وہ سب لان میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔
سجل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ سب کو پکڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
کبھی دائیں طرف سے موحد اس کے بازو پر چٹکی کاٹتا تو کبھی بائیں طرف سے معارج۔
تم دونوں بس ایک دفعہ میرے ہاتھ لگ جاؤ۔
ایک دفعہ تم لوگوں کی باری آتو لے پھر میں بھی ایسا ہی کروں گی دیکھنا بچو۔
سجل نے اپنے بازو سہلاتے ہوئے کہا۔
جبکہ انعم اور رومان دور سے ہی سجل آپی میں یہاں ہوں مجھے پکڑیں کی آوازیں لگا رہے تھے۔
ان کو پکڑنے کے چکر میں سجل کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گرنے لگی جب کسی نے اسے تھام لیا۔
سجل نے سامنے والے کو چھو کر دیکھا اور بولی۔
اب پکڑے گئے ناں موحد کے بچے۔
مگر جب اس نے آنکھوں سے پٹی اتاری تو دیکھا کہ سامنے موحد نہیں بلکہ زارون تھا۔
جو اسے دونوں بازؤں سے تھامے مسکرا رہا تھا۔
ہار گئی ہار گئی سب ایک دم چلانے لگے۔
تب ہی روحاب کی گاڑی گیٹ سے اندر آئی۔
وہ گاڑی سے نکلا تو ایک دوسرے کے اتنے پاس کھڑے سجل اور زارون پر اس کی نظر پڑی۔
کیا شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے۔
روحاب جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولا تا کہ زارون کو معلوم ہو جاۓ کہ وہ بھی یہیں موجود ہے۔روحاب بھائی ہم ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہے ہیں۔
رومان نے بتایا۔
یہ کھیل تماشا بند کرو کھانے کا وقت ہو رہا ہے اندر چل کر کھانا کھاؤ سب۔
روحاب نے ان سب کو غصے سے گھورتے ہوئے اندر چلنے کا کہا جس پر ان چاروں نے ایک ساتھ اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔
۔*****************
سجل روحاب کو کھانے کے لئے بلانے آئی تھی۔
وہ ان سب کو کھانے کے لئے اندر بھیج کر خود کمرے میں آگیا تھا۔
روحاب بھائی بڑے پاپا کہہ رہے ہیں کہ کھانے کے لئے نیچے آجائیں۔
آرہا ہوں تم جاؤ۔
بلکہ یہاں آؤ مجھے تم سے ایک بات کہنی تھی۔
سجل جو کمرے سے باہر ہی کھڑی تھی اندر آگئی۔
جی کہئے۔
مجھے کہنا یہ ہے کہ آج کے بعد تم مجھے زارون کے پاس نظر مت آؤ۔
لیکن کیوں۔
سجل نا سمجھی سے بولی۔
بس میں نے کہہ دیا ناں تم اس کے پاس بھی مت جانا اور اگر وہ گھر آئے تو بہتر ہے کہ تم اس کے سامنے سے فوراً ہٹ جاؤ اوکے۔
جی روحاب بھائی۔
روحاب اس کد بھائی کہنے پر مسکرا دیا۔
ارے پاگل لڑکی اب تو بھائی کو بھائی کہنا بند کر دو اب تو یہ تمہارے حالیہ منگیتر اور فیوچر ہسبنڈ ہیں۔اور منگیتر کو بھلا کون بھائی بولتا ہے۔
موحد کمرے میں آتے ہوئے شرارت سے بولا تو سجل شرماتی ہوئی اسے گھوری ڈال کر باہر نکل گئی۔
روحاب اور موحد بھی اس کے پیچھے ہی کھانے کے لئے کمرے سے نکل گئے۔
۔******************
انعم تم سے ایک بات کرنی ہے میں نے۔
سجل کافی دیر سے بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی اور جب کافی سوچنے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نا آیا تو انعم سے بولی۔
ہاں بولیں آپی۔
انعم لیز کھاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جوس کے سپ لیتی لیپ ٹاپ پر ناول پڑھنے میں مصروف تھی۔انعم کیا تمہیں لگتا ہے کہ مجھے زارون بھائی سے دور رہنا چاہیے۔
کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔
انعم کو کچھ سمجھ نا آئی۔
مطلب یہ کہ تم نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ بہانے بہانے سے میرے پاس آنے اور مجھے چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور پتا ہے کچھ دن پہلے موحد نے اور کل روحاب نے بھی مجھے ان سے دور رہنے کا بولا۔
سجل نے اسے کھل کر بات بتائی تو انعم بھی سوچ میں پر گئی اور پھر بولی۔
سجل آپی میرے خیال سے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کیوں کہ نوٹ تو میں نے بھی بہت دفعہ کیا ہے لیکن ایک دو دفعہ تو میں نے یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ وہ شائد ایک کزن کی حثیت سے آپ سے پیار جتاتے ہیں۔
مگر اس کے بعد میں اپنی سوچوں کو جھٹک نہیں سکی کیوں کہ ان کی نظریں تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مگر میں کیا کروں دل و دماغ دونوں ہی کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ آخر ان کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔
چھوڑیں سجل آپی آپ بس موحد اور روحاب بھائی کے کہے پر عمل کریں۔
دفعہ کریں ان سوچوں کو اور ادھر آئیں اور میرے ساتھ ناول پڑھیں بہت زبردست ہے۔
انعم نے لیپ ٹاپ اس کی طرف کیا۔
سجل بھی اس بارے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہتی تھی اس لئے اپنے دماغ کو ان سوچوں سے پرے رکھنے کے لئے ناول پڑھنے لگی۔
۔****************
آج گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا بلکل خاموشی۔
ایسی خاموشی جو طوفان سے پہلے کی ہوتی ہے مگر یہاں تو طوفان آچکا تھا۔
ثانیہ کو طلاق ہو چکی تھی بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ وہ طلاق لے کر گھر آچکی تھی۔
گھر کے تمام افراد کو چپ لگ گئی تھی بولتے بھی تو کیا ثانیہ نے جو کرنا تھا وہ تو کر چکی۔
ثانیہ بول بول کر زارون کو جتنی ہو سکے اتنی بددعائیں دے کر چپ کر چکی تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ وہ مجھے طلاق دیتا میں خود لے کر آگئی۔
ارے کون کرتا اس گھٹیا انسان کے ساتھ گزارا۔
میری شادی اس شخص کے ساتھ کروا کر آپ لوگوں نے تو میری زندگی عذاب ہی بنا دی۔
مگر اب میں دیکھتی ہوں کہ میرے جیتے جی اس کی شادی کیسے ہوتی ہے۔
میری زندگی اجیرن کی ہے ناں اب اس کی بھی ہوگی۔گھر کے تمام لوگ ثانیہ کو ہی قصور وار مانتے تھے اور اس کا قصور تھا بھی زارون اگر انا پرست تھا تو وہ اس سے دو ہاتھ آگے تھی۔
طلاق نام کا دھبا خود پر لگوانا شائد اس کے لئے کوئی بڑی بات نا ہو مگر گھر کے بڑوں کے لئے یہ لفظ بھی قیامت سے کم نا تھا۔
ان کے لئے یہ تکلیف کوئی کم نا تھی کہ ان کی بیٹی اپنی ضد اور انا کی خاطر طلاق لے کر گھر آبیٹھی ہے۔اور اپنے اس فعل پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہے۔
ان سب نے اس سے سخت ناراضگی کر لی۔
ثمرین بیگم تو اسے کوس کوس کر اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی تھیں۔
پتا نہیں ہماری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی جو ہمیں اس کے جیسی اولاد ملی جسے اتنا بھی احساس نہیں کہ میرے اس فعل سے میرے ماں باپ کو کتنا دکھ کتنی تکلیف پہنچے گی۔
رمیز صاحب ثمرین سے یہ کہتے ہوئے انہیں لے کر کمرے میں چلے گئے۔
شہلا بیگم اور رفیق صاحب بھی ان کو تسلی دینے کے لئے ان کے پاس چلے گئے۔
۔******************
سجل ڈرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی کہ کہیں اسے دیکھتے ہی ثانیہ شروع نا ہو جاۓ اور ہوا بھی ایسا ہی۔
ثانیہ اسے دیکھتے ہی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے پاس آتی ہوئی چلائی۔
کیوں آئی ہو تم یہاں۔
سجل ایک دم گھبرا گئی۔
وہ میں اپنا سامان لینے آئی تھی کیوں کہ اب تو آپ ہی اس کمرے میں رہیں گی ناں۔
سجل کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو ایسا بول دیا۔جبکہ وہ ثانیہ سے اس کا دکھ بانٹنے آئی تھی۔
حالانکہ سب اس کی اتنی بڑی غلطی کی وجہ سے اس سے بات تک کرنے کو تیار نا تھے مگر سجل پھر بھی چلی آئی۔
یہ کمرے دوبارہ میرا صرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے سمجھی تم۔
میری وجہ سے مگر میں نے کیا کیا ایسا۔
سجل کو سمجھ نا آئی کہ ثانیہ نے ایسا کیوں کہا۔کیوں کہ تم ہی وہ لڑکی ہو جس کی وجہ سے زارون نے مجھے ٹھکرا دیا تم ہی ہو فساد کی جڑ تم ہی ہو میری طلاق کی وجہ تم ہی ہو قصور وار۔
تم میری خوشیوں کو چاٹ گئی ہو تم نے کی میری زندگی عذاب۔
صرف تمہاری وجہ سے اس نے مجھے بیوی کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔
اگر آج میں یہاں طلاق لے کر بیٹھی ہوں تو اس کی وجہ صرف اور صرف تم ہو۔
نکل جاؤ میرے کمرے سے جاؤ اور جا کر خوشیاں مناؤ۔
جاؤ اپنے اس عاشق کے پاس جو شائد تمہارے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا ہے اگر وہ تم پر مرتا ہے تو تمہیں بھی کوئی کم شوق نہیں اس کے آس پاس مٹکنے کا جاؤ ناں اب تو راستہ بھی صاف ہے۔
اب کھڑی کیوں ہو نکلو دفعہ ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ثانیہ پاگلوں کی طرح چلائی۔
جبکہ سجل تو ایسے تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی دیوار کا سہارا لیتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
۔**********************
زارون سگریٹ جلائے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لئے راکنگ چیر پر جھول رہا تھا۔
کتنی بے وقوف ہو تم ثانیہ میرا راستہ اتنی آسانی سے صاف کر دیا۔
خود ہی ہٹ گئی میرے راستے سے چلو کوئی ایک کام تو تم نے میری پسند کا کیا۔
تھینک یو سو مچ۔
زارون خود سے ہم کلام تھا جب دروازے پر آہٹ ہوئی۔آؤ سجل آؤ میری جان تمہارا ہی انتظار تھا۔
زارون جانتا تھا کہ ثانیہ اپنے پیٹ میں کوئی بات رکھنے نہیں والی اپنے اندر جلتی آگ کے گولے سجل پر ضرور برسائے گی۔
تمام قصور سجل پر تھوپ دے گی مگر اسے طلاق کی دوسری بڑی وجہ نہیں بتاۓ گی جس کی قصور وار صرف اور صرف وہ خود ہے۔
سجل چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کر لی۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو۔زارون نے اس کی مٹھی کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس سے دور ہٹ گئی۔
میری وجہ سے کیا ناں آپ نے یہ سب مجھے پانے کے لئے دی ناں ثانی آپی کو طلاق مگر آپ یہ بھول جائیں زارون صاحب کہ میں آپکی کبھی بنو گی۔
مجھے پانے کے لئے کیا ناں یہ سب جب میں ہی نہیں رہوں گی تو مجھے اپنائے گے کیسے۔
سجل یہ کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی تب ہی اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر آدھ کٹے سیب کی پلیٹ میں پڑی چھڑی پر پڑی۔
اس نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کے بغیر چھڑ ی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنے بازو پر کٹ لگا لیا۔
کٹ زیادہ گہرا نہیں لگا تھا اس لئے سجل نے دوبارہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔
اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ چھڑی چلاتی زارون نے چھڑی اس کے ہاتھ سے لے کر زور سے زمین پر پھینکی۔
چھڑی پھسلتی ہوئی بیڈ کے نیچے چلی گئی۔
یہ کیا کر رہی ہو تم دماغ تو خراب نہیں ہوگیا تمہارا۔زارون نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
ہاں ہوگیا ہے دماغ خراب ہوگئی ہوں میں پاگل۔
سجل نے دھکا دے کر اسے خود سے دور کیا۔
آپی ٹھیک کہہ رہی تھیں ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہیں آپ پیار کسی اور سے شادی کسی اور سے اور کتنے دھوکے دیں گے آپ ہم سب کو۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں سجل اور تم میری محبت کو میری ضد سمجھو یا جنون مگر میں تمہیں حاصل کر کے ہی دم لونگا۔
اب چاہے جو مرضی ہو جاۓ تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا اور خاص طور پر وہ روحاب۔
کیا کریں گے آپ آخر کر کیا لیں گے کچھ نہیں کر سکتے آپ کیوں کہ میری شادی تو روحاب سے ہی ہوگی۔
سجل نے اسے چیلنج کیا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے ایسا کہہ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔
مجھے چیلنج مت کرو سجل ورنہ ابھی تمہیں دکھا دوں گا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
آپکو جو کرنا ہے کریں میں آپ سے ڈرنے والی نہیں ہوں۔سجل غصے سے پھنکارتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی۔
مگر اس کے نکلنے سے پہلے ہی زارون نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
دروازہ کیوں بند کیا۔
ہیں دکھانے کے لئے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
سجل اس کا ارادہ جان کر گھبرا گئی۔
دروازہ کھولیں جانے دیں مجھے۔
بلکل بھی نہیں میری جان اب تو چیلنج کیا ہے تم نے مجھے بہت بڑی غلطی کر دی تم نے اب دیکھو تم۔زارون اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا اس کی طرف بڑھا۔سجل شور مچانے لگی مگر اس کی چیخ و پکار کے باوجود بھی زارون کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی بلکہ شیطانی مسکراہٹ تھی۔
۔**********************
تین مہینے گزر چکے تھے سجل بہت بیمار پر گئی تھی کہ پیپرز بھی نا دے سکی۔
اس سے زیادہ موحد اور معارج کو اس کے پیپرز نا دینے کا دکھ تھا۔
ثانیہ نے تو خود کو ان سب سے کاٹ کر رکھ لیا تھا اس کی بلا سے کوئی جیتا یا مرتا اسے بھلا کیا پرواہ تھی۔
سجل کی آج طبیت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔
کھانے کی میز پر کھانے کی خوشبو سے اسے متلی سی آنے لگی۔اس نے ایک دم منہ پر ہاتھ رکھا اور سنک کی طرف بھاگ گئی۔
جب واپس آئی تو ثمرین اور شہلا اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
جبکہ سجل ان کے اس طرح دیکھنے سے اپنی ہی نظروں میں چور سی بن گئی۔
شہلا اور ثمرین اتنی نادان نہیں تھیں تجربہ کار تھیں۔سجل کی چال اسکی بیماری آئے روز چکر آنا اوپر سے اسکا ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار ان دونوں کے سامنے خطرے کی گھنٹی بجا گیا۔ابھی بھی سجل چکر آنے کی وجہ سے پاس کھڑے موحد کے ساتھ جا لگی ۔موحد نے اسے جلدی سے تھام لیا۔
۔******************
اب تمہیں میرا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا سجل۔جب سب کو تمہاری پریگننسی کے بارے میں معلوم ہوگا تو تمہارے نا چاہنے کے باوجود بھی سب تمہیں میرے سپرد کر دیں گے۔
آخر کرنا ہی پرے گا کیوں کہ تمہیں میرے علاوہ اب اپناۓ گا ہی کون۔
روحاب تو تم سے نفرت کرنے لگے گا۔
بڑا کہتا تھا ناں کہ سجل کو مجھ پر بہت یقین ہے اب دیکھوں گا کہ اسے آخر سجل پر کتنا یقین ہے۔
ایک منٹ نہیں لگائے گا وہ تمہیں ٹھکرانے میں سجل۔سب تمہیں چھوڑ دیں گے تب کون اپناۓ گا تمہیں۔۔۔میں صرف اور صرف میں۔
مجھے معاف کر دینا سجل مجھے ایسا کرنا ہی پڑا کیوں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
تمہارے چیلنج اور روحاب کی ضد نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔
مگر تم فکر مت کرنا کوئی ہو یا نا ہو میں ہمیشہ رہوں گا تمہارے ساتھ۔
زارون سجل کی تصویر سے بات کرتا خود کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
۔******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...