خطا ہوئی ہے نہ کوئی قصور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
چُنا وفا کے لیے تیرے جیسے ظالم کو
میری نگاہ سے کتنا بڑا قصور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
اندھیرے درد کے چھائے ہیں میری دُنیا میں
تُو جا کے غیر کی آنکھوں کا جب سے نُور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
ترس نہ آیا میرے حال پر کبھی تُجھ کو
میرے رقیب پہ تو مہربان ضرور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
میں اِس جنون میں ہی برباد ہو گیا
لیکن وفا کا تُجھ میں نہ پیدا کبھی شعور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
ہمیشہ میں نے تیرے راستے سجائے مگر
ہمیشہ غیر کے گھر میں تیرا ظہور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا
بہت ہیں نازؔ مُجھے جاں سے مارنے کے لیے
اَجل ہوئی تیرے حُسن کا غرور ہوا
نہ جانے کیوں توں قریب آ کے مُجھ سے دور ہوا