کچھ شمہ حال شہر کشمیر کا اس مقام میں کہنا بہت ضرور، اس واسطے تحریر ہوتا ہے کہ شہر کشمیر سابق میں سری نگر کہلاتا تھا اور آبادی عابدوں کی تھی۔ سواے قوم پنڈتاں کوئی اس میں نہ تھا اور وہ لوگ چنداں لذّات اغذیہ سے واقف نہ تھے، اس واسطے برگ و بار درختاں پر ان کا گذر تھا اور کسی کو کسی سے بغض اور عناد یا جنگ و غبار نہ تھا۔ گویا قطعۂ بہشت تھا۔ بقول استاد ؎
بہشت آں جا کہ آزارے نباشد
کسی را با کسے کارے نباشد
شدہ شدہ یہ ہوا کہ افغانان کوہستان کابل وغیرہ نے اس کو سر کیا اور ایسی ایسی زیادتی کی کہ معبدوں کو شکستہ اور خستہ کیا اور صدہا بلکہ ہزارہا آدمیوں کو زبردستی دین اسلام میں لائے۔ اب پنڈت اور مسلمان دو قوم اس میں بسنے لگی۔ بعد ازیں مہاراجا رنجیت سنگھ بہادر نے تین مرتبہ اس پر فوج کشی کی اور شکست پا کر واپس آئے، مگر مرتبہ چہارم میں بذریعہ کارداران کشمیر ملک کو فتح کیا اور سکھ کی قوم کو وہاں پر آمد و رفت کی اجازت دی جو کہ زمین دلچسپ اور آب و ہوا خوش آئندہ اور فرحت افزا تھی۔ قوم سکھ بھی وہاں جاکر مقیم ہوے۔ جبکہ ملک مذکور مہاراجا گلاب سنگھ کو ملا تو ہر قوم کے لوگ بسنے لگے اور اب تک آباد ہیں۔
شہر کا حال یہ ہے کہ دریاے وتستھا جس کو پنجاب میں دریاے جہلم کہتے ہیں شہر کے وسط میں جاری ہے، دونوں جانب آبادی شہر کی ہے اور اکثر مکاناتِ شہر کنارے پر اس طور سے ہیں کہ پانی کے اوپر ان کے بارجی یعنی کمرے وغیرہ نکلے ہیں اور اکثر حجرہاے چوبی پانی کے اوپر ہیں اور ان میں نشست کی جگہ بھی ہے، اور غسل بھی اس میں لوگ بباعث سردی ہوا کیا کرتے ہیں اور اسی طرح گزند ہواے سرد سے محفوظ رہتے ہیں۔ اور اس دریا میں سے بہت سے نالے علاحدہ کیے گئے ہیں کہ ہر ایک محلہ اور بازار میں جاری ہیں اور چھوٹی چھوٹی کشتیاں جن کو شکاری کہتے ہیں ان میں جاری رہتی ہیں اور ہر وقت موجود، جس وقت چاہو دو پیسے دے کر جہاں طبیعت چاہے چلے جاؤ۔ اور بعض بعض مکان کے اندر بھی اس نالہ میں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر لے گئے ہیں اور یہ سب نالہ اور نہر ہر وقت جاری رہتے ہیں اور اسی دریا سے چشمۂ ڈل کو بھی راہ ہے اور چشمۂ اولر ڈل کو بھی جا سکتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اس دریا پر سات پل ہیں جن کو بزبان کشمیری قدل کہتے ہیں اور ان کے نام ذیل میں درج ہوتے ہیں: ہمیرا قدل، حبہ قدل، عالی قدل، زینہ قدل، فتح قدل، نوا قدل، صفا قدل۔ اور ان سب پلوں پر دکانیں ہیں خصوصا زینہ قدل تو مشہور ہے کہ اس کی آبادی برابر آبادی ایک محلہ کے ہے۔ ہر قسم کے دکاندار وہاں موجود اور سب چیز مہیا، جہاں چاہو وہاں لے لو۔ ہر محلہ بلکہ ہر گھر میں باغات میوہ جات کے موجود، اور میوہ ایسے ایسے قسم کا کہ کبھی کسی اور شہر والے کےخواب میں بھی میسر نہ آیا ہو۔ یہ مشہور ہے کہ میوہ کابل اور قندھار اور ایران کا بہت اچھا ہوتا ہے، ہاں البتہ انگور کابل اور انار قندھار اور انگور اور سیب وغیرہ ایران کا کشمیر کے ان میوہ جات سے بہتر سنا ہے، مگر کشمیر میں ایک میوہ ہوتا ہے کہ اس کا ثانی روے زمین میں نہیں اور اس کو گلاس کہتے ہیں۔ یہ ایک میوہ خرد اور گول ہوتا ہے، رنگت سرخ اور شیریں اور نازک ایسا کہ لب بند ہوں اور چھلکا معلوم نہ ہو۔ انتہا یہ ہے کہ اگر ایک روز درخت سے جدا ہو کر رہ جاوے تو بباعث شیرینی اور نزاکت کے اس میں کرم پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے کھانے کا لطف یہ ہے کہ درخت سے توڑ کر دو گھڑی کے بعد اس کو کھا لے، اس دو گھڑی کے عرصے میں وہ مزاج پکڑ لیتا ہے اور حرارت جو تازہ میوہ سے ہوتی ہے وہ بھی زائل ہو جاتی ہے۔ انگور کشمشی وہاں بہت نازک ہوتا ہے، چھلکا تمام خوشے میں شاید بال کے برابر نکلے تو نکلے، توت بھی بہت شیریں ہوتا ہے اور انگور اور سیب اور ناشپاتی کا تو کچھ ذکر ہی نہیں یہ تو وہاں کے غریب غربا بطور چینیا کھایا کرتے ہیں۔ نہایت خوش مزہ اور ہاضم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بعد غذا اس کو کھاتے ہیں اور اس کے دو گھڑی بعد پھر اشتہا پیدا ہو جاتی ہے۔ سواے ان کے شفتالو اور گردالو اور سبزہ اور آڑو ایسے ایسے خوش مزہ ہوتے ہیں کہ جس کا کچھ بیان نہیں ہو سکتا، کھانے سے تعلق ہے۔ اور پشمینے کا حال تو اظہر من الشمس ہے اور علی ہذا القیاس سب شے وہاں کی لاجواب ہیں، قلم کو قدرت نہیں کہ اس کا بیان کرے تعلق بدید ہے۔ اگر کسی کو یہ شعر استاد ؎
اگر فردوس بر روے زمین است
ہمیں ست و ہمیں ست و ہمیں ست
صحیح کرنا ہو تو کشمیر میں جاوے اور جو عرفی کہہ گیا ہے وہ سب راست اور درست تصدیق ہو جاوے۔ بیت ؎
ہر سوختہ جانے کہ بہ کشمیر در آید
گر مرغ کباب است کہ با بال و پر آید
زیادہ اس میں تحریر کرنا فضول ہے۔ اس قدر اور لکھا جاتا ہے کہ آدمی کسی مشرب اور ملت کا ہو اس کو وہ مقام مناسب ہوگا۔ یعنی اگر عبادت کیا چاہے تو اس سے بہتر کوئی جگہ تنہائی کی نہیں اور اگر عیش کیا چاہے تو جو جو لذات دنیوی کی جہاں میں ہیں وہ اس مقام سے بہتر کہیں اور جگہ نہیں اور اگر گذر اوقات کیا چاہے اور غریب آدمی ہو تو وہاں کے برابر کہیں کم خرچ میں بسر نہیں کر سکتا۔ انتہا یہ کہ ایک یا دیڑھ روپے میں ایک آدمی کی شکم پری نان و گوشت سے ہو سکتی ہے۔ اور اگر کبھی میوہ ہی پر گذارہ کیا چاہے تو وہ مفت میسر ہو سکتا ہے۔ سیاحان ولایات انگلستان وغیرہ کی زبانی راقم نے سنا ہے کہ ایسی لطیف جگہ ولایت میں بھی نہیں، پس اور ولایت کا کیا ذکر ہے؟
اب ختم کرتا ہوں اور امید ناظرین باتمکین اوراق ہذا سے یہ ہے کہ بندۂ درگاہ الٰہی کو بدعاے خیر یاد فرماویں اور اگر کہیں عبارت میں سقم دیکھیں تو ذیلِ عفو سے پوشیدہ کریں کہ یہ چند اوراق براے سیر و ملاحظۂ شائقین تحریر ہوے ہیں نہ بغرض لیاقت فروشی اپنی کے ؎
ہر کہ خواند دعا طمع دارم
زانکہ من بندۂ گنہگارم
قطعہ تاریخ طبع سیر کشمیر طبع زاد علی محمد خان ولی
زتصنیف کہ کنہیا لال صاحب
کہ ہے تحریر ان کی نقش تقدیر
چھپی ہے ان دنوں ایک ایسی تاریخ
کہ ہر صفحہ ہے جس کا ایک تصویر
ولی نے بھی براے سال تاریخ
یہ لکھا ہے “کتاب سیر کشمیر”