میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکی۔۔۔ دل کر رہا تھا کہ ابھی زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جاؤں۔ میرے جسم پہ کپکی طاری ہوگئی ، پل بھر میں پورا جسم پیسنے سے شرابور تھا۔۔۔۔۔ اور میں بت بن کے آنکھیں پھاڑے عابدہ آپی کو دیکھی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کون تھا۔۔۔۔؟” انکی آنکھوں میں شدید غصہ تھا
“آپی ۔۔۔ وہ۔۔۔” میرا گلہ خشک ہوگیا
“میں پوچھ رہی ہوں کون تھا۔۔۔۔؟” انھوں نے پھر سے پوچھا
“جاسم۔۔۔ وہ جاسم تھا” جھوٹ بولنے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا اس لیے میں نے سچ بول دیا
“غضب خدا کا۔۔۔۔ کب سے چل رہا ہے یہ؟ میں ابھی امی کو بلا کے بتاتی ہوں کہ انکی ناک کے نیچے تم کیا گل کھلا رہی ہو۔۔۔۔۔ ” یہ کہہ کے وہ امی کے کمرے کی طرف بڑھیں۔ میں نے جلدی سے انکے پاؤں پکڑ لیے
“خدارا آپی۔۔۔۔ یہ ظلم نہ کریں، امی کو پتا چلا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گی، ہو سکتا ہے وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر دسکیں”
“بے حیا لڑکی۔۔۔ منہ کالا کرتے ہوئے تمہیں امی کا خیال نہیں آیا۔۔۔۔ اب آرہا ہے” وہ پھر سے گرجیں
“خدا کی قسم ، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے آپ لوگوں کو شرمندگی اٹھانی پڑے” میں گڑ گڑائی
“تو وہ بے غیرت رات کے اس پہر کیا کرنے آیا تھا ؟ پاگل سمجھتی ہو مجھے؟” انھیں میری بات پہ بالکل یقین نہ آیا
“مجھے میری جان کی قسم میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، ۔۔۔۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم دونوں ایکدوسرے سے پیار کرتے ہیں لیکن کبھی اپنی حدیں عبور نہیں کیں” میں نے پھر سے یقین دلانے کی کوشش کی
“کب سے چل رہا ہے یہ سب؟”
“بچپن سے دوست تھے جوانی میں محبت ہو گئی”
“ڈوب کے مر جا چھوٹی۔۔۔۔ ! ہم سب کی نظروں کے سامنے تْو یہ گل کھلاتی رہی اور ہمیں بھنک تک نہ پڑنے دی”
“میں سب کو بتانا چاہتی تھی، لیکن صحیح وقت کا انتظار کررہی تھی۔۔۔”
“صحیح وقت۔۔۔۔۔۔۔ ؟ کونسا صحیح وقت؟ جب تمہارے پیٹ میں اسکا بچہ ہوتا اور ہم سب بے بس ہوجاتے، وہ صحیح وقت؟ بد بخت امی کا ہی خیال کرلیا ہوتا، کن حالات میں انھوں نے پالا ہمیں۔۔۔۔ ”
میں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
“دیکھ میری بات دھیان سے سن، اگر تو وہ تجھ سے شادی کے لیے سنجیدہ ہے اسے کہہ دے جلد سے جلد اپنی ماں کو رشتے کے لیے بھیجے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا، میں امی سے کہہ کے کہیں تمہارا رشتہ کروا دیتی ہوں”
“آپی ! ابھی وہ سی اے کررہا ہے، اتنی جلدی کیسے شادی کر سکتا ہے؟”
“بھاڑ میں گیا اسکا سی ااے، اس سے بات کر کے مجھے بتا۔۔۔۔۔ ورنہ مجبوراً امی کو بتانا ہی پڑے گا” یہ کہہ کے وہ کمرے میں چلی گئیں، انکے بیٹے کے رونے کی آواز آرہی تھی
‘یہ میں نے کیا کردیا’ میں اپنے آپکو کوسنے لگی۔ مجھے جاسم سے سے بات کرنی چاہیے، میں اس کا نمبر ڈائل کرنے لگی
” تم وہاں پہ کیا کررہی ہو؟” امی کی آواز میرے کانوں میں پڑی تو میرے جسم پہ پھر سے لرزہ طاری ہوا
“کچھ نہیں امی ۔۔۔ وہ بس” میں ہڑ بڑا سی گئی
“چل جلدی سے نماز پڑھے لے، گھر میں اتنے سارے مہمان ہیں، انکے ناشتے کا انتظام کرنا ہے” یہ کہہ کے وہ کیچن کی طرف چل پڑیں
میں نے صحن میں ہی جائے نماز بچھا دی۔ صبح کی نماز پڑھ کے گڑ گڑا کے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ اور اس ذات پاک سے التجا کی کہ مزید کوئی بکھیڑا کھڑا نہ ہو۔ سب کے ناشتے کا انتظام کرتے کرتے صبح کے آٹھ بج چکے تھے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو برتنوں کا انبار سمیٹنا تھا۔ میری تو حالت ہی خراب تھی، ایک تو ابھی تک جاسم سے بات کرنے کا موقع نہ مل پایا، دوسرا عابدہ آپی کی تند و تیز نظریں میرے اوپر جمی تھیں۔ پرسوں رات سے لے کے اب تک میں مسلسل جاگ رہی تھی، اب تو دن میں بھی تارے نظر آنے لگے تھے۔ حمیدہ خالہ کی بہو اور شائستہ پھوپھو کی پوتیوں نے برتن دھونے میں میری مدد کی۔ سارے کام جلدی سے نپٹا کے میں نے سوچا تھوڑی دیر سو جاتی ہوں، نیچے بچوں نے شور ڈالا تھا۔ میں یہ سوچ کے چھت پہ چلی گئی کہ دھوپ میں چٹائی ڈال کے ذرا کمر سیدھی کرلوں گی۔ میرے پیچھے پیچھے عابدہ آپی بھی آ گئیں۔
“اس سے بات کی تم نے؟” وہ پوچھنے لگیں
“ابھی بات نہیں ہو پائی”
“کیوں”
” اس وقت وہ کالج میں ہوتا ہے ، واپس آئے گا تو میں اس سے تفصیل سے بات کرلوں گی” میں نے انھیں سمجھایا
“دیکھ چھوٹی۔۔۔ اگر ایسا ویسا کچھ ہے تو مجھے بتا دے، وقت رہیتے سب کچھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے” انھوں نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا
“کیا مطلب ہے آپکا” میں نے پوچھا
“اگرتم سے کچھ غلط ہوا ہے تو بتا دو، میں ایک دو گائنی سپشلٹ کو جانتی ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا” انھوں نے میرے اوپر پہاڑ توڑا
“آپی کیسے یقیں دلاوں آپکو؟ قسمیں کھا کے تھک گئی ہوں کہ ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہوا، اور ہاں اتنے سالوں میں ہم لوگ پہلی مرتبہ ایسے ملے ہیں، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا”میں چڑ کر بولی
“خدا کا خوف کر، گھر میں بیس لوگ موجود تھے، تْو تب بھی بعض نہیں آئی، جب صرف نادیہ اور امی گھر پہ ہوتی تھیں تب تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔ سوچ سوچ کے میرے تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ میری جگہ اگر کوئی اور تمہیں دیکھ لیتا تو؟؟ کوئی اور کیا امی ہی دیکھ لیتیں ۔۔۔ وہ تو صدمے سے مر جاتیں۔۔۔۔ خدایا میری ماں کو اور کسی امتحان میں نہ ڈالنا” انکی آنکھیں نم تھیں۔
دنیا کی مشہور کہاوت ہے کہ “شراب خانے میں بیٹھ کے دودھ بھی پیو توتب بھی لوگ شرابی سمجھیں گے”، میری حالت بھی بالکل ویسی تھی۔ میں چٹائی پہ لیٹ گئی، اور چہرہ دوپٹے سے ڈھک لیا۔
“شام تک مجھے جواب چاہیے۔۔۔ اس سے بات کرو اور مجھے بتاؤ، ورنہ میں خود جا کے اسکی ماں سے بات کروں گی” یہ کہہ کے وہ چلی گئیں
میں لمحہ بھر لیٹی ، پھر اٹھ بیٹھی، ایسی باتیں سننے کے بعد سکوں کہاں آنا تھا۔ میں نے موبائل فون نکالا اور جاسم کو میسج کیا
“کہاں ہو؟”
“دوست کے ساتھ ہوں” اس نے فوراً ریپلائی کیا
“مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ فری ہو کے کال کرو”
“خیریت؟”
“کال پہ بتاتی ہوں”
“او کے۔۔۔ گیو و می تھرٹی منٹس۔۔۔”
“او کے”
“لوّ یو۔۔۔۔ بائے”
“بائے۔۔۔۔”
میں پھر سے لیٹ گئی، پتہ نہیں کب آنکھ لگی۔ بچے کھیلتے کھیلتے اوپر آگئے تھے، انکے شور پہ میری آنکھ کھلی۔ موبائل دیکھا تو چالیس منٹ گزر چکے تھے۔ جاسم کا کوئی میسج یا کال نہیں آئی۔ میں نے اسے میسج کیا
“فری نہیں ہوئے ابھی؟”
جواب میں اس نے کال کی
“ہیلو۔۔۔ سویٹ ہارٹ”
“ہیلو ۔۔۔۔ جاسم”
“ہاں بولو۔۔۔۔”
“کل رات عابدہ آپی نے تمہیں باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔”
“اوہ۔۔۔ شٹ۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔ انھوں نے کچھ کہا تم سے؟”
میں نے تفصیلاً ساری بات اسے بتا دی۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ ضد پکڑ کے بیٹھی ہیں کہ جلد سے جلد تم اپنے والدین کو ہمارے گھر بھجواؤ
“واٹ۔۔۔۔۔ ؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ابھی میری پڑھائی مکمل نہیں ہوئی۔۔ اگر میں نے اپنے والدین کو کہا بھی تو وہ نہیں مانیں گے” اس نے سب سننے کے بعد جواب دیا
“جاسم ۔۔۔ ! حالات کو سمجھو، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ابھی بارات لے آؤ، ایک بار تمہارے والدین آکے رشتہ پکا کر جائیں، اسکے بعد بے شک تم پڑھائی مکمل کرو اسکے بعد ہم شادی کر لیں گے” میں اسے سمجھانے لگی
“بے بی۔۔۔ دیٹس ناٹ پاسیبل۔۔۔۔ ”
“تو تم چاہتے ہو میں ایسے ہی سولی پہ لٹکی رہوں؟ میں تلخ ہوئی
“یار۔۔۔ تم غصہ کررہی ہو، میری حالت بھی تو سمجھو، کسی طرح ٹالو اپنی آپی کو”
“ایسی صورت میں جب وہ تمہیں میرے ساتھ رات کے آخری پہر میں دیکھ چکی ہیں، اور تم کہہ رہے ہو میں انھیں ٹال دوں؟”
“لسن۔۔۔۔ مجھے سوچنے کا و قت دو، میں رات تک تمہیں بتاتا ہوں” یہ کہہ کے اس نے کال کٹ کردی
میں موبائل سکرین پہ نظریں جمائے سوچوں میں ڈوب گئی۔ امی نیچے آوازیں دے رہی تھیں، میں جلدی سے نیچے پہنچی۔ ہمارے خاندان کی ریت تھی کہ ولیمے کے بعد لڑکی والے دلہن اور دلہا کو اپنے گھر لے آتے ہیں۔ میں سمجھی کی امی نادیہ آپی کے سسرال جانے کی تیاری کررہی ہوں گی اس لیے آوازیں دے رہی ہیں۔ لیکن نیچے پہنچ کے پتا چلا کہ نادیہ آپی کی ساس کا فون آیا کہ ہم لوگ آج انکی طرف بس ولیمے کے لیے آئیں لیکن دلہا دلہن کو وہ ساتھ نہیں لے جانے دیں گی کیونکہ انکے خاندان میں منگل کا دن اس کام کے لیے منحوس مانا جانا جاتا ہے ۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ مزید ایک دن ان مہمانوں کو جھیلنا پڑے گا۔ امی نے نادیہ آپی کی ساس سے معذرت کرلی کہ وہ خود ولیمے پہ نہیں آ پائیں گی لیکن بچوں کو بھیج دیں گی۔
عابدہ آپی سمیت سارے مہمان انکی طرف ولیمے پہ چلے گئے۔ میں امی کے ساتھ گھر پہ رک گئی۔ امی نے مجھے کہا کے شمسہ آپی سے انکی بات کرا دوں تاکہ وہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔شمسہ آپی نے انھیں تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے وہاں۔ امی تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں لیٹ گئیں اور میں چھت پہ چلی آئی۔ جاسم کا اب تک کوئی میسج نہیں آیا تھا۔ میں نے اسکا نمبر ڈائل کیا اس نے فون اٹنڈ نہیں کیا اور ‘بزی’ کا میسج کر دیا۔
دو چار گھنٹوں میں سب لوگ واپس آ گئے، میں امی کے ساتھ پھر سے کام میں جت گئی۔ میں نے عابدہ آپی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انھوں نے پھر سے مجھے دھر لیا۔
“کیا جواب آیا؟” انھوں نے پوچھا
میں نے جاسم اور میرے بیچ ہوئی ساری بات چیت انکو بتا دی
“چھوٹی ۔۔۔ ! میرا دل کہتا ہے ، یہ لڑکا تم سے شادی نہیں کرے گا” انھوں نے پریشان ہوکے مجھے دیکھا
“اللہ کو مانیں آپی۔۔۔ جاسم ایسا نہیں ہے، بچپن سے جانتی ہوں اسے، آپکو یاد نہیں پورا پورا دن ہم اس صحن میں بیٹھ کے کھیلا کرتے تھے” میں نے انھیں تسلی دی
“بچپن اور جوا نی میں بہت فرق ہوتا ہے، تم ابھی نا سمجھ ہو ، حالات کو نہیں سمجھتی، لوگوں کی پہچان نہیں ہے تمہیں ” وہ کسی صورت مطمئن نہیں تھیں
“مجھے اللہ کی ذات پہ پورا بھروسہ ہے۔۔۔ میرے ساتھ کچھ برا نہیں ہوگا”
“اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا تم کہہ رہی ہو”
“انشاء اللہ”
“لیکن میری بات دھیان سے سنو، اگر اسے اپنے گھر والوں کو منانے کے لیے وقت چاہیے، ہم اسے ایک مہینے کا وقت دیتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ اور ہاں میں تمہیں بھی سختی سے تاکید کر رہی ہوں کہ اس پہ زیادہ وقت برباد مت کرنا، میں امی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی اس لیے یہ بات اپنی حد تک رکھ رہی ہوں، ۔۔۔ ایک مہینے تک اگر اسکی طرف سے جواب نہ آیا تو میں خود امی سے کہہ دوں گی کہ جلدی سے تمہارا رشتہ ڈھونڈیں، میں تمہیں اسکے پیچھے زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی” انھوں نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا، اور مجھے تسلی ہوئی کہ ایک مہینے کا وقت تھا ہمارے پاس، اس دوران جاسم ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا۔
اگلے دن ہم سب نادیہ آپی کو گھر لے آئے، وہ بہت خوش لگ رہیں تھیں۔ نادیہ آپی کے شوہر ارسلان بھائی انتہائی خوش اخلاق آدمی تھے، ساس سسر اور باقی گھر والوں نے بھی نادیہ آپی کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا تھا۔ امی بہت خوش تھیں ۔ اگلی صبح امی نے قریبی جاننے والی خواتین کو بلوا بھیجا تاکہ ان سب سے اپنی بیٹی اور داماد کو ملا سکیں۔ ڈھولکی بھی رکھی۔ ساری خواتین آگئیں لیکن جاسم کی امی نہیں آئیں۔ امی کو ایکدم سے خیال آیا کہ انکی طرف تو کسی کو بھیجا ہی نہیں تھا۔ میں نے امی سے کہا میں خود جاتی ہوں ان کی طرف، عابدہ آپی اپنے بچے اور شوہر کو تیار کرنے میں مصروف تھیں ورنہ وہ مجھے ہرگز نہ جانے دیتیں۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور جاسم کے گھر چلی گئی
وہاں پہنچی تو جاسم گھر پہ ہی تھا، گزشتہ دو دنوں میں اسکی اور میری ٹھیک طرح سے بات نہیں ہو پائی تھی۔ میں مہمانوں میں مصروف تھی اور وہ آجکل دوستوں کےساتھ بزی ہوتا تھا۔ مجھے سامنے دیکھ کے وہ مسکرایا
“آہاں۔۔۔۔ وہ آئے گھر میں ہمارے۔۔۔۔۔ ” اس نے گھسا پٹا شعر سنانے کی کوشش کی پر میں نے اسے بیچ میں کاٹا
“آنٹی کہاں ہیں؟”
“امی اوپر چھت پہ کپڑے ڈالنے گئی ہیں”
“تم نےبات کی ان سے۔۔۔” میں فوراً مدعے پہ آئی
“کم آن یار۔۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کال پہ بات کرتی ہو تو ایک ہی مدعا، میسج کرو تب بھی وہی بات،ابھی بھی وہی کر رہی ہو”
“جاسم ۔۔۔۔ ! تمہارے لیے یہ کہہ دینا بہت آسان ہے، آپی نے میری جان عذاب کی ہوئی ہے”
“تم تو ایسے پریشان ہورہی جیسے تمہارا رشتہ آیا ہوا ہے”
“اچھا ۔۔۔ تو اب تم میرا ر شتہ آنے کا انتظار کرو، تب کچھ کرنا”
“اف۔۔۔۔ کیا لڑکی ہے یہ۔،میری بات کا وہ مطلب نہیں تھا یار، اچھا سنو میں نے امی سے ہلکی سے بات چلائی ، پہلے انکو منا لوں پھر وہ ابا جی سے بات کریں گی”
“جو بھی کرنا ہے جلدی کرو۔۔۔ پلیز”
“اچھا بابا۔۔۔ کرتا ہوں کچھ۔۔۔۔”
اسکی بات سن کے مجھے کچھ تسلی ہوئی
“سنو۔۔۔” وہ پھر سے بولا
“جی۔۔۔!” میں نے جواب دیا
“پاس نہیں آؤ گی۔۔۔؟”
“شٹ اپ جاسم۔۔۔۔ ”
“واٹ شٹ اپ۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ مجھے تمہارے پاس آنا ہے”
“تمہارے اس پاس آنے کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہی ہوں، اب اگر تمہاری امی نے دیکھ لیا تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی”
“اف ۔۔۔ کتنی ان رومنٹک اور بورنگ ہو تم۔۔۔۔ شادی کے بعد بھی ایسے ہی کرو گی۔۔۔ ویسے تو بہت شوق چڑھا ہوا ہے شادی کا، پتا بھی ہے کہ شوہر کو کیسے خوش رکھتے ہیں؟؟” یہ کہتے کہتے وہ میرے قریب آ گیا۔ اور آتے ہی میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
“تم سدھرو گے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ چھت پہ پہنچی تو جاسم کی امی تار پہ کپڑے ڈال رہی تھیں۔ میں نے انھیں امی کی طرف سے مدعو کیا اور کہا کے جلدی سے آجائیں۔
میں جب نیچے آئی تو جاسم سیڑھیوں کے پاس ہی کھڑا تھا، میں جلدی سے اسکے پاس سے گزری اس نے میرای کلائی پکڑی، میرا پاؤں پھسلا میں سیدھی اسکے اوپر جا کے گری۔ وہ بھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا اور پیٹھ کے بَل فرش پہ گرا اور میں دھڑام سے اسکے اوپر۔۔۔
میری آنکھیں بند تھیں اور سانسیں تیز۔۔۔۔، میرے بال اسکے چہرے پر تھے اور اس نے میری کمر اپنے بازوں میں جکڑ لی۔۔۔
“یہ حسین اتفاق ہے یا پھر آپکے خطرناک ارادوں کی کارستانی۔۔۔۔؟” اپنے چہرے پر سے میرے بال ہٹاتے ہوئے وہ بولا
“یہ میرے ارادوں کی کارستانی نہیں ہے بلکہ آپکے اندر کا شیطان ہے جس نے جان بوجھ کے مجھے گرایا ہے” میں اسکا ہاتھ اپنی کمر سے چھڑانے لگی
“چلو۔۔۔ ! یہ الزام بھی ہم اپنے سر لیتے ہیں، اس شیطان کا بھی شکریہ جو بالآخر آپکو ہمارے پاس لے آیا۔۔۔” اس نے اپنے بازو میری کمر کے گرد اور زیادہ کَس لیے۔
“جاسم۔۔۔ ! چھوڑو مجھے، آنٹی آجائیں گی، کیوں مصیبت کو دعوت دیتے ہو۔۔۔ پلیز جانے دو” میں نے التجا کی اور مسلسل اسکا ہاتھ چھڑاتی رہی
“ایک شرط پہ چھوڑوں گا۔۔۔۔ ”
“کیا شرط؟”
“وہ یہ کہ تمہیں۔۔۔۔۔۔۔ ” اسکی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ، اسکی امی کے سیڑھیاں اترنے کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی۔ ہم دونوں کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے پھر سےآنکھیں بند کرلیں، میری حالت اس کبوتر جیسی تھی، جو سامنے آئی مصیبت کو دیکھ کے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...