(یہ خط تجدید نو میں شائع نہیں ہوسکا)
محترمہ عذرا اصغر صاحبہ، سلام مسنون
”تجدید نو“ کا ”المیہ کراچی نمبر“ موصول ہوا۔ اس موضوع کے حوالے سے میرا خط شائع کرنے کا شکریہ۔ میں نے جولائی کے ”تجدید نو“ میں ایک صاحب کی بدنیتی اور غلط بیانیوں کی نشاندہی کر کے حقیقت واضح کی تھی۔ اس کے جواب میں موصوف اس بار خاصے مغلوب الغضب نظر آ رہے ہیں۔ میں نے پانچ اہم نکات اٹھا کر ان کی تضاد بیانی یا جھوٹ کو ثابت کیا تھا۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی انہوں نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کی بجائے انہوں نے نمبر لگا کر 9 ایسے نتائج میرے خط سے اخذ کئے ہیں جس میں سے ایک بھی میرے خط میں نہیں ہے۔ میرا خط جولائی کے”تجدید نو“ میں چھپا ہوا موجود ہے۔ آخر موصوف کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں؟ موصوف نے حمایت علی شاعر، ڈاکٹر فہیم اعظمی اور احمد صغیر صدیقی کو بھی بلا وجہ گندا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نو کے نو نکات اور ان کا غیر مہذب لہجہ ان کے اندر کے مسئلے کو نمایاں کر رہا ہے۔ میں پہلے بھی ان کے جھوٹ نشان زد کر چکا ہوں۔ اب مذکورہ بالا نو نکات کے علاوہ (جو جھوٹ کا پلندہ ہیں) ان کا ایک اور جھوٹ بھی نشان زد کئے دیتا ہوں۔ موصوف لکھتے ہیں۔
”حیدر قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ جب ماہیا تحریری صورت میں ہی موجود نہیں تھا تو اس کے وزن کا کیسے پتہ چل سکتا ہے“ (ص ۱۲۴ ) یہ بندر کی بلا طویلے کے سر کیوں؟ میرے خط مطبوعہ جولائی 1996ءکے دوسرے نکتے کو دیکھ لیں۔ یہ خود ان کے اپنے الفاظ تھے جو میں نے کاماز میں درج کر کے پھر اس پر اپنا موقف واضح کیا ہے لیکن موصوف کا کمال دیکھ لیں کہ بڑی دلیری سے ”اپنا فرمان“ میرے کھاتے میں ڈال کر حکم صادر کرنے لگے ہیں۔
میں نے ان کی اس غلط بیانی کی نشاندہی کی تھی کہ وہ بے جا طور پر نثار ترابی کی کتاب کو ماہیوں کا اولین مجموعہ قرار دے رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کسی ندامت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
میں نے لکھا تھا کہ موصوف اپریل 1993ءمیں دونوں اوزان کے ماہیے رائج ہونا مان چکے تھے۔ اب صرف تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیوں کو ماہیا قرار دے رہے ہیں۔ موصوف نے اپنے اس تضاد کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اپنے اپریل 1996ءوالے خط میں میں نے لکھا تھا ”مزے کی بات یہ ہے کہ ساحر لدھیانوی کی مثال پہلے پہل اس طبقے کی طرف سے دی گئی تھی جو تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی ماہیے کے نام سے پیش کر رہے تھے تب ہم نے انہیں یہ بتایا تھا کہ یہ مثال ہمارے حق میں جاتی ہے۔“
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کے بعد یا تو موصوف تحقیق کر کے ہماری دلیل کو رد کرتے یا شرافت سے مان لیتے لیکن دیکھیں اس کا جواب ان کے طنزیہ نکات میں کیسے عالمانہ انداز میں دیا گیا ہے۔
”اب یہ تحقیق ضروری ہے کہ ساحر لدھیانوی کو پنجابی زبان و ادب کا بڑا نقاد تسلیم کروایا جائے تاکہ پنجابی زبان اور ادب کے حوالے سے ان کی رائے کو مستند مانا جا سکے۔“ 9 طنزیہ نکات میں جو انہوں نے خود ہی گھڑ کر مجھ سے منسوب کر دیئے، انہوں نے صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ اس کے باوجود ان کی ”عالی ظرفی“ ملاحظہ ہو، کہتے ہیں ”حیدر قریشی صاحب نے قارئین تجدید کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ میں نے ناراضگی کے باعث اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ جہاں تک ناراضگی کا تعلق ہے تو میں ان سے کیوں ناراض ہوں گا۔ ادبی سطح پر اختلاف تو دو دوستوں میں بھی ہوسکتا ہے۔“
ان کے خط کی زبان کتنی علمی اور ادبی ہے یہ تو اب تجدید کے ریکارڈ پر موجود ہے۔
موصوف نے مجھے ایک قیمتی مشورہ بھی دیا ہے ”ان کو اپنی تخلیق کی طرف توجہ دینا ضروری ہے جو ساری پبلک ریلیشننگ کے باوجود زندہ درگور ہونے پر تلی ہوئی ہے۔ افسوس کہ ان کو اپنی غیر معیاری تخلیقات کی اشاعت کے لئے سینکڑوں جرمن مارک صرف کرنا پڑ رہے ہیں۔“
میں ان کا شکر گذار ہوں کہ وہ میری تخلیقات کو زندہ درگور ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اور میرے جرمن مارکوں کے زیاں کا بھی انہیں افسوس ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں صرف اس زیاں کا افسوس ہے کہ میں پاکستانی رسائل ان کے ذریعے منگوایا کرتا تھا لیکن ایک معاملے میں ان کی بدنیتی اور مالی معاملے میں غبن کے بعد میں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ سو میں تو جرمن مارکوں کے زیاں سے بچ گیا ہوں۔ ویسے موصوف خود گواہی دیں گے کہ میں تو پاکستانی رسائل براہ راست منگوانے کی بجائے پاکستانی حساب سے سالانہ چندہ ادا کر کے ان کی معرفت منگاتا تھا۔ کسی ادبی رسالے کا صرف سالانہ چندہ ادا کرنا اگر گناہ ہے تو میں اس کا مجرم ہوں۔ تخلیق ساری زندگی مجھے مفت ملتا رہا ہے۔ کیا اب اس کا پاکستانی حساب سے سالانہ چندہ ادا کرنا جرم ہے؟ جبکہ ابھی بھی بعض رسائل مجھے فری آ رہے ہیں حالانکہ ان پر بھاری ڈاک خرچ بھی ہوتا ہے۔ خود ”تجدید نو“ مجھے فری آ رہا ہے۔ البتہ اب میں اس کا سالانہ چندہ ضرور ادا کروں گا۔
پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے موصوف کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھاتا چلوں۔ میں نے انہیں 1994ءمیں ایک رسالے کے لئے ایک غزل بھیجی ساتھ ہی لکھا کہ اس میں میں نے محاورہ توڑنے کا تجربہ کیا ہے ممکن ہے بعض لوگ اس پر اعتراض کریں۔ تب موصوف نے مجھے بڑی محبت سے لکھا کہ آپ فکر نہ کریں کسی قسم کا بھی اعتراض ہوا تو آپ مجھ سمیت شیخوپورہ کے تمام دوستوں کو جواب دینے کیلئے مستعد پائیں گے۔ 1994ءتک جو صاحب میری حمایت میں یوں کمر بستہ تھے وہ اب مخالفت پر کمر بستہ ہیں تو اس کی وجوہات کا اندازہ اہل نظر ویسے ہی کرلیں گے۔ میرے نزدیک ماہیے کے حوالے سے ان کی ساری مخالفت ذاتی رنجش کی زائیدہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ایسے خطوط کے نتیجہ میں عارف فرہاد جیسے عمدہ شاعر بھی درست وزن کو اپنا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں عارف فرہاد کے ایک خط کا اقتباس دے دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ”یار لوگوں“ کو اندازہ ہو جائے کہ ان کی بے جا مخالفت ماہیے کے لئے دیسی کھاد کا کام دے رہی ہے۔ عارف فرہاد لکھتے ہیں۔
”میں نے اوراق، تجدید نو اور دیگر ادبی پرچوں میں چھپنے والے وہ خطوط بھی پڑھے ہیں جو ماہیے کے حوالے سے تحریر کردہ ہیں اور آپ کے حالیہ خط پر بھی غور کیا ہے۔ واقعی آپ کا موقف درست ہے کہ اصل وزن ہے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
میں سمجھتا ہوں کہ مساوی الاوزان ماہیے کچھ لوگ اس لئے لکھ رہے ہیں کہ انہیں لکھتے وقت کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میری اس سلسلے میں مختلف معاصرین سے بات چیت ہوئی ہے…. آپ کے موقف پر غور کیا جائے تو دل راضی ہو جاتا ہے۔ ایک بات جو بھلی معلوم ہوتی ہے وہ دھن والی ہے۔“
(مکتوب عارف فرہاد بنام حیدر قریشی مورخہ یکم اگست 1996ئ)
اور آخر میں موصوف کے ممدوح تنویر بخاری صاحب کی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“ کا ایک اقتباس۔ ماہیے کی بحث کے حوالے سے موصوف مکتوب نگار کے لئے درج کر رہا ہوں۔ شاید انہیں ذاتی رنجش سے باہر آ کر غوروفکر کا موقع مل جائے۔
”مینوں احساس اے کہ کسے سانجھی گل دا سٹا کڈھنا کسے کلے جنے دا کم نہیں ہوندا، سارے جنے نہیں تاں کوئی پریہہ پنچایت رل کے ایہدا فیصلہ کر سکدی اے۔ کسے اک دی متھی ہوئی گل پردھان نہیں ہوندی“ (ماہیا فن تے بنتر صفحہ 43)
عذرا صاحبہ ! مہربانی کر کے میرا یہ خط فائل میں بھی سنبھال کر رکھیں کیونکہ تجدید میں اس کی اشاعت کے دوران اگر کتابت کی کوئی غلطی رہ جائے تو ”یار لوگوں“ کو کتابت کی غلطی میرے کھاتے میں ڈالنے کا موقع نہ ملے۔
عرفی تو می اندیش زغوغائے رقیباں۔
والسلام نیک تمناﺅں کے ساتھ
حیدر قریشی، جرمنی
18 جنوری 1997ئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭