اردو ماہیے کے مباحث میں اس کے اوزان سے لے کر اس کے مزاج تک کئی امور زیرِبحث آئے۔ان مباحث کا سیلابی دور گزر چکا ہے۔مجموعی طور پر تین سو سے زیادہ شعراءنے اپنی تخلیقی حیثیت کو اس صنف میں آزمایا۔ان میں کئی بھرتی کے لکھنے والے تھے تو کئی تخلیقی لحاظ سے زرخیز ذہن بھی شامل تھے۔ایک وقت تک تو تعداد میں اضافہ کا مزہ آتا رہا لیکن ساتھ ہی ماہیے کے معیار کی فکر بھی دامنگیر رہی۔معیار کے مسئلہ پر مخالفین تو محض اعتراض کی خاطر طنز کرتے رہے لیکن ماہیے کے بہی خواہوں کی ایک بڑی تعداد خود بھی ماہیے کے مستقبل کے حوالے سے اس کے معیار کے سلسلہ میں فکر مند رہی۔پھر ایک مرحلہ آیا جب لگا کہ ماہیے کو ہمارے مخالفین نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہمارے اپنے”نادان دوستوں“نے نقصان پہنچادیا ہے۔اس نقصان میں بیزار کر دینے کی حد تک تکرار جیسے انداز کے مضامین ،بے وزن ماہیوں کے مجموعوں کی اشاعت سے لے کر ایسے مجموعوں پر داد و تحسین کی کتابوں کی اشاعت تک کے المیے شامل ہیں۔تاہم مجھے اتنا اطمینان رہا کہ علمی لحاظ سے ماہیے پر جتنا کام کردیا گیا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ جب بھی آگے چل کر ماہیے میں دلچسپی کی کوئی نئی لہر آئی تو نئے تخلیق کاروں کو اس کے جملہ مباحث کے سلسلہ میں کوئی ابہام محسوس نہیں ہوگااور وہ اپنے تخلیقی کھلے پن کے ساتھ اپنا اظہار کر پائیں گے۔
خاور اعجاز ماہیے کے ہمارے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں۔براہِ راست کسی رابطہ کے بغیر ہم ماہیے کی تفہیم اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے رہے اور ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتے رہے۔خاور اعجاز غالباً پہلے ادیب تھے جنہوں نے ماہیے کے وزن کی بحث کی گرما گرمی میں وزن سے ہٹ کر اس کے مزاج کا سوال اُٹھایا تھا۔اب ایسے لمحے میں جب میں سچ مچ بھرتی کے ماہیا نگاروں کی ماہیا نگاری سے تشویش میں مبتلا ہونے لگا تھا،گنتی کے چند اچھے ماہیانگاروں کے نئے آنے والے مجموعوں کی خبر سننے میں آئی تو مجھے کچھ اطمینان سا ہوا۔اطمینان کی اسی لہر میں مجھے خاور اعجاز کی طرف سے ان کے ماہیوں کے مجموعہ کی متوقع اشاعت کی خوشکن خبر ملی ہے تو میرے اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔خاور اعجاز کے ماہیے ایسے ہیں کہ انہیں ماہیا کے معیار کے حوالے سے بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔سو اس لحاظ سے ان کے ماہیوں کے مجموعے کی اشاعت کی خبر اردو ماہیا کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔
خاور اعجاز نے ابتدا میں اس انداز کے ماہیے کہہ کر ماہیے کے مزاج کے حوالے سے اپنے موقف کو عملی طور پر ظاہر کیا تھا۔
موسم کی سحر خیزی ہر بات بنا لے گا
کب میرا رہتا اس کا زمانہ ہے
اس کو تھی بہت تیزی جو رنگ جما لے گا
برفی میں پستہ ہے شہروں کی کہانی ہے
بخش خطا میری لڑکا پنڈی کا
جو نادانستہ ہے لڑکی ملتانی ہے
یہ آخری ماہیا درج کرتے ہوئے میں خاور اعجاز کے وجدان پر مسکرا رہا ہوں،جب یہ ماہیا کہا گیا تھا تب وہ راولپنڈی میں پوری طرح سیٹ تھے۔اور کئی برس کے بعد اب یہ ماہیا تب سامنے آیا ہے جب خاور اعجاز راولپنڈی سے ملتان جا چکے ہیں۔شہروں کی کہانی واقعی دلچسپ ہے۔اس کہانی کے ذکر سے قطع نظرخاور اعجاز کے شعری لب و لہجہ میں جو دھیما پن اور توازن ہے وہ ان کے ماہیوں میں بھی صاف جھلکتا ہے۔
اک حد پر رہنا ہے چائے ہے پیالی میں
لیکن دریا میں ہو گئے قیدی ہم
مِل کر ہی بہنا ہے آزاد خیالی میں
تصویر تپائی پر پھر چاہے مَر جائیں
کچھ پڑھ کر پھونکو ہم سچ کہنے کا
گھر کی تنہائی پر آغاز تو کر جائیں
کچھ دُور ہی چلنا تھا اندر ہی سسکنا ہے
اُس بے مہر نے پھر لیکن کاغذ پر
رستہ تو بدلنا تھا کچھ بھی نہیں لکھنا ہے
ان ماہیوں میں پنجابی ماہیے والا مزاج بھی ہے اور اس سے آگے کی طرف پیشقدمی کا بھی احساس ہوتا ہے۔چونکہ خاور اعجاز ہائیکو بھی کہتے رہے ہیں اس لیے ان کے ایک دو ماہیوں کے مصرعوں کی ترتیب میں مجھے ایسا لگا کہ یہاں ہائیکو نگار اپنا کام کر گیا ہے۔
کٹیا میں فقیروں کی
آ گئی شہزادی
ہے بات لکیروں کی
مضمون کو بیان کرنے کا یہ انداز ہائیکو کا ہے۔اگر اس ترتیب کی بجائے تیسرا مصرعہ پہلے اور پہلا مصرعہ تیسرے نمبر پر لے آئیں تو ماہیا ،ہائیکو کے اثر سے بالکل الگ ہوجاتا ہے بلکہ اس ماہیے کی شان ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔پہلی ترتیب میں بات تھوڑے توقف کے بعد دل تک پہنچتی ہے جبکہ اس ترتیب سے جیسے ماہیا سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔
ہے بات لکیروں کی
آگئی شہزادی
کٹیا میں فقیروں کی
اس قسم کی اکا دکا مثالوں سے قطع نظر اور ایسے ماہیوں کی ترتیب میں ہلکی سی کمی کے باوجود یقینی طور پر یہ عمدہ ماہیے ہیں۔
خاور اعجاز کے ماہیوں میں ایسے ماہیے بھی ملتے ہیں جن کے تینوں مصرعے ایک مفہوم میں پروئے ہوئے ہیں،ایسے ماہیے بھی ملتے ہیں جن میں پنجابی ماہیے کی عام روایت کے مطابق پہلا مصرعہ برائے بیت ہوتا ہے۔تاہم برائے بیت والے ماہیوں میں ان کا ماہیا پنجابی ماہیے کے مزاج کو پوری طرح اجاگر کرتا ہے۔
پیڑا ہے آٹے کا
ظالم سے یاری
سودا ہے گھاٹے کا
اس ماہیے میں بھی پنجابی زبان کا تڑکا لگا ہوا ہے،لیکن جہاں انہوں نے تینوں مصرعوں کو با معنی کر کے ان میں کہیں کہیں پنجابی کا تڑکا لگایا ہے وہاں ان کے ماہیوں میں انوکھی چمک پیدا ہو گئی ہے۔
وعدے نہ دلاسے پر شِیرا ہے جلیبی کا
ہم مَر مِٹتے ہیں کوئی بھروسہ نہیں
سجنی ترے ہاسے پر اس جیسے فریبی کا
گاﺅں میں اٹکے ہیں ہر سمت دھماکے ہیں
لیکن کچھ شہری کچھ دنیا اتھری
ہم سے بھی جٹکے ہیں کچھ لوگ لڑاکے ہیں
دل ڈوبا جاتا ہے ترے گال پہ تل ماہیا
ڈھولا تیرے بِن رکھے پھرتے ہیں
پہلا جگراتا ہے ہم ہاتھ پہ دل ماہیا
خاور اعجاز کے ماہیوں میں جابجا خوابوں کا ذکر ملتا ہے۔ یوں تو شاعری کا ایک بڑا حصہ خواب گری اور خواب شکنی پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ پھر پنجابی میں” خوابے وچ آیا کرو “ اور ”خوابے وچ آندے او“ جیسے مصرعوں سے آرزوؤںکے کتنے ہی خواب بسے ہوئے ہیں۔ خاور اعجاز نے اس روایت کو اپنے ذاتی اور شعری تجربوں سے آگے بڑھایا ہے۔ ان کے ہاں خواب کی لفظی صورت سے ان کے خوابوں کی نوعیت کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
آنکھیں سرہانے پر ہم خواب اگر ہوتے
کھولیں گے اِن کو تیری پلکوں کے
لیکن ترے آنے پر سائے میں پڑے ہوتے
مہتاب نکل آیا تعبیر کے رستے پر
رات کے ملبے سے پتھر آن گرا
مِرا خواب نکل آیا خوابوں کے بستے پر
پھر چاہے سو جائیں بے تاب نہیں ہوتے
تیری آنکھوں میں بچپن سے آگے
کچھ خواب پرو جائیں پھر خواب نہیں ہوتے
چلنے میں گھاٹا ہے
خوابوں سے آگے
بالکل سنّاٹا ہے
یہاں خواب اور نیند کے تعلق سے سکون بخش امید اور آس بھی ملتی ہے،جو زندہ رہنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔پھر خوابوں اور تعبیروں کی کشمکش ،حقائق کی سنگ زنی کو آشکار کرتی ہے۔لیکن حقائق کی سختی سے قطع نظر جب خوابوں کی ایک حد سے آگے بالکل سناٹے کا ادراک ہوتا ہے تب ہی جیسے سارے خواب بچپن کے خواب معلوم ہونے لگتے ہیں۔اس کے باوجود خوابوں کی دنیا میں جتنا عرصہ بھی رہا جائے کچھ نہ کچھ سکون نصیب ہوتا رہتا ہے اور کون جانے کب کسی اچھے خواب کی تعبیر آہی جائے ۔
مرد ،عورت کے تعلق کے حوالے سے پنجابی ماہیے میں رمزیہ انداز سے بھی بہت کچھ کہا گیا ہے اور کھل کر بھی کئی ماہیے کہے گئے ہیں۔اردو ماہیے میں کئی ماہیا نگاروں نے اس روایت کو اپنے اپنے ڈھب سے آگے بڑھایا ہے۔خاور اعجاز کے ہاں پوری احتیاط کے ساتھ اس بے احتیاطی کا ذکر اور اس کی لذت کا احساس ملتا ہے۔ پہلے انہیں اس لغزش کا امکان بے حد روشن دکھائی دینے لگتا ہے۔
وہ حد بھی آنی ہے
جس پر اک لغزش
بے حد امکانی ہے
اور پھرکشتی کے روشن استعارے کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے جنسی تجربے کو جیسے اس کے پورے بہاؤمیں بیان کر دیتے ہیں۔
کشتی کے چاﺅ میں
بہہ نکلے ہم بھی
دریا کے بہاﺅ میں
اور اس کے بعد شاعر کی وہی معمول کی زندگی ہے اور وہی دکھ اور سکھ ہیں۔
غم کا انبار لگا شاہوں نہ غریبوں سے سونا چاندی گھر میں
خُوشیوں کا میلہ سکھ والا لمحہ جذبے رکھے ہیں
بس دن دو چار لگا ملتا ہے نصیبوں سے سجنی نے لا کر میں
ابھی تک میں نے خاور اعجاز کے جتنے ماہیے جن حوالوں سے بھی پیش کیے ہیں،وہ سب کے سب کسی نہ کسی رنگ میں ماہیے کی پنجابی روایت سے منسلک اور اسی روایت میں مزید آگے کی طرف جانے کا منظر دکھاتے ہیں۔تاہم ان کے ہاں شعوری اور لاشعوری طور پر پنجابی روایت سے منسلک رہنے کے باوجود ماہیے کا ایسا انداز تدریجاً نمایاں ہو رہا ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ماہیے کے مستقبل کے امکانات لیے ہوئے ہے۔ان ماہیوں کے بارے میں کسی نوعیت کا وضاحتی یا تشریحی نوٹ دینا مناسب نہیں لیکن مجھے لگتا ہے اردو ماہیا کا یہ انداز اپنے بہت سارے ممکنات اپنے ساتھ لارہا ہے۔
دل کے دروازے سے وعدے پیمانوں کی بجھ جائے گی پیاس آؤ
اُس نے جھانکا ہے کھل گئی رستے میں صحرا کہتا ہے
کتنے اندازے سے گٹھڑی امکانوں کی اک دن مِرے پاس آؤ
منظر ڈھہہ جاتا ہے رستے ہیں خلاؤں میں
لیکن ایک دیا مٹی ہے سر
جلتا رہ جاتا ہے اور پاؤں خلاؤں میں
دریا کے نیچے سے اک شکل دکھاتا ہے
صحرا نکلا ہے پھر آئینے میں
پانی کے دریچے سے بس دُکھ رہ جاتا ہے
خاور اعجاز کے ماہیوں کا مجموعہ چھپنے کی خبر میرے لیے ایک اہم ادبی خبر ہے۔ ماہیے کے معیار کے سلسلے میں جو تشویش مجھے دل ہی دل میں لاحق تھی وہ نہ صرف کم ہونے لگی ہے بلکہ امید ہے کہ ان جیسے دوسرے اچھے ماہیا نگاروں کے ماہیوں کے مجموعے بھی جلد شائع ہو کر اردو ماہیے کی عزت میں مزید اضافہ اور وقار کا موجب بنیں گے اور ماہیے کے ”نادان دوستوں“کی نادانیوں کی تلافی کر سکیں گے۔اسی احساس میں گھرا ہوا،میں خاور اعجاز کے ماہیوں کے مجموعہ کا ذہنی سکون اور دلی مسرت کے ساتھ استقبال کرتا ہوں!
(خاور اعجاز کے ماہیوںکے مجموعہ” ساجن ”کا پیش لفظ)