اگلے دن وہ ملاح جو اب ہمارے ملازم تھے صبح گیارہ بجے ہمارے پاس آ گئے اور ہم سے کہا کہ سفر شروع کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار ہیں، اور ضرورت کا سب سامان جہاز پر لاد دیا گیا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ سفر ابھی شروع کر دیا جائے ۔ ہم تو تیار تھے ہی اس لئے اپنا اپنا سامان اٹھا کر بستی سے باہر نکلے ۔ اس وقت ہم پیدل ہی چل رہے تھے ، کیوں کہ اپنے خچر ہم نے بستی کے بوڑھے شخص کی امانت میں دے دئیے تھے ۔ ارادہ تھا کہ اگر زندہ رہے اور واپس آئے تو لے لیں گے۔ حالانکہ ہم نے اپنے سفر کا مقصد کسی کو بھی نہ بتایا تھا ، پھر بھی لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہم کسی خطرناک مہم پر جا رہے ہیں ۔ اس لئے ان لوگوں نے ہمیں جہاز پر بیٹھتے دیکھ کر زور زور سے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔
جان نے کبڑے سے پوچھا: “تمہیں تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟”
“جی ہاں معلوم ہے، مگر بتاتے ہوئے میرا دل کانپتا ہے۔” کبڑے نے گھبرائی ہوئی آواز میں جواب دیا
“پھر بھی آخر کیا کہتے ہیں؟”
” وہ کہہ رہے ہیں کہ تم موت کے مونہہ میں جا رہے ہو ۔ بھگوان کرے کہ تم زندہ واپس آؤ۔” یہ کہہ کر کبڑے نے ایک جھرجھری سی لی مگر جان نے بے پروائی سے جواب دیا۔
“کوئی بات نہیں ، مرنا تو سب کو ایک دن ہے ہی پھر موت سے کیا ڈرنا!” اتنا کہہ کر وہ جہاز میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے کیبن میں داخل ہو گیا، اور اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی اندر آ گئے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں چار بستر لگے ہوئے تھے اور ضرورت کی ہر چیز موجود تھی ، جو ایک کمرے میں ہونا چاہئے ۔ ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ جہاز ہلنے لگا اور تب ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اب ایک ایسے بھیانک سفر پر روانہ ہو چکے ہیں، جس کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ کب ختم ہوگا ۔ اور جس سے بچ کر ہم واپس بھی آئیں یا نہیں؟
تقریباً چار بجے ہم بحری پولیس کو مطمئن کرنے کے بعد آگے بڑھے۔ ہمارا قیمتی وقت بحری پولیس نے بہت ضائع کیا ۔ ہزاروں باتیں پوچھی گئیں اور ہزاروں جگہ اندراج کیا گیا کہ ہم کون ہیں اور کہا جا رہے ہیں؟
اسٹیمر کے بجائے یہ چھوٹا سا جہاز بہت مفید ثابت ہوا ۔ اس لئے کہ اسٹیمر کے لئے ہمیں تیل بہت مقدار میں اپنے ساتھ رکھنا پڑا ۔ ایسے لمبے سفر کے لئے کتنا تیل جمع کرنا ہوتا اس کا اندازہ میری بجائے آپ خود لگائیے۔ میں تو صرف اتنا سمجھ سکتا ہوں کہ تیل کے ڈرمز سے ہی پورا اسٹیمر بھر جاتا اور ہمارے لئے ذرا سی بھی جگہ نہ رہتی۔ بادبانی جہاز بہتر یوں تھا کہ ایک تو اس کے لئے کسی تیل کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے اس میں جگہ بھی کافی تھی۔
جہاز کی رفتار اس وقت پندرہ ناٹ فی گھنٹہ تھی۔ چھ بج رہے تھے اور سورج اب چھپ رہا تھا میں چونکہ قدرتی مناظر کا بہت دلدادہ ہوں اس لئے کمرے سے نکل کر باہر آ گیا ۔ پورا سمندر اس وقت پگھلا ہوا سونا معلوم ہو رہا تھا ۔ سمندری پرندے بڑی تیزی سے اپنے آشیانوں کی طرف اڑ رہے تھے ۔ ہوا ہلکی ہو گئی تھی ، اس لئے ملاح بادبانوں کا رخ بدلنے میں مصروف تھے ۔ سمندر بالکل خاموش تھا ۔ لہریں بہت کم اٹھ رہی تھیں ۔ ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا ۔ سچ بات یہ ہے کہ اس طرح مجھے جہاز کی رفتار کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہو رہا تھا ۔ ریل میں تو یہ ہوتا ہے کہ برابر سے گزرتے ہوئے ٹیلی فون کے کھمبے اور درخت اس کی رفتار بتاتے رہتے تھے ۔ مگر یہاں پانی میں آس پاس کچھ بھی نہ تھا ، مجھے بھلا کیا معلوم تھا کہ جس سمندر کو میں اس وقت اتنی دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں ، وقت آنے والا ہے کہ وہ اتنا خطرناک ہو جائے گا کہ مجھے اس سے بچنے کے لئے صرف موت ہی سب سے زیادہ آسان راستہ نظر آئے گی۔
میں نیچے کمرے میں جانے ہی والا تھا کہ جیک اور جان دونوں دوربینیں لئے ہوئے اوپر آ گئے، جان بھی ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم سے کہنے لگا۔
“سمندر اس وقت بہت حسین لگ رہا ہے ۔ لیکن یہی سمندر چودہویں رات کو بپھر جاتا ہے۔ اس میں بڑا زبردست جوار بھاٹا آتا ہے اور جہاز ڈانواں ڈول ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر اسی رات کو سمندر میں کہیں سے وہ جزیرہ نمودار ہوتا ہے جو درحقیقت ہماری منزل مقصود ہے۔”
“مسٹر جان! میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ آ پ ہمیں تمام باتیں تفصیل سے بتائیں” جیک نے آہستہ سے کہا: “کیوں کہ بغیر کچھ جانے بوجھے ہم وقت پڑنے پر آپ کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں؟”
“بالکل ٹھیک ہے” جان نے کھنکار کر کہنا شروع کیا: “سنانے کو تو میں سنا دوں، مگر کہانی الف لیلی یا طلسم ہوش ربا جیسی ہے۔ مجھے بھی یقین نہ آتا اگر میں نے ایک جہاز راں سے اس جزیرے کا نام نہ سنا ہوتا۔ اس کا نام ولیم تھا ۔ ایک بار اس پانی پر سفر کرتے وقت اسے جزیرہ چاگس سے آگے جانے پر ایک بہت بڑا جزیرہ خود بخود پانی میں سے ابھرتا ہوا نظر آیا، ولیم نے فوراً لنگر ڈال دئیے اور اس جزیرے پر جا اترا ۔ وہیں اس نے وہ مکھی دیکھی جس کی ہمیں بھی تلاش ہے ۔ اور جس کی بابت کبڑا چیتن تم کو سب کچھ بتا ہی چکا ہے۔ ولیم ایک بہت اچھا سائنس داں تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ یہ جزیرہ چاند رات کے بعد آدھے مہینے تک پانی کے اوپر رہتا ہے ، اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ پانی میں غرق ہونا شروع ہوجاتا ہے ، ساتھ ہی اپنے مختلف آلات سے اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ مکھی کی آنکھوں میں کیا تاثیر ہے ۔ پورے چودہ دن اس جزیرے میں گزارنے کے بعد آخر ولیم مکھی کے بارے میں ایک ایک بات معلوم کر کے پھر اپنے جہاز میں بیٹھ گیا ۔ اور سالوں بعد امریکہ پہنچا ۔ اپنے سفر کے حالات اس نے ایک کتاب میں لکھے تھے اور اسی کتاب سے مجھے یہ باتیں معلوم ہوئی ہیں۔”‘
“مگر آپ نے ان باتوں کا یقین کیسے کر لیا، ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں غلط بھی ہوں؟” میں نے اتنا سن کر جان سے پوچھا۔
“یقین کیوں نہ کرتا، اپنے باپ کا کون یقین نہ کرے گا۔ ولیم میرا باپ تھا” اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔ کچ دیر تک لہروں کو دیکھتا رہا اور پھر بولا:
“خزانے کی بابت مجھے کیسے پتہ چلا یہ بتانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ خزانہ اب ہم پا ہی چکے ہیں ۔ ہمیں تو اب یہ سوچنا ہے کہ آگے ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے؟”
یہ سنتے ہی میرا دل دہل گیا۔ سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا ، اور ہر طرف اندھیرا پھیل گیا تھا۔ صرف پانی کی ہلکی سی آواز آ رہی تھی ورنہ ہر طرف خاموشی تھی ۔ میرا دل آپ ہی آپ اندر بیٹھا جا رہا تھا ، کسی آنے والے طوفان سے پہلے سمندر بالکل پرسکون ہوتا ہے ۔ مجھے سمندر کی یہ خاموشی بری لگ رہی تھی ۔ میرا جی چاہتا تھا کہ لہریں اٹھیں اور جہاز تیز چلے مگر جہاز تو اس وقت تیز چلتا جب کہ ہوا بھی ہوتی ۔ نہ جانے کس طرح یہ منوں وزنی جہاز سمندر کے سینے پر چل رہا تھا ۔ جب ہم واپس کمرے میں آئے تو کبڑا اپنے بستر پر لیٹا ہوا کچھ سوچ رہا تھا ۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ اٹھ گیا اور بڑی بےقراری سے پوچھنے لگا۔
“اب ہم کتنی دور آ گئے ہوں گے؟”
“میرے حساب سے صرف چند انچ ، یوں سمجھو کہ میلوں لمبے فاصلے کے لحاظ سے چند انچ ۔ یوں سمجھوکہ میلوں لمبے فاصلے کے لحاظ سے چند انچ آئے ہیں۔ جان نے جواب دیا۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟” کبڑا واقعی خوفزدہ تھا۔
“بے وقوفی کی باتیں مت کرو، جان ہتھیلی پر رکھنے کے بعد ہی ایسا سفر کیا جاتا ہے۔” جیک نے ڈانٹا: “اس طرح تم دوسروں کو بھی ڈرا دو گے۔”
رات بغیر کسی خاص واقعہ کے گزر گئی ۔ جان تمام رات ملاحوں کے پاس قطب نما لئے بیٹھا رہا اور انہیں راستہ بتاتا رہا ۔ ہم تینوں یعنی میں، کبڑا اور جیک سوتے رہے۔ صبح کے وقت سمندری پرندوں کی چیخوں نے ہمیں جگایا۔ بےتابی اتنی تھی کہ اس امید پر تیزی سے دوڑتے ہوئے باہر آئے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی نئی بات معلوم ہو!
باہر آکر دیکھا تو جان ایک تختے کا سہارا لئے سو رہا تھا ، اور چاروں ملاح اپنی زبان میں کوئی عجیب سا گیت گا رہے تھے ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت جان کو جگانا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ رات بھر کا جاگا ہوا تھا اس لئے ہم نے سوچ لیا کہ اسے آرام کرنے دیا جائے ، ملاحوں کو صحیح سمت بتا کر اور انہیں چند ہدایتیں دے کر ہم جہاز کے دوسرے کونے میں آ بیٹھے اور خاموش بیٹھ کر یہ سوچنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
کرنا بھی کیا تھا سوائے اس کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جہاز کے اس کونے سے اس کونے تک بار بار چکر لگاتے رہیں اسی طرح سوچتے سوچتے رات ہو گئی۔ اور پھر ایک رات کیا، ایک ایک کر کے چار راتیں گزر گئیں مگر ہمارا سفر برابر جاری رہا۔ اس عرصے میں جان اپنے ناپ تول کے اوزار لئے بیٹھا رہا اور قطب نما سے ملاحوں کا راستہ بتاتا رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب سمندری سفر سے اکتا چکا تھا ۔ نہ ختم ہونے والا پانی، اوپر آسمان اور ہمارا ڈگمگاتا ہوا جہاز یہی اب میری دنیا تھی ۔ اس چھوٹے سے جہاز میں چلتے پھرتے اب میں تھک گیا تھا اور چاہتا تھا کہ جلد سے جلد میرے پاؤں زمین سے لگیں ۔ مگر زمین۔۔۔ ہائے یہ زمین اب کہاں تھی؟
کومورن کی کسی قریبی بستی سے چلتے ہوئے اب ہمیں پانچ دن گزر چکے تھے ۔ اکتوبر کی دس تاریخ تھی اور ہندی مہینے کے حساب سے چاند رات 19 تاریخ کو پڑتی تھی ۔ مطلب یہ کہ ہمیں آٹھ دن اور آٹھ راتیں اسی طرح پانی میں چلنا تھا۔ پھر کہیں جا کر اس جزیرے کا تصور کرنا چاہئے تھا اس وقت سے پہلے جزیرے کے بارے میں سوچنا بھی حماقت سے کم نہیں تھا، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سمندر کے بیچ یہ آٹھ دن کس طرح گزاروں گا۔ مگر یہ دن گزارنے کا سامان بھی قدرت نے کر دیا اور ایسے خوفناک طریقے سے کہ اب کے وہ وقت یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کوئی خاص بات نہیں تھی مگر شام ہی سے ہوا ذرا تیز ہو گئی تھی ۔ اکتوبر کی راتیں ویسے بھی سرد ہوتی ہیں، اوپر سے پانی میں بھیگی ہوئی یہ ہوائیں ایسا لگتا تھا جیسے لا تعداد سوئیاں جسم میں چبھی جا رہی ہیں۔ سورج بھی ٹھٹھرتا ہوا غروب ہو رہا تھا ۔ آسمان پر ایک بھی پرندہ نظر نہ آتاتھا ۔ اگر اکا دکا کوئی دکھائی بھی دیتا تو بالکل کٹی ہوئی پتنگ کی طرح جس طرف ہوا چاہتی اسے بہا کر لے جاتی ۔ ہمارے جہاز کا بھی یہی حال ہونے لگا ۔ ملاحوں نے جلدی جلدی بادبان اتار لئے اور خوفزدہ نظروں سے آسمان کو تکنے لگے ۔
لہروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا اور سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ آسمان بالکل کالا ہو گیا تھا ، اور لہریں بار بار اپنا خوفناک منہ کھول کر جیسے ہمیں نگلنے کے لئے اوپر لپکتی تھیں۔ جلد ہی طوفان شروع ہو گیا ، ایسا طوفان جو میں نے زندگی بھر کبھی نہ دیکھا تھا۔ کئی کئی سو فٹ اونچی لہریں اٹھتیں اور جہاز کے اوپر سے ہوکر گزرجاتیں۔ ہم اپنے کمرے میں جامنوں کی طرح گھل رہے تھے ۔ جہاز کے بائیں طرف ڈولنے سے ہم تیزی کے ساتھ کمرے کی دائیں دیوار سے جا ٹکراتے اور دائیں طرف ڈولنے سے بائیں دیوار سے ۔کبھی جہاز چکر کھانے لگتا تو ہم بھی لٹو کی طرح گھومنے لگتے ۔ ملاح ایسی خوفناک حالت میں بھی اپنے اوسان کو قابو میں رکھے ہوئے تھے ۔ وہ جہاز کو بچانے کے لئے ادھر ادپر بھاگے بھاگے پھر رہے تھے ۔ حالانکہ جہاز میں بارش کے پانی کے نکلنے کے لئے نالیاں بنی ہوئی تھیں ۔ مگر سمندر کا پانی جب اوپر سے گزرتا تو جہاز پانی سے بھرجاتا۔ تب ملاحو ں کو بالٹیوں سے پانی نکالنا پڑتا ۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔ ایسی زبردست آوازیں پیدا ہو رہی تھیں کہ ہم چیخ چیخ کر بھی ایک دوسرے سے بات نہ کر سکتے تھے ۔ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو تو پھر جلدی سے گر پڑتے اور گرتے ہی بینگن کی طرح لڑھکنے لگتے۔
خدایا! یہ کیسا عذاب تھا ؟ ایسی آفت تو میں نے زندگی میں کبھی نہ جھیلی تھی۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ جہاز کس سمت میں جا رہا ہے ۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کسی سمندری چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہو جائے، مگر اس وقت ہم کر بھی کیا سکتے تھے ، ملاح ہار چکے تھے اور جہاز لہروں کے تھپیڑے کھاتا ہوا کسی نامعلوم سمت کی طرف جا رہا تھا ۔ رات کے دو بجے تک ہمارا یہی حشر رہا ۔ کمرے کی چیزوں سے ٹکراتے ٹکراتے ہمارے نئے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے ۔ مونہہ چوٹیں کھاتے کھاتے سوج گئے تھے۔ اور ہاتھ پیروں سے خون رس رہا تھا ۔ اوروں کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا ہاں اپنے بارے میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ ایک بار جہاز کسی طوفانی لہر کی وجہ سے بری طرح ڈگمگایا تو میرا سر دیوار سے ٹکرایا۔ چوٹ اتنی سخت تھی کہ پھر مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ میں کہاں ہوں ؟ بس ایسا محسوس ہوا کہ آہستہ آہستہ کسی خوفناک اندھیرے غار میں گرتا جا رہا ہوں !
شاید رات کے چار بجے کا وقت تھا کہ مجھے ہوش آیا۔ ممکن تھا کہ میں کافی دیر تک بے ہوش پڑا رہتا اگر ملاحوں کی چیخیں میرے کانوں میں نہ پڑتیں اور کبڑے چتین کی بار بار دیوتاؤں کو پکارنے کی آوازیں مجھے نہ سنائی دیتیں۔ ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے کوئی طاقت جہاز کو سمندر سے اوپر اٹھا رہی ہے پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کسی خطرناک لہر نے جہاز کو اوپر اچھال دیا ہے۔ مگر ایسا بالکل نہ تھا۔ جہاز بالکل نہیں ڈگمگا رہا تھا۔ لیکن وہ کسی ترازو کے پلڑے کی طرح آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا جا رہا تھا۔ میں نے حیرت سے جان اور جیک کو دیکھا تو وہ بھی خاموش کھڑے تھے۔۔۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں سکتہ ہو گیا ہو! میرے حواس آہستہ آہستہ قابو مں آتے جا رہے تھے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ مگر پھر مکمل طور پر ہوش میں آ جانے کے بعد یہ حیرت ناک بات مجھے معلوم ہوئی کہ جہاز سچ مچ ہوا میں اوپر اٹھ رہا ہے اور ساتھ ہی ایک نہایت تیز روشنی، ایسی روشنی جس کے آگے شاید سورج بھی پانی بھرے، ہمارے جہاز کے چاروں طرف چھائی ہوئی ہے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ جب یہ روشنی کھڑکی سے گزر کر میری آنکھوں پر پڑی تو میری آنکھیں بالکل نہیں چندھیائیں! کافی اوپر اٹھ جانے کے بعد جہاز اب آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ بالکل ہوائی جہاز کی طرح۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر نیچے دیکھا تو ڈر کے مارے میری چیخ نکل گئی۔ ہمارا جہاز اس وقت سطح سمندر سے کئی سو فٹ بلند تھا اور آہستہ آہستہ روشنی کے ایک راستے پر چلتا ہوا اس طرف بڑھ رہا تھا جہاں سے وہ تیز روشنی آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ روشنی اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے جلدی سے اس مقام کو دیکھا جہاں سے روشنی آ رہی تھی اور جو اندازہ میں نے اس وقت لگایا وہ بعد میں بھی ٹھیک ثابت ہوا۔ روشنی کسی سرچ لائٹ جیسی چیز میں سے نکل رہی تھی اور یہ سرچ لائٹ دو بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان میں تھی اور وہ بڑے پہاڑ کسی قریب کے جزیرے ہی میں تھے۔
“ہم کہاں جا رہے ہیں سر؟ اور یہ کیا چیز ہے؟” میں نے جلدی سے گھبرا کر جان سے پوچھا۔
“ہم کہاں جا رہے ہیں!” جان نے چونک کر کہا :
“یہ میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتا، ہمارا جہاز اپنے راستے سے ہٹ گیا ہے۔ پھر بھی میں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس وقت ہم کسی نا معلوم لیکن بہت بڑی طاقت کے پنجے میں پھنس گئے ہیں کیوں کہ ایسی کوئی شعاع جو کئی سو من وزنی اس جہاز کو ہوا میں اٹھا لے دنیا میں آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ ہمیں اب خود کو حالات کے سپرد کر دینا چاہئے۔ ہمارے حق میں یہی بہتر ہے۔”
“مگر آخر یہ ہے کیا۔؟” کبڑے نے کپکپاتے ہوئے پوچھا۔
“میں نے کہا نا کہ میں کچھ نہیں بتا سکتا۔” جان نے کہا:
“کچھ دیر بعد خود ہی پتہ چل جائے گا۔ مگر اتنا میں ہر ایک کو بتائے دیتا ہوں کہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کیا جائے۔ جو میں کہوں اسے مانا جائے۔ کیوں کہ ہم کسی معمولی طاقت کے اثر میں نہیں ہیں بلکہ کسی بہت بڑی سائنسی طاقت نے ہمیں کھلونا بنا لیا ہے اور وہ طاقت۔۔۔۔”
اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔ مگر ہم نے بے تابی سے پوچھا :
“کون ہے وہ طاقت؟”
“وہ کم از کم اس دنیا کی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ کسی دوسرے سیارے کی ہے۔” جان نے آہستہ سے جواب دیا۔
میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ سن کر جسم کس بری طرح لرزا ہے۔ طوفان نے پہلے ہی ادھ مرا کر دیا تھا۔ لیکن یہ سن کر تو ایسا لگا جیسے ہمارے جسموں میں طاقت ہی نہیں ہے۔ میں اپنے آپ ہی جہاز کے تختے پر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اس میں میرے ارادے کو کوئی دخل نہ تھا۔ جہاز برابر اس رفتار سے اس نامعلوم روشنی کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ خدا جانے وہ روشنی کیا تھی اور کون سے جزیرے میں تھی۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اور جیسا کہ جان نے مجھے بعد میں بتایا تھا، طوفان ہمیں 15 ڈگری عرض البلد کے قریب لے آیا تھا۔ خط استوا اس مقام سے بےحد قریب ہے۔ مگر جغرافیہ دانوں کے حساب سے خط استوا کے نزدیک یا دور ایسا کوئی جزیرہ نہیں ہے جو اب ہمیں نظر آ رہا تھا۔
جلد ہی ہمارا جہاز ان پہاڑوں کے نزدیک پہنچ گیا جن کے درمیان سے سورج کی روشنی سے بھی تیز شعاع نکل رہی تھی۔ میں نے غور سے ان پہاڑوں کو دیکھا اور دیکھتے ہی چیخ مار کر جان سے لپٹ گیا، کیوں کہ وہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل رہے تھے۔ ان کی لمبی لمبی ٹانگیں بھی تھیں اور ہاتھ بھی۔