اور زبانی ہراسگی مجھے کتنے عرصے سے اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے سامعہ۔؟! زینہ نے تڑپ کر بولا۔۔۔
زینہ سوچو تمہاری امی ہر وقت تمہاری شادی کو لے کر پریشان رہتیں ہیں۔ اور اب اگر یہ شخص تمہیں تمہارے حجاب سمیت قبول کرنا چاہتا ہے تو میرے خیال میں حق بات ہے۔۔ زینہ اگر وہ اپنے تقوی و ایمان کی پختگی کے لیے تمہارا ساتھ چاہتا ہے تو اُسے خالی ہاتھ نہ لوٹاو ۔!! مجھے تو لگتا ہے روحیل پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہے۔!
زینہ مجھے اس کی باتوں سے خطرے کی بو آ رہی ہے۔!
کونسا خطرہ سامعہ۔؟؟؟
زینہ نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔۔
سامعہ نے فلک گیر قہقہہ لگایا۔۔۔ تم پاگل بیوقوف، اناڑی اور ڈرپوک لڑکی ہو۔۔میں تو بس مذاق کر رہی تھی اور تم سنجیدہ ہو گئی ہو۔۔۔
زینہ پریشان نہ ہو ۔! بس دعائیں مانگتی رہو۔!سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاءاللہ۔۔۔
سامعہ تم کتنی خوش قسمت ہو ۔!
وہ کیسے ؟؟
تمہارا نکاح ایک صالح شخص سے ہو چکا ہے، کوئی بھی مسئلہ ، کوئی پریشانی ہو تم عبد السمیع بھائی سے ہر بات کر سکتی ہو مگر ادھر میری طرف جو بھی رشتہ آتا ہے انہیں میرے حجاب سے مسئلہ ہے یا پھر روحیل جیسا ایک آوارہ ملا ہے ۔۔۔
زینہ اسے بار بار آوارہ نہ بولو ۔! ہو سکتا ہے اس نے حقیقتا سچی توبہ کر لی ہو ۔!
سامعہ کون شریف شخص اس طرح کسی کی غیرت کو للکارتا ہے ؟ کون شریف اس طرح لڑکی کا پیچھا کرتا ہے اور فون چھین لیتا ہے۔۔؟
شریفوں کی شادیاں ایسے نہیں ہوتی ہیں۔!
نیک اور صالح لوگ اپنی اور دوسروں کی عزتوں کا پاس رکھنے والے ہوتے ہیں۔۔۔وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔۔!
پر زینہ اس نے جو بھی کیا ہے وہ توبہ سے قبل کیا ہے۔!
اور جو آج یونیورسٹی میں کر کے آیا ہے ؟ وہ کس کھاتے میں جائے گا۔؟؟
میرا فون چھین لیا تھا نجانے کیا کچھ فون میں کھول کر دیکھتا رہا ہے
اور جو مجھے بار بار مختلف نمبروں سے ہراساں کر رہا ہے وہ بھی تو شریفوں کا کام نہیں ہے یار۔!!
تین نمبر تو میں اسکے بلاک کر چکی ہوں۔ پتا نہیں اس کے پاس کتنے موبائل اور کتنے نمبر ہیں۔۔؟؟۔
اچھا چلو اب غصہ تھوک دو اور اسے دل سے معاف کر دو زینہ۔۔۔ آخر کو وہ تمہارے رضاعی بھائی کا بڑا بھائی ہے۔۔۔
سامعہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں عاصم ویر کو ساری بات بتا دوں گی اور انہیں بولوں گی کہ مجھے روحیل جیسے شخص کی چاہ نہیں ہے۔ مجھے تقوی والا، بندے کا پتر بندہ چاہیے بس۔۔!
زینہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے شیرنی بننے لگی۔۔۔
اپنا سارا غبار نکال کر اب شیرنی بن رہی ہو زینہ۔!! دونوں سہیلیاں کھلکھلائیں۔۔
دروازے پر ہوتی دستک نے زینہ کو چوکنا کر دیا۔۔۔
کون ؟؟
آپا امی بول رہی ہیں چائے اور پکوڑے بنا لیں ۔! زید نے دروازہ کھلتے ہی نئی فرمائش کر ڈالی۔۔
اچھا ۔! مجھے یہ بتاؤ سب بیٹھک میں ہی ہیں نا۔؟؟ جی آپا۔!
باورچی خانے کی طرف کوئی بھی نہ پھٹکنے پائے۔!
آپا میں تو عاصم ویر اور روحیل بھیا کے ساتھ مسجد جا رہا ہوں اور ذیشان بھائی فون لے کر باہر نکل گئے ہیں۔۔۔
امی کدھر ہیں؟؟ وہ بس روحیل بھائی کے ساتھ محو گفتگو ہیں۔ یہ سن کر زینہ کا منہ کڑوا ہو گیا۔۔
آپا۔! زینہ دوپٹہ لپٹتے ہوئے کمرے سے نکلنے لگی تو عقب سے زید کی آواز آئی۔۔۔
ہاں کیا بات ہے زید ؟
آپا روحیل بھائی کے ارادے بڑے نیک ہیں۔!
وہ کیسے ؟ زینہ نے بھنویں اچکائیں۔۔
آپا امی کو وہ بہت پسند آئے ہیں۔ وہ تو ہمیں اپنے ساتھ اسلام آباد لے جانا چاہتے ہیں ۔۔۔
زینہ نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے زخمی نظروں سے زید کو دیکھا۔۔۔
زید ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے پرائے گھروں میں جانے کی ۔۔۔!
آپا ہمیشہ کےلئے تھوڑی کہہ رہے ہیں وہ تو صرف کچھ ہفتوں کے لئے بول رہے ہیں۔۔
میں تو کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔
عاصم ویر کیا کہتا ہے ؟؟
آپا ویر عاصم نے ہی تو بات شروع کی ہے اور پھر روحیل بھیا نے امی کو قائل کرنے کی ٹھان لی ہے بس ۔۔۔
اور وہ ذیشان بھائی کیا فرما رہے تھے۔۔۔
آپا آپ کے لئے رشتہ لائے ہیں ، کہہ رہے تھے بڑے اچھے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
آپا میں تو چلا۔!
ہاں ٹھیک ہے تم جاؤ ۔! میں یہ سب کاٹ لوں اور پھر نماز کے بعد پکوڑے تل لوں گی۔۔۔
آپا مجھے لگتا ہے امی روحیل بھیا سے بہت متاثر ہیں وہ شاید مان جائیں گی۔۔۔
زید نے ٹوکری سے آلو نکال کر زینہ کو تھمائے۔۔۔
زینہ کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔۔۔ اللہ جانے یہ شخص کونسا نیا منصوبہ بنا رہا ہے ۔؟ میں تو نہیں جاؤں گی۔۔۔
ویر عاصم اکیلے کا گھر ہو تو ٹھیک ہے مگر اسکی موجودگی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔۔۔
زینہ نے آلو پیاز کاٹ کر تیار کیے اور نماز کے لیے اپنے کمرے میں جانے لگی تو امی بھی باورچی خانے میں میٹھی مسکراہٹ سجائے آن پہنچی۔
امی خیریت ہے آج بہت مسکرایا جا رہا ہے۔۔۔
بس اللہ کی حکمتیں وہی اکیلا جانتا ہے۔
دونوں بچے بہت نیک ، ادب و آداب والے ہیں ماشاءاللہ۔۔۔
ویر عاصم کو تو نیک بولنے میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر دوسرے نیک پرویز سے اللہ بچائے۔زینہ بڑبڑائی۔۔
اے کیا بولے جا رہی ہے زینہ۔ بات مخاطب کی سمجھ کے مطابق کیا کر ۔!
امی کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی سوچ رہی تھی کہ یہ لوگ آج رکنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا واپس لوٹ جائیں گے۔؟
میرے بس میں ہو تو روک لوں مگر تنگ گھر کا مسئلہ ہے۔ اور پھر تو پردہ بھی تو کرتی ہے ، تیرے اندر باہر جانے میں دشواری ہو گی وگرنہ میں دونوں بچوں کو کبھی بھی نہ جانے دیتی۔۔۔
اللہ بخشے انکی ماں کو ، روحیل کو دیکھ کر اسکی ماں بہت یاد آئی ہے۔ زینہ خاموشی سے سب سن رہی تھی۔۔
میں وضو کرنے آئی تھی اور ادھر باتوں میں لگ گئی ہوں۔۔۔زینہ تو بھی جا نماز پڑھ وہ لوگ تو خارجی دروازے سے مسجد کے لئے نکل چکے ہیں۔۔۔
جی امی۔۔!!
نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا لیے، آنسوؤں کی لڑیاں لڑھکنے لگیں۔۔۔ ہلکی سی آہٹ ہوئی تو دل مٹھی میں آ گیا۔۔
بستر پر پڑا فون تھر تھرایا۔
“ہم مسجد سے وآپس آ رہے ہیں کڑک چائے اور گرما گرم پکوڑوں کے لیے دل مچل رہا ہے، باحیا زینہ کے ہاتھ کا دل موہ لینے والا ذائقہ روحیل کو گرویدہ بنا چکا ہے ۔ جی چاہتا ہے روزانہ ایسے ہی کھانا ملے اور میری میزبانی کے فرائض زینہ حیات نبھائے۔! زینہ کا ہونے والا روحیل۔”
یا اللہ یہ شخص ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ دل کی دھڑکن بےقابو ہونے لگی ، ایسے لگ رہا تھا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔۔۔ پیشانی پر پسینے آنے لگے۔۔۔
پیغام پڑھتے ہی چوتھا نمبر بھی بلاک کر دیا۔۔۔
اب تم چاہے جتنا مرضی زور لگا لو۔ میری طرف سے کوئی پیش رفت نہیں پاؤ گے ان شاءاللہ۔۔۔
“میری غیرت میرا حسن ہے روحیل ارشاد”۔۔
کڑک چائے کے ساتھ کر کرے پکوڑے تیار ہو چکے تھے۔ پکوڑوں کی مہک گھر کے اندر داخل ہوتے ہی روحیل کے نتھنوں سے ٹکرائی تو عنابی ہونٹوں پر میٹھی مسکراہٹ در آئی۔۔۔
اس لڑکی کو اپنانا میرے لیے کے-ٹو سر کرنے سے زیادہ مشکل ہے ۔۔۔روحیل نے سوچا۔۔۔
بھیا اکیلے اکیلے مسکرایا جا رہا ہے ۔ خیریت ہے ؟ عاصم نے معنی خیز نظروں سے روحیل کو دیکھا۔۔۔
چھوٹے۔! چھوٹے ہوتو چھوٹے ہی رہو۔! دادا ابو نہ بنو۔!
بھئی ہم نے بھی صحرا کی خاک چھانی ہے ، ہم بھی مسکراہٹیں بکھیرنے کا مطلب خوب سمجھتے ہیں۔۔۔ تین تین فون اور پھر ہر بار نئے نمبر سے کسی کو پیغام رسانی کرنا اور اکیلے مسکرانا ۔۔۔
روحیل کے ساتھ والی کرسی پر براجمان عاصم سرگوشیوں سے روحیل کو ستا رہا تھا۔۔۔
عاصم تمہاری شادی کا وقت آن پہنچا ہے۔۔ !!
زید ماسی کدھر ہیں ؟؟ یار جا انکو بلا مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔!
جی بھیا ابھی بلا کر لاتا ہوں۔!
یہ لیں امی بلانے سے قبل ہی آن پہنچی ہیں۔۔
خیریت ہے بیٹا۔؟
جی ماسی وہ میں چاہ رہا تھا کہ آپ عاصم کے لیے کوئی لڑکی تجویز کریں۔ ماسی میں نہیں چاہتا یہ ادھر صحرا میں کسی عربی کے چنگل میں پھنس جائے۔۔۔۔
ارے بیٹا وہ بات تو ہے ۔ شہناز بیگم نے سنجیدگی سے کہا جبکہ زید عاصم قہقہے لگانے لگے۔۔۔
ماسی آپ بھی بہت سادہ ہیں۔
ہائے بیٹا کوئی غلط بات بول دی ہے کیا۔۔؟؟
ارے نہیں ماسی آپ بس اسکا رشتہ دیکھیں۔ !!
کس کے رشتے کی بات چل رہی ہے ادھر؟؟
ذیشان نے فون کان سے ہٹایا اور خارجی دروازے سے بیٹھک میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
ارے ذیشان بچے آپس میں ایک دوسرے کو چھیڑ رہے ہیں تم بیٹھو چائے تیار ہے، تم۔نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھا۔۔
خالہ بس زینہ کی بات پکی کرنے کی تگ و دو میں روٹی کی بھوک کس کو ہے۔۔ ابھی انہیں لوگوں کے ساتھ تمام معاملات طے کر دیئے ہیں۔
اگلے ہفتے وہ لوگ آئیں گے اور نکاح کی تاریخ طے کر جائیں گے۔۔۔
یکدم کمرے میں سناٹا چھا گیا۔روحیل کے چہرے کا رنگ غصے سے لال اور رگیں تن گئیں۔ بہت مشکل سے اپنا غصہ دبایا۔۔۔
پر پتر زینہ سے پوچھا بھی نہیں ہے اور نہ ہم نے خاندان کے بارے میں چھان بین کی ہے ۔ ایسے کیسے نکاح کی تاریخ پکی کر دوں؟؟
کیا وہ لوگ زینہ کا پردہ کرنا قبول کر لیں گے؟؟
خالہ زینہ کا پردہ صرف میری ذات تک ہی ہے۔ سارے دن سے یہ چھورے آئے بیٹھے ہیں ان پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہے۔۔
روحیل کی برداشت جواب دینے لگی۔۔
ذیشان پتر عاصم زینہ کا محرم ہے ، دودھ شریک بھائی ہے اور زینہ تو روحیل کے سامنے بالکل بھی نہیں آئی ہے۔۔۔
وہ سب نامحرم مردوں سے ایک جیسا پردہ کرتی ہے۔ خالہ نے لجاجت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔
خالہ ایک مرتبہ اسکی شادی ہو جائے سارے کا سارا پردہ “حجاب” ناک کے رستے باہر آ جائے گا۔ یہ چونچلے صرف ماں کے گھر تک ہی ہیں۔۔۔
کمرے میں مکمل سکوت طاری ہو چکا تھا۔ عاصم زید دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جبکہ روحیل کے ہاتھ فون کے کیبورڈ پر تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔۔۔
“اگلے ہفتے ہمارا سادگی سے نکاح ہے ، رخصتی کا بعد میں سوچ لیں گے۔!!! کسی قسم کی چوں چراں نہ سننے کو ملے ،کل میں اپنے ڈیڈ کو لا رہا ہوں۔۔
تم زینہ حیات صرف اور صرف میری ہو۔
یہ میری پانچویں سم ہے اس کے بعد ایک بچتی ہے ۔۔ اب اگر تم نے میرا یہ نمبر بلاک کیا تو دو نمبر میں نے تمہارے نام پر لے لینے ہیں۔۔ تمہارے شناختی کارڈ تک میری رسائی بھی ناممکن نہیں ہے۔۔۔جب تک مجھے جواب ہاں میں نہیں ملتا میں تم سے رابطے میں رہوں گا”۔!
روحیل صاحب۔! لگا لو ایڑھی چوٹی کا زور.! میری طرف سے ایک جواب بھی نہیں ملے گا۔زینہ نے پیغام پڑھتے ساتھ ہی نمبر بلاک کر دیا۔۔۔
جو اذیت مجھے پہنچائی ہے اسکا ازالہ مختلف نمبروں کی کہانی سنا کر نہیں کیا جا سکتا۔ میں اتنی گئی گزری ہوں جب جی چاہا سر راہ ذلیل کر دیا اور جب جی چاہا یونیورسٹی آکر محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔۔۔ آوارہ مزاج، لفنگا میرے گھر میں بیٹھ کر مجھے ہی دھمکیاں دے رہا ہے۔۔۔
زینہ کا خون کھول کر رہ گیا۔۔ ہاتھ میں پکڑے فون کا گلا گھونٹتے ہوئے کپڑوں کی الماری میں چھپا دیا۔۔۔بھیجتے رہو پیغامات میں نے فون ہی نہیں استعمال کرنا ۔۔۔
********************************
ماسی امی ہمیں اجازت دیں۔ نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عاصم اٹھ کھڑا ہوا جبکہ روحیل ہنوز کمرے میں پھیلی تلخی پر کھول رہا تھا ۔۔۔
ارے نہیں بیٹا بیٹھو۔! چلے جانا۔! تم آج کی رات اسلام آباد واپس جا رہے ہو کیا.؟ نہیں ماسی ادھر ماموں کے گھر ہی قیام ہے،ماموں تو نہیں رہے مگر در و دیوار باقی ہیں جنہیں بھیا گاہے بگاہے آ کر آباد کرتے رہتے ہیں ۔
ہاں بیٹا ہمیں تو خبر بھی نہ تھی یہ تو تم لوگوں نے آ کر بتایا ہے کہ انکا تو سارا کنبہ ہی چل بسا ہے ۔۔اور ہم تو اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ تمہارے ماموں امریکہ سے واپس آ چکے تھے اور میرپور آکر کتنے سال آباد رہے ہیں۔۔
بیٹا بہت افسوس ہوا ہے انکے بارے میں سن کر پہلے بیٹا چلا گیا اور پھر والدین اسکا غم برداشت نہ کر پائے اور اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔۔۔
شہناز بیگم نے صدمہ سے چور لہجے میں بولا۔۔۔
روحیل بیٹا بیٹھو عشاء کے بعد چلے جانا۔۔۔ کونسا کہیں دور جانا ہے ، ایک ہی شہر تو ہے۔۔۔
روحیل کی دلی تمنا پوری ہو گئی اور وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
ذیشان کڑی نظروں سے روحیل کو گھور رہا تھا جو دوبارہ گردن جھکائے اپنے فون میں مصروف ہو گیا۔۔۔
ماسی آپ لوگوں کو ہمارے ساتھ چلنا ہے بس ۔! زیادہ نہ سہی چند دن کے لئے ہی چلے چلیں۔!
ماں صدقے کرے۔! ابھی زینہ کی یونیورسٹی بھی ہے اور ویسے بھی وہ شاید رضامند نہ ہو۔۔
ذیشان اپنی عادت سے مجبور زیادہ دیر خاموش نہ بیٹھ سکا۔۔ہاں ہاں خالہ زینہ کو تو اپنی سگی بہن کے گھر آکر ٹھہرنا بھی پسند نہیں ہے۔ اسکا سگے خالہ زاد بہنوئی سے سخت پردہ ہے ۔۔ پوچھ لیں شاید اسے اسلام آباد کی فضا پسند آ جائے۔۔ ذیشان نے زہر ٹپکایا۔۔۔
ذیشان میں زینہ کی طبیعت سے واقف ہوں وہ کبھی بھی نہیں جائے گی۔۔۔ ساس نے وضاحت دی۔
چلیں اگر کہتی ہیں تو مان لیتا ہوں۔۔۔
عاصم میاں تم تو بیٹھ جاؤ .! آخر کو زینہ کے دودھ شریک بھائی ہو ۔! ہو سکتا ہے خالہ داماد پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے رضاعی بیٹے پر کر لیں ۔۔۔
عاصم ہقا بقا سب کے چہرے دیکھنے لگا ۔۔۔
ذیشان بھائی آپ عاصم اور زینہ کی فکر میں کیوں گھلے جا رہے ہیں۔؟؟ زینہ کی زندگی کے فیصلے کرنے کےلئے اسکا سگا بھائی موجود ہے ۔ روحیل نے دھیمے مگر کاٹ دار لہجے میں ذیشان کو باور کروا دیا ہے ۔۔۔
روحیل صاحب آپ اسلام آباد بڑے شہر کے باسی ہیں اور ہم اس چھوٹے شہر کے رہنے والے ہیں ہمیں یہاں کی روایات کا بخوبی اندازہ ہے۔۔۔
ہم اپنی عورتوں کی رکھوالی کرنا خوب جانتے ہیں۔۔۔
عاصم نے فوراً روحیل کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا اور مزید بحث سے روک دیا ۔
آپ ذیشان بھائی بالکل درست فرما رہے ہیں۔! عاصم نے بات سمیٹنے کی بہترین کوشش کی۔۔۔
عاصم میاں تم اپنی ماسی امی کو سمجھاؤ کہ اس طرح کے رشتے بار بار ملنے محال ہیں۔۔ ذیشان نے گفتگو کے ساتھ ساتھ پلیٹ میں پڑے پکوڑے کترنا شروع کر دیئے۔۔
شہناز بیگم غم کی تصویر بنی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھیں۔۔۔
زید تم جاؤ زینہ کو بولو میرے لئے کڑک سی چائے بنائے اور اسے بولنا الائچی کے ساتھ دارچینی ضرور ڈالے۔۔
جی بھائی۔! زید فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھک سے نکل کر زینہ کے کمرے پر دستک دینے لگا ۔
تو پھر خالہ اگلا جمعہ کیسے رہے گا۔؟؟ ذیشان نے سوالیہ نظروں سے خالہ کو دیکھا۔۔
ذیشان بیٹا زینہ کی رضامندی بہت ضروری ہے۔ اور پھر شہلا کے آرام کے دن ہیں ، کیا خبر کب ہسپتال کی طرف دوڑیں لگ جائیں۔ تم ان لوگوں کو بولو دوماہ صبر کر لیں۔ شہلا کا چھلہ ہوتے ہی ہم لڑکے کا گھر بار اور خاندان دیکھ آئیں گے اور پھر زینہ امتحانات سے بھی فارغ ہو جائے گی۔۔
دیکھیں خالہ اچھے رشتے ملنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔۔۔اب مرد کی بھی کوئی زبان ہوتی ہے ۔ میں انہیں زبان دے آیا ہوں۔!
پر بیٹا ہمارے علم میں لائے بغیر تمہیں یہ سب نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔ شہناز بیگم نے لاچارگی سے کہا۔۔
خالہ یہ رشتہ جو میں لایا ہوں ،کیا بات ہے جی .! ذیشان نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے جوش میں بتاتے ہوئے دوسرا پکوڑا منہ میں ڈالا۔۔۔
روحیل اپنی نشست پر بیٹھا کھول رہا تھا۔۔
ذیشان بھائی اگر آپ اجازت دیں تو ابھی چلتے ہیں لڑکے والوں کے گھر اور لڑکا دیکھ آتے ہیں۔۔ عاصم نے ایک حل نکالا۔۔
روحیل کو تو گویا سانپ سونگھ گیا۔۔۔
فورا خود کو سنبھالتے ہوئے عاصم کے فون پر پیغام بھیج کر فون دیکھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
“تمہیں کس نے دادا بنایا ہے؟ منہ بند رکھو۔! کوئی بھی لڑکا دیکھنے نہیں جائے گا۔”!
پیغام پڑھتے ساتھ عاصم نے سوالیہ نظروں سے روحیل کو دیکھا مگر اس کے اشارے پر خاموش رہنا مناسب لگا۔۔
عاصم میرا نہیں خیال زینہ اتنی جلدی اس سب کے لئے تیار ہو گی۔ امی نے عذر تراشا۔۔۔
خالہ ساری زندگی اس زینہ کی سنتی آئی ہیں اس لیے تیئس سال کی ہو گئی اور کسی ایک شخص نے آپکے گھر کی دہلیز پار نہیں کی ہے۔۔۔
بارہا بولا ہے اسے بولیں یہ منہ سر چھپانا چھوڑ دے۔! آج کل کون اس طرح کے تکلفات میں پڑتا ہے !
تمہارا کیا خیال ہے عاصم؟؟ تم تو دبئی کی رنگین دنیا سے واقف ہو۔۔!!
“جججججججی بھائی میرے خیال میں زینہ بہت اچھا کام کر رہی ہے۔۔۔ گھر کی چار دیواری کے باہر غیر مردوں کی غلیظ نظروں سے محفوظ رہتی ہے۔”۔
روحیل نے مشکل سے اپنی ہنسی دبائی۔جبکہ ذیشان کا منہ لٹک گیا۔۔۔
یہ لو جی زینہ کا ایک اور حمایتی کھڑا ہو گیا ہے۔ اوہ بھائی تم تو چند ہفتوں کے لئے آئے ہو ،اس مجبور خاندان کو طفل تسلیاں دے کر اپنی رنگین دنیا میں واپس چلے جاؤ گے۔! پیچھے بچا میں جسے اپنے گھر کے ساتھ ساتھ سسرال کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ۔
اپنی عادت سے مجبور ہوں بس ! میرے سے رہا نہیں جاتا ہے اور سگی خالہ کی ایک پکار پر دوڑا چلا آتا ہوں۔۔۔ خالہ میں اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتا ہوں۔! بتائے دے رہا ہوں۔!!
خالہ کے بجائے عاصم نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے ذیشان کی بات کی تائید کی۔۔۔
ویسے تم وہاں پر کیا کرتے ہو ۔؟
میری کنسٹرکشن کمپنی ہے ۔!
اچھا پھر تو تم لمبی لمبی عمارتوں کے نقشے کھینچ لیتے ہو گے ۔!
نہیں ۔! یہ کام تو نقشہ نویس کرتا ہے ، میری کمپنی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تعمیراتی کام سر انجام دیتی ہے۔۔۔
اچھا اسکا مطلب ہے کہ مستری مزدوروں والا کام ہے ۔!
جی بالکل آپ صحیح سمجھے ہیں۔!
تو تم اتنی کم عمری میں کمپنی کیسے چلا رہے ہو۔؟! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تم زینہ سے چند دن ہی بڑے ہو ۔!!
ذیشان بھائی میں ڈیڈ کی کمپنی کے لیے کام کرتا ہوں۔۔!
اچھا چلو جہاں پر لگے ہو لگے رہو۔۔!
زید.!! دیکھو زینہ پائے گلا رہی ہے یا چائے بنا رہی ہے۔؟ ذیشان نے کلائی میں بندھی گھڑی کو گھما کر وقت دیکھا۔۔۔
جی بھائی۔! میں ابھی دیکھتا ہوں۔۔۔
ترش گفتگو کے بعد بیٹھک میں خاموشی کا راج تھا جبکہ روحیل اپنی نئی منصوبہ بندی کر چکا تھا۔۔
زید تم بیٹھو ۔! میں خود زینہ کو دیکھتا ہوں ویسے بھی زینہ کو الوداع بھی تو بولنا ہے۔۔۔عاصم نے نرمی سے زید کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا ۔
دیکھو جی دودھ شریک بھائی بھی اندر باہر ہو رہا ہے ساری پابندیاں صرف داماد کے لیے ہیں۔۔
شہناز بیگم سر جھٹک کر رہ گئیں۔۔۔
******************************************ویرے تم ابھی اتنا جلدی واپس کیوں جا رہے ہو۔؟؟ اپنے بڑے بھائی کو بھیج دو اور تم ہمارے ساتھ ٹھہرو نا ۔! رات کو لحافوں میں بیٹھ کر باتیں کریں گے اور ریڑھی کی بھنی تازہ مونگ پھلی بھی کھائیں گے کتنا مزا آئے گا۔!!! زینہ نے عاصم کو بچوں کی طرح لالچ دے کر روکنا چاہا۔ جبکہ عاصم کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ میں بہنوئی صاحب کو دے آؤں پھر بیٹھ کر تفصیلی بات کرتے ہیں۔۔ عاصم نے کڑک چائے کی پیالی اٹھائی اور بیٹھک کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
زینہ نے فوراً باورچی خانے میں پھیلاؤ کو سمیٹا اور برتن اکھٹےکر کے دھونا شروع کر دیئے ۔۔
نلکا کھولے برتنوں میں اس قدر محو تھی کہ دائیں بائیں سے بالکل غافل ہوگئی۔۔۔
اچانک کسی کے گلا کھنکارنے کی آواز کانوں میں پڑی۔
ویرے اندر آ جاؤ ۔! تمہیں اجازت کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔!! زینہ نے بنا پلٹے ادھ کھلے دروازے سے بولا۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تمہارا ویر نہیں ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں اندر نہیں آؤں گا۔! بیت الخلاء کے بہانے سب سے آنکھ بچا کر آیا ہوں۔! اور تمہاری طرف پشت کیے کھڑا ہوں ۔! میں نے تمہیں بالکل بھی نہیں دیکھا ہے ۔!
دل سے عہد ہے کہ تمہیں صرف نکاح کے بعد ہی دیکھوں گا۔!!
زینہ کا رنگ یکدم فق ہو گیا گویا کسی نے سارے جسم کا خون نچوڑ لیا ہو ۔۔۔ دھک دھک کرتا دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنے لگا۔۔۔ لرزتے ہاتھوں سے پلیٹ چھوٹتے چھوٹتے بچی۔۔۔
تو پھر بولو میرے ساتھ نکاح کے لئے تیار ہو ؟؟ یا عاصم کو رات ادھر ہی چھوڑ جاؤں تاکہ وہ تمہیں قائل کر سکے۔کہتی ہو تو میں بھی رک جاتا ہوں۔۔!! تمہارے پردے میں کبھی بھی حائل نہیں ہوں گا اسی احساس میں رات بتا لوں گا کہ میری زینہ میرے آس پاس ہی ہے چاہے رات تمہاری بیٹھک میں ہی گزارنی پڑ جائے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔
زینہ کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔۔۔ مگر پھر ہمت جمع کر کے پلٹے بنا کلبلا اٹھی۔۔۔
“آپ کو شرم کیوں نہیں آتی ہے؟؟ آپ ایسی واہیات باتیں ایک نامحرم لڑکی سے کیسے کر سکتے ہیں۔؟؟مجھے اس طرح کی حرکات و سکنات میں بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے ۔۔۔ میں نا ہی آپ کی باندی ہوں اور نا ہی آپکی غلام ہوں۔! میرے حالات اور میری مفلسی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔!!!
آپ کیوں مجھے بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟؟۔میرے بہنوئی نے دیکھ لیا تو نجانے کتنی الزام تراشیاں کرے گا””۔۔۔
تمہیں بدنام نہیں بلکہ عزت دینا چاہتا ہوں لہذا میرے ساتھ ضد نہ کرو۔!!!
میں یہ سب ویر عاصم کو بتا دوں گی ۔! زینہ نے بھرائی آواز میں بولا۔۔۔
چلو اچھا ہے میرے لئے آسانی ہو جائے گی۔۔
اسے یاد سے آج رات ہی بتا دینا ۔!! اور مجھے بلاک کرنے کا سوچنا بھی مت۔! ورنہ نکاح ہوتے ہی رخصتی بھی ساتھ ہی کروا لوں گا۔۔۔ !!!
اور ہاں یاد رکھنا مجھے تمہاری عزت اپنی عزت سے زیادہ عزیز ہے۔! میری زندگی میں شامل ہو کر میری محرومیوں اور کوتاہیوں کو دور کر دو زینہ حیات ۔!! میں نے زندگی میں کبھی کسی کو اس قدر ٹوٹ کر نہیں چاہا ہے جتنا میں تمہیں چاہنے لگا ہوں اور گھبراو نہیں تمہارا بہنوئی چائے پی کر جا چکا ہے۔!!
تم سے اس قسم کی گفتگو کرنا میری مجبوری بن چکا ہے وگرنہ میں کبھی بھی یہ نوبت نا آنے دیتا۔!
تم بخوبی جانتی ہو کہ میں تمہیں یقین دہانی کروانے کے لیے ایسی باتیں کرنے پر مجبور ہوں۔۔!
روحیل نے زینہ کو بنا دیکھے دومنٹ سے کم وقت میں باورچی خانے کے باہر کھڑے ہو کر دل کی بات پہنچائی اور بنا جواب سنے لمبے ڈگ بھرتا بیٹھک کی طرف چل دیا۔۔۔
جبکہ زینہ اپنی بے بسی پر رو دی۔۔۔
******************************************
عاصم ماسی امی اتنا اصرار کر رہی ہیں تو تم آج رات ادھر ہی ٹھہر جاؤ مگر فی الحال گاڑی میں آکر سب کے تحائف تو لے آؤ۔!! آدھا دن گزار دیا ہے اور تم بس خوش گپیوں میں ہی مصروف رہے ہو۔۔!!
میں ساتھ چلتا ہوں روحیل بھائی ۔! زید نے فرمانبرداری سے بولا۔۔۔
نہیں یار تم ادھر ہی بیٹھو ۔!
اسے پتا ہے کونسی چیز کونسے شاپر میں پڑی ہے۔۔۔
چلیں بھیا .! عاصم اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
زید تم یہ برتن باورچی خانے میں چھوڑ آؤ۔!
ماسی تو شاید بستر تیار کرنے چلی گئیں ہیں ۔! روحیل نے زینہ کا خیال آتے ہی فورا زید کو بولا۔
جی بھیا میں ذرا پیٹی سے لحاف نکالنے میں مدد کرتا ہوں۔۔۔
گاڑی میں پہنچتے ساتھ ہی عاصم نے روحیل کو معنی خیز نظروں سے دیکھا اور بولا
بھیا مجھے آپ کے حالات کچھ مشکوک نظر آ رہے ہیں۔
کیا مطلب ؟
مطلب تو آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں یار ۔!
تو اگر تم سمجھتے ہو تو پھر باچھیں کیوں کھولے دیکھ رہے ہو۔؟؟ قائل کرو اسے۔!!!
کس کو قائل کروں۔؟؟
زید کو قائل کرو تاکہ وہ تمہارے ساتھ دبئی چلا جائے۔۔ روحیل نے چبا کر بولا۔۔
بھیا وہ تو نہیں جائے گا۔!
روحیل کی بیتابی اپنے عروج پر تھی۔۔
یار تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔؟
بھائی کچھ بتاؤ گے تو سمجھوں گا نا ۔!
اب تم زیادہ بھولے نہ بنو۔!
عاصم کو بڑے بھائی کو چھیڑتے ہوئے مزا آ رہا تھا۔۔۔
مگر ہنسی دبائے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے بیٹھا تھا۔۔۔
یار تم اپنی بہن کو بولو میرے ساتھ شادی کر لے۔۔!!
آپ میری بہن کو کیسے جانتے ہیں ؟؟؟ عاصم نے رعب دار لہجے میں بولا۔۔
عاصم اب زیادہ نہ بنو یار .!
مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ آپکو میری بہن سے کیوں اتنی دلچسپی ہو رہی ہے ؟ جبکہ وہ تو کسی اجنبی کے سامنے جاتی ہی نہیں ہے دفعتاً روحیل نے عاصم کی کمر پر ایک مکا جڑا۔۔۔
تو اب میرے صبر کا امتحان لے رہا ہے ۔ گھر جاتے ہی میں تیری کمپنی کے نئے آرڈرز کینسل کرواتا ہوں۔۔
عاصم روحیل کی بیتابی پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔
عاصم تو ایک نمبر کا مطلبی کمینہ انسان ہے۔!!
بھائی جان روحیل۔! یہاں میری عزت اور غیرت کا مسئلہ ہے کوئی میری بہن کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھے میں یہ برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔۔۔
عاصم نے دوٹوک بول کر ہاتھ اٹھا لیے۔
عاصم یار بھائی نہیں ہے ۔! کمینے تو میری بات نہیں سمجھ رہا ہے۔۔۔
تو سمجھائیں میں ہمہ تن گوش ہوں۔! عاصم نے ہنسی دبائی۔
یار صرف ایک مرتبہ تو میرا نکاح زینہ سے کروا دے ، میں بعد میں تجھے ساری بات بتا دوں گا۔۔
پہلے بات پھر نکاح بھائی جی۔!! میں اصول پسند بندہ ہوں کل کلاں کو میری بہن کسی مصیبت کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔۔
عاصم تو میرے سے پورے دو سال چھوٹا ہے ۔میرا باپ بننے کی کوشش نہ کر ۔! روحیل نے تپ کر بولا۔۔۔
محترم مکرم بھائی جان روحیل جنہوں نے نکاح کرنا ہوتا ہے وہ چھوٹوں سے نہیں بلکہ بڑوں سے بات کرتے ہیں۔
آپ میں ہمت ہے تو اندر جا کر ماسی امی سے بات کر لیں۔وگرنہ گھر واپس جا کر ڈیڈ سے بات کریں۔۔۔
میں آپکی سفارش کی کوشش کر سکتا ہوں مگر کسی بات کی گارنٹی نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔ ویسے بھی میری بہن کا رشتہ آیا ہوا ہے ، ہو سکتا ہے میں کل اس شخص سے ملاقات کے لیے زید کے ساتھ جاؤں۔۔
تو کمینے میرا بھائی ہے یا زینہ کا ؟؟ عاصم اپنے بھائی کی بیتابی پر محفوظ ہو رہا تھا۔۔
تو کمینے میرا بھائی ہے یا زینہ کا ؟؟ عاصم اپنے بھائی کی بیتابی پر محفوظ ہو رہا تھا۔۔
اس وقت مجھے زینہ زیادہ عزیز ہے۔! مجھے میری سالوں سے بچھڑی بہن ملی ہے تو میں اسے ناراض نہیں کروں گا ۔ باقی آپ سوچ لیں کہ مجھے حقیقت بتانی ہے یا نہیں۔۔۔
یار عاصم تو مجھے مجبور نہ کر ۔!!
بھیا ایسی کونسی وجہ ہے جسے آپ بتانے سے اس قدر پہلو تہی برت رہے ہیں ۔ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔یہ تو ثواب کا کام ہے اور اس بار تو میں بھی شادی کر کے ہی جاؤں گا ۔۔۔ میں تو زینہ کو ہی بولوں گا میرے لیے اپنے جیسی کوئی لڑکی ڈھونڈے جو حیا والی متقی سی ہو ۔۔۔ عاصم نے پورے جذب کے ساتھ بول کر ساتھ والی نشست پر براجمان بڑے بھائی کو دیکھا جو لب ںھینچے مسلسل اسے گھور رہا تھا۔۔
میں ادھر اپنی بات کر رہا ہوں اور تجھے اپنی پڑی ہوئی ہے۔۔۔روحیل تلملا اٹھا۔۔۔
بھیا آپ سے بنیادی معلومات پوچھی ہیں مگر آپ اس سے جان چھڑا رہے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ ؟ روحیل نے دو ماہ قبل ریکارڈڈ ویڈیو کھول کر عاصم کے ہاتھ میں دے دیا ۔۔۔
زینہ کے آنسو ،گھبراہٹ اور بےبسی دیکھ کر عاصم تڑپ اٹھا ۔۔۔
بھائی یہ سب کیا ہے ؟؟؟
یہی حقیقت ہے جو میں نے بہت بار چاہا کہ کسی پر عیاں نہ کروں مگر یار وہ مانتی ہی نہیں ہے۔۔۔ میں نے اپنے اور منیب کے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اب میں تم سے مزید نہیں چھپا سکتا۔۔۔
میں مانتا ہوں میرے سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے ۔۔۔
روحیل نے شروع سے لے کر آخر تک تمام تفصیلات عاصم کے گوش گزار کر دیں۔۔
تمام حقائق سننے کے بعد عاصم کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔۔۔ سرد آہ بھر کر گویا ہوا۔
یار بھیا کیا کر دیا ہے ؟؟؟
عاصم کا جی چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار کر روئے۔۔۔
یار بھائی امی کا پندرہ سالہ پرانا خط بھول گئے تھے کیا ؟؟؟
وہ خط جو ہماری ماں نے موت سے قبل ہمارے لئے چھوڑا تھا کہ جب ہم سمجھ بوجھ والے ہو جائیں تو ہمیں بار بار پڑھایا جائے۔۔۔
عاصم نہ چاہتے ہوئے بھی رو دیا۔۔۔
یار بھیا آپ نے زینہ کے ساتھ بہت زیادتی کر دی ہے۔۔۔
روحیل پچھتاووں کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔۔۔
عاصم یار میں مانتا ہوں میرے سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔۔۔ یار تم تو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ ڈیڈ تو یہ بات کبھی بھی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ اسی لیے میں آج انہیں اپنے ساتھ بھی نہیں لے کر آیا۔۔ میں چاہتا تھا کہ پہلے خود سارے حالات کو سازگار بناؤں پھر انہیں رشتے کے لیے میرپور لاؤں گا۔۔۔
عاصم نے گالوں پر لڑھکتے آنسو صاف کئے۔۔۔
بھیا یاد ہے ماسی امی نے میری سکڑی انتڑیوں کو زندگی بخشی تھی ۔۔۔ مجھے زینہ کا حق بانٹ کر پلایا۔۔
میرے لاغر جسم کو تندرست و توانا بنانے کے لیے اپنی بیٹی کا حصہ ہمسائے کے بیٹے کے لیے وقف کر دیا۔۔۔ بنا کسی اجرت ، بنا کسی دنیاوی لالچ کے اس ہمسائے خاندان نے ایک دوسرے خاندان کے چشم و چراغ کو زندگی بخشی۔۔۔ وہ بچہ جو زندگی اور موت کی جنگ لڑتی ماں کی مامتا سے محروم تھا ، جو کسی دوسرے دودھ کو پینے سے انکاری تھا ، جو دن رات رو رو کر ہلکان ہو جاتا تھا اسے ہمدرد ہمسایوں نے اپنی مامتا کی چھاؤں بخشی ، اپنی نومولود بیٹی کی طرح اپنے پروں میں چھپا لیا۔۔۔
یار بھیا یاد نہیں ہے ہم سارا سارا دن انکے گھر کھیلتے رہتے تھے۔۔۔
بھیا ہم تو انکا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھلا سکتے ہیں۔۔۔
عاصم یار تمہاری ایک ایک بات درست ہے یار مگر مجھے علم نہیں تھا کہ یہ وہ والی زینہ ہے ۔۔۔
مجھے علم ہوتا تو میں کبھی بھی ایسا نہ کرتا۔۔
اور تو خود جانتا ہے کہ زینہ کے والد کو ہم مرزا صاحب کے نام سے ہی جانتے تھے۔ یار کم عمر بچے کہاں ناموں پر اتنی توجہ دیتے ہیں۔۔ سارا محلہ انہیں مرزا صاحب کے نام سے پکارتا تھا۔۔۔ اور پھر ہمارا امی کے علاج کے لیے اسلام آباد چلے جانا اور ان لوگوں کا اچانک پرانا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر میں چلے جانا ، یہ سب حادثاتی طور پر تھا۔۔۔ہمارا رابطہ انکے ساتھ منقطع ہوگیا تھا یار۔۔۔
“زینہ حیات” تو اب میری زندگی میں آئی ہے۔۔روحیل نے ٹوٹے لہجے میں بولا۔۔۔
یار بھیا امی نے ہمیں اس خط میں کتنی تنبیہہ کی تھی کہ ہم سب نے اس خاندان کا احسان ساری زندگی نہیں بھلانا اور انکا خاص خیال رکھنا ہے۔۔۔مگر آج دیکھو ہم ان سے ایک طویل مدت بعد ملے ہیں اور کن حالات میں کہ یہ لوگ اتنی کمپلسری کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔
ان کے گھر کے چپے چپے سے مفلسی ٹپکتی ہے۔۔۔
ہم نے انکا خیال تو دور کی بات ، ہم نے تو انہیں کی عزت پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔ عاصم ہنوز آبدیدہ تھا ۔۔ جبکہ روحیل سٹیرنگ ویل پر سر ٹکائے دکھی دل کے ساتھ چھوٹے بھائی کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔
یار عاصم میں نے دو مرتبہ زینہ سے معافی مانگی ہے اور اس نے بولا تھا کہ اس نے مجھے معاف کیا مگر نکاح سے انکاری ہے۔۔۔
یار اگر میں نے اسکی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا تو اب انہیں ہاتھوں سے اسکے سر کو عزت کی چادر سے ڈھانپ لینا چاہتا ہوں۔۔۔
پلیز میری مدد کرو یار۔! اسکی تمام غلط فہمیاں دور کر دو۔! عاصم مجھے لگتا ہے میں اس کے بغیر ادھورا ہوں۔۔۔
منیب تو چلا گیا ہے مگر مجھے اپنے کیے پر بے انتہا ندامت ہے ۔۔۔کاش میں منیب کے کہنے میں نہ آتا۔۔! روحیل نے سرد آہ بھری۔۔
اوہ زید کال کر رہا ہے۔! عاصم نے جیب سے فون نکال کر دیکھا۔۔
ہاں تو اٹھاؤ نا ۔!
ہاں زید یار میں کچھ دیر میں آتا ہوں بھیا کے ساتھ کچھ ضروری کام پڑ گیا ہے ، میں آدھے گھنٹے میں آتا ہوں۔! تم اور زینہ مونگ پھلی تیار رکھو۔۔۔! عاصم نے محبت اور لگاوٹ سے بات کر کے فون جیب میں ڈال دیا۔۔۔
یار عاصم تو میرا چھوٹا بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ میرا قریبی دوست بھی ہے ۔۔۔
عاصم جب سے زلزلہ اور پھر منیب کی موت ہوئی ہے تب سے میں ایک رات سکون سے نہیں سو پایا ہوں۔۔اگر سوتا بھی ہوں تو میرے خواب میں زینہ شکوہ کناں ہوتی ہے۔۔۔عاصم تو میری آنکھوں میں دیکھ۔! میں کس قدر بے چین ہوں۔۔
یار میرے دل میں اس قدر تشنگی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں۔۔ ایسے لگتا ہے مجھے زینہ کی آہ لگ گئی ہے۔۔۔ عاصم میں اپنے گناہوں کی تلافی کرنا چاہتا ہوں اسے بولو مجھے اپنا لے پلیز۔۔۔
میرا اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔۔۔
یار یہ لڑکی بہت پاکیزہ اور پاک دامن ہے ۔۔۔
گزشتہ ایک ماہ سے میں میرپور آ رہا ہوں اور بارہا اسکی یونیورسٹی بھی جا چکا ہوں مگر یہ لڑکی اپنے قول کے مطابق اعمال میں بھی خالص ہے ۔۔
مجھے یہ خالص ہی چاہیے۔!۔
میری ذات کے کھوٹ میری سچی توبہ سے دھل جائیں گے ان شاءاللہ۔۔۔ عاصم میں نے زینہ کے ڈیپارٹمنٹ سے بہت معلومات اکھٹی کی ہوئیں جن سے وہ مکمل طور پر بےخبر ہے۔۔۔ یونیورسٹی کے ماہنامے میں زینہ کے بہت سارے کالم پڑھ چکا ہوں جن میں سر فہرست: “مقصد حیات “شخصیت سازی”، “کردار سازی” آج کا نوجوان” حجاب”؛ تزکیہ نفس وغیرہ وغیرہ۔۔
بھیا ابھی اس کے ساتھ کچھ برا نہ ہو۔۔۔!!
نہیں یار میں اسکے ساتھ برا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہوں۔۔۔ اسکی شخصیت میں پنہاں خیر و تقویٰ میری زندگی کا سرمایہ ہے ۔۔۔
یار مجھے خبر بھی نہیں ہوئی کیسے میں اس لڑکی کی مسحور کن شخصیت میں جکڑا گیا ہوں۔۔۔ حالانکہ میں تو اسے ملتا بھی نہیں تھا مگر حجاب میں لپٹی یہ شفاف افکار کی پاکیزہ لڑکی میری روح کی ملکہ بن گئی ہے۔۔۔
عاصم میں بہک گیا تھا مگر اب میں سچی توبہ کر چکا ہوں اسے یقین دہانی کرواو یار۔۔!
بھیا مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ میں کیسے اس کا سامنا کروں گا ، بات تو دور کی بات ہے۔۔۔
آپ یہاں آنے سے قبل مجھے بتا دیتے تو شاید صورت حال مختلف ہوتی مگر اب سوچ کر ہی میرا دل دہل گیا ہے اور اس بیچاری کا کیا حال ہوتا ہوگا۔۔؟؟
عاصم مجھے نہیں پتا تم بس اسے قائل کرو۔!
اور اگر وہ قائل نہ ہوئی تو۔؟؟؟
تو پھر مجھے زبردستی کرنا پڑے گی۔!!
بھیا ۔!! گزشتہ آدھے گھنٹے سے میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور آپکی سوئی ادھر ہی اٹکی ہوئی ہے۔۔۔
عاصم “وہ میری ہے اور صرف میری ہے”۔ اسے بتا دینا۔!!
عاصم نے سن کر سر تھام لیا۔۔۔
بھیا میں جا ریا ہوں ، وہ لوگ انتظار کر رہے ہوں گے۔! کوشش ضرور کروں گا مگر “ہاں” کہلوانے کا وعدہ نہیں کر سکتا ہوں۔۔۔
اچھا یار کوشش تو کرو۔۔! اور سن یہ کچھ چیزیں میں نے کچھ لباس اس کے لیے خریدیے تھے ، تم اپنی طرف سے اسے دے دینا۔! اسے میرا پتا چلا تو کبھی بھی نہیں لے گی۔۔! اور ہاں اس کے جوتے کا سائز بھی پوچھ لینا۔! یہ امی کی بالیاں بھی ہیں ، میں چاہتا ہوں نکاح والے دن وہ یہ بالیاں پہنے۔۔۔! روحیل نے چھوٹی سی ڈبیہ نکال کر عاصم کو دی۔۔۔
اسے خبر نہیں ہونی چاہئے کہ یہ سب میں دے رہا ہوں۔!!
بھیا اتنی تو عقل رکھتا ہوں یار۔!!
ویسے آپ کی داستان عشق سن کر دلی افسوس ہوا ہے۔۔! عاصم نے گاڑی سے اترتے ہوئے روحیل کو چھیڑا۔۔۔
عاصم بات سن ۔!!
صبح تو کسی طریقے سے اسے گاڑی میں یونیورسٹی چھوڑ آنا۔۔! یار جنوری کی ٹھٹھرتی سردی میں بائیک پر جاتی ہے ۔۔۔
ہائے ہائے ۔! “اب آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے”۔!
بھیا ایک دن گاڑی میں چھوڑنے سے کیا ہو گا؟؟ جبکہ وہ تو روز ایسے ہی ٹھٹھرتی یونیورسٹی جاتی ہے۔۔۔
یار وہ نکاح کرلے تو میں اسے روزانہ چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔۔!
بھیا جی ۔!”بلی کے خواب میں چھیچھڑے وہ بھی باسی۔”عاصم نے روحیل کو مزید چڑایا۔۔۔
تو باز آ جا عاصم۔!!
ابھی تو میرے بغیر آپ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے ہیں لہذا میرے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت شفاف رکھیں۔
روحیل نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔۔۔
اچھا سن ۔! میں صبح آٹھ بجے آ جاؤں گا۔! تو اسے تیار کروا کے ساتھ لے آئیں پھر باقی میں جانو اور میرا کام۔۔!
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بھیا ۔!!
میں کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا ہوں لیکن آپ کو ایک نسخہ بتا سکتا ہوں۔
اب آپکو صبر اور دعا سے کام لینا ہو گا۔۔!
نیند نہیں آتی تو تہجد پڑھیں۔ ۔!!
اسے اپنی دعاؤں میں مانگیں۔۔! دعاؤں میں مانگی گئی شخصیات تو ویسے بھی بہت انمول ہوتی ہیں۔۔!!
عاصم نے بولا اور گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے سامان اٹھا کر زینہ کے گھر کی طرف چل دیا۔۔۔
******************************************
شہلا میں تجھے بول رہی ہوں کہ رونا دھونا چھوڑ دے .! کیوں اپنے ساتھ میرا جی بھی جلاتی ہے۔؟؟
امی ذیشان جب سے آپ کے گھر سے لوٹے ہیں تڑپ رہے ہیں۔ امی مرد کی زبان کی بھی کوئی وقعت ہے یا نہیں۔
شہلا تو سگی بہن ہو کر زینہ کی دشمن بنی ہوئی ہے۔! میں کیسے اپنی نیک بچی کو کسی گلی کے غنڈے کے حوالے کر سکتی ہوں۔؟
امی آپ کو کیسے پتا ہے وہ شخص غنڈہ ہے۔؟؟
تو ذیشان کا اٹھنا بیٹھنا کونسے نمازی پرہیزگاروں میں ہوتا ہے۔؟؟
امی اب ایسی بھی بات نہیں ہے ۔۔۔
بہرحال میں بتائے دیتی ہوں کہ زینہ کا رشتہ پکا ہو چکا ہے اب اسکی شادی ادھر ہی ہو گی۔۔۔!
شہلا جب تک میں زندہ ہوں ، میرے جیتے جی ذیشان کو زینہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔
سپیکر پر لگے فون کو ذیشان نے اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔۔۔۔
ٹھیک ہے خالہ تو پھر کل صبح شہلا آپ کے گھر آ رہی ہے۔ بچے کی پیدائش کا سارا خرچہ اور باقی اخراجات آپ کے ذمے ہیں۔۔۔
جب میری آپ کے خاندان میں کوئی عزت قدر ہی نہیں ہے تو میں کس لئے بےفیض رشتوں کا بوجھ اٹھاتا پھروں۔؟؟
آپ کی بیٹی صرف زینہ ہی ہے ۔! شہلا تو آپ نے باہر ڈھیر سے اٹھائی تھی۔!!
خیر یہ تو شہلا کو عقل ہونی چاہئے کہ کیسے اپنی عزت کرواتے ہیں۔۔۔!!!
خالہ ایک رات کا وقت دے رہا ہوں، صبح منڈی جانے سے قبل جواب لینے آؤں گا۔۔۔۔جواب “نہ” میں ملا تو شہلا آپ کے گھر ہو گی۔۔۔۔!!
ذیشان نے دھمکی دے کر فون بند کر دیا جبکہ شہناز بیگم لڑکھڑا گئیں۔۔۔
عاصم زید نے فوراً بھاگ کر تھام لیا۔۔
ماسی کیا ہوگیا۔؟ خود کو سنبھالیں۔!!
زید پانی لاؤ یار۔۔۔
ماسی آنکھیں کھولیں۔!! عاصم چہرہ تھپتھپانے کے ساتھ ساتھ ہتھیلیاں رگڑنے لگا۔۔۔
زینہ کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔۔۔
یار زید ماسی کو ہسپتال لے جانا پڑے گا۔! اُدھر میز پر میرا فون پڑا ہے لا دو .! بھیا کو فون کروں۔۔۔
تیسری گھنٹی پر روحیل نے فون اٹھا لیا۔۔ عاصم سب خیریت ہے ؟؟
نہیں بھیا ۔! ماسی اچانک بیہوش ہو گئیں ہیں انہیں ہسپتال لے جانا ہے ، آپ فوراً آ جائیں۔۔۔
میں بس ابھی آ رہا ہوں۔۔ تم انکو اچھی طرح لپیٹو۔۔! اور ہاں سنو زینہ کو گھر اکیلا نہیں چھوڑنا ۔! اسے ساتھ لے کر آنا۔ اسے بولو حجاب پہن لے۔ !
جی بھیا۔۔!
دس منٹ کے اندر روحیل لوٹ آیا اور عاصم سمیت سب اہلِ خانہ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر برق رفتاری سے ہسپتال پہنچا کر خود باہر انتظار گاہ میں بیٹھ گیا۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ زینہ کو اسکی بےبسی اور محتاجی کا احساس دلائے۔۔۔
زینہ کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔۔ زید اور عاصم کی تسلی تشفی کے باوجود زینہ کے آنسو تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
زینہ میری بہن میں ہوں نا .! کیوں پریشان ہوتی ہو ۔؟ ماسی کا علاج اگر میرپور سے نہ ہو سکا تو میں انہیں اسلام آباد لے جاؤں گا۔۔! تم بس پریشان نہ ہو۔۔! عاصم نے زینہ کو ساتھ لگا کر ڈھارس بندھائی۔۔۔
عاصم ویرے امی کو کیا ہوا ہے۔؟ وہ پہلے تو کبھی بھی ایسے بیہوش نہیں ہوئیں ہیں۔۔۔
بس مجھے لگتا ہے ذیشان بھائی نے کچھ تلخ بات بول دی ہے اس لیے دل پر لے گئیں ہیں۔!
ویرے آپ ذیشان بھائی کو بولو انہوں نے جہاں پر بھی میرا رشتہ پکا کیا ہے مجھے منظور ہے مگر خدارا امی کو پریشان نہ کریں۔۔۔
سن کر عاصم کا دل مٹھی میں آ گیا۔۔ ایک طرف بھائی تو دوسری طرف اس مفلس خاندان کے مسائل۔۔۔
زینہ پتا نہیں وہ شخص کون ہے ؟ کیسا ہے ؟ ہم کیسے تمہاری شادی ادھر کر سکتے ہیں ۔؟؟
اب چپ ہو جاؤ ڈاکٹر صاحب ہماری طرف ہی آ رہے ہیں۔عاصم نے زینہ کو تسلی دے کر کرسی پر بٹھایا اور خود زید کے ہمراہ ڈاکٹر کے بلاوے پر الگ کمرے میں چلا گیا۔۔۔