میں تمھارا کوٸی ٹیسٹ نہیں دونگی۔۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھتی گاڑی کا دروازہ دھڑم سے بند کرتی چیخ کر بولنے لگی۔۔۔
اور شہریارنے اپنے کان میں انگلی گھسا لی۔۔۔
یہ میرا پیچھا کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔مجھے تو یہ بھی یاد نہیں ٹیسٹ تھا کون سا۔۔۔وہ اپنی ہاتھ کی انگلیوں کو مروڑتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔۔۔۔
جب اسکی نظر اپنے ہاتھ پر مہندی سے لکھے نام پر گی تو اسکے دماغ میں آٸیڈیا آیا۔۔
شہری۔۔۔۔۔!!! وہ جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر لاۓ اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
اور وہ تعجب سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔بھوکی شیرنی
چویا کیسے بن گی۔۔۔اسے خطرے کی گھنٹی سناٸی دینے لگی تھی۔۔۔۔۔
کیا ہے بولو؟۔۔۔۔ہیام اپنا ہاتھ آگے کرتی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔۔اور شہری ابرو اچکا کر اس سے پوچھنے لگا۔۔
یہ دیکھو نا ہمارا نام ایک ساتھ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔۔۔اور رنگ بھی کتنا گہرا آیا ہے۔۔۔تمھیں پتا ہے شہری تاٸی امی کہہ رہی تھی۔۔۔جس لڑکی کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ گہرا آۓ نا تو اسکا شوہر اسے بہت پیار کرتا ہے۔۔۔شہریار اسکی بات پر مسکرانے لگا۔۔
اچھا تو اسکے لیے مہندی کی کیا ضرورت تھی مجھ سے پوچھ لیتی میں بتا دیتا۔۔۔وہ یونی کے آگے گاڑی روکتا اسکے ہاتھ پر دل میں لکھا ہیام اور شہریار دیکھ کر مسکرایا۔۔۔
بہت اچھا ہے۔۔۔مگر میڈم اس سے دال نہیں گلنے والی ۔۔۔آج ٹیسٹ ضرور ہوگا۔۔۔کوٸی بہانا نہیں۔۔۔شہریار کہتا گاڑی سے نکل گیا۔۔۔
اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے ہمیشہ۔۔۔دل میں بھی جاسوس بن کر بیٹھ گیا ہے۔۔
یااللہ مجھے ایسا شوہر نہیں چاہیے کوٸی اچھا پیس تو بھیجتے۔۔۔اتنی معصوم بچی کے لیے ہٹلر کو چنا آپ نے۔۔۔وہ اللہ سے شکوے کر رہی تھی۔۔۔ کے گاڑی کے باہر کھڑے شہریار نے اسے آواز دی اور وہ بیگ اٹھا کر باہر نکل گی۔۔۔۔
***********
عفاف۔۔۔۔ایمان کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا اور پھر اپنے شادی کے جوڑے پر ہاتھ پھرنے لگی۔۔۔۔
کیا ہوا عفاف۔۔۔ایمان اسکے سامنے آکر بیٹھ گی۔۔۔کچھ نہیں آپی بس سوچھ رہی تھی ہم لڑکیاں کتنی بےبس ہوتی ہے۔۔۔اپنی زندگی پر کوٸی حق ہی نہیں ہوتا۔۔۔پہلے پوری زندگی ابا بھاٸی کے کہنے پر گزار دیتی ہیں پھر شوہر کی جی حضوری میں۔۔۔ہم نے اپنی زندگی کب جٸیں۔۔
عفاف ہمارے گھر میں کب کسی بات کے لیےروکا گیا ہے۔۔۔جو دل کرتا ہے کھاتے ہیں پیتے ہیں باہر بھی جاتے ہیں۔۔۔اور اب تو تم دبٸی جاٶ گی آرام سے گھومنا۔۔ایمان مسکرا کر اسے بول رہی تھی۔۔
آپی آپ ہمیشہ اتنی پوزٹیو کیسے رہتی ہیں۔۔۔۔زندگی کتنی بار ہمیں ذلیل کرتی ہے مگر آپ ہمیشہ ہنس کر سب سہہ لیتیں ہیں۔۔۔
میرے اندر کی پوزٹیوٹی اتنی پاورفل ہے کے کبھی نیگٹیوٹی آتی بھی ہے تو پوزٹیوٹی اسے بھاگا دیتی ہے یہ خود سے ملا کر پوزٹیو کر دیتی ہے۔۔وہ مذاق میں بہت بڑی بات سمجھا گی تھی۔۔۔جو شاٸد تھوڑی بہت عفاف کو سمجھ آٸی۔۔۔
اپی اگر شادی کے بعد مجھےوہ شخص پسند نا آیا یا اسکی عادتیں اچھی نہ لگی تو میں کیا کروں گی۔۔
تم پوزٹیو رہنا۔۔۔یہ چیز انسان میں صبر اور برداشت بڑھا دیتی ہے۔۔۔۔ اور عفاف جب صبر آجاۓ نا تو کوٸی چیز بری نہیں لگتی۔۔۔اور جہاں تک بات ہے عادت کی تو عادتیں تو ہوتی ہیں بدلنے کے لیے تم اسکے دل میں گھر کر لو گی تو وہ بھی تمھیں اپنے گھر کی ملکہ بنا کر رکھے گا۔۔۔۔
جی آپی میں پوری کوشش کروں گی۔۔۔اس رشتے کو ایمانداری سے نبھانے کی۔۔۔۔عفاف ایمان کا ہاتھ پکر کر کہنے لگی۔
آپی آپ مجھے یاد کریں گی۔۔۔عفاف کی آنکھ سے آنسو نکلا جو وہ کب سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔یہ وقت ایک لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے یہ اس کے سوا کوٸی نہیں جانتا۔۔۔اپنا ہر رشتہ چھوڑ کر جانا آگے پتہ نہیں کیسی زندگی ہو۔۔۔۔
شادی ایک جوا ہے جس میں ہم اپنا سب کچھ داٶ پر لگا بھی دے تو پتا نہیں ہوتا کے جیت ہوگی یا ہارے جاٸیں گے۔۔
ارے پاگل یاد تو اسے کیا جاتا ہے جسے بھولیں ہو تجھے تو میں کبھی بھولوں گی ہی نہیں۔۔۔۔روز رات کو الارم کی طرح کال کروں گی۔۔۔ایمان ہنستے ہوۓاسکے آنسو صاف کر کے کہنے لگی۔۔۔۔
چل جا کر ڈریس پہن کر دیکھ لے فیٹنگ ٹھیک ہے۔۔۔۔جی آپی
***********
ارے واہ ہیام بہت پیار آرہا ہے۔۔۔۔تو نے تو نام ہی لکھوا لیا اپنے ہاتھوں پر ہبہ اسکے ہاتھ میں لگی مہندی دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔پہلے تو براٸی کرتی نہیں تھکتی تھی اب اچانک کیسے اچھا لگنے لگا تجھے۔۔
اچھا تو ابھی بھی نہیں لگتا زہر ہی لگتا ہے ہٹلر کہی کا۔۔۔۔ صبح کا سین یاد کر کے اسے شہریار پر اور غصہ آنے لگا۔۔۔اور وہ دونوں کلاس میں چلیں گی۔۔۔
جی تو مجھے امید ہے آپ سب ٹیسٹ کی تیاری کر کے آٸی ہونگی ۔۔۔۔۔تو یہ لاسٹ ٹیسٹ ہے اسکے بعد آپکا سیمسٹر اسٹارٹ ہوگا اور آپ لوگ اچھے سے کلیر کرینگی۔۔۔
ان شاء اللہ مجھے پوری امید ہے
اس ٹیسٹ میں فیل ہونے والے اسٹوٹینٹ کو سزا پتا ہی ہوگی۔۔۔ تو اسٹارٹ کرتے ہیں۔۔
اور سب نے ٹیسٹ دیا اور شہریار لاسٹ یونٹ میں آنے کا کہہہ کر نکل گیا۔۔۔
***********
خبر پکی ہے سر کل رات بچوں کو شام چار بجے کے آس پاس افغانستان پہچایا جاۓ گا۔۔۔۔اور وہ سن کر اپنے ہاتھ کی مٹھی کو سختی سے بند کردیا۔۔۔
صحیح ہے میں آتا ہوں کل شام تک نظر رکھنا۔۔۔۔
ایک اور بات سر۔۔۔۔فون میں سے آواز ابھری
پتہ لگا ہے کہ جہانگیر شاہ نے کسی دشت گرد سے ہاتھ ملایا ہے اور وہ ہمارے ہی ملک میں ہمارے ملک کے معصوم بچوں میں بم چھپا کر الگ الگ جگہ دھماکے کروانے والا ہے۔۔۔اور ان سب میں سیاستدان اور ملک کے بڑے نام شامل ہیں۔۔۔وہ صرف بول رہا تھا۔۔۔
اور مقابل اسکی باتیں سن کر اپنے غصے کو کنڑول کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔ٹھیک ہے تم نظر رکھو اللہ نے چاہا تو اس گھنونے کام کا کل ہی خاتمہ کردیا جاۓ گا۔۔۔
**********
شہریار بہت غصے میں کلاس روم میں آیا۔۔۔۔چند ایک کے سوا سب نےمایوس کیا مجھے۔۔۔اب جن کا نام لوں وہ یہاں حاضر ہو کر اپنا عظیم کارنامہ لے کر جاۓ اور اپنے ہاتھ پر اٹیک کھاۓ۔۔۔میں لڑکیوں کو مارنے کے یا سزا دینےکے حق میں نہیں ہو۔۔۔مگر آپ سب کے والدین سے اجازت لی ہے میں نے۔۔اور آپ سب اپنے ٹیسٹ کو تین بار لکھ کر آٸیں گی۔۔وہ غصے میں کہہ رہا تھا۔
ہیام تیرا بھی نام آۓ گا۔۔ہبہ بھی ڈرتے ہوۓ کہنے لگی۔وہ اندر سے خود بھی ڈری ہوٸی تھی مگر ظاہر نہیں کر رہی تھی۔۔اسکا کچھ بھروسہ نہیں۔ہیام سوچتی رہ گی اور ہیام کا نام پکارا جانے لگا۔۔۔۔
ہیام بغور شہریار کو دیکھی جا رہی تھی۔۔۔اسے تکلیف اس بات کی نا تھی کے دشمن جان کے ہاتھوں مار کھا رہی ہے۔۔۔بلکہ یہاں موجود اس بات کو جانتی تھی شہریار اسکا کزن ہے اور اسے اپنی جھوٹی عزت کی فکر ستا رہی تھی۔۔۔۔
ہیام نے جان بوجھ کر وہ ہاتھ آگے کیا جس پر ان دونوں کا نام لکھا تھااور وہ شہریار کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
شہریار نے نظریں چرایں اور چٹاک کی آواز پر اسٹک ہیام کے ہاتھ کو چھو گٸی۔۔۔۔اور وہ پیر لیتی اپنے آنسو چھپاتی اپنی جگہ پر لی گی۔۔۔۔
وہ بنا کچھ بولے گھر کے لیے نکل گی۔۔۔۔وہ آج اور پچھلے دونوں کو یاد کر کے اور رو رہی تھی۔۔۔رکشہ گھر کے پاس روکا اور وہ کسی سے بات کیا بنا اپنے روم میں چلی گی۔۔ اور پورا دن روم میں ہی گزار دیا۔۔۔۔
چھٹی کے وقت شہریار ہیام کو ڈھونڈتا رہ گیا۔۔مگر وہ کہی نہیں ملی فون بھی بند تھا۔۔۔ایمان سے بات کر کے خیریت پتا کی اور پھر اپنے ضروری کام پر نکل گیا۔۔۔۔۔
***********
یہ کیسے ممکن ہے شہری۔میں شادی نہیں کرسکتا۔تو سب جانتے ہوۓ بھی یہ بات کررہا ہے۔۔۔عفان بے یقینی سے شہریار کو دیکھ رہا تھا۔۔
ہاں کہہ رہا ہوں میں اسکا بھاٸی ہوں۔۔۔ اور میں بہتر جانتا ہوں میری بہن کے لیے تجھ سے بہتر کوٸی نہیں۔۔۔شہریار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے یقین سے اسے کہہ رہا تھا۔۔۔
تجھے ہماری دوستی کی قسم۔۔
تو کیوں قسم دے کر مجبور کر رہا ہے۔۔۔۔وہ میرے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور اسکی میری عمر میں بھی تو دیکھ کتنا فرق ہے۔۔
مجھے نہیں لگتا کے عفاف کو تیرے ماضی یا تیری عمر سے کوٸی غرض ہوگا۔۔۔
شہری۔۔۔عفان نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ کرنے کے لیے ہاں کیا جس کا اس نے خود سے وعدہ کیا تھا۔۔۔
”زندگی بھی ایسی ہے ہم سالوں کا سوچ بیٹھتے ہیں پل میں کیا ہوجاۓ کوٸی نہیں جانتا“
چل سالے صاحب تجھے اچھی سی شیروانی دلاٶں۔۔۔۔شہریار اور عفان باتیں کرتے شاپنگ پر نکل گے۔۔۔
ہیام۔۔۔۔دروازہ کھولو کیا ہوا ہے۔۔۔ایمان اسکے روم کے باہر کھڑی دروازہ کھلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ کیا ہوا آپی عفاف بھی وہاں آگی۔۔۔۔۔ رات کے کھانے پر بھی ایمان نے بہانا کردیا تھا کے تھک گی ہے جلدی سو گی۔۔۔مگر اب اسے اصل بات جاننی تھی۔۔۔
کل دوپہر نماز ظہر کے بعد نکاح تھا۔۔۔کسی کو خبر نہ تھی کے شہری کیا کرنے والا ہے۔۔۔ہیام کمرے میں بند ہوکر رہ گی تھی۔۔۔ایمان کو شک ہوگیا تھا کے دونوں کے بیچ کوٸی بات ہوٸی ہے۔۔ ہیام کا اکیلے گھر آنا اور شہری کا پھر اسکے لیے فون کرنا۔۔۔مگر وہ بھی اصل بات سے انجان تھی۔۔۔
ہیام آپی کیا ہوا ہے کل آپکی بہن چلی جاۓ گی۔۔۔اب آپ ایسا کر رہی ہیں۔عفاف نے دروازہ کھٹکاتے ہوۓ باہر سے ہی بولا۔۔۔
مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔ جاٶ یہاں سے تم سب۔۔جاٶ ہیام چیخ کر بولی جس سے اسکی سسکیاں بندھ گی اور وہ روتے روتے باتھ روم میں گھس گی۔
ہیام نے اپنے منہ پر پانی کے چھنٹے مارے۔۔۔جب اسکی نظر اپنے ہاتھ میں پہنی انگھوٹی پر گی۔۔۔وہ ون ڈاٸمنٹ رنگ جو شہری نے اسے سوری کہتے ہوۓ پہناٸی تھی۔۔
ہیام نے بے دردی سے اسے اپنی انگلی سے نکال کر دور پھنکا۔۔۔نہیں چاہیے مجھے تمھارا سوری۔۔۔۔ہر بار ہر بار مجھے ذلیل کر کے میرا دل دکھا کر چلے جاتے ہو۔۔۔میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی شہریار حسن۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔تم ہیام محمود کو جانتے نہیں میں ہر چیز جنون کی حد تک کرتی ہوں۔۔۔
وہ پیار ہو۔۔۔نفرت ہو۔۔۔۔یا ضد وہ اپنے آنسو پونچ کر ڈریس چینج کر کے سو گی۔۔۔
*********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...