حرام مشروب گلاس میں منتقل کرتے ہوئے ہمدانی کی زیرک نگاہیں اس ہی کے چہرے پر تھیں جو اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا تھا کہ اس کے انداز میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہونے پائے ۔۔۔
لاپروہ سے انداز میں ایک پیر زمین پر رکھے جبکہ دوسری ٹانگ صوفے کے ہتھے پر ٹکائے آڑھا ترچھا سا صوفے پر گرا وہ اپنے گلاس سے گھونٹ گھونٹ حلق میں اتار رہا تھا ۔۔۔۔۔
“پارس ۔۔۔۔”
“جی ۔۔۔؟؟؟”
بھاری پکار پر اس کا دل ایک پل کو رکا تو تھا ۔۔۔ مگر تاثرات پر کنٹرول رکھنے میں اسے کمال حاصل تھا ۔۔!
“تم جانتے ہو ۔۔۔۔۔؟؟
یاد ہے تمہیں ۔۔؟ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
چلو میں یاد کرا دیتا ہوں ۔۔۔۔ چار ماہ کے تھے تم جب مجھے کچرے کے ڈھیر پر پڑے ملے تھے ۔۔۔۔”
ہمدانی آج پھر اسے اس کی اوقات ہاد دلا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
شہد آگیس لہجے میں ہمدانی وہ زہریلا موضوع چھیڑ چکا تھا جس سے پارس کو بےانتہا نفرت تھی ۔۔
اس کی گرفت گلاس پر مضبوط ہوگئی تھی ۔۔۔ جبڑے کسے اس نے اپنی سرخ ہوجانے والی آنکھیں ہمدانی کے چہرے پر ٹکا دی تھیں ۔۔
“لوگ جانتے ہو کیا کہہ رہے تھے ۔۔۔؟؟؟ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کا ناجائز خون ہے ۔۔۔۔ گند کہہ رہے تھے ۔۔ تھوک رہے تھے لوگ تم پر ۔۔۔۔۔!! اس وقت میں نے ۔۔۔۔!
زبیر ہمدانی نے تمہیں اس کچرے سے اٹھایا تھا ۔۔ تمہیں پڑھا لکھا کر دنیا میں ایک عزت دار مقام دلوایا ہے میں نے تمہیں ۔۔۔۔۔ میں نے ۔۔!!!
مجھے تم پر بہت بھروسہ ہے میرے شیر ۔۔۔!
کبھی نہیں توڑنا میرا بھروسہ ۔۔
ورنہ مجھے اپنی اولاد جیسے پارٹنر کو تکلیف دیتے ہوئے بہت تکلیف ہوگی ۔۔۔۔!
سمجھے ۔۔۔؟؟؟ ہممم۔۔۔۔؟”
“جی ۔۔۔”
جبڑے کس کر پارس تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
“میں چلتا ہوں ۔۔۔”
گلاس ٹیبل پر پٹخنے سے اس نے خود کو بمشکل روکا تھا ۔۔۔
سیاہ شیشے کی میز پر نظر آتے ہمدانی کے مکروہ چہرے کے عکس پر ایک ناگوار نظر ڈال کر آہستگی سے گلاس رکھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہمدانی ولا سے نکلا تھا ۔۔۔۔
باہر منان جو گاڑی سے ٹیک لگائے اپنے موبائل پر مصروف اس ہی کا منتظر تھا ۔۔ اس کے تنے ہوئے نقوش دیکھ کر فوری طور پر کچھ کہہ نہیں سکا تھا ۔۔۔
ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر پارس نے ایک عدد زبردست گھوری سے اسے نوازا تھا جو وہ گڑبڑا کر گاڑی کے اندر آ بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔
منان کو اندازہ لگانے میں دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہمدانی نے کون سا موضوع چھیڑا ہوگا جو پارس کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا ۔۔۔۔
ایک ہی موضوع تو تھا جس سے وہ خار کھاتا تھا ۔۔۔
وہ کون تھا ۔۔؟
وہ کس لیئے دنیا میں آیا تھا ۔۔؟
اور سب سے ضروری ۔۔۔۔۔۔۔
وہ جائز تھا ۔۔؟
یہ بہت گہری چوٹ تھی جو ہمدانی اسے جامے سے نکلتا محسوس کر کے لگانا ضروری سمجھتا تھا ۔۔۔۔۔!!
منان کی بھی کچھ حد تک یہی کہانی تھی ۔۔۔
لیکن اسے اس بات سے خاص فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔! وہ جو تھا ۔۔ جیسے جی رہا تھا ۔۔ اس سے خوش اور مطمئین تھا ۔۔۔
کچھ وقت پہلے تک ۔۔!!!!
**********
“ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ۔۔۔!!!!”
بری طرح دھڑدھڑاتے دروازے کو پونچا لگاتی میشا سے زیادہ گھر کی طرف بڑھتے پارس نے ناگواری سے دیکھا تھا ۔۔۔۔
“کون ہے ۔۔؟”
دروازہ کھول کر میشا نے کھا جانے والے انداز میں پوچھا تھا لیکن سامنے کا منظر اسے چونکا گیا تھا ۔۔۔۔
پارس سینے پر بازو لپیٹے مالک مکان کے سولہ سالہ بیٹے سے محو کلام تھا ۔۔
ایک نظر میشا پر ڈال کر ہاتھ کے اشارے سے اسے واپس اندر جانے کو کہا تھا ۔۔ جواباً اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر میشا نے “نہیں جاتی ۔۔ کیا کر لو گے ۔۔؟” والی نظروں سے دیکھ کر پارس کو مسکرانے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔
ان کی اشارےبازیاں ملاحظہ کرتے لڑکے کا بازو پکڑ کر گھر سے زرا فاصلے پر لے جاتے ہوئے اس نے ایک بار پھر چڑاتی ہوئی نظر میشا پر ڈالی تھی ۔۔ اور میشا نے “در فٹے منہ” والے تاثرات کے ساتھ دروازہ زور سے بند کر لیا تھا ۔۔۔
“اس شخص کے ساتھ مسئلہ کیا ہے آخر ۔۔۔؟ ایک ہفتے میں ایک سو چکر تو لگائے ہی لگائے ہیں ۔۔۔۔”
“تو کیا ہو گیا ۔۔۔؟
چکر ہی لگائے ہیں نہ ۔۔ چکر چلانے کے لیئے چکر لگانا ضروری ہے ۔۔۔!”
آلو چھیلتے ہوئے علیشہ نے اپنے نادر خیالات انہیں سنانے ضروری سمجھے تھے ۔۔۔۔۔
کمر پر ہاتھ ٹکا کر میشا نے زبرست گھوری سے نوازا تھا اسے ۔۔
“تم کچھ زیادہ ہی مہربان نہیں ہو رہی ہو اس پر ۔۔۔؟”
“بھئی بات بڑی سیدھی ہے ۔۔۔۔
وہ ساری دنیا کے لیئے جیسے بھی صحیح ۔۔۔۔۔ ہم پر تو مہربان ہیں سو ہم بھی ان پر مہربان ہیں ۔۔۔۔!!”
علیشہ اپنی ہی بات پر جھوم گئی تھی ساشہ کے لبوں پر بھی بےساختہ مسکراہٹ امڈ آئی تھی ۔۔۔۔
جسے میشا کی گھوری پر اس نے ہاتھ سے چھپا لیا تھا ۔۔۔۔۔
“تم لوگ اس پر اتنی جلدی ۔۔ اتنے آرام سے اعتبار کیسے کر سکتے ہو ۔۔۔۔؟؟”
اس کا انداز صدیوں کی تکان لیئے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔
پنلگ پر گرنے والے انداز میں بیٹھتی وہ سخت الجھن کا شکار لگ رہی تھی ۔۔۔
“میشا ۔۔۔۔! ہمارے پاس ان پر یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔۔”
“کیوں نہیں ہے ۔۔؟”
ساشہ کی بات پر وہ بھڑک اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
“اچھا بتائو پھر کیا کریں ہم ۔۔۔؟
ہم کر ہی کیا سکتے ہیں ۔۔؟
کچھ نہیں ہے ہمارے بس میں ۔۔۔۔
اگر وہ پھر سے ہمارا فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں تو بھی ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میری بہن ۔۔!
ہماری مجبوریاں اتنی ہیں کہ کوئی بھی زرا سی مدد کر کے ہمیں خرید سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
بعد کی باتیں بعد پر چھوڑ کر حال پر خوش ہونے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔۔۔”
ساشہ کی مدھم آواز میں خود ترسی بھی تھی اور بےبسی بھی تھی ۔۔۔
گہری سانس بھر کر ساشہ اسے سوچوں میں گم چھوڑ کر کچن میں گھس گئی تھی ۔۔
خاموشی کا طویل وقفہ بیچ میں آیا تھا ۔۔۔۔۔ صرف کچن سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنے والی برتنوں کی آواز تھی جو ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔۔
“ٹھک ٹھک ۔۔ !!”
دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی تھی ۔۔۔ پارس ہی کا سوچتے ہوئے وہ علیشہ سے نظریں چراتی ہوئی ناچاہتے ہوئے بھی دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
سامنے ہی پارس کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا ۔۔
“آدب زوجہ ۔۔۔”
ہاتھ پیشانی تک لےجا کر وہ بڑی ادا سے گویا ہوا تھا مگر میشا نے کمال بےنیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائڈ ہو کر دروازہ بند کیا تھا ۔۔۔۔۔
مسکراہٹ دبائے شانے اچکا کر وہ پلنگ پر ٹک گیا تھا ۔۔۔ آج میشا کا رویہ اسے پہلے سے کافی بہتر لگا تھا ۔۔۔۔ سو خوش کن احساسات میں گھرا وہ مسکرائے چلا جا رہا تھا ۔۔
“چائے پیئیں گے آپ پارس بھائی ۔۔۔۔۔؟”
ساشہ نے کچن سے جھانک کر پوچھا تھا ۔۔ پارس پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے اس عزت افزائی پر ۔۔۔۔۔۔ جبکہ میشا نے لب بھینچ کر آنکھیں گھمائی تھیں ۔۔۔
“اب یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔”
وہ دل ہی دل میں تلملائی تھی ۔۔
“نہیں پیئیں گے آپ کے اچھے پارس بھائی ۔۔۔!”
چبا چبا کر کہتی وہ ساشہ کی گڑبڑاہٹ اور پارس کی مسکراہٹ کا موجب بنی تھی ۔۔۔
“اگر بیوی چاہتی ہے نہ پیئوں ۔۔ تو نہیں پیئیوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ اور بیوی ۔۔۔!! چھوٹی ہو تم ۔۔ بڑی ہے وہ ۔۔ اس پر زیادہ رعب مت جھاڑا کرو ۔۔۔۔”
پارس اب پھیلنے لگا تھا ۔۔۔۔ اور اس کا یہ پر اطمینان انداز میشا کو زہر لگ رہا تھا ۔۔۔
وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب پارس کی پکار پر کوفت زدہ سی واپس اس کی طرف گھومی تھی ۔۔۔۔ لیکن پارس کے بڑھائے ہوئے ہاتھ پر دھری اپنی ماں کی چین دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی ۔۔۔
ساشہ نے بتایا تھا کہ گھر کی مالکن کے پاس اماں کی چین گروی رکھوائی ہے ۔۔۔۔
اسے ہرگز امید نہیں تھی کہ وہ لوگ چین پھر سے حاصل کر پائیں گے ۔۔۔۔ لیکن وہ چین اس کی آنکھوں کے سامنے موجود تھی ۔۔۔۔۔
علیشہ کی نظریں چین پر پڑیں تو خوشگوار حیرت کا شکار ہو کر اس نے چین پارس کے ہاتھ سے اٹھا لی تھی ۔۔۔۔
“یہ آپ کو کہاں سے ملی پارس بھائی ۔۔۔؟”
“لینڈ لارڈ سے بات کر کے آیا ہوں میں ۔۔۔ آئندہ پریشان نہیں کرے گی ۔۔۔۔ اس مہینے کا کرایہ بھی دے چکا ہوں ۔۔ پرسکون رہو اب تم سب ۔۔۔”
“تم سب” کہتے ہوئے اس کی گہری نظریں میشا کے سرد چہرے کی طرف اٹھی تھیں ۔۔۔
اس کی مسکراہٹ کچھ سمٹ گئی تھی ۔۔۔۔ پتہ نہیں کب وہ ان خفا خفا آنکھوں میں پہلے سا جزبہ دیکھے گا ۔۔ دیکھے گا بھی یا نہیں ۔۔۔!!
“تھینک یو سو مچ پارس بھائی ۔۔۔ اس چین سے ہماری بہت گہری جزباتی وابستگی ہے ۔۔۔۔”
“آئی نو ۔۔۔ یار اب چائے نہ سہی ۔۔ پانی ہی پلا دو ۔۔۔۔ ایمان سے تمہاری بہن نے گھور گھور کر حلق خشک کر دیا ہے میرا ۔۔۔۔!”
ایک اچٹتی سی ترچھی نظر میشا پر ڈال کر وہ شریر لہجے میں بولا تھا ۔۔۔
علیشہ بےساختہ ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔ اگر وہ میشا کے تاثرات دیکھ لیتی تو یقیناً ٹھٹھک جاتی ۔۔۔
عجیب نظروں سے پارس کو گھورتی وہ کمرے میں جا کر بند ہوگئی تھی ۔۔
“مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے وہ میری بہنوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے بدلے اس نے میری کسی بہن کو زرا سا بھی نقصان پہنچایا تو میں قسم کھاتی ہوں ۔۔۔ میں قسم کھاتی ہوں کہ ۔۔۔ قتل کردوں گی اس گھٹیا انسان کو ۔۔”
چٹائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی وہ پھر خود سے جنگ شروع کر چکی تھی ۔۔۔
*****************
پھڑپھڑاتی چادر کو سنبھال کر اس نے پھر ایک پریشان نظر بخار سے تپتی ہوئی ردا پر ڈالی تھی ۔۔۔
میشا زرا فاصلے پر کھڑی کسی خالی رکشے کی تلاش میں نظریں دوڑا رہی تھی ۔۔۔۔
دونوں بہنوں کے چہروں پر اس وقت پریشانی ہی پریشانی تھی ۔۔۔۔۔۔
ردا رات سے بخار سے بیحال تھی ۔۔ پارس کا کچھ معلوم نہیں تھا وہ تھا کہاں ۔۔۔ کسی کال میسج کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ تب اس پر نفرین بھیجتی وہ ساشہ اور ردا کو لیئے خود ہی ہاسپٹل کے لیئے نکل پڑی تھی ۔۔۔
لیکن کتنی ہی دیر گزر چکی تھی ۔۔ کوئی خالی رکشہ نظر ہی نہیں آ رہا تھا ۔۔۔
بیچارگی سے ایک دوسرے کو دیکھتیں وہ قریب رکتی گاڑی کو دیکھ کر چونک گئی تھیں ۔۔۔
“کوئی پریشانی ہے ۔۔ ؟ کہیں جانا ہے ۔۔۔؟”
گاڑی سے نکل کر پریشان سا منان ان کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔
مخاطب وہ میشا سے تھا لیکن نظریں ساشہ اور اس کے شانے سے لگی ردا پر ہی تھیں ۔۔۔
“ہاسپٹل جانا ہے ہمیں ۔۔ ردا کی طبیعت خراب ہے ۔۔۔۔”
میشا نے جلدی سے کہا تھا کہ یہ وقت اکڑ دکھانے کا نہیں تھا ۔۔۔!
“ہاں۔۔؟ اچھا ۔۔! آئو گاڑی میں بیٹھو ۔۔۔۔”
ان کے لیئے بیک ڈور کھولتے ہوئے بھی اس کی الجھن بھری نظریں بھٹک بھٹک کر ردا کی طرف ہی جا رہی تھیں ۔۔۔
ڈرائیونگ کے دوران بھی اس کی یہ بےچینی برقرار رہی تھی ۔۔ اور میشا اور ساشہ دونوں ہی نے نوٹ بھی کر لی تھی ۔۔۔۔
***************
ساشہ ردا کا چیک اپ کروا کر باہر نکلی تو منان نے جلدی سے آگے بڑھ کر دوائوں کی پرچی تھام لی تھی ۔۔۔۔ اور پھر ساشہ کی سنجیدہ نظروں پر ہونق سا مسکرا دیا تھا جب جانی پہچانی پکار پر اس کے پسینے چھوٹ گئے تھے ۔۔۔۔۔
تینوں کی نظریں ایک ساتھ پکارنے والی شخصیت کی طرف اٹھی تھیں اور اپنی اپنی جگہ سب ہی عجیب عجیب احساسات کا شکار ہو گئے تھے ۔۔۔۔
سرخ لباس اور نیلی چادر پہنے تیز میک اپ سے اپنے خوبصورت نقوش کا بیڑا غرق کیئے ۔۔ موٹی موٹی کرل لٹوں والی وہ صبا ہی تھی ۔۔۔۔
صبا عادل ۔۔۔
عباس عادل کی بہن ۔۔۔۔۔۔!!!!
“مون جی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔؟ وہ بھی میری بھابی اور بھتیجی کے ساتھ ۔۔۔۔۔؟”
میشا کو سرے سے نظرانداز کیئے وہ بڑے ناز سے تفتیش کر رہی تھی ۔۔ یہ جانے بغیر کہ اس کے الفاظ منان کی سماعتوں پر بومب کی طرح گرے تھے ۔۔۔۔۔
“بھابی ۔۔؟ بھتیجی ۔۔۔؟ یعنی ساشہ ۔۔؟ اف ۔۔۔۔!!!”
اس کی ہمت نہیں ہوئی تھی سر بھی اٹھانے کی ۔۔۔۔۔ بغیر دیکھے بھی وہ ساشہ اور میشا کے تاثرات سے واقف تھا ۔۔۔!
صبا کا منان جیسے شخص سے کیا تعلق ہو سکتا تھا ۔۔؟ دونوں بہنوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔۔۔۔
پارس اور منان ۔۔۔۔۔!!
ان لوگوں کے ساتھ مخلص تھے یا نہیں تھے ۔۔۔ ان کی مہربانیوں کےطہیچھے کیا مقصد تھا وہ الگ بات تھی ۔۔۔ لیکن باقی سب کے لیئے وہ اب بھی وہی تھے ۔۔
عزتوں، خوشیوں، خوابوں کے سوداگر ۔۔۔۔۔
****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...