میر انیس اور فردوسی سے خیال کی عقیدت ان کی خاندانی وراثت کا حصہ ہے۔ شاد عظیم آبادی فردوسی اور انیس کی زبان کی فطری فصاحت کے مداح تھے۔ انیس کے تئیں خیال کے والہانہ اظہار عقیدت کا اصل سبب زبان کے معیار کے ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ انھیں اخلاق و کردار اور اپنی ثقافتوں کا سچا ترجمان مانتے تھے۔ ’’مغل اور اردو‘‘، ’’داستان اردو‘‘ اور ’’داستان عجم‘‘ کے ساتھ ہی ان کے بیشتر مضامین میں بھی جا بجا یہ عقیدت نمایاں ہے۔ ان کے تئیں اعتقاد محض مسلک کی بنا پر نہیں تھا کیوں کہ خیال بار بار عالمی اور پھر اردو ادب میں جس اخلاقی درستگی، بلند کرداری اور انسان سازی کے عوامل کی جستجو کرتے ہیں مشرقی ادب میں ان کی بہترین نظیر انھیں کلاسیکی سنسکرت شعری روایات، فردوسی کے ’شاہنامہ‘ اور اردو میں انیس کے یہاں ملتی ہے۔ ’’داستان اردو‘‘ کے باب ’آریا ادب‘ میں انھوں نے واضح طور پر اپنی اس فکری رو کا اظہار کیا ہے۔ در اصل اسے خیال کی ذہنی ترنگ، ان کے مکمل ادبی سفر، ان کے اس خاص نصب العین کی کلید سمجھنا چاہیے جس پر وہ پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ تا حیات کاربند رہے۔ وہ مکمل حصہ نذر قارئین ہے:
’ویدوں کے بعد آریوں کی وجاہت کا قصیدہ ان کی وہ نظمیں پڑھتی ہیں جو مہا بھارت اور رامائن کی صورت میں دنیا کے اسٹیج پر نمودار ہوئیں۔ یہ دونوں قصے عجیب، اور اخلاق و شاعری میں آپ اپنی نظیر ہیں۔ مہابھارت چندر ونشیوں کا کارنامہ، اور رامائن سورج ونشیوں کا دوسرا شاہنامہ ہے۔ مہا بھارت کسی خاص فکر کا نتیجہ نہیں۔ اس کی تہذیب و ترتیب میں متعدد دماغ لگے ہیں، اور صدیوں کی کوشش و کاوش کے بعد یہ اس درجہ تک پہنچی ہے۔ ہر زمانہ کا ممتاز شاعر و فلسفی اپنا دینی فرض سمجھ کر اس کی خدمت کرتا رہا ہے۔ اور یہ سننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس مذہبی دفتر کی تسوید میں غیر آریوں کا نجس ہاتھ بھی لگا رہا ہے …ایسی محنت کے بعد یہ جامع، ضخیم و لا جواب نظم دنیا کے سامنے پیش ہوئی اور کئی ہزار برس سے اپنا مقابل ڈھونڈ رہی ہے۔ رامائن، والمیکی کی بے مثل فکر کا بہترین نتیجہ اور ۸۴ ہزار اشعار کا مجموعہ ہے۔ دنیا کی اور مشہور و معروف نظمیں جن کی زبان و خیالات پر کسی ملک و قوم کو فخر و ناز ہو سکتا ہے اور جن کے ذریعے سے ہمارے دماغ و مزاج کی پرورش و اصلاح ہوئی، اور جو مہابھارت و رامائن کے ساتھ پیش کی جا سکتی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
ہومر کی ایلیڈ کئی سال کی محنت اور سولہ ہزار اشعار میں لکھی گئی۔ ورجل کی اینیڈ دس ہزار شعروں پر ختم ہوئی۔ فردوسی نے شاہنامہ میں تیس برس خون جگر کھا کر ساٹھ ہزار شعروں پر ختم کیا اور اس سے پارسیوں کی داستانِ پاستان ہی زندہ نہ ہوئی بلکہ ایران جی اٹھا۔ شیکسپیر نے اپنے بے نظیر ڈرامے ملکۂ الیزابتھ کے عہد میں تیار کیے۔ ان ڈراموں نے انگلستان کو ادب سکھایا اور انگریزوں کو مہذب بنا کر دنیا میں بڑھایا۔ انیس نے اپنے مراثی پچاس برسوں کی عرق ریزیوں کے بعد اتمام کو پہنچائے۔ ان کا کلام اسی ہزار اشعار سے کم نہیں اور ہندوستانیوں کے ادب و اخلاق کی درستگی میں مہابھارت و رامائن سے کچھ کم حصہ اس نے نہیں لیا ہے۔‘ (داستان عجم، 125-27)
نقی احمد ارشاد نے انیس پر خیال کے جو مضامین شائع کیے ہیں ان کے مطالعہ سے دو نکات نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ خیال انیس کے مرثیوں کو اخلاقیات کا بہترین نمونہ تصور کرتے تھے، اور دوسرے یہ کہ انھوں نے انیس کے مرثیوں کو رزمیہ شاعری کی نمائندہ مثال مانا ہے۔ پہلا مضمون ’’حالات انیس‘‘ ہے جسے بوجوہ ارشاد مرحوم نے خیال کی نوجوانی کی تحریر کہا ہے۔ ان کا قیاس ہے کہ اسے 1897ء کے آس پاس لکھا گیا ہو گا کیونکہ خیال نے شاد کی جس رباعی پہ اس مضمون کو ختم کیا ہے وہ ان کے مجموعۂ رباعیات میں موجود نہیں تھا۔ یہ غیر مطبوعہ مضمون ہے جس کی آخری عبارت یوں ہے: (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال، 70)
’اب میں جناب قبلہ و کعبہ خان بہادر سید علی محمد شاد دام ظلہ العالی کی ایک رباعی پر اپنے مضمون کو تمام کرتا ہوں، جو صنف شاعری میں اس وقت مسلم الثبوت اور کہنہ مشق شاعر سمجھے جاتے ہیں۔
انداز ہر اک سے جدا تھا بخدا
اللہ رے انیس کی فصاحت اے شاد
اس فن سخن کا وہ خدا تھا بخدا
میں نے تو نہ سمجھا کہ وہ کیا تھا بخدا
اس عبارت سے پہلے خیال یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’حق تو یہ ہے کہ انیس کے کلام پر نقادی ہم طلبا کا کام نہیں ہے۔‘‘ اس سے بھی نقی احمد ارشاد کے بیان کو تقویت ملتی ہے۔ اس بنیاد پہ یہ مضمون غالباً اردو میں لکھی جانے والی ان اولین تحریروں میں شامل ہو گا جن میں میر انیس کے مراثی کو رزمیہ کہنے یا ماننے کے جواز پیش کیے گئے تھے۔ کم و بیش چالیس صفحات کے اس مضمون کے ابتدائی حصے بعنوان سلسلۂ نسب، فیض آباد سے تعلق، مقام پیدائش، تعلیم، حلیہ، لباس، مذہب، زبان، میر سید محمد(میر حیدر علی دفتردار دہلوی فیض آبادی کے پوتے جو فیض آباد سے عظیم آباد چلے آئے تھے)، شاعری، شاعری کی اقسام، انیس کی شاعری، میر انیس اور ان کے معاصرین سات صفحوں میں سمیٹ لیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ’’انیس اور ایپک پوئم‘‘ کے عنوان سے نیا باب قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سے پورا مضمون انیس کے مرثیوں کو رزمیہ ثابت کرنے کے لئے وقف ہے۔ اس مضمون کے بعد ’’کلام انیس پر تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مطبوعہ مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جس کی اشاعت کی تفصیلات کے سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ اس میں مراثیِ انیس کی خصوصیات سے بحث کی گئی ہے۔ ان دونوں تحریروں سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’اہل زبان متفق ہیں کہ انیس کی شاعری میں فصاحت اور لطف بیان کا ذائقہ حد کمال تک پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری اکتسابی نہیں بلکہ وہبی ہے۔ مضامین بلند، مسائل علمیہ و فلسفیہ، مگر الفاظ ایسے سادہ اور مزین اور فصیح کہ سبحان اللہ۔ دیگر اصناف سخن سے علیحدہ ہو کر صرف مرثیہ گوئی اور اس میں بھی ایپک پوئم کا کافی لحاظ رکھ کر ان کے کلام پر اگر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ایپک پوئم ملٹن کی پیراڈئز لوسٹ، ورجل کی اینیڈ اور و المیکی کی رامائن سے کہیں بہتر ہے۔ یورپ کا مشہور شاعر اڈیسن لکھتا ہے کہ ایپک پوئم کے واسطے سبجکٹ کا اعلی اور وسیع ہونا، مفہوم کا رفیع و بلند ہونا، تقطیع کا موزوں و مناسب ہونا ضروری ہے۔ اور ہم یہ کل باتیں میر انیس کے مرثیہ میں ایک جا پاتے ہیں۔‘ (33)
’انیس نے اشخاص مرثیہ کی جو سیرت دکھائی ہے وہ نہ خالص عربی ہے، نہ بالکل ہندوستانی، بلکہ دونوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ہندوستانیت عربیت سے زیادہ نمایاں ہے۔ بعض لوگ اس کو شاید قابل اعتراض سمجھیں لیکن انیس ایسا نہ کرتے تو نہ واقعۂ کربلا کو خاص و عام میں یہ اہمیت حاصل ہوتی، نہ امام حسین اور ان کے رفیقوں کی محبت اس طرح ہر دل میں گھر کرتی، نہ اہل ہند ان کو قابل تقلید نمونہ قرار دے سکتے اور نہ ان کے مصائب کو اپنی ذاتی مصیبتوں کی طرح محسوس کر سکتے۔ اور اگر یہ نہ ہوتا تو انیس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔‘ (34)
’اخلاقی شاعری کی حیثیت سے انیس کے مرثیوں کا پایہ بہت بہت بلند ہے۔ ان کے تمام کلام میں بلند اخلاقی کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے۔ جن اخلاق فاضلہ کی تعلیم انیس کے مرثیوں سے ہوتی ہے وہ اخلاق و نصائح کی کسی کتاب یا وعظ و پند کے ذریعہ ممکن نہیں۔ نفس انسانی کی انتہائی شرافت کے نقشے جن موثر پیرایوں میں کھینچے ہیں ان کا جواب ممکن نہیں اور ان کو انتہائی رذالت کی تصویروں کے مقابلے میں رکھ کر ان کے اثر کو اور بھی قوی کر دیا ہے۔‘ (39)
انیس کے مرثیوں کو رزمیہ کہنے یا ان میں رزمیہ شاعری کے عناصر کی نشاندہی بھی طویل عرصے سے ہوتی رہی ہے۔ خیال کے متذکرہ مضمون بعنوان ’حالات انیس‘ کو اگر بقول نقی احمد ارشاد خیال کے ’زمانۂ طالب علمی‘ کی تحریر مان لیا جائے تو 1897ء یا زیادہ سے زیادہ 1900ء تک اسے لکھا گیا ہو گا۔ قبل ازیں نواب امداد امام اثر بھی اس پہلو پہ روشنی ڈال چکے تھے۔ انھوں نے ’’کاشف الحقائق‘‘ کی پہلی جلد میں رزمیہ شاعری کے تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مغربی رزمیوں کا جائزہ پیش کیا ہے (کاشف الحقائق جلد اول، 132)جبکہ دوسری جلد میں بطور خاص میر انیس کی رزمیہ شاعری کی رفعتوں کا بیان کیا گیا ہے (کاشف الحقائق جلد دوئم، 488)۔ پروفیسر شارب رودولوی کی کتاب ’’مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر‘‘ کے مقدمہ میں پروفیسر سید احتشام حسین رقمطراز ہیں کہ:
’اس (مرثیہ) کا مطالعہ جس طرح کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں پھر امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں اور مولانا شبلی نے موازنہ انیس و دبیر میں نئی راہیں دکھائیں۔‘ (رودولی 1959، 6)
اثر کی حد تک تو یہ درست ہے کہ انھوں نے انیس کے مراثی کو رزمیہ کی حیثیت سے دیکھنے کی حمایت کی تھی۔ الطاف حسین حالی نے میر انیس کی مرثیہ گوئی کی داد دینے کے ساتھ ہی یہ صلاح بھی دی تھی کہ مرثیہ میں رزم و بزم، فخر و خود ستائی، گھوڑوں اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں دکھا کر اپنی شاعرانہ ہنر مندی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ (حالی 1953، 190)اسی طرح شبلی نعمانی کا بیان ہے کہ:
’قدیم زمانہ میں جنگ کا دستور تھا کہ عام لڑائی سے پہلے دونوں طرف سے پہلے ایک شخص میدان میں نکل کر حریف سے معرکہ آرا ہوتا تھا۔ اس بنا پر تمام مرثیہ گویوں نے اس قسم کی معرکہ آرائیاں بیان کی ہیں۔ لیکن مرزا دبیر وغیرہ یہ واقعہ اس طرح لکھتے ہیں کہ یہ نہیں اندازہ ہوتا کہ حریفوں نے فن جنگ کے کیا کیا ہنر دکھائے۔ بخلاف اس کے میر انیس اس کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ گویا فن جنگ کا بڑا ماہر لڑائی کے تمام داؤں پیچ بتا رہا ہے۔‘ (موازنہ انیس و دبیر، 119-20)
انیس کے مراثی میں رزمیہ عناصر کی علیحدہ نمائندگی کے لئے پہلی کتاب ’’واقعات کربلا‘‘ (مکمل نام: پہلی اردو ایپک پوئم یا رزمیہ نظم یعنی مسلسل واقعات کربلا از مراثیِ میر انیس) منظور علی علوی نے 1915ء میں لکھی تھی۔ اس میں انھوں انیس کے مرثیوں سے ان اجزا کو پیش کیا ہے ’جو واقعات ابتدائی کے سلسلہ میں شہادت امام حسینؑپر ختم‘ ہوتے ہیں۔ اس کی اشاعت کے ایک طویل وقفے کے بعد 1957ء میں ’’رزم نامۂ انیس‘‘ کے عنوان سے سید مسعود حسن رضوی ادیب کی کتاب منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے ’رزمیہ، بیانیہ، رثائیہ شاعری کی معراجِ کمال‘ کی پیشکش کے لئے مراثیِ انیس سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس وقفے میں بعض رسائل میں بھی اس موضوع سے متعلق مضامین کی اشاعت ہوئی ہو۔ ایسی صورت میں بھی خیال ان اولین اصحاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہیں جنھوں نے مرثیہ، بطور خاص انیس کے مرثیوں، کو رزمیہ کے زمرے میں رکھنے کے لئے اپنے دلائل پیش کیے تھے۔
انیس کے مراثی کے علاوہ خیال نے دبیر کی مرثیہ نگاری پر ’’مرثیہ اور مرزا دبیر مرحوم‘‘ کے عنوان سے بھی ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ حالانکہ اس میں انیس کے تذکرے جیسا والہانہ پن نہیں ہے، اس کے باوجود مرثیہ اور اخلاق پرستی کے ربط کی تفہیم کے لئے یہ تحریر معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کی زبان بھی متذکرہ تمام نگارشات کی طرح اچھوتی بندشوں، خوبصورت تلمیحوں، نادر تشبیہوں اور لطیف محاروں کا امتزاج ہے۔ اس کی اشاعت سے ایک سال قبل شبلی نعمانی کی تصنیف ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ منظر عام پر آ چکی تھی۔ خیال کا مضمون ’’دکن ریویو‘‘ میں 1907ء اور 1908ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے مدیر ظفر علی خاں تھے۔ عابد رضا بیدار نے اسے قابل لحاظ اور اہم مضامین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ میر انیس کے دفاع میں یا یہ کہہ لیں کہ انیس کے پس منظر میں دبیر کی مرثیہ نگاری کی مخالفت میں ہی سہی، یہ ایک عالمانہ مقالہ ہے۔ لیکن اس زمانہ کے عام رواج کے مطابق اس مقالہ میں دبیر سے متعلق بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو اس وقت منشی نول کشور والے نسخے میں شامل تھے۔ ’’دکن ریویو‘‘ کے اگست 1908ء کے شمارہ کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ
’مرزا دبیر کے کلام پر نواب نصیر حسین خان بہادر کی جو تنقید دکن ریویو میں شائع ہوئی تھی اس کے متعلق ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا کہ مرزا اوج اسے دیکھ کر بہت بگڑے اور فرمانے لگے کہ یہ کلام ہی مرزا دبیر کا نہیں ہے (کس کا ہے، اس کی وضاحت نہیں ہے) لیکن اس کا التزام اگر ایک حصہ منشی نولکشور آنجہانی پر عائد ہوتا ہے تو تین حصہ خود پیروان انیس و دبیر پر۔‘ (خان، اداریہ 1908، ح)
لیکن یہ صورت حال عام تھی۔ مرزا اوج یہ بھی کہا کرتے تھے کہ علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ نقل کیے گئے دبیر کے کئی اشعار در اصل دبیر کے نہیں ہیں۔ ان کے شاگرد میر افضل علی لکھنوی نے ’’رد الموازنہ‘‘ میں شبلی کی مخالفت اور دبیر کی حمایت میں ان ہی زمانوں میں انتہائی غیر مہذب زبان بھی استعمال کی تھی۔ خیال نے یہ مضمون ماہنامہ ’’عصر جدید‘‘ (مدیر خواجہ غلام الثقلین) میں مولوی امجد علی اشہری کی ایک تحریر کے رد عمل میں لکھا تھا۔ لیکن یہاں انھوں نے دبیر کے مقابلے میں انیس کی عظمت ثابت کرنے کے لئے نسبتاً سخت لہجے کا استعمال کیا ہے۔ آغاز تحریر ان کے لہجے کی درشتگی کا مظہر ہے:
’انیس و دبیر کے موازنہ کی نسبت ملک کے ایک مشہور اہل قلم کی فی الحال یہ رائے نظر سے گزری کہ ’میر صاحب کو سب سے بہتر شاعر مان لینے پر بھی اگر کوئی مرثیہ گو سامنے لایا جا سکتا ہے تو وہ مرزا دبیر ہی ہو سکتے ہیں‘۔ اس فقرہ کے پَرادَربھی سے اس وقت بحث و مطلب نہیں۔ بلکہ دیکھنا اور دکھانا یہ ہے کہ لفظ ’مرثیہ گو‘ یہاں پر کتنا موزوں اور کس قدر صحیح ہے۔‘ (مرثیہ اور مرزا دبیر مرحوم (1)، 11-12)
لفظ ’پرادربھی‘ کے بے تکلف استعمال سے قطع نظر، یہ مضمون شاعری، بطور خاص مرثیہ نگاری یا مرثیہ گوئی کے لسانی تقاضوں کے معاملے میں خیال کے نقطۂ نظر کو واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ جزئیات مراثی کی پیشکش میں زبان و بیان سے متعلق جتنی تفصیلیں اور جس باریک بینی کا مظاہرہ اس مضمون میں ملتا ہے وہ خیال کی نثر میں منطق و استدلال اور شعر و ادب کی مثبت اور کردار ساز روایتوں کے تئیں ان کے عالمانہ نقطۂ نظر کا مظہر ہے۔ مرثیہ (بہ اصطلاح رائج ہندوستان) کی تعریف متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’مرثیہ کی علت اور غرض صرف اس قدر ہے کہ حسینؑ ابن علیؑ یا ان کے خاندان کے حالات اس طرح بیان ہوں کہ سامعین و ناظرین کے دلوں پر ان کے کیرکٹر کی عظمت و شان کا سکہ بیٹھ جائے (اور پھر) ان کے پُر مصائب واقعات کا غم انگیز اثر قلب پر چھا جائے اور بس۔ اس سے زیادہ جو کچھ ہو وہ ضمنی باتیں کہی جائیں گی نہ کہ حقیقی۔ اصلی اور علتِ غائی۔۔ ۔ مرثیہ کے مذہبی اور روحانی اغراض و پہلو سے قطع نظر کر کے بھی اگر دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ شاعر اپنے ممدوح یا ہیرو کو اگر بلند مرتبہ دکھانا چاہتا ہے تو اس کی اصلی یا فرضی ایسی شان اور اس کے حرکات و سکنات اور رفتار و گفتار ایسے انداز و اسلوب کے ساتھ پیش کرے کہ ایک اعلیٰ و ارفع انسان کا پرتو اس میں صاف جلوہ گر رہے۔ اور ہر جگہ استقامت کے ساتھ پابند رہے کہ آداب و اخلاق کا وہ ہیرو ایک اعلیٰ نمونہ اور قابل تقلید مثال ہو۔ تاکہ سامعین و ناظرین کے دلوں میں پہلے اس ممدوح کی ایسی عظمت قائم ہو کہ وہ اس کے طرفدار ہو جائیں اور بعد کو اس کے واقعات سے اثر پذیر ہونے پر تیار ہو سکیں۔‘ (11)
شاعرانہ تخیل کی حد بندی کرتے ہوئے انھوں نے دو نکات پیش کیے ہیں:
’ان باتوں کے ساتھ ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ ضمنی باتیں جو محض شاعرانہ تخئیلات کی نتائج ہوں کلام میں اس حد تک آئیں کہ اصلی مطلب کسی جگہ فوت نہ ہونے پائے۔ اور محض تخئیلات کا زور اس ہیرو کے حالات و واقعات پر پردہ نہ ڈال دے۔ الفاظ شایان و شیرین و مناسب ہوں اور مضامین اقتضائے حال کے خلاف نہ ہوں۔ اور اسی کا نام کیرکٹر نگاری ہے۔ اس لئے نہایت ضرور ہے کہ ان باتوں کو شاعرانہ تخئیلات کے ہر شعبہ پر ترجیح دی جائے اور پھر کلام پرکھا اور جانچا جائے کہ شاعر خاص اس امر میں کہاں تک کامیاب ہوا؟ اور یہی چیزیں حسنِ بیان اور کلام کی معنوی بلاغت ہیں!‘ (15)
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس مضمون کا مقصد صرف مرزا دبیر کے کلام کے ایسے پہلوؤں کو بتا دینا ہے جو کیرکٹر کی پستی کی وجہ سے داخل مرثیہ نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی انھیں ’مرثیہ کا اعلیٰ خطاب‘ دیا جا سکتا ہے۔ خیال نے اپنے ابتدائی مضامین میں بھی، جو نقی احمد ارشاد کی مرتب کردہ کتاب میں شال ہیں، مرثیہ کو اخلاق کی بلندی کا بہترین سرمایہ قرار دیتے ہوئے اخلاقی شاعری کے اعتبار سے انیس کے مرثیوں کو اعلی ترین مقام عطا کیا ہے۔ انھوں نے مرزا دبیر کی استعمال کردہ بعض اصطلاحات اور تشبیہات نیز اسلوب کو اپنا موضوع بناتے ہوئے انھیں محل نظر تصور کیا ہے۔ اختر حسین رائے پوری نے لکھا تھا کہ مرثیہ کے فن کو خیال سے بہتر سمجھنے والا کوئی نہ تھا۔ (گرد راہ 1984) اس خیال سے اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا لیکن متذکرہ مضمون میں جن مقامات پہ خیال نے الفاظ کے استعمال اور ان کے شعری محاسن سے بحث کی ہے وہ ان کے تنقیدی شعور کی بہترین آئینہ داری کرتے ہیں۔ اس کے بعض پہلو وہ بھی ہیں جو اس کی اشاعت کے برسوں بعد ’’داستان عجم‘‘ میں بھی زیر بحث آئے ہیں۔
عرض کیا جا چکا ہے کہ خیال نے مرثیہ کو اخلاق و اقدار کی درستگی کا وسیلہ تصور کیا ہے۔ ان کا تصور ہے کہ مرثیہ کے مذہبی اور روحانی پہلو سے قطع نظر، صرف اپنے ممدوح یا ہیرو کے بلندیِ مرتبہ کی پیشکش مقصود ہو تب بھی اس میں اعلیٰ و ارفع انسان کے پرتو کی جلوہ گری موجود ہونی چاہیے تاکہ وہ ایک اعلیٰ نمونہ بھی ہو اور قابل تقلید بھی۔ چونکہ، بقول خیال، دبیر کے مرثیے اخلاقی بلندیوں کو پیش نہیں کرتے اس لئے انھوں نے دبیر کے مرثیوں کو محض نظم یا مسدس کے زمرے میں رکھنے کی دلیلیں پیش کی ہیں۔
’جناب مرزا صاحب استعارات و تشبیہات کی فرضی بنا کی دھن اور مبالغہ و اغراق کے انہماک میں تو بیشک ید طولیٰ رکھتے ہیں لیکن جس ممدوح کے بڑا جتانے کی کوشش میں ان کا اشہب قلم جا بلقا و جا بلسا تک کی سیر کراتا ہے اس کے حالات، حرکات و سکنات اور رفتار و گفتار (افسوس ہے) کچھ اس اسلوب سے بیان فرما جاتے ہیں کہ اس ممدوح کی صرف کسر شان ہی نہیں ہو جاتی بلکہ بسا اوقات ان کا ہیرو آداب و اخلاق میں اتنا پست نظر آتا ہے کہ بمشکل اس (ممدوح)کا کوئی طرفدار ہو کر بعد کو اس کے حالات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اور کیریکٹر نگاری کی بد سلیقگی اور کمزوری اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے۔‘ (13)
انھوں نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ کیریکٹر کی پستی کی وجہ سے دبیر کی نظموں کا بڑا حصہ مرثیہ کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ وہ دبیر کے مرثیوں ’ہر آہ علم ہے یہ عزا خانہ کس کا‘، ’پیدا شعاعِ مہر کی مقراض جب ہوئی‘ اور ’کیوں عرش ذو الجلال کا سرتاج عین ہے‘ کے بعض بندوں کا مطالعہ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
’باوجود اس کے کہ ہم نہ ان (مرزا دبیر) کی شاعری کو تسلیم کرتے اور ان کے مسدسوں کو مرثیہ کا اعلیٰ خطاب دے سکتے ہیں، مگر پھر بھی ان کا بہت کچھ ادب و لحاظ ملحوظ خاطر رکھتے اور ایک نیک دل، شریف النفس انسان ماننے کے ساتھ ان کی پر گوئی کے مُعترف بھی ہیں۔‘ (15)
زبان کے سلسلے میں خیال کا اپنا موقف تھا اور اس معاملے میں وہ کسی کو بھی بخشتے نہ تھے۔ اس کی مثال کے طور پہ علامہ شبلی کے یہاں انیس کے مراثی کی زبان سے متعلق ایک بحث کے پس منظر میں مرزا محمد عسکری لکھنوی (صاحب ’آئینۂ بلاغت‘) کو لکھتے ہیں کہ:
’الفاظ و محاورات کے برمحل استعمال نہ ہونے کی ایک مثال عرض کر دوں۔ اردو میں چھینٹے دینا فقرہ دینے کے ہم معنی ہے۔ جیسے، میں نے اسے ایسے چھینٹے دیے کہ وہ بھی یاد کرتا ہو گا، یعنی بڑے فقرے یا بہلاوے دیے۔ یہ محاورہ ہے۔ مگر بے محل۔ اس کا استعمال ناجائز۔ دو مہذب باپ بیٹے ہوں اور اگر اپنے بزرگوں کے سامنے وہ لڑکا بے تکلف یوں کہے کہ، ’ابا جان! میں نے اسے وہ چھینٹے دیے کہ وہ گھوم گھوم گیا‘۔ تو اس مقام پر محاورہ تو صرف ہوا مگر بے محل و بے موقع۔ اگر یہی محاورہ ایک شہدے کا لڑکا اپنے باپ کے سامنے بول جائے تو برمحل ہو گا، یا دو بے تکلف دوستوں کی صحبت میں وہ فقرہ زبان پر آ جائے تو ناقابل ایراد اور جائز ہو جائے گا۔۔ ۔ میر انیس کا ایک مصرع ہے، کہیں کوثر کی تو چھینٹوں میں نہیں آیا ہے۔ مولوی شبلی مرحوم، ظاہر ہے کہ بڑے خوش مذاق اور خوش قلم بزرگوار تھے۔ مگر اس محاورہ کے محل استعمال پر غور کرنے کی وجہ سے اپنے موازنہ میں معترض ہوئے کہ میر انیس نے یہ سوقیانہ محاورہ نظم کر دیا۔ موقع یہ ہے کہ روز عاشور حضرت حُر اور عمر سعد سے امام حسینؑ پر فوج کشی کے متعلق رد و بدل ہو رہی اور گفتگو گرم ہے۔ حر حضرت کی طرفداری کرتے اور انھیں معصوم بتا کر عمر سعد کو ظلم و جفا سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معقول جواب بن نہیں پڑتا تو سعد حر کو یوں طعنہ دیتا ہےع کہیں کوثر کی تو چھینٹوں میں نہیں آیا ہے۔ یعنی تجھ پر شاہ کی باتوں کا تو اثر نہیں پڑ گیا۔ ظاہر ہے کہ سعد ایک اکھڑ سپاہی یا زیادہ سے زیادہ ایک جاہل جنرل تھا۔ اس کی زبان سے اور پھر حر کے آگے ایسے محاورہ کا استعمال برمحل اور عین بلاغت ہو گا۔ مگر یہی محاورہ اگر اہل بیت رسولؐ کی زبان سے یا ان کے حضور میں ادا کیا جائے گا تو سخت بے محل سمجھا جائے گا، اور صحیح مذاق و بلاغت سے گر جائے گا۔ مولوی شبلی مرحوم نے اس نکتہ پر غور کیے بغیر اعتراض کر دیا اور وہ غلط نکلا۔‘ (ارشاد 1981، 194)
رسالہ ’’ادب‘‘، لکھنؤ کے جون 1930 کے شمارہ کے اداریہ میں خیال کے تعلق سے ایک بیان شائع ہوا تھا کہ
’ہمارے ایک محترم نے نواب نصیر حسین خاں صاحب خیال کی زبانی یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ کسی یوروپین فاضل نے موصوف سے دریافت کیا کہ اردو کا سب سے بڑا شاعر کون ہے، جواب دیا، انیس! اس نے کلام انیس کی زیارت کا اشتیاق ظاہر کیا۔ نواب صاحب نے وہی سڑے ہوئے بادامی کاغذ پر نولکشور پریس کی چھپی ہوئی جلدیں اس کو دکھائیں۔ اس نے کہا کہ میں اس بہترین شاعر کے کلام کا بہترین ایڈیشن دیکھنا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب نے نہایت شرمندگی کے ساتھ جواب دیا کہ اس سے بہتر کوئی ایڈیشن موجود نہیں ہے۔ یہ سن کر اس زندہ اور ذی حس قوم کے فرد نے کہا کہ جس شاعر کا کلام اس طرح چھاپا گیا ہواس کو میں کسی زبان کا بہترین شاعر ہرگز نہیں تسلیم کر سکتا۔ اگر کہیں وہ انیس کا مقبرہ بھی دیکھ لیتا تو شاید وہ ہندوستانیوں کو ان لفظوں سے یاد کرتا جس کے وہ مستحق ہیں۔‘ (س. ا. حسین 1930، 6)
اسی شمارے کے بعد اس رسالہ نے خیال کا ایک خط بھی شائع کیا تھا جس سے واقفیت ہوتی ہے کہ وہ ’کارنامۂ انیس‘ کا ایک ’صحیح و مہذب‘ ایڈیشن شائع کروانا چاہتے تھے۔ انھوں نے لکھنؤ میں بیٹھ کر میر علی محمد عارف اور میر مہدی حسن احسن کے تعاون سے 1913ء میں کلام انیس کی تصحیح کا کام شروع کیا۔ سید اعظم حسین، مدیر ’ادب‘، لکھنؤ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’ان کی توجہ سے تقریباً چھ مہینوں کی عرق ریزی کے بعد ان مرثیوں کی قابل اعتبار تصحیح ہو گئی۔ عارف مرحوم کی مہر و دستخط لے کر میں نے وہ مرثیے رکھ لیے‘‘۔ اب اس کی اشاعت کی فکر ہوئی تو شایان شان طباعت کے لئے انھوں نے اسے حکومت کی جانب سے شائع کروانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایک میمورینڈم تیار کیا اور شملہ جا کر لارڈ ہارڈنگ سے اس معاملے میں گفت و شنید بھی کی۔ اس میمورینڈم میں، بقول خیال،
’ثابت کیا گیا تھا کہ اردو اہل ہند کی متفقہ زبان، اور اس ملک کا وہ تحفہ میوہ ہے جسے ہندو مسلم اتحاد نے پیدا کیا، اور انگریزوں نے جس کی پرورش و آبیاری کی ہے، اور نیز یہ کہ انیس اردو کے وہ شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف اس زبان کو مہذب ہی بنایا بلکہ اپنے کلام کی بنیاد اس فلسفۂ اخلاق پر رکھی جس کی نظیر کتب الہامی کے سوا کہیں اور نہیں ملتی۔ اور عہد وکٹوریہ کی وہ ایک ایسی ممتاز ہستی ہیں جو بکرماجیت کو بھی میسر نہ ہو سکی۔ اس لئے اس مہذب گورنمنٹ کا یہ فرض ہے کہ اس کلام کو اپنی نگرانی میں شائع کر کے ملک کو بلند نام کر دے۔‘ (کلام انیس و مزار انیس، 58)
ظاہر ہے کہ لارڈ ہارڈنگ سے ملنا اور اس کے لئے شملہ جانے کی تیاری کرنا بھی کوئی آسان کام نہ رہا ہو گا۔ ہارڈنگ نے خیال کی تجویز کو پسند کرتے ہوئے ایک سفارشی خط اس وقت کے شعبۂ علیم کے رکن سر شنکر ناراین کے پاس اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا کہ خیال ان سے بھی ملاقات کر لیں اور آگے کے معاملات طے کر لیں۔ خیال سے ان کی ملاقات کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور طے پایا کہ حکومت اپنے خرچ سے کلام انیس کو شائع کرے گی۔ لیکن اس سلسلے میں محکمۂ تعلیم سے خط و کتابت جاری رہنے کے دوران ہی یورپ کی جنگ چھڑ گئی اور حکومت مالی مشکلات میں یوں پھنسی کہ یہ کام سر انجام نہ ہو سکا۔ اتنی حکمت عملیوں میں چند سال گزر گئے۔ اس کے بعد ان مراثی کا کیا حشر ہوا، ملاحظہ فرمائیں:
’اسی دوران مجھے حیدرآباد جانا اور وہاں قیام کرنا پڑا۔ وہ تصحیح شدہ مراثی میرے ساتھ تھے۔ عزیزی مسٹر راس مسعود (سابق ڈائرکٹر تعلیمات، حیدر آباد) کو اِس کا علم ہوا۔ مجھ سے انھوں نے ان مرثیوں کو دیکھنے اور بعد کو سرکاری طور پر ان کے شائع کرنے کا شوق ظاہر کیا۔ اُن عزیز سے کوئی چیز عزیز کیونکر ہو سکتی تھی۔ میں نے وہ مرثیے ان کے حوالہ کر دیے۔ اس کے بعد ہی میں یورپ چلا گیا۔ واپسی پر علم ہوا کہ ریاست حیدرآباد نے کلام انیس شائع کیا ہے۔ خوشی ہوئی! لیکن لکھنؤ میں جناب مہاراجا بہادر محمود آباد اور جناب احسن سے یہ سن کر کہ حیدرآباد سے جو مرثیے شائع کیے گئے وہ مطبع نولکشور سے بھی زیادہ غلط اور مسخ ہیں، مجھے تعجب اور سخت رنج ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جن صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا انھوں نے اپنے علم و مذاق کے مطابق ان مرثیوں پر خط قلم نسخ پھیرا اور شائع فرمایا ہے۔‘ (59)
ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ خیال مرثیہ گویوں کا تذکرہ بھی مرتب کرنا چاہتے تھے۔ سید وصی احمد بلگرامی کو لکھے 24 جولائی 1915 کے مکتوب میں اس کا ذکر موجود ہے۔
’میں مرثیہ گویان ہند کا ایک تذکرہ مرتب کرنے کی فکر و کوشش کر رہا ہوں۔ چونکہ جناب غفران مآب مولوی سید فرزند احمد صاحب مغفور نے بھی مرثیے کہے تھے اس لحاظ سے ان مرحوم کا ذکر خیر بھی اس تذکرے میں ضرور واجب ہے۔ میں نے کوشش کی مگر ان جناب کا کوئی مرثیہ مجھے اب تک نہیں مل سکا۔ فرمائش ہے کہ اس کام میں خاطر خواہ میری مدد کیجیے اور آپ کے ذریعہ سے اگر پرانے مراثی کہیں مل سکیں تو ان کے حاصل کرنے کی فکر کیجیے اور اپنے دادا صاحب (صفیر بلگرامی) مرحوم کے مراثی میں سے دو ایک بھی مل سکیں تو مجھے فوراً ً بھیجیے۔‘ (مکتوب بنام سید وصی احمد بلگرامی، 224)
سید علمدار حسین واسطی کو ۸جولائی 1915 کے مکتوب میں انھوں نے انیس کے مراثی کی تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’مسودات ہمارے عظیم آباد ہیں اور ان ہی میں اس مرثیہ کی تفسیر کا مسودہ بھی ہے۔ اور جب تک میں خود وہاں نہ جاؤں اس کا نکلنا سخت دشوار ہے۔ یہاں تلاش سے صرف دو چار بندوں کی تشریح ملی جسے حاضر کیے دیتا ہوں۔ اس سے کچھ اندازہ آپ کو مل سکے گا۔ اور وجوہ بلاغت جو میرے ذہن میں ہے اسے بھی آپ ایک حد تک سمجھ سکیں گے۔ اب تک صرف پچاس بندوں کی تشریح میں کر سکا ہوں لیکن جیسا کہ قبل عرض کر چکا، تفسیر کے حجم کا خیال کر کے میں نے اس ارادے کو ملتوی کر دیا کہ اس ’انسائیکلو پیڈیا‘ کو اس زمانے میں پڑھے گا کون؟ نفس شاعری سے الگ ہو کر اس مرثیہ کی اور ضمنی باتوں مثل صنائع اور فصاحت کلام وغیرہ کو بھی میں نے نہیں چھوڑا ہے، اور وہ کل سمجھا دیے گئے اور فٹ نوٹ میں درج کر دیے گئے۔ یہ نمونہ فوراً واپس کر دیا جائے۔‘ (ادیب الملک نواب خیال کا مکتوب گرامی بنام سید علمدار حسین واسطی، 27)
اسی مکتوب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انھوں نے مولوی افضل حسین ثا بت (صاحب ’’حیات دبیر‘‘)، کوٹلہ کو حیدری، خلیق اور فضلی کے سلسلے میں مختصر نوٹ بھی بھیجے تھے۔ یہ سب تحریریں، گمان ہے کہ ضائع ہو چکی ہیں۔ علامہ سید ضمیر اختر نقوی کا بیان ہے کہ ’نصیر حسین خیال اور فدا علی خنجر نے بھی ’تذکرۂ شعرائے خاندان انیس‘ کے موضوع پر کتابیں تالیف کی تھیں لیکن ان کتابوں کا بھی کسی کو علم نہیں ہے کہ یہ کہاں دفن ہیں ‘۔ (خاندان میر انیس کے نامور شعرا، 61)
رسالہ ’’جادو‘‘، ڈھاکہ میں ’’پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں‘‘ کے عنوان سے شائع خطوط کے سلسلے بھی میر انیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیال کا اس سلسلے کا پہلا مضمون نما خط مئی 1925 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مدیر خواجہ عادل نے لکھا ہے کہ اس خط کا تعلق انجمن ترقی اردو کی جانب سے شائع شدہ میر حسن اور میر تقی کے تذکروں کے لئے نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے مقدمہ تحریر کیا تھا۔ ان مقدموں میں گرچہ علامہ شروانی نے
’تحقیق و تفتیش کی داد دی اور اردو کے حاطب اللیل مولانا آزاد دہلوی سے جہاں جہاں مسامحت ہوئی ہے، ظاہر کر دیا، مگر خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس مصرع (پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں) کا (کذا) انتساب کے بانی بھی مولانا آزاد ہی ہیں اور اس پر بوجہ غایت حسن عقیدت انھوں نے توجہ نہیں فرمائی۔ مولانا شروانی سے جو حصہ رہ گیا تھا اس کو ہمارے مخدوم نے پورا کر دیا اور پھر اس زبان و اسلوب بیان میں جس کی داد اللہ بخشے مرحوم آزاد ہی سے سکتے ہیں۔‘ (نواب نصیر حسین خیال کا خط نواب صدر یار جنگ کے نام، 1)
مکتوب کے پہلے حصے میں خیال نے میر انیس، ان کے معاصرین، میر انیس کے بزرگوں اور ان کے معاصرین کی مرثیہ گوئی پہ بحث کرتے ہوئے ’پانچویں پشت‘ اور ’پانچویں صیقل‘ پہ بحثوں کے بعد یہ واضح کیا ہے کہ بعض اشعار کے سلسلے میں غلط روایات موجود رہی ہیں جس کا نتیجہ خلط مبحث ہے۔ انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ مدلل انداز میں ان مصرعوں سے متعلق شواہد کو پیش کیا ہے۔ یہ مکتوبات عرصہ تک قارئین کی دلچسپیوں کے باعث بنے رہے۔ خیال کے چند خطوط سے علم ہوتا ہے کہ وہ خود تو ان تحریروں پہ نازاں تھے ہی، دوسروں کو بھی اسے پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے نام لکھے خیال کے ایک مکتوب سے علم ہوتا ہے کہ انھیں بھی اس بحث میں دلچسپی تھی۔
’ ’جادو‘ کے وہ دو نمبر جن میں مصرع پانچویں پشت کے متعلق بحث ہے، حسب فرمائش بھیجتا ہوں۔ اس سلسلے کا پہلا خط ملاحظہ کر کے دوسرا مطالعہ کیا جائے۔ افسوس کہ شروانی صاحب کا جواب یہاں موجود نہیں ہے۔ اسے دیکھے بغیر جواب الجواب کے ملاحظہ میں مزہ نہ آئے گا۔ مگر خیر، ان کے خط کے بعض اقتباس کچھ مدد دیں گے۔ شروانی صاحب نے طول کلام کے علاوہ چونکہ اپنے جواب میں ذرا شوخیِ تحریر سے کام لیا تھا اس لئے جواب الجواب میں ان کے لب ولہجہ کی تقلید کی گئی تاکہ ان پر اور روشن ہو جائے کہ دوسروں کو بھی بولنا اور منہ چڑانا نہیں، بلکہ کچھ آنا آتا ہے۔ اتنی زیادتی محض ان کے تخاطب کے انداز سے ہو گئی جس کا مجھے افسوس ہے۔ خیر، اب ان دونوں خطوں کو آپ ملاحظہ کر جائیں۔ اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ آپ کا سا شخص بھی ان چیزوں کو دیکھ لے۔‘ (نصیر حسین خاں خیال کے خطوط، 477)
پروفیسر ادیب نے ’’اسلاف میر انیس‘‘ میں ان مکتوبات کا ذکر کیا ہے، خیال کے دلائل کو مانا بھی ہے، ساتھ ہی انھوں نے اس پہ تین اعتراضات بھی کیے ہیں۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ خیال نے ان میں سے ایک مکتوب میں چو بولا کی جو تعریف کی ہے، وہ غلط ہے۔
’سودا کے بند کی توضیح میں کچھ طول ہو گیا۔ اس لئے ایک دفع پھر کہہ دوں کہ اس بند میں میر ضاحک کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کی طرف ایک اشارہ نکلتا ہے۔ اس سلسلے میں نصیر حسین خیال کے بیان پر نظر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔‘ (29)
اس کے بعد انھوں نے خیال کے متذکرہ مکتوب سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں خیال نے ضاحک کا ایک چو بولا پیش کرتے ہوئے حاشیہ میں اس کی تعریف بھی لکھی تھی۔ خیال کے الفاظ ہیں کہ (نواب نصیر حسین خیال کا خط نواب صدر یار جنگ کے نام، 7):
’اس کی کوئی شہادت موجود نہیں کہ میر امامی سے لے کر میر عزیز اللہ تک کسی صاحب نے فارسی یا اردو میں مستقل طور پر مرثیہ کہا ہو۔ لیکن میر ضاحک کی مرثیہ کوئی بہت مشہور ہے۔ ہمارے پاس بھی ان کا ایک چو بولا بزرگوں کا تحفہ یادگار محفوظ ہے۔ ملاحظہ ہو۔
فلک پر چاند دیکھا آج سے ماہ محرم ہے
غضب باغ جہاں میں صبح سے آئی شب غم ہے
زباں بلبل کی سوکھی اور پر نم چشم شبنم ہے
لبوں پر گل کے بھی ضاحک نہیں اب تو تبسم ہے
خیال نے حاشیہ میں چو بولا کی یہ تعریف لکھی ہے:
چو بولا، یعنی چار مصرعے جسے مربع بھی کہتے تھے۔ ہندی تقلید میں مسدس کی ایجاد سے قبل اس کا بہت رواج تھا اور بعد کو بھی مطبوع رہا۔ اس چو بولے میں میر ضاحک کی زبان اور انداز بیان کو دیکھنا چاہیے۔ لفظ تبسم (سین کو پیش ہے)، مگر یہ پرانا لہجہ اور بزرگوں کا تحفہ ہے۔‘ (7)
ادیب مرحوم لکھتے ہیں کہ
’خیال کے اس بیان کا اعتبار کرنا مشکل ہے۔ ان کا یہ قول حقیقت سے دور ہے کہ ’میر ضاحک کی مرثیہ گوئی مشہور ہے ‘۔ انھوں نے لفظ چو بولا کی جو شرح کی ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اپنے پیش کیے ہوئے چار مصرعوں کو جو چو بولا قرار دیا ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ وہ کسی مربع مرثیے کا پہلا بند معلوم ہوتا ہے۔ اس میں لفظ تبسم جو صرف سین پر زبر کے ساتھ آیا ہے، اس کی یہ توجیہ قابل قبول نہیں کہ ’یہ پرانا لہجہ اور بزرگوں کا تحفہ ہے‘۔ میر ضاحک تو ایک ذی استعداد شخص تھے، کوئی معمولی شد بد پڑھا ہوا آدمی بھی محرم، غم اور شبنم کے ساتھ تبسم کو قافیہ نہیں کر سکتا۔‘ (29-30)
دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس بند میں ضاحک تخلص کے استعمال سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ اسے میر ضاحک نے ہی کہا ہے کیونکہ ’ضاحک سلاموں، نوحوں اور مذہبی نظموں میں اپنا پورا نام غلام حسین یا صرف غلام تخلص کرتے تھے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی اسے ضاحک سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ تیسرے اعتراض کا تعلق ’باپ مداح کا مداح ہے‘ سے خیال کی تشریح سے ہے۔ خیال کی اس بحث سے استفادہ تو کئی اصحاب نے کیا لیکن ان مکتوبات کے تین نہایت ہی غیر ضروری امور پہ نکتہ چینی ہی مناسب سمجھی گئی۔ رہا ضاحک کا بطور تخلص استعمال، تو پروفیسر ادیب کا یہ خیال صحیح ہے کہ ضاحک نے اپنی مذہبی نظموں، سلاموں اور نوحوں میں تخلص کی جگہ غلام حسین یا غلام کا ہی عموماً استعمال کیا ہے، لیکن اسی کتاب میں فارسی اور اردو میں میر ضاحک کے مذہبی نوعیت کے ایسے اشعار موجود ہیں جن میں ضاحک تخلص کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ میرا مقصد کسی بھی قسم کی انگشت نمائی نہیں ہے تاہم یہ وضاحتیں ضروری تھیں۔ یہ بہر حال درست ہے کہ زبانی روایات پہ خیال کے انحصار کی وجہ سے ان کی تحریروں میں غلطیاں در آئی ہیں، اس کے باوجود، ان کی نشاندہی کے ساتھ ہی مثبت امور کا اعتراف نہ کرنا حیرت انگیز ہے۔ خیال 1925ء میں لکھتے ہیں کہ میر ضاحک کی مرثیہ گوئی بہت مشہور ہے۔ پروفیسر ادیب نے 1970ء میں یہ لکھا کہ ’ضاحک کی مرثیہ گوئی کا کچھ حال معلوم نہیں ہے، نہ ان کا کوئی مرثیہ دستیاب ہوتا ہے، لیکن میر انیس کے ایک قول سے گمان ہوتا ہے کہ وہ مرثیہ بھی کہتے تھے‘۔ ان کے ہی یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’معلوم ہوتا ہے کہ میر ضاحک مرثیے کہتے تھے۔ (27) انھوں نے اسی حصے میں دوبارہ یہ عرض کیا ہے کہ ’گمان غالب ہے کہ میر ضاحک نے مرثیے بھی کہے ہوں گے۔ مگر جس طرح میر اور جرات کے مرثیے ان کے دیوانوں کے اکثر نسخوں میں شامل نہیں ہیں، اسی طرح میر ضاحک کے مرثیے بھی ان کے دیوان کے موجودہ نسخے میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔‘ (33) یہ ماننے میں کیا مضائقہ ہو سکتا ہے کہ خیال نے میر انیس کے ہی قول کا اعتبار کیا۔
’’مغل اور اردو‘‘ میں خیال نے لکھا ہے کہ ’میر ضاحک کا شہر آشوب دیدنی تھا‘۔ انھوں نے ’’سیر المتاخرین‘‘ کی روشنی میں شاہ حاتم اور غلام حسین ضاحک کی تعلیم گاہوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ چونکہ ’’سیر المتاخرین‘‘ میں ایسے کسی واقعہ کا ذکر موجود نہیں ہے اس لئے قاضی عبد الودود نے خیال کی شان میں تلخ کلامی بھی کی تھی۔ قاضی صاحب کا تصور ہے کہ عمد ۃ الملک سے اپنے بزرگوں کے تعلقات کی بنا پر خیال نے یہ بات لکھ دی تھی۔ اس کے حوالے سے فضل الحق (قاضی صاحب کے قول کی روشنی میں) فرماتے ہیں کہ شیر علی افسوس اور میر حسن کے اقوال پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی، مزید یہ کہ خیال کا بیان اگر غلط ہو تب بھی ’’بغیر کسی قطعی ثبوت کے نیت پر شبہ کرنا جائز نہیں‘‘۔ (میر حسن: حیات اور ادبی خدمات، 51)
’باپ مداح کا مداح ہے‘ اور پانچواں یا پانچویں اور ساتواں یا ساتویں صیقل پہ بھی خیال نے اپنے دلائل پیش کیے ہیں۔ متذکرہ کتاب میں بھی ان موضوعات پہ بحث کی گئی ہے اور خیال سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کیا گیا ہے کہ ’پہلا لفظ مداح خود شاعر کی ذات کے لئے آیا ہے، اور مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ میں مداح، میرا باپ مداح، میرا دادا مداح‘۔ (ادیب 1970، 30) مولانا حبیب الرحمن شروانی کا اصرار تھا کی پانچویں نہیں، چھٹی پشت مانی جائے۔ خیال نے اس کی وضاحت میں لکھا تھا کہ میر عسکری رئیس کی زبان سے باپ سے مراد میر انیس ہیں کہ وہ میر خلیق کے مداح تھے اور دادا سے مقصود ہیں خلیق کہ وہ مشہور مداح اہل بیت تھے‘۔ (15) اس میں پروفیسر ادیب کو قابل گرفت پہلو کون سا نظر آیا؟ جو نتائج خیال کے ہیں وہی ادیب صاحب کے بھی اور دلائل بھی وہی ہیں۔ یہی معاملہ ’ساتواں‘ یا ’ساتویں‘ صیقل کی بحث کے ساتھ بھی ہے۔ مرثیہ ’نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری‘ سے متعلق ان پہلوؤں پہ عموماً بحثیں کی جاتی رہی ہیں۔ خیال اور علامہ شروانی کے مکتوبات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ خیال کے استدلال کے انداز، زبان و بیان، اگلے وقتوں کے بزرگوں کے چشم دید واقعات اور ان کی بنیاد پہ مختلف زبانی روایتوں کے بیانات کی وجہ سے یہ مکتوبات اس بحث سے وابستہ ذخیرے کا اہم سرمایہ ہیں اور اردو کے علمی ادبی معرکوں کی روایتوں کا حصہ بھی۔ ’’جادو‘‘ کے مدیر نے خیال اور مولانا شروانی کی اس بحث کے تصفیہ کے لئے سید علی حیدر نظم طباطبائی کو حکم قرار دیا۔ ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ:
’نواب نصیر حسین صاحب نے ایک بڑی الجھن کو اس تحریر میں سلجھایا ہے۔ اور کس خوبی سے سلجھایا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ حقیقت امر یہ ہے کہ پٹنہ کے رؤسا میں ان کا خاندان جس قدر میر انیس اور مونس وغیرہ کے کلام سے واقف ہے، لکھنؤ میں بھی ایسے لوگ کم نکلیں گے۔ ان کا لکھنا نہایت موثق۔ مرثیہ میں ان کا مذاق نہایت صحیح ہے۔ انھوں نے برسوں اہل کمال کو سنا اور ان کی صحبت اٹھائی ہے۔ ان کا مضمون پانچ پشتوں کے بیان کرنے میں کیسا دلچسپ ہو گیا ہے کہ رسالہ کی اس سے زینت ہو گئی۔ اور خاندان میر انیس کا حال آئینہ ہو گیا۔ ‘
مضمون ’’میر ضاحک‘‘ کی ابتدا خیال نے ضاحک کے شجرہ کے بیان سے کی ہے اور اسی پانچویں پشت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ’’جادو‘‘ کے مکاتیب کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں کہ:
’گو ان خطوط میں جو مولانا کے نام اس خصوص میں تحریر ہوئے، انیس و خاندان انیس کی شاعری و زبان کے متعلق بہت کچھ روشنی ڈالی گئی ہے، مگر جب تک ذرا وضاحت کے ساتھ ان بزرگوں کے کلام و زبان اور خصوصاً ان کی مرثیہ گوئی کو بتایا اور سمجھایا نہ جائے، انیس کا سمجھنا آسان نہیں۔ ضاحک کے اس بیان میں اسی کی کوشش کی گئی ہے۔‘ (میر ضاحک، 5)
خیال لکھتے ہیں کہ میر ضاحک سے قبل اردو میں اس خاندان کے کسی بزرگوار کی مداحی و مرثیہ گوئی ثابت نہیں ہے اس لئے وہی اول مداح و مرثیہ گو قرار پانے کے مستحق ہیں۔ انھوں نے یہاں ضاحک کی مرثیہ گوئی پہ تبصرے نہیں کیے ہیں بلکہ ضاحک کی زندگی، ان کے خاندانی اور معاشرتی پس منظر کو موضوع بناتے ہوئے مجموعی شعری خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ برسبیل تذکرہ محمد حسین آزاد کے پیش کردہ سکندر و ضاحک کے دست و گریباں ہونے کے بیان کی گرفت بھی کی گئی ہے۔ ’’مغل اور اردو‘‘ میں یہ واقعہ زمانی اعتبار سے اس مضمون کی اشاعت کے بعد پیش کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں خیال کے الفاظ ہیں کہ:
’ہمارے یہاں کے لائق لوگوں میں محمد حسین آزاد کا درجہ بہت بلند ہے لیکن افسوس کہ ان مرحوم کا آب حیات بھی ہمارے مُردوں کو جِلا نہ سکا۔ اس مشہور تذکرہ آب حیات کی پہلی اشاعت میں تو اپنے ذوق سلیم کا یہ ثبوت انھوں نے دیا کہ میر ضاحک کے سے با کمال اور خاندان انیس کے ایک ایسے بزرگوار کو فراموش کر گئے۔ مگر جبکہ شکایات اور اعتراضات شروع ہوئے تو اس آب حیات کی طبع ثانی میں اس اہم فروگذاشت کی تلافی کرنے بیٹھے لیکن اس خصوص میں اب بھی جو کچھ ان کے زبان قلم سے نکلا وہ ان کی اور میر مرحوم ضاحک کی شان سے بہت بعید تھا۔‘ (11)
یہی نکتہ خیال نے ’’مغل اور اردو‘‘ میں بھی دہرایا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے نظریات پہ توجہ دینے کی بجائے مولوی آزاد پر ان کے تبصرے ہی موضوع سخن بننے لگے اور آزاد پہ انگشت نمائی ان کی جان کا وبال بن گئی۔ خیال نے اس مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ میر ضاحک کی جو تصویر آزاد نے پیش کی ہے وہ ضاحک جیسے باکمال و با وضع بزرگ کی نہیں بلکہ کسی مسخرے کی ہے۔
مضمون ’’فردوسی و انیس‘‘ میں انھوں نے فردوسی کے یہاں رستم و اشکبوس کی جنگ پہ گفتگو کرتے ہوئے اس کے منظر نامے کا میر انیس کے یہاں موجود رزم آرائیوں سے موازنہ کیا ہے اور یہ نکتہ واضح کرنا چاہا ہے کہ رزمیہ بیانات فردوسی کے بمقابلہ انیس کے یہاں میدان جنگ کے اصول سے زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں۔ فردوسی کے اشعار اور انیس کے بندوں سے مثالیں پیش کرتے ہوئے اس تصور کے تحت دلچسپ انداز میں دونوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں انیس کو فردوسی پہ فوقیت حاصل ہے۔
’میر انیس کی شاعری کا زمانہ نصیرالدین حیدر (بادشاہ) کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت شاہنامہ و حملۂ حیدری، یہ دو مثنویاں ہماری شمع محفل بنی ہوئی تھیں۔ انیس کی طبیعت پر بھی ان کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ فردوسی کو اولیت و افضلیت حاصل ہے، اس لئے اپنے مراثی میں رزم کے موقعوں پر وہ زیادہ تر شاہنامہ کا وہ جواب دیتے ہیں جو فارسی شعرا سے بھی نہ بن پڑا۔ مگر میر انیس اسے ظاہر نہیں کرتے۔ یعنی فردوسی کو ٹوک کر کہیں اپنا مدمقابل نہیں بتاتے بلکہ اسے اپنے چھوٹے بھائی اور شاگرد میر مونس کے لئے چھوڑ دیتے (ہیں)۔‘ (فردوسی و انیس، 29)
اس مضمون میں انھوں نے ’’داستان عجم‘‘(یا ’شاہنامہ‘) اور ’’مرثیہ اور مرزا دبیر مرحوم‘‘ والا انداز بیان اختیار کیا ہے جن کے اسلوب میں واقعاتی بہاؤ کی پیشکش کا ڈرامائی انداز موجود ہے۔
جنگ کا قصد ظاہر ہوا۔ اور کمان ہاتھ میں آ کر مستعدی بتا گئی۔ (ذرا، ماہِ نو سے کمان کی تشبیہ کو بھی دیکھنا)۔ اس کے بعد ہی ؎تاکا خطا کو، تیرِ نگہ سے صواب لے۔ یعنی، ابھی سے نشانہ تاک لیا گیا۔ وہ کہتا ہے۔ کہ ؎
نہادہ بر او چار پرِّ عقاب۔
تیر کی تصویر سہی، مگر نہادہ کا لفظ معمولی ہے، شاعرانہ نہیں۔ یہاں اس کے مقابلہ میں کہا گیا کہ
ترکش بھی اژدہا سا دہن کھولنے لگا
نکلا عقابِ تیر تو پر تولنے لگا
ترکش بھی خالی نہ گیا اور اس کے ذکر کی بھی بڑی ضرورت تھی۔ فردوسی اسے فراموش کر گیا، اور پھر دوسرے مصرعہ میں وہی عقاب تیر ہے اور وہی اس کے پر۔ مگر کیونکر؟ اس عقاب کے پر تولنے نے مستعدی، پرواز کی کیسی تصویر کھینچ دی۔ کس درجہ شاعرانہ انداز ہیں۔ پھر مبالغہ نہیں۔ تیر کے پر ہوا سے اڑیں گے، اور صورت کو پر تولنے سے تعبیر کر دیا۔ اس (فردوسی) کا بیان ہے کہ
بمالید چاچی کمان را بہ دست
عجیب! پہلے تیر نکلا (خدنگ بر آورد) اور پھر کمان، چرب کی گئی۔ غلط۔ فنِ جنگ سے واقف جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر پہلے کمان، خوب درست کر لی جائے گی پھر تیر نکلے گا۔ انیس نے اس فن (جنگ) کی بھی اسے تعلیم دے دی ہے۔ یاں دوش سے کمان کو اتارا جناب نے۔ کمان، قبضہ میں آ چکی۔ اور اسے دیکھ بھال لیا تب تیر نکلا۔‘ (34)
شاد کے نام لکھے خط میں خیال میر انیس کی عظمت و انفرادیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’حسین ابن علیؑ اصل اسی عشق کے متعلم اور بعد کو معلم ثابت ہوئے۔ ان کا معشوق بھی موسیؑ و عیسیؑ اور محمد رسول اللہؐ کا معشوق تھا، اور ان کے آگے ہمیشہ حاضر و ناظر رہا۔ اس خلوص کے وہ نتائج تھے جو کربلا کی جنگ میں ظاہر ہوئے، اور پھر واردات قلب اور جذبۂ صحیح، جو شاعری کی جان ہیں، کا انکشاف و اظہار ہونے لگا۔ کسی ہیرو، محبوب اور ممدوح کے ذکر خیر میں سے اگر یہ واردات و جذبات نکال دیے جائیں تو وہ نظم ہو یا نثر ہو، شاعری سے معری و اَن نیچرل (غیر فطری) ہو گی اور اس لئے مہمل سمجھی جائے گی۔ انیس نے اس نکتہ کو سمجھا اور اپنے ہیرو کے بیان و ذکر میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا اور اصل شاعری کے مفہوم و مطلب کو عیاں کر دیا۔ شاعری کی یہ وہ معراج ہے جو دنیا کی کسی اور نظم میں خاطر خواہ طور پر نظر نہیں آتی۔ اور اس لئے، انیس کا مقابلہ کسی شاعر سے درست نہیں۔ اور یہی وہ شاعری ہے جسے جناب نے مقدس (یعنی اصلی و فطری) شاعری کا صحیح لقب دیا ہے۔‘ (ارشاد 1981، 189)
اسی سلسلے کا ایک مضمون بعنوان ’’میر حسن‘‘ ’اولڈ بوائے ‘ میں 1928ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ اس میں انھوں نے ہندوستان کی تہذیبی آمیزشوں کو بہت ہی دلچسپ اور با وقار انداز میں پیش کیا ہے اور ان حالات کی نشاندہی کی ہے جن کے سبب میر حسن ’’سحر البیان‘‘ جیسی تخلیق پیش کر سکے۔ مضمون سے قبل ادارتی نوٹ میں یہ ذکر موجود ہے کہ
’ہمارے ادیب الملک (خیال) نے اس خاندان کے اول مرثیہ گو میر ضاحک کی زبان و شاعری پر خاص نظر کی، ان کی تعلیم و تربیت کو بتایا، اور پھر میر صاحب کی مرثیہ گوئی پر بے مثل تبصرہ کر کے دکھایا ہے کی اس خانسان میں اردو کا ذوق ابتدا سے رہا، اور شاعری کا مذاق صحیح اس خانوادہ کا آئین سمجھا گیا۔ نیز یہ کہ یہی اثرات و اسباب تھے جنھوں نے آخر کار اس ملک و قوم میں انیس کا سا شخص پیدا کر دیا۔‘ (خیال، میر حسن 1928، 4)
اس مضمون میں خیال نے جس لب و لہجے کا استعمال کیا ہے وہ بعد ازاں مضمون ’’ہماری شاعری‘‘ میں بھی نظر آتا ہے۔
’ہندوستان پر مسلمانوں کے تسلط کے بعد ہی یہ ملک پھر اپنا قدیم رنگ اختیار کرنے لگا۔ ہندوؤں کے زمانۂ عروج میں علوم و فنون نے جو ترقی کی وہ ظاہر ہے لیکن اس عہد میں مذہب کو بھی جو رونق ہوئی اس کی نظیر دنیا بمشکل پیش کر سکتی ہے۔۔ سلطنت کے زوال اور اس قدیم مذہبی قوم (ہنود) کے انحطاط پر، جیسا کہ قاعدہ ہے، اصلی مذہب کا ولولہ و غلغلہ بھی یہاں کمزور ہونے لگا تا آنکہ مسلمانوں نے اس ملک کو اپنا گھر بنایا اور آخر یہاں کے قدیم مذہب سے اپنے جدید مذہب کی آواز ملانا شروع کر دی۔ علما و مشائخین کا زبردست گروہ اسی وقت قائم ہوا، اور غوریوں، خلجیوں کے وقت تک علوم ظاہری کے ساتھ علوم باطنی کی تخم ریزی بھی ہونے لگی۔‘ (میر حسن، 6)
خیال کی دلچسپی کے ایک پہلو کا تعلق مزار انیس سے بھی ہے۔ رسالہ ’ادب‘، لکھنؤ کے مدیر کے نام لکھے جون 1930ء کے خط میں انھوں نے دس بارہ سال قبل اپنے لکھنؤ کے سفر اور مزار انیس کی زیارت کا ذکر کیا ہے اور اس کی ناگفتہ بہ حالت پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعمیر نوکے لئے پہل کرنے کا واقعہ بھی لکھا ہے۔
’مزار انیس کی زیارت فرض تھی۔ وہ ادا ہوئی۔ افسردہ گیا تھا، مردہ واپس آیا! وہ جگہ جہاں ایک معلم اخلاق اور رازدار فطرت دنیا کا بہترین شاعر سو رہا ہے، ایسی نظر آئی جس سے بد تر صورت خواب میں بھی دکھائی نہیں دے سکتی! کانپ اٹھا۔ اتفاقاً اس کا ذکر نواب مرتضیٰ حسین خان صاحب سے آیا۔ وہ خود متاثر تھے۔ آخر انھوں نے اس زیارت گاہ کے از سرنو درست کرانے کا ارادہ کیا۔ ایک نقشہ تجویز ہوا، اور موصوف نے اپنی محنت و صرف سے ایک پلین بنوایا۔ معلوم ہوا کہ مزار کی تیاری میں بہت زیادہ صرفہ نہیں۔ لیکن چونکہ اس کام کو شخصی نہیں بلکہ ملکی و قومی اہمیت دینی تھی اس لئے کسی ایک صاحب سے مدد لینا درست نہ تھا۔ اس وجہ سے اس کے متعلق متعدد حضرات سے ذکر کیا گیا۔ مگر چونکہ ہماری قوم عرصہ سے دور از کار باتوں میں مبتلا رہ کر صحیح و درست کاموں کے سمجھنے کا مادہ کھو چکی ہے، اس وجہ سے اس آرزو کے مطابق ہماری آواز پر بہت کم لبیک سنائی دی! اور آخر وہ نقشہ نواب صاحب موصوف کے پاس تحفۃ العجائب بنا ہوا ان کی الماری میں بند کا بند رہ گیا!‘ (کلام انیس و مزار انیس، 59-60)
یہ تمام حوالے اس کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نصیر حسین خیال تحقیق و تفتیش میں بھی خاطر خواہ دلچسپیاں رکھتے تھے۔ کلام شاد ہو یا مراثیِ انیس اور مرثیہ گویوں کا تذکرہ، خیال کے وقت تک ان سے متعلق جو کچھ منظر عام پر آ چکا تھا، وہ ان سے مطمئن بھی نہیں تھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...