ان کی تروینیوں کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
رجائیت:
زیب النساء زیبی کی تروینی میں دکھ درد کا بیان ملتا ہے مگر اس کے باوجود ان کے ہاں مستقبل سے مایوسی نہیں ملتی۔
کہتی ہیں:
؎ لرزتے ہونٹوں پر سچ کا اظہار ہو رہا ہے
ضمیر انسان کا دیکھو بیدار ہو رہا ہے
بدل رہا ہے اب آدمی کا نصیب شاید (١٠)
ایک اور جگہ لکھتی ہیں:
؎ ان بادلوں کی اوٹ سے نکلے گا ماہتاب
کچھ دیر انتظار کریں ڈھل رہی ہے شب
پیہم ہے ظلمتوں کے تعاقب میں آفتاب (١١)
عہد کی عکاسی:
زیب النساء زیبی انے عہد کی عکاس بن کر ابھری ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اس عہد کی بہترین عکاسی کی ہے۔ ان کے عہد میں کہیں تو ظلم و بربریت کا میدان سجا ہے تو کہیں بے بسی سی بے بسی ملتی ہے، اور کہیں صاحبِ اقتدار لوگوں کی ناانصافیوں کا بیاں ملتا ہے۔
زیب النساء زیبی اپنی کتاب ”تیرا انتظار ہے “ میں لکھتی ہیں:
ملتا نہیں نشاں کوئی دامان و دست پر
یوں کارِ قتل کارِ ہنر بن گیا ہے اب
ہر خوں کا رنگ مل گیا، مہندی کے رنگ میں (١٢)
ایک اور جگہ پہ فرماتی ہیں:
یہ سادہ لوح انسانوں کی بستی
یہاں پر عصمتیں بے آبرو ہیں
شبوں کی ظلمتیں دیتی ہیں پہرہ (١٣)
درد مندی:
زیبی ایک حساس دل رکھتی ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے المناک مناظر کو دیکھا۔ انہوں نے اپنے عہد کے مسائل کو سمجھا ۔ ان کی شاعری میں انسانوں سے محبت کا نظریہ ملتا ہے
زیب کہتی ہیں:
سبز کھیتوں کو کیوں جلاتے ہو
بھوک تقسیم کر رہے ہو کیوں
تم ہو شاید قضا کے رشتے دار (١٤)
ایک اور جگہ لکھتی ہیں:
لہلہائے کھیت، کھلیانوں میں سونا آ گیا
صاحبِ جاگیر کی دیکھو تجوری بھر گئی
جس نے بویا اور کاٹا، وہ ترستا رہ گیا (١٥)
زیبی نے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے گہرے شعور کے ساتھ اپنے شعری اظہار کو با معنی اور منفرد بناتے ہوئے اپنے زمانے کے کسانوں اور مزدوروں کی ابتری اور استحصال کی تصویر کشی کی ہے۔
وطن سے محبت:
اپنے وطن اور اپنی دھرتی سے محبت بھی زیبی کے دلی جذبوں کی ترجمان ہے۔ زیبی نے اہنی شاعری میں وطن سے محبت کا اظہار بھی جا بجا کیا ہے۔
زیبی اپنی تروینی ”میری دھرتی“ میں لکھتی ہیں:
پنجاب میری ہستی
سندھی بلوچی بھائی
اردو کی میں ہوں بیٹی (١٦)
رومانیت:
زیبی کی شاعری انسانی جذبات و احساسات کی ترجمان ہے۔ انہوںنے اپنی شاعری میں محبت کو بھی جگہ دی۔
یادوں کا ایک دیپ جلا کر
تیری صورت دیکھ رہی ہوں
ہر سُو چھائی ہے تاریکی (١٧)
ایک اور جگہ پہ لکھتی ہیں:
خوف نہ نکلا میرے دل سے
تجھ کو کھونے کا ڈر جاگا
لیکن میں بھی اپنی کب ہوں (١٨)
اسی طرح اپنی کتاب ”تیرا انتظار ہے“ میں ان احساسات کو یوں بیان کیا۔ کہتی ہیں:
بھید وہ میرے کھول رہا ہے
دل کے اندر بول رہا ہے
سن کر اس کو گنگ ہوئی ہوں (١٩)
اسی کتاب میں ایک اور جگہ اہنے جذبات کو یوں بیان کرتی ہیں:
جب جب آپ ملے ہیں ہم کو
تب تب پھول کھلے ہیں لیکن
ہر بار ہوئے ہیں نذرِ خزاں (٢٠)
سُخن وری:
زیب النساء زیبی اردو ادب کا ایک عہد ہے۔ وہ اپنے قلم کو اپنا اثاثہ لکھتی ہیں۔
زیبی کہتی ییں کہ:
پاس نہیں ہے میرے کچھ بھی
صرف سُخن کا سرمایہ ہے
تجھ کو ضرورت کس شے کی ہے (٢١)