اکبر حمیدی(اسلام آباد)
مَیں کب سے خاور کو جانتا ہوں مجھے پتہ نہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے گلاب کا پھول پہلی مرتبہ کب دیکھا تھا؟ اگر آپ بتا دیں تو میں بھی بتا دوں گا کہ خاور اعجاز کو مَیں کس روز سے یا کب سے جانتا ہوں۔مجھے تو اتنا یاد ہے کہ میری کسی کتاب کی تقریب میں اس نے میرے لیے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی ویسی ہی خوبصورت نظم جیسا خوبصورت وہ خودہے۔تب مجھے محسوس ہوا وہ میرا کچھ لگتا ہے۔تب میں نے اسے پہلی مرتبہ غور سے دیکھا اور اس کی مسکراتی ہوئی آنکھوں میں دوستی کی روشنی مجھے اپنے اندر کہیں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ شاید یہ آج سے کوئی بیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ہاں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس کا میرا تعلق براہِ راست ہوا کسی اور دوست کے وسیلے سے نہیں۔ پھر کبھی کبھی ہم ایک دوسرے سے ٹیلیفون پر لمبی لمبی باتیں کرنے لگے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے محسوس ہوا کہ خاور اعجاز میرا بہت قریبی اور قابلِ اعتماد دوست ہے حالانکہ وہ میرے ادبی نظریات اور اعتقادی اختلافات کو بھی جانتا ہے ،حالانکہ اس دوران اس نے داڑھی بھی بڑھا لی ہے جو مجھے اس کے چہرے پر سجتی ہوئی نظر آتی ہے۔پھر بھی میں اسے اتنا جان گیا ہوں کہ وہ میری سب آوارہ خرامیوں کے باوجود میرا قابلِ اعتماد دوست ہے۔میں سمجھتا ہوں قابلِ اعتماد ہونا اس کی اخلاقیات کا حصہ ہے۔معقولیت اس کے مزاج میں داخل ہے۔مجھے نہیں معلوم وہ معروف معنوں میں کوئی نیک آدمی ہے یا نہیں اور نہ مجھے اس کی کبھی خواہش ہوئی ہے کہ خاور اعجاز یا میرا کوئی دوست نیک آدمی ہو ،میرے لیے بس اس کا شریف آدمی ہونا بہت کافی ہے سو خاور اعجاز شریف آدمی ہے۔ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
مگر خاور اعجاز ایسا آدمی ہے جس کو انسان ہونا ہی نہیں ایک اچھا انسان ہونا بھی میسر ہے اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست کہ اس میں عنایتِ الہٰی کا دخل زیادہ ہے۔ سو میں خاور اعجاز کے بارے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی شاندار تعلیمات کا پیروکار ہے اس لیے اچھا انسان ہے۔بحیثیت دوست وہ کیسا ہے؟ قابلِ اعتماد، رازدار، لحاظ دار ، گفتگو اور برتاووں کی سمجھ رکھنے والا ، دوستوں کے کام آنے والا ، عمر اور منصب کا لحاظ رکھنے والا ، اپنے آپے میں رہنے والا ، دوستوں کو غور سے سننے والا اور ان کی خامیوں کو برداشت کرنے والا ، دوستیاں نبھانے والا ، صبر و سکون سے رہنے والا ، اپنی اور دوسروں کی شخصیت کا خیال رکھنے والا ، متحمل مزاج مگر گرم جوش، فعال مگر دھیما ، بہت متوجہ مگر سنبھلا ہوا ۔ بخیثیت مجموعی اس میں دوست بننے کی سب صلاحیتیں موجود ہیں۔میں نے اچھا انسان ہونے کو اچھا دوست بننے کے لائق قرار دیا تھا،ذاتی طور پر میرے دو معیار اور بھی ہیں کہ اچھا شاعر ہو ، اچھا ادیب ہو یا اچھی گفتگو کرنے کی سمجھ رکھتا ہو۔خاور اعجاز میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں۔
اس کی دوستی اگرچہ پکی ہے مگر شاید ابھی مجلسی ہے اور مجلسوں میں تو آدمی سوٹ اور ٹائی کے ساتھ آتا ہے اور بڑے رکھ رکھاؤ بگھارتا ہے،سو ہم دونوں ابھی تک ایک دوسرے سے بڑے رکھ رکھاؤ، بڑی محبت بلکہ شفقت سے پیش آ رہے ہیں۔وہ بھی محتاط ہے میں بھی محتاط۔وہ بھی مجھے جی جناب کہنے پر تُلا ہوا ہے میں بھی اسے پیار پوچہ دینے والا۔وہ میری طرف متوجہ میں اس کی طرف ہمہ تن گوش۔وہ میری طرف خوش اخلاق میں اس کی طرف۔لیکن میں یہ جان گیا ہوں کہ یہ سب باتیں اس کی عادتیں ہیں اور ابھی میں اس کی عادتوں کے خول توڑ کر اس کے اندر داخل نہیں ہو سکا،یہ میری کوتاہی ہے حالانکہ ان معاملات میں مَیں بہت جلد باز ہوں، یقین نہ آئے تو منشا یاد سے پوچھ لیں پھر بھی اعتبار نہ آئے تو آغا جی سے معلوم کر لیں۔اصل میں خاور اعجاز عادتوں کا اتنا سفید پوش ہے کہ میں ابھی تک اسے اپنے گندے مندے ہاتھ نہیں لگا سکا۔اب آپ نے یاد دلایا تو یاد آیا کہ مجھے اس پر کیچڑ بھرا پانی نہ سہی تھوڑا سا پانی پھینک کر تو دیکھنا چاہیے کہ وہ آگے سے کیا کرتا ہے لیکن میرا اندازہ ہے وہ اپنی عادت کے مطابق اپنی گول گول آنکھیں پوری کی پوری کھول کر مجھے دیکھے گا اور زیادہ سے زیادہ یہ کہے گا’’حمیدی صاحب یہ کیا۔۔ اب میں دفتر کیسے جاؤں گا‘‘ مَیں نے ابھی تک اسے غصے میں نہیں دیکھا۔مجھے لگتا ہے کسی نے شاید ہی دیکھا ہو۔جس نے مرحوم ڈاکٹر بشیر سیفی سے دوستی پوری کی پوری نبھا دی ہو وہ بھلا غصے میں کب آیا ہو گا۔مجھے ایسا لگتا ہے اس کا حلقہ احباب توکس قدر وسیع ہے مگر وہ جو دوستی کا رشتہ ہوتا ہے وہ کہیں کہیں ہے اور میرا خیال ہے ایسا اس نے دانستہ کر رکھا ہے ورنہ جو شخص پیارے بشیر سیفی سے دوستی نبھا سکتا ہے اس میں نبھانے کی قوت کم کیسے ہو سکتی ہے۔یہ صلاحیت بلکہ یہ کارنامہ ہم دونوں نے کر رکھا ہے۔ڈاکٹر بشیر سیفی شوگر کوٹڈ دوائیوں کے برعکس تھا۔ اس کے اوپر کڑواہٹ تھی اور نیچے مٹھاس ہی مٹھاس۔بس اوپر کی کڑواہٹ کو جو کوئی برداشت کر لیتا وہ اس بحر شیریں تک پہنچ سکتا تھا جو دوسرے کو اپنے آپ میں جذب کر لینے کی مقناطیسی قوت رکھتا تھا۔یہ کام خاور اعجاز نے اور میں نے دونوں نے کر لیا تھا۔مجھ سے زیادہ خاور اعجاز نے جس سے ظاہر ہوتا ہے خاور اعجاز میں تلخیاں برداشت کرنے کی قوت عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہے یا پھر اس میں زندگی کی شیرینیوں تک پہنچنے کی حوصلہ مندی زیادہ ہے۔
اب تک اس کی جو عادتیں میں نے دیکھی ہیں وہ ہیں محتاط ، حوصلہ مند ، سکیمیں بنانے والا ، متواضع ،گفتگو میں احتیاط کے باوجود اختلاف کرنے والا مگر اس پر اَڑ جانے والا نہیں،دوستوں کے حلقے کو وسیع رکھے والا، نظریات کو سر نہ چڑھانے والا بلکہ انسان کو سر آنکھوں پر بٹھانے والا ۔میں اپنا اور اس کا موازنہ کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ میری اس کی عادتیں تقریباً نہیں ملتیں مگر پھر بھی اس نے مجھ پر محبت اور دوستی کی کمند ڈال رکھی ہے جس میں بخوشی گرفتار ہوں۔اصل میں اسے دوست بنانے کی عادت ہے اور میں تو ایسے لوگوں کو ڈھونڈتا ہوں جو مجھے کمند ڈال کر پکڑ لیں اور اپنا گرفتار کر لیں،سو خاور اعجاز نے مجھے کمند پھینک کر گرفتار کر رکھا ہے۔پتہ نہیں سوچ کر یا بِلا سوچے، اگر سوچتا تو مجھ ایسے پر کمند کیوں ڈالتا ۔خاور اعجاز ! کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم نے کمند کس پر ڈال رکھی ہے ؟؟ شاید نہیں ۔۔مگر شاید ہاں ! ! ہاں اس لیے کہ وہ آنکھیں بند کر کے کوئی کام نہیں کرتا۔ یقیناً یہ کمند بھی اس نے آنکھیں کھول کر ڈال رکھی ہے اور اس سے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ایک خوبصورت، دوستوں کو اورخصوصاً مجھ ایسے کو برداشت کر لینے والے، ذہین شاعر اور قابلِ اعتماد ہاتھوں نے مجھ پر کمند ڈالی ہے۔ میں اس کمند کو اپنا زیور سمجھتا ہوں اور وجہِ عزت۔
کسی نے کہا تھا کہ جب کوئی چیز آنکھوں سے ذرا دور ہوتی ہے تو اس کی کشش کا اصل اندازہ ہوتا ہے۔گذشتہ تین برس سے وہ دفتری تبادلے میں بڑا بینک افسر بن کر پنڈی سے ملتان چلا گیا ہے۔تب سے مجھے کہیں اندر سے کسی خلا کا احساس ہونے لگا ہے۔کسی کمی کا احساس جیسے میری کوئی قیمتی چیز مجھ سے دور ہو گئی ہے جو میری رسائی میں تو ہے مگر ذرا مشکل رسائی میں۔وہ پنڈی میں تھا تو دل کو ڈھارس سی رہتی تھی۔اب جیسے پنڈی شہر میں بہت بڑا گھاؤ پڑ گیا ہے۔یوں توپنڈی میں اور دوست بھی ہیں لیکن خاور اعجاز نہیں ہے جس سے میں دو دو گھنٹے ٹیلیفون پر گپ کر سکوں اور پھر بھی جی سیر نہ ہو۔گو اب بھی ہمارا ٹیلیفون پر یا ڈاک سے رابطہ بحال ہے مگر پھر بھی جیسے یہ رابطہ،رابطہ سا ہے۔ رابطہ نہیں ہے! خاور اعجاز کیا تم جلد واپس نہیں آ سکتے؟تمہارے بغیر میں اداس ہو گیا ہوں !!
خاور کی غزل بہتر سے بہتر یعنی خوب سے خوب تر کے مراحل سے گزر رہی ہے،اس کی غزل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اشعار میں اس کی ذہانت بار بار متوجہ کرتی ہے۔وہ دل سے زیادہ دماغ سے شعر کہتا ہے مگر تھوڑی سی آنچ دل کی بھی دیتا ہے۔اس کی غزل پر لطف ہے ایک ذہین شاعر کی تخلیق۔مجھے معلوم ہے وہ کوفہ و بصرہ یا قرطبہ کا باسی نہیں پاکستان کا شہری ہے اور باشعور شہری ہے اور اس کا اظہار اس کی غزل سے ہوتا ہے۔وہ اکیسویں صدی کا کمپیوٹر چلانے والا ’’آج‘‘ کا آدمی ہے اور اس کا اظہار بھی اس کی غزل میں ہوتا ہے جو لطف دیتا ہے اور اس کی ذہانت کا غماز ہے اور یہ باتیں کچھ کم نہیں ہیں۔وہ گھر کے صحن میں بیٹھ کر ہی نہیں گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر بھی غزل کہتا ہے۔ اس میں صفِ اول کی غزل کہنے کی پوری صلاحیت ہے۔ آج لکھی جانے والی غزلوں کے ہجوم میں بھی اس کی غزل اپنی پہچان کروا رہی ہے۔اگر میں اس کی غزل کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہوں تو وہ لفظ ہو گا۔۔۔ذہانت۔اور میں سمجھتا ہوں یہی وہ قرینہ ہے جس سے بڑی غزل کا آبِ حیات ٹپکتا ہے۔اس کی شاعری اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو اوریجنل شاعروں میں ہوتی ہے ورنہ اکثر تو محض مضمون آفرینی سے ہی کام چلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مضمون پیدا کرنا ہی بڑا کام ہے خواہ وہ مضمون ان کی شخصیت، ان کے مزاج، ان کے نظریات سے لگا کھاتا ہو یا نہ کھاتا ہو۔خاور اعجاز کی شاعری اس کی شخصیت کی تصویریں پیش کرتی ہے اور ہم اس کی شاعری کے آئینے میں خود اسے جلوہ گر دیکھ سکتے ہیں، اس کے خد و خال سمیت۔میں سمجھتا ہوں یہ معمولی بات نہیں ہے،یہ خوبی بھی فی زمانہ بہت کم ہے جو خاور کی غزل میں موجود ہے۔شاعری میں غزل ، نظم ، ہائیکو پر خصوصاً اسے پوری طرح دسترس حاصل ہے۔ابھی ابھی اس کی غزل کا نیا مجموعہ آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے کائنات کی گھمبیر اسراریت میں ایک بڑی جست لگائی ہے اور اس بے کنار جہانِ اسرار کے نئے در وازے کھول دیے ہیں۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پر اسرار دنیا کی سیاحت کرتے ہوئے بھی اس کی شخصیت اپنے پورے وجود کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔اس نے اپنے آپ کو کائنات کی طلسمی اسراریت میں گم نہیں ہونے دیا بلکہ وہ اپنی روشن، چمکدار آنکھوں اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھے صاف دکھائی دے رہا ہے۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس کی شخصیت اس طلسماتی پر اسرا کائنات میں گم ہونے والی نہیں ہے ! بڑی چیزیں چھوٹی چیزوں میں مدغم کیسے ہو سکتی ہیں !! میں بھی یہی چاہتا ہوں وہ جہاں بھی ہو مجھے نظر آتا رہے تا کہ میں اسے دیکھ دیکھ کر اپنے دل و دماغ کو روشن رکھ سکوں ! ! !