(Last Updated On: )
خواب کے پردہ سے پکار مجھے
غم کی دھرتی پہ پھر اُتار مجھے
میری آنکھوں سے تو پریشاں ہے
تیرے آنے کا انتظار مجھے
آج ماضی کا آخری دن ہے
اگلے موسم پہ اعتبار مجھے
آج کی شب ہے آخری شبِ تار
آج پھر خواب کا خمار مجھے
دِل میں ایسا عجیب موسم ہے
موسمِ گل بھی ریگ زار مجھے
اِسی تختے پر رہنے دے یونہی
ریگِ ساحل پہ مت اُتار مجھے
کھول لوں آنکھیں بند بھی کر لوں
ہے بھی کس شئے پہ اختیار مجھے
نہ کوئی پَل سحر ہے اسے اسلمؔ
نہ کسی پل کا انتظار مجھے
٭٭٭