موسم میں ہلکی خنکی اور ٹھنڈک سے بےنیاز وہ داخلی دروازے کے باہر بنی سیڑھیوں پر بیٹھا سردیوں کی نرم دھوپ سے لطف اٹھاتا اپنے موبائل میں مکمل غرق تھا۔ اس کی محویت میں خلل تب پڑا جب کسی نے اسے بری طرح سے جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ جو موبائل پر کچھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا اچانک سے ہوئے اس حملے پر اس کا موبائل نیچے زمین بوس ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے ہڑبڑا کر نگاہیں اٹھائیں تو اپنے برابر میں براجمان وجود کو خود کو گھورتے پایا۔
“مسٹر ارسل! ایسا بھی کیا خاص ہے اس موبائل میں کہ آپ کو اپنے ارد گرد کی دنیا کا کچھ ہوش ہی نہیں ہے؟ اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو مجھے بتانا پسند کریں گے آپ؟” رابیل اس کو طنزیہ نگاہوں سے دیکھتے گویا ہوئی۔
“ایسا کچھ خاص نہیں، تم بتاؤ کیا بات ہے جو تم اتنی بے چین ہو؟” وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ اپنی بات اس کے گوش گزار نہیں کرے گی آسانی سے ٹلنے والی نہیں اسی لیے موبائل ایک سائیڈ پر رکھتا اس کی جانب متوجہ ہوا۔
“مجھے کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔” اس نے گال پر انگلی رکھ کر پرسوچ انداز میں کہا۔
“محترمہ زیادہ علامہ اقبال بننے کی ضرورت نہیں ہے، جو بھی بات ہے سیدھی طرح کرو۔” اس کی ڈرامے بازی پر ارسل چڑ کر بولا۔
“یہ دانین آپی کچھ عجیب سی نہیں ہیں؟ ہر وقت ہی ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تاثر پیش کرتا ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید ہی وہ کبھی مسکرائی ہوں۔ تم نے ان کی آنکھوں کو غور سے دیکھا ہے کبھی؟ میں نے دیکھا ہے اور جانتے ہو میں نے آج تک اپنی زندگی میں کسی کی اتنی چمک دار آنکھیں نہیں دیکھیں لیکن پتہ ہے کیا، ان آنکھوں میں چمک کے ساتھ ہمیشہ سے ایک سرد و سپاٹ تاثر ہوتا ہے جس کو دیکھ کر مجھے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے۔” رابیل پاس رکھے گملے میں سے چنبیلی کے پھول توڑتی کسی ماہر تجزیہ کار کی طرح دانین پر اپنا تجزیہ پیش کرتی ہوئی بولی۔
” کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو ۔ مجھے بھی وہ کچھ مشکوک سی لگی ہیں۔ کہنے کو تو وہ یہاں چھٹیاں گزارنے آئی ہیں مگر ابھی تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا کہ جس سے لگے کہ وہ گھومنے کے لیے آئی ہیں۔ وہ وقت بے وقت باہر آتی جاتی ہیں اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ ڈیڈ کہہ رہے تھے کہ وہ پہلی بار یہاں آ رہی ہیں تو اصولاً انہیں ہم میں سے کسی کو ساتھ لے کر جانا چاہیئے مگر وہ بس ماما کو اطلاع دے کر چلی جاتی ہیں جیسے اس شہر کے چپے چپے کو جانتی ہوں۔” ارسل نے بھی برملا اس کی ہاں میں ہاں ملائی
” بالکل اور مجھے تو یہ تھوڑی مغرور بھی لگی ہیں ۔ ہر وقت ہی سنجیدہ سی اور اپنے آپ میں مگن رہتی ہیں۔ سوائے ماما اور بھابھی کے کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتیں حالانکہ میں نے کئی بار کوشش کی ہے کہ ان سے بات کروں مگر پھر ان کا سرد رویہ دیکھ کر میری ہمت ہی نہیں پڑتی۔” رابیل نے کچھ دن پہلے کی بات یاد کرتے ہوئے کہا جب اس نے ٹی وی لاونج میں بیٹھی دانین سے بات کرنے کی کوشش کی تھی تو اس نے ہوں ہاں کر کے اسے ٹال دیا تھا۔
” خیر چھوڑو! جو بھی ہے ہمیں کیا لینا ہے۔ چلو آؤ اندر چلتے ہیں، کل میرا ٹیسٹ ہے تو تم میری تھوڑی ہیلپ کر دو۔” ارسل نے اپنا موبائل اٹھاتے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
” اوکے چلو۔” رابیل بھی ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھی ۔ جیسے ہی وہ دونوں پلٹے تو ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کیونکہ سامنے ہی دانین سینے پر بازو لپیٹے کھڑی سنجیدگی سے دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کے سپاٹ تاثرات سے وہ دونوں جان نہ پائے کہ آیا وہ سب سن چکی ہے یا نہیں۔ ان دونوں کی فق ہوتی رنگت کو دیکھ کر وہ مدہم سا مسکرائی۔
” وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ہم ۔۔۔۔ایسے۔” اس کو خود کو دیکھتا پا کر رابیل نے وضاحت دینا چاہی مگر اس کی سرد آنکھیں اور خطرناک قسم کی سنجیدگی دیکھ کر الفاظ گلے میں ہی اٹک کر رہ گئے۔
” تم لوگوں کی سٹڈیز کیسی جا رہی ہیں؟” اس نے عام سے انداز میں پوچھا۔
“ٹھ۔۔۔ ٹھیک جا رہی ہیں۔” ارسل نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کرتے ہوئے جواب دیا۔ اس کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ خواہ مخواہ اگلا بندہ گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا۔
“ہوں۔ کالج میں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” اس نے ہاتھ بڑھا کر رابیل کے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ رابیل جو دانین کے اس طرح کرنے پر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہی تھی فوراً سے بے اختیار نفی میں اپنا سر ہلا گئی۔
“اوکے، اب تم لوگ اندر جاؤ باہر کافی سردی ہے ۔ میں بھی ایک کال کر کے آتی ہوں ۔” وہ ان کو کہہ کر آگے بڑھ گئی ۔ دونوں نے حیرت سے پہلے اس کو اور پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کندھے اچکاتے اندر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لمبا سا چوغہ نما سوٹ ،ناک میں نتھلی اور ایک ہاتھ میں لوہے کا کڑا پہنے ادھیڑ عمر عورت کا روپ دھارے ایک کیفے کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی کہ اچانک سامنے نظر پڑی تو بل کھا کر رہ گئی ۔ارتضی احمد کسی لڑکی کے ساتھ کیفے سے نکل رہا تھا۔ جینز ٹی شرٹ میں ملبوس نفاست سے میک اپ کیے بے تکلفی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ لڑکی اس کا پارہ ہائی کر گئی تھی ۔ وہ جو پارسل کے لیے وہاں بیٹھی تھی اپنے کان میں لگی بلوٹوتھ ڈیوائس آف کرتے ہوئے اٹھ کر ان کی طرف آئی اور آ کر خاموشی سے ان کے بہت ہی نزدیک کھڑی ہو گئی ۔ اپنے قریب کسی وجود کی موجودگی محسوس ہوتے ہی ارتضی نےچونک کر اس کو دیکھا۔
“جی!” اس کو خاموش کھڑا دیکھ کر ارتضی نے پوچھا۔ ارتضی کی آواز پر اس نے اپنا سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں سے نکلتے شعلوں کو دیکھ کر وہ ایک پل کو ساکت ہوگیا۔ ایک تو گھور سیاہ بڑی بڑی چمکدار آنکھیں اوپر سے ان کے تیور، وہ گویا اپنی نظر ہٹانا ہی بھول گیا۔ اس کو یوں ہوش و حواس گنواتا دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ کہیں غلطی کر گئی ہے۔ ارتضی کو اس کی جانب یوں متوجہ دیکھ کر اس کے ساتھ کھڑی لڑکی نے ناگواری سے اسے دیکھا اور کوئی بھکارن سمجھتے ہوئے اپنے پرس میں سے سو کا نوٹ نکال کر اسے تھما دیا جسے دیکھ کر اس کا پارا ساتویں آسمان تک جا پہنچا۔
“اللہ تیرے بھائی کو خوش رکھے ۔” اس نے دانت پر دانت جماتے ہوئے بظاہر مسکرا کر کہا۔ اس کی سرد مگر غراتی آواز سن کر ارتضی ہوش میں آیا۔
“ایکسکیوزمی۔ یہ میرا بھائی نہیں ہے سمجھی۔ اب ہٹو یہاں سے۔” بھائی کا صیغہ سن کر اس لڑکی کے مانو سر پر لگی اور تلوؤں پر بُجھی۔
” پر شکل سے تو آپ دونوں سگے بہن بھائی لگ رہے ہو۔” اس نے معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے مزید اس لڑکی کو آگ لگائی۔
” اے یو جاہل لڑکی ! میں نے کہا نا یہ میرا بھائی نہیں ہے۔” اس لڑکی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس بھکارن کا سر پھاڑ دے جو ارتضیٰ کو اسکا بھائی بنانے پر تُلی ہوئی تھی۔
” اے سویٹی! لُک ہیر، کیوں غصہ کر رہی ہو اس بے چاری کو کیا پتہ۔ تم ایسے ہی اپنا موڈ خراب کر رہی ہو۔” ارتضی نے لڑکی کو بگڑتا دیکھ کر اس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے نرمی سے کہا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ مزید کچھ کہے تیز تیز قدموں سے وہاں سے آگے کی جانب بڑھ گئی۔ قدرے سنسان جگہ پر جا کر اس نے اپنی بلوٹوتھ ڈیوائس دوبارہ آن کی تو اس کے کان میں باس کی تشویش زدہ سی آواز سنائی دی۔
“کیا بات ہے کیٹ ؟ تمہاری ڈیوائس کیوں آف ہو گئی تھی؟ سب ٹھیک ہے نا؟”
“جی سر ۔” اس نے آنکھیں بند کر کے خود کو نارمل کرتے ہوئے جواب دیا۔
“پارسل کا کیا بنا؟”
“پارسل تو نہیں ملا مگر آپ کا بیٹا مل گیا ہے وہ بھی دن دیہاڑے رنگ رلیاں مناتے ہوئے۔” اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا جہاں وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔
“مطلب؟” انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
“آپ کا بیٹا اس وقت ایک لڑکی کے ساتھ ڈیٹ مارتا پھر رہا ہے۔” اس نے دانت پیستے ہوئے بتایا۔ اس سے کچھ فاصلے پر موجود گاڑی میں بیٹھی دُرِافشین کا زبردست قہقہ بلند ہوا۔
“دُرِ افشین۔” اسے باس کی تنبیہی آواز سنائی دی تو وہ فوراً سنجیدہ ہوئی۔
“سوری سر”
“گائز پارسل پہنچنے والا ہے صرف دو منٹ ۔۔” اشعر کی آواز پر وہ سب الرٹ ہوئے ۔ اگلے ہی لمحے ایک گاڑی روڈ پر آتی دکھائی دی ۔ افشین جو گاڑی سٹارٹ کر کے ہی بیٹھی تھی گاڑی بھگاتے ہوئے لا کر سامنے سے آتی گاڑی میں دے ماری ۔ ہلکے سے دھماکے کے ساتھ دونوں گاڑیاں رک گئیں ۔ کیٹ جو روڈ سے ہٹ کر کھڑی تھی اب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگی ۔ ادھر افشین گاڑی سے نکل کر تن فن کرتی اس گاڑی والے کی طرف آئی اور دروازہ کھول کر اسے باہر آنے کا کہنے لگی۔ چونکہ یہ سب ایک گنجان آباد علاقے میں ہوا تھا تو سپیڈ کم ہونے کی وجہ سے دونوں کا زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا بس دونوں کی گاڑیوں کے سامنے والے حصے قدرے پچک سے گئے تھے ۔ افشین نے اس آدمی کو گاڑی سے نکال کر روڈ پر اچھا خاصا تماشا لگا دیا تھا ۔ ایک تو مصروف سڑک پر حادثہ اوپر سے افشین کا شور، ارد گرد سے کافی لوگ اکھٹے ہو گئے تھے۔ کیٹ بھی آہستہ آہستہ چلتی ان تک پہنچ گئی تھی اور گاڑی کے اگلے حصے کی طرف کھڑی ہو کر یوں دیکھنے لگی جیسے وہ پہلی بار اتنے نزدیک سے گاڑی دیکھ رہی ہو ۔ زرا سی دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد وہ کچھ سوچ کر وہ وہیں نیچے بیٹھ گئی۔
“دیکھو غلطی تمہاری تھی۔ تم ہی اوور سپیڈ پر آ رہے تھے اور اب مجھے الزام دے رہے ہو۔” افشین نے کیٹ کو گاڑی کے نزدیک ہوتے دیکھ کر اس آدمی کا دھیان اپنی طرف کیا۔
“دیکھیں بی بی! آپ کا قصور بھی اتنا ہی ہے جتنا میرا ہے اور آپ تو بالکل ٹھیک کھڑی ہیں چوٹ تو مجھے لگی ہے۔” اس آدمی نے اپنے ماتھا دباتے ہوئے کہا۔
“تو کس نے کہا تھا کہ سیٹ بیلٹ کے بغیر سفر کرو؟ جب قانون توڑو گے تو ایسا تو ہوگا ہی۔” افشین نے ترچھی نظروں سے کیٹ کو گاڑی کے نیچے ہاتھ لے کر جاتے دیکھ کر کہا۔
“جسٹ شٹ اپ! میں اگر کچھ کہہ نہیں رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم بولتی ہی جاؤ۔ گیٹ لاسٹ یو ایڈیٹ۔” وہ ایک دم سے غصے میں بے قابو ہوتے ہوئے چیخا اور جانے کے لیے پلٹا مگر گاڑی کے پاس ٹیک لگائے بیٹھی ایک ادھیڑ عمر عورت کو دیکھ کر چونکا۔
“چل مائی ایک سائیڈ پر ہو۔ یہ تیرے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے؟” اس آدمی نے افشین کا غصہ بھی اس پر نکالنا چاہا۔
“یوں نہ کر پتر۔ تھک گئی تھی تو کچھ دیر کے لیے سہارا لے کر بیٹھ گئی ۔ بوڑھی ہوگئی ہوں نہ اب وہ عمر نہیں رہی ۔۔” اس نے کھانستے ہوئے کہا۔
“اوہ مائی! اٹھو یہاں سے بیچ روڈ تمہیں ریلیکس کرنا یاد آیا ہے ۔ کسی گاڑی کے نیچے آ کر مرمرا گئی تو فضول میں کسی کے لیے مصیبت بنو گی ۔”
وہ جھنجھلاتا ہوا گویا ہوا۔
“اچھا مجھے زرا سہارا دے کر اٹھا تو سہی ۔ آج تو بڑا تھک گئی ہوں۔” اس نے اس آدمی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مجبوراََ اسے تھام کر اسے اٹھانا پڑا۔ اس نے لڑکھڑانے کے بہانے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کے کالر میں چھوٹی سی ایک چِپ لگا دی۔ اس آدمی نے اسے جلدی سے لا کر فٹ پاتھ پر چھوڑا اور خود بڑبڑاتا ہوا گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد افشین بھی گاڑی میں بیٹھی اور سٹارٹ کر کے لا کر ایک طرف چلتی کیٹ کے پاس روکی
“آجائیں اماں جی کہاں جانا ہے آپ کو میں چھوڑ دیتی ہوں۔”
“اللہ تیرا بھلا کرے ۔ بس مجھے تھوڑا آگے تک چھوڑ دے۔ تیرے بچے جیئیں، تو سدا سکھی رہے۔” اس نے جواباً درِافشین کو دعائیں دے ڈالی۔
“آئیں بیٹھیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھولا تو وہ مزید دعائیں دیتی گاڑی میں جا بیٹھی ۔کچھ ہی دیر میں ان کی گاڑی ہوا میں باتیں کرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس بار ریڈ پر ہم لوگ نہ چلیں ؟” افشین نے اسے لیپ ٹاپ پر جھکے دیکھ کر کہا
“ڈی! میں تم سے کچھ کہہ رہی ہوں.”اس کو متوجہ نہ دیکھ کر افشین کا بازو ہلایا
“ہاں بولو!” اس نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا
“مجھے ریڈ پر جانا یے ۔کافی دنوں سے بہت بورنگ روٹین چل رہی ہے اس لیے میرے ہاتھوں میں بہت کجھلی ہو رہی ہے۔”
“ہمارا کام جہاں تک تھا کر دیا ہے۔ اب آگے سیکورٹی ادارے جانیں اور ان کا کام ۔”اس نے اٹھتے ہوئے جواب دیا
“یہ کیا بات ہوئی بھلا؟اتنے دنوں سے ہم لوگ کام کر رہے ہیں ۔ ساری انوسٹی گیشن کی ہے یہاں تک کہ سمگلرز کی ڈیٹیلز اور ان کی موجودہ لوکیشن تک دی ہے اور ایکشن کے وقت ہم ہی شامل نہیں ہوں گے ؟اس نے منہ بسورا
“یہی بات ہے ۔ہم لوگ ایک ریٹائرڈ کرنل کے انڈر پرائیویٹ کام کرتے ہیں۔ جتنے کی اجازت ہے اتنے پر ہی رہو۔”
“تو کیا آپ اتنے پر ہی رہتی ہیں دانین ابراہیم؟” افشین نے طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے مڑی
“ڈیفینیٹلی ناٹ مائی فرینڈ مگر ہاں تم اس میں برابر کا حصہ بانٹتی ہو۔”
“اشعر کا مسیج ہے مشن کامیاب رہا ۔” افشین کے موبائل پر بپ ہوئی تو اس نے موبائل دیکھتے ہوئے اسے بتایا
“ہمم۔ ٹھیک ہے پھر میں گھر کی طرف جا رہی ہوں اور ویسے بھی اب سے ہماری چھٹیاں ہیں تو میں تو لمبی تان کر سونے والی ہوں۔”۔دانین نے کہا اور اپنی جیکٹ اٹھا کر بازو پر رکھتی باہر نکل گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب ڈنر کر رہے تھے کہ دانین گھر میں داخل ہوئی ۔ نوشین بیگم نے اسے کھانے کا کہا تو وہ کمرے میں جانے کی بجائے کچن کے سنک پر ہی ہاتھ دھو کر میز پر آ بیٹھی ۔ فروا بھابھی نے اسے کھانا نکال کر دیا تو وہ خاموشی سے کھانے لگی ۔جگ سے پانی انڈیلتے ہوئے اس کی نظر سامنے بیٹھے ارتضی پر پڑی تو لحظہ بھر کو اس کا ہاتھ رکا ۔اس سے پہلے وہ اس کی طرف دیکھتا وہ اپنی نظریں ہٹا گئی ۔ میز پر اس وقت گہرا سکوت طاری تھا جسے ارتضی نے ہی توڑا
“آپ کو پتہ ہے بابا ؟آج مجھے ایک لڑکی ملی ۔لڑکی نہیں کوئی ادھیڑ عمر بھکارن تھی۔ بہت زیادہ عجیب تھی ۔ اور جو سب سے زیادہ حیران کن بات تھی وہ اس کی آنکھوں کی چمک تھی۔ آج سے پہلے میں نے کبھی کسی ایسی آنکھیں نہیں دیکھیں ۔ عجیب سا سحر تھا جو دیکھنے والے کو پل بھر میں اپنی جانب کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی لہریں نکل رہی ہوں ۔ پتہ نہیں کیا تھا مگر کچھ نیا تھا۔” وہ بولتے بولتے ٹرانس کی سی کیفیت میں جا چکا تھا ۔ احمد صاحب کھنکھارے تو وہ چونک کر ہوش میں آیا
“ویسے لگتا ہے کچھ زیادہ ہے قریب اور غور سے دیکھ لیا ہے اس بھکارن کو ۔” دانین نے خاصے چبھتے لہجے میں کہا
“نہیں وہ پاس ہی کھڑی تھی نہ تو ایسے ہی نظر پڑ گئی ۔” وہ سب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر خجل ہوتے ہوئے وضاحت دی
“نظر پڑی اور تم ہٹانا بھول گئے ۔ ہے نہ ؟تم لڑکے بھی نہ کمال ہوتے ہو ۔لڑکی ہو اور اس کی سانسیں چلتی ہوں۔ بس تم لوگوں کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے ۔” اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا اور اٹھ گئی
“یہ کیوں اتنا غصہ کر رہی ہے؟ میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا جو یوں آگ اگل رہی ہے؟” اس نے حیران ہوتے ہوئے مڑ کر سیڑھیاں چڑھتی دانین کی پشت دیکھی ۔ احمد صاحب نے نوشین بیگم کی طرف دیکھا تو انہوں نے بعد میں بات کرنے کا اشارہ کیا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...