اتنا کہہ کر وہ خطرناک کبڑا بالکل خاموش ہو گیا۔ اس کے خاموش ہوتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا گویا جنگل کے ان نظر نہ آنے والے ٹڈوں کا شور اب یک لخت کم ہو گیا ہے، جن کی آوازوں سے کچھ دیر پہلے پورا جنگل گونج رہا تھا۔ ہوا کی سائیں سائیں بھی اچانک رک گئی ہے اور اس خاموشی میں اب صرف ہمارے دلوں کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ میں نے حیرت بھری نظروں سے اپنے مالک جان کی طرف دیکھا۔ کیا بتاؤں آپ کو کہ اس کی اس وقت کیا حالت تھی؟ چہرہ بالکل زرد تھا اور وہ بالکل گم سم کھڑا تھا۔ اس کی حالت بتاتی تھی کہ جس راز کو اس نے ہر ایک سے چھپایا اب اس کے ظاہر ہوجانے سے اسے بہت زیادہ دکھ پہنچا ہے۔ جیک اور عبدل بھی آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس اجنبی کبڑے کو دیکھ رہے تھے۔ مگر میرا دل اندر سے کہتا تھا کہ جیک کی وہ حیرت بناؤٹی تھی۔ جو وہ اندر سے تھا باہر سے ہرگز نظر نہ آتا تھا۔ جان اور عبدل کے اس طرح حیرت زدہ ہو جانے سے ایک بات تو کم از کم میری سمجھ میں آ گئی اور وہ یہ کہ کبڑا جادوگر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور وہ سچ مچ جادو جانتا ہے۔ کافی دیر تک تو جان خاموش کھڑا سوچتا رہا۔ آخر پھر اطمینان کی ایک لمبی سانس لینے کے بعد آہستہ سے بولا:
“میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو بالکل سچ ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس سے تمہیں کیا۔ اگر واقعی ہم لوگ خزانے کی تلاش میں جارہے ہیں تو تم دخل دینے والے کون ہو؟ خواہ مخواہ ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟”
“بالکل ٹھیک ہے۔” عبدل نے بھی اپنی لمبی گردن جھٹک کر کہا۔
“آخر یہ کہانی سنانے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟” جیک نے دانت پیس کر پوچھا۔
“مطلب تو صاف ظاہر ہے۔” کبڑے نے مسکرا کر کہا :
“میں صرف خزانے کا وہ نقشہ چاہتا ہوں جسے مسٹر جان نے تیار کیا ہے۔”
“اوہ۔۔۔۔” جان صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا، لیکن عبدل نے کہا:
“ہرگز نہیں، وہ نقشہ تمہیں ہرگز نہیں مل سکتا۔ تم اسے نہیں لے جا سکتے۔”
“مجھے کوئی نہیں روک سکتا، وہ نقشہ میں ضرور لے جاؤں گا۔” کبڑے نے ڈھٹائی سے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔
میں خاموش کھڑا ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر اس کبڑے کی ٹانگ پر جما دوں۔ اس منحوس شخص کی مسکراہٹ مجھے بری طرح کھل رہی تھی ، آخر مجھ سے برداشت نہ ہو سکا۔ میں نے یہ خیال بھی نہ کیا کہ اپنے مالکان کی موجودگی میں میرا بولنا ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا بس جلدی سے آگے بڑھ کر اس کبڑے جادوگر سے پوچھ ہی لیا:
“اگر تم جادوگر ہو تو پھر تمہیں نقشے کی کیا ضرورت ہے؟ تم اپنے جادو کے زور سے کیوں یہ معلوم نہیں کر لیتے کہ خزانہ کہاں ہے؟”
میری یہ بات سن کر میرا مالک جان مسکرانے لگا اور اس کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی اور پھر خوشی ظاہر کرنے کے لئے اس نے میرا کندھا تھپتھپایا۔ عبدل نے بھی میرے اس سوال کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ البتہ جیک کے بھیانک چہرے پر خفگی کے آثار نظر آنے لگے۔ ایک لمحہ کے لئے تو میرا یہ سوال سن کر وہ جادوگر بھی چکرا گیا، لیکن پھر جلدی سے اپنی حالت پر قابو پا کر مسکرایا اور بولا:
“یہ ننھا چوہا تو کافی عقلمند معلوم ہوتا ہے! کیوں نہ ہو، آخر ہمارے ہندوستان ہی کا ہے۔ اس نے سوال تو اچھا کیا ہے لیکن میرے پاس اس کا جواب بھی موجود ہے۔”
اتنا کہہ کر اب وہ مجھ سے مخاطب ہوا:
“سنو لڑکے تمہارا نام فیروز ہی ہے نا؟ شاید میں نے تمہارا یہی نام بتایا تھا۔ خیر جو کچھ بھی ہو۔ تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ تم نے الہ دین اور جادو کے چراغ کی کہانی تو پڑھی ہوگی۔ اس میں جادوگر الہ دین کو ایک غار میں لے جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ وہ اکیلا غار کے اندر جا کر جادوئی چراغ لے کر آئے۔ صرف الہ دین ہی وہ چراغ لا سکتا تھا۔ جادوگر اپنے جادو کے زور سے نہیں منگوا سکتا تھا۔ کچھ ایسی ہی حالت میرے ساتھ بھی ہے، میں دنیا میں ہر ناممکن بات کو ممکن بنا سکتا ہوں، لیکن بس صرف دفینوں کے بارے میں نہیں جان سکتا۔ میرا جادو یہاں آکر بے کار ہو جاتا ہے، سمجھ گئے؟”
بات اس نے ایسی معقول کہی تھی کہ مجھے جواب نہ بن پڑا اور میں پھر دوبارہ جلدی سے جان کی کمر کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ کبڑا تھوڑی دیر تک عجیب نظروں سے ہر ایک کو باری باری دیکھتا رہا اور پھر بولا۔
“ہاں تو مسٹر جان، لائیے وہ نقشہ۔ اب میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔”
“لیکن میں وہ نقشہ تمہیں ہرگز نہیں دوں گا۔” جان نے بندوق مضبوطی سے پکڑ کر جواب دیا۔
“آپ ضدی آدمی ہیں، لیکن خیر کوئی بات نہیں، میں آپ کو کل تک کا وقت دیتا ہوں۔ اب رات ہونے والی ہے، کل صبح مجھے آپ کا جواب مل جانا چاہئے جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ ‘ہاں’ میں ہی ہوگا۔ اچھا میں اب چلتا ہوں، کل ملاقات ہوگی۔”
اتنا کہہ کروہ جانے کے لئے مڑا مگر پھر اچانک رک کر کہنے لگا۔ “اور ہاں، بھاگنے کی کوشش مت کیجئے گا، آپ لوگ مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتے۔”
کبڑا تو اتنا کہہ کر چلا گیا، مگر ہم سب کو عجیب کشمکش کی حالت میں چھوڑ گیا، بڑی دیر تک ہم خاموش رہے۔ آخر جان نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا:
“رات اب قریب ہی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ ہم اپنے خیمے لگا لیں میرے خیال میں یہ جگہ خیمے گاڑنے کے لئے بالکل ٹھیک ہے۔”
یہ سن کر میں نے جلدی سے خچروں کی کمر سے بندھا ہوا سامان اتارا اور خیمے نکال کر انہیں جلدی جلدی زمین پر پھیلایا۔ اس کام میں میری مدد عبدل نے بھی کی۔ ہم دونوں نے مل کر خیمے گاڑ دئیے اور پھر سامان ان کے اندر رکھ کر بستر بچھا دیے۔ ہر شخص اپنے اپنے خیمے میں چلا گیا۔ خیمے ویسے بھی قریب قریب تھے لیکن اس کے باوجود بھی میں باری باری ہر خیمے میں جاتا رہتا تھا۔ میں آخر ان تینوں کا ملازم تھا اور ان کا خیال رکھنا میرے فرض میں شامل تھا۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے، ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ جنگل کے درمیان سے کبھی کبھار کسی درندے کی آواز آ جاتی تھی ورنہ ہر طرف خاموشی تھی۔ چاند ابھی پوری طرح نکلا بھی نہ تھا، ہلکی ہلکی ملگجی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس منحوس کبڑے کو ہم سے جدا ہوئے تین گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے مگر ہمیں یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ ابھی گیا ہے۔ میں یہ سوچتا ہوا کہ دیکھئے اب قسمت کیا گل کھلاتی ہے اور آگے کیا پیش آتا ہے، عبدل کے خیمے کا پردہ اٹھا کر باہر نکل آیا۔۔۔ چاند کافی اوپر آ چکا تھا اور جنگل کی ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی۔ میری جیب میں ایک چھوٹا سا ہلکا پستول تھا، جسے میرے مالک جان نے مجھے اپنی حفاظت کے لئے کچھ دیر پہلے دیا تھا۔۔۔ اور جس سے نشانہ لگانے کی مشق میں اچھی طرح کر چکا تھا۔ جنگل کی یہ ہیبت ناکی دیکھ کر میرا دل دھڑکنے لگا اور بے اختیار میرا ہاتھ اپنے پستول پر گیا۔ ہلکے ہلکے قدم بڑھاتا ہوا میں جان کے خیمے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ اچانک دور جنگل میں ایک سائے کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ کوئی مجھے دیکھ کر جلدی سے ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔ اس نئی بات کی اطلاع دینے کے لئے میں فوراً خیمے کے اندر پہنچا۔ میرا مالک جان اپنی بندوق کی نال صاف کر رہا تھا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔
“آؤ فیروز آؤ۔ میں تمہیں بلانے ہی والا تھا۔”
“فرمائیے! میں حاضر ہوں۔” میں نے ادب سے کہا۔
“بات یہ ہے فیروز! کہ میرا دل آپ ہی آپ تمہاری طرف کھنچا چلا جا رہا ہے۔ تم شاید خود کو میرا ملازم سمجھتے ہو لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ تم مجھے اب اپنے بیٹے کی طرح عزیز ہو۔ تم نے اس نالائق کبڑے سے بڑا اچھا سوال کیا تھا۔ اب ذرا یہاں میرے قریب آؤ۔ میں تمہیں ایک خاص بات بتاتا ہوں۔”
میں اس کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے مجھے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور جب میں بیٹھ گیا تو بولا۔
“سنو بیٹا۔ مجھے اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ بھروسہ صرف تم پر ہے۔”
“جی مجھ پر۔۔۔۔!”
“ہاں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دراصل تم جیسے بے شمار بچوں کا باپ ہوں، کئی سو بچوں کا باپ۔ سمجھے؟”
“جی میں سمجھا نہیں۔”
“میں دراصل جو ہوں وہ میں ظاہر نہیں کرتا۔ تم شاید سمجھتے ہوگے کہ میں ایک لالچی انسان ہوں جسے خزانہ پانے اور اس مکھی کی آنکھیں حاصل کرنے کی تمنا ہے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔ خزانہ مجھے اپنے لئے نہیں چاہئے، میری کوئی اولاد نہیں ہے جس کے لئے میں اسے حاصل کرنے کی فکر کروں۔ میں یہ چیزیں خدا کے بندوں کی خدمت کے لئے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”
“جی میں سمجھ گیا۔”
“امریکہ میں اندھے بچوں کا ایک اسکول ہے اسے میں ہی چلاتا ہوں، ایک یتیم خانہ اور بیوہ عورتوں کا چھوٹا سا گھر ہے۔ اس کا بار بھی مجھے ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس عجیب وغریب مکھی کی آنکھوں میں ایک تاثیر یہ بھی ہے کہ اگر وہ آنکھیں اندھے لوگوں کی آنکھوں سے ملی جائیں تو ایک ہفتے کے اندر اندر ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ اس کبڑے جادوگر نے جو باتیں بتائی ہیں بالکل ٹھیک ہیں، مگر میں اس کے جادو پر یقین نہیں رکھتا۔ کسی نہ کسی طرح اسے میرے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہو گئی ہیں اور وہی اس نے مجھے سنا دی ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے۔”
“جی ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے۔” میں نے آہستہ سے کہا۔
“اب جو میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ غور سے سنو۔” اس نے ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا:
“عبدل اور جیک دونوں میرے ساتھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اچھے انسان نہیں ہیں مگر مجھے مجبوراً اس کام میں انہیں شامل کرنا پڑا ہے۔ ان دونوں کی مدد کے بغیر میں اتنے لمبے سفر پر روانہ نہیں ہو سکتا تھا۔ تمہیں اب ان لوگوں سے ہوشیار رہ کر ان کی نگرانی کرنا ہوگی۔ ان کے ہر ارادے کی اطلاع مجھے دینی ہوگی۔ سمجھ گئے؟”
“جی ہاں خوب سمجھ گیا۔”
“خزانہ مل جانے کے بعد میں کوشش کروں گا کہ اسے فوراً امریکہ روانہ کر دوں۔ مجھے ان یتیم اور اندھے بچوں کا خیال بہت ستاتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کروں، کیوں کہ انسان صرف پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ دوسروں کے کام آئے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”
“آپ درست فرماتے ہیں۔ آپ بے فکر رہئے، میں آپ کی ہدایتوں پر پوری طرح عمل کروں گا۔ مگر اس وقت میں آپ کے پاس ایک بہت ہی ضروری خبر لے کر آیا ہوں۔”
“خبر۔۔۔؟” جان ایک دم چونک گیا۔
“جی ہاں! اہم خبر۔ اور وہ یہ ہے کہ یہاں خیمے میں آنے سے پہلے میں نے دور جنگل میں ایک پراسرار سایہ دیکھا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں ہو گیا، خدا جانے وہ کون ہے؟”
جان یہ سنتے ہی اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر بے چینی صاف جھلکنے لگی۔ بڑی بے تابی کے ساتھ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
“ہو سکتا ہے کہ وہ وہی منحوس کبڑا ہو۔ فیروز ہمارے کئی دشمن پیدا ہو چکے ہیں اور کئی اور پیدا ہو جائیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارا اعتبار کر لوں۔ تم ایک شریف اور ایمان دار لڑکے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے اس اعتبار کو ٹھیس نہیں پہنچاؤ گے۔”
“میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ آپ ہمیشہ مجھے اپنا وفادار پائیں گے۔” میں نے جواب دیا۔
” اس کے لئے تمہارا شکریہ!” اس نے کچھ دیر خاموش رہ کر سوچنے کے بعد کہا:
“اچھا لو، خزانے کا یہ نقشہ اب تم اپنے پاس رکھو۔ کسی کو بھی یہ خیال نہ ہوگا کہ نقشہ تمہارے پاس ہے اور سچ تو یہ ہے کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ نقشہ صرف تمہارے پاس ہی محفوظ رہے گا۔ میں رات بھر اس کبڑے کا انتظار کروں گا۔ وہ کسی وقت بھی خیمہ کا پردہ اٹھا کر اندر آ سکتا ہے۔”
نقشہ ایک چمڑے کے بٹوے میں بند تھا۔ میں نے یہ بٹوہ اپنی قمیض کے اندر والی جیب میں رکھ لیا۔ اچانک ایک ہیبت ناک آواز باہر سے آتی سنائی دی۔ بڑی پراسرار سنسناہٹ سی تھی، کسی کے بھاری قدموں کی چاپ۔ یہ آواز دھیرے دھیرے قریب آ رہی تھی۔۔۔ قریب۔۔۔ اور قریب! اور میں سوچ رہا تھا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟
ہم دونوں سانس روکے خیمے کے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں بزدل نہیں ہوں، لیکن ایمان کی بات ہے کہ اس وقت میری روح بھی فنا ہورہی تھی۔ احتیاطاً میں نے اپنا ہاتھ اپنے پستول پر رکھا ہوا تھا اور میرا مالک جان سہمی ہوئی نظروں سے دروازے کو دیکھے جا رہا تھا۔ پردے کو ذرا سی حرکت ہوئی۔ ایک سوکھے سے مریل ہاتھ نے پردہ ایک طرف سرکایا اور پھر آواز آئی:
“میں اندر آ رہا ہوں مسٹر جان، اجازت مانگنے کی مجھے ضرورت نہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ دونوں میرے ہی انتظار میں یوں ڈرے اور سہمے کھڑے ہیں۔ ٹھیک ہے نا؟”
اس میں کوئی شک نہیں آواز کبڑے جادوگر کی تھی۔ اپنے ہونٹوں پر وہی بھیانک مسکراہٹ پیدا کئے، عجیب سی خوفناک نظروں سے وہ ہمیں گھور رہا تھا۔