خیال کی متنوع علمی مصروفیات تھیں۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ بہت ہی وسیع تھا۔ فارسی اور اردو میں لکھی مذہبی کتابوں کے ساتھ ہی تاریخ عالم اور ثقافت عالم کی ان کے عہد کی معروف فرانسیسی اور انگریزی زبان کی کتابیں زیر مطالعہ میں رہتی تھیں۔ وہ لکھتے کم تھے۔ ان کی علمی دلچسپیاں کلیات شاد اور مراثیِ انیس کی ترتیب بھی شامل تھی۔ وہ عموماً ان پہ کام کرنے والوں کا تعاون بھی کیا کرتے تھے اور مشورے بھی دیتے تھے۔ اس کی چند مثالوں میں ایک مثال گارسیں دَتاسی کا تذکرہ بھی ہے۔ انھوں نے پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب کو 19 مئی 1931ء کے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’شب کو نواب محبت خان کا ذکر آیا تھا۔ ان کے متعلق تاسی (گارساں دی تاسی) نے جو لکھا ہے اس کا ترجمہ حاضر کرتا ہوں۔ مثنوی ’اسرار محبت‘ کا ذکر بھی ہو۔ شاید یہ نوٹ آپ کو کچھ مدد دے۔ (نصیر حسین خاں خیال کے خطوط 1957، 477)‘ اسی تعلق سے خط بنام علمدار حسین واسطی میں وہ رقمطراز ہیں کہ:
’ہمارے پاس ایک فرنچ کا تذکرہ ہے جو بہادر شاہ کے وقت میں ہندوستان آیا اور جنگ پلاسی تک رہا۔ اس نے یہاں فارسی اردو (کی تعلیم) حاصل کی اور شعر بھی کہے کہ اس زمانہ کا عام مذاق یہی ہو رہا تھا۔ کہنے لگا اس نے یہاں کے شعرا کے حالات جمع کیے۔ تقریباً دو سو شاعروں کا حال لکھا ہے۔ ان میں بیس بائیس مرثیہ گو بھی ہیں۔ فرانس جا کر یہ تذکرہ مرتب کیا اور وہیں فرنچ زبان میں چھپا اور شائع ہوا۔ میں نے بڑی کاوش سے اسے حاصل کیا۔ فرنچ زبان سے آشنا ہونے کی وجہ سے مجھے اس سے بڑی مدد ملی ورنہ سخت دشواری ہوتی کیونکہ ہندوستان میں بہت کم لوگ اس شریف پیاری زبان سے آشنا ہیں۔ اس تذکرہ کے سوا ہمارے پاس مولوی کریم الدین پانی پتی کا ایک تذکرہ بھی ہے جو زیادہ تر اسی فرنچ کتاب سے لے کر تیار کیا گیا۔ یہ تذکرہ 1245ھ میں چھپا مگر اب کمیاب بلکہ نایاب ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہاں کے سرکاری کتب خانہ اور ایشیاٹک سوسائٹی اور برٹش میوزیم لندن آفس سے بہت مدد مل رہی ہے۔ غرضیکہ میں اپنے کام سے غافل اور جد و جہد و تلاش سے جی نہیں چرا رہا ہوں۔‘ (ادیب الملک نواب خیال کا مکتوب گرامی بنام سید علمدار حسین واسطی 1941، 27)
یہ خط 8 جولائی 1916ء کا ہے۔ اب ’معارف‘ کے اگست 1922ء کے شمارے میں محمد محفوظ الحق کے مضمون ’فرنچ مستشرق دی تاسی کا تذکرۂ شعرائے اردو‘ میں سے درج ذیل بیان ملاحظہ فرمائیے:
’افسوس ہے کہ اس قدر قابل قدر (فرنچ) تذکرہ کا جو اپنی جامعیت، ضخامت اور صحت کے اعتبار سے لاجواب ہے، اب تک کوئی انگریزی یا اردو ترجمہ شائع نہیں ہوا۔ صرف انجمن ترقی اردو (حیدر آباد) کی فہرست تراجم میں چند سال سے اس کتاب کا نام بھی آتا ہے کہ اس کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ راقم کا عرصہ سے خیال تھا کہ اس تذکرہ کا ترجمہ کرے لیکن ع
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
کی مثل صادق آتی تھی، اس لئے مجبوری تھی۔ حسن اتفاق سے 1917ء میں محترمی نواب سید نصیر حسین صاحب خیال نے راقم کو اس تذکرہ کی پہلی جلد کا انگریزی ترجمہ دکھایا جو قلمی اور مسودہ کی صورت میں تھا، اور ایک حد تک مکمل تھا۔ یہ ترجمہ نواب صاحب کو اس تقریب سے دستیاب ہوا کہ جن دنوں وہ فرنچ زبان سیکھ رہے تھے تو گارسن کا تذکرہ بھی پیش نظر رکھتے تھے۔ اتفاق سے ان کے مرحوم فرنچ استاد کو کسی لیڈی نے لکھا کہ پانڈیچیری میں ایک ریٹائرڈ کپتان رہتا ہے۔ اس کے پاس اس تذکرہ کا قلمی انگریزی ترجمہ موجود ہے۔ نواب صاحب موصوف کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے فوراً اس کو خط لکھا اور ترجمہ دیکھنے کے لئے مانگ بھیجا۔ اس فرنچ کی شرافت دیکھیے کہ نہ صرف ترجمہ بھیج دیا بلکہ لکھا کہ ’اب میری بینائی جاتی رہی، اس لئے نہ تو اس سے زیادہ ترجمہ ہونے کا قرینہ ہے اور نہ اس کے شائع ہونے کی امید۔ اس لئے میں اپنا سارا مسودہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔‘ اب یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ نواب صاحب نے اس کے ترجمہ کی خدمت راقم کے سپرد فرمائی۔‘ (124)
محفوظ الحق کا بیان ہے کہ اس کے زیادہ تر حصوں کا وہ اردو ترجمہ کر چکے تھے لیکن 1917ء کے بعد حالات ایسے رہے کہ وہ اسے مکمل نہیں کر پائے اور اسی درمیان انجمن سے اس کے ترجمہ کا اعلان ہو گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر دار المصنفین چاہے تو اس کے لئے وہ ترجمہ مکمل کر دیں گے لیکن دار المصنفین نے انجمن ترقی اردو کے اعلان کی وجہ سے اسے خود شائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ’معارف‘ کے اس کے بعد کے شمارے میں محفوظ الحق کے ترجمہ کے کچھ حصے بھی شائع ہوئے تھے۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ’معارف‘ ہی کے شمارہ بابت نومبر 1922ء میں قاضی عبد الودود نے اس ترجمہ شدہ حصے میں دتاسی کی بعض غلطیوں کی نشاندہی فرمائی تھی جس کے جواب میں شمارہ بابت اگست 1923ء میں ’نقد التنقید‘ کے عنوان سے محفوظ الحق نے یہ وضاحت پیش کی تھی کہ قاضی صاحب نے جن تسامحات کی نشاندہی فرمائی تھی معاملہ ویسا نہیں ہے۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ’ تاسی نے اتنی غلطیاں نہیں کیں جتنی کہ دکھائی جاتی ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ بہت سے امور میں بالکل صحیح ہے اور قاضی صاحب نے جو اعتراضات قیاس کی بنیاد پر کیے ہیں وہ عموماً غلط ہیں ‘۔ یہ سبھی مضامین ’گارساں دتاسی‘ (خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری) میں بھی شامل ہیں۔ (عبد الودود 1995)
یہاں مجھے گارسیں دتاسی یا قاضی عبد الودود سے بحث نہیں ہے، بلکہ دکھانا یہ مقصود ہے کہ جس زمانے میں اردو والوں کو دتاسی کے انگریزی ترجمہ کا علم بھی نہیں تھا، اس سے بھی قبل خیال اس کے انگریزی ترجمہ کی واقفیت رکھتے تھے، اور اس کی اشاعت کے لئے فکرمند تھے۔ ڈاکٹر محیا لدین زور کی ’گارساں دتاسی‘ (مطبوعہ 1931ء) دتاسی پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ ایک اور اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ دتاسی کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا مختلف اصحاب اپنے سر لیتے رہے ہیں لیکن کسی نے بھی خیال کا ذکر نہیں کیا ہے۔ خود ڈاکٹر زور نے اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن (1914ء) میں لکھا تھا کہ 1935ء میں مولوی عبد الحق کے ذریعہ شائع ہونے والے خطبات میں دتاسی کے حالات ان (زور صاحب)کی ہی کتاب سے نقل کیے گئے ہیں اور ماخذ کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ انجمن ترقی اردو نے بھی حسب اعلان 1924ء میں دتاسی کے چند خطبے شائع کیے لیکن ان میں بھی مترجم کا نام موہوم رکھا گیا۔ ڈاکٹر زور نے یہ بھی لکھا ہے کہ اہل اردو کی اس ذہنیت سے دتاسی کو بھی شکایت تھی۔ اس نے ۵دسمبر 1864ء کے خطبہ میں کہا تھا کہ ’مولوی کریم الدین اپنے اور دوسرے اہل وطن کی طرح اس بات کو کوئی عیب نہیں سمجھتے کہ کسی دوسرے مصنف کے خیالات کو بلا تکلف اپنی کتاب میں درج کریں۔ ہندوستان میں یہ آزادی عام طور پر علمی دنیا میں برتی جاتی ہے ‘۔ (س. ق. زور 1941، 3) یہی بات ڈاکٹر زور سے کوئی پچیس سال قبل خیال بھی کہہ چکے تھے، جب انھوں نے واسطی کے نام متذکرہ خط میں یہ لکھا تھا کہ اس (دتاسی کے)تذکرہ کے سوا ہمارے پاس مولوی کریم الدین پانی پتی کا ایک تذکرہ بھی ہے جو زیادہ تر اسی فرنچ کتاب سے لے کر تیار کیا گیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...