کیا ہم اب کبھی نہیں ملیں گے آفیسر ؟؟
اسکی اداسی میں لپٹی آواز نایا کو سر اٹھانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے فیصل ۔۔ ہمیں ایک دوسرے کو جان کر بھی انجان ہی رہنا ہے ۔۔ یہ ہماری جاب کا حصہ ہے ۔۔
اسکی بے تاثر آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی فیصل کی سماعتوں تک پہنچی تھی ۔۔ جواب سن کر فیصل کو چپی لگ گئی ۔۔ وہ پھر نہیں بولا تھا ۔۔ جبکہ وہ بولنا چاہتا تھا ۔۔ اسکا دل چیخ چیخ کر اس سے کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔
وہ سب کچھ نایا کو بتانا چاہتا تھا ۔۔ لیکن احترام اور سادگی آڑے آجاتی ۔۔ خوددار زہن اسے بار بار یاد دلاتا کہ کسی رشتے کی ڈور سے بندھا تھا ۔۔
تم اپ سیٹ کیوں ہورہے ہو ؟ ہمارا ساتھ بس یہیں تک تھا ۔۔ مجھے یقین ہے ایجنسی تمہیں دوسرا موقع ضرور دے گی ۔۔ تم خوب دل جوئی سے کام کرنا اپنے وطن کے لئے ۔۔اور کامیابیاں سمیٹنا ۔۔ تم بہت بہادر اور قابل ہو فیصل ۔۔۔ تم ان سب سے مختلف ہو جن کے ساتھ میں نے کام کیا ۔۔ تم مجھے ہمیشہ یاد رہو گے فیصل!
وہ بہت اپنائیت اور مان سے بولی تھی ۔۔ فیصل دل پر بوجھ سا آگرا ۔۔جوابا پھیکا سا مسکرایا ۔۔
ہیلی کاپٹر کی مخصوص آواز محسوس کرکے وہ کپڑے جھاڑتی ہوئی اٹھی ۔۔
فیصل ساکت و جامد بیٹھا تھا ۔۔ ہر گزرتا لمحہ دھڑکنوں میں طوفان سا برپا کر رہا تھا ۔۔ یوں لگ رہا تھا اب جدا ہوا تو اسے کبھی نہیں دیکھ پائے گا۔۔۔
فیصل چلو ! نایا کو کہنا پڑا
وہ مرے مرے قدموں اٹھاتا اسکا ساتھ دینے لگا ۔۔ فورسز کے جوانوں کو اترتا دیکھ کر اسکے احساسات انتہائی موڑ اختیار کرگئے ۔۔
میں نہیں جائوں گا ! اس نے خود کو کہتے سنا ۔۔
کیا مطلب نہیں جائو گے ؟ وہ تمہارے لئے خطرہ مول لے کر یہاں تک آئے ہیں۔۔ ہمارا زیادہ دیر تک انتظار نہیں کریں گی فیصل ۔۔ غیر ملکی حدود میں ٹھہرنے کا مطلب جانتے ہونا ۔۔ ہم سب خطرے میں پڑ جائیں گے ۔۔۔ وہ دبہ دبہ غرائی
نہیں ۔۔ میں آپ کو چھوڑ نہیں جائوں گا ۔۔ وہ بضد ہوا
تم ہیڈ کوارٹر پہنچ کر ہماری مدد کرنا فیصل ۔۔ تمہارا یہاں رہنا ہم سبکو خطرے میں ڈال دے ۔۔ اور سب سے بڑی بات تمہاری جان اسوقت خطرے میں ہے !
اسکے لہجے میں عاجزی در آئی ۔۔ فوسرز کے جوان سائنز ڈھونڈتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے تھے ۔۔
جائو ، اپنا خیال رکھنا فیصل ۔۔ اس نے فیصل کو جوانوں کے حوالے کردیا ۔۔ مخصوص سیاہ فام وردی میں ملبوس اسلحے سے لیس جوانوں کو دیکھ کر اس پر سکتہ طاری ہوگیا ۔۔
میں ایک منٹ ۔۔آفیسر میں ۔۔ آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں میری یہ ریکویسٹ ہیڈ کواٹر تک پہنچا دیں وہ ضرور۔۔۔
اچانک سے ایک سوئی نما چیز اسکی گردن چبھی ۔۔ لمحوں میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر گر گیا ۔۔ جوان اسے اٹھا کر روانہ ہونے لگے ۔۔
جنرل بخشی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
اس نے آفیسر کے ہاتھ سے ٹیلیکام لے کر کان لگایا ۔۔ آواز کٹ کٹ کر آرہی تھی ۔۔ہیلی کاپٹر کے شور میں اسے ٹھیک سے سنائی نہیں دیا ۔۔ ہیلو۔۔۔ جنرل ۔۔؟؟ وہ تقریبا چلائی ۔۔ خطرے کے سائن محسوس کرتے ہی وہ سب احتیاطی بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے ۔۔۔ اور ہوائوں کے سنگ اڑان بھرتے ہی فضائوں میں کہیں غائب ہوگئے ۔۔ اس نے ٹیلیکام جیب میں اڑسی لیا ۔۔اور گن میں گولیاں چیک کرنے لگی ۔۔ ایک گولی دیکھ کر وہ شدید مایوسی میں گِھرگئی تھی ۔۔ دور کہیں روشنیاں چمکنے لگیں ۔۔ممکنہ طور پر روسی فوج حرکت میں آچکی تھی ۔۔ اسکے پاس بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔
اس نے بھاگنا چاہا لیکن جھاڑیوں سے ہیولہ سا نمودار ہوا ۔۔۔ اس نے سنبھلنا چاہا مگر مقابل کا نشانہ بہت درست تھا ۔۔وہ بندوق کی گولی کی زد میں آگئی ۔۔۔وہ بری طرح لڑکھڑائی ۔۔اسکی گن چھوٹ کر دور جا گری ۔۔
وہ انتہائی غم و غصے کے عالم میں اپنا بازو دبوچے اس شخص کو گھورنے لگی ۔۔ خون ابل ابل کر انگلیوں کے زروں سے بازو پر لکیریں کھینچنے لگا ۔۔ اگلی کاروائی پر وہ تیورا کر گری ۔۔ مگر اسکے حواس بیدار تھے ۔۔ روسی فوجیوں کی موبائلیں قریب ترین محسوس ہورہی تھی ۔۔ ہیولہ بے چینی سے اسکی جینز کی جیبیں ٹٹول رہا تھا ۔۔ مبادہ وہ کسی چیز کی تلاش میں ہو۔۔ اس نے اٹھنے کی بہت کوشش کی ۔۔ مگر سر پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ آہستہ آہستہ اسکا زہن تاریکیوں میں چلا گیا ۔۔
___________________________________
فاتح ۔۔ فااااااااتح اٹھووو بھی؟؟؟
کوئی زوروں سے اسکا کندھا ہلا رہا تھا ۔۔ اس نے کسمسا کر ایک نظر خود پر جھکی نوال کو دیکھا اور کشن اٹھا کر منہ پر جما لیا ۔۔ نوال نے پھر سے اسے جھنجھوڑا ۔۔
کیا مصیبت آن پڑی ہے صبح صبح ؟؟؟ وہ جھلا کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔
صبح ؟ وہ گلا پھاڑ کر چیخی
ٹائم دیکھو فاتح بارہ بجنے والے ہیں آج ہمارا ولیمہ ہے … اور تمہیں دیکھو ۔۔ کتنی بری بات ہے ہم گھر پر بھی نہیں ہیں گھر والے کیا سوچ رہے ہوں گے ۔۔ ہم کیا جواب دیں گے فاتح۔۔۔ وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی ۔۔ اسے واقعی بہت شرمندگی ہورہی تھی ۔۔
سیرئیسلی نوال ۔۔ یہ سب فضولیات سنانے کے لئے تم نے میری نیند خراب کی ! فاتح تعجب بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔۔
یہ فضولیات ہیں ؟ اسےصدمہ پہنچا
نوال دیکھو میں آخری بار بتا رہا ہوں آج کے بعد اس طرح کی بے تکی باتوں پر میری نیند خراب مت کرنا ورنہ میں بہت برا پیش آئو گا ۔۔ اس نے بہت تحمل سے کہا تھا ۔۔
یہ بے تکی بات نہیں ہے کیا جواب دوں گی گھر والوں کو ۔۔ او خدا۔۔ اب تک تو شاہین ماموں کو بھی خبر ہو گئی ہو گی یا اللہ کس قدر شرمندگی کی بات ہے ۔۔ اس نے سر پکڑ لیا ۔۔۔تمہاری ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا نوال؟کس قسم کی باتیں کر رہی ہو صبح صبح جس کو جو سوچنا ہے سوچنے دو ہمیں اس سے کیا ؟ فاتح خاصا چڑ کر بولا تھا ۔۔
تمہیں فرق نہیں پڑتا ہوگا مجھے پڑتا ہے !
نوال کے اعصاب تنے۔۔
تمہاری مرضی یار اس نے جان چھڑانی چاہی ۔۔
ہم ابھی اور اسی وقت گھر جائیں گے
ہم ناشتہ کیئے بغیر نہیں جائیں گے وہ بضد تھا
مجھے ناشتہ نہیں کرنا
مجھے کرنا ہے ۔۔ وہ دوبدو بولتے آمنے سامنے آگئے۔۔ آواز کب بلند ہوئی احساس ہی نہیں ہوا ۔۔
ٹھیک ہے کرتے رہو میں جا رہی ہو ۔۔ وہ اسے گھورتی ہوئی مڑی
اگر تم گئی تو میں برا پیش آئوں گا نوال ۔۔ فاتح نے لپک کر اسکی کلائی دبوچ کر روکا ۔۔
نوال غصیلی نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گئی ۔۔
تم کتنی بڑی overthinker ہو یار ۔۔ خوامخواہ کی چخ چخ سے اتنی حسین صبح کو خراب کردیا ۔۔ کہہ دینا اپنے شوہر کے ساتھ تھی بس بات ختم ! وہ رسان سے بولا ۔۔ اسکے کانون کی لائیں تک سرخ پڑگئیں ۔۔جسے دیکھ کر دلفریب سی مسکراہٹ نے فاتح لبوں کا احاطہ کیا ۔۔
وہ ایک رات میں اتنا کیسے بدل گیا تھا اسے سب خواب جیسا لگ رہا تھا ۔۔ جیسے آنکھ کھلے گی تو سب غائب ہوجائے گا ۔۔ نوال نے گھبرا کر اسکے چہرے سے نظریں ہٹا لیں ۔۔ فریش ہونے کے بعد دونوں نے ناشتہ کیا ۔۔اور فاتح نوال کر گھر چھوڑ کر منظر سے غائب ہوگیا ۔۔۔ ولیمہ چونکہ رات کے وقت ہال میں تھا اسلئے سب گھر والے ریلیکس ہوکر لائونج میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔
صد شکر ماموں سے سامنا نہیں ہوا ۔۔ تاشا معنی خیزی سے مسلسل لگاتار اسے گھور رہی تھی ۔۔
اسے دیکھتے ہی بولی تھی
کاش ہمیں بھی کوئی حسین سا بندہ مل جائے جس کے ساتھ ساحل سمندر کی ریت پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتے ہوئے ڈھیروں باتیں کریں ۔۔۔ افففف کتنا حسین منظر ہوگا وہ
وہ حسرت سے خلائوں کے گھورنے لگی ۔۔نوال نے کشن اٹھا کر اسے دے مارا ۔۔جو اس نے مہارت سے کشن کیچ کرلیا ۔۔
اماں دیکھیں ۔۔دیکھیں کیسے بلش کررہی ہے ۔۔
میری چھوڑو اپنی بتائو بڑا میجر عون سے ہنس ہنس کر باتیں کی جارہی تھی ۔۔ نوال کی بات پر وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔
نہیں تو ۔۔ وہ تو بس ان کی جاب کافی ٹف ہے نا تو میں نے سوچا دو چار باتیں کرلوں ۔۔ یو نو مسکراہٹیں بانٹتے رہنا چاہیئے ۔۔ اس نے بات بنائی
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا ۔۔ نوال نے محاورہ گھڑا
عشق تو یوسف صاحب کو ہوگیا ہے آج کل بات بے مسکراتے رہتے ہیں ۔۔ روشن نے بھی انکی گفتگو میں حصہ ڈالا
کس سے ؟؟ روشن کی بات پر تاشا حیرت سے اچھلی
اپنی شزانہ سے ۔۔ روشن کی نظروں سے بھلا کچھ چھپا رہ سکتا تھا
یوسف بھائی تو بڑے چھپے رستم نکلے یار۔۔ ہماری ناک کے نیچے ہماری ہی دوست سے عشق لڑایا اور ہمیں خبر ہی نہیں ہوئی تاشا غمزدگی سے بولی ۔۔
لیکن دیکھو چوائس لاجواب ہے یوسف صاحب کی ۔۔
سو تو ہے تاشا نے اسکی بات سے اکتفا کیا ۔۔
اماں آپ کیا کہتی ہیں …
یوسف نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی ۔۔
اماں نے اسے گھورا ۔۔
وہ سب چھوڑیں آپ بتائیں آپ کو کیسی لگتی ہے۔۔
وہ جاننے پرمصر تھی ۔۔
اچھی لڑکی ہے ۔۔ معصوم سی بھولی بھالی سی ۔۔ مگر لگتا ہے کرنل جاوید کی زوجہ اسے آگے پڑھانا لکھانا چاہتی ہیں ۔۔ اور ابھی اس بچی کی عمر ہی کیا ہے ۔۔
تو ہمارے ہاں کونسا پڑھنے لکھنے پر پابندی ہے ۔۔
وہ تڑخ کر بولی
تاشا بال کی کھال نکالنے مت بیٹھ جایا کرو ۔۔ یوسف اپنی خواہش ظاہر کرے جبھی میں کچھ کر سکوں گی ۔۔ اور اس روشن کو بھی میں دیکھتی فضول میں لوگوں کے نجی معملات پر نظر جمائے رکھتی ہے ۔۔ فارغ لڑکی ۔۔ اماں نے تاشا کے ساتھ روشن کو بھی گھرک دیا ۔۔
نوال نے لب دباکر اسکی بے عزتی کا مزہ لیا ۔۔
چلو ۔۔ اٹھو نوال کے ساتھ اسکا سامان تیار کروالو ۔۔ اور فاتح کے کمرے میں شفٹ کرو ۔۔ وہ بسورتی ہوئی اٹھی تھی ۔۔ جبکے نوال قہقہہ لگا کر ہنس دی ۔۔
___________________________________
دائم کسی طرح وہاں سے نکل آیا تھا ۔۔ اس کا پیر کسی چیز سے ٹکرانے کے بعث شدید زخمی ہوچکا تھا ۔۔۔ سگنلز نہ ہونے کے بعث اسکا رابطہ بھی نہیں ہو پارہا تھا ۔۔
اچانک سگنلز کا غائب ہونا کوئی عام بات نہیں تھی ۔۔ اسے خطرے کی بُو محسوس ہو رہی تھی ۔۔ نایا کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا ۔۔ وہ غم و غصے کی لپیٹ میں آچکا تھا ۔۔ مگر ان لمحات میں اعصاب کو پرسکون رکھنا ہی اسے کسی مقام تک پہنچا سکتا تھا ۔۔
سب سے پہلے اس نے پرانے ٹھکانے پر جانے کا ارادہ کینسل کردیا تھا ۔۔ اسے آس پاس کوئی محفوظ جگہ دیکھ کر رات گزارنی تھی ۔۔ دوسری ضروری بات جنرل سے رابطہ تھا ۔۔
جو اسے کسی بھی حال میں ممکن بنانا تھا ۔۔
اس نے ھانی کو فلحال جانے دیا تھا ۔۔ اسے یہ بھی معلوم تھا وہ اگلا کام کیا کرے گا ۔۔ !! اس سے پہلے وہ اسکی گردن مروڑ دے گا ۔۔
وہ چلتے چلتے کسی طرح شاہراہ پر پہنچ گیا تھا ۔۔ روسی فوج کو چوکنا دیکھ کر اسکے اعصاب چٹخے ۔۔
سب سے پہلا خیال اسے نایا اور فیصل کے متعلق آیا تھا ۔۔ انتہائی حالات میں انکی اولین ترجیع اپنی اپنی جان بچانا ہوتی تھی۔۔
وہ پبلک ٹیلیفون بوتھ پر پہنچ کر جنرل بخشی کو فون ملانے لگا ۔۔ خوشآئنی طور پر رابطہ ممکن ہوگیا
اس نے تمام حالات ان کے گوش گزار کردیئے ۔۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح پرسکون طریقے سے اس پر اعتماد جتایا تھا ۔۔ حالات کو اپنے حق میں کرنا وہ بخوبی جانتا تھا ۔۔ لیکن جنرل کی اگلی بات اسے پریشانی میں مبتلا کر گئی تھی ۔۔ نایا کے والد کے متعلق سن کر وہ چند لمحے خاموش رہا تھا ۔۔ باپ کا وصال اور وہ خود خطرے سے جونجھ رہی تھی ۔۔
میں نے آفیسر نایا کے متبادل بہت بہترین ایجنٹ کا انتخاب کیا ہے وہ اسکی جگہ خدمات انجام دے گا ۔۔ !!
اس نے جنرل کی بات سے اکتفا کیا ۔۔ بلاشبہ انہوں نے بہترین فیصلہ کیا تھا ۔۔۔ ویسے بھی وہ اپنے حصے کا کام سرانجام دے چکی تھی ۔۔ بقیا کام اسکا تھا ۔۔ اور اب وقت حساب کا تھا۔۔ انجام کا ۔۔ اختتام کا
وہ جیبوں میں ہاتھ گھسائے مطمئن سا سنسان سڑک پر چلتا منظر سے غائب ہوگیا ۔۔۔
__________________________________________
صبح اسکی آنکھ جلدی کھل گئی۔۔ بوجھل دل سے آنکھیں رگڑتی ہوئی بیڈ سے اتری ۔۔ فون چیک کیا تو ابراہیم کی طرف مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔
اس نے فون ڈریسر پر پٹخ دیا ۔۔ لاشعوری طور پر اسکی نظر تہہ شدہ کاغذ پر پڑی ۔۔لمحے کے ہزاویں حصے میں اسکا دل کئی بار دھڑکا ۔۔وہ خدشات میں گھرگئی۔۔ کئی بار اس نے ہاتھ بڑھا کر واپس کھینچا …. پھر ہمت جٹا کر کاغذ اٹھا لیا
تم سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں عمارا ۔۔ لیکن وقت بہت کم ہے ۔۔۔تمہیں یاد ہوگا میں نے گزشتہ روز جاب اور دوسری بیوی کے متعلق ذکر کیا تھا پورا سچ یہ ہے کہ میں گزشتہ کئی برس سے ملٹری-انٹیلیجنس کا حصہ ہوں ۔۔ تم اسے میری دوسری بیوی سمجھ لو ۔۔۔ جتنی ضرورت تمہیں میری ہے اس سے کئی زیادہ ضرورت جاب کو ہے ۔۔ جو اب میری اولین ترجیع ہے ۔۔
میں پچھلی ساری باتیں بھلا چکا ہوں تم بھی بھول جائو۔۔ اور اپنے کل کے بارے میں سوچو میں جانتا ہوں ازدواجی زندگی کو لے کر تمہاری بھی خواہشات ہوں گی ۔۔ جو میری اکثر و بیشتر عدم موجودگی بعث پوری نہیں ہو سکیں گی ۔۔ میں بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔ تمہاری محبت نے مجھے تھکا دیا ہے ۔۔۔ میں شاید پوری زندگی بھی لگا دوں تب بھی تمہارے دل میں جگہ نہ بنائوں ۔۔۔ تم نے اتنے سال میرے نام پر گزارے دیئے ۔۔۔ اب اور نہیں ۔۔ میں نہیں چاہتا تم ٹکڑوں پر زندگی گزارو ۔۔ تمہارا بھی خوشیوں پر پورا حق ہے۔۔ بیشک مجھ سے جدا ہوکر ہی سہی ۔۔ میں چاہتا ہوں تم مجھے اور میری جاب کو بخوشی قبول کرلو ۔۔اسکے لئے تمہیں بہت سی خواہشیں قربان کرنا ہوں گی۔۔اگر نہیں تو میں تمہاری خوشی کے مطابق فیصلہ سنادوں گا ۔۔ زندہ سلامت لوٹا آیا تو ۔۔
میرے لئے دعا کرنا
ابراہیم ۔۔
آنسو ٹپ ٹپ رقعے پر گرنے لگے ۔۔۔ لفظ دھندلا گئے ۔۔۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میں مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی بیڈ پر گر گئی ۔۔
کیا وہ اسے اتنی سطحی سوچ کی مالک سمجھتا تھا ۔۔؟؟؟ وہ کیوں اسکی جاب کو قبول نہیں کرے گی ؟ نہ قبول کرنے کا کوئی جواز نہیں اٹھتا تھا ۔۔ اسے سب سے زیادہ تکلیف اسکے آخری الفاظوں سے ہوئی تو ۔۔۔
‘اگر میں زندہ سلامت لوٹا آیا تو’
اگر وہ نہیں آیا تو ۔۔ ؟؟ اس سے آگے کی سوچ اسکی روح فنا ہونے لگی تھی ۔۔۔
باجی آپ ناشتے میں کیا کھائیں گی ؟؟
اپنی ہی جون میں بولتی فیروزہ حسب عادت کمفرٹر درست کرنے لگی ۔۔
باجی؟ ؟؟ جواب نہ پاکر اسکا کندھا ہلایا ۔۔ تو جیسے اس میں جان لوٹ آئی ۔۔
ہوں ؟؟ ہاں؟ وہ ہونکو کی طرح اسکی صورت دیکھنے لگی ۔۔ باجی کیا ہوگیا آپ کو؟ ؟؟ اسکی پریشانی میں ڈوبی آواز پر عمارا نے سر اٹھایا ۔۔
وہ چلا گیا فیروزہ ۔۔ انتظار کی ایک کچی سی ڈور تھما کر۔۔ وہ پھر سے چلا گیا ۔۔ رنج و غم ، بے بسی ، یاسیت ، غصہ ، پریشانی ۔ ۔ کیا کیا نہ تھا اسکے لہجے میں ۔۔
وہ تکیے پر سر کھ کر سسکنے لگی ۔۔فیروزہ حیران پریشان رہ گئی
__________________________________________
لائٹ پرپل کلر کی ہلکی سی کامدار میکسی کے ساتھ نفیس سی جیولری اور ہلکے پھلکے میک اپ کیئے بے حد حسین لگ رہی تھی ۔۔۔ فاتح کے حواسوں پر مکمل چھائی ہوئی تھی ۔۔۔ اسکی نظریں مسلسل نوال کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔۔۔ جو شزانہ اور تاشا کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی ۔۔۔ شاکرہ بیگم بہت اداس تھیں آج ۔۔
نصیبہ پھپھو نے بارہا ان سے دریافت کرنا چاہا مگر وہ ٹال گئیں ۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے عمارا کا فون آیا تھا وہ طبیعت خرابی کے بعث نہ آنے کی معذرت کر رہی تھی ۔۔۔
ان کا دل جانتا تھا ۔۔ وہ کیوں نہیں آئی تھی ۔۔ ابراہیم کو جانے کیا ہوگیا تھا ۔۔ وہ کیوں اتنا بددل ہوگیا تھا اسکی طرف سے ۔۔ شاید مسلسل کام اور زندگی کی تلخیوں نے اسکے احساسات کا خون کردیا تھا ۔۔
شاکرہ بیگم نے کتنی بار اسے سمجھایا ۔۔ جاتے ہوئے ‘دلہن’ سے مل کر جانا ۔۔ مگر مجال ہے اسکے کان پر جوں تک رینگی ہو۔۔ انکا دل کہتا تھا عمارا بدل گئی ہے ۔۔ وہ پسند کرنے لگی ہے ابراہیم کو ۔۔۔
ابراہیم تھا کہ اسے سزا دینے پر تُلا ہوا تھا ۔۔
شاکرہ بیگم کو بہت برا لگ رہا تھا ۔۔۔ گھر میں خوشی کا ماحول تھا اسلئے ابراہیم نے جانے سے پہلے صرف شاکرہ بیگم کو بتایا تھا ۔۔ اس کے بعد شاید عمارا کو ۔۔
اماں آپ کچھ چھپا رہی ہیں مجھ سے ؟ پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے ۔۔
تمہیں بھی لگتا ہے روشن کی طرح ہر معاملے کی کھال ادھیڑنے کی عادت ہوگئ ہے ! شاکرہ بیگم نے اسے بیچ میں ٹوک دیا ۔۔
کچھ تو ہے اماں ابراہیم بھائی بھی غائب ہیں صبح سے ۔۔ اور عمارا بھابھی نے بھی آنے سے انکار کردیا ۔۔ اچانک طبیعت کیسے خراب ہوگئی ان کی ۔۔ !!تاشا نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔
سوچتی رہو بیٹھ کر ۔۔ اماں اسے گھور کر چلی گئیں ۔۔ ہونہہ ! اب اتنی بھی فارغ نہیں ہوں اس نے منہ چڑایا ۔۔
عون کی بے اختیار ہنسی چھوٹی تھی اسکی صورت دیکھ کر ۔۔ ابراہیم کے مشن کے متعلق اسے بھی علم تھا ۔۔ اسلئے وہ اس صورتحال کا لطف لئے بغیر نہ رہ سکا ۔۔
غالبا آپ مجھ پر ہنس رہے ہیں ؟
اسکی بے وقت ہنسی پر غصہ آیا تھا
نہیں نہیں میں بلکل آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔۔ یہ شک و شبہات میں پڑنے والی بات ہے !
وہ بظاہر سنجیدگی سے بولا
مجھے لگتا ہے وہ کوئی سیکرٹ مشن پر گئے ہیں ! اس نے منہ پر ہاتھ جما کر رازداری سے کہا ۔۔
ہاں ہو سکتا ہے ۔۔ عون کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی ۔۔ عجیب آدمی ہے ۔۔ بات بے بات ہنس پڑتا ہے !
اس نے بھنویں سکیڑ کر سوچا ۔۔ مخصوص ہیئر کٹ نفاست سے سیٹ کیئے بال ، پرکشش خدوخال اور صاف شفاف رنگت پر نیوی بلو تھری پیس زیب تن کیئے وہ بہت نمایاں نظر آرہا تھا ۔۔۔
ہینڈسم کہیں کا ! وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔۔
کچھ کہا آپ نے؟؟
نہیں تو ۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔ دانت دکھاتے ہوئے کھسیا کر کہتی فورا مکر گئی
عون کے لئے اسکا ہر ہر انداز دلفریب تھا ۔۔۔ وہ جلد ہی مام سے بات کرے گا اس کے متعلق ۔۔۔اس انوکھی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا مصمم ارادہ باندھ لیا تھا ۔۔
__________________________________________
وہ نیم بے ہوشی کی کیفیات میں سب محسوس کر رہی تھی کوئی اسکے ہاتھ پائوں کو ڈکٹ ٹیپ سے جکڑ رہا تھا ۔۔۔ اسکے باوجود اسکے شل اعصاب اسے اجازت نہیں دے رہے تھے کہ وہ مزاحمت کرنے کے لئے ہاتھ پیر مارتی ۔۔۔
اگلے پل کسی نے یخ ٹھنڈہ پانی اسکے منہ پر اچھالا تو اسکے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔۔ ایسی خون جما دینے والی سردی میں ٹھنڈا پانی کسی بھیانگ ٹارچر سے کم نہیں تھا ۔۔ اس نے بغور مقابل کا چہرہ دیکھنے کی سعی کی مگر وہ ناکام رہی ۔۔ آس پاس بہت سی دوائوں کی بو آرہی تھی ۔۔ وہ سمجھ نہیں کونسی جگہ پر ہے ۔۔
وہ ہارڈ ڈسک کہاں ہے ؟؟؟ کسی نے بے دردی سے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر جھٹکا دیا ۔۔۔ وہ کچھ کچھ سمجھ چکی تھی ۔۔ لیکن ڈسک تو اس نے فیصل کے حوالے کردی تھی ۔۔ جس میں ساری انفارمیشن تھی ۔۔۔
دوسروں کی محنت پر ہاتھ صاف کرنے والی عادت جائے گی نہیں ناں تم لوگوں کی ۔۔ شاید انہیں حرکتوں کی وجہ سے تم لوگ جلا دیئے جاتے ہو ۔۔ وہ زہر خند لہجے میں بولی ۔۔اس مشکوک شخص کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہات میں پڑے بغیر بتا سکتی تھی کہ وہ پڑوسی ملک کا نمائندہ( ایجنٹ) تھا ۔۔ جسے اب ان کی حاصل کردہ انفامیشن چاہیئے تھے ۔۔۔ یا تو وہ بیوقوف تھا ۔۔یا اسے سمجھ بیٹھا تھا۔۔اس انفارمیشن کی خاطر تو اتنے پاپڑ بیلے
تھے ۔۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ شیئر کردے
بکواس بند کرو ! وہ غرایا ۔۔ نایا کے تکلیف زدہ چہرے پر زہر خند سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں روسی فوجی یہاں آجائیں گے ۔۔ دیکھنا تمہاری کیسے درگت بناتے ہیں ! وہ پلٹ کر دوائوں کی شیشی سے محلول سرنج میں بھرنے لگا ۔۔مگر اسکی دھمکی کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تھا ۔۔
وہ دھیرے دھیرے ہاتھوں کو حرکت دینے لگی ۔۔ گرفت ڈھیلی پڑی تو اس نے ایک جھٹکے سے دونوں ہاتھوں کو جدا کیا ۔۔ درد کی شدید لہر اسکے جسم دوڑی ۔۔ بمشکل سسکیوں کا گلا گھونٹ کر وہ مقابل شخص پر پل پڑی ۔۔۔ بہت جتن کرنے کے بعد انجیکشن اسکے ہاتھ سے چھین کر گردن میں گھاڑ دیا ۔۔۔ وہ شخص انتہائی طیش میں نایا کی جانب کی بڑھا لیکن وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ان گنت ریکس میں سے ایک کی اوٹ میں ہوگئی ۔۔ اسے اندازہ تھا وہ دوائوں کی کسی فارمیسی یا اسٹور میں ہے ۔۔ ان کی مڈ بھیڑ کے باعث ٹارچ گر کر ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔حال میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔۔اسکی ہمت نہیں بن پارہی تھی اسکا مقابلہ کرنے کی۔۔وہ خود اس وقت شدید تکلیف میں تھی ۔۔ مزاحمت کے بعث اسکی بازو سے خون ابل ابل فرش اور اسکے کپڑے آلودہ کرنے لگا ۔۔ وہ سانس روکے دوائوں کی ریک سے لگ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ دانت بھیچ کر کراہتے ہوئے اس نے جیسے تیسے سیل زدہ ڈبوں میں سے بینڈچ نکالا اور الٹی سیدھی پٹی باندھ لی ۔۔۔ اسکا پورا وجود ٹھنڈ کے بعث کپکپی کی زد میں تھا ۔۔۔ اپنی مدد آپ کے تحت انجیکشن انجیکٹ کیا اور اس شخص کی جانب پیش قدمی کی ۔۔ جسکا پورا جسم نیلا پڑا ہوا تھا ۔۔ اگر وہ زرا سی بھی دیر کردیتی تو اسکی جگہ وہ خود پڑی ہوتی ۔۔ اس نے سر جھٹک کر ڈکٹ ٹیپ سے اسکے ہاتھ پیر مقید کردیئے ۔۔
بے شک تم ہمارے دشمن ملک سے ہو لیکن کیا ہے نا کہ ہمارے ہاں پڑوسیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اس لئے تمہارے لئے میں نے خاص اہتمام کیا ہے ۔۔ اس نے لائٹر روشن کرکے اس شخص کا چہرہ دیکھنا چاہا ۔۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ مجھے اسی دن پتا چل گیا تھا جس دن ہم جنت قدوسی کے پیچھے گئے تھے ۔۔ اور تم ہمارے ۔۔خیر ۔۔ اب تم روسی فوجیوں کے حوالے ۔۔ زندہ رہے تو پھر کبھی مت ملنا ۔۔ورنہ بہت برا حال کروں گی
اس بے حال شخص کی بے بس حالت کو دیکھ کر تاسف سے سر جھٹکا۔۔ اس نے کچھ ضروری چیزیں جو یہاں سے جمع کی تھی اٹھا کر بیگ میں ڈال لیں ۔۔۔اس شخص کی کلائی پر بندھی سروائیول کِٹ بھی کھینچ لی کو آگے اسکے کام آسکتی تھی۔۔۔
تمہارا تو اب جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔۔ روسی فوجی آتے ہوں گے وہ کیا کہتے ہیں تمہاری زبان میں سواااااہاااااا !
وہ جاتے جاتے فائر الارم کا بٹن پریس کرنا نہیں بھولی تھی ۔۔ رات کے تیسرے پہر فائر الارم کی آواز بہت دور تک گونجی تھی ۔۔ ڈیوٹی پر طعینات روسی فوجی دھم دھم کی آوازوں کے ساتھ دوڑتے فارمیسی میں داخل ہونے لگے ۔۔۔ اس نے پبلک فون بوتھ کا رخ کیا ۔۔ پہلے پہل اسے جنرل بخشی سے رابطے کی سوجھی ۔۔ پھر کچھ سوچ کر نمبر پریس کیا ۔۔
ہیلو ۔۔؟؟ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔۔
شکر ہے تمہاری آواز تو سننے کو ملی ۔۔ کیسی ہو تم؟؟ اور کہاں ہو؟؟ اسکا تفکر بھری لہجہ اسے چونکا گیا ۔۔
زندہ ہوں ۔۔ تم سے بات کر رہی ہو ! اس نے ضبط سے لب بھینچتے ہوئے بوتھ کے ستون کا سہارا لیا ۔۔۔
ؐلمحے بھر کے لئے ان کے درمیان خاموشی حائل ہو گئی ۔۔۔
آگے کیا آرڈرز ہیں میرے لئے؟ اسے ہی پوچھنا پڑا
تم واپس چلی جائو ۔۔ تمہارا کام ختم ہوگیا ہے !
وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔
چلی جائوں؟؟ کام ختم ہونے والا ہے ۔۔ ہوا نہیں ہے مسٹر کیپٹن ! اسے عجیب سا احساس ہوا ۔۔ انہونی کا احساس
ہاں مگر میں چاہتا ہوں تم واپس چلی جائو ۔۔ اور جنرل بخشی بھی یہی چاہتے ہیں ۔۔ تم نے اپنا کام بہت بہادری اور خوش اسلوبی سے نپٹایا ہے ۔۔
کیا بات ہے کیپٹن ؟ مجھے ایسا کیوں لگ رہا جیسے مجھ سے جان چھڑائی جارہی ہے ؟ یہ مزاق ہے کیا ۔۔؟؟ میں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک کام انجام دیئے ہیں ۔۔ جبکے اس مشن کے اختتام کا وقت ہے تو آپ چاہتے ہیں میں واپس چلی جائوں۔۔ وہ یکدم بھڑک اٹھی تھی ۔۔
دائم سے کوئی جواز نہیں بن پایا۔۔
نایا کے اعصاب بری طرح سے چٹخے ۔۔ اسے انتہائی جان لیوا خدشہ لاحق ہوا ۔۔ اس سے پہلے وہ خدشے کو زبان دیتی رابطہ منقطع ہوگیا ۔۔
اس نے ڈاریکٹ جنرل بخشی کو کال ملائی ۔۔ اس وقت جو اسکی سماعتوں نے سنا اسکا سانس لینا دوبھر ہوگیا ۔۔۔ گویا قیامت ٹوٹ پڑی ہو ۔۔ جنرل بخشی اسے نہیں بتانا چاہتے تھے ۔۔۔ وہ فیصل کے ساتھ ہی اسے بھی واپس بلانا چاہتے تھے مگر اچانک حالات بگڑ گئے تھے ۔۔ ان کے لئے یہ بات انتہائی پریشانی کا باعث تھی ۔۔اللہ اللہ کرکے رابطہ ممکن ہوا تو انہوں نے پہلی فرست میں اسے شام چھوڑنے کی تلقین کی ۔۔ یہ بھی جانتے تھے وہ نہیں مانے گی ۔۔ اسکی جگہ اگر کوئی اور (ایجنٹ) بھی ہوتا تو یہی کرتا ۔۔
جنرل بخشی کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے والد کے متعلق بتانا پڑا تھا ۔۔۔ وہ بمشکل اپنے حواسوں کو برقرار رکھ سکی تھی ۔۔۔ سنسان بیابان رستوں پر اس پہر سسکتی گرتی پڑتی وہ کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔۔ اس بھری دنیا میں وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھی ۔۔ باپ کی شفقت کا سایہ چھن جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے ۔۔! اسے یاد تھا مشن پر آنے سے پہلے جب ان سے ملی تھی تو وہ بہت تکلیف میں تھے ۔۔ کیسے جان نکلی ہوگی ان کی ۔۔ کاش وہ اس وقت وہاں ہوتی تھی ۔۔ کاش ان کے ساتھ دو پل اور گزارنے کو مل جاتے کاش کاش
اسکی زندگی میں بہت سے کاش سر اٹھانے لگے اور ہر کاش کے بعد آہوں اور سسکیوں کے سوا کچھ نہیں بچتا تھا ۔۔
______________________________________
میں سگریٹ نہیں پیتا لیکن لائٹر ساتھ رکھتا ہوں ۔۔تاکہ بروقت کام آسکے ..
وہ جو کب سے بھیگی ماچس جوجھ رہا تھا چونک کر پلٹا۔۔ ابراہیم نے لائٹر اسکی طرف اچھالا جو اس نے بروقت کیچ بھی کرلیا ۔۔۔
کیسے ہو باس ؟؟؟
دائم نے جواباً سر ہلاتے ہوئے سگریٹ سلگائی ۔۔
ہممم..تو کیا پلین ہے ؟؟ وہ دوسری طرف سے گزر کر سنگی بینچ پر براجمان ہوتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔۔
اُسے کسی بھی حال میں بھاگنے نہیں دینا ہے بس ۔۔ اتنا سا پلین ہے ! دھواں ہوا کی نظر کرتا ہوا مضطرب سا لگ رہا تھا ۔۔۔
مزاج برہم لگ رہے ہیں ؟؟ خیریت ؟؟ ابراہیم نے بغور اسکا تپا ہوا چہرہ دیکھا ۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔ کچھ بھی نہیں ! زندگی کبھی کبھی عجیب دوراہے پرلا کھڑا کرتی ہے ۔۔۔ جہاں نہ فرار ممکن ہے نہ کوئی راستہ نکلتا ہے !!
سگریٹ جوتے تلے مسل کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
فرار ویسے بھی ایک جاسوس کو زیب نہیں دیتی .. دم دکھائو اور راستہ بنائو۔۔اور انتہائی حالات میں صرف دو آپشنز کام کرتے ہیں خاک اور خون!
یا تو مر جائیں یا مار دیں گے..نہ بھاگنے دیں گے نہ جیتنے دیں گے۔۔اس پرکشش خدوخال والے نوجوان کی آنکھوں سے قابلیت چھلک رہی تھی ۔۔ لمبی سانس کھینچ کر سر جھٹکتا وہ اسکی بات متفق نظر آیا ۔۔
چلیں ؟؟ وہ اٹھ کھڑا ہوا
کہاں ؟ ابراہیم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔
کہیں تو چلیں گے ۔۔ اتنی ٹھٹھرتی سردی میں یہاں رات گزارنا ناممکن ہے !
ابراہیم سر ہلاتے ہوئے اٹھا اور اسکے پیچھے چل دیا ۔۔ صدیوں سے بند پڑے مکان میں قدم رکھتے ہی وہ کھانسنے پر مجبور ہوگئے ۔۔ مٹی ۔۔دھول ۔۔ جالے زدہ بند مکان میں ناقابل برداشت بو پھیلی ہوئی تھی ۔۔ اسکے باوجود دونوں صوفے جھاڑ کر لیٹ گئے ۔۔ صبح ہوتے ہی معمول کے مطابق سرگرمیاں انجام دینی تھی ۔۔۔ وہ دونوں ہی ان گنت سوچوں کو جھٹکتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگے ۔۔
دائم ان حالاتوں میں بھی خود کو کسی کے حصار میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔ چاہ کر بھی اس کے بارے میں سوچنے سے خود کو روک نہیں پارہا تھا ۔۔۔
بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگا ۔۔ وہ اتنا کنفیوز اور بے بس زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا ۔۔۔ اسے محبت ہوگئی تھی ۔۔۔ شاید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...