے پہلو میں غور و فکر کی زنگ آلود کھڑکیاں ہی کھولنے کی کوششیں کی گئیں تا کہ مسلمانان ہند خود کو عصری ضرورتوں کے تحت تیار کر سکیں۔ مذہبی اور معاشرتی معاملات کے سلسلے میں حالانکہ وہ مطمئن کبھی نہیں رہے۔ اس کی شہادت کے طور پہ ہماری تحویل میں خیال کے وہ مکتوبات ہیں جو انھوں نے وقتاً فوقتاً اپنے احباب یا معاصرین کو لکھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...